Tag: شعبہ صحت

  • نشوہ کی موت: وزیر اعلیٰ سندھ نے دارالصحت اسپتال سیل کرنے کا حکم دے دیا

    نشوہ کی موت: وزیر اعلیٰ سندھ نے دارالصحت اسپتال سیل کرنے کا حکم دے دیا

    کراچی: ننھی بچی نشوہ کی موت پر سندھ حکومت کا بڑا فیصلہ سامنے آ گیا، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دارالصحت اسپتال سیل کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے دارالصحت اسپتال کے عملے کی غفلت کے باعث جاں بحق ہونے والی ننھی بچی نشوہ کی موت نے سندھ حکومت کو بڑا اقدام کرنے پر مجبور کر دیا۔

    سندھ حکومت نے دارالصحت اسپتال سیل کرنے کا فیصلہ کر لیا، وزیر اعلیٰ سندھ نے وزیر صحت عذرا فضل پیچوہو کو ہدایت کر دی۔

    وزیر اعلیٰ سندھ کے حکم پر اسپتال سیل کرنے کی تیاری شروع کر دی گئی ہے، کمشنر کراچی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے حکم پر دارالصحت اسپتال کو سیل کر رہے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  ننھی نشوہ کی موت : اسپتال پر صرف پانچ لاکھ روپے جرمانہ، دو ملازمین ذمہ دار قرار

    کمشنرکراچی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسپتال سیل کرنے سے متعلق قانونی کارروائی کی جا رہی ہے، دارالصحت اسپتال کا 80 سے زائد عملہ غیر تربیت یافتہ نکلا ہے، سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو اسپتال سیل کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔

    دوسری طرف دارالصحت اسپتال کا عملہ گرفتاری دینے شارع فیصل تھانے پہنچ گیا، پولیس نے اسپتال کے سینئر پروفیسر رضوان اعظمی سمیت 3 ڈاکٹرز کو حراست میں لے لیا۔

    دریں اثنا، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج یا کل اسپتال سیل ہو جائے گا، اسپتال میں مسائل موجود ہیں، مجھے رپورٹ بھی مل گئی ہے، اسپتال کو 2 لوگ نہیں چلا سکتے، باقی عملہ غیر تربیت یافتہ ہے۔

  • 22 لاکھ صحت کارڈ تقسیم کر دیے، مزید 90 لاکھ تقسیم کریں گے: وفاقی وزیر صحت

    22 لاکھ صحت کارڈ تقسیم کر دیے، مزید 90 لاکھ تقسیم کریں گے: وفاقی وزیر صحت

    اسلام آباد: وفاقی وزیر عامر کیانی نے کہا ہے کہ اب تک 22 لاکھ صحت کارڈ تقسیم کیے جا چکے ہیں، رواں سال 90 لاکھ صحت کارڈ تقسیم کریں گے۔

    وفاقی وزیر صحت عامر کیانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 25 فی صد سرکاری جب کہ 75 فی صد نجی اسپتال کام کر رہے ہیں، بنیادی سہولتوں کی فراہمی ریاست کی ذمےداری ہے۔

    انھوں نے کہا ’ساڑھے 3 کروڑ لوگوں کو ہیلتھ انشورنس دینے جا رہے ہیں، حکومت شعبہ صحت کے مسائل حل کرنے جا رہی ہے، شعبہ صحت میں بھرپور اصلاحات جاری ہیں۔‘

    عامر کیانی کا کہنا تھا کہ ڈرگ انڈسٹری انتہائی اہمیت کی حامل ہے لیکن اس کی برآمدات میں نمایاں کمی آئی ہے، حکومت ادویات کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، صورت حال سنبھالنے کے لیے خیبر پختون خوا میں ہیلتھ کارڈ کا اجرا کیا۔

    وزیر صحت نے کہا کہ یومیہ 65 ہزار صحت کارڈز کی پرنٹنگ و تقسیم جاری ہے، ہیلتھ کارڈ سے عام آدمی کو بہترین طبی سہولتیں میسر آ رہی ہیں، ہیلتھ کارڈ ہولڈر کو ٹرانسپورٹ الاؤنس فراہم کیا جا رہا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف کریک ڈاؤن

    ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی اولین ترجیح ادویات کی دستیابی یقینی بنانا ہے، 2001 سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا، ڈالر ریٹ بڑھنے اور خام مال مہنگا ہونے سے فارما انڈسٹری کو مسائل کا سامنا تھا، 900 ادویات کی قیمتوں میں رد و بدل کیا گیا ہے۔

    وفاقی وزیر نے کہا ’385 ادویات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے، حکومتی رِٹ چیلنج کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا، 37 کمپنیوں نے 175 ادویات کی قیمتوں میں از خود اضافہ کیا، ان کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رہے گا۔

    عامر کیانی نے مزید کہا کہ حکومت صنعتوں کو فعال کرنے اور نوکریاں دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، از خود قیمتیں بڑھانے والی کمپنیوں کی پیداوار روک رہے ہیں، قانون شکن دوا ساز کمپنیوں کے خلاف عدالتوں سے بھی رجوع کریں گے۔

  • حکومت عوام کی 70 سالہ محرومیوں کا ازالہ کرے گی، عامر محمود کیانی

    حکومت عوام کی 70 سالہ محرومیوں کا ازالہ کرے گی، عامر محمود کیانی

    اسلام آباد : وفاقی وزیر صحت عامر محمود کیانی کا کہنا ہے کہ شعبہ تعلیم وصحت پرخرچ کیے بغیرمعاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر صحت عامر محمود کیانی نے راولپنڈی میں زیر تعمیرزچہ وبچہ اسپتال کا دورہ کر کے صورتحال کا جائزہ لیا جس کے بعد وفاقی وزیر صحت عامر کیانی نے مری روڈ پر زیر تعمیریورالوجی اسپتال کا دورہ کیا۔

    اس موقع پرایم ایس ہولی فیملی اسپتال ڈاکٹر ناصر نے عامرمحمود کیانی کو منصوبے پر تفصیلی بریفنگ دی۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت صحت کے شعبے میں انقلابی اقدامات لے رہی ہے جس کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔

    عامر کیانی نے کہا کہ حکومت عام آدمی کی زندگی بہتری لانے کے لیے جانفشانی کے ساتھ دن رات اپنی جدوجہد میں مصروف ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ماضی میں صحت کے شعبے کو نظر انداز کیا گیا، عوام کی تعلیم اور صحت پر خرچ کیے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔

    وفاقی وزیرصحت نے کہا کہ انشاءاللہ عوام کی ستر سال محرومیوں کا ازالہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ صحت انصاف کارڈ کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا دیا ہے۔

    عامر محمود کیانی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لے کوشاں ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے تقریباً آٹھ کروڑ سے زائد افراد مفت علاج سے مستفید ہوں گے۔

  • شعبہ صحت میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں‘ عامر کیانی

    شعبہ صحت میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں‘ عامر کیانی

    اسلام آباد: وفاقی وزیر صحت عامر کیانی کا کہنا ہے کہ شعبہ صحت میں برطانیہ سے جاری تعاون کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے اعلیٰ سطح کے وفد نے قومی ادارہ صحت کا دورہ کیا، وفد کی قیادت برٹش سیکرٹری اسٹیٹ برائےعالمی ترقی پینی مورڈانٹ نے کی۔

    ترجمان صحت کے مطابق برطانوی ہائی کمشنرتھامس ڈریو اورسربراہ ڈی ایف آئی ڈی پاکستان جوا ناریڈ بھی وفد کے ہمراہ تھے۔

    اس موقع پر وفاقی وزیرصحت کا کہنا تھا کہ شعبہ صحت میں برطانیہ سے جاری تعاون کی اہمیت سے آگاہ ہیں، برطانوی وفد کا دورہ انتہائی اہم ہے۔

    وفاقی وزیرعامر کیانی کا کہنا تھا کہ شعبہ صحت میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔

    سربراہ قومی ادارہ صحت بریگیڈیئرعامراکرام نے برطانوی وفد کوبریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ این آئی ایچ کوجدید خطوط پراستوارکیا جا رہا ہے، این آئی ایچ کی لیبارٹری کے نظام کوبہتربنایا جا رہا ہے۔

    حکومتی صحت کارڈ سے عام آدمی کتنے روپے تک کا علاج کرواسکے گا؟

    یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبرمیں وفاقی وزیرصحت عامرکیانی کا کہنا تھا کہ شہری کی صحت وزیر اعظم کی اولین ترجیح ہے، صحت کارڈ سے عام آدمی سوا 7لاکھ تک کا علاج کرواسکے گا، کوشش ہے 2019 کے اختتام تک صحت کی مفت سہولتیں دیں۔

    وزیرصحت کا کہنا تھا کہ بڑھتی غربت کی وجوہات میں سےایک صحت پرغیرمعمولی اخراجات ہیں، ہیلتھ اسکیم پرعملدرآمد سے 8 کروڑ افراد کا اندراج ہوگا۔

  • سکھر: ڈاکٹروں کی ہڑتال، بد قسمت ماں نے دوسرا بچہ بھی کھو دیا

    سکھر: ڈاکٹروں کی ہڑتال، بد قسمت ماں نے دوسرا بچہ بھی کھو دیا

    سکھر: اندرون سندھ اور کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال جاری ہے، جس کے باعث ایک اور بچہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

    تفصیلات کے مطابق سکھر میں ڈاکٹروں کی سنگ دلی 8 ماہ کے بچے کی جان لے گئی، جان جاتی ہے تو جائے، معالج اپنا حلف ہی بھول گئے۔

    [bs-quote quote=”پانچ سال پہلے بھی ایک بیٹا ڈاکٹروں کی ہڑتال کی بھنیٹ چڑھ گیا تھا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_job=”بد قسمت ماں کی فریاد”][/bs-quote]

    شدید بیمار بچی کی ماں مسیحا کی تلاش میں پھرتی رہی تاہم بچی کے علاج کے لیے ڈاکٹر میسر نہیں ہوا۔

    بد قسمت ماں نے جگر گوشے کا لاشا اٹھائے آہیں بھرتے ہوئے کہا کہ پانچ سال پہلے بھی ایک بیٹا ڈاکٹروں کی ہڑتال کی بھنیٹ چڑھ گیا تھا۔

    دوسری طرف سندھ کے ضلع گھوٹکی کے شہر ڈھرکی میں بھی ایک نوجوان 4 گھنٹے تڑپ تڑپ کر مر گیا، تاہم اس کا علاج نہ ہو سکا، نوجوان کے ورثا نے ڈاکٹروں کے خلاف احتجاج کیا۔

    میر محمد کو اس کے لواحقین طبیعت خراب ہونے پر گزشتہ رات ڈھرکی اسپتال لائے تاہم اسپتال میں ڈاکٹرز نہ ہونے کے باعث اس کا انتقال ہو گیا، لواحقین کا کہنا تھا کہ 4 گھنٹے تک میر محمد تڑپتا رہا، لیکن ڈاکٹروں نے علاج سے انکار کر دیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  اسپتالوں میں او پی ڈیز بند، حکومت اور ڈاکٹروں کی لڑائی میں شہری رل گئے

    نوجوان کی ہلاکت کے واقعے کے بعد ڈھرکی پولیس تحصیل اسپتال پہنچ گئی، پولیس نے واقعے کی رپورٹ بھی درج کر لی۔

    واضح رہے کہ سندھ بھر کے ینگ ڈاکٹروں کا مطالبہ ہے کہ ان کی تنخواہیں پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز کے مساوی کیے جائیں، اپنا یہ مطالبہ منوانے کے لیے انھوں نے صوبے بھر میں کئی دن تک ہڑتال کی، جس کے باعث سرکاری اسپتالوں میں ہزاروں مریض رل گئے۔

    سنگ دل ڈاکٹروں کے طرزِ عمل کی وجہ سے ننھے بیمار بچوں کو روتے تڑپتے دیکھ کر والدین شدید ذہنی اذیت میں مبتلا رہے۔

  • سندھ کے سرکاری طبی مراکز کی مخدوش صورتِ حال، کرپشن عروج پر

    سندھ کے سرکاری طبی مراکز کی مخدوش صورتِ حال، کرپشن عروج پر

    سندھ حکومت ہر سال اربوں روپے کا بجٹ پیش کرتی ہے، اس بجٹ میں مخصوص رقم صحت کے شعبے کے لیے مختص کی جاتی ہے تاکہ شہریوں کو علاج معالجے کی مفت سہولیات میسر ہو سکیں، لیکن سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کیا ہے، آئیے اس رپورٹ میں دیکھتے ہیں۔

    سندھ کے طبی مراکز میں کرپشن عروج پر ہے، بچوں کی ویکسی نیشنز تک نہیں چھوڑی جاتیں اور وہ اسپتال کے ملازمین باہر فروخت کردیتے ہیں، اے آر وائی ٹیم نے اس پر اسٹنگ آپریشن کر کے یہ ویکسی نیشن خریدیں اور چوروں کو بے نقاب کیا۔

    قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ سندھ جس کی زمین میں معدنی ذخائر کے مجموعے کا تخمینہ کھربوں روپے سے بھی زائد ہے، بندرگاہوں، صنعتوں، اور دیگر کاروباری مراکز سے ملک کو کروڑوں روپے کی محصولات موصول ہوتی ہیں، وہیں دوسری طرف اس صوبے کے عوام غربت اور کسمپرسی کی اس آخری سطح سے بھی نیچے جا رہے ہیں جہاں عوام کو مفت سرکاری علاج کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔

    صوبائی حکومت شعبہ صحت پر کتنا پیسا لگا رہی ہے، سرکاری کھاتے میں ہیلتھ یونٹس اور مضافاتی اسپتالوں کا نظام کس طرز کا ظاہر کیا گیا ہے، اور دیہی مراکز صحت ضلعی اسپتالوں کی حقیقی صورت حال کیا ہے، یہ آپ ہماری اس ویڈیو رپورٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔

    سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار نہایت مخدوش ہے، ان دنوں سکھر سول اسپتال کی بازگشت سپریم کورٹ میں بھی ہے، سپریم کورٹ نے اس کی حالت پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور حکومت اور اسپتال انتظامیہ کو پابند کیا ہے کہ اسپتال کی حالت کو بہتر بنایا جائے۔

    ذمہ دار کون کی ٹیم سکھر سول اسپتال پہنچی تو وہاں ایمرجنسی میں اے سی ٹوٹا ہوا تھا، مریضوں کو لٹانے کے لیے کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی، اس کے برعکس اسپتال کے ایم ایس کے کمرے میں وزیر اعلیٰ آفس طرز کا اعلیٰ فرنیچر موجود تھا، اے سی لگا تھا، جب کہ اسپتال میں طبی ساز و سامان سب خراب پڑا ہوا تھا۔

    خیال رہے کہ جب چیف جسٹس نے سکھر اسپتال کا دورہ کیا تو ان کا بھی کہنا تھا کہ اسپتال میں ڈاکٹرز نہیں، پیرا میڈیکل اسٹاف نہیں، وینٹی لیٹرز نہیں۔ اسپتال میں جگہ جگہ گندگی پڑی تھی، دیواروں کا پلستر اکھڑا ہوا تھا، انھوں نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس کے نوٹس کے بعد اسپتال کی حالت زار بدلنے کی کوششیں شروع کی گئیں۔

    اسی طرح بدین کا سب سے بڑا سرکاری اسپتال 14 سال سے زیر تعمیر ہے، اس کی تعمیر کا ابتدائی بجٹ تیس کروڑ روپے تھا، جس کے خرچ ہونے کے بعد اب اسپتال کی تعمیر رک چکی ہے، اور اب اس کا تخمینہ ایک ارب دس کروڑ تک پہنچ چکا ہے، یہ اسپتال اب انڈس اسپتال کی زیر نگرانی دوبارہ بن رہا ہے۔

    مفت سرکاری علاج


    امیر صوبے کی غریب عوام مفت سرکاری علاج سے بھی محروم ہے، دنیا کے دیگر 115 ممالک کی بہ نسبت پاکستان کے تمام صوبائی اور وفاقی آئین میں مفت سرکاری علاج کا وجود ہی نہیں ہے۔ ہر الیکشن میں غریب عوام کو مفت سرکاری علاج کی فراہمی کے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاسی جماعتوں نے 72 برسوں میں ایسا کوئی قانون ہی نہیں بنایا، جس میں واضح طور پر مفت سرکاری علاج کو شہریوں کا بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا ہو۔

    دوسری طرف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے اقوام متحدہ کے کسی خصوصی پروگرام یا وباؤں کے پھوٹ پڑنے پر ہیلتھ سے متعلق اپنے قوانین میں ترامیم کرتی رہتی ہے۔

    گزشتہ 72 برسوں میں سندھ کی صوبائی حکومتیں سرکاری سطح پر چھوٹے بڑے طبی ادارے قائم کرتی رہی ہے، سندھ کی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں پرائمری ہیلتھ کیئر یونٹس کی تعداد ایک ہزار 782 ہے، جن میں 125 دیہی ہیلتھ سینٹرز، 757 بیسک ہیلتھ یونٹس، 792 ڈسپنسریاں، 67 مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ سینٹرز، تین سب ہیلتھ سینٹرز یا کلینکس، ایک ہومیو پیتھک ڈسپنسری، ایک اربن ہیلتھ سینٹر، اور 36 یونانی دواخانے شامل ہیں۔

    سیکنڈری ہیلتھ کیئر یونٹس کی تعداد 90 ہے، جن میں 14 ضلعی اسپتال، 79 تعلقہ ہیڈکوارٹر اسپتال، اور 27 بڑے یا اسپیشلائزڈ اسپتال شامل ہیں۔ ہر سال بجٹ میں ان اسپتالوں کے لیے بھاری رقم مختص کی جاتی ہے، بجت 2018-19 میں صحت کے لیے 96 ارب 38 کروڑ مختص کیے گئے۔

    کیوں؟


    صوبے کے 1782 ہیلتھ کیئر کیئر یونٹس این جی اوز کو دیے گئے، صوبائی محکمہ صحت کی تحویل میں صرف 655 طبی مراکز رہ گئے ہیں دوسری طرف چند ایک کے علاوہ کہیں بھی این جی اوز عملا فعال نہیں۔ ۔ سوال یہ ہے کہ اگر 1127 طبی مراکز این جی اوز کے حوالے ہیں تو بجٹ کم کیوں نہیں ہوا؟ ہر سال بجٹ میں پندرہ بیس کروڑ کا اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

    ٹنڈو محمد خان کے طبی مراکز پر سالانہ 49 کروڑ سے زائد خرچ ہوتے ہیں، کھنڈر نما اسپتال میں سات روز سے بجلی غائب، ادویات ناکارہ ہوچکی ہیں۔ تعلقہ ہیڈ کوارٹر اسپتال کوٹ ڈیجی میں اسپتال کا ایک بھی اسٹاف موجود نہ تھا۔ جب کہ سابق صوبائی وزیر دعویٰ کر رہے ہیں کہ تمام ملازمین اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔

    سندھ حکومت نے 2016 میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ نظام متعارف کرایا، اس نظام کا مقصد تعلیم و صحت کے شعبوں میں جدت اور بہتری لانا تھا لیکن یہ منصوبہ بھی بدترین کرپشن اور بد انتظامی کا شکار ہوگیا۔

  • چین میں زلزلہ: نرسوں نے جان کی پروا کیے بغیر نوزائیدہ بچوں کو اسپتال سے نکال لیا

    چین میں زلزلہ: نرسوں نے جان کی پروا کیے بغیر نوزائیدہ بچوں کو اسپتال سے نکال لیا

    بیجنگ: چین کے جنوب مغربی صوبے یونن میں دو روز قبل آنے والے زلزلے کے دوران تین بہادر نرسوں نے نوزائیدہ بچوں کو اپنی جان کی پروا کیے بغیر اسپتال سے بہ حفاظت باہر نکال لیا۔

    تفصیلات کے مطابق جنوب مغربی چین کے شہر یوژی کی تونغائی کاؤنٹی میں زلزلے کے دوران نرسوں کی بہادری کا واقعہ دنیا بھر میں شہرت حاصل کر گیا ہے، انھوں نے جان کی پروا کیے بغیر تین نوزائیدہ بچوں کی حفاظت کی۔

    سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ فوٹیجز کے مطابق 13 اگست 2018 کو جنوب مغربی چین میں آنے والے زلزلے کے دوران اسپتال کے نوازائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں تین بچے موجود تھے۔

    ایک نرس ریسپشن ایریا میں اپنے کام میں مصروف تھی کہ زلزلہ آ گیا، در و دیوار ہلنے لگے اور خوف ناک آوازیں آنے لگیں، نرس نے فوراً نیونیٹل وارڈ کی طرف دوڑ لگادی۔

    نوزائیدہ بچوں کے نگہداشت وارڈ میں دو نرسیں موجود تھیں، ایک نرس نے گرم کپڑا اٹھایا اور انکوبیٹر میں موجود ایک بچے کو ڈھانپنے لگیں تاکہ وہ گرم رہے۔

    دوسرے انکوبیٹر سے نرس نے ایک وقت میں ایک بچہ اٹھایا اور باہر کی طرف تیزی سے چلی گئی، تینوں نرسوں نے ایک وقت میں ایک بچہ اٹھایا۔

    یہ یقینی بنانے کے بعد کہ بچے محفوظ ہیں، نرسز اپنی حفاظت میں بچوں کو لے کر اسپتال سے باہر آئیں، اور تب تک بچوں کو اپنے بازوں میں رکھا جب تک ان کے والدین نہیں پہنچے۔

    چینی پولیس فورس کے سربراہ کی مزار قائد پر حاضری، رینجرز ہیڈ کوارٹرز کا دورہ

    چین میں رونما ہونے والا یہ واقعہ نرسز کی پیشہ ورانہ ایمان داری کے ساتھ ساتھ انسانی ہم دردی کی بھی ایک بڑی مثال بن گیا ہے، ان نرنسوں کا تعلق ایک قصباتی اسپتال سے تھا، نرسوں نے بہت بہادری دکھائی اور تیز رفتاری سے اپنا فریضہ انجام دیا۔

    واضح رہے کہ 13 اور 14 اگست کو چین کے جنوب مغربی صوبے میں 5.0 شدت کا زلزلہ آیا، زلزلے میں 24 افراد زخمی ہو ئے، 70 ہزار سے زائد لوگ متاثر ہوئے، اور 33 ہزار سے زائد متاثرین نے محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کی جب کہ 8 ہزار سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا۔

  • اقتصادی سروے: مالی سال 2014-2015 میں ڈاکٹرز کی تعداد میں اضافہ

    اقتصادی سروے: مالی سال 2014-2015 میں ڈاکٹرز کی تعداد میں اضافہ

    اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اقتصادی سروے  2014 -2015 پیش کرتے ہوئے شعبہ صحت سے متعلق مندرجہ ذیل معلومات پیش کیں۔

    اقتصادی سروے کے مطابق حکومت نے مالی سال 2014-2015 میں صحت کے شعبے میں کُل جی ڈی پی کا 0.42 حصہ شعبہ صحت کے حوالے سے خرچ کیا۔ اگر رقم کے حوالے کہا جائے تو حکومت نے 20 ارب 48 کروڑ شعبہ صحت کی نذر کیا ۔

    سروے کے مطابق پاکستان مالی سال 2014-2015 میں 1،142 اسپتال،5،499 ڈسپنسری،671 میٹرنٹی ہوم شامل ہیں ۔جبکہ اس قبل اسپتالوں کی تعداد 1،113، ڈسپنسری 5،413 رپورٹ کی گئی تھی۔

    سروے کے مطابق  مالی سال 2014-2015 میں ڈاکٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اس کُل ڈاکٹرز کی تعداد 17،5223 ، نرس 90،276،جبکہ اس سے قبل ڈاکٹرز کی تعداد 167،759،جبکہ نرسوں کی تعداد 86،183 رپورٹ ہوئی تھی۔

    صحت کے حوالے سے وفاقی کی حکومت نے کئی پروگرام انجام دیئے جس میں ملیریا ، ٹی بی ، اور ایڈز کے حوالے سے کئے جانے والے پروگرام شامل ہیں ۔

    حکومت 6 لاکھ بچوں میں 20 کروڑ او آر ایس کے پیکٹ تقسیم کئے۔