Tag: شمشان گھاٹ

  • بھارت: شمشان گھاٹ بھر گئے، لوگ لاشیں گھر میں رکھنے پر مجبور

    بھارت: شمشان گھاٹ بھر گئے، لوگ لاشیں گھر میں رکھنے پر مجبور

    نئی دہلی: بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں، نئی دہلی میں لوگ لاشوں کو آخری رسومات کے انتظار میں گھروں میں رکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ شمشان گھاٹ میں جگہ نہیں ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی کے رہنے والے نتیش کمار کو اپنی ماں کی میت 2 دن تک گھر میں رکھنی پڑی کیونکہ دہلی میں کسی بھی شمشان گھاٹ میں آخری رسومات ادا کرنے کے لیے جگہ نہیں تھی۔

    نتیش کمار نے والدہ کی موت کے 2 دن بعد جمعرات کو ان کی آخری رسومات ایک عارضی شمشان گھاٹ میں ادا کیں، یہ عارضی شمشان گھاٹ شمال مشرقی دہلی میں واقع شمشان گھاٹ کے ساتھ ایک پارکنگ ایریا میں بنایا گیا ہے۔

    مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کمار نے بتایا کہ ماں کا جسد خاکی لے کر وہ ادھر سے ادھر دوڑتے رہے لیکن ہر شمشان گھاٹ پر کسی نہ کسی وجہ سے انکار کر دیا گیا، کہیں لکڑیاں نہیں تھیں تو کہیں کچھ اور۔

    اس کا کہنا تھا کہ اس کی والدہ ہیلتھ ورکر تھیں اور وہ 10 روز پہلے کرونا وائرس سے متاثر ہوئی تھیں۔

    مذکورہ عارضی شمشان کی گھاٹ کی نگہبانی جیتندر سنگھ شنٹی نامی شخص کے ذمے ہے، ان کا کہنا تھا کہ جمعرات کی دوپہر تک اس عارضی شمشان گھاٹ میں 60 میتوں کی آخری رسومات ادا ہو چکی ہے اور 15 کی ابھی ہونا باقی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ایسے حالات کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، شمشان گھاٹ میں آنے والی لاشیں 5 سال اور 15 سال کے بچوں کی بھی ہیں، 25 سال کے نوجوانوں کی بھی اور بزرگوں کی بھی ہیں۔

  • بھارت: وائرل تصویر کی حقیقت جان کر لوگ تڑپ اٹھے

    بھارت: وائرل تصویر کی حقیقت جان کر لوگ تڑپ اٹھے

    کرناٹک: بھارت میں شوہر کی لاش کو ٹھیلے پر لاد کر شمشان گھاٹ لے جانے والی خاتون کی درد ناک تصویر نے انسانیت کو ایک بار پھر شرمسار کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کرناٹک کے بیلگام ضلع میں کرونا کے باعث خاتون کو اپنے شوہر کی لاش کو ٹھیلے میں لاد کر شمشان گھاٹ لے جانا پڑا، وبا کے خوف سے کوئی خاتون کی مدد کے لیے سامنے نہیں آیا۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ خاندان اور رشتے داروں میں سے کسی نے بھی مدد نہیں کی سب کو یہ لگ رہا تھا کہ اس کے شوہر کی موت کرونا وائرس کی وجہ سے ہوئی ہے۔

    مقامی افراد نے میڈیا کو بتایا کہ خاتون کا کنبہ معاشی پریشانیوں کا سامنا کر رہا ہے، پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اسے اپنے شوہر کو ٹھیلے پر لے جانے پر مجبور ہونا پڑا۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ شوہر کی موت کے وقت وہ اور اس کے بچے گھر پر نہیں تھے، جب ہم واپس آئے اور دورازہ کٹھکٹھایا لیکن سدا شیو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ گھر کا دروازہ توڑنے پر انکشاف ہوا کہ سدا شیو مر چکا ہے۔

  • کیا آپ ان آسیب زدہ مقامات پر جانے کی ہمت رکھتے ہیں؟

    کیا آپ ان آسیب زدہ مقامات پر جانے کی ہمت رکھتے ہیں؟

    بعض افراد مافوق الفطرت مخلوق اور جنات پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ ان کا خیال ہے کہ جنات ایک وہم ہیں۔ لیکن جنات کا وجود ایک حقیقت ہے۔ یہ ہماری طرح زندگی گزارتے ہیں، ان کی شادیاں بھی ہوتی ہیں اور بچے بھی ہوتے ہیں، اور یہ مرتے بھی ہیں۔

    جنات بعض جگہوں پر قبضہ کرلیتے ہیں اور اکثر و بیشتر اپنی موجودگی ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی جگہیں ہیں جہاں کئی افراد نے کچھ غیر معمولی ’سائے‘ یا سرگرمیوں کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ جگہیں کون سی ہیں۔


    کوہ چلتن ۔ بلوچستان

    1

    چلتن کے پہاڑی علاقہ میں واقع سب سے بلند چوٹی جسے کوہ چلتن کہا جاتا ہے ایک پراسرار جگہ ہے۔ چلتن دراصل فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب 40 مردے ہیں۔ مقامی افراد اس بارے میں ایک داستان سناتے ہیں۔

    داستان کے مطابق صدیوں قبل ایک غریب بے اولاد جوڑا اولاد کے لیے پیروں فقیروں کے پاس جارہا تھا۔ کسی بزرگ کی دعا قبول ہوئی اور ان کے پاس ایک دو نہیں بلکہ 40 بچوں کی ولادت ہوئی۔ یہ غریب جوڑا اتنے سارے بچوں کی کفالت نہیں کر سکتا تھا چنانچہ انہوں نے ایک بچے کو اپنے پاس رکھ کر 39 بچے پہاڑ پر چھوڑ دیے۔

    کچھ عرصہ بعد عورت یہ سوچ کر پہاڑ پر گئی کہ شاید ان بچوں کی موت واقع ہوچکی ہوگی لیکن وہ سب وہاں زندہ تھے۔ بیوی خوشی سے شوہر کو یہ بتانے کے لیے واپس آگئی اور ایک بچہ جو ان کے پاس تھا وہ بھی پہاڑ پر بھی ہی چھوڑ گئی۔ کچھ دیر بعد دونوں میاں بیوی پہاڑ پر پہنچے تو سارے بچے غائب تھے۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انہی 40 بچوں کی رونے کی آوازیں اکثر و بیشتر سنائی دیتی ہیں۔


    موہٹہ پیلیس ۔ کراچی

    2

    یہ محل 1927 میں قائم کیا گیا اور بھارت کی تقسیم کے وقت اسے بند کردیا گیا۔ اب اس پیلیس کو میوزیم میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہاں کام کرنے والے عملہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اکثر یہاں غیر معمولی سرگرمیاں دیکھی ہیں۔

    یہاں چیزیں خود بخود اپنی جگہ سے حرکت کرتی ہیں اور ملازمین چیزوں کو مختلف جگہوں پر پاتے ہیں۔ اکثر یہاں کی روشنیاں مدھم ہوجاتی ہیں۔ یہاں تعینات گارڈز کے مطابق رات کے وقت یہ سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں اور انہیں کسی کی ’موجودگی‘ واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔


    ڈالمیا روڈ ۔ کراچی

    3

    ڈالمیا روڈ پر آدھی رات کو سفر کرنے والے اکثر افراد نے ایک ’دلہن‘ کو دیکھا ہے۔ اسے کارساز کی دلہن کا نام دیا جاتا ہے۔

    بعض افراد کا دعویٰ ہے کہ آدھی رات کو سفر کرنے والے جب کارساز اور جوہر کو ملانے والی ڈالمیا روڈ پر پہنچتے ہیں تو کسی نہ کسی وجہ سے وہ رکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ رکنے کے بعد انہیں ایک سجی سجائی سرخ لباس میں ملبوس دلہن نظر آتی ہے جو کسی اجنبی زبان میں ان سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

    ڈرائیورز کا پہلا خیال یہی ہوتا ہے کہ کسی پریشان حال دلہن کو مدد کی ضرورت ہے لیکن جیسے ہی وہ اسے دیکھنا شروع کرتے ہیں یکایک اس کی شکل بدل جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک خوفناک چڑیل کا روپ دھار لیتی ہے۔

    کچھ افراد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جب وہ رکے نہیں تو اس دلہن نے ان کا پیچھا کیا اور انہیں اس کی چیخیں بھی سنائی دیں۔


    جھیل سیف الملوک ۔ ناران

    4

    جھیل سیف الملوک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رات کے وقت یہاں پریاں اترتی ہیں۔ اس کہاوت کا تعلق ایک لوک داستان سے ہے جس کے مطابق صدیوں قبل فارس کا شہزادہ جھیل پر رہنے والی پری کا دیوانہ ہوگیا۔ پری بھی اس کی محبت میں گرفتار ہوگئی۔

    پری کے تیر نظر کا شکار ایک دیو کو جب اس محبت کا پتہ چلا تو اس نے غصہ میں دونوں کو مار دیا۔ اس دن کے بعد سے رات کے وقت آسمان سے پریاں یہاں اترتی ہیں اور اپنی ساتھی کی موت پر روتی اور بین کرتی ہیں۔


    ہاکس بے کا ہٹ ۔ کراچی

    5

    کراچی کے ہاکس بے پر واقع ایک مشہور ہٹ آسیب زدہ مشہور ہے اور اسے کوئی کرایہ پر نہیں لے سکتا۔ اگر کوئی بیوقوف یہ حماقت کرے تو وہ صبح ہونے سے قبل ہی چیختا ہوا ہٹ سے باہر آجاتا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ پورے چاند کی رات میں اس ہٹ کے اندر جنات کی شادیاں انجام پاتی ہیں اور یہ جنات بن بلائے مہمانوں یعنی انسانوں سے بہت برا سلوک کرتے ہیں۔


    شمشان گھاٹ ۔ حیدر آباد

    حیدر آباد میں واقع 250 سال قدیم شمشان گھاٹ جہاں ہندو مردوں کو جلایا جاتا ہے بھی آسیب زدہ مشہور ہے۔

    یہاں کام کرنے والے عملے کا کہنا ہے کہ رات کے وقت یہاں اکثر بچے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں جو صبح سورج نکلنے سے قبل غائب ہوجاتے ہیں۔ رات بھر یہاں عجیب و غریب پراسرار آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔


    شیریں سنیما ۔ کراچی

    7

    کون کہتا ہے کہ مردہ لوگوں کو موسیقی اور فلمیں پسند نہیں ہوتیں۔ کراچی میں واقع شیریں سنیما اس کی واضح مثال ہے۔

    اس سنیما کو بند کردیا گیا کیونکہ یہاں غیر معمولی ’سرگرمیاں‘ دیکھنے میں آرہی تھیں۔ سنیما کے عملے کے مطابق سنیما جب خالی ہوتا تو وہاں سے اکثر گانے اور ہنسنے کی آوازیں آتیں۔ اکثر بڑی اسکرین پر کچھ لوگوں کے ہیولے بھی نظر آتے حالانکہ سنیما میں کوئی نہیں ہوتا۔


    چوکنڈی قبرستان ۔ کراچی

    8

    کراچی کی نیشنل ہائی وے پر واقع چوکنڈی قبرستان میں کبھی بھی سورج ڈھلنے کے بعد جانے کی غلطی مت کریں۔ یہ قبرستان 600 سال قدیم ہے اور اسے آسیب زدہ قبرستان کہا جاتا ہے۔

    قریب کی آبادیوں میں رہائش پذیر افراد کا کہنا ہے کہ شام ہوتے ہی یہاں پراسراریت کا راج ہوجاتا ہے اور یہاں سے غیر مانوس آوازیں اور ہیولے نظر آتے ہیں۔


    قلعہ شیخوپورہ

    9

    شیخوپورہ میں واقع یہ قلعہ نہایت ابتر حالت میں ہے اور کوئی بھی اسے درست کروانے کی ہمت نہیں رکھتا۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی افراد کے مطابق کئی صدیوں قبل اس قلعہ میں رہنے والی ملکہ کی روح اب بھی یہیں رہتی ہے اور وہ غیر متعلقہ افراد کی موجودگی سخت ناپسند کرتی ہے۔ وہ اپنی موجودگی اکثر و بیشتر ظاہر بھی کرتی ہے۔

    کسی فلسفی نے کہا ہے، ’سب سے بڑا بھوت خود انسان ہے‘۔ تو کیا آپ ان جگہوں کا دورہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟