Tag: شمسی توانائی

  • جنوبی پنجاب کے 10 ہزار سے زاید اسکول سولر انرجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ

    جنوبی پنجاب کے 10 ہزار سے زاید اسکول سولر انرجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ

    لاہور: پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب کے 10 ہزار 800 اسکولوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی پنجاب کے دس ہزار سے زاید اسکول شمسی توانائی پر منتقل کیے جائیں گے، یہ فیصلہ بجلی کے مسائل کے حل کے لیے کیا گیا ہے۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اسکولوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا کام دسمبر تک مکمل کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

    عثمان بزدار نے کہا کہ صوبے کے دور دراز علاقوں میں ٹرانسمیشن لائنز موجود نہیں ہیں اس لیے وہاں سولر انرجی فراہم کریں گے۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب کا یہ بھی کہنا تھا کہ راجن پور، چولستان، تھل اور ڈیرہ غازی خان کے علاقوں میں شمسی توانائی مہیا کی جائے گی۔

    یاد رہے کہ رواں سال کے آغاز میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے اعلان کیا تھا کہ صوبے کے تمام جامعات کو شمسی توانائی پر لے جانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ سال ستمبر میں وزرا کو ہدایت کی تھی کہ آبی وسائل، شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی بنانے کے منصوبوں پر جامع حکمت عملی مرتب کی جائے۔

    حال ہی میں پنجاب کا بجٹ پاس کیا گیا ہے جس میں صوبے میں تعلیم کے شعبے پر خرچ کرنے کے لیے 382.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ کُل بجٹ 2300 بلین روپے کا ہے۔

  • بیک وقت ڈھیر ساری ڈیوائسز چارج کرنے والی میز

    بیک وقت ڈھیر ساری ڈیوائسز چارج کرنے والی میز

    دنیا بھر میں جیسے جیسے الیکٹرانک اشیا کا استعمال بڑھ رہا ہے ویسے ویسے ان کی چارجنگ کے لیے بھی نئی نئی ایجادات متعارف کروائی جارہی ہیں، حال ہی میں ایسی میز پیش کی گئی ہے جو بیک وقت کئی ڈیوائسز چارج کرسکتی ہے۔

    اسپین کی ایک کمپنی کی جانب سے بنائی گئی میز جسے ’ای بورڈ‘ کا نام دیا گیا ہے بیک وقت 50 ڈیوائسز چارج کرسکتی ہے اور اس کے لیے اسے تاروں کی ضرورت بھی نہیں۔

    ای بورڈ ’چی‘ ٹیکنالوجی پر مبنی پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے جدید ماڈل کے موبائل فون اس سے تار کے بغیر چارج ہوسکتے ہیں۔

    ان میں آئی فون اور گیلکسی کے جدید ماڈلز، گوگل پکسل تھری اور تھری ایکس ایل، تقریباً تمام اسمارٹ واچز، ٹیبلٹس، ایئر بڈ اور ایئر فون شامل ہیں۔

    وائر لیس چارجنگ کی سہولت کے بغیر موبائل فونز کے لیے اس کے ساتھ ایڈاپٹرز بھی پیش کیے گئے ہیں۔ یہ میز شمسی توانائی پر کام کرتی ہے اور مصنوعی روشنی کو بھی ذخیرہ کر کے اسے استعمال میں لاتی ہے۔

    کیا آپ اس میز کو اپنے گھر کی زینت بنانا چاہیں گے؟

  • تمام جامعات کوشمسی توانائی پرلے جانے کا پروگرام ہے‘ گورنر پنجاب

    تمام جامعات کوشمسی توانائی پرلے جانے کا پروگرام ہے‘ گورنر پنجاب

    لاہور: گورنرپنجاب چوہدری محمد سرور کا کہنا ہے کہ تمام جامعات کومثالی بنائیں گے، کسی وائس چانسلر کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پرنہیں ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق گورنرپنجاب چوہدری محمد سرور نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام جامعات میں صاف پانی اور پانی کا ضیاع روکنے کا پروگرام بنائیں گے۔

    گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ تمام جامعات کوشمسی توانائی پرلے جانے کا پروگرام ہے اس کے علاوہ فائلوں کی ٹریکنگ کا ایک نظام بھی متعارف کرائیں گے۔

    چوہدری محمد سرور کا کہنا تھا کہ تمام جامعات کو مثالی بنائیں گے اور کسی وائس چانسلر کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پرنہیں ہو گی۔

    بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنرپنجاب کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نہیں گرا رہے اور نہ کوئی ہماری حکومت گرائے گا، سیاست میں کچھ اخلاقی معاملات ہیں جن پربات ہوتی رہتی ہے۔

    چوہدری محمد سرور کا پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کو صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہے، صرف قیدیوں ہی نہیں تمام لوگوں کو صاف پانی مہیا ہوگا۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سندھ حکومت کا تختہ الٹنے جا رہے ہیں، ہم سندھ میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی چاہتے ہیں، گورنرراج نہیں۔

  • شمسی توانائی پر انحصار کرنے والوں کے لیے بری خبر

    شمسی توانائی پر انحصار کرنے والوں کے لیے بری خبر

    دنیا بھر میں توانائی کے لیے استعمال کیے جانے والے مختلف ذرائع جیسے بائیو ڈیزل وغیرہ ماحول کو آلودہ کرنے کا سبب بنتے ہیں جس کے بعد اب قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر کام کیا جارہا ہے جن میں شمسی توانائی سرفہرست ہے۔

    تاہم حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی شمسی توانائی کے پینلز کی کارکردگی کو کم کرسکتی ہے جس سے بجلی کی پیداوار میں کمی آئے گی۔

    تحقیق کے مطابق فضا میں موجود دھول مٹی اور بائیو ڈیزل (پیٹرول یا اس کے دھویں) کے ذرات شمسی پینلز کی کارکردگی کو 17 سے 25 فیصد کم کرسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی کے ذرات ان پینلز پر ایک تہہ کی صورت جم جاتے ہیں جس کے بعد انہیں پہنچنے والی سورج کی روشنی کم ہوجاتی ہے اور یوں وہ کم بجلی پیدا کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے شمسی پینلز کی صرف صفائی کرنا کافی نہیں ہوگا۔ جب تک صفائی کا عمل شروع کیا جائے گا تب تک آلودہ ذرات ان پینل کے سسٹم کو نقصان پہنچا چکے ہوں گے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ کسی علاقے میں آلودگی سے پاک ہوا وہاں پر شمسی پینلز کو 100 فیصد کارکردگی دکھانے کا موقع دے گی یوں وہ علاقے توانائی کے لیے ماحول دشمن ذرائع سے چھٹکارہ حاصل کرلیں گے۔

  • سورج کے بعد اب بارش سے بجلی بنانے کا طریقہ

    سورج کے بعد اب بارش سے بجلی بنانے کا طریقہ

    سورج کی روشنی سے بجلی بنانا ایک دیرپا اور ماحول دوست عمل ہے جس پر دنیا کے کئی ممالک میں اس وقت عمل کیا جارہا ہے۔ ماہرین نے اب بارش سے بجلی بنانے کا طریقہ بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔

    بارش سے بجلی بنانے کا کام وہی سیلز کریں گے جو سورج کی روشنے سے بجلی بناتے تھے یعنی سولر سیلز۔

    ان سیلز میں ایک معمولی اضافے کے بعد یہ بارش اور سورج دونوں سے بجلی بنانے کی صلاحیت کے حامل ہوجائیں گے۔

    شمسی سیلز کی استعداد میں اضافہ کرنے کے لیے ماہرین نے ان میں ٹرائبو الیکٹرک نینو جنریٹر (ٹی ای این جی) نصب کیا ہے۔ یہ بارش کے قطروں کی حرکت سے توانائی پیدا کرسکتا ہے۔

    ٹی ای این جی واٹر پروف ہوتا ہے اور سولر سیلز کی حفاظت کر کے انہیں بارش میں بھیگنے سے بچاتا ہے۔ گویا یہ سیل بارش اور دھوپ دونوں میں بجلی بنا سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سیل ان علاقوں کے لیے معاون ثابت ہوں گے جہاں سال کے زیادہ تر دنوں میں بارش ہوتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سورج مکھی کی طرح سورج کا تعاقب کرتا شمسی پینل

    سورج مکھی کی طرح سورج کا تعاقب کرتا شمسی پینل

    توانائی کے تیزی سے گھٹتے وسائل کے باعث دنیا بھر میں اب قابل تجدید اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں شمسی توانائی گو کہ مہنگا ذریعہ ہے، تاہم ماحول دوست اور نہایت فائدہ مند ہے۔

    حال ہی میں ماہرین نے شمسی توانائی کے ایسے پینل بنائے ہیں جو سورج مکھی کے پھول کی طرح سورج کا تعاقب کریں گے اور اس سے روشنی حاصل کر کے توانائی پیدا کریں گے۔

    solar-2


    اسمارٹ فلاور

    اسمارٹ فلاور نامی یہ پینل عام شمسی پینلوں سے 40 فیصد زیادہ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    یہ پینل خود بخود کھلنے اور بند ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سورج نکلتے ہی یہ کھل کر پھیل جاتے ہیں اور دن بھر سورج کی حرکت کے ساتھ ساتھ گردش کرتے ہیں۔ سورج ڈھلتے ہی یہ خود کار طریقے سے بند ہوجاتے ہیں۔

    solar-4

    اسی طرح بادلوں، تیز ہوا یا بارش کے وقت بھی یہ خود ہی بند ہوجاتے ہیں۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس شمسی پھول کا خیال قدرتی پھولوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ پھول بھی سورج سے توانائی حاصل کر کے اپنی غذا بناتے ہیں جسے فوٹو سینتھسس کا عمل کہا جاتا ہے۔

    solar-3

    یہ شمسی پھول فی الحال تجرباتی مراحل میں ہے اور بہت جلد اسے عام افراد کے لیے پیش کردیا جائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شامی پناہ گزین کیمپ شمسی توانائی سے روشن

    شامی پناہ گزین کیمپ شمسی توانائی سے روشن

    بیروت: لبنان میں شامی پناہ گزینوں کے لیے قائم کیے گئے کیمپوں کو شمسی توانائی سے روشن کردیا گیا۔

    شام سے جبری طور پر بے دخل کیے جانے والے مہاجرین لبنان اور ترکی سمیت دیگر ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں جہاں بنیادی سہولیات تک موجود نہیں۔

    لبنان میں واقع ایسے ہی چند کیمپوں کو اقوام متحدہ کے تعاون سے شمسی توانائی سے روشن کردیا گیا۔ اس منصوبے میں کویت کے ایک ادارے نے بھی تعاون کیا۔

    پروگرام کے تحت 1000 ہزار افراد میں 350 سولر پینلز تقسیم کیے گئے۔ یہ سولر پینلز رات کے وقت بلب جلا سکتے ہیں جبکہ گرم پانی کے ہیٹرز کو بھی توانائی مہیا کرتے ہیں۔

    ان سولر پینلز کی تنصیب کے بعد ان پناہ گزینوں کی زندگی میں خاصی تبدیلی آگئی ہے۔ اب انہیں سردیوں کے موسم میں استعمال کے لیے گرم پانی میسر ہے جبکہ رات کے وقت ان کے گھر بھی بجلی سے روشن ہوجاتے ہیں جس سے بچے پڑھائی بھی کرسکتے ہیں۔

    ان روشنیوں کی آمد کے بعد پناہ گزینوں کے دل میں امید کے مزید دیے روشن ہوگئے ہیں کہ ان کی زندگی آہستہ آہستہ بہتر ہوتی چلی جائے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زندگی کو بدلنے کا عزم مبارک گوٹھ کے اس رہائشی سے سیکھیں

    زندگی کو بدلنے کا عزم مبارک گوٹھ کے اس رہائشی سے سیکھیں

    آپ نے علامہ اقبال کا وہ شعر تو ضرور سنا ہوگا

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

    یہ نظریہ قوم و ملت سے لے کر انفرادی طور پر ہر شخص پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہیں اور اسے بدلنا چاہتے ہیں تو رونے دھونے اور شکوے شکایات کرنے کے بجائے اسے بدلنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک باعزم شخص سے ملوانے جارہے ہیں جس نے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا اور خدا نے اس کا ساتھ دیا۔

    مبارک گوٹھ جسے عموماً مبارک ویلج کہا جاتا ہے، کراچی کے باسیوں کے لیے پسندیدہ ترین تفریح گاہ ہے، لیکن شاید بہت کم لوگ یہاں آباد ان کچی بستیوں سے واقف ہیں جو آج کے جدید دور میں بھی سترہویں صدی کے دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    کچے پکے، ٹوٹے پھوٹے مکانات بلکہ زیادہ تر جھونپڑیوں میں رہائش پذیر یہ لوگ پاکستان کے ہر اس گاؤں کی طرح جدید دنیا کی تمام تر سہولیات سے محروم ہیں جو گزشتہ 70 سال سے گاؤں ہی رہے اور کسی حکومت نے انہیں جدید دور کی سہولیات تو دور، بنیادی انسانی ضروریات تک فراہم کرنے کی زحمت نہ کی۔

    یہ گاؤں ابھی تک فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کی نگاہوں سے بھی اوجھل ہے لہٰذا یہاں کوئی غیر سرکاری تنظیم سرگرم عمل نہیں نظر آئی۔

    یہیں ہماری ملاقات حاتم سے ہوئی۔ پیشہ وارانہ امور کے سلسلے میں مبارک گوٹھ جانے پر یہی شخص ہمارا میزبان تھا اور گاڑی سے اترتے ہی سب سے پہلی شے جو ہمارا مرکز نگاہ بنی، وہ ایک جھونپڑی پر لگا ہوا شمسی توانائی سے بجلی بنانے والا سولر پینل تھا۔

    ایک ایسا گاؤں جہاں بجلی و باتھ روم کی بنیادی سہولت تک میسر نہ تھی، اور نہ وہاں کوئی غیر سرکاری تنظیم سرگرم عمل نظر آتی تھی، وہاں بھلا سولر پینل کیسے آسکتا تھا، اور تب ہی حاتم کے بارے میں علم ہوا کہ بظاہر بدحال سا دکھنے والا یہ شخص اپنی قسمت پر رو دھو کر صابر ہوجانے والا نہیں، بلکہ اس میں آگے بڑھنے کا جذبہ موجود ہے۔

    دریافت کرنے پر وہی پرانی سی کہانی سننے کو ملی، کہ جہاں سورج ڈھلا وہیں گاؤں میں اندھیرے اور خوف کے بادل چھا جاتے تھے۔ گاؤں والے مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹینوں سے ضروری کام نمٹا لیا کرتے تھے۔ گویا یہاں دن سورج ڈھلنے تک کا تھا۔ سورج ڈھلنے کے بعد یہاں صرف اندھیرا تھا، ناامیدی تھی اور شاید کہیں کسی دل میں اپنے دن بدلنے کی خوش فہمی کی مدھم سے ٹمٹماتی لو۔۔

    لیکن حاتم نے اس خوش فہمی کو پہلے امید اور پھر حقیقت میں بدل دیا۔ ایک دفعہ کسی کام سے جب وہ شہر (کراچی) آیا تو اسے ان سولر پینلز کے بارے میں پتہ چلا جو دن بھر سورج سے بجلی بناتے ہیں، اور شام میں ان میں نصب بیٹریاں سورج کی روشنی کو بکھیر کر دن کا سا اجالا پھیلا دیتی ہیں۔

    حاتم نے سوچا کہ اگر اس کے گاؤں میں بھی یہ سہولت آن موجود ہو تو ان لوگوں کی زندگی کس قدر آسان ہوجائے۔ لیکن سرمایے کی کمی اس کی راہ کی رکاوٹ تھی۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    اس نے مکمل معلومات حاصل کیں تو ایک چھوٹا سا سولر پینل اسے 8 ہزار روپے میں پڑ رہا تھا جو صرف گاؤں کے کسی ایک گھر کو روشن کرسکتا تھا۔ مزید برآں اس میں کسی خرابی کی صورت میں نہ صرف شہر سے کسی ماہر کو بلوانا پڑتا بلکہ اس پر خرچ کی جانے والی رقم الگ ہوتی۔

    لیکن حاتم اس عزم کے ساتھ واپس لوٹا کہ وہ بجلی کی اس نعمت کو ضرور اپنے گھر لائے گا۔

    اس کے بعد اس نے اپنی محنت مزدوری کے کام میں اضافہ کردیا اور اضافی حاصل ہونے والی آمدنی کو جمع کرنے لگا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں رہتے ہوئے اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہوئے کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ 8 ہزار روپے کا حصول کسی کی زندگی کا مقصد بھی ہوسکتا ہے؟ اتنی رقم تو شاید شہر کراچی کے لوگ ایک وقت کے کھانے یا شاپنگ پر خرچ کردیا کرتے ہیں۔

    بہرحال حاتم کے پاس رقم جمع ہونے لگی اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ 8 ہزار روپے جمع کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن اس سے قبل وہ ایک اور کام چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس سولر پینل کی تنصیب کے بعد اگر اس میں کوئی خرابی پیدا ہو تو اسے کسی کا محتاج نہ ہونا پڑا، اور وہ خود ہی اسے درست کر سکے۔

    سولر پینل کے سسٹم کو سیکھنے اور سمجھنے کے لیے اسے کراچی آنے اور مزید کچھ رقم کی ضرورت تھی اور وہ جلد ہی وہ بھی حاتم نے حاصل کرلی۔

    پھر ایک دن وہ بھی آیا جب وہ شہر سے واپس آیا تو اس کے ساتھ یہ سولر پینل اور ایک شخص تھا جو ایک جھونپڑی پر اس کی تنصیب کر کے چلا گیا۔

    اتنی محنت اور مشقت سے حاصل کیا جانے والا یہ سولر پینل حاتم نے اپنی جھونپڑی پر نصب نہیں کروایا، بلکہ جس جھونپڑی پر یہ سولر پینل نصب کیا گیا ہے اسے اس گاؤں کے اوطاق کی حیثیت دے دی گئی ہے۔

    سولر پینل لگنے کے بعد اب اس اوطاق میں سر شام خواتین کی محفل جمتی ہے، جبکہ رات میں مرد اکٹھے ہو کر ایک دوسرے سے اپنے دکھ سکھ بیان کرتے ہیں۔ سولر پینل سے آراستہ یہ جھونپڑی اندر سے نہایت خوبصورت ہے اور اس میں جا بجا روایتی کڑھائی سے مزین فن پارے اور طغرے آویزاں ہیں جو خواتین کی اس جھونپڑی سے محبت کا ثبوت ہیں۔

    ذرا سے فاصلے پر واقع چند گھروں پر مشتمل مختلف گاؤں دیہاتوں میں اس جھونپڑی کے علاوہ ایک اور جھونپڑی بھی ایسی ہے جس پر سولر پینل نصب ہے۔

    یہ گھر بھی تقریباً اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس میں باقاعدہ کسی کی رہائش نہیں ہے۔

    حاتم چاہتا ہے کہ اس کے گاؤں کو بجلی سے روشن کرنے کے لیے نہ صرف حکومت بلکہ مخیر حضرات بھی آگے آئیں تاکہ ان کا دن بھی روشنی کی وجہ سے دن اور رات پر مشتمل ہوسکے، بغیر بجلی کے سورج کی روشنی اور صرف رات کے گھپ اندھیرے اور مایوسی تک نہ محدود رہے۔

  • آسٹریلیا میں شمسی گاڑیوں کی انوکھی ریس

    آسٹریلیا میں شمسی گاڑیوں کی انوکھی ریس

    آسٹریلوی شہر ڈارون میں اپنی نوعیت کی انوکھی کار ریس منعقد ہو رہی ہے جس میں عام گاڑیوں کے بجائے شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں نے حصہ لیا۔

    ورلڈ سولر چیلنج کے نام سے منعقد کی جانے والی اس ریس میں شامل 41 گاڑیاں شمسی توانائی پر منحصر ہیں جنہیں مختلف کمپنیوں یا یونیورسٹیوں کے طالبعلموں نے بنایا ہے۔ یہ ریس 3 ہزار کلومیٹر فاصلے پر محیط ہے۔

    ریس میں مختلف اور انوکھی انداز میں ڈیزائن کی گئی گاڑیوں کو پیش کیا جارہا ہے اور انہیں بنانے والوں کو امید ہے کہ اب دنیا کا مستقبل انہی شمسی توانائی پر منحصر گاڑیوں سے جڑا ہوا ہے۔

    اس انوکھی ریس میں امریکا، آسٹریلیا، ملائشیا، جنوبی افریقہ اور بھارت سے مختلف کمپنیاں اور گروپس شرکت کر رہے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھارت کی پہلی شمسی توانائی کی حامل مسافر ٹرین

    بھارت کی پہلی شمسی توانائی کی حامل مسافر ٹرین

    نئی دہلی: بھارت میں پہلی دفعہ شمسی توانائی سے چلنے والی مسافر ٹرین کا افتتاح کردیا گیا۔

    اندرون ملک سفر کرنے والی یہ ٹرین بھارت کی پہلی ٹرین ہے جو مکمل طور شمسی توانائی پر منحصر ہے۔

    ٹرین میں نصب کی گئی روشنیاں، پنکھے اور انفارمیشن ڈسپلے سسٹم بھی شمسی توانائی سے چلے گا۔ ٹرین کی چھت پر لگائے گئے سولر پاور پینلز سورج کی روشنی کو ذخیرہ کر کے رات کے وقت بھی توانائی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    افتتاح کے موقع پر بھارتی وزیر ریل سوریش پربھو کا کہنا تھا کہ وہ مزید اس قسم کی ماحول دوست ٹرینوں کی تیاری پر بھی کام کروا رہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ نئی آنے والی ٹرینیں نہ صرف شمسی تونائی سے چلیں گی بلکہ ان میں دیگر ماحول دوست اقدامات جیسے بائیو ٹوائلٹس، پانی کی ری سائیکلنگ اور کچرے کو مناسب طریقے سے تلف کرنے کا نظام بھی وضع کیا جائے گا۔

    بھارتی معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق شمسی توانائی سے چلنے والی ٹرین سالانہ 21 ہزار لیٹر ڈیزل اور 12 لاکھ روپے کی بچت کرسکتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔