Tag: شفیق الرحمن کی کتاب

  • "گفتگو کا آرٹ”

    "گفتگو کا آرٹ”

    جو کچھ کہنے کا ارادہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے، وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ ورنہ جتنی دیر جی چاہے باتیں کیجیے۔

    اگر کسی اور نے بولنا شروع کر دیا، تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا (بور وہ شخص ہے جو اس وقت بولتا چلا جائے، جب آپ بولنا چاہتے ہوں)

    چناں چہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کردیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجیے۔

    اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا، تو بے شک جمائیاں لیجیے، کھانسیے، بار بار گھڑی دیکھیے۔ ’’ابھی آیا۔۔۔‘‘ کہہ کر باہر چلے جائیے یا وہیں سو جائیے۔

    یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگاتار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہوجائے گا۔ مجلسی تکلفات بہتر ہیں یا اپنی ذہانت پر شبہ کروانا؟ البتہ لڑائیے مت، کیوں کہ اس سے بحث میں خلل آسکتا ہے۔

    کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے کبھی مت مانیے۔ لوگ ٹوکیں، تو الٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کرکے انہیں خاموش کرادیجیے، ورنہ وہ خواہ مخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔

    دورانِ گفتگو لفظ ’آپ‘ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اصل چیز ’میں‘ ہے۔ اگر آپ نے آپ اپنے متعلق نہ کہا، تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔

    تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کیجیے۔ کبھی کسی کی تعریف مت کیجیے۔ ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ اسے کسی کام کے لیے کہنا چاہتے ہیں۔

    اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا مطلوب ہو، جسے وہ چھپا رہا ہو، تو بار باراس کی بات کاٹ کر اسے چڑا دیجیے۔ وکیل اسی طرح مقدمے جیتتے ہیں۔

    (اردو زبان کے مشہور مزاح نگار اور افسانہ نویس شفیق الرحمان کے مضمون کلیدِ کامیابی سے اقتباس)

  • تربیتِ اطفال کے کچھ وکھرے مشورے!

    تربیتِ اطفال کے کچھ وکھرے مشورے!

    بچوں سے کبھی کبھی نرمی سے بھی پیش آئیے۔ سوال پوچھیں تو جواب دیجیے، مگر اس انداز میں کہ دوبارہ سوال نہ کر سکیں۔

    اگر زیادہ تنگ کریں تو کہہ دیجیے جب بڑے ہو گے سب پتا چل جائے گا۔

    بچوں کو بھوتوں سے ڈراتے رہیے۔ شاید وہ بزرگوں کا ادب کرنے لگیں۔ بچوں کو دل چسپ کتابیں مت پڑھنے دیجیے، کیوں کہ کورس کی کتابیں کافی ہیں۔

    اگر بچے بے وقوف ہیں تو پروا نہ کیجیے۔ بڑے ہو کر یا تو جینیئس بنیں گے یا اپنے آپ کو جینیئس سمجھنے لگیں گے۔

    بچے کو سب کے سامنے مت ڈانٹیے۔ اس کے تحت الشعور پر برا اثر پڑے گا۔ ایک طرف لے جا کر تنہائی میں اس کی خوب "تواضع” کیجیے۔

    بچوں کو پالتے وقت احتیاط کیجیے کہ ضرورت سے زیادہ نہ پَل جائیں، ورنہ وہ بہت موٹے ہو جائیں گے اور والدین اور پبلک کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔

    اگر بچے ضد کرتے ہیں تو آپ بھی ضد کرنا شروع کر دیجیے۔ وہ شرمندہ ہو جائیں گے۔

    ماہرین کا اصرار ہے کہ موزوں تربیت کے لیے بچوں کا تجزیۂ نفسی کرانا ضروری ہے، لیکن اس سے پہلے والدین اور ماہرین کا تجزیۂ نفسی زیادہ مناسب ہو گا۔

    دیکھا گیا ہے کہ کنبے میں صرف دو تین بچے ہوں تو وہ لاڈلے بنا دیے جاتے ہیں۔ لہذا بچے دس بارہ ہونے چاہییں، تاکہ ایک بھی لاڈلا نہ بن سکے۔

    اسی طرح آخری بچہ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بگاڑ دیا جاتا ہے، چناں چہ آخری بچہ نہیں ہونا چاہیے۔

    (معروف مزاح‌ نگار شفیق الرحمٰن کی کتاب سے چند شگفتہ سطور)