Tag: شوکت تھانوی

  • شوکت تھانوی اور شامتِ اعمال

    شوکت تھانوی اور شامتِ اعمال

    شوکت تھانوی ایک ہمہ جہت تخلیق کار تھے جنھوں نے صحافت اور اردو ادب میں بڑا نام و مقام بنایا۔ انھوں‌ نے ناول، افسانے اور ڈرامے لکھے۔ شاعری اور کالم نگاری بھی کی۔ مختلف موضوعات پر سنجیدہ اور ادبی مضامین بھی تحریر کیے۔ یوں‌ انھوں نے ہر صنفِ ادب کو اپنی فکر اور تخلیقی وفور کے اظہار کا وسیلہ بنایا، مگر زیادہ شہرت ایک مزاح نگار کے طور پر حاصل کی۔

    اردو ادب کی اس ممتاز ہستی نے آپ بیتی بھی رقم کی تھی جس سے ایک دل چسپ اور شگفتہ پارہ ہم اپنے باذوق قارئین کے لیے یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "تمنا تھی تو صرف یہ کہ میرا کلام کسی رسالے میں چھپ جائے۔ آخر یہ حسرت بھی پوری ہو گئی اور لکھنؤ کے ایک رسالے میں جس کے نام ہی سے اس کا معیار ظاہر ہے یعنی ’’ترچھی نظر‘‘ میری ایک غزل چھپ گئی۔”

    "کچھ نہ پوچھیے میری خوشی کا عالم، میں نے وہ رسالہ کھول کر ایک میز پر رکھ دیا تھا کہ ہر آنے جانے والی کی نظر اس غزل پر پڑ سکے۔ مگر شامتِ اعمال کہ سب سے پہلے نظر والد صاحب کی پڑی اور انہوں نے یہ غزل پڑھتے ہی ایسا شور مچایا کہ گویا چور پکڑ لیا ہو۔ والدہ محترمہ کو بلا کر کہا، ’’آپ کے صاحب زادے فرماتے ہیں:

    ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
    ترے کوچہ میں ہم جا کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں

    میں پوچھتا ہوں کہ یہ جاتے ہی کیوں ہیں۔ کس سے پوچھ کر جاتے ہیں؟

    والدہ بے چاری سہم کر رہ گئیں اور خوف زدہ آواز میں بولیں،’’غلطی سے چلا گیا ہو گا۔‘‘

    (کتاب کچا چٹّھا، کچھ یادیں کچھ باتیں، آپ بیتی سے انتخاب)

  • ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’مقدمہ بازی‘‘

    ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’مقدمہ بازی‘‘

    ’’زیڈ۔ اے۔ بی‘‘ کے بڑے بھائی کو ہم لوگ ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ ہی کہا کرتے تھے، ورنہ محض بخاری صاحب کہنے میں سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کون سے بخاری صاحب، بڑے یا چھوٹے؟

    اور پورا نام لینے میں یعنی احمد شاہ بخاری اور ذوالفقار علی بخاری کہنے میں کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اتنی سی تو عمر ہے اتنے بڑے بڑے نام لے کر اس کی خواہ مخواہ فضول خرچی کیوں کی جائے۔

    لہٰذا ریڈیو والے عموماً ان دونوں بھائیوں کو ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’زیڈ۔ اے۔ بی‘‘ ہی کہنے میں کفایت شعاری کے زرّیں اصول پر عمل کیا کرتے تھے، لیکن یہ میں نے بیچ دھڑے سے ریڈیو کی بات کہاں شروع کردی۔ ریڈیو سے تو میرا تعلق اس وقت پیدا ہوا ہے جب آل انڈیا ریڈیو کا لکھنؤ اسٹیشن قائم کیا گیا ہے اور میں ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ سے بحیثیت پطرس کے اس سے پہلے ہی مل چکا تھا۔

    یعنی اس وقت جو میں لکھنؤ سے بحیثیت ’’ٹاکر‘‘ تقریباً ہر ہفتہ آل انڈیا ریڈیو دہلی جایا کرتا تھا اور تاکے بیٹھا تھا کہ پطرس سے ملاقات ہوتے ہی ان کو بھی اسی طرح پھانس لوں گا (کتاب کا مقدمہ لکھوانے کے لیے) جس طرح مولانا نیاز فتح پوری، عظیم بیگ چغتائی، فرحت الله بیگ اور رشید احمد صدیقی کو پھانس چکا ہوں۔

    اپنے ایک مجموعہ مضامین پر مولانا نیاز فتح پوری سے مقدمہ لکھوا چکا تھا۔ اس مجموعے کا نام ’’بحرِ تبسم‘‘ تھا۔ دوسرے مجموعہ ’’سیلابِ تبسم‘‘ پر مرزا عظیم بیگ چغتائی سے مقدمہ لکھوایا تھا۔ تیسرے مجموعہ ’’طوفانِ تبسم‘‘ پر مرزا فرحت الله بیگ نے مقدمہ لکھا تھا۔ چوتھے مجموعہ ’دنیائے تبسم‘‘ پر رشید احمد صدیقی کا مقدمہ تھا اور اب ایک اور مجموعہ پر مقدمہ لکھنے کو پطرس بخاری پر نشانہ باندھ چکا تھا۔

    چناں چہ ایک مرتبہ جو اپنی تقریر نشر کرنے دہلی گیا تو اس نئے مجموعے سے مسلح ہو کر گیا اور بخاری صاحب کو ان کے دفتر میں جالیا۔ بڑے خلوص سے ملے بلکہ مجھ کو کچھ شبہ سا ہونے لگا کہ میں ان سے پہلی مرتبہ نہیں مل رہا ہوں، یعنی ان سے مرعوب ہونا چاہتا اور وہ اس کا موقع ہی نہ دیتے تھے۔

    ہرچند کہ وہ اس وقت ڈپٹی کنٹرولر براڈ کاسٹنگ کی کرسی پر بیٹھے تھے، مگر مجھ کو اس سے کیا میں تو ایک عظیم مزاح نگار کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند کی حیثیت سے حاضر تھا اور ان کی عظمت کا احساس مجھ پر طاری تھا۔ جس کو وہ اپنے انتہائی یگانگت اور مساوات کے برتاؤ سے غیر محسوس بنائے دیتے تھے۔ آخر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں حرفِ مطلب زبان پر لایا اور بخاری صاحب سے اپنے نئے مجموعہ مضامین پر مقدمہ لکھنے کی درخواست کی تو بڑی خندہ پیشانی سے بولے،

    ’’یہ کیا مقدمہ بازی لے بیٹھے آپ؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں یہ چھوٹا منہ بڑی بات ضرور ہے، مگر میں آپ سے وعدہ لیے بغیر ٹلنے والا نہیں ہوں۔‘‘ کچھ ہنستی ہوئی آنکھوں سے گھورا۔ کچھ سر پر ہاتھ پھیرا اور گویا عاجز آکر مسکراتے ہوئے بولے، ’’اگر آپ اپنے مقدمہ نگاروں کی ٹیم ہی مکمل کرنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے لکھ دوں گا مقدمہ۔‘‘

    وہ وعدہ لے کر میں بڑے فاتحانہ انداز سے واپس آیا، مگر اس ملاقات کے بعد ہی حالات کچھ کے کچھ ہوگئے۔ آل انڈیا ریڈیو نے لکھنؤ میں بھی اپنا اسٹیشن کھول دیا اور اس اسٹیشن کے ڈائریکٹر جگل کشور مہر اور پروگرام ڈائریکٹر ملک حسیب احمد نے اپنے محکمہ کو نجانے کیا پٹی پڑھائی کہ مجھ کو بھی صحافت چھوڑ کر ریڈیو سے وابستہ ہوجانا پڑا۔

    اور اس کے چند ہی دن بعد میرا وہ مسوّدہ جو میں بخاری صاحب کے پاس چھوڑ آیا تھا مجھ کو ان کے اس خط کے ساتھ واپس مل گیا کہ ’’اب آپ کو ریڈیو میں ایک منصب حاصل ہوچکا ہے، عافیت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ مجھ سے مقدمہ نہ لکھوائیں اور میں مقدمہ نہ لکھوں۔‘‘ بات بھی ٹھیک تھی لہذا یہ ارمان دل کا دل ہی میں رہ گیا اور بقول بخاری صاحب کے میری مقدمہ نگاروں کی ٹیم مکمل نہ ہوسکی۔

    (نام وَر ادیب اور شاعر شوکت تھانوی نے یوں تو ادب کی مختلف اصناف میں‌ طبع آزمائی کی اور خوب لکھا، لیکن ان کی وجہِ شہرت طنز و مزاح ہے، پیشِ نظر پارہ ان کی ایک شگفتہ تحریر سے لیا گیا ہے)

  • فلم کے سیٹ پر شوکت اور ببّو کی نوک جھونک

    فلم کے سیٹ پر شوکت اور ببّو کی نوک جھونک

    فلم ساز شوکت حسین رضوی نے شوکت تھانوی کی ایک کہانی کو لے کر فلم ’گُلنار‘ بنانے کا اعلان کیا جس کی ہیروئن نورجہاں تھی۔ سیّد امتیاز علی تاج اس کے ہدایت کار تھے۔ ’گلنار‘ کا اسکرپٹ قدیم لکھنؤ کے پس منظر میں تیار کیا گیا تھا۔

    اس کی کہانی مثنوی ’زہرِ عشق‘ سے اخذ کی گئی تھی۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ اس میں شوکت تھانوی بھی ایک اہم کردار ادا کر رہے تھے اور بطور اداکار یہ اُن کی پہلی فلم تھی۔ اس سے پہلے وہ ریڈیائی ڈراموں میں بھی پارٹ لیا کرتے تھے۔ شوٹنگ کے دوران سیٹ پر ماحول پُر لطف رہتا تھا کیوں کہ شوکت تھانوی مزاحیہ گفتگو میں یکتا تھے۔

    ناطق فلموں کے ابتدائی دور کی ہیروئن اور گلوکارہ ببّو اِس فلم میں ایک معمر خاتون کے روپ میں پیش ہوئی تھی جو ادبی ذوق رکھنے کے باعث حاضر جواب تھی۔ اُس میں مذاق کرنے اور مذاق سہنے کی صلاحیت تھی۔ دورانِ فرصت شوکت اور ببّو کی نوک جھونک سماں باندھ دیتی تھی۔

    پھبتیوں کا دور چلتا اور کبھی کبھی مذاق ابتذال کی حد تک پہنچ جاتا تھا۔ امتیاز علی تاج سنجیدہ قسم کے انسان تھے، خاموش رہتے یا منہ پر رومال رکھ کر مسکراتے رہتے۔ بعض اوقات ایسی نوبت بھی آتی کہ اُنھیں اِدھر اُدھر ہو جانا پڑتا۔

    (فلم نگری سے متعلق وشو ناتھ طاؤس کی یادوں سے ایک ورق)

  • اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    بیکاری یعنی بے روزگاری اس اعتبار سے تو نہایت لاجواب چیز ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی حیثیت کا انسان اپنے گھر میں تمام دنیا سے بے نیاز ہو کر اس طرح رہتا ہے کہ ایک شہنشاہِ ہفت اقلیم کو اپنے محل میں وہ فارغ البالی نصیب نہیں ہو سکتی۔

    سچ تو یہ ہے کہ وہ دولت جس کو تمام دنیا کے سرمایہ دار اپنی جان اور اپنا ایمان سمجھتے ہیں، ایک ایسا مستقل عذاب ہے جو انسان کو کبھی مطمئن نہیں ہونے دیتا۔ سرمایہ داروں کی تمام زندگی بس دو ہی فکروں میں کٹتی ہے ایک یہ کہ اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہوگا؟

    یہ دونوں فکریں اپنی اپنی جگہ ایسی مہلک ہوتی ہیں کہ ان کو بھی دق کی منجملہ اقسام کے سمجھنا چاہیے بلکہ دق کی دوسری قسمیں تو معمولی ہیں مثلا پھیپھڑے کی دق، آنتوں کی دق، ہڈی کی دق وغیرہ، مگر یہ فکریں تو دل اور دماغ کی دق سے کم نہیں جن کا مارا ہوا نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے۔ بس توند بڑھتی جاتی ہے اور دل چھوٹا ہوتا رہتا ہے۔

    مختصر یہ کہ ان سرمایہ داروں کی زندگی حقیقتا کشمکشِ جبر و اختیار میں بسر ہوتی ہے کہ نہ زندہ رہتے بن پڑتی ہے نہ مرنے کو دل چاہتا ہے۔

    اب رہے غریب ان کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے کہ بلا ضرورت پیدا ہوگئے اور جب بھی چاہا مر گئے۔ نہ جینے کی خوشی تھی، نہ مرنے کا کوئی غم۔

    "اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے”

    (شوکت تھانوی کے ایک شگفتہ مضمون سے اقتباس)

  • "مولانا تفریحُ الملک” اور "مرزا پھویا” کون ہیں؟

    "مولانا تفریحُ الملک” اور "مرزا پھویا” کون ہیں؟

    خواجہ صاحب کا نام معلوم نہیں کب سے کانوں میں گونجا ہوا تھا، مگر دیکھا سب سے پہلے گوالیار کی بزمِ اردو میں۔

    جب آپ نے خضر خان اور دیول دیوی کے متعلق اپنا وہ مقالہ پڑھا جس کا تعلق گوالیار ہی کے قلعے سے تھا اور جس میں ہندو مسلم اتحاد کا افسوں پھونکا گیا تھا۔

    کھانے کی میز پر باقاعدہ تعارف کی رسم مشیر احمد علوی نے ادا کی۔ خواجہ صاحب بہت محبت سے ملے۔ اپنی ریلوے ٹرین نما پان کی ڈبیا سے پان نکال کر دیا۔ دیر تک دل چسپ گفت گو فرماتے رہے اور پھر دہلی جاکر روزنامچے میں وہ تمام گفت گو درج کر دی۔

    دوسری مرتبہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ملا۔ پھر اسی ڈبیا سے پان کھلایا، یہ گفت گو مختصر تھی اور قہقہے زیادہ تھے۔ تیسری مرتبہ آپ سے اس طرح ملاقات ہوئی کہ آپ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے ایک تقریر براڈ کاسٹ کرنے لکھنؤ تشریف لا رہے تھے۔ ہم لوگ آپ کے خیر مقدم کے لیے رات ہی سے یک جا ہوگئے، اس لیے کہ صبح پانچ بجے ٹرین آتی تھی۔

    مسٹر جگل کشور مہرا اسٹیشن ڈائریکٹر، ملک حسیب احمد پروگرام ڈائریکٹر، مسٹر غلام قادر فرید، مسٹر ہنس راج کوتھرا اور میں یہ سب کے سب ایک ہی کمرے میں فرشی بستر بچھا کر رات بھر سونے کے لیے جاگتے رہے، صبح آپ کا خیر مقدم کیا گیا۔

    آپ کو اسی گھر میں مہمان بنایا گیا۔ تیسری ملاقات کے بعد ہی آپ نے دہلی جاکر اپنے اخبار ‘‘منادی’’ میں مجھے ‘‘تفریحُ الملک’’ کے خطاب سے سرفراز کر دیا اور پھر برابر شوکت تھانوی کے بجائے ‘‘مولانا تفریح الملک’’ لکھتے رہے۔

    چوتھی مرتبہ مجھے اطلاع ہوئی کہ آپ بصیغۂ راز لکھنؤ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ڈھونڈتا ہوا پہنچا۔ بیٹے کی سسرال میں یہ خواجہ سمدھی صاحب نظامی پلاﺅ، زردہ، بالائی کھا رہے تھے، میں بھی ہاتھ دھو کر بیٹھ گیا اور پھر خواجہ صاحب کو ریڈیو اسٹیشن سے ایک تقریر کے لیے آمادہ کر لیا۔

    اس مرتبہ خواجہ صاحب نے کچھ تجارتی معاملات مجھ سے طے کیے یعنی مجھ کو حکم دیا کہ میں منادی کے لیے ‘‘مرزا پھویا’’ کا فرضی روز نامچہ لکھوں اور اس کے معاوضہ میں جو کچھ مجھے دیا جائے اس سے انکار نہ کروں۔

    میں کچھ دن تک یہ خدمت انجام دیتا رہا۔ آخر فرار کی ٹھانی اور چُپ ہوکر بیٹھ رہا۔ اگر کچھ دن آدمی روپوش رہے تو پھر شرمندگی سنگین سے سنگین تر ہوجاتی ہے اور عذرِ گناہ کے امکانات دور ہٹتے جاتے ہیں۔

    چناں چہ یہی ہوا کہ اپنی کاہلی کی بدولت ایسے مشفق بزرگ، ایسے چہیتے دوست اور ایسے بے غرض مہربان کو ہاتھ سے کھو بیٹھا۔ وہ بیمار رہے، میں بے قرار رہا۔ انھوں نے آنکھوں کا آپریشن کرایا، ان کے یہاں حادثات ہوئے، مگر ہمت نہ ہوئی کہ تعزیت کروں۔ اور اب تک چوروں کی طرح مفرور ہوں۔ جُرم صرف اتنا ہے کہ مرزا پھویا نے لکھنا بند کیا۔ پھر اس کے بعد خط لکھنے کی ہمت نہ ہوئی اور اب خط لکھوں اور مراسم کی تجدید کروں تو کس منہ سے۔

    خواجہ صاحب کا میں مرید نہیں ہوں، مگر ان سے محبت ضرور کرتا ہوں۔ وہ مجھے اپنی کاکلوں اور داڑھی کے ساتھ حسین نظر آتے ہیں۔ ان میں بلا کی دل کشی ہے۔

    لوگ کہتے ہیں کہ حسن نظامی چلتے پھرتے پوسٹر ہیں اور میں کہتا ہوں کہ حسن نظامی نہ پوسٹر ہیں نہ پیر، نہ ادیب ہیں نہ مقرر، بلکہ وہ جادوگر ہیں۔ یقین نہ آتا ہو تو ان کے پاس جاکر دیکھیے۔

    کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
    جادُو وہ جو سَر چڑھ کے بولے

    (معروف ادیب اور شاعر شوکت تھانوی کی نادر روزگار شخصیت خواجہ حسن نظامی سے متعلق یادیں)