Tag: شرلاک ہومز

  • آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ جنھیں شرلاک ہومز نے جاودانی عطا کی

    آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ جنھیں شرلاک ہومز نے جاودانی عطا کی

    شرلاک ہومز کی کہانیاں کل کی طرح آج بھی مقبول ہیں۔ شرلاک ہومز نے 1887ء میں فکشن کی دنیا میں جنم لیا تھا۔ کئی دہائیوں تک جاسوسی ناولوں تک محدود رہنے والے شرلاک ہومز کو بعد میں فلمی پردے پر متحرک بھی دیکھا گیا۔ ذہین اور سراغ رساں شرلاک ہومز کے خالق برطانوی مصنّف آرتھر کونن ڈوئل (arthur conan doyle) تھے جو 1930ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے طفیل جاسوسی ادب کے قارئین کو ایک ذہین اور نہایت دل چسپ کردار ملا جو سراغ رساں اور جاسوسی میں ماہر تھا۔ کونن ڈوئل کے اس خیالی کردار نے ناولوں اور پچاس سے زائد افسانوں میں پیچیدہ، مشکل اور نہایت پُراسرار یا معمّا بن جانے والے کیسز کو اپنی ذہانت سے حل کیا اور دنیا بھر میں‌ مقبول ہوا۔ کہانی پڑھنے والے اسکیچز میں شرلاک ہومز کو محدب عدسہ تھامے، پائپ کا کش لگاتے اور سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھتے اور بیتابی سے صفحات الٹتے تاکہ مجرم اور اس کے جرم کی وجہ جان سکیں۔

    شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔ جب ڈویل کی کہانیاں بشمول اردو دنیا بھر میں‌ ترجمہ کی گئیں تو شرلاک ہومز کی شہرت اور مقبولیت بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ہندوستان بھر میں اردو، ہندی زبانوں میں‌ ڈوئل کی کہانیوں کے تراجم شوق سے پڑھے گئے اور وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔ مصنّف آرتھر ڈوئل کی یہ کہانیاں کتابی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کے تراجم بھی خوب بِکے۔

    برطانوی حکومت نے آرتھر کونن ڈوئل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کو سَر کا خطاب دیا تھا۔ وہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے تھے۔ انھوں نے 1859 میں آنکھ کھولی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معالج کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت کے حامل ڈوئل پُراسرار واقعات اور جرم و سزا کی دنیا میں‌ دل چسپی لینے لگے اور بعد کے برسوں میں‌ ان کو اس سے متعلق جدید افسانوں کا بانی مانا گیا۔ ڈوئل نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔ وہ شاعر بھی تھے۔

    1885ء میں ڈوئل نے طبّ کے مضمون میں سند حاصل کرنے کے بعد پریکٹس شروع کی تھی۔ اسی زمانے میں وہ مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے لگے اور پھر شارٹ اسٹوریز کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کو شائع کروایا تو برطانیہ بھر میں ان کو بہت سراہا گیا اور پھر انھوں نے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا جس کے بعد ان کی شہرت سرحد پار دور دور تک پھیل گئی۔ ان کے اس خیالی کردار نے ہر چھوٹے بڑے کو جاسوسی ادب کا دیوانہ بنا دیا۔

    سر آرتھر ڈوئل ایسے برطانوی مصنّف ہیں جنھیں ترکی کے سلطان کی جانب سے "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا تھا۔ انھیں یہ اعزاز شرلاک ہومز جیسا کردار تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا جو سبھی میں یکساں‌ مقبول تھا۔

    سراغ رساں شرلاک ہومز کے دیوانے اور ڈوئل کے مداح آج بھی برطانیہ میں ہر سال ان کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں‌ جہاں اس مصنّف کے فن اور تخلیقات پر اظہار خیال کیا جاتا ہے اور اسے نئے انداز سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں‌ میں آرتھر ڈوئل کے یادگاری مجسمے بھی نصب ہیں۔

    جارج ایڈورڈ چیلنجر جسے صرف پروفیسر چیلنجر پکارا جاتا تھا، اسی برطانوی مصنّف کا ایک افسانوی کردار تھا جس کی عادات اور مزاج شرلاک ہومز سے یکسر مختلف تھیں۔ آرتھر ڈوئل کا یہ شہرۂ آفاق کردار بردبار اور متحمل مزاج ہے جو اس کی شخصیت میں رنگ بھرتا ہے جب کہ پروفیسر چیلنجر کو مصنّف نے غصیلا اور اکھڑ مزاج دکھایا ہے جو اکثر دوسروں‌ پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ مصنّف نے یہ دونوں کردار حقیقی زندگی سے لیے تھے۔ یہ لوگ آرتھر ڈوئل کے حلقۂ احباب میں‌ شامل تھے۔

  • ‘شرلاک ہومز’ کے خالق آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ

    ‘شرلاک ہومز’ کے خالق آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ

    شرلاک ہومز وہ سراغ رساں تھا جس نے 1887ء میں فکشن کی دنیا میں جنم لیا اور یہ خیالی کردار آرتھر کونن ڈوئل کے ذہن کی اختراع تھا۔ جاسوسی ادب میں شرلاک ہومز جیسا مقبول کردار متعارف کروانے والے آرتھر کونن ڈوئل 1930ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    برطانوی مصنّف آرتھر کونن ڈوئل نے اپنی کہانی اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) میں پہلی مرتبہ شرلاک ہومز کو متعارف کروایا تھا اور اِس کردار کو اپنے چار ناولوں اور پچاس سے زائد کہانیوں میں نہایت پیچیدہ، مشکل اور نہایت پُراسرار یا معمّا بن جانے والے واقعات کو اپنی ذہانت اور مہارت سے حل کرتے ہوئے دکھایا۔ اس کردار کو وہ قارئین کے سامنے محدب عدسہ تھامے، کسی مشکل کیس کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کے دوران پائپ کے کش لگاتے ہوئے پیش کرتے تھے اور قاری کی بیتابی بڑھ جاتی تھی کہ یہ شاطر اور ذہین جاسوس کب اور کس طرح مجرم تک پہنچے گا اور کوئی راز ان پر کب کھلے گا۔ شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔ جب ڈویل کی کہانیاں بشمول اردو دنیا بھر میں‌ ترجمہ کی گئیں تو شرلاک ہومز کی شہرت اور مقبولیت بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ہندوستان بھر میں اردو، ہندی زبانوں میں‌ ڈوئل کی کہانیوں کے تراجم شوق سے پڑھے گئے اور وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔

    مصنّف آرتھر ڈوئل کی یہ کہانیاں کتابی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کے تراجم بھی خوب فروخت ہوئے۔

    آرتھر کونن ڈوئل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کو برطانیہ میں سَر کا خطاب دیا گیا تھا وہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے تھے جہاں انھوں نے 1859 میں آنکھ کھولی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معالج کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت کے حامل ڈوئل پُراسرار واقعات اور جرم و سزا کی دنیا میں‌ دل چسپی لینے لگے اور بعد کے برسوں میں‌ ان کو جرم و سزا سے متعلق جدید افسانوں کا بانی مانا گیا۔ ڈوئل نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔ وہ شاعر بھی تھے۔

    ڈوئل نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1885ء میں طبّ کے مضمون میں سند حاصل کی اور پھر پریکٹس شروع کردی۔ اسی زمانے میں وہ مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے لگے تھے اور پھر شارٹ اسٹوریز کی طرف متوجہ ہوگئے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کو شائع کروایا تو برطانیہ میں قارئین نے انھیں بہت پسند کیا جس کے بعد ڈوئل نے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا جس نے ہر چھوٹے بڑے کو جاسوسی ادب کا دیوانہ بنا دیا۔

    آرتھر ڈوئل وہ برطانوی مصنّف تھے جن کو ترکی کے سلطان کی جانب سے "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انھیں شرلاک ہومز جیسا کردار تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔ سراغ رساں شرلاک ہومز کے دیوانے اور ڈوئل کے مداح آج بھی ان کی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے تقاریب اور ادبی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے جب کہ مختلف شہروں‌ میں آرتھر ڈوئل کے یادگاری مجسمے نصب ہیں۔

    جارج ایڈورڈ چیلنجر جسے صرف پروفیسر چیلنجر پکارا جاتا تھا، اسی برطانوی مصنّف کا ایک افسانوی کردار تھا جس کی عادات اور مزاج شرلاک ہومز سے یکسر مختلف تھیں۔ آرتھر ڈوئل کا یہ شہرۂ آفاق کردار بردبار اور متحمل مزاج ہے جو اس کی شخصیت میں رنگ بھرتا ہے جب کہ پروفیسر چیلنجر کو مصنّف نے غصیلا اور اکھڑ مزاج دکھایا ہے جو اکثر دوسروں‌ پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مصنّف نے یہ دونوں کردار حقیقی زندگی سے لیے تھے۔ یہ لوگ آرتھر ڈوئل کے حلقۂ احباب میں‌ شامل تھے۔

  • ‘شرلاک ہومز’ کے خالق جنھیں‌ ترکی کے سلطان نے اعزاز سے نوازا

    ‘شرلاک ہومز’ کے خالق جنھیں‌ ترکی کے سلطان نے اعزاز سے نوازا

    شرلاک ہومز نے 1887ء میں فکشن کی دنیا میں جنم لیا۔ اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے طفیل جاسوسی ادب کے قارئین کو ایک ذہین اور نہایت دل چسپ کردار ملا جو سراغ رساں اور ماہر جاسوس تھا۔ یہ کردار آرتھر کونن ڈوئل کے ذہن کی اختراع تھا جو 1930ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    اِس کردار نے اپنے برطانوی تخلیق کار کے چار ناولوں اور پچاس سے زائد افسانوں میں پیچیدہ، مشکل اور نہایت پُراسرار یا معمّا بن جانے والے کیسز کو اپنی ذہانت سے حل کیا اور خوب مقبول ہوا۔ کہانی کے کسی منظر میں جب شرلاک ہومز کو قارئین محدب عدسہ تھامے، جرم کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے کے دوران پائپ کے کش لگاتے اور اپنے ساتھی کو اشاروں میں ہدایات دیتے ہوئے پاتے تو یہ جاننے کے لیے بیتاب ہوجاتے کہ مجرم کون ہے اور کب اس کا راز سب پر کھلے گا؟

    شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔جب ڈویل کی کہانیاں بشمول اردو دنیا بھر میں‌ ترجمہ کی گئیں تو شرلاک ہومز کی شہرت اور مقبولیت بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ہندوستان بھر میں اردو، ہندی زبانوں میں‌ ڈوئل کی کہانیوں کے تراجم شوق سے پڑھے گئے اور وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔

    مصنّف آرتھر ڈوئل کی یہ کہانیاں کتابی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کے تراجم بھی خوب بِکے۔

    آرتھر کونن ڈوئل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کو برطانیہ میں سَر کا خطاب دیا گیا تھا وہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے تھے جہاں انھوں نے 1859 میں آنکھ کھولی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معالج کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت کے حامل ڈوئل پُراسرار واقعات اور جرم و سزا کی دنیا میں‌ دل چسپی لینے لگے اور بعد کے برسوں میں‌ ان کو جرم و سزا سے متعلق جدید افسانوں کا بانی مانا گیا۔ ڈوئل نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔ وہ شاعر بھی تھے۔

    ڈوئل نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1885ء میں طبّ کے مضمون میں سند حاصل کی اور پھر پریکٹس شروع کردی۔ اسی زمانے میں وہ مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے لگے تھے اور پھر شارٹ اسٹوریز کی طرف متوجہ ہوگئے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کو شائع کروایا تو برطانیہ میں قارئین نے انھیں بہت پسند کیا جس کے بعد ڈوئل نے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا جس نے ہر چھوٹے بڑے کو جاسوسی ادب کا دیوانہ بنا دیا۔

    آرتھر ڈوئل وہ برطانوی مصنّف تھے جن کو ترکی کے سلطان کی جانب سے "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انھیں شرلاک ہومز جیسا کردار تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔

    سراغ رساں شرلاک ہومز کے دیوانے اور ڈوئل کے مداح آج بھی ان کی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے تقاریب اور ادبی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے جب کہ مختلف شہروں‌ میں آرتھر ڈوئل کے یادگاری مجسمے نصب ہیں۔

    جارج ایڈورڈ چیلنجر جسے صرف پروفیسر چیلنجر پکارا جاتا تھا، اسی برطانوی مصنّف کا ایک افسانوی کردار تھا جس کی عادات اور مزاج شرلاک ہومز سے یکسر مختلف تھیں۔ آرتھر ڈوئل کا یہ شہرۂ آفاق کردار بردبار اور متحمل مزاج ہے جو اس کی شخصیت میں رنگ بھرتا ہے جب کہ پروفیسر چیلنجر کو مصنّف نے غصیلا اور اکھڑ مزاج دکھایا ہے جو اکثر دوسروں‌ پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ مصنّف نے یہ دونوں کردار حقیقی زندگی سے لیے تھے۔ یہ لوگ آرتھر ڈوئل کے حلقۂ احباب میں‌ شامل تھے۔

  • سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے ذریعے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا گیا۔ 1887 میں‌ شایع ہونے والی اس کہانی کے مصنّف آرتھر کونن ڈویل تھے۔ اس مصنّف کا ‘تخلیق کردہ’ کردار آگے چل کر جاسوسی ادب کے شائقین میں‌ خوب مقبول ہوا۔ عام طور پر شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔

    جب ڈویل کی کہانیوں کے دنیا بھر میں‌ تراجم ہوئے تو اس کردار کو خوب شہرت اور مقبولیت ملی۔ ہندوستان میں بھی ڈویل کی کہانیوں کے اردو تراجم بہت شوق سے پڑھے گئے۔

    ڈویل نے شرلاک ہومز کے کردار پر مبنی تقریباً 50 کہانیاں تخلیق کیں جو سات کتابوں کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔ مصنّف نے اس کردار کو اپنے چار ناولوں میں بھی شامل کیا تھا۔ آج سر آرتھر کونن ڈویل کا یومِ‌ وفات ہے۔

    سر آرتھر کونن ڈویل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ 1859 میں پیدا ہونے والے ڈویل مصنّف اور معالج کی حیثیت سے مشہور تھے۔ وہ جاسوسی ادب تخلیق کرنے والے ان ادیبوں میں‌ سے تھے جنھیں جرائم کے جدید افسانوں کا بانی مانا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور غیر افسانوی ادب بھی تخلیق کیا۔ ڈویل نے بہت سی نظمیں اور ڈرامے تحریر کیے تھے۔

    نو سال کی عمر میں اسکول جانے والے ڈویل نے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے 1885 میں یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں انھوں نے طبی پریکٹس کا آغاز کیا اور مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے والے ڈویل نے اس دوران کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ شارٹ اسٹوریز کی اشاعت نے مصنّف کو شہرت دی اور ناشروں نے اس کی کتابیں طبع کرنا شروع کردیں۔ کہانیوں کے مجموعوں کے ساتھ سر آرتھر ڈویل کے ناول بھی پسند کیے گئے۔

    7 جولائی 1930 کو اس برطانوی مصنّف نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں ترک سلطان کی جانب سے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کرانے پر "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا تھا۔

    دنیا بھر میں آج بھی شرلاک ہومز کے مداح موجود ہیں اور ڈویل کی کہانیاں شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ برطانیہ کے مختلف شہروں‌ میں اس مصنّف کے مجسمے بھی نصب ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: معراج رسول ڈائجسٹ کی دنیا میں مقبولیت اور کام یابی کی معراج کو پہنچے

    یومِ‌ وفات: معراج رسول ڈائجسٹ کی دنیا میں مقبولیت اور کام یابی کی معراج کو پہنچے

    اردو میں سرّی ادب یا جاسوسی کہانیوں کو ناقدوں نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا اور اردو ادب میں پاپولر ادب بمقابلہ ادبِ عالیہ کی بحث آج بھی جاری ہے، لیکن بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جاسوسی ادب میں‌ قارئین کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے جب ڈائجسٹوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تو جاسوسی کہانیوں کے قارئین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔

    آج دنیائے ڈائجسٹ کی ایک معروف ہستی معراج رسول کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھوں نے 2019ء میں وفات پائی۔ معراج رسول طویل عرصے سے علیل تھے۔

    یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس زمانے میں ڈائجسٹ کے لیے تخلیق کردہ جاسوسی ادب کو مقبولیت کی معراج نصیب ہوئی، جس میں‌ معراج رسول کا سرگزشت، سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ صفِ اوّل کے ماہ نامے تھے جو سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئے۔ معراج رسول ان کے بانی اور مدیر تھے۔ سسپنس کا پہلا شمارہ 1972 میں بازار میں‌ آیا تھا جب کہ جاسوسی ڈائجسٹ کا سلسلہ 1971 میں شروع ہوا تھا۔

    ان ڈائجسٹوں میں غیر ملکی ادیبوں کی پُراسرار، آسیبی اور مہم جوئی کے واقعات پر مبنی کہانیوں کے اردو تراجم شایع کیے جاتے تھے جنھیں قارئین کی بڑی تعداد نے پسند کیا اور ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اردو اہلِ قلم اور طبّاع کہانی نویس بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور سرّی ادب میں نام بنایا۔

    5 اگست 1942ء کو ممبئی میں پیدا ہونے والے معراج رسول کے والد شیخ عبدالغفّار تقسیم کے بعد ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے۔ انھوں نے بی کام کیا اور چند سال بعد اپنے اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھی، معراج رسول نے خود بھی لکھاری تھے اور چند ناول بھی تخلیق کیے، ان کا ادارہ اپنے مستقل قلم کاروں کو بہت مناسب مشاہرہ دیا کرتا تھا۔ معراج رسول کو ڈائجسٹ نکالنے کی تحریک اپنے والد سے ملی جو اپنے دور کے ایک کام یاب رسالے ’سراغ رساں‘ کے روح رواں تھے۔ معراج رسول نے اپنے ادارے کے تحت شایع ہونے والے ڈائجسٹوں میں سلسلے وار کہانیوں سے لاکھوں قارئین کو عرصے تک جوڑے رکھا اور کہتے ہیں کہ ان ڈائجسٹوں کے قارئین 20 لاکھ سے بھی تجاوز کرگئے تھے۔ مرحوم نے دو شادیاں کی‌ تھیں۔ معراج رسول کراچی میں ڈیفنس کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    معراج رسول نے اپنے سسپنس ڈائجسٹ میں ’دیوتا‘ کے عنوان سے 33 سال تک ہر ماہ بلاناغہ کہانی شایع کی جس کے مصنّف محی الدّین نواب تھے۔ یہ اردو ڈائجسٹ کی دنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔

  • نیٹ فلکس پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلم کے سیکوئل کا اعلان

    نیٹ فلکس پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلم کے سیکوئل کا اعلان

    امریکی ویڈیو اسٹریمنگ سروس نیٹ فلکس نے سال 2020 کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلموں میں سے ایک اینولا ہومز کے سیکوئل کا اعلان کردیا، اینولا ہومز مشہور و معروف سراغ رساں شرلاک ہومز (فرضی کردار) کی بہن کی کہانی ہے۔

    نیٹ فلکس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اینولا ہومز 2 کا اعلان کیا ہے، فلم کی مرکزی کردار ملی بوبی براؤن نے بھی اپنے انسٹا گرام پر اس کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ سیکوئل تیاری کے مراحل میں ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by @milliebobbybrown

    نیٹ فلکس کے مطابق اینولا کا مرکزی کردار برطانوی اداکارہ ملی بوبی براؤن ہی ادا کریں گی جبکہ ان کے بھائی شرلاک ہومز کا کردار بھی پچھلی فلم کی طرح ہنری کیول ادا کریں گے جو اپنے کردار سپر مین کے لیے مشہور ہیں۔

    یاد رہے کہ شرلاک ہومز اور اینولا ہومز کا کردار تخیلاتی ہے، شرلاک کے مصنف سر آرتھر کونن ڈائل ہیں جبکہ شرلاک کی بہن اینولا ہومز کا کردار امریکی مصنفہ نینسی اسپرنگر کا تخلیق کردہ ہے، نینسی نے 50 کے قریب کتابیں لکھی ہیں جبکہ متعدد ایوارڈز بھی حاصل کیے ہیں، اینولا ہومز کے بارے میں انہوں نے 6 ناولز لکھے ہیں۔

    شرلاک ہومز کے بارے میں اب تک متعدد فلمز اور ڈرامے بنائے جاچکے ہیں جبکہ بی بی سی کی پروڈکشن سیریز شرلاک نیٹ فلکس پر بھی دستیاب ہے، اینولا ہومز کے بارے میں یہ پہلی فلم تھی جس کے ہدایت کار ہیری بریڈبر ہیں۔

    یہ فلم سال 2020 کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلموں میں سے ایک رہی جبکہ فلم نے ریلیز کے پہلے ہی ہفتے سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلم کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔

    فلم کے پہلے حصے میں اینولا کو اپنی ماں یوڈوریا (ہیلینا بونہم کارٹر) کے ساتھ اکیلے رہتے ہوئے دکھایا گیا تھا جو گھر میں رہتے ہوئے اپنی ماں سے دنیا کی بہترین تعلیم حاصل کرتی ہے۔ وہ ماں سے مارشل آرٹس اور مختلف کھیلوں جیسے نیزہ بازی وغیرہ میں بھی مہارت حاصل کرتی ہے۔

    بعد ازاں یوڈوریا غائب ہوجاتی ہے اور اینولا کے بھائی اسے واپس اسکول بھیج کر روایتی طرز زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن وہ وہاں سے بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ اینولا نہایت مضبوط، بے خوف، ذہین اور بہادر لڑکی ہے اور اپنے سراغ رساں بھائی شرلاک سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔

    فلم میں خواتین کے ووٹ دینے کی تحریک سفرج موومنٹ کو دکھایا گیا ہے جو پوری ایک صدی جاری رہی جس کے بعد خواتین کو ووٹ دینے کا حق ملا۔

  • یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے شرلاک ہومز کا طریقہ

    یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے شرلاک ہومز کا طریقہ

    چیزوں کو یاد رکھنا آج کل ہر شخص کے لیے مسئلہ بن چکا ہے اور لوگ اپنی خراب یادداشت سے پریشان ہیں، یادداشت کو بہتر بنانے کے بہت سے طریقے ہیں اور ایسا ہی ایک طریقہ شرلاک ہومز کا بھی ہے۔

    اگر آپ نے معروف فکشن کردار سراغرساں شرلاک ہومز کی کہانیاں اور فلمیں پڑھ اور دیکھ رکھی ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ ہر قسم کی تفصیلات ایک مائنڈ (دماغ) پیلس میں محفوظ کرتا ہے۔

    یہ ایک ایسی تیکنیک ہے جو قدیم یونان میں سامنے آئی تھی اور اب محققین نے دریافت کیا ہے کہ یہ طریقہ کار واقعی طویل المعیاد یادوں کو تشکیل دینے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔

    میتھڈ آف لوسائی نامی اس تکنیک میں کوئی شخص ذہنی طور پر کسی جانے پہچانے مقام پر گھومتے پھرتا ہے۔

    جیسے گھر یا کوئی پسندیدہ پارک، ذہنی طور پر گھومتے ہوئے جو چیزیں یاد رکھنا چاہتے ہیں وہ وہاں مختلف حصوں میں رکھ دی جاتی ہیں اور بعد ازاں حقیقت میں اپنے قدموں پر دوبارہ چلتے ہوئے ان تفصیلات کو اٹھا لیا جاتا ہے۔

    مثال کے طور پر اگر آپ مینار پاکستان سے واقف ہیں تو تصور کریں کہ وہاں آپ چہل قدمی کر رہے ہیں اور کسی لفظ جیسے کتاب کو جھیل میں گرا دیا، پھر ایک اور لفظ کسی اور جگہ گرا دیا۔

    اب جب آپ حقیقت میں مینار پاکستان جائیں گے تو اسی نقشے کو ذہن میں اجاگر کرتے ہوئے ان مقامات پر چلتے ہوئے ان چیزوں کو اٹھا لیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق کہ اس طریقہ کار سے لوگ الفاظ کی فہرستیں، ہندسوں کی سیریز اور دیگر اشیا کو طویل عرصے یاد رکھ سکتے ہیں۔

    ویانا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 17 میموری ایتھلیٹس یا چیمپیئنز کی خدمات حاصل کی گئیں جو یادداشت کے مقابلوں میں دنیا کے سرفہرست 50 افراد میں شامل تھے۔

    اسی طرح 16 ایسے افراد کو بھی تحقیق کا حصہ بنایا گیا جو عمر اور ذہانت کے حوالے سے ان میموری ایتھلیٹس کا مقابلہ کرسکتے تھے۔

    ان رضا کاروں کے دماغوں کے ایف ایم آر آئی اسکینز اس وقت کیے گئے جب وہ ایک فہرست سے مختلف الفاظ پڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد ان رضا کاروں سے کہا گیا کہ وہ ان الفاظ کو اسی ترتیب سے یاد کریں جس طرح فہرست میں دی گئی تھی۔

    تحقیق کے دوسرے حصے میں 50 ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کا یادداشت کی تربیت کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور ان میں سے 17 کو 6 ہفتوں تک میتھڈ آف لوسائی استعمال کرنے کی تربیت فراہم کی گئی۔

    ان میں سے 16 افراد کو ایک اور مختلف طریقہ کار کی تربیت فراہم کی گئی جبکہ باقی افراد کو کسی قسم کی تربیت نہیں دی گئی۔

    تمام افراد کے دماغوں کو ایف ایم آر آئی اسکینز تربیت سے پہلے اور بعد میں کیے گئے اور وہی ٹاسکس کرائے گئے جو پہلے حصے میں دوسرے گروپ سے کروائے گئے تھے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو میتھڈ آف لوسائی کی تربیت دی گئی تی انہوں نے طویل المعیاد یادوں کے حوالے سے دیگر کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہر کیا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ اس طریقہ کار کی تربیت سے ان افراد کی پائیدار یادوں میں نمایاں اضافہ ہوا مگر مختصر المدت یادوں میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ میموری ایتھلیٹس اور لوسائی کی تربیت حاصل کرنے والے افراد کی الفاظ کی فہرستوں اور ترتیب کو یاد رکھنے کی دماغی سرگرمی ملتی جلتی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ اس طریقہ کار کو سیکھنا ہر ایک کے لیے ممکن ہے، بس کچھ وقت اور مشق کو معمول بنانے کی ضرورت ہوگی، چاہے ہر ایک کے لیے یہ موزوں نہ ہو مگر اس سے یادداشت بہتر ہوسکتی ہے۔

  • مشہورِ زمانہ افسانوی کرداروں کا تذکرہ

    مشہورِ زمانہ افسانوی کرداروں کا تذکرہ

    آپ ٹارزن سے لے کر حاتم طائی تک کئی ایسے افسانوی کرداروں سے واقف ہوں گے جنھیں طاقت ور اور دلیر ہی نہیں‌ ان کے تخلیق کاروں نے انھیں انسان دوست اور سخی بھی بتایا ہے ان کرداروں پر مبنی کہانیاں اور ناول اتنے مشہور ہوئے کہ ٹیلی ویژن ڈرامے ہی نہیں ہالی وڈ سمیت دنیا بھر میں فلمیں‌ بنائی گئیں جنھیں‌ شائقین نے بہت سراہا۔ سپرمین، اسپائڈر مین کے علاوہ حقیقی زندگی میں جرم کا راستہ روکنے کے لیے خطرات مول لینے اور مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچانے والے چند مشہورِ زمانہ کرداروں کے بارے میں‌ یہ تحریر آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔

    دنیا کے مشہور افسانوی کرداروں میں ٹارزن کا نام سرفہرست ہے۔ اس کردار کے خالق ایڈگر رائس بروز کا نام شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے، لیکن ٹارزن کے نام سے پوری دنیا واقف ہے۔ اسی ٹارزن کی طرح رستم اور سہراب بھی دو افسانوی کردار ہیں جو برَّصغیر پاک و ہند سمیت پورے ایشیا میں مشہور ہیں۔ رستم باپ ہے اور اور سہراب بیٹا اور یہ دونوں جنگجو پہلوان ہیں۔ یہ فارسی زبان کے کردار ہیں‌ جن کے خالق مشہورِ زمانہ شاعر فردوسی ہیں۔ ان کی مشہور تصنیف ” شاہ نامہ” کے یہ کردار بہت مقبول ہوئے اور آج بھی ان کی کہانیاں‌ بڑے شوق سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔ ایسی رزمیہ کہانیاں یورپ میں بھی لکھی گئی ہیں جن میں ہومر کی تخلیق "اوڈیسی” بھی بہت مشہور ہے۔

    برِّصغیر میں الہ دین کا چراغ بھی بہت مشہور ہے۔ سند باد جہازی بھی ایک فرضی کردار ہے۔ اس پر بے شمار فلمیں بن چکی ہیں جب کہ حاتم طائی ایک حقیقی کردار ہے، لیکن اس کردار کو بھی افسانوی رنگ دیا گیا ہے۔ الہ دین کا چراغ، سند باد جہازی اور حاتم طائی کے کرداروں کے تخلیق کاروں کا نام شاید کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔

    شرلاک ہومز بھی دنیا کے مشہور افسانوی کرداروں میں سے ایک ہے۔ اس کردار کے خالق سر آرتھر کانن ڈوئل ہیں۔ جاسوس شرلاک ہومز کی ذہانت پر مبنی کہانیاں پوری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں۔ اس حیرت انگیز کردار کے خالق کو انگلینڈ کی حکومت نے "سَر” کا خطاب دیا تھا۔ ڈوئل کے یہ ناول اتنے مقبول تھے کہ جب ڈوئل نے ایک ناول میں شرلاک ہومز کو مار دیا تو پورے یورپ میں ایک کہرام مچ گیا جس کی وجہ سے ناول نگار کو مجبور ہو کر اسے دوبارہ "زندہ” کرنا پڑا۔

    نک ویلوٹ ایک جدید ترین افسانوی کردار ہے جسے امریکا کے ایک نام ور کہانی نویس کارڈی ہاک نے تخلیق کیا ہے۔ نک ویلوٹ کی کہانیاں پوری دنیا میں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ اس کردار پر امریکا میں متعدد ٹیلی ویژن سیریز بھی چل چکی ہیں۔

    ڈریکولا کا نام بھی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہ ڈریکولا بھی ایک فرضی کردار ہے۔ یہ ایک ماورائی کردار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس کردار کے خالق کا نام برام اسٹوکر ہے جو اپنی ہیبت ناک کہانیوں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ڈریکولا ان کا ایک شاہ کار ناول ہے جس پر لاتعداد فلمیں بنائی گئی ہیں۔ آج برام اسٹوکر کو اتنے لوگ نہیں جانتے جتنا کہ ڈریکولا کے کردار سے واقف ہیں۔

    برصغیر پاک و ہند کے لوگ عمرو عیّار کے نام سے اچھی طرح آگاہ ہوں گے۔ یہ کردار ” طلسم ہوش ربا” نامی کتاب کے علاوہ "داستانِ امیر حمزہ ” میں بھی ملتا ہے۔ عمرو عیار کی زنبیل بھی بہت مشہور ہے اور اردو بولنے والے اکثر موقع کی مناسبت سے اس کا حوالہ دے کر بات کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ جادوگر افراسیاب کا تذکرہ بھی ہوتا ہے، جو کہ اس داستان کا ایک مرکزی منفی کردار ہے جو بہت مشہور ہے۔

  • معروف سراغ رساں شرلاک ہومز کی بہن نیٹ فلکس پر تہلکہ مچانے کو تیار

    معروف سراغ رساں شرلاک ہومز کی بہن نیٹ فلکس پر تہلکہ مچانے کو تیار

    امریکی ویڈیو اسٹریمنگ سروس نیٹ فلکس نے نئی فلم کی ریلیز کی تاریخ کا اعلان کردیا، فلم اینولا ہومز مشہور و معروف سراغ رساں شرلاک ہومز (فرضی کردار) کی بہن کی کہانی ہے۔

    نیٹ فلیکس نے اینولا ہومز کا پہلا ٹیزر ایک روز قبل جاری کیا جبکہ اس کا پوسٹر گزشتہ رات جاری کیا گیا ہے۔ پوسٹر کے مطابق فلم 23 ستمبر کو نیٹ فلکس پر ریلیز کردی جائے گی۔

     

    View this post on Instagram

     

    alone loshme reeebtpms wnettyrhitd 🕵️‍♀️🔍

    A post shared by Netflix US (@netflix) on

     

    View this post on Instagram

     

    one mystery is solved: Millie Bobby Brown is ENOLA HOLMES — only on Netflix Sept. 23rd 🔎

    A post shared by Netflix US (@netflix) on

    فلم میں اینولا کا مرکزی کردار ملی بوبی براؤن ادا کر رہی ہیں جبکہ ان کے بھائی شرلاک ہومز کا کردار ہنری کیول ادا کریں گے جو اپنے کردار سپر مین کے لیے مشہور ہیں۔

    ہیلینا بونہم کارٹر ان دونوں کی والدہ یوڈوریا ہومز کا کردار ادا کریں گی اور ناول کے مطابق اینولا کی زندگی میں ان کا کردار نہایت اہم ہے۔

    نیٹ فلکس کی جانب سے جاری کردہ تصاویر

    یاد رہے کہ جاسوسی کی دنیا کا مشہور کردار شرلاک ہومز ایک فرضی کردار تھا، اس کے مصنف سر آرتھر کونن ڈائل نے یہ کردار جوزف بیل (1911-1837) نامی ایک شخص سے متاثر ہو کر لکھا تھا۔ جوزف اور آرتھر اسکاٹ لینڈ کے دارالحکومت ایڈنبرا سے تعلق رکھتے تھے۔

    شرلاک ہومز (تخیلاتی کردار)

    جوزف ویسے تو ڈاکٹر تھے تاہم وہ بالکل شرلاک جیسی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ذہانت، باریک بینی، فوری مشاہدہ اور واقعات کا فوری اور صحیح تجزیہ کرلینے جیسی صلاحیتوں کے باعث وہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بھی مختلف معمے حل کرنے میں مدد دیا کرتے تھے۔ جوزف مشاہدے اور باریک بینی کو اپنا بنیادی ہتھیار گردانتے۔

    ڈاکٹر جوزف ملکہ وکٹوریہ کے ذاتی معالج اور میڈیکل کی ابتدائی کتابوں کے مصنف بھی تھے، وہ اکثر کسی اجنبی کو راہ چلتے روکتے اور صرف چال ڈھال، حرکات و سکنات اور حلیے سے اس کا پیشہ اور حالیہ سرگرمیاں بتا دیتے۔

    شرلاک ہومز کے مصنف آرتھر کونن ڈائل نے 1977 میں رائل انفرمری ہسپتال ایڈنبرا میں ڈاکٹر جوزف کے کلرک کے طور پر ملازمت اختیار کی۔

    ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے جوزف نے ان کی عادات دیکھیں تو شرلاک کا فرضی کردار تخلیق کر ڈالا۔ ان کی کہانیوں کا ایک اور کردار ڈاکٹر واٹسن کا بھی تھا جو شرلاک کا معاون تھا۔

    شرلاک کی بہن اینولا ہومز کا کردار امریکی مصنفہ نینسی اسپرنگر کا تخلیق کردہ ہے، نینسی نے 50 کے قریب کتابیں لکھی ہیں جبکہ متعدد ایوارڈز بھی حاصل کیے ہیں، اینولا ہومز کے بارے میں انہوں نے 6 ناولز لکھے ہیں۔

    ناول کے مطابق اینولا کی کہانی اس کی سولہویں سالگرہ سے شروع ہوتی ہے جب اس کی والدہ لاپتہ ہیں اور اس کے بھائی شرلاک اور مائی کرافٹ زبردستی اسے واپس اسکول بھیج دیتے ہیں۔

    نیٹ فلکس کی جانب سے جاری کردہ تصاویر

    تاہم اینولا لڑکے کے بھیس میں فرار ہو کر لندن پہنچ جاتی ہے اور سراغ رسانی شروع کردیتی ہے۔ ناول کے مطابق وہ اپنے جاسوس بھائی شرلاک، جس کی ذہانت کی ایک دنیا معترف ہے، سے بھی زیادہ ذہین ہے اور اس جیسی ہی صلاحیتوں کی مالک ہے۔

    شرلاک ہومز کے بارے میں اب تک متعدد فلمز اور ڈرامے بنائے جاچکے ہیں جبکہ بی بی سی کی پروڈکشن سیریز شرلاک نیٹ فلکس پر بھی دستیاب ہے، اینولا ہومز کے بارے میں یہ پہلی فلم ہے جس کے ہدایت کار ہیری بریڈبر ہیں۔