Tag: شرح پیدائش

  • پاکستان میں شرح پیدائش فی عورت 6 بچوں سے کتنی کم ہو گئی؟

    پاکستان میں شرح پیدائش فی عورت 6 بچوں سے کتنی کم ہو گئی؟

    پاکستان میں شرح پیدائش میں بڑے پیمانے پر تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، 2024 میں پیدائش کی فی عورت شرح 6 بچوں سے کم ہو گئی ہے۔

    اقوام متحدہ کی ورلڈ فرٹیلٹی رپورٹ 2024 کے مطابق شرح پیدائش 1994 میں فی عورت 6 بچوں تک تھی، جو کم ہو کر 2024 میں 3.6 ہو گئی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں بچوں کی پیدائش کی تعداد میں اضافے کو مزید کم کرنے سے حکومتوں اور خاندانوں کو بچوں اور نو عمروں کی صحت اور فلاح و بہبود میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے زیادہ مؤثر طریقے سے وسائل مختص کرنے کا موقع ملے گا۔

    گزشتہ نصف صدی کے دوران عالمی سطح پر پیدائش کی شرح میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے، 1970 میں فی عورت اوسط شرح 4.8 سے کم ہو کر 2024 میں 2.2 ہو گئی ہے، آج کی خواتین 1990 کے مقابلے میں اوسطاً ایک بچہ کم پیدا کرتی ہیں، جب کہ عالمی شرح پیدائش 3.3 تھی۔

    ویڈیو رپورٹ: پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح میں تشویشناک اضافہ کیوں؟

  • جاپان میں شرح پیدائش 125 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی

    جاپان میں شرح پیدائش 125 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی

    جاپان میں شرح پیدائش میں اضافے کے لیے کی جانے والی تمام تر کوششوں کے باوجود شرح پیدائش ایک سو پچیس سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔

    جاپان کی وزارت صحت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق حکومت کی جانب سے بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافے کے لیے اٹھائے گئے تمام تر اقدامات اور کوششوں کے باوجود مسلسل نویں سال شرح پیدائش میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

    جاپان میں سال 2024 کے مقابلے میں بھی پانچ فیصد کم ہے جب 7 لاکھ 20 ہزار نو سو اٹھاسی بچوں کی پیدائش ریکارڈ کی گئی تھیں، شرح پیدائش میں سالہہ سال گراوٹ کے باعث جاپان میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جاپان میں تقریباً تیس فیصد آبادی پہلے ہی 65 سال سے زیادہ عمر کی ہے۔

    واضح رہے کہ کئی ممالک میں شرح پیدائش سست روی کا شکار ہے لیکن جاپان میں یہ مسئلہ خاص طور پر سنگین ہے جہاں حالیہ دہائیوں کے دوران متوقع عمر میں اضافے کی وجہ سے عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی مدد کے لیے افرادی قوت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

    حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کی کوشش کر رہی ہے ، جن میں بچوں کی دیکھ بھال کی سہولیات میں اضافہ، ہاؤسنگ سبسڈی کی پیش کش اور یہاں تک کہ شادی اور بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت کے ذریعے چلائی جانے والی ڈیٹنگ ایپ کا آغاز بھی شامل ہے۔

  • جنوبی کوریا میں بچے پیدا ہونے کی شرح اور کم، وجہ سامنے آگئی

    جنوبی کوریا میں بچے پیدا ہونے کی شرح اور کم، وجہ سامنے آگئی

    جنوبی کوریا میں شرح پیدائش مزید کم ہوکر نچلی ترین سطح پر آگئی جس سے حکام بھی پریشان ہوگئے ہیں۔

    خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جنوبی کوریا کے حکام نے تصدیق کی کہ وہاں شرح پیدائش 0۔81 فیصد سے کم ہوکر 0۔78 فیصد تک پہنچ گئی اور یوں جنوبی کوریا نے کم ترین شرح پیدائش کا اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا اور وہاں یہ سطح نچلے درجے تک جا پہنچی۔

    شرح پیدائش کے مطابق اس وقت جنوبی کوریا کی ہر خاتون سالانہ ایک بچہ بھی پیدا نہیں کر رہی اور اندازے کے مطابق وہاں 4 خواتین کے ہاں دو بچوں کی پیدائش ہو رہی ہے۔

    ٹیکنالوجی کی دوڑ میں تیزی سے ترقی کرنے والے ملک میں شرح پیدائش میں نمایاں کمی سے وہاں بزرگ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ جب کہ نئی نسل تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

    دوسری جانب ضعیف افراد کی بڑھتی آبادی اور نئی نسل کی کمی کی وجہ سے آنے والے دہائیوں میں جنوبی کوریا کو شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیوں کہ وہاں کی حکومت کو پینشن سمیت اولڈ ایج سبسڈیز کی مد میں خاصی رقم مختص کرنی پڑے گی۔

    جنوبی کوریا گزشتہ کئی سال سے شرح پیدائش کو بڑھانے کے لیے سالانہ کروڑوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے، تاہم اس باوجود وہاں شرح پیدائش میں کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دے رہا۔

    بچوں کی شرح پیدائش میں تشویشناک حد تک کمی

    جنوبی کوریا میں جہاں شرح پیدائش کم ہے، وہاں گزشتہ کچھ سال سے شادی کے رواج میں بھی کمی نوٹ کی گئی ہے جب کہ خواتین نسل کو بڑھانے کے بجائے کیریئر کے انتخاب کو اہمیت دینے لگی ہیں، اسی طرح مرد حضرات بھی خاندان کے بجائے ملازمت کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شرح پیدائش میں کمی وجہ یہ ہے کہ وہاں مرد و خواتین کی جانب سے کیریئر کو زیادہ اہمیت دینے اور دونوں جنسوں کی مراعات اور تنخواہوں میں نمایاں تفریق کی وجہ سے لوگ نسل بڑھانے کو اہمیت نہیں دے رہے۔

    واضح رہے کہ جنوبی کوریا کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے، جہاں پہلے ہی شرح پیدائش انتہائی کم ہے، جنوبی کوریا کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک جاپان، سنگاپور اور چین میں بھی شرح پیدائش کم ہے لیکن ان ممالک میں کچھ بہتری دیکھی جارہی ہے۔

    چند سال قبل تک وہاں ایک خاتون ایک بچے کی شرح تھی، اس وقت جنوبی کوریا کی ہر خاتون ایک بچہ بھی پیدا نہیں کر پا رہی، 2022 کے بعد سے شرح پیدائش میں مزید تنزلی ریکارڈ کی گئی ہے۔

  • یورپی ملک میں کرونا کے بعد ڈرا دینے والے حالات پیدا ہو گئے

    یورپی ملک میں کرونا کے بعد ڈرا دینے والے حالات پیدا ہو گئے

    روم: کرونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا بھر میں ہلاکتوں کے ریکارڈ توڑے ہیں وہاں اٹلی میں ڈرا دینے والے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی ملک اٹلی ایک بڑے المیے کا شکار ہو گیا ہے، کرونا وبا کے باعث یہاں شادیاں اور شرح پیدائش کم ہو گئی ہے جب کہ ملک میں جنازے زیادہ اٹھنے لگے ہیں۔

    میڈیا کا کہنا ہے کہ اٹلی میں وبا کے باعث شادیوں اور شرح پیدائش میں واضح کمی ہوئی ہے، اور جنازے بہت زیادہ ہو گئے ہیں، اس الم ناک صورت حال کے نتیجے میں ملکی آبادی میں گزشتہ برس تقریباً 4 لاکھ کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

    بحیرہ روم کے کنارے واقع اٹلی کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں مجموعی آبادی کے تناسب سے کرونا کے باعث ہلاکتوں کی مجموعی شرح بہت زیادہ رہی ہے، اسی لیے اب وہاں ملکی آبادی کو ایسی صورت حال کا سامنا ہے، جسے ماہرین ’ڈرا دینے والے حالات‘ سے موسوم کر رہے ہیں۔

    کرونا وبا کے باعث اب تک اٹلی میں 1 لاکھ 7 ہزار 636 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے آبادی میں کمی کا تیز رفتار رجحان سامنے آیا ہے۔

    اٹلی میں مجموعی آبادی میں کمی کا رجحان یوں تو 2015 سے جاری ہے مگر قومی شماریاتی ادارے کے مطابق 2020 میں یکم جنوری سے لے کر 31 دسمبر تک کے عرصے میں شادیوں اور بچوں کی پیدائش میں واضح کمی ہوئی، دوسری طرف بے تحاشا انسانی اموات کے باعث ملکی آبادی میں 3 لاکھ 84 ہزار کی کمی ہوئی۔ یہ تعداد مشہور شہر فلورنس کی کُل آبادی کے تقریباﹰ برابر بنتی ہے۔

    دنیا کے سات صنعتی ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونے والے ملک اٹلی کی مجموعی آبادی 60 ملین کی نفسیاتی طور پر اہم حد سے نیچے آ گئی ہے، ماہرین کے مطابق ملک کی کُل آبادی اب 59.3 ملین کے قریب بنتی ہے۔

    دوسری طرف دوہرا المیہ یہ ہے کہ گزشتہ برس ملک میں بچوں کی شرح پیدائش میں بھی کمی کا ایک نیا ریکارڈ دیکھنے میں آیا، 2019 میں اٹلی میں 4 لاکھ 20 ہزار بچے پیدا ہوئے تھے، مگر 2020 میں یہ تعداد 4 لاکھ 4 ہزار رہ گئی، جب کہ پچھلے سال سالانہ اوسط سے نصف سے بھی کم تعداد میں شادیاں ہوئی تھیں۔

    گ‍زشتہ برس اٹلی میں سالانہ بنیادوں پر شہری اموات کی تعداد میں 2019 کے مقابلے میں تقریباﹰ 17 فی صد اضافہ ہوا، اور 1 لاکھ 12 ہزار شہری انتقال کر گئے۔

  • چین، رواں سال شرح پیدائش میں آٹھ فیصد اضافہ

    چین، رواں سال شرح پیدائش میں آٹھ فیصد اضافہ

    بیجنگ : چین میں پچھلے سال کی نسبت شرحِ پیدائش میں آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے، شرح پیدائش میں اضافہ ایک سے زائد بچے کی پیدائش پر لگائی گئی پابندی کو اُٹھانے کے بعد دیکھنے میں آیا۔

    یہ تفصیلات چین کے ادارہ برائے قومی صحت اور فیملی پلاننگ کمیشن نے حالیہ سروے رپورٹ میں بتائی جس کے مطابق چین میں 2016 میں پیدا ہونے والوں بچوں کی تعداد ایک کروڑ 70 لاکھ تھی جو کہ 2015 میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد سے آٹھ فیصد زیادہ ہے۔

    سروے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال 45 فی صد ایسے گھرانوں میں بچوں کی پیدائش ہوئی جو پہلے سے صاحب اولاد تھے یعنی ان گھرانوں نے ایک سے زائد بچے پیدا کرنے کی پابندی ہٹانے کے فیصلے بعد اپنی خاندان میں نئے فرد کا اضافہ کیا۔

    ادراہ قومی صحت اور فیملی پلاننگ کے یانگ وین ژوانگ نے بتایا کہ ایک زائد بچوں کی پیدائش پر پابندی ہٹانے سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں جس کی روشنی میں امید کی جا سکتی ہے کہ 2020 تک ہر سال ایک کروڑ 70 لاکھ سے دو کروڑ تک بچے پیدا ہوں گے۔

    دوسری جانب قومی ادارہ برائے شماریات کے مطابق سال 2016 میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ بچے پیدا ہوئے جب کہ 2050 تک ملک میں تقریباٌ تین کروڑ افراد کام کرنے کی عمر تک پہنچ گئے ہوں گے یعنی ملک کو زیادہ افرادی قوت میئسر ہو گی اور غیر ملکی افرادی قوت کی ضرورت نہیں رہے گی۔

    یاد رہے رہے کہ جنوری 2016 میں چین کی حکومت نے چالیس سال سے قائم ایک بچہ فی خاندان کی پالیسی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک زائد بچوں کی پیدائش پر پابندی ہٹا لی تھی تاہم والدین کو دوسرے بچے کی پیدائش سے پہلے حکومت سے اجازت نامہ کے حصول کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔