Tag: شمسی توانائی

  • یورپ میں شمسی توانائی بجلی فراہمی کا سب سے اہم ذریعہ بن گئی

    یورپ میں شمسی توانائی بجلی فراہمی کا سب سے اہم ذریعہ بن گئی

    برطانیہ میں مقیم تھنک ٹینک ’ایمبر گروپ‘ کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ شمسی توانائی یورپ میں بجلی فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ بن گئی ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق رپورٹ کے مطابق رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ رواں سال جون میں یورپ میں بجلی پیدا کرنے کے کسی بھی دوسرے ذریعے کے مقابلے میں سولر پینلز کے ذریعے سب سے زیادہ بجلی پیدا کی گئی ہے جو بجلی کے کل پیداوار کا 22.1 فیصد بنتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یورپ میں اس دوران جوہری توانائی سے 21.8 فیصد، ہوا سے 15.8 فیصد، کوئلے سے 14.4 فیصد جبکہ پانی سے 12.8 فیصد بجلی کی پیداوار کی گئی۔

    رپورٹس کے مطابق کم از کم 13 ممالک نے شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار کا اپنا قومی ریکارڈ توڑ دیا۔

    رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بجلی کی پیداوار کا بھی نیا ریکارڈ بنا جبکہ کوئلے سے بجلی کی پیداوار میں کمی آئی۔

    اسلام آباد کے اسپتالوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ

    رپورٹ کے مطابق پورے براعظم میں کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کا تخمینہ6.1 فیصد لگایا ہے جو کہ 2024ء میں 8.8 فیصد تھا لیکن بجلی کی طلب میں اضافے کی وجہ سے 2025ء کی پہلی ششماہی میں کوئلے کا استعمال 2024ء کے اسی عرصے کے مقابلے میں اب بھی زیادہ تھا۔

    رپورٹ کے مطابق یورپ میں رواں سال پہلے 6 ماہ میں بجلی کی طلب گزشتہ سال کے مقابلے 2 فیصد زیادہ رہی۔

  • شمسی توانائی کا انقلاب : پاکستان کا متوسط طبقہ کیوں پیچھے رہ گیا؟

    شمسی توانائی کا انقلاب : پاکستان کا متوسط طبقہ کیوں پیچھے رہ گیا؟

    کراچی : پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت اور گرمی کی شدت سے بچنے کیلیے لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنے گھروں کی چھتوں پر شمسی توانائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سولر پینلز لگانے شروع کردیے، یہ سلسلہ صرف شہروں ہی نہیں بلکہ دیہی علاقوں تک بھی پھیل چکا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2024 میں پاکستان نے دنیا کئی ممالک کی نسبت سب سے زیادہ سولر پینلز درآمد کیے، پاکستان میں شمسی توانائی یہ انقلاب متوسط طبقے کے لیے بھی امید کی کرن ثابت ہوا لیکن اس کی دسترس میں نہ آسکا۔

    ماہ اپریل کی 40ڈگری سینٹی گریڈ گرمی میں جب کراچی میں نظام زندگی مفلوج ہو چکا تھا، شہر کی ایک صاحبِ حیثیت کاروباری شخصیت سعد سلیم بےفکر ہوکر اپنے گھر کا اے سی چلا رہے تھے۔

    سولر پینلز

    بجلی کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں مگر سعد سلیم جیسے خوشحال افراد کو اس کی بالکل پرواہ نہیں، کیونکہ انہوں نے دو سال قبل اپنے بنگلے کی چھت پر ساڑھے 7 ہزار امریکی ڈالر کی لاگت سے سولر پینلز نصب کروا لیے تھے۔

    پاکستان میں سولر سسٹم لگوانے کی یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے درمیان ایک ابتدائی بیل آؤٹ معاہدہ طے پا رہا تھا۔

    اس معاہدے کے تحت پاکستان میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا تاکہ شدید قرضوں میں ڈوبے توانائی کے شعبے کو سہارا دیا جا سکے۔

    شمسی توانائی کے استعمال میں تیزی سے اضافہ

    برطانوی انرجی تھنک ٹینک ’ایمبر‘ کے مطابق سال2021میں شمسی توانائی پاکستان کی صرف 4% بجلی کا ذریعہ تھی جو 2023 تک بڑھ کر 14% ہوگئی اور کوئلے کو پیچھے چھوڑ کر یہ توانائی کے حصول کا تیسرا بڑا ذریعہ بن گئی ہے۔

    حیران کن طور پر یہ شرح چین ( جو دنیا کا سب سے بڑا سولر پینل فراہم کنندہ ملک ہے ) سے تقریباً دوگنی ہے، جو ایشیا میں بھی نمایاں طور پر سب سے آگے ہے۔

    متوسط طبقہ پیچھے رہ گیا

    پاکستان میں سولر توانائی کا انقلاب ایک تاریخی تبدیلی ضرور ہے، مگر اس کا ثمر صرف خوشحال اور زمین کی ملکیت رکھنے والے افراد کو ملا ہے۔

    کرائے پر رہنے والے متوسط طبقے کے شہریوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، مگر کمزور مالی حالات کے پیش نظر وہ اس سولر توانائی کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔ اگر حکومت فوری اور جامع اصلاحات نہیں کرتی تو توانائی کا یہ فرق مزید بڑھے گا، جس کے معاشی اور سماجی اثرات سنگین ہوسکتے ہیں۔

    تاہم، یہ "شمسی انقلاب” پاکستان کے شہری متوسط طبقے کے لیے ایک خواب ہی رہا۔ بجلی کے بلوں میں اضافے کے بعد ان کے لیے مہنگا سولر سسٹم لگوانا مشکل ہوگیا ہے اور بہت سے لوگ ضرورت کے باوجود بجلی کے استعمال میں کمی کرنے پر مجبور ہیں۔

    شمسی توانائی سے مستفید ہونے والے زیادہ تر افراد وہ ہیں جو اپنی جائیداد کے مالک ہیں یا دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، جہاں چھوٹے سسٹمز سے بھی کام چل جاتا ہے۔

    فلیٹوں اور تنگ گلیوں میں قائم اپارٹمنٹس میں رہنے والے شہریوں کو سولر پلیٹیں چھت پر نصب کرنے کی سہولت میسر نہیں لہٰذا وہ اس شمسی توانائی کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔

    اس کے علاوہ پاکستان میں گھروں میں نصب زیادہ تر سولر سسٹم بجلی کے گرڈ سے منسلک نہیں ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اضافی بجلی قومی نظام کو واپس نہیں دی جاتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنہوں نے سولر سسٹم لگوایا وہ بجلی کے گرڈ سے الگ ہو رہے ہیں اور بجلی کی کمپنیاں اپنے سب سے منافع بخش صارفین سے محروم ہو رہی ہیں۔

    اس صورتحال کے پیش نظر باقی صارفین پر بجلی کی لاگت کا بوجھ مزید بڑھتا جارہا ہے، سال 2023–24 میں 200 ارب روپے کے فکسڈ اخراجات ان صارفین پر ڈالے گئے جو سولر استعمال نہیں کرتے، جس سے فی یونٹ 6.3فیصد اضافی ادائیگی ہوئی۔

    سولر پینل

    متوسط طبقے کی مجبوریاں

    ایک سولر سسٹم لگانے والے صارف کو بجلی کے گرڈ سے منسلک ہونے میں 3 سے 9 ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے اور انورٹر جیسے آلات کی قیمت 1400 ڈالر سے 1800 ڈالر تک ہے جو پاکستان کے متوسط گھرانے کی نصف سالانہ آمدنی کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ سولر پینلز کو نصب کرنے کی اجازت اور سرکاری منظوری میں تاخیر بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

    اس حوالے سے ماہرین توانائی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مثال دنیا کے لیے ایک انتباہ ہو سکتا ہے کہ کس طرح حکومتوں کو مؤثر پالیسی سازی اور ریگولیشنز کو تکنیکی ترقی اور معاشی تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ رہنا چاہیے۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب حکومتیں عوامی مسائل پر فوری اور مناسب وقت پر ردعمل نہیں دیتیں تو لوگ خود اپنے تئیں اقدامات کرنے لگتے ہیں اور پاکستان کی صورتحال اس کی واضح مثال ہے۔

  • اسلام آباد کے اسپتالوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد کے اسپتالوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : وفاقی دارالحکومت کے اسپتالوں کو مرحلہ وار شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے اسپتالوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد کے اسپتالوں کو مرحلہ وار شمسی توانائی پر منتقل کیا جائےگا، پہلےمرحلے میں پمز اسپتال، پولی کلینک اور دوسرے مرحلے این آئی آر ایم ، ایف جی اسپتال سولر پر منتقل ہوں گے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ وزارت صحت نے پمز،پولی کلینک سے سولر ائزنگ پلان مانگ لیا، پمز،پولی کلینک سولرائزیشن منصوبہ آئندہ پی ایس ڈی پی میں شامل ہو گا۔

    پی ایس ڈی پی میں پمز، پولی کلینک سولرئزایشن منصوبے کیلئے فنڈز مختص ہوں گے ، پمز اسپتال، پولی کلینک انتظامیہ سولر توانائی منتقلی پلان تیارکر رہی ہیں، سولر پر منتقلی سے بلوں کی مد میں کثیر بچت ہو گی۔

    ذرائع وزارت صحت کا بتانا تھا کہ پمز اسپتال کا ماہانہ بجلی بل 3 کروڑ روپے سے زائد اور پولی کلینک اسپتال کا ماہانہ بجلی بل 70لاکھ روپے سے زائد آتا ہے، ماضی میں عدم ادائیگی پرمتعددبار پمز، پولی کلینک کی بجلی منقطع ہو چکی ہے۔

  • جرمنی بجلی کی ملکی ضروریات کیسے پوری کررہا ہے؟ اہم رپورٹ‌

    جرمنی بجلی کی ملکی ضروریات کیسے پوری کررہا ہے؟ اہم رپورٹ‌

    دنیا کے متعدد ممالک اپنی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے استفادہ کررہے ہیں، جرمنی نے بھی گذشتہ سال بجلی کی بڑی ضرورت شمسی توانائی سے حاصل کی۔

    پی وی میگزین کی رپورٹ کے مطابق پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی کی تمام تر ضروریات پوری کرنے والے سات ممالک میں البانیہ، بھوٹان، نیپال، پیراگوئے، آئس لینڈ، ایتھوپیا اور ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگون شامل ہیں۔

    یہ ممالک اپنے شہریوں کے استعمال کے لئے بجلی کا 99.7 فیصد سے زیادہ حصہ جیوتھرمل، ہائیڈرو اور شمسی یا ہوا سے پیدا کرنے لگے ہیں۔

    germany

    اگر جرمنی کی بات کی جائے تو یورپی ممالک میں بجلی کا سب سے بڑا صارف ملک جرمنی ہے جس نے گذشتہ سال2024 میں بجلی کی ضرورت کا 14 فیصد شمسی توانائی سے پورا کیا۔

    اس حوالے سے جرمنی کی شمسی توانائی یونین نے ملک کے شمسی توانائی سیکٹر کے بارے میں تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 میں جرمنی میں شمسی توانائی کی تنصیب میں 2023 کے مقابلے میں 10فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ سال سے ملک کے بجلی نیٹ ورک میں، 17 گیگا واٹ سے زیادہ پاور کے اہل ایک ملین مالیت سے زائد سولر انرجی سسٹم نے بجلی کی فراہمی شروع کردی ہے۔

    Solar system

    ملک میں شمسی توانائی پر منحصر کُل نصب شدہ بجلی پہلی دفعہ 100 گیگاواٹ کی تاریخی حد کو عبور کر گئی ہے اور گذشتہ سال جرمنی کی بجلی کی ضرورت کا تقریباً 14 فیصد شمسی توانائی سے پورا کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ جرمنی، 2030 تک، 215 گیگاواٹ شمسی بجلی گھر نظام تک پہنچنے کا ہدف رکھتا ہے۔

  • ملک بھر میں  کتنے شہریوں نے سولر پینل اور نیٹ میٹر لگوائے؟ انکشافات سامنے آگئے

    ملک بھر میں کتنے شہریوں نے سولر پینل اور نیٹ میٹر لگوائے؟ انکشافات سامنے آگئے

    اسلام آباد : ملک بھرمیں مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ سے ستائے عوام کا سولر پینل خریدنے کے رحجان میں اضافہ ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق بجلی کی اضافی قیمتوں کے باعث ملک بھر میں شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار شروع کر دی گئی، شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کی وجہ سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے یونٹس کی فروخت میں کمی ہو گئی۔

    بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی بجلی کے یونٹس میں فروخت میں کمی کا اثر کیپسٹی چارجز پر بھی پڑے گا۔

    نیپرا کی اسیٹیٹ اف انڈسٹری رپورٹ مالی سال 23 کے اعداوشمار میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے۔

    رپورٹ کے مطابق ملک بھر کے شہریوں نے آف گرڈ اور آن گرڈ ریکارڈ تعداد میں سولر پینل نصب کرالئے ہیں، ملک میں سب سے زیادہ سولر پینل اور نیٹ میٹر لگوانے والوں میں لاہور کے صارفین نے مالی سال 2023 میں 19 ہزار سے زائد نیٹ میٹر لگوائے۔

    مفت سولر پینل اسکیم : آپ اہل ہیں یا نہیں ؟ اہلیت چیک کرنے کا طریقہ کار سامنے آگیا

    نیپرا نے بتایا کہ اسلام اباد کے شہری نیٹ میٹرنگ کے حصول میں دوسرے نمبر پر رہے اور صارفین نے مالی سال 2023 میں 14 ہزار 958 نیٹ میٹر لگوائے۔

    رپورٹ میں کہنا تھا کہ نیٹ میٹرنگ کے معاملے میں ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی نیٹ میٹرنگ میں تیسرے نمبر رہا، کراچی میں مالی سال 23 میں نیٹ میٹرز کی تعداد صرف 4ہزار 515 رہی۔

    مالی سال 24 میں کراچی میں نیٹ میٹرنگ میں تقریبا پچاس فیصد اضافہ ہوا ، نیٹ میٹر کی تعداد 6 ہزار 300 کے قریب ہے ۔

    نیپرا رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2023 میں ملک بھر میں 48 ہزار 689 نیٹ میٹر لگائے گئے، کمرشل نیٹ میٹر کی تعداد ملک بھرمیں 4 ہزار 229 اورصنعتی صارفین کی تعداد 2 ہزار 303 ہے جبکہ نیٹ میٹرز لگوانے والوں میں زیادہ تعداد گھریلو صارفین کی ہے۔

    ذرائع کے مطابق کراچی میں بڑی تعداد میں نیٹ میٹرنگ کی وجہ سے ڈی ایچ اے ،گلشن اقبال ،محمد علی سوسائٹی ،پی ای سی ایچ ایس ، کلفٹن ،کورنگی ،ایف بی ایریا اور نارتھ کراچی میں نیٹ میٹرنگ کا حصول اب ممکن نہیں رہا۔

    کراچی کے بیشتر علاقوں میں کے الیکٹرک کی پی ایم ٹی 80 فیصد کیپسیٹی پورا کر چکی ہیں اور نیپرا قوانین کے تحت پی ایم ٹی پر 80 فیصد لوڈ تک نیٹ میٹرز نصب کئے جاسکتے

  • غزہ : انجینئر نے شمسی توانائی کے ذریعے سمندری پانی کو پینے کے قابل بنا دیا

    غزہ : انجینئر نے شمسی توانائی کے ذریعے سمندری پانی کو پینے کے قابل بنا دیا

    اسرائیلی بمباری سے تباہ حال غزہ میں لوگ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں جہاں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، ایسے میں ایک انجینئر نے کھارے پانی کو میٹھا کرنے کا طریقہ تلاش کرلیا۔

    غزہ میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت کے باعث بیماریاں پھیلنے سے بڑی تعداد میں اموات کا خدشہ ہے، یہاں کے مکینوں کو صاف پانی تک رسائی زندگی و موت کا مسئلہ ہے لوگ غیر محفوظ ذرائع سے پانی لینے پر مجبور ہیں جو انتہائی حد تک نمکین یا آلودہ ہے۔

    اس مسئلے کے حل کیلئے مقامی انجینئر ایناس الغول نے شمسی توانائی کی مدد سے سمندری پانی کو میٹھا کرکے پینے کے قابل بنا دیا جس سے جنگ سے تباہ حال مکینوں کو پینے کا پانی میسر ہو سکے گا۔

    غزہ کے 50 سالہ زرعی انجینئر ایناس الغول نے امدادی سامان کی لکڑیوں اور جنگ سے تباہ ہونے والی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے استعمال کرتے ہوئے شیشے سے ڈھکی ہوئی ایک نالی بنائی۔

    یہ مخصوص نالی نمکین پانی کو بخارات میں تبدیل کردیتی ہے جسے شیشے کے پینلوں سے پیدا ہونے والے اثرات سے گرم کیا جاتا ہے، جس سے پانی فلٹر ہو جاتا ہے اور نمک پیچھے رہ جاتا ہے۔

    اس کے بعد بخارات بننے والا پانی ایک طویل نالی کے ذریعے دوسرے کنٹینر میں منتقل کیا جاتا ہے تاکہ پانی میں موجود مزید آلودگیوں کو فلٹر کیا جا سکے۔

    اس حوالے سے خان یونس کے رہائشی انجینئر ایناس الغول نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ایک بہت ہی سادہ سا آلہ ہے، اس موقع پر انہوں نے اپنا تیار کردہ فلٹر شدہ پانی پی کر بھی دکھایا۔

    مرکزی غزہ کی پٹی کے علاقے دیر البلح میں بے گھر فلسطینیوں کے لیے بنائے گئے عارضی کیمپ میں لوگ قطار میں لگ کر کنٹینرز سے باری باری پانی بھرتے ہیں۔

    ایناس الغول کے اس آلے کو بجلی یا سولر پینلز کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ صرف سورج کی روشنی سے چلتا ہے جس کی غزہ میں کوئی کمی نہیں۔

    واضح رہے کہ جنگ کے بعد سے غزہ کا واحد پاور پلانٹ بند ہو چکا ہے اور اسرائیل سے بجلی کی فراہمی بھی کئی ماہ قبل منقطع کی جاچکی ہے ایسے میں پینے کے پانی کی یہ سہولت غزہ کے لوگوں کیلیے نعمت سے کم نہیں۔

  • 1.5 ٹن یا 1 ٹن اے سی کو چلانے کے لیے کتنے سولر پینلز چاہئیں؟

    1.5 ٹن یا 1 ٹن اے سی کو چلانے کے لیے کتنے سولر پینلز چاہئیں؟

    گرمی میں اے سی زیادہ چلائیں تو بل بہت آتا ہے، تاہم اگر سولر پینلز کا استعمال کیا جائے تو یہ آپ کو بجلی کے بل میں کافی بچت فراہم کرسکتا ہے۔

    جھلسا دینے والی گرمی میں آج کر اکثر متوسط طبقے کے گھرانے بھی اے سی کا استعمال کرر رہے ہیں، تاہم اگر آپ تھوڑی سی سوجھ بوجھ بروئے کار لائیں تو سولر انرجی سسٹم لگا کر اپنے پیسوں کی بچت کرتے ہوئے بجلی کے زیادہ بلوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں

    پاکستان میں زیادہ تر 1.5 ٹن اور 1 ٹن کے اے سی استعمال ہوتے ہیں لیکن بجلی بے تحاشہ مہنگی ہونے سے لوگ صحیح طریقے سے اے سی استعمال نہیں کرپاتے، تاہم سولر سسٹم لگا کر آپ زیادہ سے زیادہ اپنے گھر میں لگے اے سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں اور بجلی کے بلوں میں بچت کرسکتے ہیں۔

    ایئر کنڈیشنر کے لیے سولر سیٹ اپ لگانے کے سلسلے میں آپ کو سولر پینلز، اس کا اسٹرکچر، انورٹر، تار اور چھوٹی موٹی کچھ دیگر اشیا خریدنا ہونگی، آپ کو 1.5 ٹن اور 1 ٹن اے سے کے لیے کتنی پلیٹس درکار ہیں وہ درج ذیل ہے۔

    1.5 ٹن اے سی کے لیے کتنے سولر پینلز ہونے چاہئیں
    اگر آپ کے گھر میں 1.5 ٹن کا اے سی لگا ہے تو پھر یہ تقریباً 1.5 سے 2.0 کلو واٹ فی گھنٹہ بجلی لے سکتا ہے، سولر پینل مقامی مارکیٹ میں مختلف واٹس میں دستیاب ہیں۔

    اگر آپ 500 واٹ کے پینل خرید رہے ہیں، تو پاکستان میں 1.5 ٹن اے سی چلانے کے لیے آپ کو 6 سے 7 پلیٹیں درکار ہونگی، اگر آپ نے 585 واٹ کے سولر پینلز کا انتخاب کیا ہے تو پھر آپ 5 سے 6 سولر پلیٹس میں باآسانی 1.5 ٹن اے سی چلاسکتے ہیں۔

    1 ٹن اے سی کے لیے کتنے سولر پینلز ہونے چاہئیں
    اگر آپ کے گھر میں 1 ٹن اے سی لگا ہے تو اسے سولر کے ذریعے چالنے کے لے آپ کو 3 سے 4 سولر پینل پلیٹیں خریدنا ہونگی، اس کے ذریعے آپ آرام سے 1 ٹن کا ایئرکنڈشنر چلاسکیں گے۔

    خیال رہے کہ شمسی توانائی جسے قابل تجدید توانائی بھی کہا جاتا ہے، صارفین کو اپنی بجلی خود پیدا کرنے کا اختیار دیتا ہے، اور نیٹ میٹرنگ کے ذریعے اس اضافی بجلی کو نیشنل گرڈ کو بھی بیچاجا سکتا ہے۔

  • پاکستان کے ساتھ مل کر قابل تجدید توانائی پرکام کررہے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ

    پاکستان کے ساتھ مل کر قابل تجدید توانائی پرکام کررہے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ

    امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مل کر قابل تجدید توانائی پرکام کر رہے ہیں، امریکا کا پاکستان کیلئے 10 ہزار میگاواٹ شمسی توانائی کا منصوبہ ہے۔

    امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کئے گئے ٹویٹ کے مطابق ہمارا ہدف پاکستان کو 2030 تک 60 فیصد قابل تجدید توانائی فراہم کرنا ہے۔

    ہر تیسرے پاکستانی گھرانوں کو شمسی توانائی سے بجلی فراہم کی جاسکے گی، پہلے ہی لاکھوں پاکستانیوں کو ہزاروں میگاواٹ کلین انرجی فراہم کررہے ہیں۔

    پاکستان خطے میں سب سے اہم شراکت داروں میں سے ایک ہے، امریکا

    امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق الیکٹرک گاڑیوں کی تحقیق و ترقی پر لمز کو دی گئی 5 لاکھ ڈالر کی گرانٹ سے کام چل رہا ہے، یوایس ایڈ نے پاکستانی کلائمیٹ فنڈ کیلئے تقریباً 100 ملین ڈالر فراہم کیے ہیں۔

  • وسیع و عریض صحرا کو کام میں لا کر بجلی بنانے کا چینی منصوبہ

    وسیع و عریض صحرا کو کام میں لا کر بجلی بنانے کا چینی منصوبہ

    بیجنگ: چین اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ماحول دوست طریقوں کی طرف جارہا ہے اور اس سلسلے میں صحرائے گوبی میں سورج اور ہوا سے چلنے والے پاور پلانٹس منصوبوں پر غور کیا جارہا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے اور قابل تجدید انرجی پر انحصار بڑھانے کے لیے چین صحرائے گوبی میں 450 گیگا واٹ (ساڑھے 4 لاکھ میگا واٹ) کے سولر اور ونڈ پاور پلانٹس لگانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

    چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ ملک میں سولر اور ونڈ پاور کو کم از کم 1200 گیگا واٹ کیا جائے گا اور 2030 تک کاربن کے اخراج کو کم کیا جائے گا۔ نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے ڈائریکٹر ہی لائفینگ نے کہا کہ چین تاریخ کا سب سے بڑا سولر اور ونڈ پاور پلانٹ بنانے جا رہا ہے۔

    چین نے سنہ 2021 کے آخر تک 306 گیگا واٹ سولر پاور کپیسٹی اور 328 گیگا واٹ ونڈ کپیسٹی انسٹال کی تھی، صحرا میں ایک سو گیگا واٹ کی سولر انرجی کا پراجیکٹ پہلے شروع ہو چکا ہے۔

    ہی لائفینگ نے کہا کہ اس منصوبے کے لیے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ اور الٹرا ہائی وولٹیج کی ٹرانسمیشن لائنز کی ضرورت ہوگی تاکہ گرڈ سسٹم کا آپریشن کسی رکاوٹ کے بغیر چل سکے۔

    کوئلے سے چلنے والا پلانٹ سولر اور ونڈ پاور سپلائی کو خراب موسم میں چلتا رکھنے میں مدد کرے گا۔

    اس سے قبل چین کے نائب وزیر اعظم ہان زینگ نے کہا تھا کہ چین کو انرجی کی سپلائی کو یقینی بنانے کے لیے بنیادی طور پر کوئلے پر انحصار کرنا پڑے گا۔

    این ڈی آر سی نے اپنے 2022 کے پلان میں کہا ہے کہ چین کوئلے اور کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کو بھی جاری رکھے گا تاکہ توانائی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔

  • شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑی جس میں رہائش بھی رکھی جاسکتی ہے

    شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑی جس میں رہائش بھی رکھی جاسکتی ہے

    نیدر لینڈ میں کچھ طالب علموں نے شمسی توانائی سے چلنے والی الیکٹرک کیمپر وین تیار کر لی ہے۔

    سٹیلا ویٹا نامی گاڑی چھت پر لگے شمسی پینل کی مدد سے گاڑی چلانے، شاور لینے، ٹی وی دیکھنے، لیپ ٹاپ چارج کرنے اور یہاں تک کہ کافی بنانے یا چھوٹے چولہے پر کھانا پکانے کے لیے بھی توانائی مہیا کرتی ہے۔

    یہ گاڑی بیس طالب علموں کی تخلیق ہے جو کہ نیدرلینڈز کی انڈہوون یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ایک تحقیقی گروپ کا حصہ ہیں۔

    ٹیم کے کچھ ارکان اس نیلی اور سفید رنگ کی کار وین پر یورپ کے تین ہزار کلو میٹر کے روڈ ٹرپ پر بی نکل چکے ہیں، پورے یورپ کا چکر لگانے کے بعد ٹرپ کا اختتام اسپین کے جنوبی شہر طریفہ پر ہوگا۔

    طلبا اپنے ٹور کے دوران مختلف شہروں میں رکیں گے اور وہاں مختلف ایونٹس منعقد کر کے آگاہی پیدا کریں گے کہ توانائی اور نقل و حرکت کے لحاظ سے پائیدار مستقبل کے لیے کیا ممکن ہے۔

    گاڑی بنانے والی ٹیم نے اسے گاڑی کے بجائے پہیوں پر چلتے پھرتے گھر کا نام دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ کیمپر وین نہیں ہے کیونکہ ہماری گاڑی توانائی کے حوالے سے خود کفیل ہے جبکہ کیمپر وین میں ایسا نہیں ہوتا۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہم نے کچھ نیا کیا ہے، یہ نیا تصور، نیا خیال اور نیا اور پائیدار مستقبل ہے۔