Tag: شمیم آرا

  • شمیم آرا: پاکستانی فلموں کی مقبول اداکارہ اور کام یاب ہدایت کار

    شمیم آرا: پاکستانی فلموں کی مقبول اداکارہ اور کام یاب ہدایت کار

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں شمیم آرا کو ان کے فن اور پروقار شخصیت کی بدولت مقبولیت ہی نہیں بے پناہ عزت اور احترام بھی ملا۔ وہ اپنے وقت کی مقبول ترین فلمی ہیروئن تھیں جن کا کیریئر 30 سال پر محیط ہے۔ آج شمیم آرا کی برسی منائی جارہی ہے۔

    اداکارہ شمیم آرا نے ہیروئن کے بعد بطور کریکٹر ایکٹریس بھی بڑی شان سے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ انھوں نے بعد میں بطور ہدایت کار بھی خود کو منوایا تھا۔

    شمیم آرا کا تعلق بھارت کے شہر علی گڑھ سے تھا جو ایک علمی و تہذیبی مرکز رہا ہے۔ وہ علی گڑھ سے پاکستان منتقل ہوگئی تھیں۔ شمیم آرا کا اصل نام ’’پتلی بائی‘‘ تھا جنھیں پاکستانی فلموں میں فلم ساز و ہدایت کار نجم نقوی نے شمیم آرا کے نام سے متعارف کروایا۔ وہ اردو فلم’’ کنواری بیوہ‘‘ میں پہلی مرتبہ بطور اداکار نظر آئیں جو ایک ناکام فلم ثابت ہوئی مگر شمیم آرا نے اپنی ابتدائی دور کی ناکامیوں کے باوجود انڈسٹری سے تعلق برقرار رکھا اور پھر وہ لاہور چلی گئیں۔ شمیم آرا کو لاہور میں نام ور ہدایت کار ہمایوں مرزا نے اپنی فلم ’’ہم راز‘‘ میں اداکارہ مسرت نذیر کے ساتھ کاسٹ کیا اور سائیڈ رول شمیم آرا نے بھرپور پرفارمنس سے فلم بینوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ فلم سازوں کو اداکارہ کے مکالمے ادا کرنے کا سادہ انداز اور بہترین اردو کا تلفظ اچھا لگا اور رفتہ رفتہ شمیم آرا کے فن و شخصیت میں نکھار آتا گیا۔

    اداکارہ کو اصل شہرت اردو زبان میں میں بننے والی فلم ’’بھابی‘‘ سے ملی۔ اس کے بعد ’’سہیلی‘‘ اور ’’فرنگی‘‘ وہ فلمیں ثابت ہوئیں جنھوں نے شمیم آرا کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اردو فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ میں شمیم آرا کی پرفارمنس بہت جاندار رہی اور اس فلم نے شان دار کامیابی حاصل کی۔ اس فلم کے بعد شمیم آرا فلم انڈسٹری کی مصروف ترین اداکار بن گئیں۔ شمیم آرا نے مشہور رنگین فلم ’’نائلہ‘‘ میں اپنے وقت کے مقبول ہیرو اور باکمال اداکار سنتوش کمار کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔بعد میں شمیم آرا نے کمال، محمد علی، ندیم اور وحید مراد کے ساتھ بھی کام کرکے فلم بینوں کے دل جیتے۔ شمیم آرا کو فلموں میں مختلف نوعیت کے کردار ادا کرنے کا بے حد شوق تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ شمیم آرا نے اداکاری کے ساتھ بطور ہدایت کار اور فلم ساز بھی کام کیا۔

    اداکارہ شمیم آرا کی ذاتی زندگی میں کئی پریشان کن موڑ آئے۔ ان کی کوئی شادی بھی کام یاب نہ ہوسکی۔ اس وقت اداکار کمال اور شمیم آرا کے درمیان محبت اور شادی کا چرچا بھی ہوا۔ لیکن شمیم آرا کی نانی کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ شمیم آرا کی شادی فلم ساز فرید احمد سے ہوئی جنھوں نے ’عندلیب‘، ’بندگی‘، ’سہاگ‘، ’خواب اور زندگی‘ اور ’زیب انسا‘ جیسی کام یاب فلمیں بنائیں۔ پھر شمیم آرا فلم ساز و تقسیم کار اے مجید کی دلہن بنیں۔ آخری شادی تقریباً بڑھاپے میں دبیرالحسن نامی فلمی رائٹر سے کی تھی۔ جب شمیم آرا کا فلم انڈسٹری میں وقت ختم ہوا تو دبیر الحسن نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور تب وہ اپنے بیٹے کے پاس لندن چلی گئیں۔ لندن ہی میں 5 اگست 2016ء کو وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئیں۔

    فلم کی دنیا میں شمیم آرا نے ’ہمراز، سہیلی، دوراہا، صاعقہ، مجبور، زمانہ کیا کہے گا، سہاگ، فرنگی، چنگاری، سالگرہ سمیت 86 فلموں میں اداکاری کی۔ ان کی مشہور فلموں میں قیدی، اک تیرا سہارا، انسان بدلتا ہے، آنچل، لاکھوں میں ایک، دل بیتاب، خاک اور خون، پرائی آگ، دوسری ماں، فیصلہ، بھابھی، پلے بوائے شامل ہیں۔

    شمیم آرا انتہائی خوش اخلاق اور مؤدب خاتون مشہور تھیں اور ساتھی فن کاروں کے مطابق انھیں بہت کم غصہ آتا تھا۔ شمیم آرا انتہائی حساس طبیعت کی مالک تھیں۔ ابتدائی عمر میں ہی ماں کی شفقت سے محروم ہوگئی تھیں اور نانی کے زیر تربیت رہیں جن کے فیصلوں کے آگے وہ بے بس تھیں۔ شمیم آرا کی پیشہ ورانہ زندگی پر ان کی نانی کی گرفت سخت رہی۔ اداکارہ کی پیدائش 1940ء کی تھی۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان کے شہر کراچی آگئی تھیں اور یہاں سے لاہور منتقل ہوگئیں جو فلمی مرکز بنا ہوا تھا۔

    اداکارہ کو 1960ء میں صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا جب کہ بہترین نگار ایوارڈ فلم ’’فرنگی پر ملا تھا۔ شمیم آرا کو اس لیے بھی یاد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی فلموں میں عورت کو طاقت ور اور بہادر دکھایا ہے جس کی مثال ’مس ہانگ کانگ‘، ’مس کولمبو‘، ’مس سنگاپور‘ اور ’مس بینکاک‘ جیسی فلمیں ہیں جن میں ہیروئن اور خاتون کردار کو انھوں نے ظالم اور بدمعاش سے لڑتے ہوئے پیش کیا۔

  • بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور کام یاب ہدایت کار شمیم آرا کی برسی

    بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور کام یاب ہدایت کار شمیم آرا کی برسی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ شمیم آرا کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2016ٰء میں آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی تھیں۔ شمیم آرا بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور 1950ء سے 1970ء کی دہائی تک صفِ اوّل کی اداکارہ رہیں۔ انھوں نے فلم نگری میں ہدایت کارہ کے طور پر بھی خود کو آزمایا اور کام یاب فلمیں بنائیں۔

    22 مارچ 1938ء کو بھارتی ریاست اتر پردیش کے مشہور شہر علی گڑھ میں پیدا ہونے والی شمیم آرا کا خاندانی نام ’پتلی بائی‘ تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد جب انھوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا تو شمیم آرا کے نام سے متعارف ہوئیں۔

    انھوں نے نجم نقوی کی فلم ’کنواری بیوہ‘ سے اداکاری کا سفر شروع کیا تھا جس میں انھیں خاص کام یابی تو نہیں ملی، لیکن وہ نازک اندام اور خوب صورت تھیں اور سنیما بینوں کو ان کا معصومانہ اندازِ بیان بہت پسند آیا اور اس طرح 1958ء میں انھیں فلموں میں کاسٹ کیا جانے لگا، لیکن اگلے دس سال تک ناکامیوں نے شمیم آرا کا راستہ روکے رکھا۔ تاہم 1960ء میں فلم’ سہیلی‘ نے ان کا نصیب کھول دیا۔ یہ فلم ہٹ ہوگئی اور اس میں شمیم آرا کی کردار نگاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    1962ء میں اُن کی فلم’ قیدی‘ آئی جس میں فیض احمد فیض کی غزل ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ شمیم آرا پر فلمائی گئی تھی۔ یہ فلم کام یاب ترین فلم قرار پائی اور اداکارہ کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی سال ان کی کئی فلمیں کام یاب رہیں جن میں آنچل، محبوب، میرا کیا قصور، قیدی اور اِنقلاب شامل ہیں۔ 1963ء میں ’دلہن، اِک تیرا سہارا، غزالہ، کالا پانی، سازش، سیما، ٹانگے والا جیسی فلموں نے دھوم مچا دی اور شمیم آرا صفِ اوّل کی اداکارہ کہلائیں۔

    شمیم آرا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے پاکستان کی پہلی رنگین فلم ’نائلہ‘ میں اداکاری کی۔

    1970ء کی دہائی میں انھوں نے ہدایت کاری کا آغاز کیا اور پلے بوائے، مس استنبول، منڈا بگڑا جائے، ہاتھی میرے ساتھی جیسی کام یاب ترین فلمیں بنائیں۔

    2011ء میں دماغ کی شریان پھٹ جانے کے باعث ان کا آپریشن کیا گیا تھا جس کے بعد وہ کوما میں چلی گئی تھیں اور بعد میں انھیں علاج کے لیے لندن لے جایا گیا تھا اور وہاں تقریباً 6 سال علالت کے بعد وفات پاگئیں۔ ان کی عمر 78 برس تھی۔

  • "سہیلی” جس نے مشہور اداکارہ شمیم آرا کو احتجاج پر مجبور کردیا

    "سہیلی” جس نے مشہور اداکارہ شمیم آرا کو احتجاج پر مجبور کردیا

    پاکستان میں ہر لحاظ سے کام یاب قرار دی جانے والی فلموں میں سے ایک "سہیلی” بھی ہے جو 23 دسمبر 1960ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    حکومتِ پاکستان نے اس سال صدارتی ایوارڈ کا اجرا کیا تھا اور اسی برس سہیلی بھی ریلیز ہوئی جس نے مختلف زمروں میں پانچ ایوارڈ اپنے نام کیے۔

    اس فلم کے پروڈیوسر ایف ایم سردار تھے، جب کہ اس کی کہانی حسرت لکھنوی نے لکھی تھی اور اس کے ہدایت کار ایس ایم یوسف تھے۔ سہیلی کی موسیقی اے حمید کی ترتیب دی ہوئی تھی اور فلم کے نغمہ نگار فیاض ہاشمی تھے۔

    سہیلی میں مرکزی کردار معروف اداکارہ شمیم آرا، نیر سلطانہ، ببّو، رخشی، درپن اور اسلم پرویز نے نبھائے تھے۔

    اس فلم کو پانچ ایوارڈز میں بہترین فلم، بہترین ہدایت کار، بہترین اداکارہ، بہترین معاون اداکار اور بہترین معاون اداکارہ کے ایوارڈز دیے گئے۔ شمیم آرا نے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ اپنے نام کیا جب کہ طالش اور نیر سلطانہ کو معاون اداکار کے ایوارڈ ملے۔

    یہ پاکستانی سنیما کی وہ یادگار فلم ثابت ہوئی جسے بعد میں چار نگار ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    یہاں یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں‌ کہ صدارتی ایوارڈ میں شمیم آرا کو بہترین اداکارہ کا اور نیر سلطانہ کو بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ ملا تھا جب کہ نگار ایوارڈ میں نیر سلطانہ نے بہترین اداکارہ کا اور شمیم آرا بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا اور اسی پر ایک تنازع بھی سامنے آیا۔ اس ایوارڈ کو شمیم آرا نے احتجاجا قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

    ایس ایم یوسف کو بہترین ہدایت کار اور اداکار درپن نے بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

  • فلمی ہدایت کار جس نے ہجوم میں "ستارہ” دیکھا

    فلمی ہدایت کار جس نے ہجوم میں "ستارہ” دیکھا

    آپ نے فلم نگری سے جڑے کئی واقعات پڑھے اور سنے ہوں گے جو حیران کُن اور دل چسپ بھی ہیں۔ ان میں‌ سے کچھ افسردہ کر دینے والے اور بعض قصّے تو نہایت الم ناک ہیں۔

    کہیں‌ کسی اداکار نے اپنی فلموں‌ کی ناکامی پر خودکشی کی تو کسی مشہور فلمی جوڑی نے حقیقی زندگی میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، لیکن جلد ہی ان کے پرستاروں تک خبر پہنچی کہ ازدواجی زندگی کی تلخیوں کے بعد ان فن کاروں نے اپنے راستے جدا کر لیے ہیں۔

    پاک و ہند کی فلمی صنعت کے کئی نام ور اور مقبول اداکار ایسے بھی ہیں‌ جن کے بارے میں‌ آپ نے سنا ہو گاکہ وہ زندگی میں‌ کچھ اور بننا چاہتے تھے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یوں وہ بڑے پردے کے بڑے اداکار بن گئے۔

    یہاں‌ ہم ایک ایسا ہی قصّہ پیش کررہے ہیں جو اردو اور پنجابی فلموں کے نام ور اداکار مصطفیٰ قریشی کی فلم نگری میں آمد سے متعلق ہے۔

    یہ ایک دل چسپ کہانی ہے جس میں اپنے وقت کی مقبول ہیروئن اور کام یاب اداکارہ شمیم آرا کا ذکر بھی ضروری ہے۔ مشہور ہے کہ وہ اپنی ایک فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھیں جہاں ان کے مداح اور تماش بین بڑی تعداد میں‌ جمع ہوگئے۔

    انہی میں ایک نوجوان بھی شامل تھا جو اُن دنوں ریڈیو پاکستان میں کام کرتا تھا۔ جس فلم کی شوٹنگ جاری تھی، اس کے ہدایت کار رضا میر تھے جن کی اچانک نظر اس نوجوان پر پڑی۔ ان کی نظروں‌ نے نوجوان کو اس کے قد و قامت اور چہرے مہرے کے لحاظ سے اداکاری کے لیے موزوں قرار دے دیا۔

    رضا میر نے اس نوجوان کو مخاطب کیا تو اس نے بتایا کہ اس کا نام مصطفیٰ قریشی ہے اور وہ ریڈیو سے منسلک ہے۔ ہدایت کار نے یہ جاننے کے بعد اسے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیش کش کردی۔

    شوٹنگ دیکھنے کے لیے بھیڑ میں‌ گھس آنے والے مصطفیٰ قریشی نے بالآخر ان کی آفر قبول کر لی۔ یوں انھیں مشہور فلم ‘لاکھوں میں ایک’ میں کردار نبھانے کا موقع ملا۔

    مصطفیٰ قریشی نے اس فلم میں شمیم آرا کے شوہر کا کردار ادا کیا تھا۔