Tag: شمس العلما

  • ذکاء اللہ دہلوی: علم و ادب کی دنیا کی ایک نادرِ روزگار ہستی

    ذکاء اللہ دہلوی: علم و ادب کی دنیا کی ایک نادرِ روزگار ہستی

    مولوی محمد ذکاءُ اللہ انیسویں صدی میں اپنے علمی اور ادبی مشاغل کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھیں شمسُ العلماء کا خطاب دیا گیا۔ مولوی صاحب تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی اور اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ مسلمانوں کی ترقی کے لیے اپنی کوششوں کی وجہ سے ہر خاص و عام میں‌ عزّت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

    ذکاءُ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اور سنِ شعور کو پہنچے، اس میں ہندوستانی معاشرے پر مغربی تہذیب اپنا رنگ جما رہی تھی اور سماج میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ نئی تہذیب کو پنپنے کا موقع ملا رہا تھا اور ضروری تھا کہ مسلمان تعلیمی میدان میں آگے بڑھتے ہوئے اپنی روایات اور اقدار کا تحفظ کریں۔ ان حالات میں مولوی ذکاءُ اللہ اردو زبان کے فروغ کے حمایتی اور تعلیمِ نسواں کے پرچارک بن کر سامنے آئے۔

    ادبی تذکروں کے مطابق مولوی ذکاءُ اللہ کا تعلق دہلی کے کوچہ بلاقی بیگم سے تھا اور انھوں نے علمی، ادبی اور دینی ماحول میں‌ پرورش پائی تھی۔ ان کا سنہ پیدائش 1832ء ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم ان کے دادا حافظ محمد بقاءُ اللہ اور والد حافظ محمد ثناءُ اللہ کے زیرِ سایہ مکمل ہوئی۔ کم عمری ہی میں وہ عربی اور فارسی کی کتابیں پڑھنے کے عادی ہوگئے تھے اور مطالعہ سے گہرا شغف رکھتے تھے۔

    دہلی کالج میں داخلہ لیا تو ان کی دل چسپی سائنس کی طرف زیادہ رہی اور ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون ٹھہرا۔ اس مضمون میں مہارت ایسی بڑھی کہ اردو زبان میں ریاضی کی پہلی کتاب لکھ ڈالی۔ وہ ریاضی کے ایک استاد ماسٹر رام چندر کے چہیتے شاگرد بن گئے تھے۔ ان کی قابلیت اور مضمون میں مہارت نے انھیں دہلی کالج ہی میں ریاضی کے استاد کی حیثیت سے عملی زندگی میں قدم رکھنے کا موقع دیا۔ بعد میں وہ آگرہ، بلند شہر، مراد آباد اور الٰہ آباد میں تعلیمی اداروں میں مختلف عہدوں پر فائز کیے گئے۔ مولوی ذکاء اللہ کو دہلی کالج کے بعد آگرہ کالج میں فارسی اور اردو کا مدرس بھی مقرر کیا گیا جب کہ میور سنٹرل کالج میں بھی عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنے دور میں ذکاءُ اللہ دہلوی ماہرِ تعلیم مشہور ہوئے۔

    انھوں نے تدریس کے ساتھ علمی و ادبی مضامین، مقالے اور کئی کتابیں لکھیں اور آخری سانس تک پڑھنے لکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ تاجِ‌ برطانیہ کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں شمسُ العلما اور خان بہادر کا خطاب دیا گیا تھا۔ تعلیمِ نسواں کے ضمن میں کاوشوں پر مولوی صاحب کو انگریز سرکار نے خلعت سے نوازا تھا۔

    اردو زبان اور تصنیف و تالیف اور علم و فنون کی ترویج کے حوالے سے ہندوستان میں دہلی کالج کے قیام کے بعد بڑا کام ہوا اور مولوی ذکاءُ اللہ کی ریاضی اور طبیعیات کے مضمون پر اردو میں‌ درجنوں کتب شایع ہوئیں، انھیں نصاب میں شامل کیا گیا۔

    مولوی ذکاءُ اللہ کا میدان یوں تو سائنس اور ریاضی تھا، لیکن انھوں نے اردو تاریخ نگاری کی بھی بنیاد ڈالی اور کئی جلدوں پر مشتمل تاریخِ ہندوستان لکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ انھوں نے سلطنت انگلیشیہ کے نام سے لکھی۔ مولوی ذکاءُ اللہ کی ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کی اشاعت اور بہت سے دل چسپ اور مفید مضامین بھی قارئین میں‌ پسند کیے گئے۔ وہ نکتہ بیں‌ اور ایسے مصلح ثابت ہوئے جن کا کام نہایت افادی اور ایک بیش قیمت سرمایہ تھا جس سے ہندوستان بھر میں مسلمان مستفید ہوئے۔

    7 نومبر 1910ء کو مولوی ذکاء اللہ اس دارِ فانی سے دارِ بقا کو کوچ کرگئے تھے۔ انھیں ایک مؤرخ، ماہرِ‌تعلیم، اور مترجم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ مولوی محمد ذکا اللہ دہلوی اردو کے مشہور مورخ اور مترجم ہیں۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ "تاریخِ ہندوستان ” ہے جسے مستند ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ کئی جلدوں‌ پر مشتمل ہے۔ مسلمان اور سائنس کے نام سے کتاب کے علاوہ تہذیب الاخلاق اور تاریخ کے کئی موضوعات پر ان کے قلم سے نکلی ہوئی‌ کتابیں‌ ہی نہیں ریاضی، کیمیا، جغرافیہ اور فلسفہ کے موضوع پر انھوں نے متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں۔

  • شمسُ العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی برسی

    شمسُ العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی برسی

    آج پاکستان کی ایک نہایت عالم فاضل اور قابل شخصیت ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا یومِ وفات ہے۔ 1958ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوجانے والے عمر بن داؤد پوتہ کو ماہرِ تعلیم، محقّق، معلّم، ماہرِ لسانیات اور متعدد کتب کے مصنّف کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    وہ سندھ میں‌ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اور شمسُ العلما کا خطاب پایا۔ ان کا تعلق سیہون، دادو کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔ عمر بن محمد داؤد پوتہ نے 25 مارچ 1896ء کو اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا تعلیمی ریکارڈ نہایت شان دار رہا۔ انھوں نے ہر امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔

    1917ء میں سندھ مدرستہُ الاسلام کراچی سے میٹرک کے امتحان میں انھوں نے سندھ بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1921ء میں ڈی جے کالج کراچی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور سندھ بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1923ء میں انھوں نے بمبئی یونیورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا جس کے بعد حکومتِ ہند نے انھیں اسکالر شپ پر انگلستان بھیج دیا۔ وہاں ڈاکٹر عمر بن داؤد پوتہ نے کیمبرج یونیورسٹی میں’’فارسی شاعری کے ارتقا پر عربی شاعری کا اثر‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ تحریر کیا اور پی ایچ ڈی مکمل کیا۔

    انگلستان سے وطن واپسی کے بعد ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کو سندھ میں مختلف اہم عہدوں پر فائز کیا گیا جن میں سندھ مدرستہُ الاسلام کی پرنسپل شپ بھی شامل تھی۔ 1939ء میں صوبۂ سندھ میں محکمۂ تعلیم کے ڈائریکٹر کے عہدے پر تقرری عمل میں آئی اور برطانوی سرکار نے 1941ء میں انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ برصغیر کی آخری علمی شخصیت تھے جنھیں انگریز حکومت کی جانب سے یہ خطاب عطا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا سب سے بڑا کارنامہ سندھ کی دو مشہور تواریخ ’’چچ نامہ‘‘ اور’’ تاریخ معصومی‘‘ کی ترتیب ہے۔ انھوں‌ نے عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں 28 کتب یادگار چھوڑیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کو سندھ کے مشہور صوفی بزرگ شاہ عبدُاللطیف بھٹائی کے مزار کے احاطے میں سپردِ ‌خاک کیا گیا۔