Tag: شفیع عقیل

  • شفیع عقیل اور ’بھوکے‘ پر فحاشی کا مقدمہ

    شفیع عقیل اور ’بھوکے‘ پر فحاشی کا مقدمہ

    پیٹ بھرنے کے لیے محنت مزدوری اور بعد میں سائن بورڈ لکھنے کو ذریعۂ معاش بنانے والے شفیع پینٹر کی اوّلین تحریر ’زمیندار‘ میں شائع ہوئی جس نے انھیں شفیع عقیل بنا دیا۔ یہ 1948ء کی بات ہے، اور پھر ان کی ساری زندگی کتاب اور قلم کے ساتھ گزری۔

    شعر و ادب، صحافت اور ترجمے کے میدان میں اپنا لوہا منوانے والے شفیع عقیل آرٹ اور مصوّری کے نقّاد بھی تھے۔ وہ باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے تھے۔ منشی فاضل اور پھر ادیب فاضل کا امتحان دیا اور پھر زندگی کی آزمائشوں کا سامنا کرنے گھر سے نکل گئے۔ انھوں نے 6 ستمبر 2013ء کو وفات پائی۔

    1930ء میں لاہور کے گاؤں تھینسہ میں آنکھ کھولنے والے شفیع عقیل 20 سال کے تھے جب کراچی آئے اور یہاں ابتداً سائن بورڈ لکھنے کا کام کرنے لگے، لیکن جلد ہی اردو کے معروف مزاح نگار اور صحافی مجید لاہوری کے مشہور جریدے نمکدان سے وابستہ ہو گئے۔ اسی زمانے میں‌ وہ افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے اور 1952ء میں افسانوں کا پہلا مجموعہ ’بھوکے‘ کے نام سے شائع کروایا جس پر حکومت کی طرف سے فحاشی کا مقدمہ دائر کردیا گیا۔ یہ مقدمہ ڈھائی سال چلا تھا۔

    نمکدان کے بعد شفیع عقیل نے صحافتی سفر میں‌ بچّوں کے رسالے بھائی جان کی ادارت اور پھر روزنامہ جنگ اور اخبارِ جہاں میں تمام عمر کام کیا۔ مدیر کی حیثیت سے وہ مختلف صفحات پر نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور انھیں‌ آگے بڑھنے کا موقع دیتے رہے اور ساتھ ہی تصنیف و تالیف اور تراجم کا سلسلہ جاری رکھا۔

    مجید لاہوری اور سلطان باہو کے فن و شخصیت پر لکھنے کے علاوہ انھوں نے سیف الملوک، سسی پنوں از ہاشم شاہ اور پنجابی کے پانچ قدیم شاعر نامی کتابیں بھی مدون کیں۔ شفیع عقیل پنجابی زبان کے شاعر تھے جن کا کلام بھی کتابی صورت میں‌ سامنے آیا۔ وہ چار مصروں کی ایک نئی صنف کے موجد بھی تھے۔ انھوں نے دیگر شعرا کے کلام کا ترجمہ بھی کیا تھا جب کہ پنجابی زبان میں ان کی جمع و تدوین کردہ لوک کہانیاں بھی ایک بڑا کام ہے جس کا انگریزی اور دوسری کئی زبانوں میں بھی ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ شفیع عقیل نے پنجابی کلاسیکی شاعری پر جو کام کیا وہ کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔

    وہ فنونِ‌ لطیفہ کے بڑے شیدائی تھے۔ مصوّری سے شفیع عقیل کو گہری دل چسپی رہی جس کا اندازہ اردو زبان میں فنِ مصوّری اور مشہور آرٹسٹوں کے متعلق ان کی کتابوں سے ہوتا ہے۔ وہ کئی مشہور پاکستانی مصوروں کے قریب رہے اور ان کے علاوہ مجسمہ سازوں اور ادیبوں کے انٹرویو بھی کیے۔ وہ سیر و سیاحت کے بھی دلدادہ تھے اور ان کے سفر نامے بھی کتابی شکل میں موجود ہیں۔ حکومت نے شفیع عقیل کو تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

  • آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی….

    آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی….

    ”میں اکثر اس کے پاس جاتا تھا۔ کبھی ہفتے میں ایک بار اور کبھی دو بار۔ گھنٹوں ہماری بیٹھک ہوتی اور رات گئے تک دنیا جہاں کی باتیں ہوتی تھیں۔

    یہ جانی پہچانی اور محبت بھری آواز یکم ستمبر 2006 کو ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی اور اب مجھے اس کی یاد آتی ہے۔“

    ”احمد سعید ناگی ایک خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبت کرنے والا فن کار تھا، جس سے میرے دوستانہ تعلقات تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے ناگی کو پہلی بار 1946 میں دیکھا تھا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب میں دھرم پورہ، لاہور میں انجینئر اسٹور ڈپو میں سائن رائٹر پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھا۔

    میرے ساتھ بی اے نجمی اور نذیر ضیغم بھی سائن رائٹر، پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھے، مگر ہمیں تصویر کشی کا بھی شوق تھا اور اس سلسلے میں تینوں بے استادے تھے۔

    1946 میں ہم نے ایک ہندو دوست کے ساتھ اس وقت کے منٹگمری روڈ پر جہاں آج کل لاہور ٹیلی ویژن اسٹیشن واقع ہے، اس کے قریب ایک دکان کرائے پر لی اور سنیما وغیرہ کے بینر بنانے اور دکانوں، دفتروں کے بورڈ لکھنے کا کام شروع کیا تھا۔

    اس کا نام ”ماڈرن آرٹ سینٹر“ رکھا تھا، حالاں کہ اگر اس وقت ہم سے کوئی ماڈرن (Modern) کے معنی پوچھ لیتا تو ہم نہ بتاسکتے، اس لیے کہ اس دور میں ہمارے نزدیک آرٹ یا مصوری کے معنی سنیما کے بینر، فلموں کی تشہیر کے تصویری بورڈ اور تھیٹروں کے پردوں وغیرہ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

    یہی نہیں بلکہ وہ پینٹر جو بورڈ وغیرہ لکھتے تھے، ہم ان سب کو مصوروں ہی کے زمرے میں شمار کرتے تھے اور اپنی جگہ خوش ہوتے تھے کہ ہم بھی مصور ہیں۔

    یوں بھی ان دنوں آج کل کی طرح نہ تو جگہ جگہ آرٹ گیلریاں تھیں اور نہ آئے دن آرٹ کی نمائشیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا تصویر کشی کرنے والے عام فن کاروں کا ذریعہ معاش یا پینٹروں کی آمدنی کا ذریعہ سنیماﺅں کے بینر تیار کرنا یا پھر تھیٹروں کے پردے اور سیٹ بنانا ہوتا تھا۔

    اگر آپ ابتدائی دور کے مصوروں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں تو بعض بڑے مصور اس دور میں تھیٹروں میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کے پوسٹر، پردے اور سیٹ بنایا کرتے تھے۔ یہی کچھ جانتے ہوئے ہم نے دکان شروع کی تھی، مگر ہوتا یہ کہ ہم بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے کیوں کہ کوئی بورڈ لکھوانے اور بینر یا پوسٹر بنوانے نہیں آتا تھا۔

    اس لیے جیسے ہی دن ڈھلتا ہم مختلف سنیماﺅں کا چکر لگاتے اور ان کے آگے لگے ہوئے ایکٹروں کے بڑے بڑے بینر اور بورڈ بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ پھر شام ہوتے ہی رائل پارک کے چوک میں پہنچ جاتے جہاں ایک پینٹر کی دکان تھی۔ اس میں نئی فلموں کے لیے بینر اور بورڈ بنتے تھے اور ایک ساتھ تین چار لوگ بنا رہے ہوتے تھے۔

    اس دکان کا مالک ہمارا واقف تھا۔ یہاں ہم کام ہوتا ہوا بھی دیکھتے تھے اور اپنی محرومی کا وقت بھی گزارتے تھے۔ ایک روز ہم کھڑے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ وہاں ایک تانگا آکر کھڑا ہوا جس میں سے ایک کِھلتے رنگ کا خوش لباس شخص نیچے اترا۔ اسے دیکھ کر دکان کا مالک اس کے پاس گیا۔ دونوں میں دو چار منٹ کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص جس تانگے میں آیا تھا اُسی میں سوار ہو کے وہاں سے چلا گیا۔

    دکان والے نے ہمیں بتایا، یہ مشہور آرٹسٹ ہے اور اس کا نام ناگی ہے۔

    ”پھر جنوری 1950 میں جب میں لاہور سے نوکری کی تلاش میں کراچی آیا تو ناگی کے نام اور کام سے واقف ہوا۔ اگرچہ کراچی آکر میں نے مصوری سے عملی رشتہ ختم کردیا تھا اور صحافت ہی کا ہو کر رہ گیا تھا، مگر رنگوں کا اپنا ایک جادو ہوتا ہے جو واقعی سَر چڑھ کر بولتا ہے۔

    یہ میرا ابتدائی دور تھا اور لکھنے لکھانے کی بھی شروعات تھیں۔ اس لیے ناگی کا مجھے جاننا یا میرا اس سے تعارف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں ایک روز ”ناگی اسٹوڈیو“ چلا گیا،

    اس وقت وہ کینوس اِدھر اُدھر رکھ رہا تھا۔ اس نے خندہ پیشانی سے مجھے دیکھا اور پھر اندر آنے کو کہا۔ میں نے بتایا کہ ”مجھے آرٹ سے دل چسپی ہے اس لیے آیا ہوں؟“

    اس پر ناگی نے پوچھا۔

    ”کیا آرٹ سیکھنا چاہتے ہو۔“

    ”نہیں۔ میں صحافی ہوں، مجھے صرف آرٹ دیکھنے کا شوق ہے۔“

    میرے اس جواب پر ناگی کا کوئی ردعمل نہیں تھا۔ اس نے اپنی مصروفیت کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
    ”اچھا اچھا۔ یہ بات ہے، دیکھو دیکھو!“

    اس پہلی ملاقات کے بعد بھی میں چند ایک بار ناگی اسٹوڈیو گیا تھا، کیوں کہ اب اس سے تھوڑی بہت سلام دعا ہوگئی تھی۔

    اسی اسٹوڈیو میں مشہور مصورہ لیلیٰ شہزادہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت اسے نام وری حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی وہ تحصیل فن کے مراحل سے گزر رہی تھی۔“

    ”پہلی دو تین ملاقاتوں میں تو ناگی نے مجھ سے اردو زبان ہی میں بات کی، مگر جب ہماری واقفیت ہوگئی تو پھر اس نے کبھی مجھ سے اردو میں بات چیت نہیں کی۔ ہمیشہ پنجابی ہی میں گفتگو ہوتی تھی۔ پھر ہمارے دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے اور تکلف کی جگہ بے تکلفی نے لے لی۔

    آپ سے گزر کر تم تک آئے اور پھر ایک دوسرے کو تُو سے مخاطب کرنے لگے۔“

    (پاکستان کے چند نام ور اور باکمال مصوروں‌ سے متعلق شفیع عقیل کی کتاب سے انتخاب)

  • حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    اس کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں۔ وہ سیاست داں، صحافی، ادیب، مقرر، نقاد، دانش ور، خطاط، مصور بھی تھا اور ایک ناشر بھی تھا۔

    پھر یہ بھی کہ اس نے ہر شعبے یا ہر میدان میں نام وری اور مقام حاصل کیا، لیکن ان کام یابیوں اور کام رانیوں کے باوجود اس کی تحمل مزاجی اور میانہ روی میں فرق نہیں آیا۔

    وہ دھیمے مزاج اور لہجے میں بات کرتا تھا اور سوچ سمجھ کر بولتا تھا۔ اقتدار میں بھی رہا، مگر اسے اقتدار کا وہ نشہ نہیں چڑھا جو انسان کو انسان سے دور لے جاتا ہے۔ شہرت اور نام وری کے باوجود اس کا لوگوں سے رشتہ نہیں ٹوٹا۔ اس نے یاریاں بھی نبھائیں اور فرائض بھی پورے کیے۔

    زندگی بھر انسانی رشتوں پر یقین رکھا اور دوستوں کا دوست رہا۔ مجھ سے ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں برادرانہ تعلقات قائم ہوئے تھے جو آخر تک قائم و دائم رہے۔ حالاںکہ اس دوران برسوں ملاقات نہیں ہوتی تھی اور بات چیت میں بھی طویل وقفے آجاتے تھے۔ اس کے باوجود کبھی دوری کا احساس نہیں ہوا۔ جب کبھی ملاقات ہوتی یا ٹےلی فون پر بات ہو جاتی یا پھر خط آجاتا تو قربت و نزدیکی کا احساس قائم رہتا۔

    حنیف رامے کے بزرگوں اور بڑے بھائیوں کا کاروبار کتابوں کی نشر و اشاعت تھا، اس لیے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ بھی اس پیشے سے منسلک ہوگیا۔ نیا ادارہ اور مکتبۂ جدید کے زیرِ اہتمام شایع ہونے والی کتابوں کی تزئین و ترتیب کے ساتھ ساتھ سرورق بنانے کا کام اس کے سپرد ہوا اور اس طرح آرٹ سے بھی رشتہ جڑا رہا۔ پھر جب بھائیوں میں کاروبار کا بٹوارا ہوا اور رشید احمد چوہدری اور بشیر احمد چوہدری نے الگ الگ کتابوں کے اشاعتی سلسلے شروع کیے تو حنیف رامے نے بشیر احمد چوہدری کو ”میری لائبریری“ کے نام سے مکتبہ قائم کروایا اور خود ”البیان“ کے عنوان سے اشاعتی مکتبے کی ابتدا کی۔

    ایک بات حنیف رامے کے ذہن میں ہمیشہ رہی کہ کم قیمت کتابیں چھپنی چاہییں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ خریدیں اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر ہو۔ حنیف رامے نے صرف کتابیں چھاپی ہی نہیں بلکہ خود بھی لکھیں اور ایک ادیب کی حےثیت سے بھی نام پیدا کیا۔

    اس کی کتابوں میں ”پنجاب کا مقدمہ“ کو بڑی شہرت ملی اور دیگر صوبوں کے بعض ادیبوں نے اس کے جواب میں بھی بہت کچھ لکھا۔ اسی طرح اس کی کتاب ”دُبِ اکبر“ بھی بڑی توجہ کا مرکز رہی اور پھر زندگی کی آخری تصنیف ”اسلام کی روحانی قدریں موت نہیں زندگی“ کو تو علمی و ادبی حلقوں میں بہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی۔

    حنیف رامے کا پسندیدہ موضوع معاشیات و اقتصادیات تھا اور اسی میں اس نے ایم اے کیا تھا۔ لہٰذا اس موضوع کی ایک کتاب کا ترجمہ بھی کیا تھا جو ”اقتصادی ترقی کا منظر اور پس منظر“ کے نام سے شایع ہوئی اور پھر ”اقبال اور سوشلزم“ مرتب کرکے شایع کی تھی۔ اس نے انگریزی میں ایک ناول بھی تحریر کیا۔ اس طرح دیکھیے تو وہ صرف ادب چھاپتا ہی نہیں رہا بلکہ اس کی تخلیق و تحریر میں بھی باقاعدہ شامل رہا۔

    (معروف ادیب اور صحافی شفیع عقیل کی کتاب سے ایک ورق)