Tag: شکاری

  • 3 ہزار سال قدیم جانور، جسے انسان نے حملے کر کے معدوم کردیا

    3 ہزار سال قدیم جانور، جسے انسان نے حملے کر کے معدوم کردیا

    اب سے 3 ہزار سال قبل زمین پر موجود ایک خطرناک جانور، جو مگر مچھ سے مشابہ ہے، انسانوں کی جانب سے اس قدر بہیمانہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کی نسل معدوم ہوگئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چین میں 3 ہزار سال قبل گھومنے والے 19 فٹ لمبے مگر مچھ جیسی قدیم مخلوق کو رسماً سر کاٹ کر مارنے کا انکشاف ہوا ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ نو دریافت شدہ قسم کو صدیوں تک بے رحمی سے شکار کر کے ناپید ہونے تک انسانوں نے پہنچایا، ماہرین نے 3 ہزار سے 34 سو سال قبل مارے جانے والی 2 مخلوقات کی جزوی طور پر محفوظ باقیات کا تجزیہ کیا۔

    ماہرین نے دریافت ہونے والی نئی قسم کا نام ہانیوسوچس سائینینس کے نام پر رکھا، یہ نویں صدی کے شاعر تھے جنہوں نے جنوبی چین کے صوبے گونگ ڈونگ کے دریائے ہان کا ڈیلٹا چھوڑنے کے لیے مگرمچھوں کو خبردار کیا تھا۔

    تاریخی روایات کے مطابق ہان یو، جو ٹینگ سلطنت کے دوران حکومتی عہدے دار بھی تھا، نے ان مخلوقات سے چھٹکارہ پانے کے لیے ایک خنزیر اور بکری بھی قربان کی تھی۔

    لیکن بد قسمتی سے وہ وہاں باقی رہے اور کہا جاتا ہے کہ سینکڑوں سال بعد جب جنوبی چین میں انسانوں نے ہجرت کی اور شکار شروع کیا تو وہ ان کی نسل ناپید ہوتی گئی۔

    اس سے قبل یہ جانور انسانوں کا ہدف ہونے کے باوجود قدیم چین میں خطرناک شکاری تھا، یونیورسٹی آف ٹوکیو کی ماہرین کی ٹیم کو باقیات پر شدید حملوں اور حتیٰ کہ سر کاٹنے کے شواہد بھی ملے۔

  • دنیا کا نایاب ترین سفید زرافہ شکاریوں کے ہاتھوں ہلاک

    دنیا کا نایاب ترین سفید زرافہ شکاریوں کے ہاتھوں ہلاک

    نیروبی: شمالی افریقی ملک کینیا میں دنیا کے 2 نہایت نایاب سفید زرافوں کا شکار کرلیا گیا، ان زرافوں کی تعداد دنیا بھر میں صرف 3 تھی اور ان دو زرافوں کی موت کے بعد اب اپنی نوعیت کا ایک ہی زرافہ واحد بچا ہے۔

    کینیا میں ماحولیات کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق پولیس کو مادہ زرافے اور اس کے بچے کی باقیات شمالی مشرقی کینیا کی گریسا کاؤنٹی سے ملیں۔ یہ تلاش ماں اور بچے کے لاپتہ ہونے کے بعد عمل میں لائی گئی تھی۔

    اب ان کے بعد اس نوعیت کا صرف ایک زرافہ بچا ہے جو تنزانیہ میں ہے اور دنیا بھر میں پایا جانے والا واحد سفید زرافہ ہے۔

    تنزانیہ میں بچنے والا دنیا کا واحد سفید زرافہ

    مقامی تنظیموں کے مطابق ان زرافوں کو سب سے پہلے 2017 میں دیکھا گیا تھا، علاوہ ازیں تنزانیہ میں موجود سفید زرافہ اس سے قبل 2016 میں دیکھا گیا تھا۔

    ان تنظیموں کے ساتھ مقامی اسحٰق بنی ہیرولا کمیونٹی بھی جانوروں کی رکھوالی اور حفاظت کے کام میں شریک تھی اور ان کے مطابق یہ ان کی زندگی کا دکھ بھرا دن ہے۔

    ان لوگوں کے مطابق ان کی کمیونٹی ان نایاب زرافوں کی رکھوالی کرنے والی دنیا کی واحد کمیونٹی ہے۔

    شکار ہونے والا زرافہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نایاب زرافے ایک جینیاتی بگاڑ لیوک ازم کا شکار تھے۔ اس بیماری میں خلیوں میں موجود رنگ دینے والے پگمنٹس کم ہوجاتے ہیں۔

    یہ بیماری البانزم (یا برص) سے مختلف ہے، ایک مرض جسم کو جزوی طور پر سفید کرتا ہے جبکہ دوسرا جسم کو مکمل طور پر سفید کردیتا ہے۔ اس کی الٹ بیماری میلینزم کی ہے جس میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں اور جانور کا جسم مکمل سیاہ ہوجاتا ہے۔

    افریقہ کی وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ 30 سال میں گوشت اور کھال کے لیے زرافوں کا بے تحاشہ شکار کیا گیا ہے جس سے زرافوں کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (آئی یو سی این) کے مطابق سنہ 1985 میں زرافوں کی آبادی 1 لاکھ 55 ہزار تھی جو سنہ 2015 تک گھٹ کر صرف 97 ہزار رہ گئی۔

  • بٹیر: کھیت کھلیان سے لڑائی کے میدان اور کھانے کی میز تک

    بٹیر: کھیت کھلیان سے لڑائی کے میدان اور کھانے کی میز تک

    انڈے دینے والے چھوٹے پرندوں میں بٹیر کا تعلق مرغ کے خاندان سے ہے۔

    انسان اس کے انڈے ہی نہیں کھاتا بلکہ بٹیر کا گوشت بھی دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بٹیر کا گوشت کھایا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے اسے جال کی مدد سے پکڑا جاتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ بیسویں صدی میں فرانس کے ایک باورچی نے اس پرندے کے گوشت سے نہایت ذائقے دار پکوان تیار کیے تھے جن کا خوب شہرہ ہوا۔

    ذائقے اور افادیت کی وجہ سے لوگ بٹیر کا گوشت کھانا پسند کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کے گوشت میں پروٹین شامل ہوتا ہے جو انسانی جسم کے لیے مفید ہے۔

    یہ پرندہ مختلف فصلوں کے پکنے کے بعد کھیتوں اور ایسے مقامات پر نظر آتا ہے جہاں جھاڑیاں اور گھاس وغیرہ ہو۔ سردیوں میں بٹیر محفوظ مقامات پر منتقل ہو جاتا ہے۔ اس پرندے کو جال لگا کر پکڑنے والے اسے پالتے بھی ہیں اور اس کے انڈے حاصل کرتے ہیں۔

    یہ پرندہ پیدائش کے چھے ہفتے بعد ہی انڈے دینے کے قابل ہو جاتا ہے اور سال بھر میں یہ تقریبا 300 سو انڈے دیتا ہے۔
    بٹیر صرف ہندوستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں پالتو پرندے کے طور پر گھروں میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے انڈے اور گوشت بھی ہمارے پڑوسی ممالک کے علاوہ امریکا، جاپان، فرانس اور دیگر تمام ملکوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

    ہندوستان اور پاکستان کی بات کریں تو یہاں اس پرندے کو نہ صرف شوقیہ پالنے کا رواج ہے بلکہ بٹیروں کو لڑانے اور ان پر شرطیں لگانے والے بھی موجود ہیں۔ تاریخ کے صفحات میں یہ بھی لکھا ہے کہ مغلیہ دورِ حکومت کے زوال کے دنوں میں لکھنؤ میں بٹیر بازی زوروں پر تھی۔ اس زمانے میں عام لوگ ہی نہیں امرا اور دربار میں اہم منصب پر فائز شخصیات تک بٹیر کی لڑائی اور جال لگا کر اس پرندے کے پھنسنے کا نظارہ کرکے لطف اندوز ہوتے تھے۔
    پاکستان میں پشاور، اٹک اور ملتان کے اضلاع کسی زمانے میں بٹیر بازی کے لیے مشہور تھے۔

  • ننھے شکاریوں کے تربیتی مراحل

    ننھے شکاریوں کے تربیتی مراحل

    دنیا کے تیز ترین جانوروں میں سے ایک سمجھا جانے والا جانور چیتا شکار پر اپنی زندگی گزارتا ہے، نہایت چالاکی کے ساتھ خاموشی سے شکار کی طرف جانا اور بجلی کی سی تیزی سے اس پر جھپٹنا اس کی نمایاں خصوصیت ہے۔

    شکار چیتے کی فطرت ہے اور یہ خاصیت اس وقت بھی ان میں نظر آتی ہے جب وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اپنی ماں پر انحصار کرتے ہیں۔

    ننھے چیتے آپس میں ہی لڑتے، ایک دوسرے پر جھپٹتے اور ایک دوسرے کے کان کاٹتے دکھائی دیتے ہیں جیسے زیر نظر اس ویڈیو میں دکھائی دے رہا ہے۔

    گو کہ ان ننھے چیتوں کی رفتار اور طاقت کم ہے مگر ابھی وہ اپنی تربیت کے ابتدائی مرحلے میں ہیں، ایک مخصوص عمر تک پہنچنے کے بعد وہ گھاگ شکاریوں میں تبدیل ہوچکے ہوں گے۔

    سوسائٹی برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو سی ایس اور زولوجیکل سوسائٹی آف لندن کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقی ملک زمبابوے میں گزشتہ 16 سال میں چیتوں کی آبادی میں 85 فیصد سے زائد کمی آچکی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی اس رپورٹ  میں تجویز کیا گیا تھا کہ چیتے کو عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی خطرے کا شکار جنگلی اقسام کی سرخ فہرست (ریڈ لسٹ) میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست میں رکھا جائے۔

    نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے جریدے میں چھپنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے، اور اس وقت دنیا بھر میں اس تعداد کا نو فیصد یعنی صرف 7 ہزار 100 چیتے موجود ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

  • کینیا میں جانوروں کا شکار کرنے پر سزائے موت کا فیصلہ

    کینیا میں جانوروں کا شکار کرنے پر سزائے موت کا فیصلہ

    نیروبی: افریقی ملک کینیا میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کا شکار کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان کردیا گیا۔

    کینیا کے وزیر برائے سیاحت و جنگلی حیات نجیب بلالا نے اعلان کیا ہے کہ جنگلی حیات کا شکار کرنے پر موجودہ سزائیں ناکافی ہیں اور اب جلد شکار کرنے پر سزائے موت کا قانون بنا دیا جائے گا۔

    نجیب بلالا کا کہنا تھا کہ اب تک جنگلی حیات کا شکار کرنے پر عمر قید کی سزا اور 2 لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد تھا تاہم یہ بھی جنگلی حیات کا شکار روکنے کے لیے ناکافی رہا جس کے بعد اب سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    کینیا کے اس اقدام کے بعد اسے اقوام متحدہ میں مخالفت اور تنازعے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ دنیا کے تمام ممالک میں کسی بھی جرم پر سزائے موت کی سخت مخالف ہے۔

    خیال رہے کہ کینیا میں متنوع جنگلی حیات پائی جاتی ہے جس میں شیر، زرافے، زیبرا، شتر مرغ، گینڈے اور دریائی گھوڑے شامل ہیں۔ یہ جانور کینیا سمیت دیگر افریقی ممالک کی سیاحت کا بڑا سبب ہیں۔

    گزشتہ کچھ عرصے سے افریقی جانوروں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد ان جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ان جانوروں کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    تاہم کینیا اور دیگر افریقی ممالک میں اس شکار کو روکنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کیے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ کینیا میں شکار کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں 78 فیصد جبکہ گینڈوں کے شکار میں 85 فیصد کمی آئی۔

    حکام کو امید ہے کہ سزائے موت کے بعد اب ان جانوروں کے شکار میں مزید کمی آتی جائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ یہ شکار بند ہوجائے گا۔

  • عراق سےاغوا ہونے والےقطری شکاری 16ماہ بعد رہا

    عراق سےاغوا ہونے والےقطری شکاری 16ماہ بعد رہا

    بغداد: عراقی حکام کاکہناکہ مسلح افراد نے 16ماہ قبل اغوا ہونے والے قطری شکاریوں کو آزاد کردیاہےجن میں شاہی خاندان کے ارکان بھی شامل ہیں۔

    تفصیلات کےمطابق عراقی حکام کاکہناہےکہ دسمبر 2015میں 26قطری شکاریوں کوناصریہ صوبے میں سعودی سرحد کےقریب سے مسلح افراد نے اغوا کیاتھا۔

    قطری شہریوں کی بازیابی کے لیے ایک بڑی کارروائی کی گئی تھی تاہم انہیں اغوا کرنے والےگروپ کے بارے میں زیادہ معلومات سامنے نہیں آسی تھیں۔

    خیال رہےکہ گزشتہ روزعراقی حکام نے بتایا کہ قطری گروپ واپس قطر کےدارالحکومت دوحا پہنچ گیا ہے۔


    سعودی سرحد کے قریب صحرائی علاقے سےقطری شہری اغوا


    بغداد کےایئر پورٹ پرویڈیو میں قطر ایئر ویز کےایک جہاز میں قطری شکاریوں کے سوار ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے کچھ دیربعد سرکاری میڈیا نے جہاز کے دوحا لینڈ کرنے کی تصدیق کی۔

    قطری شکاریوں کی رہائی چند دن پہلے شام میں فریقین کے درمیان چار علاقوں سے عام شہریوں کے انخلا کے لیے ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے۔

    واضح رہےکہ برطانوی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق قطری شکاری ایک عراقی ملیشیا کی قبضے میں تھے اور اس ملیشیا کے شامی حکومت کے بڑے حامی ایران اور حزب اللہ سے قریبی تعلقات ہیں۔

  • امریکا میں مردہ ہرن کی ڈرائیونگ

    امریکا میں مردہ ہرن کی ڈرائیونگ

    نیویارک: امریکی ریاست مشی گن کے ایک رہائشی نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جس میں ایک بے حس و حرکت ہرن گاڑی میں بیٹھا ڈرائیونگ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

    مشی گن کے ایک رہائشی جرمی روزبرگ نے اپنے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس کو دیکھ کر یوں لگ رہا ہے کہ ہرن گاڑی چلا رہا ہے۔

    لیکن تھوڑی دیر بعد علم ہوتا ہے کہ گاڑی کو دراصل ایک پک اپ ٹرک کھینچ کر لے کر جارہا ہے۔ تب لوگ اور بھی حیران رہ گئے کہ گاڑی میں بیٹھا ہرن بالکل ساکت ہے اور اس میں کوئی حرکت دکھائی نہیں دیتی۔

    بعد ازاں پتہ چلا کہ یہ حرکت ایک شکاری کی تھی جس نے مذاق کے طور پر اپنے شکار کیے ہوئے ہرن کو گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا۔

    یہ شکاری پہاڑوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ شکار کر کے واپس آرہا تھا۔ واپسی میں اس نے اپنے شکار کیے ہوئے مردہ ہرن کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا جسے دیکھ کر یوں لگنے لگا کہ ایک مردہ ہرن گاڑی چلا رہا ہے۔

    شکاری کا خیال تھا کہ یہ ایک مذاق ہے، اور لوگ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوں گے لیکن لوگوں نے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

    لوگوں کا کہنا تھا کہ ایک تو شکاری نے ایک معصوم ہرن کو مار ڈالا، اور پھر اس کا اس طرح مذاق بنا دیا۔

  • پرندوں کے شکار کے لیے بچھائے گئے جال قانون کی گرفت میں

    پرندوں کے شکار کے لیے بچھائے گئے جال قانون کی گرفت میں

    ٹھٹھہ: محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ نے کینجھر جھیل میں بچھائے گئے غیر قانونی جالوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 70 سے زائد جالوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

    ترجمان محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق یہ کارروائی نئے سیکریٹری برائے جنگلات و جنگلی حیات منظور علی شیخ کے حکم کے بعد عمل میں لائی گئی۔ کینجھر جھیل میں بڑی تعداد میں زیر سمندر غیر قانونی طور پر جال بچھائے گئے ہیں جن کا مقصد ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کو پکڑنا ہے۔

    wildlife-2

    wildlife-4

    محکمہ کے کنزرویٹر سعید اختر بلوچ کی نگرانی میں کی جانے والی اس کارروائی میں 70 سے زائد جالوں کو قبضہ میں لے لیا گیا ہے۔

    محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی جانب سے کالے ہرن کے شکار کی دعوت *

    ان کا کہنا ہے کہ پرندوں کے شکار کے لیے لگائے گئے آخری جال کو قبضہ میں لیے جانے تک آپریشن جاری رہے گا اور اس میں ملوث افراد و شکاریوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

    wildlife-5

    wildlife-3

    واضح رہے کہ کینجھر جھیل پاکستان کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے اور یہ کراچی اور ٹھٹھہ میں فراہمی آب کا ذریعہ ہے۔

    یہ جھیل ’رامسر‘ سائٹ میں سے ایک ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ماحولیاتی حوالے سے ایک خوبصورت جھیل ہے۔

    keenjhar-1

    keenjhar-3

    سنہ 1977 میں اس جھیل کو ’وائلڈ لائف سینکچری‘ یعنی جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا گیا۔

    کینجھر جھیل سائبیریا سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی میزبان جھیلوں میں سے ایک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہاں آنے والے پرندوں کی تعداد 1 لاکھ تک ہے۔

    keenjhar-4

    ان پرندوں میں چیکلو، ڈگوش، آڑی، کونج، سرخاب، نیل سر، لال سر سمیت مختلف اقسام کے پرندے شامل ہیں جو اپنے محضوص راستے انڈس فلائی زون کے ذریعہ پاکستان آتے ہیں۔

    جنگلی حیات کے شکاریوں کو پکڑنے کے لیے خونخوار کتوں کی تربیت *

    بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان پرندوں کے شکار پر پابندی ہے تاہم ان کی آمد کے ساتھ ہی شکاری بھی سرگرم ہوجاتے ہیں اور یہ نایاب پرندے بے دردی سے شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔