Tag: شور

  • ہائبرڈ ماڈل پر سارے بورڈز راضی تھے، اب شور مچانے کا کیا فائدہ؟ باسط علی

    ہائبرڈ ماڈل پر سارے بورڈز راضی تھے، اب شور مچانے کا کیا فائدہ؟ باسط علی

    باسط علی نے کہا ہے کہ ٹورنامنٹ سے پہلے ہائبرڈ ماڈل ہوا سب بورڈز نے ایگری کیا، ہارنے کے بعد بات کررہے ہیں پہلے شور مچانا چاہیے تھا۔

    اے آر وائی کے پروگرام ہرلمحہ پرجوش میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سابق کرکٹر باسط علی کا کہنا تھا کہ بھارتی ٹیم اگر پاکستان آتی تو یہاں کی پچز پر 400 رنز اسکور کرتی، ہم نے اپنے ملک میں اسپین پچز کیوں نہیں بنائیں؟

    انھوں نے کہا کہ ہمارے کوچنگ اسٹاف کو نہیں پتہ یہاں پر اسپن پچز بنانی چاہیے، ٹورنامنٹ سے پہلے بھارت کی جو سوچ تھی وہ آج ثابت ہوئی کہ 5 اسپنر رکھے۔

    باسط علی کا کہنا تھا کہ بھارتی ٹیم کی جیت میں بہت سی چیزیں شامل ہیں، آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کیلئے بھارت کی سوچ بہت اہم ہے۔

    نیوزی لینڈ کی طرف سے فاسٹ بولرز نے 7 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، بھارت کی طر ف سے اسپینئرز نے 9 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

    سابق وکٹ کیپر کامران اکمل کا کہنا تھا کہ بھارتی ٹیم میں بہت کانفیڈنس ہے، بھارتی ٹیم میں کھلاڑیوں کو اپنے کردار کا اندازہ ہے، کھلاڑیوں کو پتہ ہے کہ ہمیں کیسے پرفارم کرنا ہے، کامیابی یہی ہے کہ کسی ایک یا دو پر انحصار نہیں کرتے۔

    کامران اکمل نے کہا کہ بطور ٹیم کھیلیں تو کامیابی ضرور ملتی ہے، میرٹ اور کنڈیشن کے مطابق وہ ٹیم بناتے ہیں، اس لیے وہ کامیاب ہیں، وہ دباؤ کے باوجود میچ نکال لیتے ہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/champions-trophy-2025-ind-vs-nz-match/

  • انگلینڈ کے گاؤں میں پراسرار آواز کی بازگشت، مقامی افراد پریشان

    انگلینڈ کے گاؤں میں پراسرار آواز کی بازگشت، مقامی افراد پریشان

    لندن: انگلینڈ کے ایک گاؤں میں مقامی افراد کو عجیب و غریب آواز سنائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا سونا مشکل ہوگیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق انگلینڈ میں ویسٹ یارکشائر کے قریب ہیلی فیکس کے علاقے ہوم فیلڈ کے گاؤں میں ایک عجیب اور پراسرار آواز لوگوں کو سنائی دے رہی ہے۔

    مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی یہ آواز ہوتی تو دھیمی ہے لیکن مسلسل اس آواز سے بعض اوقات بڑی پریشانی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اب تک اس کی وجہ یا یہ کہاں سے آتی ہے معلوم نہیں ہوسکا ہے، یہ آواز بہت تیز نہیں ہوتی لیکن اس سے ان کی نیند اور موڈ ضرور خراب ہوجاتا ہے۔

    بتایا جا رہا ہے کہ یہ آواز تمام مقامی لوگ تو نہیں سن سکے ہیں لیکن جنہوں نے اسے سننے کا دعویٰ کیا ہے ان کے مطابق اس سے ان کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

    انگلش دیہات میں سنی جانے والی اس آواز سے متعلق شہ سرخیاں گزشتہ سالوں کے دوران اخبارات میں لگ چکی ہیں لیکن اب تک یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ آواز کہاں سے آتی ہے۔

    مقامی حکام نے اس حوالے سے تحقیقات کیں اور اس مقصد کے لیے ایک آزاد کنسلٹنٹ کا تقرر بھی کیا لیکن یہ پراسراریت ختم نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔

  • بھارت: پٹاخے پھوڑنے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا

    بھارت: پٹاخے پھوڑنے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا

    نئی دہلی: بھارت کے دارالحکومت میں صوتی آلودگی پھیلانے پر جرمانے میں اضافہ کر دیا گیا ہے، اب ایک لاکھ روپے تک وصول کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق نئے احکامات کے بعد اب دہلی کے رہائشی یا صنعتی علاقوں میں کسی نے پٹاخہ چلایا تو اسے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے، متعلقہ محکموں کو اس سلسلے میں سختی سے عمل درآمد کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ دہلی پلوشن کنٹرول کمیٹی (ڈی پی سی سی) شہر میں شور کی بڑھتی آلودگی کے خلاف سخت اقدامات اٹھا رہی ہے، اسی ضمن میں ہفتے کے روز صوتی آلودگی پھیلانے والوں پر عائد ہونے والے جرمانے میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔

    نئے احکامات کے مطابق صوتی آلودگی پھیلانے والوں کو ایک ہزار سے ایک لاکھ تک کا جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    جرمانے بتدریج بڑھانے کا ایک طریقہ کار بھی ترتیب دیا گیا ہے، جس کے مطابق مقررہ وقت کے بعد کسی بھی شخص کے رہائشی اور صنعتی علاقے میں پٹاخہ چلانے پر بالترتیب ایک ہزار اور تین ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

    اگر کسی ریلی، شادی یا مذہبی تقریب میں پٹاخہ سے متعلق اصول کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، تو منتظمین کو رہائشی اور صنعتی علاقوں میں 10 ہزار روپے اور سائلنٹ زون میں خلاف ورزی کرنے پر 20 ہزار روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

    اگر ایک ہی علاقے میں دوسری مرتبہ اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی، تو جرمانے کی رقم بڑھا کر 40 ہزار روپے کر دی جائے گی، اور اگر 2 مرتبہ سے زیادہ اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی، تو ایک لاکھ روپے تک جرمانہ وصول کیا جائے گا، اس جگہ کو بھی سیل کر دیا جائے گا۔

    نیز، جنریٹر جیسے آلات کے ذریعے بھی صوتی آلودگی پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، ایسی صورت میں آلات ضبط کیے جائیں گے۔

  • کان بجنا: طبی سائنس اسے بیماری تصور نہیں‌ کرتی!

    کان بجنا: طبی سائنس اسے بیماری تصور نہیں‌ کرتی!

    انسان کو لاحق ہونے والی بعض جسمانی پیچیدگیاں ایسی ہوتی ہیں جو بجائے خود کوئی بیماری نہیں بلکہ کسی مرض کی ابتدائی علامات ہوسکتی ہیں۔ مستند معالج سے رجوع کیا جائے تو وہ مختلف طبی طریقوں اور لیبارٹری ٹیسٹ کی مدد سے اس کی اصل وجہ یعنی کسی مرض کی تشخیص کرسکتا ہے۔

    ہمارے جسم کے حساس ترین عضو یعنی کان سے متعلق ایسا ہی ایک طبی مسئلہ Tinnitus کہلاتا ہے جسے میڈیکل سائنس بیماری تصور نہیں کرتی بلکہ ماہرین کے نزدیک یہ ایک عام شکایت ہے۔ یہ شکایت مختصر دورانیے کی بھی ہوسکتی ہے اور بعض صورتوں میں کئی دنوں تک اس سے نجات نہیں مل پاتی۔

    اس طبی پیچیدگی سے متأثرہ فرد کو اپنے کان میں مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اسے بھنبھناہٹ، کسی قسم کا شور یا جھنکار سنائی دیتی ہے اور یہ آوازیں تیز یا دھیمی بھی ہوسکتی ہیں۔ یہ شور مسلسل اور کبھی وقفے وقفے سے ہوسکتا ہے۔ ہم اسے عام طور پر کان بجنا کہتے ہیں۔

    طبی محققین نے اس کیفیت کو دو طرح بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق بعض اوقات کان میں پیدا ہونے والی آوازوں کو صرف اس کا شکار ہونے والا ہی سُن سکتا ہے۔ یہ مسئلہ زیادہ تر عارضی ثابت ہوتا ہے اور اس کا سبب کان کے بیرونی، اندرونی یا درمیانی حصّے کا کسی وجہ سے متأثر ہونا ہے۔ اس کا ایک سبب ان دماغی اعصاب کا متأثر ہونا ہے، جو ہمیں سماعت میں مدد دیتے ہیں۔

    اس طبی پیچیدگی کی دوسری حالت میں متأثرہ فرد کے علاوہ اس کے کان میں ہونے والا شور یا مختلف آوازیں قریب موجود انسان بھی سنتا ہے۔ تاہم ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ محققین کے مطابق اس کا سبب خون کی رگوں اور کان کے اندرونی پٹھوں کا کھنچاؤ ہوسکتا ہے۔

    طبی محققین کےنزدیک یہ مسئلہ اسی وقت سامنے آتا ہے جب کان کا عصبی نظام درست طریقے سے اپنا کام انجام نہیں دے پاتا۔ اس کی دیگر عام وجوہات میں کان پر ضرب یا کوئی ایسی بیماری بھی ہوسکتی ہے، جس کا تعلق دماغ کے اس حصّے سے ہوتا ہے جو کانوں اور سماعت سے متعلق اعصاب کو کنٹرول کرتا ہے۔

    مختلف تحقیقی رپورٹوں کے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین کہتے ہیں کہ کانوں میں سیٹی کی آواز یا کسی قسم کا شور محسوس کرنے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو مسلسل کئی گھنٹے ایسی جگہ گزارتے ہیں جہاں بہت زیادہ شور اور مختلف آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں بھاری اور آواز کرنے والی مشینوں پر کام کرنے والے یا سڑکوں پر گاڑیوں کے ہارن اور ان کے انجن وغیرہ کا شور سننے والے شامل ہیں۔

  • شور کی آلودگی، دل اور خون کی بیماریوں کے پھیلنے کا سبب

    شور کی آلودگی، دل اور خون کی بیماریوں کے پھیلنے کا سبب

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت (WHO) نے آواز کی آلودگی سے متعلق رپورٹ جاری کردی جس میں کہا گیا ہے کہ کرہ ارض پر پیدا ہونے والے شور کی وجہ سے دل اور خون کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

    آلودگی کی ایک کئی  ایک اقسام ہیں جن میں سے ایک قسم (نوائس پلوشن) یعنی شور سے پیدا ہونے والی آلودگی ہے، یہ انسانی صحت پر بری طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق کسی مصروف ترین شاہراہ پر دن کے وقت گاڑیوں کی آمدورفت اور ریل کے چلنے سے پیدا ہونے والی آواز کی حد 54 فیصد تک ہونا چاہیے۔ (یہ حد آواز ناپنے والے آلے سے لی گئی)

    ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں 54 فیصد شور کو اس طرح سمجھایا گیا ہے کہ کوئی شخص جب آہستہ آواز میں کسی دوسرے سے سرگوشی کرتا ہے تو اُس وقت آواز کی حد 30 فیصد ہوتی ہے جو قابل برداشت ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اگر ہیڈ فون لگا کر ہلکی آواز میں ریڈیو یا موبائل سے گانے سنے جائیں تو آواز کی شدت 50 فیصد ہوتی ہے جبکہ مختلف صنعتوں سے پیدا ہونے والی آواز 100 فیصد ہوتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے شور کی حدود کا تعین کیا تاکہ شہریوں کو آلودگی اور صحت کے خطرات سے بچایا جاسکے۔ ڈبلیو ایچ او کی سفارشات میں رکن ممالک کی حکومتوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ شہری علاقوں میں ایسے اقدامات کریں جن کے ذریعے آوازوں کو اُسی حد تک رکھا جائے یا پھر اس سے کم کیا جائے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ڈائریکٹر سوزانا یاکب کے مطابق ’کرہ ارض پر بہت زیادہ شور کی وجہ سے انسان کے غصے اور پریشانیوں میں اضافہ ہوا اور نئی بیماریوں نےبھی جنم لیا جن میں دل اور خون کے کئی امراض شامل ہیں‘۔

  • کیا آپ شور شرابہ کے نقصانات جانتے ہیں؟

    کیا آپ شور شرابہ کے نقصانات جانتے ہیں؟

    ہماری روزمرہ زندگی میں شور شرابہ ایک اہم جز ہے۔ ٹریفک کا شور، لوگوں کا شور، ٹی وی، کمپیوٹر یا موبائل فون کا شور، پرہجوم اور بڑے شہروں میں تو خاموشی ہونا ویسے بھی ناممکن بات ہے۔

    لیکن آپ نے کبھی غور نہیں کیا ہوگا کہ شور آپ کی صحت اور دماغ پر کیا اثرات ڈالتا ہے۔ آئیے جانتے ہیں۔

    شور کے نقصانات

    قدرتی طور پر ہماری سماعت یا سننے کی طاقت 86 ڈیسیبل تک شور برداشت کر سکتی ہے لیکن جب شور اس حد سے بڑھنا شروع ہوتا ہے تو سماعت متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے اور آواز دماغ تک پہنچ جاتی ہے جو کہ انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس کے مضر اثرات بھی پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    np-2

    مسلسل شور شرابے میں رہنا ذہنی دباؤ اور ہارمون لیولز کو بڑھاتا ہے۔ اس کے برعکس خاموشی بہت سی پریشانیاں ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس سے ہمارا بلڈ پریشر بھی نارمل رہتا ہے۔

    ایک طبی ماہر کے مطابق اگر شور حد سے بڑھ جائے اور ہم مستقل اس کے دائرے میں رہیں تو ہماری سماعت متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: شور سے بہری ہوتی سماعت کی حفاظت کریں

    شور ہمارے خون پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جس کا نتیجہ بعض اوقات ہارٹ اٹیک کی صورت میں نکلتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق شور شرابے میں رہنے والے بچوں کے اندر سیکھنے اور یاد کرنے کا مادہ کم ہوتا ہے اور وہ پڑھنے میں بھی کمزور ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ بچے جو پرسکون علاقوں میں مقیم ہیں ان میں پڑھنے لکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت بہ نسبت زیادہ ہے۔

    خرابی کی علامات

    جو کان شور سے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں ان کی علامت یہ ہے کہ ایسے انسان کو اپنے کان میں ہلکی سی سیٹی کی آواز آنا شروع ہوجاتی ہے جبکہ یہ آواز ماحول میں کہیں بھی موجود نہیں ہوتی اور ساتھ ہی آہستہ آہستہ یہ آواز مستقل ہوجاتی ہے۔

    کچھ لوگوں کو سر درد کی شکایت بھی ہوتی ہے جبکہ بعض افراد کو اونچا سنائی دینے لگتا ہے۔

    حل کیا ہے؟

    ماہرین کے مطابق درخت بھی شور کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں کیونکہ درخت شور کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا بڑے شہروں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگنے چاہئیں تاکہ وہ ماحول کی آلودگی کے ساتھ شور کی آلودگی کو بھی کم کریں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ایئرپورٹ کے قریب رہائش سنگین طبی خطرات کا باعث

    ایئرپورٹ کے قریب رہائش سنگین طبی خطرات کا باعث

    کسی شہر میں ایئرپورٹ کے قریب کے علاقے نسبتاً شہر سے دور اور پرسکون ہوتے ہیں اور بعض افراد وہاں رہائش رکھنا پسند کرتے ہیں، تاہم کیا آپ جانتے ہیں ایئرپورٹ کے نزدیک رہائش رکھنا آپ کو سنگین طبی خطرات میں مبتلا کرسکتا ہے؟

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہوائی جہاز سے خارج ہونے والی گیسیں اور دھواں عام گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھویں سے کہیں زیادہ مہلک ہوتا ہے اور یہ آپ کو نہایت آسانی سے کینسر میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ایئرپورٹس پر جاری ایوی ایشن سرگرمیاں نائٹروجن آکسائیڈ گیس خارج کرتی ہیں جو انسانی صحت کے لیے سخت مضر ہے۔

    یہ گیس ماحول کے لیے بھی بے حد نقصان دہ ہے جو سورج کی تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتی ہے جبکہ یہ تیزابی بارشوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق اس دھویں اور زہریلی گیس سے متاثر ہونے والے افراد میں گلائیوبلاسٹوما کے خلیات بھی پائے گئے جو ایک قسم کا دماغی کینسر ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ اور اس کی آس پاس کی فضا میں موجود زہریلے اجزا کینسر کے علاوہ سانس کی بیماریوں، جگر کی خرابی، امراض قلب اور پیدائش میں نقائص کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

    اعصابی نظام کو نقصان

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ایئرپورٹ کے قریب رہنے کا سب سے بڑا نقصان مستقل شور سے اعصابی نظام کو پہنچنے والا خطرہ ہے جو ایئرپورٹ کے قریب رہائشیوں اور ایئرپورٹ پر کام کرنے والے عملے کو یکساں طور پر متاثر کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دن میں کئی بار جہازوں کا شور سننے کی صلاحیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ شور اعصابی تناؤ اور مزاج میں چڑچڑے پن میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔

    یاد رہے کہ طویل عرصے تک پر شور مقامات پر وقت گزارنا آہستہ آہستہ سماعت کو ختم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ جب تک آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کی سماعت کھو رہی ہے، اس وقت تک بہت سے خلیات تباہ ہوچکے ہوتے ہیں جنہیں کسی صورت بحال نہیں کیا جاسکتا۔

    مزید پڑھیں: شور سے بہری ہوتی سماعت کی حفاظت کریں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بڑے شہروں کے رہائشیوں میں بہرے پن کا قوی امکان

    بڑے شہروں کے رہائشیوں میں بہرے پن کا قوی امکان

    برلن: ماہرین کا کہنا ہے کہ پرہجوم، پرشور اور بڑے شہروں میں رہنے والے افراد میں بہرے پن کا قوی امکان موجود ہوتا ہے۔

    جرمنی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق بڑے شہروں میں مختلف اقسام کا بے ہنگم شور وہاں رہنے والے افراد کو بہرا کرسکتا ہے۔ تحقیق میں کہا گیا کہ بڑے شہروں میں رہنے والے افراد کی قوت سماعت چھوٹے اور پرسکون شہروں میں رہنے والے افراد کی نسبت خراب ہوتی ہے۔

    noise-3

    اس تحقیق کے لیے چھوٹے اور بڑے شہروں میں رہنے والے 2 لاکھ سے زائد افراد کی قوت سماعت کا ٹیسٹ کیا گیا جس سے مذکورہ نتائج برآمد ہوئے۔

    ماہرین نے چین کے شہر گانزو، نئی دہلی، قاہرہ اور استنبول کو شور کی آلودگی سے متاثرہ شہر قرار دیا جس کے شہری دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ خرابی شماعت کا شکار تھے۔

    مزید پڑھیں: شور سے بہری ہوتی سماعت کی حفاظت کریں

    اس کے برعکس زیورخ، ویانا، اوسلو اور میونخ کو پرسکون شہر قرار دیا گیا جہاں شور کی آلودگی کم تھی۔

    یاد رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل عرصے تک بہت زیادہ پر شور مقامات پر وقت گزارنا آہستہ آہستہ سماعت کو ختم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ جب تک آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کی سماعت کھو رہی ہے، اس وقت تک سننے میں مدد دینے والے بہت سے خلیات تباہ ہوچکے ہوتے ہیں جنہیں کسی صورت بحال نہیں کیا جاسکتا۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ شور کی آلودگی اور بہرے پن کا بہت گہرا تعلق ہے اور مستقل پر شور مقامات پر رہنے والے افراد بالآخر بہرے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    noise-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پر شور اور بڑے شہروں میں رہنے والے افراد سماعت کے لحاظ سے اپنی اصل عمر سے 10 سال عمر رسیدہ ہوجاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹریفک کے شور کے صحت پر بدترین نقصانات

    یاد رکھیں کہ اگر آپ کسی ایسے مقام پر موجود ہیں جہاں آپ کو اپنی بات سمجھانے کے لیے بلند آواز سے گفتگو کرنی پڑ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ شور آپ کی سماعت کے لیے نقصان دہ ہے۔

  • شور سے بہری ہوتی سماعت کی حفاظت کریں

    شور سے بہری ہوتی سماعت کی حفاظت کریں

    انسانی سماعت قدرت کی ایسی نعمت ہے جو ایک بار چھن جائے تو کسی صورت واپس نہیں آسکتی۔ سماعت کے لیے سب سے زیادہ خطرناک شے بے ہنگم شور ہے جو بڑے شہروں میں معمول کی بات بن چکا ہے۔

    پرامید بات یہ ہے کہ سماعت کے خراب ہونے سے قبل اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور مکمل یا جزوی طور پر بہرا ہونے سے بچا جاسکتا ہے۔

    سماعت کیسے خراب ہوسکتی ہے؟

    انسانی کان کے اندر بالوں کی شکل کے ننھے ننھے خلیات موجود ہوتے ہیں جو دماغ کو آوازوں کو پہچاننے اور آپ کو سننے میں مدد دیتے ہیں۔ پیدائش کے وقت ایک عام انسان کے کانوں میں 16 ہزار خلیات موجود ہوتے ہیں۔

    عمر میں اضافے کے ساتھ اگر ان خلیات کا 30 سے 50 فیصد حصہ ناکارہ ہوجائے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی سماعت خراب ہوچکی ہے۔

    طویل عرصے تک بہت زیادہ پر شور مقامات پر وقت گزارنا آہستہ آہستہ سماعت کو ختم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ جب تک آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کی سماعت کھو رہی ہے، اس وقت تک بہت سے خلیات تباہ ہوچکے ہوتے ہیں جنہیں کسی صورت بحال نہیں کیا جاسکتا۔

    hearing-2

    یاد رہے کہ کسی آواز کی پیمائش کرنے کی اکائی ڈیسی بل ہے۔ معمول کی گفتگو 60 ڈیسی بل پر مشتمل ہوتی ہے۔ سرگوشی 30 ڈیسی بل جبکہ موٹر سائیکل کا انجن 95 ڈیسی بل آواز پیدا کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ 120 ڈیسی بل سے زائد کی آواز صرف ایک لمحے کے لیے بھی سنیں تو فوری طور پر آپ کی سماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: شور شرابہ کے نقصانات

    اسی طرح اگر آپ نے چند گھنٹے کسی نہایت ہی پرشور مقام پر گزارے ہیں، جیسے تیز موسیقی والی محفل میں، یا ہجوم سے بھرے کھیل کے میدان میں، تو عارضی طور پر آپ کی سماعت پر فرق پڑتا ہے جو چند گھنٹوں بعد معمول کے مطابق ہوجاتا ہے۔

    لیکن اگر یہ کیفیت چند گھنٹوں سے زیادہ رہے تو آپ کو اپنی سماعت کے حوالے سے چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔

    یاد رکھیں کہ اگر آپ کسی ایسے مقام پر موجود ہیں جہاں آپ کو اپنی بات سمجھانے کے لیے بلند آواز سے گفتگو کرنی پڑ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ شور آپ کی سماعت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    سماعت کی حفاظت کیسے کی جائے؟

    سماعت کی حفاظت کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ پر شور مقامات پر جانے سے گریز کیا جائے۔

    لیکن اگر آپ کسی پرشور دفتر یا مقام پر کام کرتے ہیں تو کانوں کو ڈھانپنے والے آلات کا استعمال کریں۔

    hearing-3

    ایسے مقام پر دن میں کئی بار وقفہ لے کر چند منٹ کسی پرسکون جگہ پر گزاریں تاکہ شور کا اثر زائل ہوسکے۔

    مزید پڑھیں: خاموشی کے فوائد

    مستقل بنیادوں پر ہیڈ فون لگا کر بلند آواز میں گانے سننا بھی سماعت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    زور سے گفتگو کرنے سے گریز کریں اور آہستہ گفتگو کرنے کی عادت ڈالیں۔

  • شوربچوں کے سیکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے،ماہرین

    شوربچوں کے سیکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے،ماہرین

    واشنگٹن : امریکی ماہرینِ نفسیات کاکہنا ہے کہ اگر اسکول یا گھر میں شورزیادہ ہو تو اس سے بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے.

    تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی آف وسکونسن میڈیسن میں اسکول جانے والے چھوٹے بچوں کے گھروں اوراسکولوں میں پس منظر کے شور کی شدت اور ان بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت کا تجزیہ کیا گیا.

    تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ جن بچوں کے اسکولوں یا گھروں میں ارد گرد کے ٹریفک،لوگوں کے آپس میں باتیں کرنے،ٹی وی یاریڈیو وغیرہ کا شور زیادہ ہوتا ہے،ان بچوں کو نئے الفاظ سیکھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

    مطالعے سے یہ ثابت ہوا کہ پس منظر کا شور بچوں کی توجہ اپنی طرف کرتاہے اور وہ پڑھائے جانے والے الفاظ یا اُستاد کی آواز پر متوجہ ہونے میں زیادہ مشکل محسوس کرتے ہیں.

    ماہرین کی تحقیق میں دریافت ہوا کہ اگر بچوں کو سکھائے جانے والے الفاظ کی تعداد بڑھا دی جائے تو ان میں سیکھنے کی صلاحیت معمول پر واپس لائی جاسکتی ہے۔

    ماہرین کا مشورہ ہے کہ گھر میں بڑوں اور بچوں کے والدین کو جب کہ اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کو خیال رکھنا چاہیے کہ نہ صرف گھر اور کلاس روم میں شور شرابا نہ ہو بلکہ آس پاس کا ماحول پرسکون ہو تاکہ بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو.