Tag: شوگر

  • کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف جسمانی مسائل سامنے آچکے ہیں، اب حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد ذیابیطس یا شوگر کے مریض بھی بن سکتے ہیں۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے والا مرض ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

    ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایسے افراد کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔

    یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کووڈ 2 وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 46 کروڑ سے زائد ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں آئندہ 6 ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 39 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان میں سے ہر ایک ہزار میں سے 6.5 میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے 37 مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو آئی سی یو میں زیر علاج رہنا پڑا ہو۔

    کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد 15 کروڑ سے زیادہ ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کرونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خلاف جسمانی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔

    ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ 19 ہی ذیابیطس کا باعث بنتا ہے، تاہم اس حوالے سے ڈیٹا سے کرونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد مل سکے گی۔

  • بچوں میں شوگر ہونے کی وجوہ کیا ہیں؟ بیماری سے جان کیسے چھڑائی جائے؟ جانیے

    بچوں میں شوگر ہونے کی وجوہ کیا ہیں؟ بیماری سے جان کیسے چھڑائی جائے؟ جانیے

    پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے، صرف بڑے ہی نہیں بچوں میں بھی اب شوگر کا مرض بڑھ رہا ہے، اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے شان رمضان پروگرام میں ڈاکٹر سید محمد حسن کی خصوصی گفتگو پیش کی جا رہی ہے۔

    یہ نہایت تشویش ناک بات ہے کہ بچوں میں بھی اب شوگر کا مرض بڑھ رہا ہے، 13 سے 15 سال کے لڑکے، لڑکیوں میں شوگر کی تشخیص ہو رہی ہے، بچوں میں شوگر ہونے کی وجوہ کیا ہیں؟ اور اس بیماری سے چھوٹی عمر میں کیسے جان چھڑائی جا سکتی ہے؟ ڈاکٹر حسن نے اس پر تفصیلی گفتگو کی۔

    ڈاکٹر حسن کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کی وجہ بچوں میں موٹاپا، موبائل اور کمپیوٹر کا زیادہ استعمال ہے، غیر معیاری خوراک اور ورزش سے دوری بھی بچوں میں شوگر کی بیماری کے اسباب ہیں۔

    ڈاکٹر سید حسن محمد نے بتایا کہ جس طرح ہمارا لائف اسٹائل تبدیل ہو گیا ہے، خوراک تبدیل ہو گئی ہے، ہمارے رجحانات تبدیل ہو گئے ہیں، گھنٹوں موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز پر بیٹھے رہتے ہیں، اور اس کے بعد راتوں کو دیر تک جاگتے ہیں اور اس دوران کچھ نہ کچھ کھاتے بھی رہتے ہیں، جب کہ دوسری طرف جسمانی سرگرمی نہیں ہے۔ یہی وجوہ ہیں کہ بچوں میں موٹاپے کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ چھوٹے بچوں میں ذیابیطس کا مرض بہت عام ہو گیا ہے، حتیٰ کہ ٹائپ 2 ذیابیطس بھی ہونے لگی ہے جب کہ ہم ٹائپ 1 کی توقع کرتے ہیں، اور جتنا جلدی یعنی کم عمری میں اس کی تشخیص ہوگی اتنا ہی یہ طویل عرصے تک چلتی ہے اور اتنی ہی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

    ڈاکٹر حسن محمد نے بتایا کہ اچھی بات یہ ہے کہ ذیابیطس کو پلٹایا جا سکتا ہے، اگر ہم اپنے روز مرہ رویوں کو تبدیل کریں، یعنی ہم فطری خوراک کھائیں، اپنی صحت برقرار رکھنے پر توجہ بڑھائیں، تو ذیابیطس پر قابو پایا جا سکتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ آئندہ آنے والے کیسز کم ہوں۔

    وسیم اکرم کی مثال اس وقت ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال ہے، میرے پاس بھی جب بھی کوئی نیا شوگر مریض آتا ہے میں اسے انھی کی مثال دیتا ہوں، انھیں 17 سال کی عمر میں شوگر کے اثرات شروع ہوئے اور 21 سال کی عمر میں تشخیص ہو گئی، انھوں نے جس طرح فیلڈ میں رہ کر اپنی ذیابیطس کو کنٹرول کیا، کرکٹ کیریئر بنایا، شادی کی، باپ بھی بنے، تو یہ ایک مثال ہے کہ شوگر کے مرض کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور زندگی میں اپنے اہداف بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ کرونا وبا کے دوران دنیا بھر میں لوگوں کا طرز زندگی بہت متاثر ہوا، لوگ گھر پر رہنے لگے، کھانے پینے کی عادات پر بڑا اثر پڑا، جسمانی سرگرمیاں کم ہو گئیں، اس لیے یہ صرف کو وِڈ 19 کی وبا ہی نہیں تھی بلکہ ذیابیطس کی بھی وبا تھی۔

    انھوں نے بتایا کہ ذیابیطس ایک تو موروثی ہوتی ہے اور ایک ٹائپ ون، ٹائپ ون میں پنکریاز انسولین بالکل نہیں بنا پاتا، جس کا علاج ہی انسولین لگانا ہے، تو اس صورت میں ذیابیطس ختم نہیں ہو سکتی، ہاں اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

    دوران حمل خواتین کو ذیابطیس لاحق ہونے کے حوالے سے ڈاکٹر حسن محمد نے کہا کہ اگر شوگر کا مرض صرف حمل کے دوران ظاہر ہوا ہے تو وضع حمل کے بعد یہ ختم ہو جاتا ہے، لیکن ان خواتین کو اگلے 5 سے 10 برسوں میں ذیابیطس لاحق ہونے کا پچاس فی صد خطرہ ہوتا ہے، اس لیے ان کو اپنے لائف اسٹائل کا خیال رکھنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے، خوراک میں احتیاط کریں، وزن کم رکھیں، اور باقاعدگی سے ورزش کریں۔

    واضح رہے کہ پہلے لوگ 40 کے بعد ذیابیطس میں مبتلا ہو رہے تھے، پھر 30 سال میں اور اب 20 سال سے بھی کم عمر میں لوگ مبتلا ہو رہے ہیں، اس لیے اپنے طرز زندگی کو صحت مند رکھنا ہی اس سے بچاؤ کا مؤثر ذریعہ ہے۔

  • رمضان المبارک: شوگر کے مریض روزہ داروں کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے

    رمضان المبارک: شوگر کے مریض روزہ داروں کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے

    ماہ صیام رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، تاہم ایسے ماہ میں ذیابیطس سمیت مختلف بیماریوں کا شکار افراد کچھ مشکل میں پڑجاتے ہیں کہ وہ روزہ کیسے رکھیں۔

    پاکستان میں ہر 4 میں سے ایک فرد شوگر کی کسی نہ کسی قسم کا شکار ہے، ایسے افراد اگر روزہ رکھ رہے ہیں تو انہیں صحت مند اور متوازن بلڈ شوگر لیول کے لیے کچھ تدابیر پر عمل کرنا چاہیئے۔

    شوگر کے مریضوں کو سب سے پہلے روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے رابطہ کرنا چاہیئے اور اپنے معالج کے تجویز کردہ اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

    طبی ماہرین کے مطابق روزہ رکھنا ان افراد کے لیے مشکل ہوتا ہے جو کہ انسولین کا استعمال کرتے ہوں یا شوگر سے متعلق مخصوص ادویات کا استعمال کر رہے ہوں، ایسے افراد روزہ رکھنے کی صورت میں اگر پورے مہینے اپنے شوگر لیول کو مسلسل مانیٹر کرتے رہیں اور اپنے بلڈ شوگر لیول پر کڑی نظر رکھیں تو انہیں اس کی سمجھ آجائے گی اور وہ اپنے کھانے پینے کی عادات اور روزے کو اپنی شوگر کے لیول کے مطابق باآسانی چلا سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہنا ہے ذیابیطس ٹائپ 1 کے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیئے جبکہ ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں کو روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے ضرور مشورہ کر لینا چاہیئے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

    شوگر لیول گرنے اور زیادہ ہونے کی علامات کیا ہیں؟

    انسانی خون میں شوگر لیول کی کمی کی علامات میں بہت زیادہ پسینہ آنا، سردی لگنا، انتہائی شدید بھوک کا محسوس ہونا، بینائی کا دھندلانا، دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہونا اور سر چکرانا شامل ہے جبکہ شوگر لیول میں اضافے کی علامات میں مریض کے ہونٹوں کا خشک ہونا اور بار بار پیشاب آنا شامل ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ شوگر کے مریض رمضان کے مہینے کے دوران پروٹین اور فائبر سے بھرپور غذا کا استعمال کریں جبکہ میٹھے کھانوں اور کیفین سے گریز کریں۔

    ذیابیطس کے مریض رمضان کے دوران ہر قسم کی غذا کا استعمال کرسکتے ہیں، بس یہ خیال رکھیں کہ وہ متوازن غذا ہو، کسی بھی غذا کا زیادہ استعمال پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے شوگر کے مریضوں کے لیے تجویز کیے گئے چند مفید مشورے مندرجہ ذیل ہیں۔

    شوگر کے مریض کے لیے ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے وہ خود کو روزہ رکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔

    ماہرین کی جانب سے بہترین مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ ہر مریض رمضان کے آغاز سے قبل ہی اپنے معالج سے دواؤں اور غذا کا چارٹ اور طریقہ استعمال بنوا لے، ادویات سے متعلق خود سے کوئی فیصلہ نہ کریں۔

    شوگر کے شکار افراد سحری میں ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جو دیر سے ہضم ہوں، عام حالات میں ذیابیطس کے مریض پراٹھا نہیں کھا سکتے لیکن وہ سحری میں کم تیل سے بنا ہوا پراٹھا کھا سکتے ہیں، دیر سے ہضم ہونے والی غذاؤں میں حلیم بھی شامل ہے، حلیم میں گوشت اور دالوں کے سبب فائبر بہت زیادہ پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں تا دیر بھوک نہیں لگتی۔

    کولیسٹرول کے بڑھنے کے خدشات کے سبب انڈے کا استعمال نہ کریں، شوگر کے مریض اگر انڈے کا استعمال کرنا بھی چاہتے ہیں تو نصف زردی کے ساتھ انڈہ کھایا جا سکتا ہے، انڈے کا استعمال کسی سالن کے ساتھ ملا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔

    شوگر کے جن مریضوں کو پیاس زیادہ لگتی ہے وہ سحری میں الائچی کے قہوے کا استعمال کر سکتے ہیں، الائچی کے قہوے میں کم مقدار میں دودھ بھی شامل کیا جا سکتا ہے یا پھر نمکین لسی کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

    سحری کے دوران میٹھے میں کھجلہ، پھینیاں، کسٹرڈ یا کسی بھی قسم کی میٹھی غذا کا استعمال ہر گز نہ کریں۔

    شوگر کے مریض روزہ کھجور سے افطار کر سکتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق ایک کھجور میں 6 گرام کاربو ہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں جس میں معدنیات، فائبر، فاسفورس اور پوٹاشیئم بھی موجود ہوتا ہے، کھجور میں پائے جانے والا پوٹاشیئم تھکاوٹ اور بوجھل پن دور کرتا ہے۔

    ذیابیطس کے مریض روزہ افطار کرتے ہوئے ایک کھجور کھا سکتے ہیں اور اگر ان کا شوگر لیول متوازن ہے تو 2 کھجوریں بھی کھائی جاسکتی ہیں۔

    افطار کے دوران پھلوں کی چاٹ بغیر چینی، کریم اور دودھ کے کھائی جا سکتی ہے، پھلوں میں تھوڑی سی مقدار میں لیموں کا رس بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

    مائع میں سادہ پانی بہترین قرار دیا جاتا ہے جبکہ نمک میں بنا ایک گلاس لیموں پانی بھی پیا جا سکتا ہے، شوگر کے مریض گھر کی بنی ہوئی غذاؤں کا ہی استعمال کریں، کوشش کریں کے تیل، نمک، لال مرچ اور چینی کی زیادہ مقدار لینے سے پرہیز کیا جائے۔

    شوگر کے مریض رات بھوک لگنے پر ایک روٹی کم مرچ مصالحے والے سالن کے ساتھ یا سلاد اور رائتے کے ساتھ کھا سکتے ہیں، چاولوں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے مگر ایک پلیٹ سے زیادہ نہیں، رات سونے سے قبل بھوک محسوس ہونے پر ایک گلاس دودھ بغیر شکر کے پیا جا سکتا ہے۔

    رمضان بخیر و عافیت گزارنے اور روزو ں کے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لیے افطار کے بعد اور رات کھانے سے قبل کم از کم 30 منٹ چہل قدمی لازمی کریں، شوگر کے مریضوں کے لیے چہل قدمی بھی ایک بہترین علاج قرار دیا جاتا ہے۔

    شوگر کے مریض اپنے معالج کے مشوروں کے مطابق رمضان گزاریں، خود سے ادویات یا شوگر لیول کے کم یا زیادہ ہونے کی علامات پر علاج نہ کریں۔

  • موسمِ گرما: پیاز کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے؟

    موسمِ گرما: پیاز کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے؟

    قدرت نے ہمیں موسمی تغیّرات کا مقابلہ کرنے اور آب و ہوا کی تبدیلیوں کے ساتھ صحّت اور جسمانی توانائی برقرار رکھنے کے لیے قسم قسم کا اناج، سبزیاں اور پھل بھی دیے ہیں جن میں پیاز بھی شامل ہے۔

    موسمِ گرما میں ہمیں ایسی غذائیں اپنی خوراک میں ضرور شامل کرنا چاہییں‌ جو نہ ہماری مجموعی صحّت کے لیے مفید ہوں بلکہ گرمی کی شدّت اور جسم پر اس کے منفی اثرات سے ہمیں‌ بچاسکیں۔

    پیاز وہ سبزی ہے جو جسم کو گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ یہ سبزی ہر قسم کے پکوان کا لازمی جزو ہے اور اسے کچّا بھی کھایا جاتا ہے۔

    پیاز فولا، اینٹی آکسیڈینٹ، ضروری وٹامنز اور دیگر غذائی اجزا سے بھرپور ہوتی ہے اور اس میں وٹامن سی اور بی کی بھی مخصوص مقدار شامل ہوتی ہے۔

    گرمیوں میں پیاز کا استعمال موسم کی سختی سے نمٹنے اور صحّت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔

    طبّی ماہرین کے مطابق پیاز کی ایک خصوصیت جسم کو ٹھنڈک پہنچانا ہے۔ یہ جسم کے درجہ حرارت کو متوازن بنانے میں مدد دیتی ہے۔ پیاز کو سلاد کے طور پر کچّا کھایا جاسکتا ہے۔ پیاز ہمارے جسم کی وٹامن سی کی ضرورت بھی پوری کرتی ہے۔

    پیاز سے ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس میں پوٹاشیم ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    یہ سبزی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مفید ہے۔ طبّی ماہرین کے مطابق پیاز کا گلیسیمک انڈیکس 10 سے کم ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اچّھا ہوتا ہے۔ اس میں بہت کم کاربس اور کثیر مقدار میں فائبر موجود ہوتا ہے۔

    پیاز میں فائبر اور پری بائیوٹک کی خاصی مقدار قدرتی طور پر شامل ہے جو آنت کی صحّت کے لیے فائدہ مند ہے۔ پیاز کھانے سے ہمارا نظامِ ہاضمہ بھی بہتر طریقے سے کام کرتا ہے۔ اس سے کولیسٹرول کی سطح کنٹرول ہوتی ہے۔

    عام اور صحّت مند افراد تو پیاز کو موسم کی شدّت اور سختی کے دوران ضرورت کے مطابق اپنی غذا اور خوراک کا حصّہ بنا سکتے ہیں، لیکن ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو چاہیے کہ اس حوالے سے ضرور اپنے معالج سے مشورہ کریں اور طبّی ماہر کی تجویز اور ہدایت ہی پر پیاز کو اپنی غذا میں شامل کریں۔

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد نیا خطرہ سامنے آگیا

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد نیا خطرہ سامنے آگیا

    ویسے تو شوگر کو کووڈ 19 کے حوالے سے اہم خطرہ سمجھا جاتا رہا اور یہ مانا گیا کہ شوگر یا ذیابیطس کا مریض کووڈ 19 کے خطرے اور اس کی شدت کو بڑھا سکتا ہے، تاہم اب نئی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد شوگر کا مرض لاحق ہونے کا بھی خطرہ ہے۔

    طبی جریدے ڈائبٹیز، اوبیسٹی اینڈ میٹابولزم میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 10 میں سے ایک سے زائد کرونا وائرس کے مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد ہوئی۔

    اس تحقیق میں 8 مختلف تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا جس میں 3 ہزار 711 کرونا وائرس کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے مریضوں میں اس وبائی مرض کے باعث ہونے والا ورم اور انسولین مسائل ذیابیطس کے نئے کیسز کی وجہ ہوسکتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کم از کم ان میں سے کچھ کیسز میں ہوسکتا ہے کچھ مریض پہلے سے ذیابیطس کے شکار ہوں مگر اس کا علم کووڈ کے باعث اسپتال پہنچنے کے بعد ہوا ہو۔

    شواہد سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 میٹابولک صحت کے مسائل کو اس حد تک بدتر کرسکتا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ 2 کی تشخیص ہوجائے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ جسمانی تناؤ ان ریگولیٹری ہارمونز کی سطح کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے جس سے بلڈ شوگر لیول بڑھتا ہے تاکہ جسم درپیش مسئلے کا مقابلہ کرسکے، تو ایسے افراد جو پہلے ہی ہائی بلڈ شوگر کے مسئلے سے دوچار ہوں، ان میں ذیابیطس کا مرض تشکیل پاجاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ان مسائل کے نتیجے میں انسولین کے حوالے سے جسمانی ردعمل کمزور ہوتا ہے اور بلڈ شوگر کنٹرول میں نہیں رہتا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ آٹو امیون امراض کے شکار یا مدافعتی مسائل کا سامنا کرنے والے بزرگ افراد میں کووڈ کے نتیجے میں ذیابیطس کی تشخیص کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔

  • ہر وقت تھکن کیوں؟ طبی ماہرین نے اسباب بتا دیے

    ہر وقت تھکن کیوں؟ طبی ماہرین نے اسباب بتا دیے

    کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر وقت تھکن اور اُکتاہٹ محسوس کرتے ہیں، یہ لوگ جب توانائی سے بھرپور، ہشاش بشاش لوگوں کو دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں، کیوں کہ ہر وقت ایسی حالت میں رہنے کی وجہ سے وہ اسے نارمل سمجھنے لگتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔

    طبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی کئی وجوہ ہیں، صبح بیدار ہونے پر کچھ لوگوں کا بستر سے اٹھنے کو جی نہیں کرتا، وہ اپنے اندر توانائی محسوس نہیں کرتے، کچھ لوگ کام سے گھر لوٹتے ہیں تو شدید تھکن کا شکار ہوتے ہیں، کبھی اہم میٹنگ میں تھکاوٹ کی وجہ سے معاملات پر ٹھیک سے توجہ مرکوز نہیں کر پاتے۔

    اس حوالے سے لائف اسٹائل کی ایک ویب سائٹ بولڈ اسکائی پر تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی ہے، جس میں مذکورہ مسئلے کا جائزہ لیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ تھکاوٹ محسوس کرنے کی عام وجوہ میں ذہنی دباؤ، افسردگی، جسم میں پانی کی کمی اور نیند کی کمی وغیرہ شامل ہیں، تاہم اس حوالے سے کچھ دیگر اہم مسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

    کہیں آپ خون کی کمی کا شکار تو نہیں؟

    یہ بہت اہم وجہ ہے، جسے اینیمیا (خون کی کمی کی بیماری) لاحق ہو، وہ بہت تھکاوٹ محسوس کرتا ہے، اس بیماری میں جسم میں خون کے سرخ خلیات کی کمی ہو جاتی ہے، یہ خلیات جسم کے مختلف حصوں میں آکسیجن لے کر جاتے ہیں، جب ایسا نہیں ہوتا تو آدمی تھکاوٹ محسوس کرنے لگتا ہے۔ تھکاوٹ کے ساتھ سر درد، توجہ دینے میں دشواری، دل کی دھڑکن میں تیزی اور سونے میں دشواری کا سامنا ہو تو ضروری ٹیسٹ اور معائنے کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

    تھائرائیڈ (غدود) کے مسائل

    اگر جسم میں غدود کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے، تھائرائیڈ گلینڈ کے ہارمونز رک گئے ہیں جو جسم کے بنیادی کاموں کو کنٹرول کرتے ہیں تو، اس حالت میں تھکاوٹ کے ساتھ بالوں اور جلد میں خشکی ہو جاتی ہے، ناخن ٹوٹنے لگتے ہیں، آنکھوں کے گرد نشانات، آواز پھٹنے لگتی ہے، دل کی دھڑکن میں تیزی اور موڈ میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔

    ذیابیطس

    شوگر بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے، اگر طاقت میں کمی کے علاوہ کوئی شخص سُستی، بار بار پیشاب کی حاجت، دھندلا پن، وزن میں کمی، چڑچڑاپن اور غصہ محسوس کرتا ہے اور اگر ضرورت سے زیادہ محسوس کر رہا ہے تو اسے خون میں گلوکوز کی سطح کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ تھکاوٹ ذیابیطس کی علامت ہو سکتی ہے، کیوں کہ میٹابولک نقص انسولین کی پیداوار کو محدود کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں تھکاوٹ اور کم زوری سمیت متعدد بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

    وٹامن بی 12 کی کمی

    حیاتین بی 12 ایک ضروری وٹامن ہے جس کی جسم کو توانائی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضرورت ہوتی ہے، جسم میں اس وٹامن کی کمی تھکاوٹ اور ذہنی الجھن کا سبب بن جاتی ہے، اسے اضافی غذا کے طور پر لیا جا سکتا ہے یا پھر قدرتی ذرائع جیسے انڈے، مرغی اور مچھلی کھانے سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

    غیر متحرک طرز زندگی

    یاد رکھیں کہ غیر فعال طرز زندگی کم زوری اور تھکاوٹ ہونے میں معاون ہوتی ہے، تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ غیر فعال طرز زندگی کا دائمی تھکاوٹ کی بیماری (Chronic fatigue syndrome) سے تعلق ہوتا ہے، جس کی بنیادی علامت یہ ہے کہ انتہائی تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے، اس لیے سُست طرز زندگی کی بجائے فعال زندگی گزارنے سے تھکاوٹ کو کم کرنے اور توانائی کی سطح کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

    نیند کی کمی

    غیر فعال طرز زندگی گزارنے والا شخص نیند کی کمی اور بے خوابی کا شکار ہو سکتا ہے، اس طرز زندگی میں بری عادات، دیر سے کھانے اور ورزش کی کمی شامل ہیں، دماغ کو مناسب طریقے سے چلنے اور جسمانی تندرستی اور متحرک رہنے کے لیے ہر شخص کو کم از کم چھ گھنٹے کی نیند لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    کھانے کی اقسام

    ہر وقت کی تھکاوٹ کی وجہ کھانوں کی کچھ اقسام بھی ہو سکتی ہیں، ایسے کھانوں میں گلوٹین، دودھ، انڈے، سویا اور مکئی شامل ہیں، تھکاوٹ کھانے کی الرجی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے.

    ذہنی تناؤ، افسردگی

    دائمی ذہنی دباؤ اور افسردہ رہنے کی وجہ سے انسانی جسم میں توانائی کی سطح متاثر ہو جاتی ہے، اگر آپ کو کسی کام پر توجہ دینے اور بات چیت کرنے میں مشکل ہو، ہر وقت منفی اور نا اُمیدی محسوس ہونے لگے تو جلد از جلد کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کرنا چاہیے۔

    پانی کی کمی اور دیگر وجوہ

    پانی کی کمی سے جسم کے معمول کے کام میں خلل پڑتا ہے، جس سے اکتاہٹ اور انتہائی تھکن کا احساس ہونے لگتا ہے۔ دیگر عام وجوہ کھانے کی خراب یا مضر عادات ہیں، جیسے انرجی مشروبات ضرورت سے زیادہ پینا، پروٹین کی مقدار میں کمی، کم کیلوریز کی کھپت اور فائدہ مند کاربوہائیڈریٹ کا زیادہ استعمال۔

  • وہ علامات جو شوگر کی نشانی ہیں

    وہ علامات جو شوگر کی نشانی ہیں

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے شوگر یا ذیابیطس کی 4 نئی علامات کی طرف اشارہ کیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ علامات آپ میں ظاہر ہورہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ذیابیطس کا شکار ہوچکے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ برائے شوگر نے شوگر بڑھنے کی 4 علامات کی طرف توجہ دلائی ہے، شوگر انسانی جسم میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم انسولین کا استعمال چھوڑ دیتا ہے، انسولین جسم میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے۔

    عالمی ادارہ برائے شوگر کے مطابق ذیابیطس کی پہلی علامت پیاس کا زیادہ محسوس ہونا ہے، انسان شعوری طور پر شدید پیاس محسوس کرنے لگتا ہے، اس کے ساتھ اس کا حلق بھی خشک ہو جاتا ہے اور پیاس بدستور بڑھتی چلی جاتی ہے، اگرچہ آپ روزانہ 2 لیٹر پانی پیتے ہوں۔

    دوسری علامت پیشاپ کا زیادہ آنا ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جسم میں شوگر بڑھ چکی ہے، کیونکہ جسم زائد گلوکوز پیشاپ کے ذریعے نکالنے لگ جاتا ہے۔

    تیسری علامت تھکاوٹ ہے، شوگر بڑھ جانے کے بعد انسان شدید تھکاوٹ محسوس کرتا ہے جو آرام یا نیند کرنے سے بھی ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جسم میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خون سے گلوکوز کی مقدار خلیوں تک جب نہیں پہنچتی تو اس سے تھکاوٹ ہوتی ہے۔

    تھکاوٹ کی علامتوں میں جسم کا بے جان محسوس ہونا، روزمرہ کے کام کرنے میں دشواری محسوس کرنا، مایوسی یا افسردگی محسوس کرنا شامل ہیں۔ اگر ایسی علامات آپ کو 3 ہفتوں سے زیادہ محسوس ہوتی ہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

    چوتھی علامت چڑچڑا پن ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص شوگر کے مرض میں مبتلا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر ایک پیچیدہ مرض ہے، اس کے بے شمار عوامل ہوتے ہیں جو شمار نہیں کیے جا سکتے، انسولین کی کمزوری اس کا بڑا سبب ہوتا ہے۔

    شوگر ہونے کی وجوہات میں کھانے کا بھی بڑا عمل دخل ہے، ناقص اور تلے ہوئے پکوان، یا ایسے کھانے جن میں کیلوریز کی تعداد زیادہ ہو شوگر کا سبب بنتے ہیں۔

    علاوہ ازیں شوگر عموماً موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، جسمانی نقل وحرکت اور وراثتی جینیات سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔

  • شوگر کے مریض اپنی غذا کیسی رکھیں؟

    شوگر کے مریض اپنی غذا کیسی رکھیں؟

    ذیابیطس کا مرض نہایت احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے، ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مناسب اور متوازن غذا کا استعمال بے حد ضروری ہوتا ہے ورنہ ذیابیطس دیگر طبی خطرات کو بھی دگنا کرسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کا شکار افراد کا صحت مند کھانے کی عادات اپنانا حد ضروری ہے۔

    نیوٹریشنسٹ اور ذیابیطس ایجوکیٹر دویا گپتا کا کہنا ہے کہ ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریضوں کو خون میں گلوکوز کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوراک میں کاربو ہائیڈریٹ کی مقدار پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

    یہ جاننا ضروری ہے کہ کھانے میں پہلے سے طے شدہ مقدار سے زیادہ کاربس نہ ہوں، پھر اس حساب سے طے کیا جائے کہ مریض کو کتنی انسولین لینے کی ضرورت ہے۔

    ذیابیطس ٹائپ 2 کے ایسے مریض جن کا وزن زیادہ ہے انہیں سب سے پہلے اپنا وزن گھٹانے کی ضرورت ہے۔

    ٹائپ 2 اور ٹائپ 1 دونوں کے مریضوں کو اپنی خوراک میں صحیح مقدار میں غذائی عناصر شامل کرنا ضروری ہے۔ ایسی غذا کا انتخاب کریں جس میں کاربس ہوں اور اس بات کا دھیان رکھیں کہ آپ کتنی مقدار میں اس کو اپنی خوراک میں شامل کر رہے ہیں۔

    مثال کے طور پر براؤن رائس، روٹی، پاستا، اوٹس، کم چینی والے غذائی عناصر اور جوار۔ ان غذاؤں سے پرہیز کریں جس میں فائبر کی مقدار کم ہو جیسے سفید چاول، سفید بریڈ۔

    کچھ بھی خریدنے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ اس میں کیا کیا غذائی عناصر شامل ہیں، ہری پتے والی سبزیاں کھائیں، ان میں ضروری وٹامنز اور معدنیات شامل ہوتی ہیں جبکہ یہ بلڈ شوگر لیول کو بھی کم متاثر کرتی ہیں۔

    سبز پتوں والی سبزیوں میں گوبھی اور پالک وغیرہ شامل ہیں۔

    ذیابیطس کے مریضوں کے لیے پھل کھانا بھی فائدہ مند ہے، ان کی قدرتی مٹھاس انہیں نقصان نہیں پہنچاتی، اس کے برعکس ڈبہ بند جوسز مصنوعی مٹھاس سے بھرے ہوتے ہیں ان سے گریز کیا جائے۔

    پروٹین سے بھرپور غذائیں جیسے انڈے، پھلیاں، کم چربی والا دودھ، گوشت اور کھٹا دہی بھی کھایا جاسکتا ہے۔

    پیکٹ والے تمام کھانوں اور فاسٹ فوڈ سے پرہیز کریں، خاص طور پر جن میں زیادہ مقدار میں چینی شامل ہو۔

    ایسے مشروبات سے پرہیز کریں جس میں زیادہ مقدار میں چینی شامل ہوتی ہے، جیسے انرجی ڈرنکس وغیرہ۔

    غذا میں نمک کی مقدار کو بھی کم کریں، بہت زیادہ نمک کھانے سے ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے جس کے نتیجے میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض کے لیے یہ تمام خطرات دگنے ہوجاتے ہیں۔

    ذیابیطس کے مریض اپنے کھانے میں پہلے سے تیار شدہ گوشت اور سرخ گوشت کی مقدار کو بھی کم کرنے کی کوشش کریں، اس کے بجائے اپنی خوراک میں دال، پھلیاں، انڈے، مچھلی اور چکن شامل کریں۔

    اسنیکس کی مقدار کم سے کم کریں اور چپس، بسکٹ اور چاکلیٹ کے بجائے دہی، پھل اور سبزیاں کھائیں۔

    شوگر کے مریضوں کو باقاعدگی سے ورزش کرتے رہنا چاہیئے، ورزش جسم کے وزن کو متوازن کرنے میں مدد کرتا ہے اور انسولین کی سطح کو بھی بہتر بناتا ہے۔

    صحت مند کھانے کے ساتھ جسمانی طور پر متحرک رہنا بھی ضروری ہے، یہ ذیابیطس کو سنبھالنے اور دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

  • شوگر کے مریضوں کے لیے امید افزا خبر

    شوگر کے مریضوں کے لیے امید افزا خبر

    شوگر کے مریضوں کو روزانہ انسولین کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کی درست مقدار استعمال کرنی ضروری ہوتی ہے، تاہم اب شوگر کے مریضوں کے لیے امید افزا خبر سامنے آگئی ہے۔

    ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی اور بائیوٹک کمپنی گیوبرا نے ایک نیا انسولین مالیکیول تیار کیا ہے جو مستقبل قریب میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے درست مقدار میں انسولین کی مقدار کو یقینی بنائے گا۔

    کوپن ہیگن یونیورسٹی کے پروفیسر کیونڈ جے جینسن نے بتایا کہ ہم نے اس قسم کی انسولین کی جانب پہلا قدم بڑھایا ہے جو جسم کے اندر خودکار طور پر بلڈ شوگر لیول کے مطابق مطابقت پیدا کرلیتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس سے ذیابیطس ٹائپ ون کے مریضوں کی زندگی میں نمایاں بہتری آسکے گی۔

    محققین نے انسولین کی یہ قسم ایک بلٹ ان مالیکیول کے ذریعے تیار کی ہے جو محسوس کرسکتی ہے کہ جسم میں بلڈ شوگر کی مقدار کتنی ہے۔

    جسم میں بلڈ شوگر لیول بڑھنے پر یہ مالیکیول تیزی سے متحرک ہوکر مزید انسولین خارج کرتا ہے، اگر بلڈ شوگر کی سطح گرتی ہے تو انسولین کی کم مقدار کا اخراج ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ مالیکیول مسلسل انسولین کی کم مقدار کو خارج کرتا ہے، مگر یہ مقدار ضرورت کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے ذیابیطس ٹائپ ون کے مریضوں کے لیے محفوظ اور آسان علاج فراہم کیا جاسکے گا، آج اس بیماری کے شکار افراد کو دن بھر میں کئی بار انسولین کو انجیکٹ کرنا پڑتا ہے اور مسلسل بلڈ شوگر لیول پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔

    ان کے بقول اس نئی قسم کی بدولت ایسا نہیں ہوسکے گا اور جب کوی فرد نئے انسولین مالیکیول کو انجیکٹ کرے گا تو اسے دن بھر میں دوبارہ لگانے کی کم ضرورت ہوگی۔

    اگرچہ خودکار انسولین ایک اہم پیشرفت ہے مگر یہ کب تک عام استعمال کے لیے دستیاب ہوگی، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔

  • سائنس دانوں کا ذیابیطس کے بارے میں خوف ناک انکشاف

    سائنس دانوں کا ذیابیطس کے بارے میں خوف ناک انکشاف

    لندن: سائنس دانوں نے ذیابیطس کے بارے میں ایک اور خوف ناک انکشاف کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ 1 بچے کو پیدائش سے بھی قبل ہو سکتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل ڈائیبٹولوجیا کے مطابق 6 ماہ سے کم عمر بچوں میں ذیابیطس ٹائپ ون کا مرض ہو سکتا ہے اور اس عارضے کی جڑ ممکنہ طور پر پیدائش سے قبل ہی بن جاتی ہے۔

    اس سے قبل یہ مانا جاتا تھا کہ 6 ماہ سے کم عمر بچوں میں صرف نیونیٹل ڈایابیٹیز (صرف نوزائیدہ بچوں کو لاحق ہونے والی ذیابیطس) ہو سکتی ہے جو کسی جیناتی نقص کا نتیجہ ہوتی ہے جس میں لبلبے کے خلیات کی انسولین بنانے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

    لیکن اب ماہرین کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں میں بھی ذیابیطس ٹائپ ون کا مرض ہو سکتا ہے، اس دوران جسم کا اپنا مدافعتی نظام انسولین بنانے والے خلیات کو تباہ کر دیتا ہے۔

    ماہرین اس تحقیق سے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ذیابیطس ٹائپ ون کے باعث جسم پر مدافعتی نظام کا حملہ کچھ نوزائیدہ بچوں میں ماں کے پیٹ ہی سے شروع ہو جاتا ہے؟ جس کے نتیجے میں انسولین کی سطح گھٹ جاتی ہے اور پیدائشی وزن کم ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر ایلزیبتھ رابرٹسن کا کہنا تھا کہ زندگی کے ابتدائی چند مہینوں میں پہلی بار ذیابیطس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، یہ اہم نتائج اس بیماری کے بارے میں ہمارے فہم کو پھر سے ترتیب دے رہے ہیں کہ کہ کب اس حالت کا حملہ ہو سکتا ہے اور کب مدافعتی نظام میں خامی پیدا ہو سکتی ہے۔

    برطانوی ریسرچ ڈائریکٹر ڈاکٹر ایلزیبتھ نے کہا کہ اب ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کب اور کیسے ذیابیطس ٹائپ ون اتنی کم عمری میں جسم میں پیدا ہو جاتی ہے، اس سے ہر عمر کے افراد کو ذیابیطس ٹائپ 1 کی وجوہ جاننے میں مدد ملے گی، اور ایسے علاج کے دریافت کے لیے بھی اہم ہوگا جو بچوں میں زندگی کو بدل دینے والی اس حالت کو روک سکے۔

    برطانیہ کی ایگزیٹر یونی ورسٹی اور کنگز کالج لندن کے محققین نے اس سلسلے میں نوزائیدہ بچوں کے 3 گروپس کا مطالعہ کیا، محققین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ 1 کا مرض ابتدائی چند ماہ کے دوران بھی بچوں میں ہو سکتا ہے اور کچھ نوزائیدہ بچوں میں تو یہ پیدائش سے قبل بھی ہو سکتا ہے۔

    ڈاکٹر میتھیو جاسٹن نے کہا کہ ہم نے یہ بھی معلوم کیا کہ نوزائیدہ بچوں میں ذیابیطس کی تشخیص انسولین بنانے والے بیٹا خلیات کی مکمل تباہی سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ تحقیقی ٹیم اب اس بات کا مطالعہ کرنا چاہتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مدافعتی نظام بننے سے قبل ہی اتنا شدید رد عمل ظاہر کر سکتا ہے۔