Tag: شریف خاندان

  • سپریم کورٹ نے نیب کی حدیبیہ پیپرملزکیس دوبارہ کھولنے کی اپیل مسترد کردی

    سپریم کورٹ نے نیب کی حدیبیہ پیپرملزکیس دوبارہ کھولنے کی اپیل مسترد کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان  نے نیب کو حدیبیہ پیپرملزکیس دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دی،  عدالت نے نیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نیب کےدلائل سےمطمئن نہیں ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپرملزکیس کی سماعت کی، سپریم کورٹ کے3رکنی بینچ نے مختصرفیصلہ سناتے ہوئے نیب کی اپیل مسترد کردی اور کہا کہ عدالت نیب کےدلائل سےمطمئن نہیں ہوئی، درخواست مسترد کرنے کی وجہ تحریری فیصلےمیں بتائی جائےگی۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر اسپیشل پراسیکیوٹر نیب شاہ خاور نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی تک میرا کردار نگران کا ہوگا، پراسیکیوٹرجنرل کا عہدہ خالی ہونے پرنوٹیفکیشن جاری نہیں ہوسکا، اسپیشل پراسیکیوٹر کا تقرر پراسیکیوٹر جنرل کرتا ہے۔

    جسٹس قاضی فائزنے ریمارکس دیے کہ جس بیان پرآپ کیس چلا رہے ہیں وہ دستاویزلگائی ہی نہیں، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ اسحاق ڈارکے بیان کونکالاجائے توان کی حیثیت ملزم کی ہوگی۔

    سماعت میں جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ اسحاق ڈارکوتوآپ نے فریق ہی نہیں بنایا، ہم اپیل نہیں سن رہے ابھی تاخیر پرکیس ہے، تاخیرکی رکاوٹ دورکریں پھرکیس بھی سنیں گے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسارکیا کہ چارج کب فریم کیا گیا، ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ملزم کے نہ ہونے سے چارج فریم نہیں کیا جاسکا،  کئی سال کیس چلا اور چارج فریم نہیں کیا گیا، جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے ریماکس دیے کہ کیس کی کاپی پرکوئی حکم امتناع نہیں تھا۔


    حدیبیہ کیس: نیب کی بنائی گئی کہانی باربارتبدیل ہورہی ہے‘ سپریم کورٹ


    دوران سماعت جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ کیا آپ نے ریفرنس بحالی کے لیےکچھ کیا، جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ احتساب عدالت کی آخری سماعت کا حکم نامہ دکھائیں۔

    نیب پراسیکیوٹر عمران الحق نے کہا کہ آخری سماعت کا حکم نامہ پاس نہیں ہے، جسٹس مظہرعالم نے ریماکس دیے کہ آپ کی نیت کاپتہ تواحتساب عدالت کارروائی سے چلے گا، حکم امتناع کےباعث احتساب عدالت کی کارروائی نہیں چلی، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ یہ سب کچھ بہت دلچسپ ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ریفرنس تب فائل ہوا جب مشرف کی حکومت تھی، مشرف نے چیئرمین نیب لگایا،  چیئرمین کے دستخط کا حکم ملا تو2 سال بعد درخواست دی، نیب درخواست دائر کرکے بھول گیا، حکم امتناع کی درخواست کے بھی ایک سال بعد نیب نے رابطہ کیا، جو ریکارڈ میں نہیں ہے کہہ دیں نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے آپ اس سب کےذمہ دار نہیں ہیں جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ غلط یا صحیح تھا مگر اپیل دائرنہیں کی گئی،  آپ کو کہنا چاہیے ہائی کورٹ کا فیصلہ غلط تھا جبکہ آپ کہہ رہے ہیں مشرف کے چیئرمین نے کیس خراب کیا؟ سوال اٹھے گا ریفرنس بنا کرچھوڑ دیں گے، کیا ریفرنس تب استعمال کریں گے جب ضرورت پڑے گی۔

    انکا مزید اپنے ریمارکس دیے کہ نیب کےکام میں مداخلت کرنے والےکے خلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے، نیب اتنے سال سے کیا کررہا ہے، مشرف دورمیں نوازشریف کوسزا بھی ہوئی جبکہ سزا بڑھانے کے لیے درخواستیں بھی دائرہوئیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ایسےمقدمات میں سیاسی پہلو بھی ہوتےہیں جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی تحقیقات میں نئے شواہد سامنے آئے۔


    مزید پڑھیں : حدیبیہ پیپرزملز کیس: سپریم کورٹ نےنیب سےتمام ریکارڈ طلب کرلیا


    عمران الحق نے کہا کہ شواہد پرنیب میٹنگ میں سپریم کورٹ میں اپیل دائرکرنے کا فیصلہ ہوا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ پاناما آبزرویشن کے بجائے نیب اپنے پاؤں پرکھڑا ہو۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ جب تک لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم نہ ہوتحقیقات نہیں ہوسکتی جبکہ اسپیشل پراسیکیوٹر نیب کی جانب سے نوازشریف کیس کا حوالہ دیا گیا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ نوازشریف کیس میں سزاہوئی تھی جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ اس کیس میں 8 سال 136 دن تاخیرتھی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر جسٹس مشیرعالم نے نیب وکیل کو ہدایت کی تھی کہ آئندہ سماعت پردلائل شواہد تک محدود رکھیں، عدالت کو منی ٹریل اوراپیل میں تاخیرمیں مطمئن کرنا ہوگا۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے تھے کہ کیس کے میرٹ کاجائزہ لینا ٹرائل کورٹ کا کام ہے، ضرورت پڑی تو تکینکی ماہر کو بھی سن لیں گے، اصل رکاوٹ تاخیر سے اپیل دائر کرنا ہے۔

    گذشتہ سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا نیب کو مزید تحقیقات کے لیے پچاس سال لگ جائیں گے۔

    جسٹس قاضی فائز نے ریماکس دیے کہ تھے ہمارےساتھ کھیل نہ کھیلیں، حدیبیہ کیس فوجداری مقدمہ ہے، سپریم کورٹ بیانات چھوڑیں شواہد بتائیں۔

    یاد رہے کہ پانامہ کیس کے دوران عدالت کے سامنے نیب نے اس کیس میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کیس میں پنجاب کے وزیر اعلی شہبازشریف کا نام شامل ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے نیب کا ریفرنس خارج کرتے ہوئے نیب کو حدیبیہ پیپرز ملز کی دوبارہ تحقیقات سے روک دیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  حدیبیہ پیپر ملز، اسحاق ڈار کے خلاف بحثیت ملزم تحقیقات کا آغاز


    جس کے بعد نیب نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان اس کیس کو دوبارہ کھولنے جارہی ہے جبکہ حدیبیہ کیس کےحوالےسے چیئرمین نیب کوبھی عدالت میں طلب کیا گیا تھا ۔

    خیال رہے کہ یہ کیس شہباز شریف کی سیاست کے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے

    واضح رہے کہ حدیبیہ ریفرنس سترہ سال پہلےسن دوہزارمیں وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے اعترافی بیان پرنیب نےدائرکیاتھا۔انہوں نےبیان میں نوازشریف کے دباؤپرشریف فیملی کے لیے ایک ارب چوبیس کروڑ روپےکی منی لانڈرنگ اورجعلی اکاؤنٹس کھولنےکااعتراف کیاتھا۔

    شریف برادران کی جلاوطنی کے سبب کیس التواءمیں چلا گیا تھا ۔ سنہ 2011 میں شریف خاندان نے اس کیس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا‘ عدالتِ عالیہ نےاحتساب عدالت کوکیس پرمزیدکارروائی سےروکا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • نیب ٹیم شریف خاندان کیخلاف مزیدثبوت اکھٹے کرنے کیلئے لندن پہنچ گئی

    نیب ٹیم شریف خاندان کیخلاف مزیدثبوت اکھٹے کرنے کیلئے لندن پہنچ گئی

    اسلام آباد : شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کے معاملہ پر نیب لاہور کی دو رکنی ٹیم لندن پہنچ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کا معاملہ نیب لاہور کی دو رکنی ٹیم لندن پہنچ گئی، تحقیقاتی ٹیم ایک ہفتہ لندن میں قیام کرے گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب ٹیم کی جانب سے کرپشن ریفرنسز سے متعلق مزیدثبوت جمع کیے جائیں گے، نیب افسر لندن فلیٹس اور فلیگ شپ کمپنیز کے حوالے سے دستاویزات تلاش کریں گے۔

    جس کے بعد نئے ثبوت ثبوتوں کی بنیاد پر احتساب عدالت میں ضمنی ریفرنس بھی دائر کیا جا سکتا ہے۔

    نیب کی ٹیم شریف فیملی کے خلاف شواہد اکٹھے کرنے کیلئے لندن میں گورنمنٹ اور پرائیویٹ اداروں کے علاوہ مختلف افراد سے ملاقات کرے گی۔

    اس سے قبل نیب کی ٹیم نے دبئی، سعودی عرب اور لندن سے شریف خاندان کے خلاف مزید تصدیق شدہ دستاویزات حاصل کرلیں جن میں یو اے ای حکومت نے گلف اسٹیل فروخت کرنے کے دعویٰ کو جھوٹا قرار دیا تھا۔


    مزید پڑھیں : نیب کو شریف خاندان کے غیر قانونی اثاثوں کی تصدیق شدہ دستاویزات حاصل


    یاد رہے کہ احتساب عدالت شریف خاندان کیخلاف ریفرنسز میں سابق وزیراعظم کے بیٹوں حسن اورحسین نواز کو اشتہاری قرار دے چکی ہے اور ناقابل ضمانت وارنٹ جاتی کئے ہوئے ہیں ۔

    خیال رہے پاناما کیس میں نیب کو بھیجے گئے ریفرنسسز کی سماعت جاری ہے جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر پیش ہو چکے ہیں جب کہ حسین و حسن نواز تاحال لندن میں مقیم ہیں۔

    یاد رہے کہ 19 اکتوبر کو احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی روز عزیزیہ اسٹیل ریفرنس میں بھی نواز شریف پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔

    بعد ازاں عدالت کا وقت ختم ہونے کے باعث اس سے اگلے روز 20 اکتوبر کو  فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی نامزد ملزم نواز شریف پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔

    واضح رہے کہ کہ لندن فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف ان کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نواز، مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کوملزم نامزد کیا گیا دیگر دو ریفرنسز العزیزیہ اسٹیل ملزجدہ اور آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنسز میں نوازشریف سمیت ان کے دونوں صاحبزادوں کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپرزملزکیس کی سماعت کل تک ملتوی

    سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپرزملزکیس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس کی سماعت کل 11 بجے تک ملتوی کردی، عدالت نے نیب سے جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرزملز کیس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرجسٹس مشیر عالم نے ریماکس دیے کہ جس بنیاد پرسماعت ملتوی کرانا چاہتے ہیں یہ کوئی نکتہ نہیں ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ کیوں نہ آپ کےخلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں، ہمارے لیے ہر کیس ہائی پروفائل ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ عدالت کا مذاق نہ اڑائیں۔

    ڈپٹی چیئرمین نیب امتیاز تاجوربھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جبکہ نیب کے پراسیکیوٹرعمران الحق دلائل دے رہے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ کیا ملزم پر اگست 2007 سے پہلے ٹرائل چلا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ملزم پاکستان میں نہیں تھا۔

    نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ ملزم کے پاکستان آنے کا انتظار کرتے رہے جس پر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ کیا ملزم کو پا کستان آنے سے روکا گیا۔

    جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ کیا حکومت نے روکا، حکومت مزاحمت کر رہی تھی، نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ نہیں حکومت نے نہیں روکا تھا۔

    جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ نیب نے 2000 میں ریفرنس فائل کیا، ملزم 2007 میں واپس آیا اورابھی تک آپ نے کچھ نہیں کیا۔

    انہوں نے کہا کہ آپ ایک دستخط کے لیے 2 سال پھنسے رہے جس پر پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس پرا سٹے آرڈر دیا گیا۔

    عمران الحق نے کہا کہ درخواست 17 اکتوبر 2011 میں دائر کی گئی، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہمارا سوال ہے کہ معاملہ سرد خانے میں کیوں رکھاگیا؟۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ کیا ملزمان کراچی میں زیرحراست تھے، جسٹس قاضی فائز نے سوال کیا کہ کیا اٹک قلعےمیں عدالت بھی ہے۔

    جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہ کیس اٹک قلعہ میں کیوں چلایا گیا کچھ وجوہات ہوں گی جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ وجوہات میرے علم میں نہیں ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کوئی حکم نامہ ہوگا جس کے تحت کیس جیل میں چلایا گیا ہوگا، ہارون پاشا کوبری کیا گیا لیکن وجوہات نہیں لکھیں، اس وقت پاکستان کوکون سی حکومت چلارہی تھی۔

    عمران الحق نے جواب دیا کہ اس وقت چیف ایگزیکٹوپرویزمشرف تھے، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ ملزم اٹک میں تھا تو طیارہ ہائی جیکنگ کیس کراچی میں کیسے چلا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ کیا جلاوطنی کی کوئی قانونی حیثیت ہے، مفرور کا تو سنا تھا جلا وطنی کا حکم کیسا ہے؟۔

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی جلاوطنی کا حکم کس نے دیا، نیب کے وکیل عمران الحق نے جواب دیا کہ معاہدے کے تحت نواز شریف کو باہر بھیجا گیا۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف خود ملک سے باہر گئے تھے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریماکس دیے کہ خود باہر گئے تھے تو مفرور کی کارروائی ہونی چاہیے تھی۔

    جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ اس کیس کے اندر نئے قواعد بنائے گئے، جسٹس مشیر عالم نے ریماکس دیے کہ کیا کل حکومت کسی دوسرے ملزم کو معاہدہ کر کے باہر جانے دے گی۔

    جسٹس قاضی فائز نے ریما کس دیے کہ کیا نیب نے جلاوطنی کی سہولت کار ی پر کارروائی کی، عمران الحق نے جواب دیا کہ نواز شریف جیل کی کسٹڈی میں تھے۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ملک میں واپس آئے، جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ اگرنوازشریف خود گئے تھے توواپسی کے لیے درخواست نہ دینا پڑتی۔

    جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ ملزمان کی وطن واپسی پرگرفتارکیوں نہیں کیا گیا، عمران الحق نے جواب دیا کہ کیس چلنے کے بعد عدالت ہی گرفتاری کا حکم دے سکتی تھی۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ اصل ریفرنس کیا تھا، شکایت کس کی تھی، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ ملزمان کی جانب سے دباؤ کیسے ہوا اس پردلائل دیں۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ پہلے کیس کودوبارہ کھولنے پردلائل دیں پھرمیرٹ پر دیں، نیب کے وکیل عمران الحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاناماکیس میں سپریم کورٹ نے حدیبیہ کا تعلق کہا ہے۔

    جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ نیب موقف کے مستقبل میں سنجیدہ نتائج نکلیں گے، کیا یہ ایک خطرناک مثال نہیں ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ پاناما نہ ہوتا توپھرکیا آپ نے کچھ نہیں کرنا تھا، پاناما فیصلے کاآپریٹوحصہ پڑھیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ پانامافیصلےمیں حدیبیہ سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا، لکھا گیا ہے جب نیب اپیل دائرکرے تودیکھا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ اگرسپریم کورٹ نے حکم دیا توہم سماعت کیوں کررہے ہیں، آپ اقلیتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ اقلیتی رائے ہم پرلازمی نہیں ہے، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہم آپ سےکہہ چکے ہیں اقلیتی فیصلہ نہ پڑھیں۔

    عدالت نے نیب سے جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق تفصیلات طلب کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ اکاؤنٹس کھلوانےکے لیے کون گیا تھا؟ منیجرنے کسی کے کہنے پرکسی اورکے نام پراکاؤنٹس کیسے کھولے۔

    سپریم کورٹ نے نیب سے سوال کیا کہ کیا بینک منیجرکوبھی ملزم بنایا گیا ہے، عدالت نے نیب کو ہدایت کی کہ کل سوالات کےجوابات پیش کریں۔

    خیال رہے کہ نیب کی جانب سے دو روز قبل سپریم کورٹ میں حدیبیہ کیس کے حتمی ریفرنس کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 8 اے کی عبوری نقل پیش کی گئی جس میں حدیبیہ ریفرنس کی نقل بھی شامل تھی۔


    حدیبیہ پیپرزملز کیس: سپریم کورٹ نےنیب سےتمام ریکارڈ طلب کرلیا


    نیب نے احتساب عدالت کی جانب سے سنے گئے حدیبیہ ریفرنس کا ریکارڈ بھی عدالت میں جمع کرایا اور ساتھ ہی چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار اور 1999 سے اب تک ہونے والے تمام چیئرمینز کی تقررری کی فہرست جمع کرائی۔

    سپریم کورٹ میں نیب نے نوازشریف کے وزیراعظم رہنے اور پرویز مشرف کی جانب سے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد کی ٹائم لائن بھی جمع کرائی۔

    یاد رہے کہ لاہورہائی کورٹ نے 2014 میں تکنیکی بنیاد پرحدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کالعدم قراردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شریف خاندان کےخلاف نیب ریفرنسزکی سماعت 19 دسمبر تک ملتوی

    شریف خاندان کےخلاف نیب ریفرنسزکی سماعت 19 دسمبر تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت 19 دسمبر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بیشرنے شریف خاندان کے نیب کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنسز کی سماعت کی۔

    عدالت میں سماعت کے آغازپرسابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث استغاثہ کے گواہ ملک طیب سے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس جو لوگ چیک لاتے تھےانہیں ذاتی طور پر جانتے ہیں۔

    ملک طیب نے جواب دیا کہ میں ان لوگوں کو ذاتی حیثیت میں نہیں جانتا جس پرنوازشریف کے وکیل نے کہا کہ آپ نے صرف دستیاب دستاویزات کو پڑھ کر بیان دے دیا۔

    استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے کہا کہ میرے پاس جو ریکارڈ تھا اسی کے مطابق بیان دیا۔

    نوازشریف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ استغاثہ کےگواہ آفاق احمد کے بیان کی کاپی فراہم کی جائے۔

    نیب کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ آفاق احمد کے بیان کی کاپی سپریم کورٹ میں جمع ہے، بیان کی کاپی فراہم کرنے کے لیے وقت دیا جائے۔

    دوسری جانب ایون فیلڈ ریفرنس میں گواہ اسسٹنٹ ڈائریکٹرنیب عدیل اختر کا بیان قلمبند کرلیا گیا، خواجہ حارث نے گواہ پرجرح بھی مکمل کرلی۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا کہ آج کمرہ خالی خالی نظر آ رہا ہے، ایسا لگتا ہے سب عمران خان کی طرف گئے ہیں میڈیا والے بھی کم ہی نظر آ رہے ہیں۔

    عدالت نے شریف خاندان کے خلاف تینوں ریفرنسزکی سماعت 19دسمبرتک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر نوازشریف، مریم نواز، کیپٹن(ر) صفدرکوطلب کرلیا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر نوازشریف کی معاون وکیل نے کہا تھا کہ نورین شہزاد اپنے ادارے کا اتھارٹی لیٹرپیش کرنے میں ناکام رہیں، ان کی دستاویزات کوریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا، دستاویزات کوریکارڈ سےخارج کیا جائے۔


    نوازشریف کےمختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات عدالت میں پیش


    عدالت نے عائشہ حامد کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے نورین شہزاد کی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا گیا تھا۔

    استغاثہ کے گواہ ملک طیب کی جانب سے نوازشریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف کےغیرملکی کرنسی اکاؤنٹ کی تفصیلات عدالت میں پیش

    نوازشریف کےغیرملکی کرنسی اکاؤنٹ کی تفصیلات عدالت میں پیش

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران نوازشریف کےغیرملکی کرنسی اکاؤنٹ کی تفصیلات عدالت میں پیش کردی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کررہے ہیں۔

    عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ کے 3 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے جن میں ملک طیب، عمردراز اور مختاراحمد شامل ہیں۔

    احتساب عدالت میں نوازشریف کے اکاؤنٹ سے مریم نواز اور دیگر افراد کو جاری چیک کی تفصیلات پیش کردی گئیں۔

    عدالت میں پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق نوازشریف کی صاحبزادی مریم نوازکو13 جون 2015 کو 12 ملین روپے کا چیک دیا گیا۔

    استغاثہ کے گواہ کے مطابق مریم نوازکے نام 15 نومبر2015 کو28.8 ملین روپے کاچیک دیا گیا، نواز شریف نے مریم نوازکو14 اگست 2016 کو19.5 ملین روپےکا چیک دیا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ کی تفصیلات احتساب عدالت میں پیش کردی گئیں۔

    احتساب عدالت میں پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق حسین نواز نے 30جون 2010 کو60 ہزار500 ڈالرز نوازشریف کوبھیجے۔

    حسین نواز نے 20 نومبر 2011 کو 90 ہزار ڈالرزنواز شریف کو بھیجے جبکہ 19ا کتوبر 2012 کونواز شریف نے 3 بار8 لاکھ ڈالرز بینک سے نکلوائے۔

    عدالت میں جمع کرائی گئی تفصیلات کے مطابق 30اپریل 2013 کو 4 چیکس سے 10 لاکھ ڈالرز پاکستانی اکاونٹ میں منتقل کیے گئے۔

    سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نوازاستثنیٰ کے باعث احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوں گی۔


    نوازشریف کی نیب ریفرنسزکویکجا کرنےکی درخواستیں مسترد


    خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق نا اہل وزیراعظم نوازشریف کی نیب ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز سماعت پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی ایک ہفتے کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی تھی۔

    عدالت نے مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست میں ردوبدل کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کا استثنیٰ 15 دسمبر تک برقرار رکھا تھا۔

    واضح رہے کہ شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز میں 5 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوچکے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • احتساب عدالت میں کیپٹن صفدرکی حاضری سےاستثنیٰ کےلیےدرخواست دائر

    احتساب عدالت میں کیپٹن صفدرکی حاضری سےاستثنیٰ کےلیےدرخواست دائر

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف کے داماد کیپٹن صفدر نے بھی نیب ریفرنسز میں حاضری سے استثنیٰ کے لیے احتساب عدالت میں درخواست دائر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کررہے ہیں۔

    کیپٹن صفدر نے اپنے وکیل کے ذریعے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جس میں عدالت سے 15 روز کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی استدعا کی گئی ہے۔

    احتساب عدالت میں کیپٹن صفدر کی عدم پیشی پرفیصل عرفان ایڈووکیٹ پیش ہوں گے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز سماعت پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی ایک ہفتے کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی تھی۔

    عدالت نے مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست میں ردوبدل کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کا استثنیٰ 15 دسمبر تک برقرار رکھا تھا۔


    شریف خاندان کےخلاف نیب ریفرنسزکی سماعت


    واضح رہے کہ احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت جاری ہے جبکہ آج 3 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے جائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • حدیبیہ پیپرزملز کیس: سپریم کورٹ نےنیب سےتمام ریکارڈ طلب کرلیا

    حدیبیہ پیپرزملز کیس: سپریم کورٹ نےنیب سےتمام ریکارڈ طلب کرلیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرزملز کیس کی سماعت 11 دسمبر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرزملز کیس کی سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز پر نیب اسپیشل پراسیکیوٹرعمران الحق کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ریفرنس تکنیکی بنیادوں پرخارج کیا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ اصل ریفرنس کہاں ہے جس پرنیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اصل ریفرنس میرے پاس نہیں ہے۔ جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ اصل ریفرنس کا ہونا ہمارے لیے ضروری ہے۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹرعمران الحق نے جواب دیا کہ جےآئی ٹی نے بھی کافی شواہد جمع کیے ہیں، عدالت نے جےآئی ٹی رپورٹ کا والیم 8 طلب کر لیا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ آپ کوتمام ریکارڈ جمع کرانا چاہیے تھا، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے کس والیم میں حدیبیہ کا ذکرہے۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ منی لانڈرنگ کے لیے اکنامک ریفارمزایکٹ کا سہارا لیا گیا جبکہ شریف خاندان کے پاس غیرقانونی رقم موجود تھی۔

    عمران الحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ کرکے پیسہ بیرون ملک بھیجا گیا، تمام وائٹ کی گئی رقم حدیبیہ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئی۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ میرٹ ہم دیکھیں گے، نیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اسحاق ڈارکے ذریعے جعلی بینک اکاؤنٹ کھولے گئے۔

    انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان کی آمدن کم اوراثاثےزیادہ ہیں، ریفرنس کے دوران اسحاق ڈارکا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا۔

    عدالت نے ریماکس دیے کہ ریفرنس میں لکھا ہے نوازشریف کوزبردستی باہربھیجا گیا، ریفرنس میں دوسری جگہ لکھا ہے نوازشریف بیرون ملک چلے گئے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ نیب کی نظرمیں نوازشریف خود گئے یا بھیجےگئے جس پرنیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ پرویزمشرف کے حکم پرنوازشریف کو بیرون ملک بھیجا گیا۔

    عمران الحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کی پرویزمشرف سےڈیل ہوئی تھی جس پر عدالت نے ریماکس دیے کہ کسی کوجبری بیرون ملک بھیجنا یاعدالت سے فرارالگ چیزیں ہیں۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 6 سال ریفرنس دفترداخل رہا، ملزمان کی واپسی پرمقدمہ دوبارہ شروع ہوا۔

    عدالت نے ریماکس دیے کہ 2008 میں عدالت نے ازسرنو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ کیا چیئرمین نیب کےدستخط سےریفرنس دائرہوا۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹرعمران الحق نے جواب دیا کہ دوبارہ ریفرنس دائرنہیں کیا جاسکا، ملزمان کی واپسی پرمقدمہ دوبارہ شروع ہوا۔

    جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ نوازشریف جلا وطن کب ہوئے، عدالت نے ریماکس دیے کہ اس سے پہلے 9 ماہ ملزمان ملک میں رہے، ٹرائل مکمل کیوں نہ ہوا۔

    عدالت نے ریماکس دیے کہ ریفرنس دائرکرکے مکمل نہ کرنا اورملزم کو ٹارچرکرنا انصاف نہیں ہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا نیب کے قانون میں کوئی ٹائم فریم ہے۔

    عمران الحق نے جواب دیا کہ نیب قانون کے تحت ایک ماہ میں ریفرنس دائرکرنا ہوتا ہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ہوسکتا ہے متعلقہ عدالت نے درست فیصلہ کیا ہو۔

    عدالت نے ریماکس دیے کہ 27مارچ 2000 سے 10 دسمبر2000 تک کچھ نہیں ہوا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ کیا نوازشریف پرویزمشرف پربھی اثراندازہوئےتھے۔

    جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ نوازشریف کی واپسی پربھی حکومت پرویزمشرف کی تھی، 27 نومبر2007 کونوازشریف آئے، نیب پھر9 ماہ خاموش رہا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ 9 ماہ بعد نیب نے ریفرنس بحالی کی درخواست دی، ملزم مفرورہوا تو کیس مختلف ہوتا ہے۔

    انہوں نے ریماکس دیے کہ عدالت نےقانونی معیارکابھی جائزہ لیناہے، ریفرنس کے وقت کیا شریف خاندان اقتدارمیں تھا؟۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شریف خاندان کا اثرورسوخ 2014 میں پیدا ہوا اور اسی سال ہائی کورٹ نے ریفرنس خارج کیا۔

    عمران الحق نے دلائل دیتےہوئے کہا کہ ہائی کورٹ نے نیب کوازسرنوتحقیقات سےروکا تھا، جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ ریفری جج نے2 میں سے ایک جج کے فیصلے سے متفق ہونا تھا۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ریفری جج نےایک جج کا فیصلہ بھی کالعدم قراردیا تھا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ ریفرنس طویل مدت کےلیے زیرالتوا نہیں رکھا جاسکتا۔

    جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ آپ سمجھے اپیل دائرہوگی اورہم حکم جاری کردیں گے، ،نیب اسپیشل پراسیکیوٹرعمران الحق نے کہا کہ پاناما کیس میں عدالت نے جےآئی ٹی بنائی۔

    عمران الحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ کے بعد اپیل دائرکی جس پرجسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ ہم پاناماکیس نہیں سن رہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نےجواب دیا کہ پاناما کیس کا حدیبیہ کیس سے براہ راست تعلق ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ریفرنس سےمتعلق شکایت کس نےدرج کرائی جس پر،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہوسکتا ہے کسی مخبرکی اطلاع پرتحقیقات ہوئی ہوں۔

    جسٹس فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ حدیبیہ پیپرزملز1999 تک خسارے میں تھی، جسٹس مشیرعالم نے نیب پراسیکیوٹرکو ہدایت کی کہ اصل ریفرنس پردلائل دیں۔

    نیب پراسیکیوٹرعمران الحق نے کہا کہ حدیبیہ ریفرنس پرمیری تیاری نہیں ہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ حدیبیہ میں کس نوعیت کا فوجداری جرم ہوا بتایا جائے۔

    عدالت نے ریماکس دیے کہ کیس میں نیب قانون کے سیکشن 9 کی کون سی شق لاگو ہوتی ہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ریفرنس میں حکومتی یاسرکاری رقم کا کہیں ذکرنہیں ہے۔

    عمران الحق نے جواب دیا کہ نیب قانون کے سیکشن 9 کی ذیلی شق 5 کا اطلاق ہوتا ہے، کیس آمدن سےزائد اثاثوں کا ہے، عدالت نے ریماکس دیے کہ آپ کیس فائل تک محدود رکھنا چاہتےہیں توآپ کی مرضی ہے۔

    سپریم کورٹ نےٹرائل کورٹ کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ فی الحال ریفرنس کےمیرٹ پرجانےکی ضرورت نہیں ہے، یہ بتائیں ملزمان کب اورکیسے مقدمات پراثراندازہوئے۔

    انہوں نے کہا کہ ریفرنس کےمیرٹ پرفیصلہ کرنا احتساب عدالت کا کام ہے، ایک ملزم عباس شریف انتقال کرچکے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ کےفیصلےسے پہلےعباس شریف کا انتقال ہوا، شریف خاندان نے اپیل میں ترمیم بھی نہیں کی۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہا کہ بتانا ہوگا نیب کے چیئرمین اتنے کمزورکیوں ہوتے ہیں، ریفرنس بناتے وقت چیئرمین نیب کون تھا، چیئرمین نیب کی تقرری کا پہلےطریقہ کیا تھا اوراب کیا ہے۔

    سپریم کورٹ نے نیب کواصل شکایات اوراس کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے ملزمان کب اورکس عوامی عہدے پررہے۔

    چیئرمین نیب کی تقرری کا سابق اورموجودہ طریقہ کارسمیت احتساب عدالت کی کارروائی کی تفصیلات اورحکم نامےبھی عدالت نے طلب کرلیے۔

    عدالت نے نیب سے 2008 میں مقدمہ بحال کرنے کی درخواست طلب کرنے کے ساتھ نیب کوحدیبیہ پیپرزکا اصل ریفرنس جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ بتایا جائےغیر معینہ مدت کے لیےسماعت کیوں ملتوی ہوئی، نیب نےدستاویزات جمع کرانے کے لیے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ سب کچھ توآپ کےپاس موجود ہے جس پر نیب اسپیشل پراسیکیوٹرجواب دیا کہ بہت ساریکارڈ وفاقی حکومت کے پاس بھی ہے۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپرزملزکیس کی سماعت11دسمبرتک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرٹرائل کورٹ اورچیئرمین نیب کے تقررکا تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل چیف جسٹس ثاقب نثار نے رواں ماہ 10 نومبر کو نیب کی درخواست پر شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرزملزریفرنس کی سماعت کے لیے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔


    حدیبیہ پیپرزملزکیس ، جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے سماعت سے معذرت کرلی


    بعدازاں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریفرنس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد بینچ ٹوٹ گیا تھا اور 25 نومبر کو سپریم کورٹ کا نیا بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

    نیب کی جانب سے دائر درخواست میں نا اہل وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو فریق بنایا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ لاہورہائی کورٹ نے 2014 میں تکنیکی بنیاد پرریفرنس کالعدم قراردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • احتساب عدالت میں شریف خاندان 28 نومبر کو دوبارہ طلب

    احتساب عدالت میں شریف خاندان 28 نومبر کو دوبارہ طلب

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم صفدر اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوگئے جہاں ان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسزکی احتساب عدالت میں سماعت ہورہی ہے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔

    پیشی کے لیے نواز شریف، ان کی دختر مریم نواز، اور داماد کیپٹن (ر) صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوگئے ہیں۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث بھی احتساب عدالت میں موجود ہیں۔

    گزشتہ سماعت پر نواز شریف کی جانب سے ایک ہفتے کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی دائر کی گئی۔ درخواست میں کہا گیا کہ اہلیہ کے علاج کے لیے لندن جانا ہے، غیر موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان پیش ہوں گے۔

    دوسری جانب مریم نواز نے بھی نمائندہ مقرر کرنے اور حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی تھی۔

    نیب کی جانب سے استثنیٰ کی مخالفت کی گئی تاہم عدالت نے حاضری سے استثنیٰ کی دونوں درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے نواز شریف کو 7 روز جبکہ مریم نواز کو 1 ماہ کا استثنیٰ دے دیا۔

    نواز شریف استثنیٰ ختم ہونے کے بعد جبکہ مریم نواز عدالتی استثنیٰ ملنے کے باوجود عدالت میں پیش ہوئی ہیں۔


    حاضری سے استثنیٰ کی درخواستوں میں تبدیلی کی درخواست

    آج کی سماعت میں نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواستوں میں تبدیلی کی درخواست دائر کردی گئی ہے۔

    مریم نواز نے ایک ماہ کی حاضری سے استثنیٰ کی مدت میں تبدیلی کی درخواست جمع کرائی۔ ان کا کہنا ہے کہ حاضری سے استثنیٰ کی مدت 5 دسمبر سے 5 جنوری کی جائے۔


    خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر میں گرما گرمی

    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر میں گرما گرمی ہوگئی۔ نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ گواہ کو کنفیوژ کیا جا رہا ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ یہ بے جا مداخلت کرتے ہیں، مجھے اعتراض ہے جب تک گواہ نہ بولے یہ کیوں لقمہ دیتے ہیں جس پر جج محمد بشیر نے دونوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے لڑنا ہے تو پھر میں چلا جاتا ہوں۔

    آج کی سماعت میں شریف خاندان کے خلاف آر آئی اے اے بارکر جیلٹ لا فرم سے تعلق رکھنے والے دو نئے گواہان محمد رشید اور مظہر رضا خان بنگش نے ایون فیلڈ ریفرنس کے حوالے سے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے۔

    آج استغاثہ کے ایک اور گواہ ملک طیب کا مکمل بیان ریکارڈ نہ ہوسکا۔ احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت27 نومبر تک جبکہ ایون فیلڈ پراپرٹی، فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت 28 نومبر تک ملتوی کردی گئی ۔28 نومبر کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک بار پھر طلب کیا گیا ہے۔

    عدالت نے 28 نومبر کو مزید 2 گواہ مختار احمد اور عمردراز کو بھی طلب کرلیا۔


    کب کیا ہوا؟

    یاد رہے کہ 19 اکتوبر کو احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی روز عزیزیہ اسٹیل ریفرنس میں بھی نواز شریف پر فرد جرم عائد کردی گئی۔

    بعد ازاں عدالت کا وقت ختم ہونے کے باعث اس سے اگلے روز 20 اکتوبر کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی نامزد ملزم نواز شریف پر فرد جرم عائد کردی گئی۔

    تاہم نواز شریف نے احتساب عدالت کی جانب سے تین ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواستیں مسترد کرنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا تھا جسے سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا تھا۔

    نیب میں سماعت کے موقع پر نواز شریف کے وکلا کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کے تفصیلی فیصلے تک یہ کیس مزید نہیں چل سکتا، ہائیکورٹ نے 2 درخواستیں دوبارہ سننے کے احکامات جاری کیے تھے۔

    نواز شریف نے تینوں ریفرنس یکجا کرنے کی ایک اور درخواست احتساب عدالت میں بھی دائر کی تھی جسے 8 نومبر کو مسترد کرتے ہوئے نواز شریف پر ایک بار پھر فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔

    نواز شریف پر فرد جرم لندن فلیٹس، العزیزیہ اسٹیل مل اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ میں دوبارہ عائد کی گئی۔ دوسری جانب مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی فرد جرم میں ترمیم کرتے ہوئے کیلبری فونٹ سے متعلق سیکشن 3 اے فرد جرم سے بھی نکال دی گئی تھی۔

    اس کے چند روز بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف نے احتساب عدالت کا 3 ریفرنسز یکجا نہ کرنے کا 8 نومبر کا فیصلہ ایک بار پھر اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا جس کے بعد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کو نوٹس جاری کردیے تھے جبکہ ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت تاحال جاری ہے۔

    نیب عدالت میں 15 نومبر کو ہونے والی سماعت میں شریف خاندان کا فرد جرم عائد ہونے کے بعد باقاعدہ ٹرائل شروع ہوگیا تھا۔

    سماعت میں استغاثہ کے 2 گواہوں ایون فیلڈ اپارٹمنٹ میں سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی اہلکار سدرہ منصور اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں گواہ جہانگیر احمد نے بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

    اسی سماعت پر نواز شریف نے عدالت سے حاضری کی ایک ہفتے کی جبکہ جبکہ مریم نواز نے ایک ماہ کی استثنیٰ کی درخواست کی تھی جسے منظور کرلیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شریف خاندان کے پانچ افراد کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش

    شریف خاندان کے پانچ افراد کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش

    اسلام آباد : نیب لاہور نے شریف خاندان کے پانچ افراد کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئےنیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد سے سفارش کردی،درخواست میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف، مریم، حسن، حسین نواز اور کیپٹن صفدر کو بیرون ملک نہ جانے دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق شریف خاندان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا، کرپشن کیسز میں پیشیوں کا سامنا کرنے والے شریف خاندان کو ایک اور دھچکا لگ گیا۔

    قومی احتساب بیورو (نیب) لاہورنے پاناما کیس میں نامزد ملزمان نواز شریف،  مریم نواز، حسن، حسین نواز اور کیپٹن صفدر کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کردی، جس کیلئے وزارت داخلہ سے بھی رابطہ کر لیا گیا ہے، شریف خاندان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش ایون فیلڈ ریفرنس میں کی گئی ہے۔

    نیب لاہور کی جانب سے نیب ہیڈ کوارٹراسلام آباد کو جاری خط موصول ہوگیا ہے، خط میں کہا گیا ہے کہ پانچوں افراد کے خلاف عدالتوں میں کیس چل رہے ہیں لہٰذا ان کے نام ای سی ایل میں ڈال کر ملزمان کو بیرون ملک نہ جانے دیا جائے۔

    چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال شریف خاندان کا نام ای سی ایل میں ڈالنےکی سفارش کی حتمی منظوری دیں گے، چیئرمین نیب کی منظوری کے بعد یہ نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئےوزارت داخلہ کوخط لکھاجائےگا۔

    یاد رہے کہ پانامہ لیکس کے بعد شریف خاندان مسلسل مشکلات کا شکار ہے، پہلے نواز شریف پر نااہلی کی تلوار چلی اور اب وہ احتساب عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔

    عدالتوں پرتنقید کرنے والی مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بھی غیر قانونی طریقے سے مال بنانے کے چکر میں عدالتوں کا سامنا ہے، نااہل وزیر اعظم کے بیٹے حسن اور حسین نوازکہتے ہیں کہ ان پر پاکستان کا قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔

    دونوں ملزمان بار بار بلانے کے باوجود احتساب عدالت میں پیش نہیں ہو رہے، شریف خاندان کے خلاف لندن اپارٹمنٹس، سعودی عرب میں اسٹیل ملز، فلیگ شپ انویسمنٹ، برٹش ورجن آئی لینڈ میں آف شور کمپنی کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔


    مزید پڑھیں: نیب کا اسحاق ڈار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش 


    یاد رہے کہ اس سے قبل چیئر مین نیب کی منظوری کے بعد نیب حکام نے وزارت داخلہ سے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعظم کے سمدھی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی تھی، اسحاق ڈار ان دنوں علاج کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

    احتساب عدالت میں نواز شریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم صفدر اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوئے جہاں نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے دائر حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں منظور کرلی گئیں۔

    گزشتہ سماعت پر نواز شریف کی تینوں ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواست مسترد کردی گئی اور نواز شریف پر تینوں ریفرنس میں دوبارہ باضابطہ فرد جرم عائد کردی گئی۔

    آج کی سماعت میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز میں باقاعدہ ٹرائل کا آغاز ہوگیا۔ عدالت نے استغاثہ کے 2 گواہوں کو بھی طلبی کے سمن جاری کر رکھے تھے۔

    سب سے پہلے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ میں گواہ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی اہلکار سدرہ منصور نے بیان قلمبند کروایا۔ انہوں نے بتایا کہ نیب کو حدیبیہ پیپر ملزکی سنہ 2000 سے 2005 تک کی آڈٹ رپورٹ پیش کیں، ساتھ ہی سدرہ نے ریکارڈ کی دستاویزات بھی عدالت میں پیش کردیں۔

    وکلا صفائی خواجہ حارث اور امجد پرویز نے گواہ پر جرح کی اور دستاویزات پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ دستاویزات فوٹو کاپیاں ہیں اصل نہیں، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بیان میں کہا کہ نیب آرڈیننس کے مطابق فوٹو کاپیاں ہی ضروری ہوتی ہیں۔

    سدرہ منصور کے بیان اور جرح کے بعد العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں گواہ جہانگیر احمد نے بیان ریکارڈ کروایا۔


    نواز شریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست

    آج سماعت میں نواز شریف کی جانب سے 20 نومبر سے ایک ہفتے کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی دائر کی گئی۔ درخواست میں کہا گیا کہ اہلیہ کے علاج کے لیے لندن جانا ہے، غیر موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان پیش ہوں گے۔

    دوسری جانب مریم نواز نے بھی نمائندہ مقرر کرنے اور حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کردی۔

    نیب کی جانب سے استثنیٰ کی مخالفت کی گئی تاہم عدالت نے حاضری سے استثنیٰ کی دونوں درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے نواز شریف کو 7 روز جبکہ مریم نواز کو 1 ماہ کا استثنیٰ دے دیا۔

    کیس کی مزید سماعت 22 نومبر تک ملتوی کردی۔


    کب کیا ہوا؟

    یاد رہے کہ 19 اکتوبر کو احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی روز عزیزیہ اسٹیل ریفرنس میں بھی نواز شریف پر فرد جرم عائد کردی گئی۔

    بعد ازاں عدالت کا وقت ختم ہونے کے باعث اس سے اگلے روز 20 اکتوبر کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی نامزد ملزم نواز شریف پر فرد جرم عائد کردی گئی۔

    تاہم نواز شریف نے احتساب عدالت کی جانب سے تین ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواستیں مسترد کرنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا تھا جسے سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا تھا۔

    گزشتہ سماعت پر نواز شریف کے وکلا کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کے تفصیلی فیصلے تک یہ کیس مزید نہیں چل سکتا، ہائیکورٹ نے 2 درخواستیں دوبارہ سننے کے احکامات جاری کیے تھے۔

    نواز شریف نے تینوں ریفرنس یکجا کرنے کی ایک اور درخواست احتساب عدالت میں بھی دائر کی تھی جسے گزشتہ سماعت یعنی 8 نومبر کو مسترد کرتے ہوئے نواز شریف پر ایک بار پھر فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔

    نواز شریف پر فرد جرم لندن فلیٹس، العزیزیہ اسٹیل مل اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ میں دوبارہ عائد کی گئی۔ دوسری جانب مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی فرد جرم میں ترمیم کرتے ہوئے کیلبری فونٹ سے متعلق سیکشن 3 اے فرد جرم سے بھی نکال دی گئی تھی۔

    گزشتہ روز سابق وزیر اعظم نواز شریف نے احتساب عدالت کا 3 ریفرنسز یکجا نہ کرنے کا 8 نومبر کا فیصلہ ایک بار پھر اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا جس کے بعد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کو نوٹس جاری کردیے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔