Tag: شورش کاشمیری

  • ذکرِ رفتگاں: جب سالک صاحب نے علّامہ اقبال کو حدیث سنائی

    ذکرِ رفتگاں: جب سالک صاحب نے علّامہ اقبال کو حدیث سنائی

    اردو کے ممتاز ادیب، جیّد صحافی اور بلند پایہ خطیب آغا شورش کاشمیری کے قلم سے کئی شخصایت کے تذکرے اور خاکے نکلے ہیں جس سے ان کے فن و افکار کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ شورش نے ایک مضمون عبدالمجید سالک جیسے ممتاز شاعر و ادیب اور صحافی پر بھی لکھا تھا۔ وہ اس میں سالک کی زبانی شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جو آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    ادبی مضامین اور اقتباسات پڑھنے کے لیے کلک کریں
    شورش لکھتے ہیں: ہر شخص کا اندازہ اس کے دوستوں سے کیا جاتا ہے۔ سالک صاحب اوائل عمر ہی سے جن لوگوں کے ساتھ رہے وہ قلم کے لیے مایۂ ناز تھے۔ اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں، حسرت موہانی، ممتاز علی۔ جس پایہ کے لوگ تھے وہ ان کے نام اور کام سے ظاہر ہے۔

    سالک صاحب نے علامہ اقبال کے ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، عمر کی آخری تہائی میں وہ ہر چیز سے دستبردار ہوگئے تھے۔ ان کے قلب کا یہ حال تھا کہ آن واحد میں بے اختیار ہو کر رونے لگتے، حضورؐ کا نام آتے ہی ان کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی، پہروں اشکبار رہتے۔ ایک دفعہ میں نے حدیث بیان کی کہ مسجد نبوی میں ایک بلّی نے بچے دے رکھے تھے، صحابہؓ نے بلی کو مار کر بھگانا چاہا، حضورؐ نے منع کیا۔

    صحابہؓ نے عرض کی، مسجد خراب کرتی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اسے مارو نہیں، یہ ماں ہوگئی ہے۔ حدیث کا سننا تھا کہ علّامہ بے اختیار ہوگئے، دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ سالک صاحب کیا کہا؟ مارو نہیں ماں ہو گئی ہے، اللہ اللہ امومت کا یہ شرف؟ سالک صاحب کا بیان تھا کہ حضرت علّامہ کوئی پون گھنٹہ اسی طرح روتے رہے، میں پریشان ہو گیا۔ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو مجھے بھی چین آیا، ورنہ جب تک وہ اشکبار رہے میں ہلا رہا گویا مجھ سے کوئی شدید غلطی سرزد ہوگئی ہو۔

  • ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    مولانا حبیب الرّحمٰن کے بیٹے عزیز الرّحمٰن جامعی نہایت ہوشیار نوجوان تھے، انہیں شوق تھا کہ بڑے بڑے آدمیوں سے ملتے، والد کا ذکر کرتے اور کوئی نہ کوئی خبر اڑا لاتے، ان دنوں زعمائے احرار کی خبروں کا منبع عزیز الرّحمٰن ہی تھے۔ گاندھی، نہرو آزاد وغیرہ کے ہاں تو ان کا آنا جانا روز ہی کا تھا، ان سے ملاقات نہ ہوتی، ان کے سیکرٹریوں سے مل آتے، سیکرٹریوں سے نہ ملتے، تو ان کے سٹینو گرافروں سے مل آتے لیکن خبریں زور کی لاتے اور اکثر خبریں صحیح نکلتی تھیں۔

    ایک دن میں نے اور نواب زادہ نصر اللہ خاں نے ان سے کہا کہ گاندھی جی سے ملنے کی راہ نکالو، عزیز نے کہا کہ ’’ابھی چلو، گاندھی جی نے بھنگی کالونی میں کٹیا ڈال رکھی ہے، کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے گی۔‘‘ ہم تیار ہو گئے۔

    میں، نواب زادہ، انور صابری اورعزیز الرّحمٰن بھنگی کالونی پہنچے تو گاندھی جی وائسریگل لاج گئے ہوئے تھے۔ ان کی کٹیا ہری جنوں کی بستی کے بیچوں بیچ لیکن کھلے میدان میں تھی۔ کوئی تیس گز ادھر بانس بندھے ہوئے تھے اور یہ کھلا دروازہ تھا۔ یہاں سے قریب ہی ایک خیمہ تھا، جس میں رضاکاروں کا سالار رہتا، ادھر ادھر کچھ چارپائیاں پڑی تھیں۔ کرسیوں کا نشان تک نہ تھا، گاندھی جی کی بیٹھک کا تمام حصہ فرشی تھا، کچھ دیر تو ہم بعض دوسرے مشتاقین کے ساتھ بانس کے دروازے پر کھڑے رہے، پھر عزیز الرّحمن نے ہمت کی اور پیارے لال کو کہلوایا، اس نے بلوایا، پیارے لال گاندھی جی کا سکریٹری تھا، عزیز الرّحمٰن نے اس سے کہا کہ ’’ہم اس غرض سے آئے ہیں۔‘‘ وہ نیم راضی ہوگیا، کہنے لگا ’’آپ سامنے درخت کی چھاؤں میں بیٹھیں، باپو ابھی آتے ہیں، ان کی مصروفیتیوں کا تو آپ کو اندازہ ہے، ممکن ہے کوئی اور وقت دیں۔‘‘

    ہم ٹھہر گئے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے ترکی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ میں ان دنوں کھدر پہنتا لیکن سر پر جناح کیپ رکھتا تھا۔ انور صابری نے قلندروں کا جھول پہن رکھا اور عزیز الرّحمٰن مولویوں کے چغہ میں تھا۔ کوئی چالیس منٹ ٹھہرے ہوں گے کہ گاندھی جی کی کار کی آمد کا غل ہوا۔ اتنے میں درجن ڈیڑھ درجن دیویاں بھی آگئیں، گاندھی جی کی کار سڑک سے اندر داخل ہوئی، دیویوں نے پاپوشی کرنی چاہی لیکن گاندھی جی تیر کی طرح نکل کر ہمارے پاس رک گئے۔ ہم نے ہاتھ اٹھا کر آداب کیا، مسکرائے۔

    ’’آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

    ’’پنجاب سے۔‘‘

    ’’آپ نے بہت تکلیف کی؟‘‘۔

    ’’جی نہیں، ہم آپ کے درشن کرنے آئے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے کہا: ’’مہاتما جی! میں مولانا حبیب الرّحمٰن لدھیانوی کا بیٹا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا! وہ مولوی صاحب جو مجھ سے بہت لڑتے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے ہم تینوں کا تعارف کرایا، گاندھی جی مسکراتے رہے۔ ملاقات کا وقت مانگا، گاندھی جی نے ہامی بھر لی، کہا: ’’آپ لوگ پرسوں شام پانچ بجے آدھ گھنٹے کے لیے آجائیں۔‘‘

    عزیز نے کہا:’’آپ کے سیکریٹری ٹرخا دیتے ہیں، ذرا ان سے بھی کہہ دیں۔‘‘

    گاندھی جی نے کہا:’’کوئی بات نہیں، یہ کھڑے ہیں، ان سے میں نے کہہ دیا ہے۔‘‘ مزید کہا: ’’کل بھی میں آپ کو بلا سکتا ہوں لیکن کل میرا مون برت ہے۔ آپ باتیں کریں، تو میں سلیٹ پر لکھ کر جواب دوں گا، کچھ کہنا سننا ہے، تو پرسوں کا وقت ٹھیک رہے گا۔‘‘

    ہم نے صاد کیا ، گاندھی جی نے ہاتھ باندھ کر پرنام کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کٹیا میں داخل ہوگئے۔ دوسرے لوگ ہمیں حیرت سے تکتے رہے۔

    (1946 میں شورش کاشمیری نے دہلی میں قیام کے دوران کئی قومی لیڈروں اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی تھیں جن کا ذکر اپنی کتاب بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغِ محفل میں کیا ہے، یہ پارہ اسی کتاب سے لیا گیا ہے)

  • سیّد عطا اللہ شاہ بخاری، قرآنِ حکیم اور دیوانِ غالب

    سیّد عطا اللہ شاہ بخاری، قرآنِ حکیم اور دیوانِ غالب

    یہ تذکرہ ہے سیّد عطا اللہ شاہ بخاری کا جنھیں متحدہ ہندوستان میں ان کی دینی خدمات اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ شعر و ادب سے گہرے لگاؤ کی وجہ سے بھی پہچانا گیا۔

    عطا اللہ شاہ بخاری شعر شناس بھی تھے اور شاعر بھی جب کہ قدرت نے خطابت کا بے پناہ ملکہ بھی ودیعت کر رکھا تھا اور لوگ ان کی تقریر سننے کے لئے دور دراز سے چلے آتے تھے۔ اردو اور فارسی پر عبور حاصل تھا اور ان زبانوں میں ہزاروں اشعار ازبر تھے۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور زیادہ تر شاعری فارسی میں کی۔ یہاں ہم عطا اللہ شاہ بخاری کے ذوقِ‌ ادب سے متعلق مستند کتابوں‌ سے چند اقتباسات نقل کررہے ہیں۔

    شورش کاشمیری لکھتے ہیں: ’’وہ (اپنی)‌ نانی اماں کی زبان دانی سے فیض پانے پر فخر کرتے اور شاد عظیم آبادی سے اپنی ہم صحبتی و ہم سخنی کے واقعات بڑے کرّو فخر سے بیان کرتے، جہاں تک اردو زبان سے آشنائی کا تعلق تھا وہ کسی بھی اہلِ زبان سے اپنے تئیں کم نہ سمجھتے تھے۔ اپنی زبان کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا…. اور یہ غلط نہ تھا۔‘‘

    شاہ جی کی سخن فہمی کے بارے میں ماہر القادری جن کا شمار اپنے دور کے معروف شعراء میں ہوتا ہے، لکھتے ہیں: ’’داد دینے کا انداز والہانہ تھا۔ میں نے زندگی میں بہت کم لوگوں کو اتنی صحیح اور معقول داد دیتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

    احمد ندیم قاسمی، صوفی تبسم، احسان دانش، حفیظ جالندھری، ماہر القادری، تاثیر، سالک، فیض، ساحر لدھیانوی، جگر مراد آبادی، عدم وغیرہم کو آپ کی ہم نشینی و بزم آرائی کا موقع ملا۔

    اقبال، غالب اور حافظ کو خوب ڈوب کر پڑھا تھا۔ ان کے کلام کے حوالے سے بڑا جامع تبصرہ فرماتے اور وقیع الفاظ میں ان شعراء کو خراجِ تحسین پیش کرتے اور ان شعراء کے اشعار بھی نوکِ زبان تھے جنھیں برجستہ و برمحل برت کر داد پاتے۔ مرزا غالب کے کئی اشعار ازبر تھے۔

    عبدالمجید سالک کے بیٹے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے اپنی کتاب ‘‘وے صورتیں الٰہی‘‘ میں عطا اللہ شاہ بخاری سے ملاقات کا ذکر یوں‌ کیا ہے: اس کے بعد (شاہ جیؒ) ہمیں قیام گاہ پر لے گئے وہاں خوب محفل جمی، باتوں باتوں میں فرمایا ’’دو کتابیں ہمیشہ میرے پاس رہتی ہیں۔ قرآنِ حکیم اور دیوانِ غالب لیکن اوپر قرآنِ حکیم رہتا ہے اور نیچے دیوانِ غالب۔‘‘

    میں بے ساختہ پکار اٹھا، ہاں…. مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے!

    وہ ہنس پڑے کہنے لگے، کیسے چھپے رہتے، آخر ابنِ سالک ہو۔

  • "تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟”

    "تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟”

    ایک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے حبیب جالب کی بے عزّتی کر دی۔ کسی نے پولیس والے کو نہ روکا۔

    قریب ہی آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کا دفتر تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک پولیس والے نے جالب سے بدتمیزی کی ہے تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک میں آئے۔ ایک تانگے والے سے چھانٹا لیا اور پولیس والے کی پٹائی کی اور اس سے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟ یہ جالب ہے۔

    پھر آغا صاحب تھانے جا بیٹھے اور وہاں دھرنا دے دیا۔ کہنے لگے کہ جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی بے عزّتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لیے مجھے جیل بھیج دو۔

    پولیس والے معافیاں مانگنے لگے۔ علّامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ آغا شورش کاشمیری نے تھانے میں دھرنا دے دیا ہے تو وہ بھی دھرنے میں آبیٹھے۔ مظفر علی شمسی بھی آگئے۔ شہر میں شور پڑ گیا۔ گورنر نے تھانے میں فون کیا لیکن آغا صاحب نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ جس شہر میں جالب کی بے عزّتی ہو میں وہاں نہیں رہوں گا۔ بات وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی تو بھٹو نے فون پر منت کی جس پر آغا صاحب دھرنے سے اٹھے۔

    اس واقعے کے بعد حبیب جالب ہر کسی کو کہتے پھرتے تھے، ’’شورش نے میری عزّت بچا لی، ابھی اس شہر میں رہا جاسکتا ہے۔‘‘

    (سینئر صحافی اور کالم نویس محمد رفیق ڈوگر کی آپ بیتی’’ڈوگر نامہ‘‘ سے انتخاب)

  • ابوالکلام آزاد: سانحۂ ارتحال اور جنازہ

    ابوالکلام آزاد: سانحۂ ارتحال اور جنازہ

    مولانا آزاد محض سیاست داں ہوتے تو ممکن تھا حالات سے سمجھوتہ کر لیتے، لیکن شدید احساسات کے انسان تھے، اپنے دور کے سب سے بڑے ادیب، ایک عصری خطیب، ایک عظیم مفکر اور عالم متبحر۔

    ان لوگوں میں سے نہیں تھے، جو اپنے لیے سوچتے ہیں، وہ انسان کے مستقبل پر سوچتے تھے، انہیں غلام ہندوستان نے پیدا کیا اور آزاد ہندوستان کے لیے جی رہے تھے۔ ایک عمر آزادی کی جدوجہد میں بسر کی اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس کا نقشہ ان کی منشا کے مطابق نہ تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے خون کا ایک سمندر ہے ، اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ ان کا دل بیگانوں سے زیادہ یگانوں کے چرکوں سے مجروح تھا، انہیں مسلمانوں نے سالہا سال اپنی زبان درازیوں سے زخم لگائے اور ان تمام حادثوں کو اپنے دل پر گزارتے رہے۔

    آزادی کے بعد یہی سانچے دس سال کی مسافت میں ان کے لیے جان لیوا ہو گئے۔ 12 فروری 1958ء کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ مولانا آزاد علیل ہو گئے ہیں۔ اس رات کابینہ سے فارغ ہو کر غسل خانے میں گئے، یکایک فالج نے حملہ کیا اور اس کا شکار ہو گئے۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور رادھا کرشنن فوراً پہنچے ڈاکٹروں کی ڈار لگ گئی۔ مولانا بے ہوشی کے عالم میں تھے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد وہ رائے دے سکیں گے کہ مولانا خطرے سے باہر ہیں یا خطرے میں ہیں۔

    ادھر آل انڈیا ریڈیو نے براعظم میں تشویش پیدا کر دی اور یہ تأثر عام ہو گیا کہ مولانا کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ ہر کوئی ریڈیو پر کان لگائے بیٹھا اور مضطرب تھا، مولانا کے بنگلہ میں ڈاکٹر راجندر پرساد (صدر جمہوریہ ہند)، پنڈت جواہرلال نہرو وزیراعظم، مرکزی کابینہ کے ارکان، بعض صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اکابر علماء کے علاوہ ہزا رہا انسان جمع ہو گئے۔

    جب شام ہوئی ہر امید ٹوٹ گئی۔ عشاء کے وقت سے قرآن خوانی شروع ہو گئی، مولانا حفیظ الرحمٰن سیوہاروی، مولانا محمد میاں، مفتی عتیق الرحمٰن، سید صبیح الحسن، مولانا شاہد فاخری اور بیسیوں علماء و حفاظ تلاوتِ کلام الہیٰ میں مشغول تھے۔

    آخر ایک بجے شب سورہ یٰسین کی تلاوت شروع ہو گئی اور 22 فروری کو 2:15 بجے شب مولانا کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔

    اس وقت بھی سیکڑوں لوگ اضطراب میں کھڑے تھے۔ جوں ہی رحلت کا اعلان ہوا تمام سناٹا چیخ و پکار سے تھرا گیا۔

    دن چڑھے تقریباً 2 لاکھ انسان کوٹھی کے باہر جمع ہو گئے۔ تمام ہندوستان میں سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دیے گئے۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لمبی ہڑتال ہو گئی، دہلی میں ہُو کا عالم تھا حتّٰی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی، ایک ہی شخص تھا جس کے لیے ہر مذہب کی آنکھ میں آنسو تھے، باالفاظِ دیگر مولانا تاریخِ انسانی کے تنہا مسلمان تھے، جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے، پنڈت جواہر لال نہرو موت کی خبر سنتے ہی دس منٹ میں پہنچ گئے اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے انہیں یاد آ گیا کہ مولانا نے آج ہی صبح انہیں "اچھا بھائی خدا حافظ "کہا تھا۔

    ڈاکٹروں نے 21 کی صبح کو ان کے جسم کی موت کا اعلان کر دیا اور حیران تھے کہ جسم کی موت کے بعد ان کا دماغ کیونکر 24 گھنٹے زندہ رہا۔
    ڈاکٹر بدھان چندر رائے (وزیراعلیٰ بنگال) نے انجکشن دینا چاہا تو مولانا نے آخری سہارا لے کر آنکھیں کھولیں اور فرمایا "ڈاکٹر صاحب اللہ پر چھوڑیے۔ "اس سے پہلے معالجین کے آکسیجن گیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "مجھے اس پنجرہ میں کیوں قید کر رکھا ہے؟ اب معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ ”
    میجر جنرل شاہ نواز راوی تھے کہ تینوں دن بے ہوش رہے۔ ایک آدھ منٹ کے لیے ہوش میں آئے۔ کبھی کبھار ہونٹ جنبش کرتے تو ہم کان لگاتے کہ شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کا ورد کر رہے ہیں، پنڈت نہرو کے دو منٹ بعد ڈاکٹر راجندر پرساد آ گئے، ان کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے۔ آنِ واحد میں ہندوستانی کابینہ کے شہ دماغ پہنچ گئے، ہر ایک کا چہرہ آنسوؤں کے پھوار سے تر تھا اور ادھر ادھر ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں۔

    پنڈت نہرو کا خیال تھا کہ مولانا تمام عمر عوام سے کھنچے رہے، ان کے جنازہ میں عوام کے بجائے خواص کی بھیڑ ہو گی۔ لیکن جنازہ اٹھا تو کنگ ایڈورڈ روڈ کے بنگلہ نمبر 4 کے باہر 2 لاکھ سے زائد عوام کھڑے تھے اور جب جنازہ انڈیا گیٹ اور ہارڈنگ برج سے ہوتا ہوا دریا گنج کے علاقہ میں پہنچا تو 5 لاکھ افراد ہو چکے تھے۔

    مختصر … یہ کہ جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان میں دفن کیے گئے، مزار کھلا ہے، اس کے اوپر سنگی گنبد کا طرّہ ہے اور چاروں طرف پانی کی جدولیں اور سبزے کی روشیں ہیں۔

    (مولانا ابوالکلام آزاد کا سفرِ آخرت از قلم آغا شورش کاشمیری)

  • "تو یہ کہیے آپ ضربِ کلیم ہیں” (ادبی لطائف)

    "تو یہ کہیے آپ ضربِ کلیم ہیں” (ادبی لطائف)

    وہ (عبدالمجید سالک) قلم اور زبان دونوں کے حاتم تھے، جس محفل میں بیٹھتے، پھبتیوں کی جھاڑ باندھتے اور لطیفوں کا انبار لگاتے۔

    ایک محفل میں اختر علی خاں (اللہ انہیں بخشے) کے لاابالی پن کا ذکر ہو رہا تھا کہ وہ شہید گنج میں کوئی دستاویز اٹھاکر ماسٹر تارا سنگھ کو دے آئے تھے۔

    سالک صاحب نے تبسم فرمایا اور کہا، چھوڑ یار، اختر علی خاں بھی تو تارا سنگھ ہی کا ترجمہ ہے۔

    کلیم صاحب ملٹری اکاؤنٹس میں غالباً ڈپٹی اکاؤنٹینٹ جنرل یا اس سے بھی کسی بڑے عہدے پر فائز تھے۔ انھیں شعر و سخن سے ایک گونہ لگاؤ تھا، اکثر مشاعرے رچاتے۔ ایک مشاعرہ میں سالک صاحب بھی شریک تھے۔ کسی نے ان سے کلیم صاحب کے بیٹے کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔

    آپ کلیم صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ رگِ ظرافت پھڑک اٹھی فرمایا۔

    تو یہ کہیے آپ ضربِ کلیم ہیں۔

    غرض ان کا سینہ اس قسم کے لطائفُ الادب کا خزینہ تھا، جس محفل میں ہوتے چھا جاتے۔ برجستہ گوئی، حاضر جوابی، بذلہ سنجی، شگفتہ مزاجی، شعر فہمی، نکتہ آفرینی، یہ سب گویا ان کے خانہ زاد تھے۔ طبیعت میں آمد ہی رہتی، آورد کا ان کے ہاں گزر ہی نہیں تھا۔

    (اردو کے ممتاز ادیب و شاعر عبدالمجید سالک کی بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی کے حوالے سے یہ واقعات نام ور شاعر، ادیب اور صحافی شورش کاشمیری نے اپنے مضمون میں رقم کیے ہیں)

  • ‘ٹوڈی’ جو راس کماری سے سری نگر اور سلہٹ سے خیبر تک مشہور تھا

    ‘ٹوڈی’ جو راس کماری سے سری نگر اور سلہٹ سے خیبر تک مشہور تھا

    عبدالمجید سالک صحافت کے میدان میں خاص پہچان اور اپنے کالموں کے لیے مشہور تھے، وہ ہندوستان کے عوام میں مقبول اخبار’زمیندار‘ اور متعدد جرائد کے مدیر رہے، روزنامہ انقلاب جاری کیا، شاعر اور مضمون نگار کی حیثیت سے مشہور ہوئے اور متعدد تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    آغا شورش کاشمیری جیسے مشہور و معروف صحافی، شاعر اور مضمون نگار نے اپنے ایک مضمون میں سالک صاحب کا تذکرہ کچھ یوں کیا ہے۔

    "ہوش کی آنکھ کھولی تو گھر بھر میں مولانا ظفر علی خاں کا چرچا تھا۔ ’’زمیندار‘‘ کی بدولت خاص قسم کے الفاظ زبان پر چڑھے ہوئے تھے۔ انہی الفاظ میں ایک ٹوڈی کا لفظ بھی تھا۔ زمیندار نے اس کو خالص وسعت دے دی تھی کہ مولانا ظفر علی خاں کے الفاظ میں راس کماری سے لے کر سری نگر تک، سلہٹ سے لے کر خیبر تک اس لفظ کا غلغلہ مچا ہوا تھا، جس شخص کا ناطہ بلا واسطہ یا بالواسطہ برطانوی حکومت سے استوار تھا وہ فی الجملہ ٹوڈی تھا۔

    اس زمانہ میں ہمیں سیاسیات کے پیچ و خم سے زیادہ واقفیت نہ تھی۔ ہم نے ٹوڈی کے مفہوم کو اور بھی محدود کر رکھا تھا، وہ تمام لوگ جو مولانا ظفر علی خاں کے مخالف تھے یا جنھیں مولانا سے اختلاف تھا ہمارے نزدیک ٹوڈی تھے۔

    اب چوں کہ انقلاب کے دونوں مدیر (مہر و سالک) زمیندار کے مقابلہ میں تھے اور مولانا سے کٹ کے انقلاب نکالا تھا، لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا عرف یا تخلص بھی ٹوڈی تھا۔ پھر یہ ہفتوں یا مہینوں کی بات نہ تھی، برسوں تک یہی خیال ذہن پر نقش رہا حتّٰی کہ ایک دہائی بیت گئی۔ دوسری دہائی کے شروع میں یہ لفظ کسی حد تک کچلا گیا اور اس کی جگہ بعض مستور الفاظ رواج پاگئے، مثلاً رجعت پسند، کاسہ لیس وغیرہ ان الفاظ میں دشنام کی بدمزگی تو نہ تھی لیکن حقارت کا مخفی اظہار ضرور تھا۔

    بالآخر ان ہجویہ الفاظ کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ یہ تمام الفاظ پھلجڑی کا سا سماں باندھ کر ٹھنڈے پڑگئے۔ جن تحریکوں کے ساتھ ان کا شباب تھا ان کے ختم ہوتے ہی ان کی رونق بھی مرجھا گئی اور ان کا تذکرہ سیاسی افکار کے عجائب گھروں کی زینت ہوگیا۔

    اس دوران سالک صاحب سے کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں، دفتر زمیندار ہی میں ان سے تعارف ہوا لیکن اس تعارف سے صرف علیک سلیک کا راستہ کھلا۔ وہ اپنی ذات میں مستغرق تھے، ہم اپنے خیال میں منہمک، تاثر یہی رہا کہ سالک صاحب ٹوڈی اور انقلاب ٹوڈی بچہ ہے۔

    سالک صاحب ہمیں کیا رسید دیتے، وہ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ادھر زمیندار نے ہمیں یہاں تک فریفتہ کر رکھا تھا کہ انقلاب کو ہم نے خود ہی ممنوع قرار دے لیا تھا۔ پانچ سات برس اسی میں نکل گئے۔

    دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو لمبی لمبی قیدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہم کوئی دس گیارہ نوجوان منٹگمری سنٹرل جیل میں رکھے گئے۔ سخت قسم کی تنہائی میں دن گزارنا مشکل تھا، قرطاس و قلم موقوف، کتب و رسائل پر قدغن، جرائد و صحائف پر احتساب، یہاں تک کہ عزیزوں کے خط بھی روک لیے جاتے۔ وحشت ناک تنہائی کا زمانہ۔ جیل کے افسروں سے بارہا مطالبہ کیا کہ اخبار مہیا کریں لیکن ہر استدعا مسترد ہوتی رہی۔ جب پانی سر سے گزرگیا تو ہم نے بھوک ہڑتال کردی، نتیجتاً حکومت کو جھکنا پڑا۔ ’’سول‘‘اور ’’انقلاب‘‘ ملنے لگے۔

    بظاہر یہ ایک لطیفہ تھا کہ جس اخبار کو ہم سرکاری مناد سمجھتے اور جس کالم میں قومی تحریکوں یا قومی شخصیتوں پر سب سے زیادہ پھبتیاں کسی جاتی تھیں، ہم نے اسے بھوک ہڑتال کرکے حاصل کیا۔

    غرض افکار و حوادث کی ادبی دل کشی کا یہ عالم تھا کہ ہم اس کی چوٹیں سہہ کر لطف محسوس کرتے۔ سیاسی تاثر تو ہمارا وہی رہا جو پہلے دن سے تھا، لیکن اس کی ادبی وجاہت کے شیفتہ ہوگئے۔ مہر صاحب کے اداریے ایک خاص رنگ میں ڈھلے ہوتے، ان میں تحریر کی دل کشی اور استدلال کی خوبی دونوں کا امتزاج تھا۔ سالک صاحب افکار و حوادث میں مطائبات کی چاشنی اور طنزیات کی شیرینی اس طرح سموتے تھے۔ جی باغ باغ ہوجاتا، محسوس ہوتا گویا ہم مے کدے میں ہیں کہ رندانِ درد آشام تلخ کام ہوکر بھی خوش کام ہو رہے ہیں۔

    ساتھیوں کا ایک مخصوص گروہ تھا، جس میں جنگ کی وسعتوں اور شدتوں کے باعث اضافہ ہوتا رہا۔ میں منٹگمری سنٹرل جیل سے تبدیل ہوکر لاہور سنٹرل جیل میں آگیا تو پہلا مسئلہ انقلاب ہی کے حصول کا تھا۔ سید امیر شاہ (جیلر) کی بدولت فوراً ہی انتظام ہوگیا۔ غرض قید کا یہ سارا زمانہ انقلاب سے آشنائی میں کٹ گیا۔ رِہا ہوا تو سالک صاحب سے ان کے دفتر میں جا کے ملا۔ مہر صاحب اس وقت موجود نہیں تھے۔ ان سے کھلا ڈلا تعارف تھا، سالک صاحب تپاک سے ملے۔

    گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی اس ملاقات میں وہ پھلجڑیاں چھوڑتے رہے۔ باتوں کو سنوارنا، گفتگو کو تراشنا، ان سے لطائف نکالنا ان کی طبیعت کا وصف خاص تھا۔ اس معاملہ میں ان کی تقریر، تحریر سے زیادہ دل فریب ہوتی۔ انسان اکتاتا ہی نہیں تھا۔ ایک آدھ دفعہ پہلے بھی یہ مشورہ دے چکے تھے اور اب کے بھی یہی زور دیتے رہے کہ سیاسیات میں اپنے آپ کو ضائع نہ کرو، صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاؤ اور کتاب و قلم کے ہوجاؤ۔ اب جو ان سے تعلقات بڑھنے لگے تو دنوں ہی میں بڑھ کے وسیع ہوگئے۔ یہ زمانہ انگریزی حکومت کے ہندوستان سے رخصت ہونے کا تھا۔ برطانوی سرکار کے آخری دو سال تھے۔

    تمام ملک میں فساد و انتشار سے آگ لگی ہوئی تھی۔ اس افراتفری کے دنوں ہی میں سالک صاحب سے ملاقات کے مزید راستے کھلے۔ خلوت و جلوت میں ان کا اندازہ ہونے لگا۔

    سیاسیات سے قطع نظر یہ بات ذہن میں آگئی کہ وہ ہمارے مفروضہ سے مختلف انسان ہیں بلکہ خوب انسان ہیں۔ یہ بات بری طرح محسوس ہوئی کہ بعض لوگ مستعار عصبیتوں کی وجہ سے بدنام ہوتے ہیں۔ اور انسان بلا تجربہ اپنے دماغ میں مفروضے قائم کر کے انھیں حقیقتیں بنا دیتا ہے، لیکن جب یہی لوگ تجربہ یا مشاہدہ میں آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاسنگ کا سونا ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ تجربہ و مشاہدہ میں آنے کے بعد دور کا ڈھول نکلتے ہیں، ان کی ہم صحبتی ان کے خط و خال کو آشکار کردیتی ہے۔

    سالک صاحب کو مستعار عصبیتوں سے دیکھا تو ان کی شگفتہ تصویر نہ بن سکی، یہی باور کیا کہ خوانِ استعمار کے زلّہ رُبا ہیں۔ قریب سے دیکھا تو ایک روشن تصویر نکلے۔

  • 25 روپے کا ٹکٹ، ٹیوشن فیس اور وہ کم بخت!

    25 روپے کا ٹکٹ، ٹیوشن فیس اور وہ کم بخت!

    صوبۂ پنجاب میں سیلاب کے بعد لاہور کے طلبا نے مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں اس وقت کے نام ور شعرا نے شرکت کی۔

    اس مشاعرے کی تمام آمدن متأثرینِ سیلاب پر خرچ کی جانی تھی۔ یعنی یہ مشاعرہ جذبۂ خدمت کے تحت منعقد کیا گیا تھا۔ طلبا اس سلسلے میں خاصے پُرجوش تھے۔

    مشاعرے کی صدارت کے لیے حفیظ جالندھری کا نام لیا گیا جو قومی ترانے کے خالق بھی تھے۔ اس زمانے میں جمع جوڑ کے بعد اتفاقِ رائے سے طے پایا کہ مشاعرہ گاہ میں داخلے کا ٹکٹ 25 روپے کے عوض‌ جاری کیا جائے گا۔

    یہ بھی طے پایا کہ شرکت کے متمنی عام لوگوں‌ کے ساتھ شعرا کو بھی ٹکٹ خریدنا ہو گا۔ غرض یہ کہ سبھی کو اس کارِ خیر میں شامل رکھنا مقصود تھا۔ صدرِ مشاعرہ بھی اس میں شامل تھے۔

    طلبا حفیظ جالندھری کو مشاعرے کی دعوت دینے پہنچے اور تفصیل بتائی۔ وہ بہت خوش ہوئے اور ان کے جذبے کی داد دی۔ پھر پوچھا، شعرا کے نام بتائیں۔ اس پر طلبا نے فہرست ان کے سامنے رکھ دی۔

    حفیظ جالندھری نے اس فہرست پر نظر ڈالی اور مسکرانے لگے۔ فہرست میں شورش کاشمیری کا نام بھی شامل تھا۔
    حفیظ جالندھری نے ان طالبِ علموں کی طرف دیکھا اور بولے۔

    کیا وقت آگیا ہے، کم بخت (شورش) کو دو روپے ماہوار پر ٹیوشن پڑھایا تھا، اب 25 روپے کا ٹکٹ خرید کر سننا پڑے گا۔

  • کالا پانی اور اردو ادب کے مشہور زنداں‌ نامے!

    کالا پانی اور اردو ادب کے مشہور زنداں‌ نامے!

    برطانوی راج اور انگریزوں کے ہندوستان پر تسلط کے خلاف تحاریک اور قلم کے ذریعے ہندوستان کی آزادی کا پرچار کرنے کی پاداش میں اس زمانے کی کئی اہم اور نابغۂ روزگار شخصیات نے قید و بند کا بھی سامنا کیا اور اس کی روداد رقم کی۔

    اردو ادب میں اس دور میں لکھے گئے متعدد زنداں نامے مشہور ہیں۔ قید و بند کی یہ داستانیں نہ صرف دل کش اور پُرلطف ہیں بلکہ یہ سامانِ عبرت بھی ہیں۔ ایسی ہی چند مشہور اور لائقِ مطالعہ کتب کا یہ تذکرہ آپ کی توجہ اور دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    اردو ادب کا ادنیٰ قاری بھی ‘‘کالا پانی’’ سے ضرور واقف ہو گا جہاں انگریز دور کے باغیوں اور مخالفین کو سزا کے طور پر بھیج دیا جاتا تھا۔ اس موضوع پر پہلی کتاب مولانا محمد جعفر تھانیسری نے لکھی تھی۔ اس کا نام ہی کالا پانی تھا۔ یہ کتاب انھوں نے 1885 میں لکھی تھی۔ وہ فرنگی اقتدار کے خلاف لڑی گئی جنگ کا ایک اہم کردار بھی تھے۔ انھوں نے اس کتاب میں انگریز کے جبرو استبداد کی داستان رقم کی ہے اور مجاہدینِ حرّیت اور آزادی کے لیے قربانیوں کا نقشہ کھینچا ہے۔

    اس زمانے میں کالا پانی خوف ناک اور بدترین مقام کے طور پر مشہور تھا اور اسی نام سے زیادہ تر کتب مشہور ہیں۔

    ہندو مہا سبھائی لیڈر بھائی پر مانند نے بھی جزیرہ انڈمان میں قید و بند کے حالات اسی نام سے رقم کیے ہیں۔ اس کتاب میں بھی فرنگی دور کے مظالم اور ہندوستانی قیادت کی تحریک اور قربانیوں کے تذکرے پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    مولانا حسرت موہانی ایک باکمال نثر نگار، شاعر اور جید صحافی اور ہندوستان میں اس دور کا ایک متحرک نام بھی ہے جنھوں نے 1908 میں الہٰ آباد جیل میں اپنے شب و روز کی وارداتوں کو رہائی کے بعد رقم کیا۔ ان کی کتاب ‘‘مشاہداتِ زنداں’’ کے نام سے سامنے آئی۔

    مولانا محمود حسن دیو بندی کو گرفتار کر کے انگریزوں نے جزیرہ مالٹا میں قید کیا تو وہاں ان کے شاگرد مولانا حسین احمد مدنی بھی موجود تھے۔ انھوں نے‘‘سفرنامۂ اسیرِ مالٹا’’ کے عنوان سے قید کی مصیبت اور آفات کو تحریری شکل دی۔ اسے بھی اردو ادب کا اہم زنداں نامہ شمار کیا جاتا ہے۔

    زعیم الاحرار چوہدری افضل حق نے اپنی آپ بیتی ‘‘میرا افسانہ’’ کے نام سے لکھی ہے جس میں جیل سے متعلق تاثرات بھی ناقابلِ فراموش اور عبرت ناک ہیں۔ اس کے علاوہ انہی کی ایک اور کتاب ‘‘دنیا میں دوزخ’’ بھی جیل سے متعلق ہے۔

    ممتاز صحافی اور طنز نگار ابراہیم جلیس نے قیامِ پاکستان کے ابتدائی زمانے میں کراچی سینٹرل جیل میں اسیری کاٹی۔ اس کی روداد انھوں نے ‘‘جیل کے دن اور جیل کی راتیں’’ کے عنوان سے رقم کی ہے۔
    اسی طرح حمید اختر کی ‘‘کال کوٹھڑی’’ اور عنایت اللہ کی کتاب ‘‘اس بستی میں’’ اسیری کے دنوں کے مشاہدات پر مبنی ہیں۔

    معروف شاعر اور لازوال گیتوں کے خالق ریاض الرحمٰن ساغر نے اسیری سے متعلق کتاب ‘‘سرکاری مہمان خانہ’’ لکھی۔

    مجلسِ احرارِ اسلام کے آغا شورش کاشمیری جنگِ آزادی کے جیالوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ زندگی کے مختلف ادوار میں پسِ زنداں رہے۔ اسی قید کی روداد ‘‘پسِ دیوار زنداں’’ کے نام سے ان کےبلاشبہ ایک وقیع اور باوقار کتاب ہے جسے پوری دل چسپی کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔

    پروفیسر خورشید احمد کی کتاب ‘‘تذکرۂ زنداں’’ ایک دل چسپ اور پُر لطف کاوش ہے جو قید و بند سے متعلق ہے۔

    نعیم صدیقی کی ‘‘جیل کی ڈائری’’ دل کش اور دل آویز ہے۔