Tag: شوگر

  • شوگر کے مریضوں کے لیے قدرتی میٹھا

    شوگر کے مریضوں کے لیے قدرتی میٹھا

    ذیابیطس یا شوگر کا مرض زندگی کو نہایت پھیکا کردیتا ہے، لیکن قدرت نے ایک ایسی شے بھی رکھی ہے جو نقصان دہ چینی کا بہترین متبادل ثابت ہوسکتی ہے۔

    اسٹیویا میں یا جسے کینڈی لیف بھی کہا جاتا ہے، قدرت نے مٹھاس رکھی ہے اور اسے چینی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ صفر کیلوری والا میٹھا ہے۔

    مناسب مقدار میں اسٹیویا کا استعمال بالکل محفوظ ہے۔

    مختلف تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اسٹیویا بلڈ پریشر کو کم کر سکتا ہے۔

    اسٹیویا ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو بھی کم کرتا ہے اور اس سے دل کی بیماریوں سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    البتہ اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں لہٰذا طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر کے مریض، یا وہ افراد جو احتیاطاً شوگر سے بچنا چاہتے ہیں وہ اسٹیویا کے استعمال سے قبل ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں۔

  • شوگر کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ مصالحہ نہایت معاون

    شوگر کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ مصالحہ نہایت معاون

    ہمارے کھانوں میں موجود ہر مصالحہ اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے، انہی میں سے ایک زیرہ شوگر کو کنٹرول کرنے کی خاصیت رکھتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق روزانہ ایک چمچ زیرہ آپ کی بڑھتی ہوئی شوگر کو کنٹرول کرسکتا ہے۔

    روزانہ نہار منہ ایک گلاس نیم گرم پانی کے ساتھ ایک چمچ زیرہ پھانک لیں۔

    کھانوں میں زیرے کا استعمال بڑھا دیں۔

    دوپہر میں 12 بجے کے وقت ایک کپ دہی میں 2 چمچ زیرہ ڈال کر کھائیں۔

    سلاد میں نمک اور لیموں کے ساتھ چٹکی بھر زیرہ بھی ڈال لیں۔

    رات سوتے وقت ایک کپ دودھ میں زیرہ ڈال کر پی لیں۔

    زیرہ میں وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن بی، وٹامن ای، کاپر، پروٹین، آئرن، کیلشیئم، پوٹاشیئم، میگنیشیئم، زنک اور سلینیئم پایا جاتا ہے جو کہ مناسب طریقوں سے استعمال کرنے پر شوگر کے مرض کو کنٹرول کرنے کی اہم وجہ بنتی ہے۔

  • وٹامن ڈی کی کمی سے ایک اور خطرہ سامنے آگیا

    وٹامن ڈی کی کمی سے ایک اور خطرہ سامنے آگیا

    جسم میں وٹامن ڈی کی کمی بہت سے مسائل پیدا کرسکتی ہے اور اس کی مناسب مقدار مختلف مسائل سے بچاتی ہے، حال ہی میں اس حوالے سے ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ وٹامن ڈی کی کمی کو دور کرنے والی سپلیمنٹس لینے سے ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ماہرین کی جانب سے 1256 افراد پر 3 سال تک کی جانے والی تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ وٹامن ڈی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سپلیمنٹس لیتے ہیں ان میں نہ صرف ذیابیطس ٹائپ 2 کے ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ ان میں انسولین کی مقدار بھی بہتر رہتی ہے۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے رضا کاروں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا، جس میں سے ایک گروپ کو ماہرین نے یومیہ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ کی انتہائی کم مقدار فراہم کی، جبکہ دوسرے گروپ کو صرف سادہ گلوکوز دیا گیا۔

    ماہرین نے تحقیق کے دوران رضا کاروں کے ہر 3 ماہ کے بعد مختلف ٹیسٹ کیے، جن میں ان کے باڈی ماس انڈیکس کے علاوہ دیگر ٹیسٹ بھی شامل تھے اور ان میں ذیابیطس کو بھی چیک کیا گیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جو افراد وٹامن ڈی کی کمی کو پورا کرنے والے سپلیمنٹس لے رہے تھے ان میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کے ہونے کے امکانات 11 فیصد کم تھے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق اگرچہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد اور وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ لینے والے افراد کے نتائج میں کوئی بہت بڑا نمایاں فرق نہیں تھا، تاہم یہ دیکھا گیا کہ سپلیمنٹ لینے والے افراد میں ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے تجویز دی کہ ذیابیطس ٹائپ 2 سے بچنے کے لیے لوگ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس لے سکتے ہیں۔

  • شوگر لیول کو کیسے قابو میں رکھا جاسکتا ہے؟

    شوگر لیول کو کیسے قابو میں رکھا جاسکتا ہے؟

    دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ماہرین شوگر کے مریضوں کی آسانی کے لیے کچھ تجاویز بتاتے ہیں جس سے ان کا شوگر لیول کم رہے گا اور وہ بھرپور زندگی گزار سکیں گے۔

    ماہر غذائیات کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں کا ایک ہی ہدف ہونا چاہیئے کہ شوگر لیول کو کسی طرح سے قابو میں رکھا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ غذا کا کوئی ایسا فارمولہ نہیں ہے جو سب کے لیے کارآمد ثابت ہو تاہم کچھ چیزوں کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔

    ذیابیطس میں مبتلا ہر شخص کی کوشش ہونی چاہیئے کہ وہ اپنی غذا میں زیادہ سے زیادہ فائبر کا استعمال کرے، جن اشیا میں فائبر بھرپور مقدار میں موجود ہے ان میں اجناس، دالیں، خشک میوہ، بیج، پھل اور سبزیاں شامل ہیں۔

    ذیابیطس کے مریضوں میں کاربو ہائیڈریٹ کی مقدار خون میں موجود شوگر لیول کے تناسب کو خراب کر سکتی ہے۔ اسی لیے ایسے مریضوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر ایک خاص مقدار میں کاربو ہائیڈریٹ کا استعمال کریں۔

    کھانا کھانے کے طور طریقے اور اوقات میں تبدیلی لانا لازمی ہے، کچھ لوگوں کو یقیناً ایک ہی مرتبہ پیٹ بھر کر کھانے کی عادت ہوگی لیکن دن میں تین بار کھانے کے بجائے چار سے پانچ مرتبہ کھا لیں لیکن تھوڑا تھوڑا۔

    شوگر کے مریضوں کو ویسے ہی میٹھے سے دور رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے لیکن میٹھے کی کمی کو پھلوں سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔ تھوڑی مقدار میں جامن، سٹرابیری، انار،
    امرود اور بیر کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

    روزانہ 30 سے 40 منٹ کی ورزش کرنا لائف اسٹائل کا حصہ ہونا چاہیئے، یہ اتنا ہی ضروری ہے کہ جیسے کھانا پینا یا سونا۔

  • شوگر کا نیا طریقہ علاج دریافت

    شوگر کا نیا طریقہ علاج دریافت

    ٹوکیو: جاپانی محققین نے شوگر کا نیا طریقہ علاج دریافت کر لیا، ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محققین نے اُس جین کو تلاش کر لیا ہے جو انسولین بنانے والے خلیات کو بڑھاتا ہے۔

    برطانوی طبی جریدے نیچر میٹابولزم میں جمعرات کو شایع شدہ تحقیقی مقالے کے مطابق جاپانی محققین کے ایک گروپ نے ایک مخصوص جِین کے ذریعے انسولین پیدا کرنے والے خاص خلیات میں اضافہ کرنے میں کام یابی حاصل کر لی ہے، یہ خلیات پینکریاز (لبلبے) کے ٹشو کے ایک حصے کے ہیں، وہ ٹشو (ریشہ، بافت) جو ساختی طور پر ارد گرد کے ٹشوز سے الگ ہوتے ہیں۔

    یہ تحقیقی مطالعہ ٹوکیو یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے پروفیسر یاسوہیرو یاماڈا سمیت محققین کے ایک بڑے گروپ نے پیش کیا ہے۔

    اس گروپ کو امید ہے کہ یہ تکنیک انسولین کی کمی کی وجہ سے ہونے والی بیماری ذیابیطس کے علاج میں مدد کرے گی، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 40 کروڑ سے زیادہ لوگ ذیابیطس کا شکار ہیں۔

    محققین کے مطابق لبلبے کے مخصوص ٹشو کے خلیے انسان کی پیدائش سے پہلے اور اس کے بعد فعال طور پر بڑھتے ہیں، لیکن بعد میں اپنی افزائش کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں، لہٰذا، ذیابیطس کا بنیادی علاج معاون علاج ہے، جیسا کہ انسولین کا انجیکشن۔

    تحقیقی ٹیم نے جس جِین کو دریافت کیا ہے اسے MYCL کہتے ہیں، یہ جین پلوریپوٹنٹ (pluripotent) سٹیم سیلز (iPS cells) بڑھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، یہ جین قبل از پیدائش چوہوں کے لبلبے کے خاص ٹشو کے خلیوں میں ظاہر ہوتا ہے۔

    محققین نے بالغ چوہوں سے ایسے خلیات حاصل کیے جن میں یہ جین فعال تھا، یہ جین خلیوں کے فعال پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔ جب ذیابیطس کے شکار چوہوں میں یہ جِین داخل کرنے کا تجربہ کیا گیا تو ان میں خون میں شوگر کی سطح بہتر ہوئی۔

    خیال رہے کہ لبلبے میں پیدا ہونے والے خلیے انسولین ہارمون پیدا کرتے ہیں، جو خون میں شوگر کی مقدار کنٹرول کرتا ہے، لیکن ان خلیوں سے نئے خلیے بنانے کی گنجائش محدود ہوتی ہے، یہ خلیے کام کرنا چھوڑ دیں تو جسم انسولین پیدا نہیں کر سکتا، اس حالت کا شمار ذیابیطس کے علاج میں حائل رکاوٹوں میں کیا جاتا ہے۔

    گروپ کو معلوم ہوا کہ مصنوعی ماحول میں بڑھائے گئے خلیے داخل کرنے کے بعد ذیابیطس میں مبتلا چوہوں میں شوگر کی سطح کم ہو کر معمول کے قریب آ گئی۔

    گروپ کا کہنا ہے کہ ان نتائج سے امکان پیدا ہو گیا ہے کہ اگر شوگر کے مریضوں میں لبلبے کے اُن خلیوں کی ٹرانسپلانٹ کی جائے جو مصنوعی ماحول میں بڑھائے گئے ہیں، تو اس طریقے سے شوگر کے نئے علاج میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔

    یاماڈا نے کہا کہ ہمیں اب امید ہے کہ ڈونرز سے حاصل کردہ (لبلے کے ٹشو کے) خلیات (جن میں MYCL جین کے ذریعے اضافہ کیا جائے) اگر شوگر کے مریضوں میں ٹرانسپلانٹ کیے جائیں تو 5 برسوں میں کلینکل ٹرائل کر سکیں گے۔

  • ذیابیطس کی دوا سے موٹاپے میں کمی ممکن

    ذیابیطس کی دوا سے موٹاپے میں کمی ممکن

    امریکا میں ایک تحقیق میں ذیابیطس کی دوا سے موٹاپے میں کمی دیکھی گئی، یہ تحقیق 1900 سے زائد افراد پر کی گئی جو موٹاپے کا شکار تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی ذیابیطس کا مریض نہیں تھا۔

    تحقیق کے دوران تقریباً نصف رضاکاروں کو ہفتے میں صرف ایک بار سیما گلوٹائیڈ نامی دوا کی صرف 2.4 ملی گرام مقدار بذریعہ انجکشن دی گئی، ذیا بیطس کی یہ دوا اوزیمپک کے نام سے فروخت کی جاتی ہے۔

    باقی کے نصف رضاکاروں کو سیماگلوٹائیڈ اوزیمپک کے نام پر کسی دوسرے بے ضرر محلول کا انجکشن (پلاسیبو) دیا گیا۔

    تقریباً دو سال جاری رہنے والی ان طبی آزمائشوں میں شریک تمام رضاکاروں نے دوا کے ساتھ ساتھ صحت بخش معمولاتِ زندگی بھی اپنائے رکھے۔

    مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ جن رضاکاروں نے ہفتے میں ایک بار 2.4 ملی گرام سیماگلوٹائیڈ بذریعہ انجکشن لی تھی، ان میں سے دو تہائی کا وزن 20 فیصد تک کم ہوا تھا۔

    اس کا مطلب یہ ہوا کہ مطالعہ شروع ہونے سے پہلے اگر کسی رضاکار کا وزن 200 پونڈ تھا تو 68 ہفتے تک یہ دوا لینے اور صحت بخش معمولات زندگی برقرار رکھنے کے بعد، اس کا وزن 40 پونڈ کم ہو کر 160 پونڈ رہ گیا تھا۔

    ماہرین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ جن مریضوں نے دوا روکنے کے بعد بھی صحت بخش معمولات زندگی برقرار رکھے، ان کے وزن میں آئندہ ایک سال تک کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

    یہ کامیابی اتنی غیرمعمولی ہے کہ سیماگلوٹائیڈ تیار کرنے والی یورپی فارماسیوٹیکل کمپنی نووو نورڈسک نے وزن کم کرنے کےلیے اسے علیحدہ سے فروخت کرنے کی اجازت طلب کرلی ہے۔

  • شوگر کے مریضوں کے لیے نہایت مفید پودا

    شوگر کے مریضوں کے لیے نہایت مفید پودا

    شوگر کا شکار افراد تمام اقسام کا میٹھا کھانا چھوڑ دیتے ہیں علاوہ ازیں ایسے افراد جو اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں وہ بھی میٹھا کھانا کم کردیتے ہیں۔

    تاہم اس وقت ایک ایسی چیز موجود ہے جو چینی کی متبادل ہے۔

    اسٹیویا نام کا ایک پودا انسانی صحت کے لیے نہایت مفید ہے جس کا پاؤڈر چینی کی جگہ استعمال ہوسکتا ہے۔

    جامعہ کراچی کے فوڈ سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر غفران سعید کا کہنا ہے کہ یہ پاؤڈر عام چینی سے 3 گنا میٹھی ہوتا ہے لہٰذا کمرشلی طور پر اسے مختلف اشیا کے ساتھ ملا کر فروخت کیا جاتا ہے۔

    چونکہ یہ ایک قدرتی چیز ہے لہٰذا یہ جسم کے لیے فائدہ مند بھی ہے اور چینی کی طرح نقصان بھی نہیں پہنچاتی۔

    اسٹیویا کے پتے خون میں شوگر کی مقدار کم کرتے ہیں جبکہ بلڈ پریشر کو بھی کنٹرول میں رکھتے ہیں۔

    ڈاکٹر غفران کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں اس کی فروخت عروج پر ہے، اس پودے کی کاشت معتدل موسم میں ہوتی ہے اور یہ ہمارے ملک میں ابھی بھی کئی مقامات پر اگایا جارہا ہے، اگر منظم طریقے سے اس کی کاشت میں اضافہ کیا جائے اور اس کی پراسیسنگ کی انڈسٹری لگائی جائے تو یہ ملکی معیشت کے لیے نہایت فائدہ مند ہوسکتی ہے۔

  • خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا

    خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا

    طبی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر (ذیابیطس) کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا ہے۔

    نیچر کمیونی کیشنز نامی جریدے میں شائع شدہ تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ خون میں پائے جانے والے ایک خاص قسم کے پروٹین ’فولسٹیٹن‘ (follistatin) کی مقدار سے ٹائپ 2 ذیابیطس کا سراغ 19 سال قبل ہی لگایا جانا ممکن ہے، اگرچہ اس وقت بیماری کا معمولی خطرہ بھی نہ ہو۔

    اس ریسرچ کے نتائج سویڈن میں برسوں سے جاری ایک تحقیقی مطالعے سے حاصل ہوئے ہیں، ’مالمو ڈائٹ اینڈ کینسر کارڈیو ویسکیولر کوہورٹ‘ میں شریک 5000 افراد کے خون میں فولسٹیٹن پروٹین کی مقدار کا مطالعہ کیا گیا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ جن افراد کے خون میں فولسٹیٹن کی مقدار اوسط سے زیادہ رہی، وہ کئی سال بعد ٹائپ 2 ذیابیطس کا شکار ہوئے۔

    تحقیقی مطالعے کے دوران ایسے لوگوں میں ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے کا زیادہ سے زیادہ وقفہ 19 سال نوٹ کیا گیا، یعنی ذیابیطس میں مبتلا ہونے سے 19 سال پہلے ہی ان کے خون میں فولسٹیٹن کی مقدار معمول سے بڑھ چکی تھی۔

    محققین کے مطابق ریسرچ کے دوران ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا مکمل دارومدار مذکورہ افراد کے خون میں فولسٹیٹن کی اضافی مقدار پر تھا، اگرچہ وہ جسمانی لحاظ سے مکمل صحت مند بھی تھے۔

    خون کا ٹیسٹ

    تحقیق میں شامل ماہرین کا ماننا ہے کہ خون میں فولسٹیٹن کی مقدار معلوم کرنے کے لیے ایک سادہ بلڈ ٹیسٹ ترتیب دیا جا سکتا ہے، جس سے معلوم ہو سکے گا کہ کوئی شخص آنے والے برسوں میں شوگر کی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔

    ’فولسٹیٹن‘ پروٹین

    یہ پروٹین 1980 کے عشرے میں دریافت کیا گیا تھا، یہ تقریباً تمام جسمانی بافتوں (Tissues) سے خارج ہوتا ہے لیکن اس کی زیادہ مقدار جگر سے خارج ہوتی ہے، ذیابیطس میں مبتلا افراد کے خون میں بھی اس پروٹین کی زیادہ مقدار دیکھی جا چکی ہے۔

    اس حوالے سے جانوروں پر بھی تحقیق کی جا چکی ہے، جن سے معلوم ہوا کہ انسولین کی کارکردگی متاثر کرنے میں بھی یہی پروٹین اہم کردار ادا کرتا ہے، انسولین وہ ہارمون ہے جو گلوکوز سے توانائی حاصل کرنے میں خلیوں کے کام آتا ہے۔

    انسولین کی کارکردگی متاثر ہونے کی وجہ سے ٹائپ 2 ذیابیطس لاحق ہو جاتی ہے، جس سے مرتے دم تک چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا۔

  • کیا ذیابیطس سے نجات پانا ممکن ہے؟

    کیا ذیابیطس سے نجات پانا ممکن ہے؟

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ غذا میں تبدیلی لا کر ذیابیطس ٹائپ ٹو یعنی شوگر سے نجات پانا یا اسے ریورس کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی اور برطانیہ کی ٹیسائیڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا اور طبی ماہرین (فارماسٹ) کی نگرانی کے ذریعے ذیابیطس کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں ماہرین کے زیر انتظام ایک خصوصی غذائی پلان تیار کیا گیا اور 12 ہفتوں تک ذیابیطس کے مریضوں پر اس کی آزمائش کی گئی۔

    ان مریضوں کو کم کیلوریز، کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین والا غذائی پلان دیا گیا اور ان کی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کی گئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ ذیابیطس ٹائپ 2 کا علاج ہوسکتا ہے اور کئی بار اسے غذائی مداخلت کے ذریعے ریورس بھی کیا جاسکتا ہے، مگر ہمیں ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس میں لوگ غذائی عادات میں تبدیلی پر عمل کرسکیں جبکہ اس دوران ان کی ادویات کی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ فارماسٹ کو ادویات کے حوالے سے مہارت ہوتی ہے اور وہ ذیابیطس کے مریضوں کی نگہداشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب ذیابیطس کے مریض کم کیلوریز یا کاربوہائیڈریٹس والی غذا استعمال کرتے ہیں، تو ان کو گلوکوز کی سطح کم کرنے والی ادویات کا استعمال کم کرنے یا نہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کمیونٹی فارماسٹ اس حوالے سے مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 50 فیصد رضا کاروں کو کم کیلوریز، کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین والی غذا کا استعمال کروایا گیا جبکہ اس دوران ماہرین نے ان کا معائنہ جاری رکھا۔

    12 ہفتے بعد ذیابیطس کے ایک تہائی مریضوں کے لیے ادویات کی ضرورت نہیں رہی جبکہ کنٹرول گروپ کو بدستور ادویات کی ضرورت رہی۔

    محققین کے مطابق پہلے گروپ کے گلوکوز کنٹرول، اوسط جسمانی وزن، بلڈ پریشر اور مجموعی صحت میں نمایاں بہتری بھی آئی۔

    انہوں نے بتایا کہ غذائی حکمت عملی کو اپنانا بیماری کو ریورس کرنے کی کنجی ہے جس کے ساتھ ضروری ہے کہ فارماسٹ بھی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کرے۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔

  • ذیابیطس کے مریضوں میں شوگر لیول متوازن بنانے کی مؤثر دوا، نئی تحقیق

    ذیابیطس کے مریضوں میں شوگر لیول متوازن بنانے کی مؤثر دوا، نئی تحقیق

    ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ معدے میں تیزابیت کم کرنے والا ایک مادہ اینٹاسیڈ ذیابیطس کے مریضوں میں شوگر لیول کو متوازن کرنے میں بھی مؤثر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جرنل آف کلینیکل اینڈو کرینولوجی اینڈ میٹابولزم میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کچھ اینٹاسیڈ (Antacids) ایسے بھی ہیں جو ذیابیطس سے متاثرہ افراد میں بلڈ شوگر لیول کو بہتر کرتے ہیں۔

    انھی میں سے پروٹون پمپ انہیبیٹرز ( پی پی آئی) بھی ہیں، جنھیں عام طور پر اینٹاسیڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اور جو ذیابیطس کے مریضوں کے بلڈ شوگر لیول کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    جو لوگ ہاضمے کے مسائل سے دوچار ہیں، جیسے پیٹ میں جلن اور گیس کی تکلیف، انھیں اپنے ڈاکٹرز سے مشورے کے بعد اینٹاسیڈ لینی چاہیے، اس کے علاوہ جو لوگ صحت سے متعلق مسائل کی وجہ سے زیادہ دوائیاں لیتے ہیں، انھیں بھی صبح کے وقت خالی پیٹ میں سب سے پہلے اینٹاسیڈ دوا لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

    ضروری اینٹاسیڈ کیا ہے؟

    اینٹاسیڈ ایک ایسی دوا ہے جو معدے میں موجود تیزابیت کو غیر مؤثر بناتی ہے، اس میں ایلومینیم، کیلشیم، میگنیشیم یا سوڈیم بائی کاربونیٹ جیسے اجزا موجود ہوتے ہیں، اور معدے میں تیزاب کو بننے سے روکنے کے لیے اہم ہے اور اس کے پی ایچ کو متوازن بناتا ہے۔

    پی ایچ کیا ہے؟

    کسی محلول میں ہائیڈروجن آئن کی تعداد کو جاننے کے لیے پی ایچ کی پیمائش کی جاتی ہے، اور اس کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا محلول کتنا ترش (تیزابی) یا کتنا کھارا (اساسی) ہے۔ پی ایچ کی پیمائش کے لیے پی ایچ پیپر یا پی ایچ اسکیل کی مدد لی جاتی ہے، جس پر 1 سے 14 درجے ہوتے ہیں۔ اگر اسکیل میں درجہ 7 سے کم ظاہر ہوتا ہے تو یہ محلول تیزابی ہوتا ہے، اسکیل میں محلول کا پی ایچ 7 درجہ نظر آئے تو وہ نیوٹرل ہوگا۔ جب کہ اسکیل کا درجہ 7 سے 14 تک ہو تو محلول کھارا یا سوڈا جیسا ہوگا۔ عام گیسٹرک ایسڈ کا پی ایچ 1.5 سے 3.5 کے درمیان ہوتا ہے۔

    اینٹاسیڈ کس لیے؟

    اینٹاسیڈ گیسٹرو ایسوفیگیل ریفلکس بیماری (جی ای آر ڈی)، سینے کی جلن یا بدہضمی (dyspepsia) کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کچھ اینٹاسیڈز کو مکمل طور پر غیر متعلقہ طبی حالتوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے:

    ایلومینیم اینٹاسیڈ: خون مین فاسفیٹ کی سطح کو کم کرنے اور گردے میں پتھری کو بننے سے روکتا ہے۔

    کیلشیم کاربونیٹ اینٹاسیڈز :کیلشیم کی کمی کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔

    میگنیشیم آکسائیڈ اینٹاسیڈ: اس سے میگنیشم کی کمی کا علاج کیا جاتا ہے۔

    اینٹاسیڈ شوگر کے لیے

    اینڈوکرائن سوسائٹی کے جرنل آف کلینیکل اینڈوکرینولوجی اور میٹابولزم میں شائع ہونے والے ایک نئے تجزیے کے مطابق اینٹاسیڈ ذیابیطس سے متاثرہ لوگوں میں خون میں شوگر کی سطح کو کنٹرول کرتا ہے، لیکن عام آبادی میں ذیابیطس کے خطرے کو کم کرنے پر اس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔

    محققین نے ذیابطیس کے مریضوں میں بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے والی پروٹون پمپ انہیبیٹر، جسے عام طور پر اینٹاسیڈ دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کے اثرات کو سمجھنے کے لیے تجزیہ کیا تھا اور یہ جانے کی کوشش کی تھی کہ کیا ان دواؤں سے عام آبادی میں ذیابطیس کی شروعاتی علامات کو روکا جا سکتا ہے؟