Tag: شفیق الرحمان

  • جب روفی ‘شیطان’ مشہور ہوئے!

    جب روفی ‘شیطان’ مشہور ہوئے!

    اس رات اتفاق سے میں نے شیطان کو خواب میں دیکھ لیا۔ خواہ مخواہ خواب نظر آگیا۔ رات کو اچھا بھلا سویا تھا، نہ شیطان کے متعلق کچھ سوچا نہ کوئی ذکر ہوا۔ نجانے کیوں ساری رات شیطان سے باتیں ہوتی رہیں اور شیطان نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا کہ خاکسار کو شیطان کہتے ہیں۔

    یہ فقط ذہنی تصویر تھی جس سے شبہ ہوا کہ یہ شیطان ہے۔ چھوٹے چھوٹے نوک دار کان، ذرا ذرا سے سینگ، دبلا پتلا بانس جیسا لمبا قد۔ ایک لمبی دم جس کی نوک تیر کی طرح تیز تھی۔ دُم کا سرا شیطان کے ہاتھ میں تھا۔ میں ڈرتا ہی رہا کہ کہیں یہ چبھو نہ دے۔ نرالی بات یہ تھی کہ شیطان نے عینک لگا رکھی تھی۔ رات بھر ہم دونوں نہ جانے کس کس موضوع پر بحث کرتے رہے۔

    اس صبح چائے کی میز پر بیٹھتے ہیں تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ روفی کی شکل بالکل شیطان سے ملتی تھی۔ شکل کیا حرکتیں بھی وہیں تھیں۔ ویسا ہی قد، وہی چھوٹا سا چہرہ، لمبی گردن، ویسی ہی عینک، وہی مکار سی مسکراہٹ۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ چپکے سے رضیہ کے کان میں کہہ دیا کہ روفی شیطان سے ملتے ہیں۔ وہ بولی۔ آپ کو کیا پتہ؟ کہا کہ ابھی ابھی تو میں نے اصلی شیطان کو خواب میں دیکھا ہے۔ حکومت آپا رضیہ کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے جو ہمیں سرگوشی کرتے دیکھا تو بس بے قابو ہوگئیں۔ فوراً پوچھا۔۔۔ کیا ہے۔۔۔؟ رضیہ نے بتا دیا۔

    حکومت آپا کو تو ایسا موقع خدا دے۔ بس میز کے گرد جو بیٹھا تھا اسے معلوم ہوگیا کہ روفی کا نیا نام رکھا جا رہا ہے۔ لیکن محض خواب دیکھنے پر تو نام نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ ویسے روفی نے ہمیں تنگ بہت کر رکھا تھا۔ بچوں تک کی خواہش تھی کہ ان کا نام رکھا جائے۔

    ہم چائے ختم کرنے والے تھے۔ مجھے دوسرے آملیٹ کا انتظار تھا اور رضیہ کو پتہ نہیں کس چیز کا۔۔۔ کالج میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا، اس لیے مزے مزے سے ناشتہ کر رہے تھے۔ اتنے میں ننھا حامد بھاگا بھاگا آیا۔ اس کے اسکول کا وقت ہوگیا تھا اس لیے جلدی میں تھا۔ وہ روفی کے برابر بیٹھ گیا۔ حامد کو بخار ہو گیا تھا۔ تبھی اس کی حجامت ذرا باریک کروائی گئی تھی۔ روفی نے بڑی للچائی ہوئی نگاہوں سے حامد کے سر کو دیکھا۔ جونہی حامد نے ٹوسٹ کھانا شروع کیا روفی نے ایک ہلکا سا تھپڑ حامد کے سر پر جما دیا، اور میں نے فوراً رضیہ سے کہہ دیا کہ سچ مچ روفی شیطان ہی ہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی ننگے سر کھائے تو شیطان دھول مارتا ہے۔ حکومت آپا چونک کر ہماری جانب متوجہ ہوئیں۔ ان کو پتہ چلنا تھا کہ سارے کنبے کو معلوم ہوگیا کہ آج سے روفی شیطان کہلائے جائیں گے۔

    یہ تھا وہ واقعہ جس کے بعد روفی شیطان مشہور ہوگئے۔ چند ہی دنوں میں ہر ایک کی زبان پر یہ نام چڑھ گیا۔ یہاں تک کہ خود روفی نے اس نام کو بہت پسند کیا۔ روفی اور میں بچپن کے دوست تھے اور مجھے ان کی سب کہانیاں یاد تھیں۔ جب ہم بالکل چھوٹے چھوٹے تھے تو ایک دن روفی کو ان کی نانی جان تاریخ پڑھا رہی تھیں۔ جب پتھر اور دھات کے زمانے کا ذکر آیا تو روفی پوچھنے لگے، ’’نانی جان آپ پتھر کے زمانے میں کتنی بڑی تھیں؟‘‘ پھر کہیں سقراط اور بقراط کا ذکر ہوا۔ یہ بولے، ’’نانی جان سقراط اور بقراط کیسے تھے؟‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’آپ نے تو دیکھے ہوں گے۔‘‘ جواب ملا۔ ہر وقت روفی کو کچھ نہ کچھ سوجھتی رہتی تھی۔

    لیکن جب ہماری جماعت میں انسپکٹر صاحب معائنہ کرنے آئے تو وہ روفی سے بہت خوش ہوئے اور انعام دے کر گئے۔ انہوں نے پوچھا، ’’اگر پانی کو ٹھنڈا کیا جائے تو کیا بن جائے گا؟‘‘ ہم نے سوچا کہ روفی کہہ دیں گے کہ برف بن جائے گا۔

    روفی نے پوچھا، ’’کتنا ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    وہ بولے، ’’بہت ٹھنڈا کیا جائے۔‘‘

    روفی سوچ کر بولے، ’’تو وہ بہت ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ (بہت پر زور دے کر)

    ’’اگر اور بھی ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    ’’تو پھر وہ اور بھی ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ روفی بولے۔

    ’’اور اگر اسے بے حد ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    ’’تو وہ بے حد ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ انسپکٹر صاحب مسکرانے لگے اور پوچھا، ’’اچھا اگر پانی کو گرم کیا جائے تب؟‘‘

    ’’تب وہ گرم ہو جائے گا۔‘‘

    ’’نہیں، اگر ہم اسے بہت گرم کریں اور دیر تک گرم کرتے رہیں پھر؟‘‘

    روفی کچھ دیر سوچتے رہے، یکایک اچھل کر بولے، ’’پھر۔۔۔ چائے بن جائے گی۔‘‘ اور انسپکٹر صاحب نے ایک عظیم الشان قہقہہ لگایا۔ ماسٹر صاحبان نے کوشش کی کہ انہیں کہیں ادھر ادھر لے جائیں، لیکن وہ وہیں کھڑے رہے اور روفی سے بولے، ’’بلّی کی کتنی ٹانگیں ہوتیں ہیں؟‘‘

    ’’تقریباً چار!‘‘

    ’’اور آنکھیں؟‘‘

    ’’کم از کم دو۔۔۔!‘‘

    ’’اور دُمیں؟‘‘

    ’’زیادہ سے زیادہ ایک!‘‘

    ’’اور کان؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’تو کیا سچ مچ آپ نے اب تک بلّی نہیں دیکھی؟‘‘ روفی منہ بنا کر بولے اور انسپکٹر صاحب ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے۔ ان دنوں سے میں اور روفی دوست تھے۔

    (پاکستان کے معروف طنز و مزاح نگار اور افسانہ نویس شفیق الرحمان کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • اسلام آباد کے حلقہ این اے 46 میں ووٹرز کو رشوت دینے کا انکشاف

    اسلام آباد کے حلقہ این اے 46 میں ووٹرز کو رشوت دینے کا انکشاف

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت این اے 46 میں ووٹرز کر رشوت دینے کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد این اے 46 سے مرکزی مسلم لیگ کے امیدوار شفیق الرحمان کو ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر کی جانب سے نوٹس جاری کیا گیا۔

    نوٹس میں کہا گیا کہ امیدوار کی جانب سے سستا سہولت بازار میں ووٹرز  لانے کیلئے پیسے دیے گئے، یہ سستا سہولت بازار جی 13 اسلام آباد میں پبلک پراپرٹی پر لگایا گیا۔

    نوٹس میں مزید کہا گیا کہ شفیق الرحمان وڑائچ نے الیکشن ایکٹ 234 کی خلاف ورزی کی ہے وہ 21 جنوری کو ڈی آر او کے سامنے پیش ہوں۔

  • "وہ باتیں جن پر عمل کرکے آپ زندگی میں کام یاب نہیں ہوسکتے!”

    "وہ باتیں جن پر عمل کرکے آپ زندگی میں کام یاب نہیں ہوسکتے!”

    ہم لوگ خوش قسمت ہیں کیوں کہ ایک حیرت انگیز دور سے گزر رہے ہیں۔ آج تک انسان کو ترقّی کرنے کے اتنے مواقع کبھی میسر نہیں ہوئے، پرانے زمانے میں ہرایک کو ہر ہنر خود سیکھنا پڑتا تھا، لیکن آج کل ہر شخص دوسروں کی مدد پر خواہ مخواہ تلا ہوا ہے اور بلاوجہ دوسروں کو شاہراہِ کام یابی پر گام زن دیکھنا چاہتا ہے۔

    اس موضوع پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ اگرآپ کی مالی حالت مخدوش ہے تو فوراً ’لاکھوں کماؤ‘ خرید لیجیے۔ اگر مقدمہ بازی میں مشغول ہیں تو ’راہ نمائے قانون‘ لے آئیے۔اگر بیمارہیں تو ’گھر کا طبیب‘ پڑھنے سے شفا یقینی ہے۔ اس طرح ’’کام یاب زندگی‘‘، ’’کام یاب مرغی خانہ‘‘، ’’ریڈیو کی کتاب‘‘، ’’کلیدِ کام یابی‘‘، ’’کلیدِ مویشیاں‘‘ اور دوسری لاتعداد کتابیں بنی نوع انسان کی جو خدمت کر رہی ہیں، اس سے ہم واقف ہیں۔

    مصنّف ان کتابوں سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے ازراہِ تشکر کلیدِ کام یابی، حصّہ دوم، لکھنے کا ارادہ کیا، تاکہ وہ چند نکتے جو اس افادی ادب میں پہلے شامل نہ ہو سکے، اب شریک کر لیے جائیں۔

    حافظہ تیز کرنا
    اگر آپ کو باتیں بھول جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا حافظہ کم زور ہے۔ فقط آپ کو باتیں یاد نہیں رہتیں۔ علاج بہت آسان ہے۔

    آئندہ ساری باتیں یاد رکھنے کی کوشش ہی مت کیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ باتیں آپ کو ضرور یاد رہ جائیں گے۔

    بہت سے لوگ بار بار کہا کرتے ہیں۔ ہائے یہ میں نے پہلے کیوں نہیں سوچا؟ اس سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ ہمیشہ پہلے سے سوچ کر رکھیے اور یا پھر ایسے لوگوں سے دور رہیے، جو ایسے فقرے کہا کرتے ہیں۔

    دانش مندوں نے مشاہدہ تیز کرنے کے طریقے بتائے ہیں کہ پہلے پھرتی سے کچھ دیکھیے، پھر فہرست بنائیے کہ ابھی آپ نے کیا کیا دیکھا تھا۔ اس طرح حافظے کی ٹریننگ ہوجائے گی اور آپ حافظ بنتے جائیں گے۔ لہٰذا اگر اور کوئی کام نہ ہو تو آپ جیب میں کاغذ اورپنسل رکھیے۔ چیزوں کی فہرست بنائیے اور فہرست کو چیزوں سے ملایا کیجیے۔ بڑی فرحت حاصل ہوگی۔

    مشہور فلسفی شوپنہار سیر پر جاتے وقت اپنی چھڑی سے درختوں کو چھوا کرتا تھا۔ ایک روز اسے یاد آیا کہ پل کے پاس جو لمبا درخت ہے، اسے نہیں چھوا۔ وہ مردِعاقل ایک میل واپس گیا اور جب تک درخت نہ چھو لیا، اسے سکونِ قلب حاصل نہ ہوا۔ شوپنہار کے نقشِ قدم پر چلیے۔ اس سے آپ کا مشاہدہ اس قدر تیز ہوگا کہ آپ اور سب حیران رہ جائیں گے۔

    خوف سے مقابلہ
    دل ہی دل میں خوف سے جنگ کرنا بے سود ہے۔ کیوں کہ ڈرنے کی ٹریننگ ہمیں بچپن سے ملتی ہے اور شروع ہی سے ہمیں بھوت، چڑیل، باؤ اور دیگر چیزوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ اگر آپ کو تاریکی سے ڈر لگتا ہے تو تاریکی میں جائیے ہی مت۔

    اگر اندھیرا ہوجائے تو جلدی سے ڈر کر روشنی کی طرف چلے آئیے۔ آہستہ آہستہ آپ کو عادت پڑ جائے گی اور خوف کھانا پرانی عادت ہوجائے گی۔

    تنہائی سے خوف آتا ہو تو لوگوں سے ملتے رہا کیجیے۔ لیکن ایک وقت میں صرف ایک چیز سے ڈریے، ورنہ یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ اس وقت آپ دراصل کس چیز سے خوف زدہ ہیں۔

    وقت کی پابندی
    تجربہ یہی بتاتا ہے کہ اگرآپ وقت پر پہنچ جائیں تو ہمیشہ دوسروں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے اکثر دیر سے آتے ہیں۔ چنانچہ خود بھی ذرا دیر سے جائیے۔ اگر آپ وقت پر پہنچے۔ تو دوسرے یہی سمجھیں گے کہ آپ کی گھڑی آگے ہے۔

    وہم کاعلاج
    اگر آپ کو یونہی وہم سا ہوگیا ہے کہ آپ تندرست ہیں تو کسی طبیب سے ملیے۔ یہ وہم فوراً دور ہوجائے گا۔ لیکن اگر آپ کسی وہمی بیماری میں مبتلا ہیں تو ہر روز اپنے آپ سے کہیے۔ میری صحّت اچھی ہو رہی ہے… میں تندرست ہو رہا ہوں….

    احساسِ کمتری ہو تو بار بار مندرجہ ذیل فقرے کہے جائیں۔ میں قابل ہوں…. مجھ میں کوئی خامی نہیں… جو کچھ میں نے اپنے متعلق سنا، سب جھوٹ ہے…. میں بہت بڑا آدمی ہوں۔ (یہ فقرے زور زور سے کہے جائیں تاکہ پڑوسی بھی سن لیں)

    بے خوابی سے نجات
    اگر نیند نہ آتی ہو تو سونے کی کوشش مت کیجیے۔ بلکہ بڑے انہماک سے فلاسفی کی کسی موٹی سی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیجیے۔ فوراً نیند آجائے گی۔ مجرّب نسخہ ہے۔ ریاضی کی کتاب کا مطالعہ بھی مفید ہے۔

    ہمیشہ جوان رہنے کا راز
    اوّل تو یہ سوچنا ہی غلط ہے کہ جوان رہنا کوئی بہت بڑی خوبی ہے۔ اس عمر کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ملاحظہ ہو وہ شعر،

    خیر سے موسمِ شباب کٹا
    چلو اچھا ہوا عذاب کٹا

    تاہم اگر آپ نے ہمیشہ جوان رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو بس خواہ مخواہ یقین کر لیجیے کہ آپ سدا جوان رہیں گے۔ آپ کے ہم عمر بیشک بوڑھے ہوجائیں، لیکن آپ پر کوئی اثر نہ ہوگا۔ جوانوں کی سی حرکتیں کیجیے۔ اصلی نوجوانوں میں اٹھیے بیٹھیے۔ اپنے ہم عمر بوڑھوں پر پھبتیاں کسیے۔ خضاب کا استعمال جاری رکھیے اور حکیموں کے اشتہاروں کا بغور مطالعہ کیجیے۔

    دلیر بننے کا طریقہ
    دوسرے تیسرے روز چڑیا گھر جا کر شیر اور دیگر جانوروں سےآنکھیں ملائیے (لیکن پنجرے کے زیادہ قریب مت جائیے) بندوق خرید کر انگیٹھی پر رکھ لیجیے اور لوگوں کو سنائیے کہ کس طرح آپ نے پچھلے مہینے ایک چیتا یا ریچھ (یا دونوں) مارے تھے۔ بار بار سنا کر آپ خود یقین کرنے لگیں گے کہ واقعی آپ نے کچھ مارا تھا۔

    (اردو ادب میں شفیق الرّحمان طنز و مزاح نگار کے طور پر پہچان رکھتے ہیں، یہ سرخیاں ان کی شگفتہ تحریر "کلیدِ کام یابی” سے لی گئی ہیں)