Tag: شخصی خاکے

  • آغا حشر مرتے مر گئے، شراب نہ پی!

    آغا حشر مرتے مر گئے، شراب نہ پی!

    یہ آغا حشر کاشمیری کا شخصی خاکہ ہے جس میں مصنّف نے ہندوستان میں تھیٹر کے شیکسپیئر کہلانے والے آغا صاحب کے علمی و ادبی شغف اور معمولات کے ساتھ ان کی زندگی کے آخری ایّام کی تکالیف کو بیان کیا ہے۔

    آغا حشر برطانوی دور کے ممتاز ڈرامہ نویس اور شاعر تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں تھیٹر کی مقبولیت کو بام‌ِ عروج پر پہنچایا۔ ان کے شخصی خاکے سے یہ سطور پیشِ خدمت ہیں:‌

    وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ ادنیٰ قسم کے بازاری ناولوں، اخباروں اور رسالوں سے لے کر فلسفہ اور مابعدالطبیعات کی اعلیٰ تصانیف تک سب پر ان کی نظر تھی۔

    بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی۔ کھڑے ہوگئے۔ اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا ہے، بنیے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق میں پڑیاں باندھ کے دی ہیں۔ یکایک آغا صاحب کی نظر پڑ گئی۔ نوکر سے کہہ رہے ہیں کہ پڑیا خالی کر کے لاؤ۔ یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے مجھے اس پر شبلی کا نام لکھا نظر آیا ہے۔

    ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی کتاب پڑھ لیتے تھے تو اسے دوسری مرتبہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ یہ اسی مطالعہ کی برکت تھی کہ ان کی معلومات پر لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔ طب ہو یا فلسفہ، شاعری ہو یا ادب، کسی موضوع میں بند نہیں تھے۔ بازار سے نئی جوتی منگوائی ہے کسی نے پوچھا آغا صاحب کتنے کو مول لی ہے؟ بس آغا صاحب نے جوتی کے فضائل اور محاسن پر تقریر شروع کر دی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد سننے والوں کو یہ احساس ہوتا تھا کہ اس جوتی کو سچ مچ تاریخی حیثیت حاصل ہے۔

    آغا جوانی سے شراب کے عادی اور روز کے پینے والے تھے۔ دن ڈھلتے ہی پینا شروع کر دیتے تھے اور بہت مدت گئے تک یہ محفل جمی رہتی تھی۔ وہ چھپ کے پینے کے قائل نہیں تھے۔ سب کے سامنے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بیچ کھیت پیتے تھے اور بوتلوں کی بوتلیں خالی کر دیتے تھے لیکن موت سے کوئی تین سال پیشتر شراب ترک کر دی۔ یوں دفعتاََ شراب چھوڑ دینے سے ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑا۔ رنگت سنولا گئی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے۔ ہڈیاں نکل آئیں اور ایسا روگ لگا جو آخر ان کی جان لے کر ہی ٹلا۔ ڈاکٹروں نے ہر چند کہا کہ تھوڑی مقدار میں روز پی لیا کریں لیکن انہوں نے نہ مانا۔ مرتے مر گئے، شراب نہ پی۔

    ایک صبح میں ان کے پاس جانے کے لئے کپڑے پہن رہا تھا اتنے میں خبر ملی کہ آغا کا انتقال ہوگیا۔ لوگوں کا خیال تھا جنازہ شہر میں لایا جائے گا۔ اخباروں میں یہ خبر بھی چھپی کہ نیلے گنبد میں نماز جنازہ ہوگی لیکن پھر خدا جانے کیا ہوا کہ یہ ارادہ ترک کر دیا گیا۔ جنازہ کے ساتھ صرف سو سوا سو آدمی تھے۔ انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ہے۔

    (شاعر و ادیب چراغ حسن حسرت کتاب ’مردمِ دیدہ‘ سے اقتباسات)

  • آغا صاحب چومکھی لڑنا جانتے تھے!

    آغا صاحب چومکھی لڑنا جانتے تھے!

    تھیٹر اور ڈرامہ نویسی کو بامِ عروج پر پہنچانے والے آغا حشر کو ہندوستانی شیکسپیئر کا لقب دیا گیا تھا۔ ان کے فن و شخصیت پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور آغا صاحب کے بعض ہم عصر ادیبوں نے ان سے اپنی ملاقاتوں اور گفتگو کا احوال بھی لکھا ہے۔

    مردم دیدہ چراغ حسن حسرت کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے آغا حشر کی شخصیت پر بھی مضمون شامل کیا ہے۔ اس سے ایک اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے:

    یہ جس زمانے کا ذکر ہے، ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھیٹر تھا اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراما آرٹسٹ موجود تھے۔ احسن، بیتاب، طالب، مائل سب کے سب لنکا کے باون گزے تھے لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔ سنہ 1921ء میں جب مجھے پہلی مرتبہ لاہور آنے کا اتفاق ہوا تو یہاں آغا حشر کی شاعری کی دھوم تھی۔ان کی نظموں’ موجِ زمزم‘اور ’شکریہ یورپ‘ کے اکثر اشعار لوگوں کو زبانی یاد تھے اور لوگ انہیں آغا کی طرح مٹھیاں بھینچ کر گونجیلی آواز میں پڑھنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ آغا اپنے عروج شباب کے زمانے میں صرف ایک مرتبہ پنجاب آئے لیکن ان کا یہ آنا عوام و خواص، دونوں کے حق میں قیامت تھا۔ انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں ایسی نظم پڑھی کہ روپے پیسے کا مینہ برس گیا اور جو کام بڑے بڑے عالموں سے نہ ہوسکا، آغا نے کر دکھایا۔

    میں سنہ 1925 میں کلکتہ گیا۔ وہاں ان کے ہزاروں مدّاح موجود تھے۔ ان کی زبانی آغا کی زندگی کے اکثر واقعات، ان کے لطیفے، اشعار اور پھبتیاں سنیں۔ کوئی سال بھر کے بعد میں نے ا ن کے ایک مداح سے کہا کہ آغا صاحب سے کب ملوائے گا۔ وہ کہنے لگے’نیکی اور پوچھ پوچھ۔ ابھی چلو‘۔ ہم بخط مستقیم آغا کے ہاں پہنچے۔صحن سے ملا ہوا ایک وسیع کمرہ تھا۔ اس میں ایک چارپائی اور دو تین کرسیاں پڑی تھیں۔ چارپائی پر آغا صاحب صرف لنگی باندھے اور ایک کرتا پہنے لیٹے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھے۔ سر پر انگریزی فیشن کے بال، داڑھی منڈی ہوئی،چھوٹی چھوٹی مونچھیں، دہرا جسم، سرخ و سپید رنگ، میانہ قد، ایک آنکھ میں نقص تھا۔ محفل میں بیٹھے ہوئے ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ میری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔ بڑے تپاک سے ملے اور ادبی ذکر و اذکار چھڑ گئے۔ آغا صاحب نے اگرچہ ہزاروں کمائے اور لاکھوں اڑائے لیکن ان کی معاشرت ہمیشہ سیدھی سادی رہی۔ مکان میں نہ نفیس قالین تھے نہ، صوفے نہ کوچ نہ ریشمی پردے نہ غالیچے۔ گھر میں ہیں تو لنگی باندھے، ایک بنیان پہنے کھرّی چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ باہر نکلے تو ریشمی لنگی اور لمبا کرتا پہن لیا۔ میں نے پہلی مرتبہ انہیں اسی وضع میں دیکھا۔

    آغا بڑے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخص تھے۔ جس محفل میں جا بیٹھتے، سب پر چھا جاتے۔ جب شام کو صحبت گرم ہوتی، تین تین چار چار آدمی مل کر آغا پر پھبتیوں کا جھاڑ باندھ دیا کرتے تھے، لیکن آغا چومکھی لڑنا جانتے تھے۔ حریف دم بھر میں ہتھیار ڈال دیتا لیکن آغا کی زبان نہ رکتی تھی۔ جس شخص سے بے تکلفی بڑھانا منظور ہوتا اسے اِس بے ساختگی سے گالی دے بیٹھتے تھے کہ بیچارا حیران رہ جاتا تھا۔ لیکن آغا کنجڑے قصابوں جیسی گالیاں تھوڑے ہی دیتے تھے۔ انہوں نے گالی کو شعر و ادب سے ترکیب دے کر خوش نما چیز بنا دیا تھا۔

  • پارو: جب چونی لال نے ایک طوائف کو فلم میں کاسٹ کیا

    پارو: جب چونی لال نے ایک طوائف کو فلم میں کاسٹ کیا

    پارو دیوی کا یہ شخصی خاکہ اور اس سے جڑے واقعات معروف افسانہ نگار اور کہانی نویس سعادت حسن منٹو کے قلم سے نکلے ہیں۔

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب سعادت حسن منٹو ایک فلم کمپنی کے ملازم تھے اور ایک پروپیگنڈہ فلم کا اسکرپٹ لکھنے کا کام انھیں سونپا گیا تھا۔ وہیں انھیں ایک روز پارو نام کی یہ لڑکی نظر آتی ہے جسے اس پروپیگنڈہ فلم کی سائیڈ ہیروئن کے طور پر کام دیا گیا تھا۔ منٹو لکھتے ہیں:

    مکرجی سے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ ایک عورت ٹیسٹ کے لیے آج آنے والی ہے۔‘‘ کیمرہ اور ساؤنڈ ٹیسٹ کیا گیا، جسے ہم نے پردے پر دیکھا اور سنا اور اپنی اپنی رائے دی۔ مجھے، اشوک اور واچا کو وہ بالکل پسند نہ آئی، اس لیے کہ اس کی جسمانی حرکات ’’چوبی‘‘ تھیں۔ اس کے اعضا کی ہر جنبش میں تصنع تھا۔ مسکراہٹ بھی غیر دل کش تھی، لیکن پائی اس پر لٹو ہو گیا۔ چنانچہ اس نے کئی مرتبہ اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی اور مکر جی سے کہا ’’ونڈر فل اسکرین فیس ہے۔‘‘

    "دَتّا رام پائی فلم ایڈیٹر تھا۔ اپنے کام کا ماہر۔ فلمستان چونکہ ایسا ادارہ ہے جہاں ہر شعبے کے آدمی کو اظہارِ رائے کی آزادی تھی، اس لیے دِتا رام پائی وقت بے وقت اپنی رائے سے ہم لوگوں کو مستفید کرتا رہتا تھا اور خاص طور پر میرے تمسخر سے دوچار ہوتا تھا۔ ہم لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا، لیکن ایس مکر جی نے اس عورت کو جس کا نام پارو تھا، پراپیگنڈہ فلم کے ایک رول کے لیے منتخب کر لیا چنانچہ رائے بہادر چونی لال نے فوراً اس سے ایک فلم کا کنٹریکٹ معمولی سی ماہانہ تنخواہ پر کر لیا۔”

    "اب پارو ہر روز اسٹوڈیو آنے لگی۔ بہت ہنس مکھ اور گھلّو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ میرٹھ اس کا وطن تھا جہاں وہ شہر کے قریب قریب ہر رنگین مزاج رئیس کی منظورِ نظر تھی۔ اس کو یہ لوگ میرٹھ کی قینچی کہتے تھے، اس لیے کہ وہ کاٹتی تھی اور بڑا مہین کاٹتی تھی۔ ہزاروں میں کھیلتی تھی۔ پَر اسے فلموں میں آنے کا شوق تھا جو اسے فلمستان لے آیا۔”

    "جب اس سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ حضرت جوشؔ ملیح آبادی اور مسٹر ساغرؔ نظامی بھی اکثر اس کے ہاں آیا جایا کرتے تھے اور اس کا مجرا سنتے تھے۔ اس کی زبان بہت صاف تھی اور جلد بھی، جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔

    صبح اسٹوڈیو آئی۔ نہائی دھوئی، صاف ستھری، اُجلی، سفید یا ہلکے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس، کسی صابن کا اشتہار معلوم ہوئی۔ شام کو جب گھر روانہ ہوتی تو دن گزرنے کے باوجود گرد و غبار کا ایک ذرّہ تک اس پر نظر نہ آتا۔ ویسی ہی تر و تازہ ہوتی جیسی صبح کو ہوتی۔”

    "دتاّ رام پائی اس پر اور زیادہ لٹو ہو گیا۔ شوٹنگ شروع نہیں ہوئی تھی، اس لیے اسے فراغت ہی فراغت تھی۔ چنانچہ اکثر پارو کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول رہتا۔ معلوم نہیں وہ اس کے بھونڈے اور کرخت لہجے اور اس کے اوندھے سیدھے، میلے دانتوں اور اس کے اَن کٹے میل بھرے ناخن کو کیسے برداشت کرتی تھی۔ صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ طوائف اگر برداشت کرنا چاہے تو بہت کچھ برداشت کر سکتی ہے۔”

    "پراپیگنڈہ فلم کی کہانی لکھنے کی دشواریاں وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے کبھی ایسی کہانی لکھی ہو۔ سب سے زیادہ مشکل میرے لیے یہ تھی کہ مجھے پارو کو، اس کی شکل و صورت، اس کے قد اور اس کی فنی کمزوریوں کے پیشِ نظر اس کہانی میں داخل کرنا تھا۔ بہرحال بڑی مغز پاشیوں کے بعد تمام مراحل طے ہو گئے۔ کہانی کی نوک پلک نکل آئی اور شوٹنگ شروع ہو گئی۔ ہم نے باہم مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ جن مناظر میں پارو کا کام ہے وہ سب سے آخر میں فلمائے جائیں تاکہ پارو فلمی فضا سے اور زیادہ مانوس ہو جائے اور اس کے دل و دماغ سے کیمرے کی جھجک نکل جائے۔”

    "کسی منظر کی بھی شوٹنگ ہو، وہ برابر ہمارے درمیان ہوتی۔ دتا رام پائی، اب اس سے اتنا کھل گیا تھا کہ باہم مذاق بھی ہونے لگے تھے۔ پائی کی یہ چھیڑ چھاڑ مجھے بہت بھونڈی معلوم ہوتی۔ میں پارو کی عدم موجودگی میں اس کا تمسخر اڑاتا۔ کم بخت بڑی ڈھٹائی سے کہتا ’’سالے تو کیوں جلتا ہے۔‘‘”

    "جیسا کہ میں اس سے پہلے بیان کر چکا ہوں، پارو بہت ہنس مکھ اور گھلو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ اسٹوڈیو کے ہر کارکن کے لیے وہ اونچ نیچ سے بے پروا بڑے تپاک سے ملتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت تھوڑے عرصے میں مقبول ہو گئی۔ نچلے طبقے نے اسے احتراماً پارو دیوی کہنا شروع کر دیا۔ یہ اتنا عام ہوا کہ فلم کے عنوانات میں پارو کے بجائے پارو دیوی لکھا گیا۔”

    "دتاّ رام پائی نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ کچھ ایسی ٹپس لڑائی کہ ایک دن اس کے گھر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھا۔ پارو سے اپنی خاطر مدارت کرائی اور چلا آیا۔ اس کے بعد اس نے ہفتے میں ایک دو مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ یہاں جا دھمکنا شروع کر دیا۔”

    "پارو اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا مرد رہتا تھا۔ قد و قامت میں اس سے دو گنا۔ میں نے دو تین مرتبہ اسے پارو کے ساتھ دیکھا۔ وہ اس کا پتی دیو کم اور ’’تھامو‘‘ زیادہ معلوم ہوتا تھا۔”

    "پارو میں عام طوائفوں ایسا بھڑکیلا چھچھورا پن نہیں تھا۔ وہ مہذب محفلوں میں بیٹھ کر بڑی شائستگی سے گفتگو کر سکتی تھی۔ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ میرٹھ میں اس کے یہاں آنے جانے والے ایرے غیرے نتھو خیرے نہیں ہوتے تھے۔ ان کا تعلق سوسائٹی کے اس طبقہ سے تھا جو ناشائستگی کی طرف محض تفریح کی خاطر مائل ہوتا ہے۔”

    "پارو اب اسٹوڈیو کی فضا میں بڑی اچھی خاصی طرح گھل مل گئی تھی۔ فلمی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی عورت یا لڑکی نئی ایکٹرس بنتی ہے، تو اس کو کوئی نہ کوئی فوراً دبوچ لیتا ہے۔ جیسے کہ وہ گیند ہے جسے بلے کے ساتھ کسی نے ہٹ لگائی ہے اور فیلڈ میں کھڑے کھلاڑی اس تاک میں ہیں کہ وہ ان کے ہاتھوں میں چلی آئے۔ لیکن پارو کے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ فلمستان دوسرے نگار خانوں کے مقابلے میں بہت حد تک ’’پاکباز‘‘ تھا۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پارو کو کوئی اتنی جلدی نہیں تھی۔”

    "شوٹنگ جاری تھی۔ ویرا فلم کی ہیروئن تھی۔ سائیڈ ہیروئن کا رول پارو نے ادا کرنا تھا۔ اسے برما کے کسی آزاد جنگلی قبیلے کی ایک شوخ وشنگ، تیز و طرار لڑکی کا روپ دھارنا تھا۔ جوں جوں اس کے مناظر فلمائے جانے کا وقت آتا گیا، میرے اندیشے بڑھتے گئے۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ امتحان میں پوری نہیں اُترے گی اور ہم سب کی کوفت کا موجب ہو گی۔”

    "ہم سب نے بڑی کوشش کی کہ اس کا تصنع اور ’’چوبی پن‘‘ کسی نہ کسی طریقے سے دور ہو جائے، مگر ناکام رہے۔ شوٹنگ جاری رہی اور وہ بالکل نہ سدھری۔ اس کو کیمرے اور مائیک کا کوئی خوف نہیں تھا، مگر سیٹ پر وہ حسبِ منشا اداکاری کے جوہر دکھانے سے قاصر تھی۔ اس کی وجہ میرٹھ کے مجروں کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی۔ بہرحال اتنی امید ضرور تھی کہ وہ کسی نہ کسی روز منجھ جائے گی۔”

  • انور کمال پاشا کی منٹو سے ملاقات (دل چسپ واقعہ)

    انور کمال پاشا کی منٹو سے ملاقات (دل چسپ واقعہ)

    اگر کسی اسٹوڈیو میں آپ کو کسی مرد کی بلند آواز سنائی دے، اگر آپ سے کوئی بار بار ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے بڑے اونچے سُروں میں بات کرے، یا کسی محفل میں کوئی اس انداز سے بول رہے ہوں جیسے وہ سانڈے کا تیل بیچ رہے ہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ حکیم احمد شجاع صاحب کے فرزندِ نیک اختر مسٹر انور کمال پاشا ہیں۔

    انور کمال پاشا کی شخصیت منفرد ہے۔ گو انور پاشا کی آنکھوں کا بھیڑیا پن نہیں تو ان میں ایک ہلکی سی چمک ضرور ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ وہ دوسروں پر چھا جانے کی قوت رکھتے ہیں۔ جسمانی قوّت تو خیر ان میں اسی قدر ہوگی جتنی میرے جسمِ ناتواں میں ہے مگر وہ میری طرح دھونس جما کر اس کمی کو پورا کر ہی لیتے ہیں۔ فلمی دنیا میں دراصل بلند بانگ دعوے ہی بااثر ثابت ہوتے ہیں۔ ایک محاورہ ہے ’’پدرم سلطان بود‘‘ لیکن اس کے برعکس انور کمال پاشا ہمیشہ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ میرا باپ سلطان نہیں گڈریا تھا، سلطان تو میں ہوں۔

    اس میں شعبدہ بازی کے جراثیم موجود ہیں۔ جس طرح مداری اپنے منہ سے فٹ بال کی جسامت کے بڑے بڑے گولے نکالتا ہے اسی طرح وہ بھی کوئی اس قسم کا اسٹنٹ کر سکتا ہے۔ لیکن مجھے حیرت ہے اور یہ حیرت اس لیے کہ وہ چالاک نہیں، عیار نہیں، دغا باز نہیں لیکن پھر بھی جب لوگ اس کے منہ سے فٹ بال جتنے گولے باہر نکلتے دیکھتے ہیں تو کچھ عرصے کے لیے اس کی ساحری سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

    ہو سکتا ہے، بعد میں وہ اپنی حماقت پر افسوس کریں کہ یہ تو محض فریبِ نظر تھا، یا گولے نکالنے میں کوئی خاص ترکیب استعمال کی گئی مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ انور کمال پاشا اس دوران میں کوئی اور شعبدہ ایجاد کر لیتا ہے۔ اس وقت اپنا دوسرا فلم بنانے کے لیے سرمایہ داروں سے، بہت ممکن ہے یہ کہہ رہا ہو کہ میں اب کے ایسا فلم بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں جو ہالی ووڈ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس میں کوئی ایکٹر ہو گا نہ ایکٹریس۔ صرف کٹھ پتلیاں ہوں گی جو بولیں گی۔ گانا گائیں گی اور ناچیں گی بھی۔ اور کلائمکس اس کا یہ ہوگا کہ وہ گوشت پوست کی بن جائیں گی۔

    انور کمال پاشا پڑھا لکھا ہے۔ ایم اے ہے۔ انگریزی ادب سے اسے کافی شغف رہا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اپنے فلموں کی کہانی اسی سے مستعار لیتا ہے اور حسبِ ضرورت یا حسبِ لیاقت اردو زبان میں ڈھال دیتا ہے۔ اس کے فلموں کے کردار ہمیشہ ڈرامائی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ خود ڈرامائی انداز میں گفتگو کرنے کا عادی ہے۔ اس کی وجہ ایک اور بھی ہے کہ اس کے والد محترم جناب حکیم احمد شجاع صاحب کسی زمانے میں اچھے خاصے ڈرامہ نگار تھے۔ ان کا لکھا ہوا ڈرامہ’’باپ کا گناہ‘‘ بہت مشہور ہے۔

    انور کمال پاشا بہرحال بڑی دل چسپ شخصیت کا مالک ہے۔ وہ اتنا بولتا، اتنا بولتا ہے کہ اس کے مقابلے میں اور کوئی نہیں بول سکتا۔ اصل میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ اپنی آواز خود سننا چاہتا ہے اور دل ہی دل میں داد دیتا ہے کہ انور کمال پاشا تُو نے آج کمال کر دیا۔ تیرے مقابلے میں اور کوئی اتنا زبردست مقرر نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ نفسیات کے متعلق کچھ جانتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بعض انسانوں کو یہ مرض ہوتا ہے کہ وہ ریکارڈ بن جائیں اور اسے گرامو فون کی سوئی تلے رکھ کر ہر وقت سنتے رہیں۔ انور کمال پاشا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

    اس کے پاس اپنی گفتگوؤں کے کئی ریکارڈ ہیں جو اپنی زبان کی سوئی کے نیچے رکھ کر بجانا شروع کر دیتا ہے اور جب سارے ریکارڈ بج چکتے ہیں تو وہ ریڈیو کے فرمائشی پروگرام سننے والے بچوں کے مانند خوش ہو کر محفل سے چلا جاتا ہے۔

    اس نے اب تک مندرجہ ذیل فلم بنائے ہیں جن میں سے کچھ کامیاب رہے اور کچھ ناکام۔

    ’دو آنسو‘، ’دلبر‘، ’غلام‘، ’گھبرو‘، ’گمنام‘۔ اگر آپ نے یہ فلم دیکھے ہیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ان میں کتنے فلموں میں دریا آتا ہے جس میں کہانیوں کے کردار گرے ہیں لیکن وہ موت کا قائل نہیں۔ وہ ان کو دریا میں گراتا ضرور ہے مگر بعد میں بتاتا ہے کہ وہ ڈوبا نہیں تھا یعنی مر نہیں گیا تھا، کسی نہ کسی ذریعے سے ( انور کمال پاشا کے اپنے دماغ کی عجیب و غریب تخلیق ہوتا ہے) زندہ رہا تھا۔

    معلوم نہیں، میں کہاں تک صحیح ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انور کمال پاشا کی زندگی بھی شاید ڈوب ڈوب کر زندہ رہنے سے دوچار رہی ہے۔

    اس نے اپنی زندگی میں کئی ندیاں پار کی ہیں۔ ایک تو وہ تھی جو سہرے جلوے کی بیاہی ہوئی تھی۔ اس کو پار کرنے میں تو خیر اس کو کوئی دقّت محسوس نہ ہوئی ہوگی مگر جب اس کے سامنے وہ ندی جس کا نام شمیم تھا، بمبئی سے بہتی ہوئی لاہور آئی تو اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ماہر تیراک کے مانند اسے بھی پار کر گیا۔ اس کو بہت دیر سے فلم بینی کا شوق تھا۔ بعد میں یہ شوق اس دھن میں تبدیل ہوگیا کہ وہ ایک فلم بنائے۔ جب شمیم سے اس کی راہ و رسم ہوئی تو اس نے اس سے فائدہ اٹھایا اور لاؤڈ اسپیکر بن کر ہر طرف گونجنے لگا کہ ’’آؤ میں فلم بنانا چاہتا ہوں۔ ہے کوئی سخی ایسا جو مجھے سرمایہ دے۔‘‘

    اس کی مسلسل صدا پر آخر کار اسے سرمایہ مل گیا۔ شمیم بمبئی میں ایک ایسی ندی تھی جس کا پانی بہت صاف ستھرا تھا۔ اس میں کئی غواص تیر چکے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ پانی پتھر کی طرح ٹھہر گیا اس لیے کہ تیراکوں کے لیے وہ دل چسپی کا سامان نہ رہی۔ یہی وجہ ہے اسے اپنے وطن لاہور میں واپس آنا پڑا۔ خیر اس قصے کو چھوڑیے۔ یہ کوئی اصول اور لگا بندھا قاعدہ تو نہیں لیکن عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ فلم ڈائریکٹر، عورت کے ذریعے ہی سے آگے بڑھتے ہیں اور پیچھے بھی اس کی وجہ سے ہٹتے ہیں اور ایسے ہٹتے ہیں یا ہٹائے جاتے ہیں کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔

    پاشا نے تھوڑی دیر کے بعد شمیم سے شادی کر لی جو اپنا تنگ ماتھا، چوڑا کرنے کے لیے قریب قریب ہر روز اپنے بال موچنے سے نوچتی رہتی تھی۔ پاشا نے اس کی خوشنودی کی خاطر ضرور مصنوعی طور پر اپنے سارے پر و بال نوچ کے اس کے سامنے پلیٹ میں ڈال کر رکھ دیے ہوں گے۔ میں اب لمبے مضمون کو مختصر کرنا چاہتا ہوں اس لیے کہ میں انور کمال پاشا کی طرح طوالت پسند ہونا نہیں چاہتا۔ وہ بہت دل چسپ شخصیت کا مالک ہے اور اس شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ ہٹ دھرم بھی ہے اور تلون مزاج بھی، بکواسی بھی اور بعض اوقات سنجیدہ مزاج بھی۔

    میں آپ کو اختتامی طور پر ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میں آج سے کچھ عرصہ پہلے شاہ نور اسٹوڈیو میں تھا، جہاں انور کمال پاشا اپنے فلم ’’گمنام‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھا۔ سردیوں کا موسم تھا، میں اپنے کمرے کے باہر کرسی پر بیٹھا ٹائپ رائٹر میزپر رکھے کچھ سوچ رہا تھا کہ پاشا اپنی کار سے اترا اور میرے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ علیک سلیک ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے مجھ سے کہا:

    ’’منٹو صاحب! میں ایک سخت الجھن میں گرفتار ہوں۔‘‘

    میں نے اپنے خیالات جھٹک کر پوچھا، ’’کیا الجھن ہے آپ کو؟‘‘

    اس نے کہا، ’’یہ فلم جو میں بنا رہا ہوں، اس میں ایک مقام پر اٹک گیا ہوں، آپ کی رائے لینا چاہتا ہوں، ممکن ہے آپ مشکل کشائی کرسکیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’میں حاضر ہوں فرمائیے! آپ کہاں اٹکے ہوئے ہیں؟‘‘ اس نے مجھے اپنے فلم کی کہانی سنانا شروع کردی۔ دو سین تفصیل سے اس انداز میں سنائے جیسے پولیس جیپ میں بیٹھی لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے راہ چلتے لوگوں کو ہدایت کررہی ہے کہ انہیں بائیں ہاتھ چلنا چاہیے۔ میں اپنی زندگی میں ہمیشہ الٹے ہاتھ چلا ہوں اس لیے میں نے پاشا سے کہا، ’’آپ کو ساری کہانی سنانے کی ضرورت نہیں۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کس گڑھے میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘ پاشا نے حیرت آمیز لہجے میں مجھ سے پوچھا،’’آپ کیسے سمجھ گئے؟‘‘ میں نے اس کوسمجھا دیا اور اس کی مشکل کا حل بھی بتا دیا۔ جب اس نے میری تجویز سنی تو اٹھ کر ادھر ادھر ٹہلنا شروع کر دیا اور اس کے بعد کہا،’’ہاں کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    میں ذرا چڑ سا گیا، ’’حضرت! اس سے بہتر حل آپ کو اور کوئی پیش نہیں کر سکتا۔ مصیبت یہ ہے کہ میں فوری طور پر سوچنے کا عادی ہوں۔ اگر میں نے یہی حل آپ کو دس بارہ روز کے بعد پیش کیا ہوتا تو آپ نے کہا ہوتا سبحان اللہ۔ مگر اب کہ میں نے چند منٹوں میں آپ کی مشکل حل کر دی ہے تو آپ کہتے ہیں ہاں کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو شاید اس مشورے کی قیمت معلوم نہیں۔‘‘ پاشا نے فوراً اپنے پروڈکشن منیجر کو بلایا۔ اس سے چیک بک لی اور اس پر کچھ لکھا۔ چیک پھاڑ کر بڑے خلوص سے مجھے دیا، ’’آپ یہ قبول فرمائیں۔‘‘ اس کے اصرار پر میں نے یہ چیک لے لیا جو پانچ سو روپے کا تھا۔ یہ میری زیادتی تھی۔ اگر میں آسودہ حال ہوتا تو یقیناً میں نے یہ چیک پھاڑ دیا ہوتا لیکن انسان بھی کتنا ذلیل ہے یا اس کے حالات زندگی کتنے افسوس ناک ہیں کہ وہ گراوٹ پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔!

    (فلم انڈسٹری کے بے مثل ہدایت کار، اور فلم ساز انور کمال پاشا کے شخصی خاکے سے اقتباسات جس کے مصنّف سعادت حسن منٹو ہیں اور یہ خاکہ مصنّف کی 1955ء میں شائع ہونے والی کتاب میں شامل ہے)

  • نیازی خانم

    نیازی خانم

    اردو زبان بالخصوص دلّی کے لوگوں کا لب و لہجہ اور روزمرّہ کا لطف ہی اور ہے۔ عرصے تک دہلی اور لکھنؤ نے اُردو کو بڑا سنوارا نکھارا۔ لہٰذا ان شہروں کی زبان ٹکسالی کہلاتی تھی۔ یہاں کے باشندوں کا لہجہ اور روزمرّہ سند کا درجہ رکھتا تھا۔ اسی شہر کے تھے اشرف صبوحی جن کے قلم سے کوئی تحریر نکلی ہو تو اس کا کیا ہی کہنا۔

    اشرف صبوحی نے ایک ادیب، مترجم اور صحافی کے طور پر خوب نام و مقام بنایا۔ انھوں نے مشہور و معروف شخصیات کے خاکے، اپنے دور کے واقعات، اور گلی محلّے کے بعض‌ عام لوگوں‌ کی زندگی اور اُن کے طور طریقوں کو نہایت پُرلطف انداز میں اردو میں‌ اس قرینے سے لکھا ہے جس کی مثال آج شاذ ہی دی جاسکتی ہے۔

    یہ ایک ایسی ہی عام عورت کا کردار ہے جو دلّی کے ایک گھرانے کی فرد تھیں۔ نام ان کا مصنّف نے نیازی خانم بتایا ہے اور ان کے بچپن کی شوخیوں اور شرارتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ملاحظہ کجیے۔

    "اللہ بخشے نیازی خانم کو عجیب چہچہاتی طبیعت پائی تھی۔ بچپن سے جوانی آئی، جوانی سے ادھیڑ ہوئیں۔ مجال ہے جو مزاج بدلا ہو۔ جب تک کنواری رہیں، گھروالوں میں ہنستی کلی تھیں۔ بیاہی گئیں تو کِھلا ہوا پھول بن کر میاں کے ساتھ وہ چُہلیں کیں کہ جو سنتا پھڑک اٹھتا۔ کیا مقدور ان کے ہوتے کوئی منہ تو بسورے۔”

    "پھر خالی ہنسوڑ ہی نہیں۔ اللہ نے عقل کا جوہر بھی دیا تھا۔ ذہن اتنا برّاق کہ جہاں بیٹھیں ہنسی ہنسی میں سگھڑاپے سکھا دیں۔ گدگداتے گدگداتے بیسویں ٹیڑھے مزاجوں کو سیدھا کر دیا۔ غرض کہ جب تک جییں جینے کی طرح جییں۔ کسی کو اپنے برتاؤ سے شکایت کا موقع نہیں دیا۔ قاعدہ ہے کہ جہاں دو برتن ہوتے ہیں ضرور کھڑکا کرتے ہیں۔ لیکن قہقہوں کے سوا ان کے اندر کبھی کوئی دوسری آواز نہیں سنی۔ مرتے مر گئیں نہ یہ کسی سے بھڑیں، نہ ان سے کسی نے دو بدو کی۔ جیسی بچپن میں تھیں، ویسی ہی آخری دم تک رہیں۔”

    "وہ جو کسی نے کہا ہے کہ پوت کے پانو پالنے میں نظر آجاتے ہیں۔ نیازی خانم ماں کی گود سے اتر کر گھٹنیوں چلنے میں ایسی شوخیاں اور ایسے تماشے کرتیں کہ دیکھنے والے حیران ہوتے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد تو کہنا ہی کیا تھا۔ پوری پکّی پیسی تھیں۔ جو ان کی باتیں سنتا دنگ رہ جاتا۔”

    "اگلے وقت تو نہ تھے لیکن اگلے وقتوں کے لگ بھگ مغلیہ خاندان کا آخری چراغ ٹمٹما رہا تھا کہ دلّی کے ایک شریف پڑھے لکھے، قال اللہ قال رسول کرنے والے خاندان میں نیازی خانم پیدا ہوئیں۔ نیازی خانم کی دو بہنیں اور تھیں۔ کوئی دو دو سال کے فرق سے بڑی، اور ایک چھوٹا بھائی۔”

    "نیازی خانم کو گڑیوں کا بڑا شوق تھا۔ عجب عجب نام رکھے جاتے، ان کا بیاہ ہوتا تو مزے مزے کے رقعے لکھواتیں۔ مبارک بادیں، سہرے، اس کے بعد گڑیوں کے بچّے ہوتے تو زچہ گیریاں بناتیں۔ خود گاتیں اور ڈومنیوں سے گواتیں اور ان میں ایسی ایسی پھلجھڑیاں چھوڑتیں کہ گھروالے ہنسی کے مارے لوٹ لوٹ جاتے۔”

    "ہمیں مرحومہ کی پوری سوانح عمری تو لکھنی نہیں کہ مہد سے لحد تک کے حالات بیان کریں اور نہ ہمارے پاس ان کی زندگی کا روزنامچہ ہے۔ ہاں چند واقعات سنے ہیں۔ آپ بھی سن لیں۔ زندہ دلی کے ایسے نمونے دنیا میں روز روز نظر نہیں آتے۔ ہونے کو ممکن ہے کہ نیازی خانم سے بڑھ چڑھ کر بھی عورتیں گزری ہوں گی، لیکن خدا جس کا نام نکال دے۔”

    "ایک دن کا ذکر ہے، موری دروازے چالیسویں میں جانا تھا۔ بچوں کو ایسی تقریب میں یوں بھی کوئی نہیں لے جاتا، پھر یہ تو بلا کی شریر تھیں۔ اس کے علاوہ ان دنوں جانے آنے کی بھی آسانی نہ تھی۔ امیروں کے ہاں اپنی سواریاں ہوتیں، پالکیاں نالکیاں، بہلیاں، رتھیں۔ حسبِ مقدور غریب مانگے تانگے سے کام چلاتے۔ ڈولیوں میں لدتے یا بار کش کرایے پر کرتے۔ اِکّے تھے مگر وہ اچکی سواری سمجھی جاتی۔ بیل گاڑیوں میں دیر بہت لگتی۔ ڈولیوں میں اکٹھے باتیں کرتے ہوئے جانے کا لُطف کہاں؟ شہر میں دو چار سیج گاڑیاں آگئی تھیں، تو ان کا کرایہ زیادہ تھا۔ دلّی دروازے سے موری دروازے کا فاصلہ خاصا۔ صلاحیں ہوئیں کہ کیوں کر چلنا چاہیے۔ کسی نے کہا بار کش کر لو، کوئی بولی شکرم میں کبھی نہیں بیٹھے۔ دس پانچ آنے زیادہ جائیں گے۔ بلا سے سیر تو ہوجائے گی۔ سنا ہے دو گھوڑے جتتے ہیں۔ گھر کا گھر ہوتی ہے۔ جھلملیوں میں سے راستے کا خوب تماشا دکھائی دیتا ہے۔ اندر بیٹھنے والے سب کو دیکھیں اور باہر کا کوئی نہ دیکھے۔”

    "آخر شکرم ہی کی ٹھہری اور بھائی صاحب جا کر سائی بھی دے آئے۔ اب سوال نیازی کی خانم کے لے جانے کا تھا۔ یہ نہ بچہ نہ بوڑھی اور ان کی بے چین فطرت سے سب واقف۔ ڈر تھا کہ ان کی بولیوں ٹھٹھولیوں کا کیا بندوبست۔ اگر یہ ساتھ چلیں تو روتوں کو ہنسائیں گی۔ اور کہیں بیچ بازار میں سیر کا شوق چرّایا۔ جھلملیاں اتار دیں تو کیا ہوگا۔ ان کی زبان میں تو بواسیر ہے۔ قہقہے لگانے شروع کر دیے، یا زور زور سے باتیں ہی کرنے لگیں تو کیسی بدنامی ہوگی۔ راہ گیر سمجھیں گے کہ نگوڑیاں کوئی بڑی اچھال چھکّا ہیں۔ نیازی خانم نے جو گھر والوں کو کانا پھوسی کرتے دیکھا تو وہ اڑتی چڑیا کے پَر گننے والی، فوراً سمجھ گئیں کہ ہو نہ ہو کہ کوئی بات ضرور مجھ سے چھپانے کی ہے۔ ٹوہ لینے کے لیے اِدھر ادھر ٹہلتے ٹہلاتے در سے لگ کر اس طرح کھڑی ہوگئیں، گویا کچھ خبر ہی نہیں۔”

    "رات کا وقت تھا۔ ٹمٹماتے ہوئے کڑوے تیل کے چراغ کی روشنی پر چھائیں پڑتی ہوئی بڑی بہن کی بھی نظر پڑگئی۔ ایک نے دوسری سے ٹہوک کر کہا ‘‘فتنی کو دیکھا کیسی چھپ کر ہماری باتیں سُن رہی ہے۔ آؤ زرگری میں باتیں کریں۔’’ زرگری فرفری اور اسی طرح کی کئی بولیاں قلعے والوں کی ایجاد شہر کے اکثر گھرانوں میں بھی آپہنچی تھیں۔ ان بولیوں کا شریفوں کی لڑکیوں میں بہت رواج تھا۔ انجانوں سے بات چھپانے کی خاصی ترکیب تھی۔ چنانچہ ایک بہن بولی ‘‘کریوں ازا پزا ازس سزے لزے چزل لزیں یزا نزئیں۔’’ (کیوں آپا اسے لے چلیں یا نہیں؟) دوسری نے جواب دیا ‘‘ازب ازس کزو یہنز رزے نزے دزو۔’’ (اب اس کو یہیں رہنے دو) اس کے بعد دیر تک ہنسی ہوتی رہی اور زرگری میں باتیں کرتیں۔ کبھی فرفری میں۔”

    "نیازی خانم کو یہ بولیاں نہیں آتی تھیں۔ جو کچھ بہنوں نے کہا وہ تو سمجھ میں کیا آتا تاہم ان کے مطلب کو پہنچ جاتیں۔ ان کی آنکھوں میں دھول ہی نہ ڈالی تو نام نیازی خانم نہیں۔ انھوں نے بھی ترکیب سوچ لی اور چپکے سے اپنے بھچونے پر آکر سوگئیں۔ صبح ہی ضروریات سے فارغ ہو کر سب نے کپڑے بدلنے شروع کیے۔ نیازی خانم غائب۔

    والدہ: اے بھئی نیازی کہاں ہے۔ بی امتیازی تم بڑی کٹر ہو۔ وہ بھی چلی چلے گی تو کیا ہوگا؟

    امتیازی: (بڑی بیٹی) اماں بی وہ بڑی شریر ہے۔ راستہ بھر ادھم مچاتی چلے گی۔

    والدہ: سیج گاڑی وہ بھی دیکھ لیتی، بچّے ادھم مچایا ہی کرتے ہیں۔

    بنیادی: (دوسری بیٹی) لے چلیے آپ ہی کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔

    امتیازی: تو اسی کو لے جاؤ چلو میں نہیں جاتی۔

    والدہ: بوا بگڑتی کیوں ہو۔ جیسا تمھارا جی چاہے کرو۔ مگر وہ ہے کدھر؟

    ماما: چھوٹی بیوی کو پوچھتی ہو؟ وہ تو سویرے اٹھتے ہی بی ہمسائی کے ہاں چلی گئیں۔ کل شام کو کوئی کہہ رہا تھاکہ نوری کے ابا بمبئی سے ولایتی گڑیا لائے ہیں۔

    بنیادی: یہ بھی اچھا ہوا۔ کھیل میں لگی ہوئی ہے تو لگی رہنے دو۔ اتنے میں گاڑی آگئی تھی۔ گاڑی والا غُل مچا رہا تھا کہ جلدی چلو۔

    امتیازی: اب دیر نہ کرو۔ گاڑی والے کی آواز اس کے کانوں میں پڑ گئی اور وہ آپہنچی تو پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔ ”

    "سوار ہونے میں دیر کیا تھی۔ پردہ رکوا جھپاک جھپاک سب گاڑی میں جا بیٹھے۔ گاڑی بان دروازہ بند کر کے کوچ بکس پر چڑھ ہی رہا تھا کہ نیازی خانم ڈیوڑھی میں سے نکل گاڑی کے پائے دان پر جھلملیاں اٹھا اندر جھانکتے ہوئے بولی ‘‘چھوٹی آپا، تا، بڑی آپا سلام۔ اب زرگری نہیں بولتیں۔ کہو ‘لزے چزل تزی ہزو یزا نزاہزیں’۔ (لے چلتی ہو یا نہیں)

    والدہ: ہے تو بڑی فِتنی۔

    نیازی: نہیں اماں بی میں تو چھوٹی ہوں۔

    بڑی بہن: خدا ہی سمجھے۔

    دوسری بہن: (ہنس کر) اور تم چھپی ہوئی کہاں تھیں۔

    بڑی بہن: کپڑے بھی بدل رکھے ہیں۔

    نیازی: اور کیا۔ اے بھئی گاڑی بان دروازہ تو کھول۔

    گاڑی بان: کیا بیوی تم رہ گئی تھیں؟

    نیازی: دروازہ کھولتا ہے یا باتیں بناتا ہے۔

    سب ہنسنے لگے، دروازہ کھلا۔ نیازی خانم بڑے ٹھسے سے بیٹھیں اور سارے رستے بہنوں کا ستا مارا۔”

  • تھینکس ٹو نیاز بابا…

    تھینکس ٹو نیاز بابا…

    بھارتی فلموں کے مکالمہ نویس اور کہانی کار جاوید صدیقی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ستیہ جیت رے کی شہرۂ آفاق فلم شطرنج کے کھلاڑی سے بطور مکالمہ نویس کیا تھا۔ یہ بات ہے 1977 کی۔

    فلم ‘دل والے دلہنیا لے جائیں گے’ کو شاید ہم سرحد پار کی فلم انڈسٹری کی، پڑوسی وڑوسی ملک کی کہانی کہہ کر ہم آسانی سے آگے نہیں‌ بڑھ سکیں‌ گے۔ محبّت کے جنون اور جذبے پر یہ فلم جاوید صدیقی کے قلم ہی سے نکلی تھی۔ اس کے علاوہ امراؤ جان، بازی گر، ڈر، غدار، ہم دونوں، چاہت، بازو، دِل کیا کرے، تال، زبیدہ، ہم کسی سے کم نہیں، کوئی مِل گیا جیسی معروف فلمیں بھی جاوید صدیقی کے کریڈٹ پر آئیں۔

    جاوید صدیقی محض 17 سال کی عمر میں‌ ممبئی چلے گئے تھے جہاں فلم نگری میں اپنی قسمت آزمائی۔ جاوید صدیقی زندگی کی اسّی سے زائد بہاریں‌ دیکھ چکے ہیں۔ جاوید صدیقی فلمی دنیا سے قبل اردو صحافت سے وابستہ رہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے اس سینئر قلم کار اور مصنّف نے کئی شخصیات کے خاکے بھی تحریر کیے جن پر مشتمل کتاب "روشن دان” کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں انھوں نے اعتراف کیا کہ نوّے فلمیں لکھنے کے باوجود ان کے اندر کہیں نہ ادب کے تئیں تشنگی باقی تھی اور ایک تخلیقی کسک موجود تھی جس نے یہ کتاب لکھنے کے لیے انہیں مہمیز کیا۔

    جاوید صدیقی کی اس کتاب سے ہم ایک دل چسپ قصّہ یہاں نقل کررہے ہیں۔ یہ قصّہ جاوید صدیقی نے اک بنجارہ کے نام سے نیاز حیدر کا خاکہ قلم بند کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ انہی کی زبانی سنیے:

    بابا کا ایک مزے دار قصہ ہری بھائی (سنجیو کمار) نے مجھے سنایا تھا۔ جب تک وشوا متر عادل بمبئی میں رہے ہر سال اپٹا کی ’’دعوت شیراز‘‘ ان کے گھر پر ہوتی رہی۔ ہر نیا اور پرانا اپٹا والا اپنا کھانا اور اپنی شراب لے کر آتا تھا اور اس محفل میں شریک ہوتا تھا۔ ساری شراب اور سارے کھانے ایک بڑی سی میز پر چن دیے جاتے، جس کا جو جی چاہتا کھا لیتا اور جو پسند آتا وہ پی لیتا۔ یہ ایک عجیب و غریب محفل ہوتی تھی جس میں گانا بجانا ناچنا، لطیفے، ڈرامے سبھی کچھ ہوتا تھا۔ اور بہت کم ایسے اپٹا والے تھے جو اس میں شریک نہ ہوتے ہوں۔ ایسی ہی ایک ’’دعوتِ شیراز‘‘ میں ہری بھائی نیاز بابا سے ٹکرا گئے۔ اور جب پارٹی ختم ہوئی تو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ ہری بھائی دیر سے سوتے تھے اور دیر سے جاگتے تھے، اس لیے وہاں بھی صبح تک محفل جمی رہی۔ پتہ نہیں کس وقت ہری بھائی اٹھ کے سونے کے لیے چلے گئے اور بابا وہیں قالین پہ دراز ہو گئے۔

    دوسرے دن دوپہر میں ہری بھائی سو کر اٹھے اور حسبِ معمول تیّار ہونے کے لیے اپنے باتھ روم میں گئے۔ مگر جب انھوں نے پہننے کے لیے اپنے کپڑے اٹھانے چاہے تو حیران ہو گئے، کیوں کہ وہاں بابا کا میلا کرتا پاجامہ رکھا ہوا تھا اور ہری بھائی کا سلک کا کرتا اور لنگی غائب تھے۔

    ہری بھائی نے نوکر سے پوچھا تو تصدیق ہو گئی کہ وہ مہمان جو رات کو آئے تھے صبح سویرے نہا دھوکر سلک کا لنگی کرتا پہن کے رخصت ہو چکے ہیں۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔

    اس کہانی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کچھ دو مہینے بعد ایک دن اچانک نیاز بابا ہری بھائی کے گھر جا دھمکے اور چھوٹتے ہی پوچھا: ’’ارے یار ہری! پچھلی دفعہ جب ہم آئے تھے تو اپنا ایک جوڑ کپڑا چھوڑ گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘

    ہری بھائی نے کہا: ’’آپ کے کپڑے تو میں نے دھلوا کے رکھ لیے ہیں مگر آپ جو میرا لنگی کرتا پہن کے چلے گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘ بابا نے بڑی معصومیت سے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا، سر کھجایا اور بولے: ’’ہمیں کیا معلوم تمھارا لنگی کرتا کہاں ہے؟ ہم کوئی ایک جگہ کپڑے تھوڑی بدلتے ہیں؟‘‘

    ہری بھائی جب بھی یہ قصہ سناتے تھے بابا کا جملہ یاد کر کے بے تحاشہ ہنسنے لگتے تھے۔‘‘

    نیاز حیدر کی پہلو دار شخصیت کو عیاں کرتے ہوئے جاوید صدیقی ایک جگہ یہ واقعہ بیان کرتے ہیں: جوہو کولی واڑہ اور اس کے آس پاس بہت سی چھوٹی موٹی گلیاں ہیں، بابا ایسی ایک گلی میں گھس گئے۔ دور دور تک اندھیرا تھا، دو چار بلب جل رہے تھے مگر وہ روشنی دینے کے بجائے تنہائی اور سناٹے کے احساس کو بڑھا رہے تھے۔ بابا تھوڑی دور چلتے پھر رک جاتے، گھروں کو غور سے دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔ اچانک وہ رک گئے، سامنے ایک کمپاؤنڈ تھا جس کے اندر دس بارہ گھر دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی گھر ایک منزل سے زیادہ نہیں تھا اور بیچ میں چھوٹا سا میدان پڑا ہوا تھا جس میں ایک کنواں بھی دکھائی دے رہا تھا۔ بابا نے کہا یہی ہے اور گیٹ کے اندر گھس گئے۔ میں بھی پیچھے پیچھے تھا مگر ڈر رہا تھا کہ آج یہ حضرت ضرور پٹوائیں گے۔ بابا کمپاؤنڈ کے بیچ میں کھڑے ہو گئے۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ کسی گھر میں روشنی نہیں تھی۔ بابا نے زور سے آواز لگائی: ’’لارنس…‘‘

    کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ میرا خوف اور بڑھنے لگا۔ کولیوں کی بستی ہے وہ لوگ ویسے ہی سرپھرے ہوتے ہیں آج تو پٹائی یقینی ہے۔

    بابا زور زور سے پکار رہے تھے: ’’لارنس… لارنس!…‘‘ اچانک ایک جھوپڑے نما گھر میں روشنی جلی، دروازہ کھلا اور ایک لمبا چوڑا بڑی سی توند والا آدمی باہر آیا، جس نے ایک گندا سا نیکر اور ایک دھاری دار بنیان پہن رکھا تھا۔

    جیسے ہی اس نے بابا کو دیکھا ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی: ’’ارے بابا! کدھر ہے تم؟ کتنا ٹائم کے بعد آیا ہے؟‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے بابا کو دبوچ لیا اور پھر زور زور سے گوانی زبان میں چیخنے لگا۔ اس نے بابا کا ہاتھ پکڑا اور اندر کی طرف کھینچنے لگا: ’’آؤ آؤ اندر بیٹھو… چلو چلو‘‘ پھر وہ میری طرف مڑا: ’’آپ بھی آؤ ساب! آجاؤ آ جاؤ اپنا ہی گھر ہے۔ ‘‘ ہم تینوں ایک کمرے میں داخل ہوئے جہاں دو تین میزیں تھیں، کچھ کرسیاں اور ایک صوفہ، اندر ایک دروازہ تھا جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ بابا پوچھ رہے تھے: ’’کیسا ہے تُو لارنس؟… ماں کیسی ہے؟… بچہ لوگ کیسا ہے؟‘‘

    اتنی دیر میں اندر کا پردہ کھلا اور بہت سے چہرے دکھائی دینے لگے۔ ایک بوڑھی عورت ایک میلی سی میکسی پہنے باہر آئی اور بابا کے پیروں پر جھک گئی۔ بابا نے اس کی خیر خیریت پوچھی، بچوں کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور جب یہ ہنگامہ ختم ہوا تو لارنس نے پوچھا: ’’کیا پیئیں گے بابا؟‘‘

    ’’وہسکی…‘‘ بابا نے کہا۔ لارنس اندر گیا اور وہسکی کی ایک بوتل ٹیبل پہ لا کے رکھ دی۔ اس کے ساتھ دو گلاس تھے، کچھ چینی کچھ نمک سوڈے اور پانی کی بوتلیں۔ بابا نے پیگ بنایا، لارنس الٰہ دین کے جن کی طرح ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑا ہو گیا: ’’اور کیا کھانے کاہے بابا؟… ماں مچھّی بناتی، اور کچھ چہیئے تو بولو… کومڑی (مرغی) کھانے کا موڈ ہے؟‘‘ بابا نے مجھ سے پوچھا: ’’بولو بولو بھئی کیا کھاؤ گے؟‘‘

    میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بابا کی اتنی آؤ بھگت کیوں ہو رہی ہے۔ اگر ایسا بھی ہوتا کہ وہ لارنس کے مستقل گراہکوں میں سے ایک ہوتے تو بھی رات کے دو بجے ایسی خاطر تو کہیں نہیں ہوتی۔ یہاں تو ایسا لگ رہا تھا جیسے بابا اپنی سسرال میں آ گئے ہوں۔

    تھوڑی دیر میں تلی ہوئی مچھلی بھی آ گئی، ابلے ہوئے انڈے بھی اور پاؤ بھی۔ بہر حال مجھ سے برداشت نہیں ہوا، کھانا کھاتے ہوئے میں نے بابا سے پوچھا: ’’بابا اب اس راز پر سے پردہ اٹھا ہی دیجیے کہ اس لارنس اور اس کی ماں سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘

    کہانی یہ سامنے آئی کہ برسوں پہلے جب بابا اپنی ہر شام لارنس کے اڈے پر گزارا کرتے تھے تو ایک دن جب لارنس کہیں باہر گیا ہوا تھا اس کی ماں کے پیٹ میں درد اٹھا تھا، درد اتنا شدید تھا کہ وہ بیہوش ہو گئی تھی۔ اس وقت بابا اسے اپنے ساتھ لے کر اسپتال پہنچے، پتہ لگا کہ اپینڈکس پھٹ گیا ہے، کیس بہت Serious تھا آپریشن اسی وقت ہونا تھا ورنہ موت یقینی تھی۔ بابا نے ڈاکٹر سے کہا آپ آپریشن کی تیاری کیجیے اور نہ جانے کہاں سے اور کن دوستوں سے پیسے جمع کر کے لائے، بڑھیا کا آپریشن کرایا اور جب لارنس اسپتال پہنچا تو اسے خوش خبری ملی کہ اس کی ماں موت کے دروازے پہ دستک دے کے واپس آ چکی ہے۔ تھینکس ٹو نیاز بابا….

    اس کہانی میں ایک خاص بات یہ ہے کہ لارنس اور اس کی ماں کے بار بار خوشامد کرنے کے باوجود بابا نے وہ پیسے کبھی واپس نہیں لیے جو انھوں نے اسپتال میں بھرے تھے۔

    صبح تین بجے کے قریب جب میں بابا کو لے کر باہر نکل رہا تھا تو میں نے پلٹ کر دیکھا تھا، لارنس کی ماں اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھی اور لارنس اپنے ہاتھ جوڑے سَر جھکائے اس طرح کھڑا تھا جیسے کسی چرچ میں کھڑا ہو۔‘‘

  • نریندر لوتھر صاحب

    نریندر لوتھر صاحب

    قدیم زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ کوئی شخص ایک مرتبہ جو پیشہ اختیار کرلیتا، مرتے دم تک اسی کو سنبھالے رکھتا تھا۔

    مثلاً یہ کہ اگر کوئی سپاہی ہوتا تو وہ کسی اور پیشہ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا۔ اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اور قوتیں اس میں صرف کر دیتا۔ شاعر ہوتا تو بس ساری زندگی شاعری کرتے گزار دیتا۔ خواہ بھوکوں مرنا پڑے، فاقے کرنا پڑیں۔ مگر کیا مجال جو دوسرے پیشے سے روزی روٹی کا بندوبست کر کے اپنا اور اپنے بال بچّوں کا پیٹ بھرے۔ دور کیوں جائیے، آپ کے ہمارے جانے پہچانے مرزا غالب ہی کی مثال لیجیے۔ سو پشت سے پیشۂ آباء، سپاہ گری ہوتے ہوئے بھی جب ایک بار اپنے موروثی پیشہ کو ترک کر کے، پیشۂ شاعری اختیار کیا تو پھر پیچھے پلٹ کر انہوں نے اس کی طرف نگاہ نہ ڈالی۔ حالانکہ قرض کی شراب پیتے رہے اور جب لوگوں نے قرض دینا بند کر دیا تو دعوتِ آب و ہوا کے لیے خرقہ و سجادہ کو بھی رہن رکھوانا گوارا کرلیا! جسمانی ساخت کے اعتبار سے وہ اس قابل تھے کہ اگر قلم رکھ کر تلوار اٹھا لیتے۔ تو موروثی پیشہ میں ضرور کوئی اعلٰی عہدہ حاصل کر لیتے، مگر وضع داری بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ مرتے مرگئے۔ ساری زندگی قرض خواہوں کی کڑوی کسیلی سنتے رہے مگر کیا مجال جو کسی اور پیشہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا بھی ہو!

    مگر آج ہم یہ دیکھتے ہیں یہ احساس، یہ وضع داری بالکل جاتی رہی۔ ادب تو Noman’s Land کی طرح ہوگیا ہے جس کا جی چاہا، منہ اٹھائے گھسا چلا آتا ہے، سب سے پہلے تو ڈاکٹروں نے چوری چھپے دائم المریض ادیبوں اور شاعروں کا علاج کرتے کرتے ان کا سہارا لے کر ادب میں دخل در معقولات شروع کی۔ یہاں تک کہ بعض ہٹ دھرم ڈاکٹروں نے باقاعدہ طور پر مریضوں کو ڈرا دھمکا کر اور کبھی مفت علاج کا لالچ دے کر ادیب اور شاعر کا لیبل لگا ہی لیا۔

    اور اب ایک اور گروہ آئی۔ اے۔ ایس آفیسروں کا پیدا ہوگیا ہے جو دفتر میں اپنے حصے کی فائلوں کے انبار بھی اپنے اسسٹنٹس کے حوالے کر کے ادیبوں اور شاعروں کو مسکرا مسکرا کر اپنے اجلاس پر بڑھاوا دے کر آہستہ آہستہ ادب میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ پہلے بھارت چند کھنہ، پھر خواجہ عبدالغفور اور اب نریندر لوتھر ادب کے میدان میں زور آزمائی کرنے کے لیے اتر آئے ہیں۔ ان کو دیکھ کر دوسرے آئی۔ اے۔ ایس آفیسروں نے بھی نبرد آزما ہونے کی کوشش کی۔ لیکن بہت جلد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ بھارت چند کھنہ خواجہ عبدالغفور اور نریندر لوتھر صرف آئی۔ اے۔ ایس ہونے کی وجہ سے ادیب نہیں کہلائے بلکہ ادب ان کی شخصیتوں میں رچ بس چکا ہے۔

    لوتھر صاحب سے میری جملہ چار ملاقاتیں ہوئیں۔ ان چاروں ملاقاتوں کا مجموعی دورانیہ 95 منٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پہلی ملاقات صرف پانچ منٹ کی، دوسری، تیسری اور چوتھی بار زیادہ سے زیادہ تیس منٹ فی ملاقات کا حساب پڑتا ہے، لیکن اس کے باوجود میں نے ان پر قلم اٹھانے کی ہمت کی ہے۔

    کئی سال قبل ہمارے ایک پڑوسی کی وساطت سے لوتھر صاحب سے تعارف حاصل ہوا۔ یہ اس صبح کی بات ہے جس کی شام لوتھر صاحب کے مضامین کے مجموعہ "بند کواڑ” کی رسمِ اجرا اردو ہال میں انجام دی جانے والی تھی۔ صبح صبح لوتھر صاحب کا مجھ سے یہ کہہ کر تعارف کروایا گیا۔ یہ "بند کواڑ” کے مصنّف نریندر لوتھر ہیں۔ باوجود اس کے کہ تعارف کروانے والے صاحب کی آواز گونجیلی، الفاظ نہایت واضح اور صاف تھے، مگر پھر بھی ذہن ان الفاظ کی پذیرائی کے لیے تیار ہی نہ تھا۔ بھلا یہ مصنّف کیسے ہوسکتے ہیں؟ کیوں کر ہو سکتے ہیں۔۔۔۔!!

    ان میں مصنّفوں والی ایک بھی تو بات نہ تھی۔ نہ ان کے چہرے پر پھٹکار، نہ ان کا لباس بوسیدہ، نہ ان کی کمر خمیدہ، نہ ان کا حلیہ فاقہ زدہ، نہ ان کے دانت میلے، نہ ہی ان کے میل سے بھرے ہوئے ناخن۔ پھر یہ بھلا مصنّف کیوں کر ہوسکتے ہیں۔ میرے سامنے صاف ستھرے، تازہ دم، آسودہ حال، خوش پوش، نفیس اور قیمتی لباس میں ملبوس۔ جھینپے جھینپے سے لوتھر صاحب تشریف فرما تھے۔ دل نے گواہی دی یہ انگریزی زبان کے ادیب ہوسکتے ہیں۔ اردو کے تو قطعی نہیں۔ کیوں کہ جو محرومی، کس مپرسی اور نکبت و زبوں حالی اردو والوں کے حصّے میں آئی ہے، ان سے وہ قطعی بیگانہ تھے۔ بہرحال میرے سلام کے جواب میں، میں نے دیکھا کہ ان کے نرم ونازک نقوش والے چہرے پر ہنسی کی لہر دوڑ گئی، "بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر”۔

    رسمی سا جملہ ادا کرکے گویا انہوں نے مجھ سے جان چھڑوانی چاہی۔ اور شام کی محفل میں شرکت کا وعدہ کرکے میں اپنے گھر چلی آئی۔ یہ تھی پہلی اور اس دور کی آخری ملاقات۔ آخری ان معنوں میں کہ اس کے کچھ عرصہ بعد لوتھر صاحب کا تبادلہ ہوگیا تھا۔ اور وہ شہر سے باہر چلے گئے تھے۔ اور جب وہ دوبارہ یہاں آئے تو ہمارے پڑوسی دیس چھوڑ کر پردیس کے ہورہے تھے۔

    ایک دن اچانک زندہ دلانِ حیدرآباد(دکن) کی ایک میٹنگ میں لوتھر صاحب نظر آگئے۔ یقین ہی نہ آتا تھاکہ لوتھر صاحب یوں کمرہ نمبر 28 میں مسکراتے لجاتے، سگار کے کش لگاتے مل جائیں گے۔ میٹنگ کے اختتام پر معتمد عمومی نے تعارف کروایا تو میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ مگر پھر بھی اپنی مخصوص مسکراہٹ سے خواہ مخواہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ میں ان کے لیے اجنبی نہیں ہوں۔ میں نے اپنے پڑوسی کے حوالے سے یاد دہانی کروائی تو بے چین سے ہوکر یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ دبیز مسکراہٹ کے پردے میں ماضی میں کھو سے گئے۔ اور پھر چند لمحوں بعد چہرے پر بچّوں کی سی معصوم خوشی پھیل گئی اور کہنے لگے:

    "ہاں جی ہاں! خوب یاد آیا۔ پہچان لیا میں نے!” اور اس مرتبہ چہرے سے صداقت بھی عیاں تھی۔

    تیسری ملاقات بھی زندہ دلان کی میٹنگ میں ہوئی۔ اس میٹنگ میں بعض ارکان میں آپس میں تلخ الفاظ کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ فضا مکدر سی ہونے لگی تھی۔ لوتھر صاحب سگار منہ میں دبائے، آنکھیں موندے، زیرِ لب لطیفے سناکر دونوں پارٹیوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ اور دس منٹ کے اندر انہوں نے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔

    چوتھی ملاقات حال ہی میں زندہ دلان کی کل ہند کانفرنس کے اس اجلاس میں ہوئی جس میں زندہ دلان کی مطبوعات کی رسمِ اجرا ہورہی تھی، میٹنگ ختم ہونے کے بعد کچھ دیر باتیں ہوئیں۔ یہ نسبتاً خوش گوار ملاقات تھی۔ اس لیے کہ اس دوران مجھے ان کی چند خصوصیات کا اندازہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ لوتھر صاحب انتہائی سادہ مزاج اور کھلے دل و دماغ کے مالک ہیں۔ اپنے کسی غیر مطبوعہ مضمون کے بارے میں جس فراخ دلی سے گفتگو کی اور مجھ سے مشورہ لیا، اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے سے کم عمر والوں کی بھی عزت کرنا جانتے ہیں۔ لوتھر صاحب اپنے ہم عصر ہم میدان ادیبوں کی نہ صرف قدر کرتے ہیں بلکہ جی کھول کر ان کو سراہتے بھی ہیں۔

    لوتھر صاحب کی شخصیت بڑی پہلو دار اور تہ دار ہے۔ وہ مختلف النّوع مصروفیات کے آدمی ہیں، بحیثیت آئی اے ایس آفیسر وہ خواہ مخواہ کسی پر دھونس نہیں جماتے بلکہ ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ہر ایک کی مدد کریں، رہنمائی کریں، اور دلوں میں جگہ پیدا کریں۔

    بھارت چند کھنہ اور رشید قریشی کی طرح یہ بھی اپنی بیوی کے مارے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اکثر مضامین کی تخلیق کا سہرا انہوں نے بھی اپنی بیوی ہی کے سر باندھا ہے۔ اور اس بات کا فراخ دلی سے اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا ہے کہ وہ بیوی زدہ شوہر ہیں۔

    نائب صدر کی حیثیت سے زندہ دلانِ حیدرآباد کی میٹنگوں میں مستقل مسکراتے رہنا، صدر صاحب کی ہاں میں ہاں ملاتے رہنا اور گرم ہونے والوں پر خاص طور پر اپنی مسکراہٹ نچھاور کرنا لوتھر صاحب کی اہم خصوصیات ہیں۔

    (کاغذی ہے پیراہن (طنز و مزاح) سے انتخاب جس کی مصنّف ڈاکٹر ہندوستان سے تعلق رکھنے والی ادیب اور محقق رشید موسوی ہیں)

  • ‘ٹوڈی’ جو راس کماری سے سری نگر اور سلہٹ سے خیبر تک مشہور تھا

    ‘ٹوڈی’ جو راس کماری سے سری نگر اور سلہٹ سے خیبر تک مشہور تھا

    عبدالمجید سالک صحافت کے میدان میں خاص پہچان اور اپنے کالموں کے لیے مشہور تھے، وہ ہندوستان کے عوام میں مقبول اخبار’زمیندار‘ اور متعدد جرائد کے مدیر رہے، روزنامہ انقلاب جاری کیا، شاعر اور مضمون نگار کی حیثیت سے مشہور ہوئے اور متعدد تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    آغا شورش کاشمیری جیسے مشہور و معروف صحافی، شاعر اور مضمون نگار نے اپنے ایک مضمون میں سالک صاحب کا تذکرہ کچھ یوں کیا ہے۔

    "ہوش کی آنکھ کھولی تو گھر بھر میں مولانا ظفر علی خاں کا چرچا تھا۔ ’’زمیندار‘‘ کی بدولت خاص قسم کے الفاظ زبان پر چڑھے ہوئے تھے۔ انہی الفاظ میں ایک ٹوڈی کا لفظ بھی تھا۔ زمیندار نے اس کو خالص وسعت دے دی تھی کہ مولانا ظفر علی خاں کے الفاظ میں راس کماری سے لے کر سری نگر تک، سلہٹ سے لے کر خیبر تک اس لفظ کا غلغلہ مچا ہوا تھا، جس شخص کا ناطہ بلا واسطہ یا بالواسطہ برطانوی حکومت سے استوار تھا وہ فی الجملہ ٹوڈی تھا۔

    اس زمانہ میں ہمیں سیاسیات کے پیچ و خم سے زیادہ واقفیت نہ تھی۔ ہم نے ٹوڈی کے مفہوم کو اور بھی محدود کر رکھا تھا، وہ تمام لوگ جو مولانا ظفر علی خاں کے مخالف تھے یا جنھیں مولانا سے اختلاف تھا ہمارے نزدیک ٹوڈی تھے۔

    اب چوں کہ انقلاب کے دونوں مدیر (مہر و سالک) زمیندار کے مقابلہ میں تھے اور مولانا سے کٹ کے انقلاب نکالا تھا، لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا عرف یا تخلص بھی ٹوڈی تھا۔ پھر یہ ہفتوں یا مہینوں کی بات نہ تھی، برسوں تک یہی خیال ذہن پر نقش رہا حتّٰی کہ ایک دہائی بیت گئی۔ دوسری دہائی کے شروع میں یہ لفظ کسی حد تک کچلا گیا اور اس کی جگہ بعض مستور الفاظ رواج پاگئے، مثلاً رجعت پسند، کاسہ لیس وغیرہ ان الفاظ میں دشنام کی بدمزگی تو نہ تھی لیکن حقارت کا مخفی اظہار ضرور تھا۔

    بالآخر ان ہجویہ الفاظ کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ یہ تمام الفاظ پھلجڑی کا سا سماں باندھ کر ٹھنڈے پڑگئے۔ جن تحریکوں کے ساتھ ان کا شباب تھا ان کے ختم ہوتے ہی ان کی رونق بھی مرجھا گئی اور ان کا تذکرہ سیاسی افکار کے عجائب گھروں کی زینت ہوگیا۔

    اس دوران سالک صاحب سے کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں، دفتر زمیندار ہی میں ان سے تعارف ہوا لیکن اس تعارف سے صرف علیک سلیک کا راستہ کھلا۔ وہ اپنی ذات میں مستغرق تھے، ہم اپنے خیال میں منہمک، تاثر یہی رہا کہ سالک صاحب ٹوڈی اور انقلاب ٹوڈی بچہ ہے۔

    سالک صاحب ہمیں کیا رسید دیتے، وہ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ادھر زمیندار نے ہمیں یہاں تک فریفتہ کر رکھا تھا کہ انقلاب کو ہم نے خود ہی ممنوع قرار دے لیا تھا۔ پانچ سات برس اسی میں نکل گئے۔

    دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو لمبی لمبی قیدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہم کوئی دس گیارہ نوجوان منٹگمری سنٹرل جیل میں رکھے گئے۔ سخت قسم کی تنہائی میں دن گزارنا مشکل تھا، قرطاس و قلم موقوف، کتب و رسائل پر قدغن، جرائد و صحائف پر احتساب، یہاں تک کہ عزیزوں کے خط بھی روک لیے جاتے۔ وحشت ناک تنہائی کا زمانہ۔ جیل کے افسروں سے بارہا مطالبہ کیا کہ اخبار مہیا کریں لیکن ہر استدعا مسترد ہوتی رہی۔ جب پانی سر سے گزرگیا تو ہم نے بھوک ہڑتال کردی، نتیجتاً حکومت کو جھکنا پڑا۔ ’’سول‘‘اور ’’انقلاب‘‘ ملنے لگے۔

    بظاہر یہ ایک لطیفہ تھا کہ جس اخبار کو ہم سرکاری مناد سمجھتے اور جس کالم میں قومی تحریکوں یا قومی شخصیتوں پر سب سے زیادہ پھبتیاں کسی جاتی تھیں، ہم نے اسے بھوک ہڑتال کرکے حاصل کیا۔

    غرض افکار و حوادث کی ادبی دل کشی کا یہ عالم تھا کہ ہم اس کی چوٹیں سہہ کر لطف محسوس کرتے۔ سیاسی تاثر تو ہمارا وہی رہا جو پہلے دن سے تھا، لیکن اس کی ادبی وجاہت کے شیفتہ ہوگئے۔ مہر صاحب کے اداریے ایک خاص رنگ میں ڈھلے ہوتے، ان میں تحریر کی دل کشی اور استدلال کی خوبی دونوں کا امتزاج تھا۔ سالک صاحب افکار و حوادث میں مطائبات کی چاشنی اور طنزیات کی شیرینی اس طرح سموتے تھے۔ جی باغ باغ ہوجاتا، محسوس ہوتا گویا ہم مے کدے میں ہیں کہ رندانِ درد آشام تلخ کام ہوکر بھی خوش کام ہو رہے ہیں۔

    ساتھیوں کا ایک مخصوص گروہ تھا، جس میں جنگ کی وسعتوں اور شدتوں کے باعث اضافہ ہوتا رہا۔ میں منٹگمری سنٹرل جیل سے تبدیل ہوکر لاہور سنٹرل جیل میں آگیا تو پہلا مسئلہ انقلاب ہی کے حصول کا تھا۔ سید امیر شاہ (جیلر) کی بدولت فوراً ہی انتظام ہوگیا۔ غرض قید کا یہ سارا زمانہ انقلاب سے آشنائی میں کٹ گیا۔ رِہا ہوا تو سالک صاحب سے ان کے دفتر میں جا کے ملا۔ مہر صاحب اس وقت موجود نہیں تھے۔ ان سے کھلا ڈلا تعارف تھا، سالک صاحب تپاک سے ملے۔

    گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی اس ملاقات میں وہ پھلجڑیاں چھوڑتے رہے۔ باتوں کو سنوارنا، گفتگو کو تراشنا، ان سے لطائف نکالنا ان کی طبیعت کا وصف خاص تھا۔ اس معاملہ میں ان کی تقریر، تحریر سے زیادہ دل فریب ہوتی۔ انسان اکتاتا ہی نہیں تھا۔ ایک آدھ دفعہ پہلے بھی یہ مشورہ دے چکے تھے اور اب کے بھی یہی زور دیتے رہے کہ سیاسیات میں اپنے آپ کو ضائع نہ کرو، صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاؤ اور کتاب و قلم کے ہوجاؤ۔ اب جو ان سے تعلقات بڑھنے لگے تو دنوں ہی میں بڑھ کے وسیع ہوگئے۔ یہ زمانہ انگریزی حکومت کے ہندوستان سے رخصت ہونے کا تھا۔ برطانوی سرکار کے آخری دو سال تھے۔

    تمام ملک میں فساد و انتشار سے آگ لگی ہوئی تھی۔ اس افراتفری کے دنوں ہی میں سالک صاحب سے ملاقات کے مزید راستے کھلے۔ خلوت و جلوت میں ان کا اندازہ ہونے لگا۔

    سیاسیات سے قطع نظر یہ بات ذہن میں آگئی کہ وہ ہمارے مفروضہ سے مختلف انسان ہیں بلکہ خوب انسان ہیں۔ یہ بات بری طرح محسوس ہوئی کہ بعض لوگ مستعار عصبیتوں کی وجہ سے بدنام ہوتے ہیں۔ اور انسان بلا تجربہ اپنے دماغ میں مفروضے قائم کر کے انھیں حقیقتیں بنا دیتا ہے، لیکن جب یہی لوگ تجربہ یا مشاہدہ میں آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاسنگ کا سونا ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ تجربہ و مشاہدہ میں آنے کے بعد دور کا ڈھول نکلتے ہیں، ان کی ہم صحبتی ان کے خط و خال کو آشکار کردیتی ہے۔

    سالک صاحب کو مستعار عصبیتوں سے دیکھا تو ان کی شگفتہ تصویر نہ بن سکی، یہی باور کیا کہ خوانِ استعمار کے زلّہ رُبا ہیں۔ قریب سے دیکھا تو ایک روشن تصویر نکلے۔

  • کرشن چندر کو ماسکو جانے کی اجازت کیوں نہیں‌ دی جارہی تھی؟

    کرشن چندر کو ماسکو جانے کی اجازت کیوں نہیں‌ دی جارہی تھی؟

    کرشن چندر کی بیٹی بیمار تھیں۔ وہ ماسکو علاج کے لیے جانا چاہتے تھے، لیکن حکومت ان کو پاسپورٹ دینے کو تیار نہ تھی۔

    میں ”شاہراہ“ کے دفتر میں گیا تو یوسف صاحب مرحوم، مالک شاہراہ، نے بڑی تکلیف کے ساتھ مجھے یہ بات بتائی۔ میری ملاقات کرشن چندر سے نہیں ہوئی۔

    شام کو میں حسبِ معمول قدسیہ آپا کے پاس گیا۔ دورانِ گفتگو کرشن چندر کے پاسپورٹ کی بات آئی۔ میں نے کہا،

    ”آپ کی حکومت عام انسانی معاملات میں بھی سیاست کو داخل کر لیتی ہے۔ کرشن چندر کے ترقی پسند ہونے کے یہ معنٰی نہیں کہ ان کی بیٹی کا علاج نہ ہوسکے، اور کرشن چندر کے خیالات، اس کے آڑے آئیں۔ حالاں کہ ان کے سیاسی خیالات محض ادب تک محدود ہیں۔“

    پہلی مرتبہ قدسیہ آپا لاجواب ہوگئیں۔ کہنے لگیں۔

    ”کافی پیو گے یا چائے۔“ ذرا سی دیر میں کولڈ کافی آگئی، لیکن قدسیہ آپا دوسرے کمرے میں ٹیلی فون پر بات کررہی تھیں۔ بے حد غصّے میں تھیں۔ انھوں نے اندرا گاندھی سے بات کی۔ محمد یونس خان سے بات کی۔ پنڈت نہرو کے سیکریٹری متھائی سے بات کی۔ اور وہی کرشن چندر والی بات۔ ان کی گفتگو سے غم و غصّے کا اظہار ہو رہا تھا۔

    شاید میری بات ان کے دل کو لگ گئی تھی۔ وہ بار بار کرشن چندر کی بیٹی کی بیماری کے بارے میں پوچھتی تھیں۔ ان کے چہرے پر کرب کے آثار نظر آرہے تھے۔

    اس کے بعد اگلے روز بارہ بجے تین مورتی سے قدسیہ آپا کا ٹیلیفون آیا۔ ”کرشن چندر کا پاسپورٹ تیار ہے۔ کرشن چندر کو اطلاع کر دو۔“

    مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ کرشن چندر کہاں رہتے ہیں۔ اب قدسیہ آپا کرشن چندر کا گھر تلاش کررہی تھیں۔

    دو بجے معلوم ہوا کہ کرشن چندر شملہ جا چکے ہیں اور ایک ہفتے بعد واپس آئیں گے۔ اور اس کے بعد کرشن چندر جی پاسپورٹ لے کر ماسکو چلے گئے۔

    (ممتاز ادیب، محقق، نقّاد اور مترجم اطہر پرویز کے شخصی خاکوں کی کتاب کا ایک ورق جس میں انھوں نے نام ور افسانہ نگار کرشن چندر کی پریشانی اور ہندوستانی حکومت کے رویّے کی جھلک پیش کی ہے)