Tag: شفیع موسی منصوری

  • سب کو پالے اپنا جایا نہ  پال پائے!

    سب کو پالے اپنا جایا نہ پال پائے!

    صبح کے چھے بج رہے ہیں۔ کراچی میں بھینس کالونی کے ایک باڑے میں کچھ دیر قبل ایک بھینس نے بچّے کو جنم دیا ہے۔ باڑے کا مالک اور ملازمین بھینس کے پاس کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کے چہروں پر خوشی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ بھینس بھی خوشی کا اظہار کررہی ہے اور بار بار اپنی لمبی زبان نکال کر اپنے بچّے کو چاٹ رہی ہے۔ ان دونوں کی خوشیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھینس کی خوشی ممتا کی خوشی ہے، جب کہ باڑے کے مالک کی خوشی دودھ کی طرح خالص کاروباری ہے!

    بچّہ دینے کے بعد بھینس قریباً ایک سال تک دودھ دیتی رہے گی۔ باڑے کا مالک دل ہی دل میں سارا حساب کتاب ترتیب دے رہا ہے۔ اُس کی کوشش ہوگی کہ بھینس سے سال بھر جتنا ممکن ہوسکے دودھ حاصل کرے اور اس پر نفع کمائے۔ اس مالی نفع میں وہ کسی کی شراکت برداشت نہیں کرے گا، چاہے وہ بھینس کا نومولود ہی کیوں نہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ہوس میں باڑا مالکان کٹّوں (بھینس کے بچّے) کو اُس دودھ کے چند گھونٹ بھی پیتا ہُوا نہیں دیکھ سکتے، جس کا حق انھیں قدرت نے دے رکھا ہے۔

    انسان اگر نیکی کے راستے پر چلے تو انسانیت کی معراج پا لے، لیکن یہی انسان اگر گناہ کرنے پر آمادہ ہو تو شیطان بھی شرما جائے۔ انسان لالچ میں کتنا اندھا ہو جاتا ہے، اس کی ایک جھلک تو بھینسوں کے ان باڑوں میں صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

    موٹی موٹی آنکھوں اور لرزتی ٹانگوں والے کٹّے کو صرف ایک دن اپنی ماں کا دودھ نصیب ہوسکا، پھر باڑے کے مالک کو اپنا نفع خطرے میں نظر آنے لگا اور بچّے کو اس کی ماں سے جُدا کر کے باڑے کے ایک کونے میں موجود کھونٹے سے باندھ دیا گیا۔ بے چین ماں دن میں کئی کئی بار گردن اُٹھا کراپنے بچّے کی جانب دیکھتی، مگر اُسے محبت سے چاٹنے اور دودھ پلانے سے خود کو مجبور پاتی ہے۔ اس کی گردن تو سرمائے کی مضبوط زنجیر سے بندھی ہوئی ہے۔ آج تو اسے دور سے سہی، اپنے بچّے کا دیدار نصیب ہورہا ہے، لیکن کل وہ اس سے بھی محروم ہوجائے گی، کٹّا کسی قسائی کے ہاتھ بیچ دیا جائے گا یا مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا جائے گا۔

    دیگر جانوروں کے مقابلے میں بھینسوں کے یہ بچّے دنیا کے مظلوم ترین جانور ہیں، جنہیں اپنی ماں کا دودھ تک نصیب نہیں ہوتا۔ کٹّے دودھ کا ذایقہ چکھے بغیر ہی موت کی وادی (کمیلے) کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں۔ یہ قسائی روزانہ کٹّوں اور باکڑی بھینسیں (وہ بھینسیں جو دودھ دینے کے قابل نہیں رہتیں) خریدنے کے لیے باڑوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ بچّہ دینے کے بعد ایک بھینس اندازاً ایک سال تک دودھ دیتی ہے، اس کے بعد دودھ کی مقدار کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایک بھینس یومیہ خوراک 9 سے 10 کلو تک ہوسکتی ہے۔ بھینسیں چوں کہ نفع کمانے کی غرض سے رکھی جاتی ہیں، اس لیے باڑا مالکان ایسی بھینسوں پر خرچ کرنا پسند نہیں کرتے، جو انھیں دودھ نہ دے سکے۔ چناں چہ کٹّوں کے ساتھ باکڑی بھینسیں بھی قسائی کو فروخت کر دی جاتی ہیں۔

    سودا ہونے کے بعد قسائی بڑی بے دری سے کٹّوں کو اٹھا اٹھا کر ٹرک میں پھینکتے ہیں۔ دو تین دن کے کٹّوں کی ہڈیاں مضبوط نہیں ہوتیں اور اس طرح پھینکے جانے پر ان کے ٹوٹنے یا نومولود کو گہری اور سخت قسم کی چوٹ لگنے کا خدشہ ہوتا ہے، لیکن دولت کے یہ پجاری جلد از جلد انھیں ذبح کرکے اپنے دام کھرے کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔

    ٹرک پر سوار کرواتے وقت کٹّے درد بھری آوازیں نکالنے لگتے ہیں، گویا یہ احساس ہوجاتا ہے کہ انھیں ان کی ماؤں سے جدا کیا جارہا ہے۔ اپنے بچّوں‌ کو اپنے درمیان نہ پا کر اُن کی ماؤں پر کیا گزرتی ہوں گی، یہ سوچنے کی فرصت دودھ اور گوشت کے ان بیوپاریوں کے پاس بھلا کہاں ہوتی ہے۔

    کٹّوں سے بھرا یہ ٹرک جب کمیلے پہنچتا ہے تو انھیں اُسی بے دردی سے اُتارا جاتا ہے، جس بے دردی سے چڑھایا گیا ہوتا ہے۔ وہ کٹّا جس نے ابھی ٹھیک طرح اپنی پیروں پر کھڑے ہونا نہیں سیکھا ہوتا، چھری تلے لیٹا دیا جاتا ہے۔ چند دن پہلے جس ملائم کھال نے ممتا بھری زبان کا لمس محسوس کیا تھا، وہ بے دردی سے کھینچ دی جاتی ہے۔ ذبح کرنے کے بعد ان کٹّوں کا گوشت ہوٹل مالکان کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ ہوٹلوں‌ میں‌ اس سے تیار کردہ ڈشز چھوٹے کا گوشت (بکرے) کہہ کر گاہکوں‌ کے سامنے سجا دی جاتی ہیں جو اپنا پیٹ بھرنے کے بعد اس کھانے کی قیمت ادا کر کے چلے جاتے ہیں۔

    اس طرح 90 فی صد کٹّے قسائی کے ہاتھوں ذبح ہو کر انسانوں کی خوراک بن جاتے ہیں جب کہ 10 فی صد اچھی نسل کے کٹّے بڑے ہونے کے لیے دیہات میں پہنچا دیے جاتے ہیں۔ اس میں‌ فریقین کے درمیان ایک دل چسپ زبانی معاہدہ کیا جاتا ہے۔ یعنی فریق اوّل کو یہ کٹّے مفت دیے جاتے ہیں۔ ان کے اخراجات وہ خود برداشت کرتا ہے۔ تین سال بعد جب یہ کٹّے بھینس یا بھینسا بن جاتے ہیں تو انھیں فروخت کر کے فریق اوّل اور فریق دوم یعنی باڑے کا مالک آدھا آدھا منافع رکھ لیتے ہیں۔

    تیسری دنیا کے ممالک میں بھینس کا گوشت بہ طور غذا استعمال ہوتا ہے، اس لیے قسائی باکڑی بھینسوں اور کٹّوں کو خوشی خوشی خرید لیتے ہیں۔ لیکن عام طور پر مغربی ممالک میں اس جانور کا گوشت مضرِ صحت تصور کیا جاتا ہے، اس لیے ان ممالک میں بھینس کا گوشت کھانے کا عام رواج نہیں ہے۔ مغربی ممالک اور یورپ کے باڑوں میں پیدا ہونے والے کٹّے خریدنا وہاں‌ کے قسائیوں کے لیے گھاٹے کا سودا ہے جب کہ انھیں‌ پالنا باڑا مالکان کے لیے مالی نقصان کا باعث ہوتا ہے اور وہاں‌ یہ جانور بدترین ظلم سہتا ہے۔

    جانوروں کے حقوق کی عالمی تنظیم ”فور پاؤس“ (Four Paws) کے ڈائریکٹر گیبریل پاؤن اس بارے میں کہتے ہیں، ”یورپی یونین بھینس کے گوشت کی بہت چھوٹی مارکیٹ ہے۔ نر کٹّا چوں کہ دودھ نہیں دے سکتا، اس لیے اسے غیر پیداواری سمجھتے ہوئے بڑے بے رحمی سے باڑوں میں بھوکا پیاسا مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔“ چند سال پہلے فور پاؤس نے خفیہ کیمروں کی مدد سے اٹلی کے 50 باڑوں کی دستاویزی فلم بنائی تھی، جس میں کٹّوں کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کی منظر کشی کی گئی تھی۔

    اس دستاویزی فلم کے ایک منظر میں کسی باڑے کے ایک ملازم کو اعتماد میں لیتے ہوئے پوچھا گیا کہ وہ نر کٹّوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں تو ملازم نے کہا، ”ہم انھیں کوئی خوراک نہیں دیتے، یہاں تک کہ وہ دو یا تین دن بعد مَر جاتے ہیں۔“ دوسرے باڑے کے ملازم سے جب یہی سوال پوچھا گیا تو اُس نے بتایا کہ ان کٹّوں کو پیدا ہوتے ہی ہتھوڑے کی ضرب سے مار دیا جاتا ہے۔

    تحقیق کے دوران ایک باڑے سے کٹّوں کا قبرستان دریافت ہوا، ان کٹّوں میں سے بعض کے سَر پر چوٹ کے گہرے نشانات تھے اور بعض بھوک پیاس کی وجہ سے مر گئے تھے۔ ان جانوروں کو بے رحمی سے مارنے پر باڑے کے مالک کو گرفتار کیا گیا۔ فور پاؤس کے ڈائریکٹر آپریشن نے اس بارے میں کہا تھا کہ یورپی یونین کے لیے یہ بڑی شرم ناک بات ہے کہ اکیسویں صدی میں کسی مہذب معاشرے میں محض نفع کمانے کی غرض سے جانوروں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا جائے۔ یورپی ممالک میں پھر بھی اس قسم کے ظالمانہ سلوک پر گرفت کی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں جہاں انسانی خون ارزاں ہے، وہاں بھلا کٹّوں کے اس طرح قتلِ عام پر کون کان دھرے؟

    یہ کیسا ظلم ہے کہ اپنے دودھ سے انسانوں کو پالنے اور ان کی غذائی ضرورت پوری کرنے والی ماں (بھینس) اپنا ہی جایا نہیں پال سکتی۔ مالی منفعت کی غرض سے اور پیسے کی ہوس کے لیے جو کچھ کیا جاتا ہے، اس پر جتنا افسوس کیا جائے، وہ کم ہے۔

    (شفیع موسیٰ منصوری کے ایک نہایت اہم موضوع پر معلومات افزا فیچر سے انتخاب، مصنّف پرنٹ میڈیا کے لیے کئی اہم شخصیات کے انٹرویوز کرچکے ہیں اور اپنی شان دار فیچر اسٹوریز کے لیے پہچانے جاتے ہیں)

  • ”میری دو معصوم بچیاں ہیں!“

    ”میری دو معصوم بچیاں ہیں!“

    آپ لوگوں کی بڑی مہربانی کہ آپ مجھے اس قابل سمجھتے ہیں کہ ہر سنیچر کی رات میری باتیں سننے میرے غریب خانے پر تشریف لاتے ہیں، حالاں کہ لاکھ بار کہا کہ میں آپ ہی کی طرح کا عام آدمی ہوں۔ بس تھوڑا بہت مطالعہ کر لیتا ہوں اور اخبار بینی کا شوق ہے، ورنہ میں کوئی مفکر تو ہوں نہیں، اور ویسے بھی دو شادیاں کرنے والا بھلا مفکر ہو بھی کیسے سکتا ہے، آپ خود سوچیں!

    آپ حضرات اب مجھ سے یہ ضرور پوچھیں گے کہ میں نے دو شادیاں کیوں کر رکھی ہیں؟

    ارے بھئی، سیدھی سی بات ہے، اولادِ نرینہ کے لیے اور کس لیے! میری پہلی بیوی سے دو بیٹیاں ہیں۔ دوسری بیٹی کی پیدایش کے وقت کوئی طبّی پیچیدگی ہوگئی، جس کی وجہ سے مجبوراً پیدایش کا سلسلہ مستقل طور پر بند کرنا پڑا۔ اب آپ لوگ ہی بتائیں کہ کیا مجھے اپنی نسل اور نام آگے بڑھانے کا کوئی حق نہیں تھا؟

    آپ اسلم صاحب کو تو جانتے ہی ہوں گے، ارے وہی اسلم صاحب، جن کا چند روز پہلے انتقال ہوا ہے۔ ان کے کوئی بیٹا نہیں تھا، صرف ایک بیٹی ہے، جسے رخصت کرنے کے بعد وہ اور اُن کی بیوی گھر میں تنہا رہ گئے تھے۔ پھر بیوی کے انتقال کے بعد تو وہ بالکل ہی اکیلے ہوگئے۔ جب بھی بیمار پڑتے، ان کی بیٹی کو ان کی خبر گیری کے لیے سسرال سے میکے آنا پڑتا۔ ان کی وفات سے ایک ہفتے پہلے اُن کی بیٹی نے اپنا بوریا بستر اُٹھا کر اُن کے گھر میں ڈال دیا۔ سُسرال جو بے چاری کا اتنا دور تھا، روز روز آنے جانے میں اُسے تکلیف ہوتی تھی، پھر آخری دنوں میں اسلم صاحب کی طبیعت بھی ایسی نہ تھی کہ انھیں ایک پل کے لیے بھی تنہا چھوڑا جا سکتا۔

    بزرگوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں، اُن کا اصل گھر میکا نہیں، سُسرال ہوتا ہے۔ اگر اسلم صاحب کے کوئی بیٹا ہوتا تو کیا بیٹی کو اس طرح باپ کے پیچھے خوار ہونا پڑتا؟

    جی! کیا کہا آپ نے؟ پھر توصیف صاحب اور ان کی بیوی کو اپنے دو شادی شدہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے ایدھی اولڈ ہوم میں کیوں رہنا پڑ رہا ہے؟

    آپ نے مجھ پر خوب چوٹ کی ہے، لیکن یہ تو سوچیں کہ اس طرح کے معاملات کسی کسی کے ساتھ ہوتے ہیں، ورنہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بیٹا ہی باپ کا سہارا بنتا ہے۔

    ہاں ہاں، مجھے پتا ہے، ابھی آپ اکرام صاحب کی مثال دیں کر کہیں گے کہ اُن کا بیٹا بڑھاپے کا سہارا بننے کی بہ جائے الٹا بوجھ بن گیا ہے اور اکرام صاحب کو اس عمر میں بھی اپنے تیس سالہ جوان بیٹے کو پالنا پڑ رہا ہے۔ ہیروئن کا نشہ جو کرنے لگا ہے!

    ارے بھئی، یہ بھی ایک استثنائی معاملہ ہے، ہمارے محلے یا شہر میں بھلا کتنے لوگ ہیں، جو ہیروئن کا نشہ کرتے ہوں گے؟

    میں پھر اپنی بات پر زور دوں گا کہ بیٹا ہی باپ کی نسل اور نام کو آگے بڑھاتا ہے۔

    اچھا ایک بات بتائیں، اگر میں مر گیا تو میری قبر کا خیال کون رکھے گا۔ اسلام میں تو عورت کا قبرستان جانا منع ہے۔

    بس صاحبو! اسی لیے میں دوسری شادی پر مجبور ہوا اور اوپر والے کے فضل و کرم اور آپ بھائیوں کی دعاؤں سے میری دوسری بیوی سے ایک بیٹا ہوا ہے۔ میں نے زندگی میں ہی اپنی قبر کی حفاظت کا سامان کر لیا ہے۔

    کیا کہا تم نے برخوردار، عورت بھی قبرستان جا سکتی ہے، اسلام اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔

    دیکھو میاں، ابھی تم بچے ہو، اور تمھیں نیا نیا کتابیں پڑھنے کا شوق چڑھا ہے۔ دین کی باریکیاں سمجھنے میں ابھی تمھیں وقت لگے گا۔ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اور ہمیں اس میں پڑنا نہیں چاہیے۔ پھر یہ بھی تو دیکھو کہ ویران قبرستان میں اکیلی عورت کیسے جائے گی۔ ایک مرد کو لازماً اس کے ساتھ جانا پڑے گا۔ میرے ہونے والے دامادوں کو اتنی فرصت کہاں ہوگی کہ وہ میری بیٹیوں کو قبرستان میں لیے پھریں۔ میں نے زندگی میں کبھی کسی کا احسان لیا ہے، جو مرنے کے بعد لوں گا؟ ویسے بھی بیٹے اور داماد میں فرق ہوتا ہے۔

    آپ لوگوں کو پتا ہے کہ اکہتر کی جنگ کے بعد پاکستان اور انڈیا کے وزرائے اعظم کے درمیان شملہ میں جو بند کمرے میں مذاکرات ہوئے تھے تو پاکستانی وفد نے اپنے لیے ایک کوڈ (اشارہ) وضع کر لیا تھا، یعنی اگر مذاکرات کام یاب ہوئے تو ہم کہیں گے بیٹا پیدا ہوا ہے اور اگر ناکام ہوگئے تو کہیں گے بیٹی پیدا ہوئی ہے۔
    واہ! واہ! واہ! سبحان اللہ کیا مردانہ شاونزم ہے، واہ بھئی واہ مزا آگیا۔

    سیاست دانوں کے اور میرے خیالات کتنے ملتے جلتے ہیں۔ بھئی سیدھی سی بات ہے، اُس وفد میں شامل لوگ بھی میری طرح حقیقت پسند رہے ہوں گے۔ اس لیے میں بار بار آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ حقیقت کا سامنا کرنا سیکھیں، ہم کب تک کتابی باتیں دہراتے رہیں گے۔ منافقت یہی تو ہے کہ دل میں کچھ ہو اور زبان پر کچھ اور۔

    دیکھیں میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ بُرا نہ مانیے گا، ہمارے محلے کے نکڑ پر جو اشرف صاحب رہتے ہیں، اللہ نے جب انھیں بیٹی کی صورت میں پہلی اولاد سے نوازا تو انھوں نے محلے میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔

    ٹھہریں ٹھہریں، میں اپنے موقف کی خود نفی نہیں کر رہا، میری بات تو مکمل ہونے دیں۔ پھر جب ان کے ہاں بیٹا ہوا تو انھوں نے مٹھائی پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ پورے محلے کی شان دار دعوت کر ڈالی۔

    آپ لوگوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا اور اپنے سر کو کیوں جھکا رکھا ہے۔ دیکھیں، مسئلہ شرمندہ ہونے کا نہیں، بلکہ تسلیم کرنے کا ہے۔ میں کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے دوسری شادی بیٹے کی خواہش کے لیے کی ہے۔ آپ لوگ بھی میری طرح سوچتے ہیں، لیکن تسلیم نہیں کرتے۔ اگر تسلیم کرتے تو میری اس بات کی بھی تائید کرتے کہ ہم میں سے کتنے لوگ اپنی بیٹیوں کو گلی محلوں میں قایم معمولی فیس والے اسکولوں میں بھیجتے ہیں اور ہمارے بیٹے منہگے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔

    لو بھئی چائے آگئی، آپ حضرات بلا تکلف نوش فرمائیں، باتوں کے ساتھ چائے کا دور بھی چلتے رہنا چاہیے، ویسے بھی دسمبر کے آخری دن چل رہے ہیں اور گیارہ بجے کے بعد سردی کو ہمارے مزاجوں کی فکر ستانے لگتی ہے۔

    اچھا ایک اور بات مجھے کہنے دیں، کہیں چائے کے چکر میں بھول نہ جاؤں۔ بعض لوگ شادی کارڈ پر اپنے بیٹے کا نام فخر سے لکھواتے ہیں، لیکن بیٹی کا نام گول کر جاتے ہیں اور اپنے نام کے حوالے کو کافی جانتے ہیں۔

    ”اختر حسین کی ’بیٹی‘ کی شادی شیخ رمضان کے بیٹے ’معین‘ سے ہونا قرار پائی ہے۔“ اس رویے کو آپ کیا نام دیں گے؟

    شادی کارڈ پر لڑکی کا نام لکھنے سے انھیں شاید اس بات کا دھڑکا رہتا ہوگا کہ کہیں لوگ اس نام سے جنسی لذت حاصل نہ کرنے لگیں۔ بے پردگی کا احتمال بھی اُن کے پیشِ نظر رہتا ہوگا۔ اگر بات اتنی سی ہوتی تو ٹھیک تھا، ہر شخص کو حق ہے کہ وہ شادی کارڈ پر اپنی بیٹی کا نام لکھوائے یا نہ لکھوائے، میں اور آپ اس پر اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ لیکن دوستو! پھر سیکڑوں باراتیوں کی موجودگی میں نکاح پڑھاتے وقت مولوی کو دلہن کا نام پکارنے سے روکا کیوں نہیں جاتا۔ اُس وقت تو سب خاموشی سے ”نامحرم“ کا نام سُن رہے ہوتے ہیں۔ کیا لڑکی کا نام سُننا جائز اور لکھنا ناجائز ہے؟

    ارے چھوڑیں، میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا، یہ جائز اور ناجائز کے فتوے ملاؤں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

    ہاں تو دوستو! یہ تو ہوا شادی کے موقع پر ہمارا عام رویہ۔ اب ذرا جنازے کا ماجرا بھی سُن لیجیے۔

    ابھی چند ماہ پہلے عقیل بھائی کا اٹھارہ سالہ بیٹا فوت ہوگیا۔ اُس کے جنازے میں ایک صاحب نے ان سے اس طرح تعزیت کی، ”اللہ آپ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ دے۔ ایک تو جوان موت، اوپر سے بیٹا!“

    آپ حضرات کی خاموشی سے لگتا ہے کہ آپ میری دلیل سے متفق ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے دل کے کسی کونے کھدرے میں بیٹا اور بیٹی کے فرق کا احساس جاگزیں ہے، جس کی گواہی اکثر مواقع پر ہماری زبانیں دے بیٹھتی ہیں۔ میری طرح کے لوگ اسے فوراً تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن آپ لوگ کنّی کاٹ جاتے ہیں۔

    لیکن بھائیو! میری ان تمام باتوں کے باوجود میرے ساتھ ایک ایسا عجیب واقعہ پیش آیا، جس کی میں کوئی توجیہ نہیں پیش کر سکا، کوئی پھانس سی ہے، جو مسلسل میرے دل میں چبھے جا رہی ہے اور کسی طرح نکلنے کا نام نہیں لیتی۔

    ٹھہریے ٹھہریے، صبر کریں، بتاتا ہوں….. آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ پچھلے ماہ ایک لٹیرے نے ٹی ٹی دکھا کر میرا موبائل فون چھین لیا تھا۔ اس واقعے کی تفصیل میں نے کسی کو نہیں بتائی۔ لیکن آج میں آپ کو بتا ہی دیتا ہوں۔

    ہُوا یہ کہ جب اُس لٹیرے نے پستول دکھا کر مجھ سے میرا موبائل فون مانگا تو میرے دل میں مزاحمت کا خیال آیا۔ جسے ہی اُس لٹیرے کی نظر چوکی، میں نے اس کے اسلحہ بردار ہاتھ پر اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ ہم دونوں میں کشمکش ہونے لگی۔ میں اُس لٹیرے پر غالب آنے ہی والا تھا کہ شو مئی قسمت، اس کا دوسرا ساتھی جو قریب کے ایک درخت کی آڑ میں کھڑا تھا، اس کی مدد کو لپکا اور میں دوسرے ہی لمحے بے بسی کے عالم میں زمین پر پڑا ہوا تھا۔ میری مزاحمت نے پہلے والے لٹیرے کو غضب ناک کر دیا تھا، اُس نے میرے اوپر پستول تانی اور ٹریگر پر انگلی کا دباؤ بڑھانے لگا۔ اس سے پہلے کہ اس کی گولی مجھے آپ کو یہ قصّہ سنانے کے قابل نہ چھوڑتی، بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔

    ”مجھے مت مارنا، میری چھوٹی چھوٹی دو معصوم بچیاں ہیں۔“

    جی! آپ نے کیا فرمایا، اس میں ایسی کیا بات ہے جو مجھے پریشان کر رہی ہے، کوئی بھی شخص خدا اور اپنی اولاد کا واسطہ دے کر ڈاکو اور پولیس والوں سے رحم کی بھیک مانگ سکتا ہے۔

    آپ ٹھیک کہتے ہیں، لیکن یہ تو سوچیں کہ میرا ایک بیٹا بھی ہے، پھر میں نے خاص کر اپنی بچیوں کا ہی حوالہ کیوں دیا۔ یہ کیوں نہ کہا کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ یہ گتھی اب تک مجھ سے نہیں سلجھ رہی۔ اگر آپ حضرات کے پاس اس سوال کا جواب ہو تو مجھے ضرور مطلع فرمائیے گا۔

    اب آپ لوگ اپنے اپنے گھر جائیں، رات کافی بیت گئی ہے، میرا بیٹا گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہا ہوگا، لیکن میری بچیاں میرے انتظار میں جاگ رہی ہوں گی۔ جب تک میں انھیں پیار نہ کر لوں، کم بخت سوتی ہی نہیں ہیں!

    (پیشِ نظر افسانے کے خالق شفیع موسیٰ منصوری ہیں جنھیں‌ پرنٹ میڈیا میں علمی و تحقیقی صحافت کے لیے پہچانا جاتا ہے، وہ ایک مؤقر روزنامے کے لیے فیچر نگاری کے علاوہ کئی اہم شخصیات کے انٹرویوز کرچکے ہیں)