Tag: شمس زبیری

  • شمس زبیری: اردو ادب اور صحافت کی دنیا کا فراموش کردہ نام

    شمس زبیری: اردو ادب اور صحافت کی دنیا کا فراموش کردہ نام

    اردو ادب اور صحافت کی دنیا کے کئی نام ایسے ہیں جنھیں فراموش کیا جا چکا ہے۔ معروف شاعر، صحافی شمس زبیری بھی انہی میں سے ایک ہیں جو براڈ کاسٹنگ کے شعبے میں زبان و بیان کی درستی اور اصلاح کے لیے مشہور تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    شمس زبیری 1999ء میں انتقال کر گئے تھے۔ ریڈیو پاکستان پر ملازمت حاصل کرنے کے بعد شمس زبیری نے اپنے زمانے کے اس مقبول میڈیم پر خبرنامہ اور اسکرپٹ پڑھنے والوں کو درست اور معیاری تلفظ کے ساتھ زبان و بیان کی باریکیاں سمجھائیں جب کہ اپنے جاری کردہ رسائل کے ذریعے بھی اردو زبان کی خدمت اور فروغ کے لیے بہت کام کیا۔ اس حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بھی ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے جو ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں: پچاس کی دہائی کا تذکرہ ہے۔ ریڈیو پاکستان کراچی میں ارمؔ لکھنوی اور شمس زبیری ’’مصلح زبان‘‘ کی ملازمتوں پر فائز تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ ریڈیو پر پڑھے جانے والے الفاظ کا تلفظ درست کروائیں۔ مگر قباحت یہ تھی کہ ارمؔ لکھنوی دبستانِ لکھنو سے وابستہ تھے اور شمس زبیری دبستانِ دہلی سے۔ اس وجہ سے ان دونوں میں اکثر تکرار بھی ہو جاتی تھی۔ زیڈ اے بخاری ان دنوں ریڈیو کے ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن اُن کو شکایت ملی کہ کل کسی لفظ کے تلفظ کی صحت پر ارمؔ لکھنوی اور شمس زبیری میں تکرار اتنی بڑھی کہ نوبت گالم گلوچ تک پہنچ گئی۔ بخاری صاحب نے ارمؔ لکھنوی کو بلایا اور وجہ پوچھی۔ ارمؔ صاحب نے کہا: ’’ایک تو زبیری صاحب کو فلاں لفظ کا صحیح تلفظ نہیں معلوم۔ پھر مجھے گالی دی تو اس کا تلفظ بھی غلط تھا۔ میں نے تو صرف ان کا تلفظ درست کرنے کے لئے وہی گالی درست تلفظ کے ساتھ دہرائی تھی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ میں نے جوابی گالی دی۔‘‘

    شمس زبیری نے بچّوں‌ کے رسائل کی ادارت کا کام انجام دینے کے ساتھ ایک ادبی جریدہ ’’نقش‘‘ شروع کیا تھا جس میں علمی و ادبی موضوعات پر مضامین اور مختلف اصنافِ ادب سے معیاری تخلیقات کا انتخاب شامل ہوتا تھا۔ یہ رسالہ جلد ادبی حلقوں اور قارئین میں مقبول ہوگیا۔ ’’نقش‘‘ کے لیے شمس زبیری کو صاحبِ اسلوب ادیب اور انشا پرداز شاہد احمد دہلوی کا تعاون بھی حاصل تھا جن کی ادارت اور تجاویز نے اسے معیاری اور مقبول رسالہ بنایا۔ اکبر روڈ پر شمس زبیری نے ’’کاشانۂ اردو‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا جہاں سے بچّوں کا ایک پرچہ ’’میرا رسالہ‘‘ جاری ہوا کرتا تھا اور یہ بھی اپنے دور کا معیاری پرچہ تھا جس کے لیے علمی و ادبی شخصیات کے تعاون سے شمس زبیری نے بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کا اہتمام کیا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور صحافی کا سنہ پیدائش 1917ء ہے اور وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ شمس زبیری تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے آئے تھے۔ ان کی آخری آرام گاہ حجرہ شاہ مقیم، اوکاڑہ میں ہے۔

    شمس زبیری کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    ہم ترکِ تعلق کا گلہ بھی نہیں کرتے
    تم اتنے خفا ہو کہ جفا بھی نہیں کرتے
    تم شوق سے اعلانِ جفا پر رہو نازاں
    ہم جرأت اظہارِ وفا بھی نہیں کرتے
    مانا کہ ہنسی بھی ہے ادا آپ کی لیکن
    اتنا کسی بیکس پہ ہنسا بھی نہیں کرتے
    ہم جرأتِ گفتار کے قائل تو ہیں لیکن
    ہر بات سر بزم کہا بھی نہیں کرتے
    ہر حال میں مقصد ہے سفر، محوِ سفر ہیں
    ناکامیِ پیہم کا گلہ بھی نہیں کرتے
    کیا جانیے کس رنگ میں ہے شمس زبیریؔ
    بُت ایک طرف ذکرِ خدا بھی نہیں کرتے

  • شمس زبیری: شاعر، صحافی اور مصلحِ زبان

    شمس زبیری: شاعر، صحافی اور مصلحِ زبان

    آج شمس زبیری کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ ایک معروف شاعر، صحافی اور زبان و بیان کے ماہر تھے جو ریڈیو پاکستان پر براڈ کاسٹروں اور پروگرام میزبانوں کی اصلاحِ زبان کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ شمس زبیری 3 ستمبر 1999ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    شمس زبیری نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران زبان و بیان کی اصلاح کا خوب کام انجام دیا، او بعد میں یہی سلسلہ ان کے جاری کردہ رسائل تک پھیل گیا۔ انھوں نے بچّوں‌ کے رسائل کی ادارت کے ساتھ ایک ادبی جریدے ’’نقش‘‘ کا آغاز کیا تھا جس میں علمی و ادبی موضوعات پر مضامین اور مختلف اصنافِ ادب سے معیاری تخلیقات کا انتخاب شامل کیا جاتا تھا۔ یہ رسالہ بہت مقبول ہوا۔ ’’نقش‘‘ کے لیے شمس زبیری کو صاحبِ اسلوب ادیب اور انشا پرداز شاہد احمد دہلوی کا تعاون بھی حاصل تھا جن کی بدولت یہ ایک معیاری اور مقبول رسالہ بنا۔

    اکبر روڈ پر واقع شمس زبیری کے ادارے ’’کاشانۂ اردو‘‘ سے بچّوں کا ایک پرچہ ’’میرا رسالہ‘‘ بھی جاری ہوا کرتا تھا جس میں معیاری تخلیقات کے ساتھ بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کو اہمیت دی جاتی تھی۔

    1917 میں پیدا ہونے والے شمس زبیری تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے آئے اور یہاں‌ ادبی دنیا میں‌ نام و مقام بنایا۔ وہ حجرہ شاہ مقیم، اوکاڑہ میں آسودۂ خاک ہیں۔

    شمس زبیری کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر کی جارہی ہے۔

    ہم ترکِ تعلق کا گلہ بھی نہیں کرتے
    تم اتنے خفا ہو کہ جفا بھی نہیں کرتے
    تم شوق سے اعلانِ جفا پر رہو نازاں
    ہم جرأت اظہارِ وفا بھی نہیں کرتے
    مانا کہ ہنسی بھی ہے ادا آپ کی لیکن
    اتنا کسی بیکس پہ ہنسا بھی نہیں کرتے
    ہم جرأتِ گفتار کے قائل تو ہیں لیکن
    ہر بات سر بزم کہا بھی نہیں کرتے
    ہر حال میں مقصد ہے سفر، محوِ سفر ہیں
    ناکامیِ پیہم کا گلہ بھی نہیں کرتے
    کیا جانیے کس رنگ میں ہے شمس زبیریؔ
    بُت ایک طرف ذکرِ خدا بھی نہیں کرتے

  • شمس زبیری کا "نقش” یاد آیا

    شمس زبیری کا "نقش” یاد آیا

    معروف شاعر، صحافی اور اپنے زمانے کے ایک مقبول ادبی رسالے نقش کے مدیر شمس زبیری کا ایک حوالہ ریڈیو پاکستان بھی ہے جہاں انھوں‌ نے زبان و بیان کی اصلاح اور درستی کے لیے کام کیا۔ آج اردو زبان کے اس مصلح کی برسی ہے۔ شمس زبیری 3 ستمبر 1999 کو وفات پاگئے تھے۔

    شمس زبیری نے بچوں‌ کے رسائل کی ادارت کے ساتھ ایک ادبی جریدے نقش کا آغاز کیا جس کے لیے علمی مضامین اور مختلف اصنافِ ادب سے معیاری تخلیقات کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ انھیں صاحبِ اسلوب ادیب، انشا پرداز شاہد احمد دہلوی کا ساتھ نصیب ہوا جس نے نقوش کو ایک معیاری اور مقبول رسالہ بنانے میں‌ مدد دی۔ اپنے وقت کے معروف اور نام ور ادیبوں، شاعروں اور مضمون نگاروں‌ کی تخلیقات سے سجے اس رسالے کو انھوں نے ادبی ڈائجسٹ کے طور پر پیش کیا اور کام یاب رہے۔

    1917 میں پیدا ہونے والے شمس زبیری تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے آئے اور یہاں‌ ادبی دنیا میں‌ نام و مقام بنایا۔ وہ حجرہ شاہ مقیم، اوکاڑہ میں آسودۂ خاک ہیں۔

    شمس زبیری کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر کی جارہی ہے۔

    غزل
    ہم ترکِ تعلق کا گلہ بھی نہیں کرتے
    تم اتنے خفا ہو کہ جفا بھی نہیں کرتے
    تم شوق سے اعلانِ جفا پر رہو نازاں
    ہم جرأت اظہارِ وفا بھی نہیں کرتے
    مانا کہ ہنسی بھی ہے ادا آپ کی لیکن
    اتنا کسی بیکس پہ ہنسا بھی نہیں کرتے
    ہم جرأتِ گفتار کے قائل تو ہیں لیکن
    ہر بات سر بزم کہا بھی نہیں کرتے
    ہر حال میں مقصد ہے سفر، محوِ سفر ہیں
    ناکامیِ پیہم کا گلہ بھی نہیں کرتے
    کیا جانیے کس رنگ میں ہے شمس زبیریؔ
    بُت ایک طرف ذکرِ خدا بھی نہیں کرتے