Tag: شتر مرغ

  • سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو شتر مرغ نے کاٹ لیا، وائرل ویڈیو

    سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو شتر مرغ نے کاٹ لیا، وائرل ویڈیو

    سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو ایک شتر مرغ نے کاٹ لیا اس منظر کی عکاسی کر کے اہلیہ نے ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی۔

    برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن کے لیے وائلڈ لائف پارک میں فیملی کے ہمراہ تفریح اس وقت یادگار بن گئی جب سفاری کے دوران انہیں ایک بڑے شتر مرغ نے اچانک کاٹ لیا۔

    انسٹا گرام پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن کو وائلڈ لائف پارک کی تفریح کے دوران ایک غیر متوقع صورتحال سے دوچار ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بورس جانسن نے ایک کار میں وائلڈ لائف پارک گھوم رہے ہیں اور سفاری کرتے ہوئے جانوروں کو انتہائی قریب دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہیں۔ اس موقع پر انکا کمسن بیٹا ولفریڈ بھی ساتھ موجود تھا۔

    سفاری کے دوران اچانک ایک شتر مرغ اچانک قریب آتا ہے اور اپنا سر گاڑی کے اندر ڈال کر سابق برطانوی وزیراعظم کے بازو پر کاٹ لیتا ہے۔

    اس غیر متوقع صورتحال پر جہاں بورس جانسن کی چیخ نکل جاتی ہے، وہیں کار میں موجود بچہ اپنے والد کے ساتھ شتر مرغ کا یہ رویہ دیکھ کر محظوظ ہوتے ہوئے قہقہہ لگا دیتا ہے، بعد ازاں جانسن بھی ہنسنے لگتے ہیں۔

     

    اس دلچسپ منظر کو سابق برطانوی وزیراعظم کی اہلیہ کیری جانسننے اپنے ذاتی انسٹاگرام فیڈ پر پوسٹ کیا جس کا عنوان بھی بہت دلچسپ لکھا کہ ’’شیئر کرنا بہت مضحکہ خیز نہیں‘‘ جب کہ اس پوسٹ کےساتھ ایک روتی اور ہنستی ہوئی ایموجی بھی لگائی۔

    جانسن نے پیر کے روز اس کلپ کو اپنے ذاتی انسٹاگرام فیڈ پر پوسٹ کیا جس کے عنوان "شیئر کرنا بہت مضحکہ خیز نہیں” اور ایک روتے ہوئے ہنسنے والا ایموجی تھا۔

  • شتر مرغوں کی ایک ’ٹولی‘ کے فرار کی ویڈیو وائرل

    شتر مرغوں کی ایک ’ٹولی‘ کے فرار کی ویڈیو وائرل

    البرٹا: کینیڈا میں شتر مرغوں کی ایک ’ٹولی‘ کے فرار کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے، ٹولی نے سڑک پر نہ صرف شہریوں کو پریشانی سے دوچار کیا بلکہ پولیس کی بھی دوڑیں لگوا دیں۔

    تفصیلات کے مطابق کینیڈا میں البرٹا کے علاقے ٹیبر میں ایک شخص کے فارم سے 20 کے قریب شتر مرغ فرار ہو گئے، پولیس نے پانچ گھنٹوں کی مشقت کے بعد بھاگتے پھرتے شتر مرغوں کو قابو میں کیا۔

    سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو صارفین نے بے حد پسند کی، ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس کی گاڑی ایک شترمرغ کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔

    ایک موقع پر پولیس اہل کار نے چلتی گاڑی میں شتر مرغ کو گردن سے پکڑنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا، اور پرندہ سڑک پر اس کی گاڑی سے ٹکرا کر گرا، لیکن پھر اٹھ کر بھاگ گیا۔

    پولیس کے مطابق اگرچہ تمام شترمرغ پکڑ لیے گئے تاہم ان میں سے ایک شاہراہ پر تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہو گیا۔

    پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ جب انھیں پہلی کال موصول ہوئی تو انھوں نے اسے جعلی کال سمجھا، تاہم اس کے بعد کئی لوگوں کی کالیں آئیں، جن میں کہا جا رہا تھا کہ بڑی تعداد میں شتر مرغ بھاگتے پھر رہے ہیں، اور ٹریفک میں خلل ڈال رہے ہیں۔

  • ننھی بچی کے شتر مرغ کو گلے لگانے پر سوشل میڈیا صارفین ناراض

    ننھی بچی کے شتر مرغ کو گلے لگانے پر سوشل میڈیا صارفین ناراض

    امریکا میں ایک 3 سالہ بچی کی شتر مرغ کو گلے لگانے کی ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین نے والدین کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

    یہ ویڈیو امریکی ریاست ٹینیسی کے سفاری پارک کی ہے جہاں 3 سالہ بچی اپنے والدین کے ساتھ مختلف جانوروں کو دیکھنے آئی ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گاڑی کا شیشہ کھلا ہوا ہے اور بچی کے ہاتھ میں ایک بڑے سے ڈبے میں کھانے کی چیزیں ہیں۔

    گاڑی کے کھلے شیشے سے ایک شتر مرغ سر ڈال کر کھانے کی چیزیں کھا رہا ہے۔

    اس دوران بچی شتر مرغ کو پکڑنے کی کوشش کرتی ہے اور پھر زبردستی پکڑ کر گلے سے لگا لیتی ہے، شتر مرغ خود کو چھڑانے کی کوشش کرتا ہے اور تھوڑی دیر بعد اپنی گردن چھڑا کر گاڑی سے سر باہر نکال لیتا ہے۔

    ویڈیو میں ماں کے ہنسنے کی آواز بھی ہے جو بچی کی اس حرکت پر ہنس رہی ہے۔

    تاہم سوشل میڈیا صارفین کو یہ ویڈیو پسند نہیں آئی، ٹویٹر صارفین نے والدین کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ ہنسنے کی بات نہیں بلکہ خطرناک بات ہے کہ ایک جانور سے اتنا قریبی رابطہ قائم کیا جائے۔

    ایک صارف نے کہا کہ شتر مرغ کو زبردستی گلے لگانے سے کوئی حادثہ بھی ہوسکتا تھا، وہ خود کو چھڑانے کے لیے زور لگاتا جس سے بچی زخمی بھی ہوسکتی تھی۔

    ایک اور صارف نے کہا کہ شتر مرغ بہت جارح مزاج ہوتے ہیں، شکر ہے اس نے بچی کی آنکھ نہیں پھوڑی۔ ایک اور صارف نے کہا کہ شکر ہے شتر مرغ کی گردن نہیں ٹوٹی۔

    بعض صارفین نے والدین کو غیر ذمہ دار بھی قرار دیا اور کہا کہ اگلی بار جب وہ بچی کو جانور دکھانے کے لیے لائیں تو ان کا خیال رکھنا بھی سکھائیں۔

  • ہیرے والا شتر مرغ

    ہیرے والا شتر مرغ

    "اگر تم پرندوں کی قیمت کی بات کرتے ہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ میں نے ایک ایسا شترمرغ بھی دیکھا ہے جس کی قیمت تین ہزار پاؤنڈ لگائی گئی تھی۔ تین ہزار پاؤنڈ، سمجھے….؟” اس نے مجھے چشمے کے اوپر سے گھورتے ہوئے کہا۔

    اس کا کام پرندوں کی کھال میں بھُس بھر کر اسے بیچنا تھا، اسی لیے وہ پرندوں اور ان کی قیمتوں کے قصّے سنایا کرتا تھا۔

    "تین ہزار پاؤنڈ؟” میں نے حیرت ظاہر کی۔ "کیا وہ شتر مرغ کسی نایاب نسل کا تھا؟”
    "نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ اور باقی چار شتر مرغ جن کا قصّہ سنانے والا ہوں پانچوں عام سے شترمرغ تھے، بلکہ ایک کی کھال کا رنگ بھی مناسب دانہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے اڑ گیا تھا، لیکن ان میں سے ایک شتر مرغ نے ایک نہایت قیمتی ہیرا نگل لیا تھا۔”

    "شتر مرغ نے ہیرا نگل لیا تھا؟”

    "ہاں۔” اس نے ہماری دل چسپی کو دیکھ کر پورا قصّہ سنانا شروع کیا جو یوں تھا: وہ ہیرا ایک ہندو بیوپاری کا تھا۔ اس کا نام موہن تھا۔ موہن ایک موٹا سا آدمی تھا۔ اس کی پگڑی میں وہ ہیرا لگا ہوا تھا۔ شتر مرغ نے اس کی پگڑی پر چونچ ماری اور ہیرا نگل لیا۔ جب موہن کو پتا چلا کہ کیا ہوگیا ہے تو اس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ یہ سب کچھ ذرا سی دیر میں ہو گیا۔ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو سب سے پہلے وہاں پہنچے۔ دراصل ہم لوگ لندن جانے کے لیے ایک بحری جہاز میں سوار ہو رہے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو موہن، دو ملاحوں اور شتر مرغ کے رکھوالے کے درمیان اچھی خاصی گرما گرمی ہو رہی تھی، بلکہ شتر مرغ کا رکھوالا تو ہنستے ہنستے دہرا ہوا جا رہا تھا۔

    یہ پانچوں شتر مرغ لندن جانے کے لیے بحری جہاز پر پہنچائے جا رہے تھے کہ ان میں سے ایک نے پاس کھڑے ہوئے ایک ہندو بیوپاری موہن کی پگڑی میں لگا ہوا ہیرا نگل لیا۔ اس وقت شتر مرغوں کا رکھوالا وہاں موجود نہیں تھا۔ وہ تھوڑی دیر بعد پہنچا۔ اس لیے اسے بھی پتا نہ تھا کہ کون سے شتر مرغ نے ہیرا نگلا ہے۔ بہرحال ہم سب بحری جہاز پر سوار ہو گئے اور جہاز لندن کے لیے روانہ ہو گیا۔ شتر مرغ بھی جہاز پر سوار تھے۔

    بحری جہاز پر اس قسم کی خبریں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد تمام مسافروں کو اس بات کا پتا لگ گیا کہ جہاز پر سوار شتر مرغوں میں سے ایک کے پیٹ میں ایک ہیرا موجود ہے جو اس نے ایک مسافر کی پگڑی سے اچک لیا تھا۔

    ہر شخص اسی کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ موہن اپنے جذبات چھپانے کے لیے اپنے کیبن میں چلا گیا، لیکن رات کے کھانے پر جب سب مسافر جہاز کے کھانے کے کمرے میں جمع ہوئے تو موہن ایک میز پر جہاز کے کپتان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔

    موہن نے کپتان پر زور دیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس کا ہیرا واپس دلوائے۔ اس کا کہنا تھا میں وہ شتر مرغ نہیں خریدوں گا بلکہ مجھے میرا قیمتی ہیرا دلوانا کپتان کا فرض ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر مجھے میرا ہیرا واپس نہ ملا تو میں لندن پہنچ کر پولیس میں شکایت درج کروں گا۔ لہذا بہتر ہے کہ شترمرغوں کو کوئی دوا کھلا کر ہیرا حاصل کیا جائے۔
    اُدھر شتر مرغوں کا رکھوالا بھی ایک ضدی آدمی نکلا۔ اس نے کہا کہ میں شتر مرغوں کو دوا دے کر ہیرا حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں شتر مرغوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ صرف رکھوالا ہوں اور مجھے سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ شتر مرغوں کو صرف فلاں فلاں چیز کھلائی جائے اور انھیں فلاں فلاں طریقے سے رکھا جائے۔ جب کہ موہن کا کہنا تھا کہ چوں کہ شتر مرغوں میں سے ایک نے اس کا ہیرا نگل لیا ہے، اس لیے اب وہ جس طرح چاہے ہیرا نکال سکتا ہے، چاہے ان کا پیٹ کاٹ کر ہی کیوں نہیں نکالا جائے۔

    اس طرح یہ مسئلہ ایک قانونی شکل اختیار کر گیا تھا، لیکن جہاز پر کوئی وکیل موجود نہ تھا، اس لیے ہر مسافر اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ مسافروں میں سے اکثر کا کہنا یہ تھا کہ موہن کو شتر مرغ خرید لینے چاہییں، پھر اس کا جو جی چاہے ان کے ساتھ کرے۔

    جہاز عدن کی بندرگاہ پر رکا اور جب وہاں سے چلا تو رات کے کھانے پر موہن نے مسافروں کی بات مان لی اور پانچ کے پانچ شتر مرغ خریدنے کے لیے تیار ہو گیا، لیکن اگلی صبح ناشتے پر صورتحال پھر بدل گئی، کیوں کہ شتر مرغوں کے رکھوالے نے اعلان کیا کہ وہ ان کا مالک نہیں ہے اس لیے وہ انہیں کیسے بیچ سکتا ہے؟ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مالک سے پوچھے بغیر شتر مرغ بیچنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔

    اس پر ایک مسافر کھڑا ہو گیا۔ اس کا نام پوٹر تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ شتر مرغوں کے رکھوالے کو میں نے بھی اچھی خاصی رقم کی پیشکش کی تھی، لیکن وہ شتر مرغ بیچنے پر تیار نہیں تھا، اس لیے جب جہاز عدن پر ٹھہرا تھا تو میں نے وہاں سے شتر مرغ کے مالک کو لندن میں تار دے کر تمام شتر مرغ خریدنے کی پیشکش کی تھی۔ اس کا جوابی تار مجھے جہاز کی اگلی منزل یعنی سویز پر مل جائے گا۔ یہ سن کر موہن نے پوٹر کو سب کے سامنے برا بھلا کہا۔ اس کی صورت دیکھنے والی تھی، لیکن باقی سب مسافر پوٹر کو ایک ہوشیار آدمی مان گئے۔

    جب جہاز سویز پہنچا تو پوٹر کے تار کا جواب لندن سے آ چکا تھا۔ شتر مرغ کے مالک نے انہیں پوٹر کے ہاتھ فروخت کرنے کی ہامی بھر لی تھی۔ اب پوٹر شتر مرغوں کا مالک بن چکا تھا۔ یہ خبر سن کر موہن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آخر اس نے پوٹر سے کہا میں شتر مرغ تم سے خریدنے کے لیے تیار ہوں۔ تم فی شتر مرغ پانچ سو پاؤنڈ کے حساب سے پانچ شتر مرغوں کے ڈھائی ہزار پاؤنڈ لے لو۔ اس پر پوٹر نے کہا کہ میں نے یہ شتر مرغ بیچنے کے لیے نہیں خریدے۔ میرا ارادہ ان کے پیٹ چاک کر کے ہیرا تلاش کرنے کا ہے۔
    لیکن بعد میں پوٹر کا ارادہ بدل گیا اور اس نے شتر مرغ نیلام کرنے کا اعلان کیا، لیکن اس نے ایک شرط بھی رکھی۔ وہ یہ کہ کسی شخص کے ہاتھ ایک سے زیادہ شتر مرغ فروخت نہیں کیے جائیں گے اور ایک شتر مرغ وہ اپنے لیے رکھے گا تاکہ قسمت آزما سکے۔ کیا پتا ہیرا اسی میں سے نکلے۔

    وہ ہیرا بہت قیمتی تھا۔ ہمارے ساتھ بحری جہاز پر ہیروں کا ایک یہودی تاجر بھی سفر کر رہا تھا۔ جب موہن نے اسے اس ہیرے کے بارے میں بتایا کہ کیسا تھا اور کتنا بڑا تھا تو اس نے اس کی قیمت اندازاً چار سے پانچ ہزار پاؤنڈ بتائی۔ جب جہاز کے مسافروں کو ہیرے کی قیمت کا پتا چلا تو وہ بے چینی سے نیلامی کا انتظار کرنے لگے جو اگلے دن ہونے والی تھی۔

    اب اتفاق کی بات کہ شتر مرغ کے رکھوالے سے مجھے باتوں باتوں میں پتا چلا کہ ایک شتر مرغ بیمار ہے اور اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔ اس شتر مرغ کی دُم کے پروں میں سے ایک پر بالکل سفید تھا جو شاید بیماری کی وجہ سے ہوگیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ وہی شتر مرغ ہے جس کے پیٹ میں ہیرا ہے اور اسی لیے اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔

    اگلے روز جب نیلامی شروع ہوئی تو سب سے پہلے یہی شتر مرغ لایا گیا۔ بولی آٹھ سو پاؤنڈ سے شروع ہوئی۔ موہن نے فورا ساڑھے آٹھ سو کی بولی دی جس کے جواب میں، مَیں نے نو سو پاؤنڈ کی آواز لگائی۔ مجھے یقین تھا کہ ہیرا اسی شتر مرغ کے پیٹ میں ہے اور اتنے زیادہ بھاؤ یعنی نو سو پاؤنڈ سے کوئی آگے نہیں بڑھے گا، لیکن موہن بالکل باؤلا ہو گیا تھا۔ اس نے اندھا دھند بولی بڑھانی شروع کی۔ ہیروں کا یہودی تاجر بھی بڑھ چڑھ کر بولی لگا رہا تھا۔ اس نے بولی ایک ہزار سات سو پاؤنڈ تک پہنچا دی۔ اس موقعے پر پوٹر نے اس کے حق میں بولی ایک دو تین کہہ کر ختم کر دی۔ موہن نے ایک ہزار آٹھ سو کی آواز لگائی، لیکن تب تک پوٹر تین کہہ چکا تھا۔ موہن ہاتھ ملتا رہ گیا۔

    یہودی تاجر نے پوٹر کو شتر مرغ کی قیمت ادا کی اور اسی وقت پستول نکال کر شتر مرغ کو گولی مار دی۔ اس پر پوٹر نے خوب شور مچایا اور کہا کہ اگر شتر مرغ کو اسی وقت کاٹا گیا تو اس سے نیلامی پر برا اثر پڑے گا، کیوں کہ اگر اس میں سے ہیرا نکل آیا تو میرے باقی شترمرغ کوئی نہیں خریدے گا، لیکن ہم سب ہیرا دیکھنے کے لیے اس قدر بے چین تھے کہ سب نے سنی ان سنی کر دی۔ شتر مرغ کو چیرا پھاڑا گیا، لیکن اس میں سے کچھ نہ نکلا۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ میرا نقصان ہوتے ہوتے رہ گیا، کیوں کہ میں خود اس شتر مرغ کی ایک ہزار چار سو پاؤنڈ قیمت لگا چکا تھا۔

    یہودی تاجر نے کسی خاص افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ البتہ پوٹر نے یہ کہہ کر نیلامی بند کر دی کہ جب تک سارے شترمرغ نہیں بک جاتے وہ کسی کو شتر مرغوں کی چیر پھاڑ نہیں کرنے دے گا، لیکن یہودی تاجر کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص ایک چیز خریدتا ہے تو اس کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ جب اور جیسا چاہے سلوک کرے۔ بات بڑھ گئی اور گرما گرمی ہونے لگی تو نیلامی اگلی صبح تک روک دی گئی۔ رات کو کھانے کی میز پر شتر مرغوں کی نیلامی کے بارے میں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کچھ نے تو جہاز کے کپتان سے یہ بھی کہا کہ اس نیلامی کو روک دیا جائے، کیوں کہ اس طرح سے ہیرا بیچنا ایک طرح کا جوا ہے، لیکن پوٹر کا کہنا تھا کہ ہیرا نہیں بیچ رہا۔ میں تو صرف شتر مرغ بیچ رہا ہوں۔

    آخر کپتان نے اعلان کیا کہ جہاز پر شترمرغ کی خرید و فروخت کی اجازت ہے، لیکن شتر مرغوں کے قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب کوئی شخص شتر مرغوں کو نہ تو جہاز پر ہلاک کرے گا اور نہ ان کی چیر پھاڑ کرے گا۔ لندن پہنچنے کے بعد جہاز سے اتر کر مسافروں کا جو جی چاہے شتر مرغوں کے ساتھ کریں۔

    اگلی صبح جب نیلامی شروع ہوئی تو ہر شخص کے ذہن میں یہ بات تھی کہ شتر مرغ پانچ کے بجائے اب چار رہ گئے ہیں، اس لیے کسی ایک شتر مرغ سے ہیرا نکلنے کا امکان اب پہلے سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بولی کل سے بھی زیادہ پر شروع ہوئی۔ میرے پاس پیسے کم تھے اس لیے میں تو پیچھے ہٹ گیا۔ ایک شتر مرغ دو ہزار پاؤنڈ کا بکا۔ ایک کی قیمت دو ہزار تین سو پاؤنڈ لگائی گئی۔ جب کہ تیسرا ڈھائی ہزار پاؤنڈ میں فروخت ہوا، لیکن عجیب بات تھی کہ موہن نے ان میں سے ایک بھی نہیں خریدا، بلکہ جب بولی لگائی جا رہی تھی تو وہ ایک کونے میں بیٹھا لندن پہنچ کر پولیس میں رپورٹ درج کرانے کی باتیں کر رہاتھا اور قانونی نکتے اٹھا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ ساری نیلامی غیرقانونی ہے۔

    فروخت ہونے والے تین شتر مرغوں میں سے ایک اُسی یہودی تاجر نے خریدا۔ ایک شتر مرغ ایک افسر نے خریدا جو جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ تیسرا اس جہاز کے انجینئروں نے آپس میں پیسے جمع کر کے خرید لیا۔

    جب نیلامی ختم ہوئی تو پوٹر اُداس ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے شتر مرغ بیچ کر بے وقوفی کی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے لیے جو شترمرغ رکھا تھا وہ بھی اس نے ایک مسافر کو تین ہزار پاؤنڈ میں رات ہی بیچ دیا تھا، لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس میں بے وقوفی کی کیا بات ہے۔ جو شتر مرغ اس نے زیادہ سے زیادہ آٹھ سو پاؤنڈ میں خریدے ہوں گے وہ اس نے ایک ایک کر کے ساڑھے گیارہ ہزار پاؤنڈ میں بیچ دیے۔

    آخر جہاز لندن کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ سارے مسافر اترنے شروع ہوئے۔ شتر مرغ بھی اتارے گئے۔ شتر مرغ خریدنے والوں نے انہیں وہیں چیرنے پھاڑنے کا ارادہ کیا لیکن بندرگاہ کے افسروں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ موہن پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑتا پھر رہا تھا۔ جن لوگوں نے شتر مرغ خریدے تھے وہ ان سے ان کے نام اور پتے پوچھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ان کے خریدے ہوئے شتر مرغ سے ہیرا نکل آئے تو مجھے خط لکھ کر بتائیں، لیکن کسی نے بھی اسے اپنا نام پتا نہیں دیا۔ موہن نے پوٹر کو بھی برا بھلا کہا لیکن پوٹر نے اپنا سامان اٹھایا اور چل پڑا۔ باقی مسافر بھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ شتر مرغ خریدنے والوں نے انہیں لدوایا اور وہ بھی چل پڑے۔

    یہ کہہ کر وہ چپ ہو گیا اور ایک پرندے کی کھال میں بھُس بھرنے لگا۔ میں نے بے صبری سے کہا، "پھر کیا ہوا؟ ہیرا کون سے شتر مرغ میں تھا؟”

    وہ مسکرایا اور بولا، "میرے خیال سے کسی میں بھی نہیں۔”

    "وہ کیوں؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔

    اس نے بتانا شروع کیا، "یہ بات مجھے کبھی معلوم نہ ہوتی اور میں یہی سمجھتا رہتا کہ موہن کا ہیرا کسی شتر مرغ نے نگل لیا تھا، لیکن اتفاق کی بات ہے کہ لندن پہنچنے کے ایک ہفتے بعد میں لندن کی ریجنٹ اسٹریٹ میں خریداری کر رہا تھا کہ مجھے موہن اور پوٹر نظر آئے۔ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، بہت خوش خوش، مسکراتے ہوئے جا رہے تھے۔ دونوں نے بہت عمدہ اور مہنگے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میں چُپ چاپ انہیں دیکھنے لگا۔ انہوں نے کوئی چیز خریدی۔ موہن نے پیسے دینے کے لیے بٹوا نکالا تو وہ نوٹوں سے ٹھنسا ٹھس بھرا ہوا تھا۔ لگ رہا تھا کہ دونوں کو کہیں سے بہت سا رُپیہ ہاتھ لگا ہے۔”

    میں نے ایک لمبی سانس لے کر کہا، "بہت خوب! تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی شتر مرغ نے کوئی ہیرا نہیں نگلا تھا۔ موہن اور پوٹر دونوں ساتھی تھے اور انہوں نے اس طرح نیلامی کے ذریعے سے ہزاروں پاؤنڈ بٹور لیے۔”

    اس نے مسکرا کر "ہاں” کہا اور سَر جھکا کر پرندوں کی کھال میں بھُس بھرنے لگا۔


    (مصنّف: ایچ جی ویلز​، ترجمہ: رؤف پاریکھ​)

  • ہزاروں سال قبل انسان زمین کے سب سے خطرناک پرندے کے انڈے کھاتا تھا

    ہزاروں سال قبل انسان زمین کے سب سے خطرناک پرندے کے انڈے کھاتا تھا

    نیو گنی: قدیم دور میں انسانوں نے جو سب سے پہلا پرندہ پالا ہوگا، محققین کے مطابق وہ شاید کیسووری (cassowary) ہوگا، جسے خنجر نما پیروں کی وجہ سے دنیا کا خطرناک ترین پرندہ کہا جاتا ہے۔

    کیسووری شتر مرغ کا قریبی رشتہ دار ہے، جو شمالی آسٹریلیا، نیو گنی اور دوسرے قریبی جزیروں پر پایا جاتا ہے، محققین نے اب انکشاف کیا ہے کہ آج سے 18,000 سال پہلے کا قدیم انسان نہ صرف اس دیوقامت پرندے کو مرغیوں کی طرح پالتا تھا بلکہ اس کے انڈے اور گوشت بھی کھایا کرتا تھا۔

    ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے یہ اندازہ کیسووری کے ایک ہزار سے زیادہ قدیم انڈوں کے چھلکوں (فوصل) کا تجزیہ کرنے کے بعد لگایا ہے، جو نیوگنی کے پہاڑی جنگلات سے پچھلے کئی برسوں کے دوران دریافت ہوئے، اور نیوزی لینڈ کے مختلف عجائب گھروں میں رکھے گئے ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ قدیم انسان اس خطرناک پرندے کے انڈے بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی اٹھا لیا کرتے تھے، اور پھر ان سے نکلنے والے بچے خود پالتے تھے، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آج جو انسان مرغیاں پالتا ہے تو اس کا تعلق اس کے ہزاروں سال قدیم ماضی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

    شتر مرغ کی طرح کیسووری کی اونچائی بھی 6 فٹ تک ہوتی ہے، اس کے انڈے سبز رنگ کے ہوتے ہیں جن کی اوسط لمبائی 14 سینٹی میٹر اور چوڑائی 9 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔

    عام حالات میں یہ خاموش اور شرمیلا پرندہ ہے لیکن اگر اسے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہو تو پھر یہ اپنے سخت اور خنجر جیسے پنجوں سے دشمن کی کھال تک ادھیڑ سکتا ہے۔ ماہرین کے لیے یہ بات معما بنی ہوئی ہے کہ قدیم انسان اس خوف ناک پرندے کو کس طرح پالتا ہوگا کیوں کہ آج کے زمانے میں جدید سہولیات کے باوجود بھی اسے قابو کرنا بے حد مشکل ہے۔

    واضح رہے کہ کیسووریز کبھی کبھار انسانوں کو جان سے بھی مار دیتے ہیں، 2019 میں فلوریڈا میں ایک شخص کو اس کے فارم میں کیسووری نے حملہ کر کے مار دیا تھا۔

  • شتر مرغ کی افزائش نسل کو سندھ میں فارمنگ کا درجہ دینے کا نوٹیفکیشن جاری

    شتر مرغ کی افزائش نسل کو سندھ میں فارمنگ کا درجہ دینے کا نوٹیفکیشن جاری

    کراچی: شتر مرغ کی افزائش نسل کو سندھ میں فارمنگ کا درجہ دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، اب سندھ میں شترمرغ فارمنگ کو وہ تمام سہولتیں حاصل ہوں گی جو پولٹری فارمنگ کو حاصل ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق گزشتہ روز صوبائی وزیر لائیو اسٹاک عبدالباری پتافی نے ٹنڈوآدم میں سندھ کے پہلے شترمرغ بریڈنگ فارم کا افتتاح کیا، اس موقع پر سیکریٹری لائیو اسٹاک کی جانب سے شتر مرغ کو فارمنگ کا درجہ دینے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا۔

    صوبائی وزیر لائیو اسٹاک کا کہنا تھا کہ حکومت شتر مرغ فارمنگ کو سندھ میں بھی فروغ دے گی اور اس سلسلے میں حائل تمام قانونی رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔

    صوبائی وزیر لائیو اسٹاک عبدالباری پتافی نے ٹنڈوآدم میں سندھ کے پہلے شترمرغ بریڈنگ فارم کا افتتاح کیا

    دریں اثنا، فارمرز کی جانب سے سندھ حکومت کے اس اقدام کو سراہا گیا، آسٹرچ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر راجہ طاہر لطیف نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے اب سندھ حکومت شترمرغ کے بریڈنگ فارمز کے قیام کی بھی حوصلہ افزائی کرے گی۔

    سندھ کے شہر ٹنڈوآدم میں صوبے کا پہلا شترمرغ بریڈنگ فارم

    ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر دیگر صوبوں کی طرح اس فارمنگ میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے فارمرز کو محدود مدت کے لیے سبسڈی بھی دی جائے، فوری طور پر عوامی سطح پر آگاہی مہم کا بھی آغاز کیا جائے تاکہ عوام کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے حکومت آنے والے بجٹ میں شتر مرغ فارمرز کی سپورٹ کے لیے کوئی مناسب رقم مختص کرے۔

    آسٹرچ ایسوسی ایشن کے مطابق سندھ کی آب و ہوا شتر مرغ کی بریڈنگ کے لیے انتہائی موزوں ہے۔