Tag: شکاریات

  • تلنی کا معاوضہ ایک سو پچاس روپے!

    تلنی کا معاوضہ ایک سو پچاس روپے!

    جیمز کاربیٹ اور کینیتھ اینڈرسن وہ دو نام ہیں جنھوں‌ نے متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران بطور انگریز شکاری اور مہم جو نہ صرف اپنی شناخت بنائی بلکہ ہندوستان کے بعض دیہات میں ان کی شہرت عوام کے ہم درد، ایک خیر خواہ اور مددگار کی سی تھی۔ ان شکاریوں نے ہندوستان کے کئی علاقوں میں آدم خور درندوں کا شکار کر کے وہاں‌ کے باسیوں کے دل جیت لیے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ ان کی ہر بات مانتے تھے اور اپنے مسائل کا حل بھی انہی سے طلب کرتے تھے۔

    جیمز کاربیٹ اور اینڈرسن نے شکاریات کے موضوع پر لکھنے کے ساتھ اس دور کے بعض واقعات اور عوامی زندگی کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ یہ ایک ایسا ہی واقعہ ہے جس نے ان شکاریوں کو بھی جذباتی کردیا تھا۔ اسے جیمز کاربیٹ نے رقم کیا تھا جس کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے۔ وہ لکھتے ہیں:

    ایک بار موسمِ سرما میں ترائی میں اینڈرسن اور میں مقیم تھے جو کہ ہمالیہ کے دامن میں پٹی ہے۔ ایک بار جنوری میں صبح صبح ہم بندو کھیڑا سے ناشتہ کر کے نکلے اور بکسر کی جانب لمبا چکر کاٹ کر گئے، جو ہمارے اگلے کیمپ کا مقام تھا۔

    لمبے چکر کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ملازمین کو خیمے اکھاڑنے، منتقل کرنے اور پھر دوبارہ نصب کرنے کا وقت مل جاتا۔ بندو کھیڑا اور بکسر کے درمیان دو دریا تھے جن پر پُل نہیں تھے اور دوسرے دریا کو عبور کرتے ہوئے ہمارے خیموں والا اونٹ پھسل گیا اور سارا سامان پانی میں ڈوب گیا۔ اس کو نکالنے میں کافی تاخیر ہوئی اور جب ہم پورا دن کالے تیتر کا بہترین شکار کر کے پہنچے تو ہمارا سامان تب جا کر اترنے لگا تھا۔ یہ مقام بکسر کے گاؤں سے چند سو گز دور تھا اور اینڈرسن کی آمد معمولی واقعہ نہیں تھا، اس لیے پورے گاؤں کی آبادی ہمیں خوش آمدید کہنے اور خیموں کی تنصیب میں مدد کرنے آ گئی۔

    سر فریڈرک اینڈرسن اس وقت ترائی اور بھابھر کے حکومتی سربراہ تھے اور کئی ہزار مربع میل پر رہنے والے ہر قوم، نسل اور مذہب کے افراد سے ملنے والی محبت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام سے کتنے قریب تھے۔ ان کی مہربان طبعیت کے علاوہ اینڈرسن بہت اچھے منتظم تھے اور ان کی یادداشت کا مقابلہ صرف سر ہنری ریمزے سے کیا جا سکتا ہے جو اینڈرسن سے قبل اٹھائیس سال تک اسی جگہ کے حکمران تھے۔ سر ہنری ریمزے کو کماؤں کا غیر علانیہ بادشاہ مانا جاتا تھا۔ ریمزے اور اینڈرسن سکاٹش تھے اور دونوں کے بارے مشہور تھا کہ انہیں کوئی شکل اور نام نہیں بھولتا۔ ہندوستان کے غریب اور مسکین لوگوں سے تعلق رکھنے والا ہر انسان جانتا ہے کہ جب ان لوگوں کو ملاقات پر ان کے نام سے بلایا جائے یا ان سے ملاقات یاد رکھی جائے تو یہ کتنا خوش ہوتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان میں برطانوی راج کے عروج و زوال پر لکھا جائے گا، برطانوی راج کے زوال کے اسباب میں سرخ فیتے کی اہمیت پر بھی لکھا جائے گا۔ ریمزے اور اینڈرسن نے جب کام کیا تھا تو اس دور میں سرخ فیتہ دور دور تک نہیں تھا۔ بطور منتظم ان کی شہرت اور ان کی کام یابی کی وجہ ہی یہی تھی کہ ان کے ہاتھ سرخ فیتے سے نہیں بندھے تھے۔

    ریمزے کماؤں کے جج، میجسٹریٹ، پولیس، فارسٹ آفیسر اور انجینیر بھی تھے اور ان کی ذمہ داریاں مختلف النوع تھیں اور اکثر ایک کیمپ سے دوسرے کو چلتے ہوئے وہ انہیں سرانجام دیتے جاتے تھے۔ عموماً ان کے ساتھ لوگوں کا ہجوم چلتا تھا اور اسی دوران وہ فوجداری اور دیوانی مقدمات کا فیصلہ کرتے جاتے تھے۔ پہلے مدعی اور گواہان کو سنا جاتا اور پھر ملزم اور اس کے گواہان کو اور پھر مناسب سوچ بچار کے بعد فیصلہ سنایا جاتا جو قید یا جرمانہ بھی ہو سکتا تھا۔ کبھی ان کے فیصلے پر اعتراض نہ ہوا اور نہ ہی جس بندے کو انہوں نے قید یا جرمانے کا فیصلہ سنایا ہو، نے فوراً خزانے جا کر جرمانہ نہ بھرا ہو یا عام قید یا بامشقت کی صورت میں بھی جا کر خود کو نزدیکی جیل داخل نہ کرایا ہو۔ ترائی اور بھابھر کے سپرنٹنڈنٹ ہونے کی وجہ سے انہیں سابق منتظم یعنی سر ریمزے کی نسبت کم ذمہ داریاں ملی ہوئی تھیں مگر ان کے اختیارات زیادہ وسیع تھے۔ شام کو جب بکسر کے کیمپنگ گراؤنڈ میں ہمارے خیمے لگ رہے تھے تو اینڈرسن نے لوگوں کو جمع کر کے سامنے بٹھایا اور کہا کہ وہ ان کی شکایات سننا چاہتے ہیں۔ پہلی شکایت بکسر کے ساتھ والے دیہات کے نمبردار کی تھی۔ اگلی شکایت پیش ہوئی۔

    یہ شکایت چاڈی نے پیش کی کہ کالو نے اس کی بیوی تلنی کو اغوا کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ تین ہفتے قبل کالو نے اس کی بیوی کی طرف پیش قدمی کی اور نتیجتاً اس کی بیوی اس کا گھر چھوڑ کر کالو کے گھر رہنے چلی گئی ہے۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ کالو کہاں ہے تو ہمارے سامنے نیم دائرے کے ایک کنارے سے بندہ اٹھ کر بولا کہ وہ کالو ہے۔

    جب اینڈرسن نے کالو سے پوچھا کہ آیا وہ الزام کو تسلیم کرتا ہے تو اس نے بتایا کہ تلنی اس کے گھر رہ رہی ہے مگر اس نے اغوا کی بات سے یکسر انکار کیا۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ کیا تلنی اپنے شوہر کے پاس واپس بھیج دی جائے تو اس نے بتایا کہ تلنی اپنی مرضی سے آئی ہے، سو وہ اسے واپس جانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اینڈرسن نے پوچھا: ‘تلنی کہاں ہے؟‘ عورتوں سے ایک لڑکی اٹھ کر سامنے آئی اور بولی: ‘میں تلنی ہوں۔ فرمائیے۔‘

    تلنی اٹھارہ برس کی خوبصورت لڑکی تھی۔ اس کے بال ترائی کی خواتین کی مانند سر پر ایک فٹ اونچے منارے کی شکل میں تھے اور اس نے سفید گوٹے والی کالی ساڑھی پہن رکھی تھی اور سرخ قمیض، خوبصورت رنگوں والی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ وہ اپنے شوہر کو کیوں چھوڑ آئی ہے تو اس نے چاڈی کی طرف اشارہ کیا اور بولی: ‘اسے دیکھیں۔ یہ کتنا غلیظ ہے اور کنجوس بھی۔ دو سال سے میں اس کی بیوی ہوں اور اس نے ایک بار بھی کپڑے یا زیور نہیں دیے۔ یہ جو کپڑے اور زیورات آپ دیکھ رہے ہیں، مجھے کالو نے دیے ہیں۔‘ اس کا اشارہ چاندی کی چوڑیوں اور شیشے کے موتیوں کے کئی ہاروں کی جانب تھا۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ آیا وہ اپنے شوہر چاڈی کے پاس جانا چاہتی ہے تو اس نے صاف انکار کیا اور بولی کہ کسی قیمت پر بھی واپس نہیں جائے گی۔

    یہ مقامی قبیلہ ترائی کے مضرِ صحت مقام پر آباد تھا اور ان کی دو خوبیاں مشہور تھیں۔ ایک ان کی صاف ستھرا رہنے کی عادت اور دوسرا خواتین کا آزاد ہونا۔ ہندوستان کے کسی دوسرے مقام پر لوگ ترائی کی مانند بے داغ کپڑے پہنے نہیں دکھائی دیتے اور نہ ہی کسی اور جگہ کوئی لڑکی اتنی ہمت کرتی کہ مرد و زن کے ہجوم کے سامنے کھڑی ہوتی جس میں دو سفید فام اس کا مقدمہ سن رہے ہوں، اسے اس بات کی اجازت بھی مل پاتی۔ پھر اینڈرسن نے چاڈی سے پوچھا کہ وہ کیا تجویز کرتا ہے تو اس نے جواب دیا: ‘حضور، آپ میرے مائی باپ ہیں۔ میں آپ کے پاس انصاف کے لیے آیا ہوں۔ اگر آپ میری بیوی کو واپس لوٹنے پر مجبور نہیں کر سکتے تو مجھے اس کا معاوضہ دلائیں۔‘ اینڈرسن نے پوچھا: ‘کیا معاوضہ چاہتے ہو؟‘ چاڈی بولا: ‘مجھے ایک سو پچاس روپے چاہییں۔‘ اس پر مجمعے میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔ ‘بہت زیادہ ہے۔ ‘اتنا زیادہ معاوضہ؟‘ ‘اس کی یہ قیمت غلط ہے۔‘ جب اینڈرسن نے کالو سے پوچھا کہ آیا وہ تلنی کے لیے ڈیڑھ سو روپے ادا کرنے کو تیار ہے تو اس نے جواب دیا کہ یہ قیمت بہت زیادہ ہے اور بتایا کہ بکسر کے ہر انسان کو علم ہے کہ چاڈی نے تلنی کے ایک سو روپے دیے تھے۔ اس نے دلیل دی کہ ایک سو روپے ‘کنواری‘ کے تھے اور چونکہ اب وہ کنواری نہیں ہے، سو وہ محض پچاس روپے ادا کرے گا۔ اب مجمع دو حصوں میں بٹ گیا۔ کچھ کا خیال تھا کہ ڈیڑھ سو روپے بہت زیادہ ہیں اور کچھ یہ کہہ رہے تھے کہ پچاس روپے بہت کم ہیں۔

    آخرکار دونوں اطراف کی باتیں سن کر، جن میں انتہائی باریک اور ذاتی تفاصیل بھی شامل تھیں اور جنہیں تلنی نے انتہائی دلچسپی سے سنا، اینڈرسن نے تلنی کی قیمت 75 روپے مقرر کی، جو کالو نے چاڈی کو دینے تھے۔ کالو نے نیفے سے تھیلی نکال کر اینڈرسن کے سامنے قالین پر خالی کر دی۔ کل رقم چاندی کے باون کلدار روپے بنی۔ پھر کالو کے دو دوست اس کی مدد کو آئے اور تیئس روپے شامل کر دیے اور اینڈرسن نے چاڈی کو رقم لینے کا کہا۔ جب اس نے رقم گن کر تسلی کر لی تو میں نے دیکھا کہ وہ عورت جو بہت کمزور تھی اور انتہائی تکلیف سے چل کر گاؤں سے ہماری جانب آئی تھی اور دیگر لوگوں سے ہٹ کر بیٹھی رہی، بمشکل اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی: ‘اور میرا کیا ہوگا مائی باپ؟‘ اینڈرسن نے پوچھا: ‘تم کون ہو؟‘ اس نے جواب دیا: ‘میں کالو کی بیوی ہوں۔‘

    یہ طویل قامت اور انتہائی کمزور خاتون تھی جس کے تن سے جیسے تمام تر لہو نچوڑ لیا گیا ہو۔ اس کا چہرہ بالکل سفید تھا اور انتہائی بڑھی ہوئی تلی کی وجہ سے اس کا پیٹ نکلا اور پیر سوجے ہوئے تھے جو ملیریا کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ترائی میں ملیریا کی بیماری عام ہے۔ تھکی ہوئی آواز میں اس نے بتایا کہ اب کالو نے دوسری بیوی خرید لی ہے تو وہ بے گھر ہو جائے گی۔ چونکہ اس کے کوئی رشتہ دار اس گاؤں میں نہیں رہتے اور بیماری کی وجہ سے وہ کام کے قابل بھی نہیں رہی تو وہ عدم توجہی اور بھوک سے مر جائے گی۔ پھر اس نے اپنا چہرہ ڈھانپا اور سسکیاں لینے لگی۔ اس کا پورا بدن لرز رہا تھا اور آنسو نیچے گر رہے تھے۔
    یہ غیر متوقع اور پیچیدہ صورتحال تھی اور اینڈرسن کے لیے اس کا حل نکالنا آسان نہ تھا۔ جتنی دیر کالو کا مقدمہ چلتا رہا، کسی نے اشارتاً بھی کالو کی پہلی بیوی کا نہیں بتایا تھا۔ اس عورت کی تکلیف دہ سسکیوں کو زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ تلنی جو ابھی تک کھڑی تھی، بھاگ کر اس بیچاری عورت کے قریب گئی اور اسے اپنی بانہوں میں لے کر بولی: ‘بہن، رو مت۔ ایسے مت کہو کہ تم بے گھر ہو، میں کالو کے دیے ہوئے جھونپڑے میں تمہارے ساتھ رہوں گی اور میں خود تمہارا خیال رکھوں گی اور کالو جو بھی مجھے دے گا، اس میں سے آدھا تمہارا ہوگا۔ میری بہن، مت رو۔ آؤ میرے ساتھ میرے جھونپڑے کو چلو۔‘

    جب تلنی اور بیمار خاتون چلی گئیں تو اینڈرسن نے کھڑے ہو کر زور سے اپنا ناک صاف کیا اور کہا کہ پہاڑی ہوا بہت سرد ہے اور آج کی سماعت یہیں تمام ہوتی ہے۔ شاید پہاڑی ہوا نے دیگر افراد پر بھی اینڈرسن کی طرح اثر کیا تھا کیونکہ بہت سارے دیگر لوگ بھی اپنا ناک صاف کر رہے تھے۔ مگر سماعت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ چاڈی اینڈرسن کے پاس پہنچ کر بولا کہ وہ اپنا مقدمہ واپس لیتا ہے۔ اس نے اپنی عرضی پھاڑ ڈالی اور اپنے نیفے سے پچہتر روپے نکال کر بولا: ‘کالو اور میں ایک ہی گاؤں سے ہیں اور اب چونکہ اس نے دو پیٹ بھرنے ہیں اور ایک کو زیادہ طاقت والی خوراک درکار ہے، سو اسے یہ رقم درکار ہوگی۔ مائی باپ، آپ کی اجازت سے میں یہ رقم اسے واپس کرتا ہوں۔‘

    سرخ فیتے سے قبل اینڈرسن نے باہمی اتفاق سے سیکڑوں، بلکہ ہزاروں ایسے مقدمات نمٹائے تھے جن میں فریقین کو ایک پائی کی فیس بھی ادا نہیں کرنی پڑی۔ چونکہ اب سرخ فیتہ متعارف ہو چلا ہے، سو ان مقدمات کو عدالت لے جانا پڑتا ہے اور اس دوران فریقین سے بھاری خراج وصول کیا جاتا ہے جہاں سے نفرت اگتی ہے اور نتیجتاً مزید مقدمات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو غریب، سادہ اور ایماندار محنت کشوں کو دیوالیہ اور وکلاء کو امیر بناتا جاتا ہے۔

  • جم کاربٹ: ماہرِ شکاریات جو ہندوستانیوں کے لیے "دیوتا” تھا

    جم کاربٹ: ماہرِ شکاریات جو ہندوستانیوں کے لیے "دیوتا” تھا

    برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں کئی انگریز افسران نے حکومتی اور انتظامی عہدوں پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں جن میں سے بعض اپنی پیشہ ورانہ قابلیت اور صلاحیتوں کے علاوہ شخصی اوصاف کی وجہ سے بھی یہاں کے لوگوں میں مقبول ہوئے۔ جم کاربٹ انہی میں سے ایک تھا۔ اس زمانے میں ہندوستان کے کئی دیہات میں لوگ اسے اپنا مسیحا کہتے تھے اور اکثر اسے دیوتا بھی مانتے تھے۔

    اس دور میں‌ برصغیر میں‌ توہم پرستی عام تھی اور اکثر لوگ اعتقاد کی کم زوری کے سبب ناگہانی آفات، ماورائے عقل یا ایسے واقعات جن کی بظاہر کوئی وجہ سامنے نہ ہو، انھیں جنّات، بھوت پریت یا کسی نادیدہ مخلوق کی کارستانی سمجھ لیتے تھے اور خوف زدہ ہوجاتے تھے۔ یہ باتیں بڑھا چڑھا کر دوسروں کو بتائی جاتیں اور ان کا خوب چرچا ہوتا۔ ہندوستان میں‌ جنگلات کے قریبی دیہاتی جنگلی جانوروں بالخصوص درندوں سے بڑے تنگ تھے جو آبادی پر حملہ کرکے انسانوں کا شکار کر لیتے تھے۔ کبھی وہ اپنے شکار کو دبوچ کر اپنے ساتھ جنگل میں لے جاتے اور کبھی گاؤں والوں کو بھنبھوڑی ہوئی اور مسخ شدہ لاشیں ملتی تھیں۔ جم کاربٹ نے اُن جنگلی درندوں کا مقابلہ کیا اور کئی آدم خور شیر اور تیندوے ہلاک کیے اور لوگوں میں توہم پرستی کو دور کرنے کی کوشش کی۔

    جم کاربٹ ایک مشہور شکاری، مہم جُو اور مصنّف تھا۔ وہ ہندوستان میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین برطانوی تھے۔ یہ جوڑا بسلسلۂ ملازمت برطانیہ سے نینی تال آیا تھا اور یہیں 25 جولائی 1875 کو جم کاربٹ نے آنکھ کھولی۔ جم کاربٹ کا بچپن ہمالیہ پہاڑ کی ترائی میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے ”کالا ڈھنگی“ میں بسر ہوا۔ اس نے ہندوستان کے باشندوں کے درمیان دیہی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ شروع ہی سے فطرت کا دلدادہ تھا۔ جنگلی حیات میں دل چسپی کے سبب وہ جنگلات میں فوٹو گرافی کا شوق پورا کرتے ہوئے اپنا وقت گزارتا تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد جم کاربٹ کینیا جا بسا اور وہیں 19 اپریل 1955 میں 79 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پائی۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی جم کاربٹ نے اپنی چھٹی کتاب مکمل کی تھی۔

    جم کاربٹ کو ماہرِ‌ شکاریات بھی کہا جاتا ہے جس نے کئی ایسے درندوں کو ہلاک کیا تھا جنھیں دوسرے شکاری نہیں‌ مار سکے تھے۔ 1907 سے 1938 کے دوران جم کاربیٹ نے مشہور ہندوستانی علاقے چمپاوت میں ایک آدم خور شیرنی، ردر پریاگ کا تیندوا، چوگڑھ کی آدم خور شیرنیوں اور پانار میں بھی اس تیندوے کو شکار کیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کئی انسانوں کو ہڑپ کرچکا ہے۔ اس وقت کے ریکارڈ کے مطابق یہ وہ درندے تھے جن کے حملوں میں مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ جم کاربٹ کو کماؤں کے علاقے میں خاص طور پر لوگوں سے بہت عزّت اور پیار ملا۔ وہاں کے لوگ اسے سادھو مانتے تھے۔ اس کی وجہ جم کاربٹ کا مقامی لوگوں سے اچھا برتاؤ اور ان کے لیے ہم دردی، خلوص اور نیک نیتی بھی تھی۔

    دو دہائی تک محکمۂ ریلوے سے وابستہ رہنے والا جم کاربٹ پہلی جنگِ عظیم کے دوران فرانس میں فوجی عہدے دار کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکا تھا۔ وہ ایک سخت کوش انسان تھا اور خطرے کا سامنا کرنا گویا اس کا مشغلہ۔ جم کاربٹ نے اپنی جوانی میں کئی شکار کیے اور وہ بے خطر جنگلات میں داخل ہوجاتا تھا لیکن بڑی عمر میں‌ بھی وہ اسی طرح بھرپور توانائی اور جوش و جذبے سے ان درندوں کو ٹھکانے لگاتا رہا جن کی وجہ سے مقامی لوگ خوف زدہ رہتے تھے۔ 51 برس کی عمر میں جم کاربٹ نے ”روپریاگ “ میں ایک آدم خور کو ہلاک کیا اور جس وقت اس نے ”ٹھاک“ کے ایک درندے کو ٹھکانے لگایا تو وہ 63 برس کا تھا۔

    جم کاربٹ ایک مصنّف بھی تھا۔ اس نے ہندوستان کے باشندوں، درندوں کے حملے اور آدم خوری کے واقعات کے ساتھ اپنی مہم جوئی اور شکار کی تفصیلات بھی رقم کی اور اس کی کتابوں کا بشمول اردو دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ جم کاربٹ کے شکار کی یہ داستانیں بہت مقبول ہوئیں اور آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    اس کا پورا نام ایڈورڈ جیمز کاربٹ تھا جس کی تحریروں میں اکثر مقامات پر ایک ”میگی“ نامی خاتون کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ اس کی ازحد مخلص اور جاں نثار بہن تھیں۔ میگی بھی تقسیمِ ہند کے بعد اپنے بھائی کے ساتھ ہی کینیا چلی گئی تھیں۔ جم کاربٹ نے شادی نہیں کی تھی۔ اس نے اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل کینیا میں نیئیری کے مقام پر ایک بڑے اور بلند و بالا درخت پر نہایت خوبصورت، محفوظ اور آرام دہ کاٹیج تعمیر کروایا تھا اور ان کی جانب سے ملکہ الزبتھ اور پرنس فلپس کو اس کاٹیج میں ایک رات قیام کرنے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔

    جم کاربٹ نے ایک سوانح عمری بھی لکھی تھی جس کے مختلف زبانوں میں‌ تراجم ہوئے اور اردو میں بھی یہ سوانح عمری بہت شوق سے پڑھی گئی۔ مغربی مصنفین نے بھی جم کاربٹ پر بہت کچھ لکھا ہے جس میں مارٹن بوتھ کی کتاب بھی شامل ہے۔ وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں، ’’جم ایک ماہر شکاری ہی نہیں، بہترین فوٹوگرافر بھی تھا۔ وہ جس قدر اپنی بندوق پر فخر کرتا تھا اسی قدر اپنے کیمروں پر بھی فخر کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ کیمرہ رکھتا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ وہ کیمرے کے بغیر گھر سے نکلا ہو۔ اس نے نہ صرف جنگلی حیات کی تصویر کشی کی بلکہ دریاؤں، دیہات، قدرتی خوبصورت مناظر، آسیب زدہ گھاٹیوں اور جنگل میں لگی آگ کی بھی تصویر کشی کی۔ اس نے شیروں کی جو تصویریں لیں ان کا شمار بہترین تصویروں میں ہوتا ہے۔ آرام کی غرض سے لیٹے شیر، وحشت ناک غراتے شیر، اپنے شکار کو گرفت میں لیے شیر۔ ایسی تصویریں پہلے کبھی نہیں لی گئی تھیں۔‘‘ مارٹن کہتے ہیں ’’جم کو جنگلات سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ فوٹو گرافی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو جنگل کی افادیت اور اس کے حسن سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘

  • بنشی کا قصّہ جس کی آواز سننے والے پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے!

    بنشی کا قصّہ جس کی آواز سننے والے پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے!

    اردو زبان کے قارئین کی بڑی تعداد جن میں‌ نوجوان اور بڑے بوڑھے سبھی شامل ہیں، ان کی شکاریات کے موضوع پر تحریروں میں‌ دل چسپی یکساں‌ رہی ہے۔ دنیا بھر میں جنگل کی کہانیاں‌ اور خاص طور پر ماہر شکاریوں کی آپ بیتیاں‌ بہت شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    یہاں ہم ہندوستان کے جنگلوں کے ایک ماہر شکاری جم کاربٹ کی مقبولِ عام کتاب جنگل کہانی سے ایک باب نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    جم کاربٹ کی یہ کتاب Jungle Lore کے نام سے شایع ہوئی تھی جس کا ترجمہ بشمول اردو مختلف زبانوں‌ میں‌ کیا گیا۔ اس کتاب میں جم کاربٹ نے بتایا ہے کہ اس نے جنگل اور مختلف قبائل کے درمیان رہ کر ان کی زبان کیسے سیکھی اور شکار کے طریقے یا درندوں کے بارے میں کیا کچھ جانا۔ اس کے علاوہ اس دوران کیا دل چسپ واقعات پیش آئے، اپنی اور اپنے ساتھیوں کی کچھ شرارتیں اور اپنے دوستوں کی ذہانت و معصومیت کے قصّے بھی لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کتاب بتاتی ہے کہ ہندوستان بالخصوص دیہات میں‌ بھوت پریت، چڑیل اور بدروحوں پر لوگ کتنا یقین رکھتے ہیں اور کیسے بلاتحقیق جھوٹے قصوں کو تسلیم کرکے ڈرتے رہتے ہیں۔ اُس زمانے میں کئی انگریز یہاں رہتے تھے اور جنگلات میں فاریسٹ‌ آفیسر اور کار پرداز کے طور پر ڈیوٹی بھی انجام دیتے تھے۔ یہ اسی نوعیت کے مختلف واقعات اور مقامی لوگوں کے ساتھ جنگل میں جم کاربٹ کے وقت گزارنے کی روداد ہے۔

    "لڑکیاں جن کی عمریں آٹھ سے اٹھارہ کے درمیان میں تھیں، لکڑی سے بنے پل کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں جو کالا ڈھنگی میں دریائے بور پر بنایا گیا تھا۔ ہم پوری توجہ سے ڈینسی کی بھوت پریت کی کہانیاں سن رہے تھے۔ سڑک کے درمیان میں آگ جل رہی تھی جو آس پاس موجود لکڑیاں جمع کر کے جلائی گئی تھی اور اب آگ میں محض دہکتے کوئلے ہی باقی بچے تھے۔ تاریکی چھا رہی تھی اور ڈینسی نے اپنی خوفناک کہانیاں سنانے کے لیے بہترین وقت چنا تھا۔ ایک لڑکی اپنی سہیلی سے کہہ رہی تھی "بار بار پیچھے مڑ کر مت دیکھو۔ مجھے ڈر لگتا ہے”۔

    ڈینسی آئرش النّسل تھا اور جن بھوتوں پر پوری طرح اعتقاد رکھتا تھا۔ اس لیے جب وہ ایسی کہانیاں سناتا تو سماں باندھ دیتا تھا۔ اس رات کی کہانیاں بگڑے چہروں، کڑکڑاتی ہڈیوں، دروازوں کا پراسرار طور پر کھلنا بند ہونا اور پرانی عمارتوں میں سے سیڑھیوں سے خودبخود آوازیں آنا شامل تھیں۔ چونکہ میں نے کبھی آسیب زدہ پرانی عمارتیں نہیں دیکھی تھیں، اس لیے مجھے ڈینسی کی کہانیوں سے کوئی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ جب ڈینسی نے رگوں میں خون جما دینے والی ایک کہانی پوری کی ہی تھی کہ ہمارے سروں کے اوپر سے ایک بوڑھا اُلّو ہو ہو کرتا ہوا شکار کی تلاش میں نکلا۔ یہ الّو سارا دن بیلوں سے گھرے درخت پر اونگھتا رہتا تھا جہاں اسے کوّے اور دیگر پرندے تنگ نہیں کر سکتے تھے۔ یہ درخت ہلدو کا تھا جو برسوں پہلے آسمانی بجلی گرنے سے جل گیا تھا اور ہم سب جو تتلیاں پکڑنے یا غلیل سے شکار کھیلنے آتے تھے، اسے بخوبی پہچانتے تھے۔ اُلّو کی آواز کو بعض ناواقف افراد شیر کی دھاڑ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اُلّو کی آواز کا جواب نہر کے دوسرے کنارے پر موجود اس کی مادہ نے دیا۔ افزائشِ نسل کے علاوہ دونوں اُلّو الگ الگ رہتے تھے۔ اُلّو کی آواز سنتے ہی ڈینسی نے جن بھوتوں کی کہانیاں ختم کر دیں اور بنشی کی کہانیاں شروع کر دیں۔ ڈینسی کو جن بھوت سے بھی زیادہ اعتقاد بنشی پر تھا۔ ڈینسی کے مطابق بنشی ایک عورت کی بد روح ہے جو گھنے جنگلوں میں رہتی ہے اور اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ محض اس کی آواز سننے سے سننے والے اور اس کے پورے خاندان پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے۔ اگر بنشی پر نظر پڑ جائے تو پھر اس بدقسمت فرد کی موت لازمی ہو جاتی ہے۔ بنشی سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ وہ جنگلوں میں پائی جاتی تھی اور میں تتلیوں اور پرندوں کے انڈوں کی تلاش میں جنگلوں میں مٹرگشت کرتا تھا۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ آئرلینڈ میں پائی جانی والی بنشیاں کیسی ہوتی ہیں لیکن مجھے یہ پتہ تھا کہ وہ دو کیسی بنشیاں ہیں جن کی آواز اس نے کالا ڈھنگی کے جنگلوں میں سنی تھی۔ ایک بنشی کے بارے بعد میں بات کرتے ہیں۔ دوسری بنشی کو ہمالیہ کے دامن اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں رہنے والے چڑیل کے نام سے جانتے ہیں۔

    بد ارواح میں چڑیل کو سب سے برا سمجھا جاتا ہے اور یہ عورت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ الٹے پیروں والی یہ چڑیل کسی انسان کو اپنا شکار چن لیتی ہے اور پھر سانپ کی طرح اسے مسمرائز کر کے اس کا شکار کرتی ہے۔ اس سے بچاؤ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ سے آنکھوں کو ڈھک کر اور اگر گھر کے اندر ہوں تو کمبل کو سر تک تان لیا جائے۔

    غار میں رہنے والے انسان چاہے جیسے بھی ہوں، موجودہ دور کا انسان دن کی مخلوق ہے۔ دن کی روشنی میں ہمیں آسانی رہتی ہے اور ہم میں سے اکثر لوگ کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ دن کی روشنی میں چند گھنٹے قبل والی تاریکی کی باتوں پر ہمیں ہنسی آتی ہے۔ جب دن کی روشنی ختم ہوتی ہے اور رات کا اندھیرا ہر طرف چھا جاتا ہے اور ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا تو ہمارا تخیل عجب تماشے دکھانے لگ جاتا ہے۔ جب تخیل کے ساتھ مافوق الفطرت عناصر پر اندھا اعتقاد بھی ساتھ شامل ہو تو عجب نہیں کہ گھنے جنگلوں سے گھرے دیہات میں رات کے وقت لوگوں کا خون خشک ہونے لگ جاتا ہے کہ ان کے پاس سواری کے نام پر اپنی ٹانگیں اور روشنی کے نام پر محض مشعلیں ہوتی ہیں۔

    کئی کئی ماہ ان لوگوں کے ساتھ رہنے اور ان کی زبان بولنے کے سبب ڈینسی کے اپنے توہمات پر مقامی پہاڑی لوگوں کے توہمات کا گہرا غلاف بھی چڑھ چکا تھا۔ ہمارے دیہاتی ہوں یا کہ ڈینسی، ان کی بہادری میں کوئی شک نہیں لیکن مافوق الفطرت پر ان کا اعتقاد انہیں چڑیل یا بنشی کے بارے تحقیق کرنے سے روکتا ہے۔ برسوں میں کماؤں میں رہا اور جنگل میں سیکڑوں راتیں گزاریں، مجھے چڑیل کی آواز تین بار سنائی دی ہے جو ہمیشہ رات کو آتی تھی اور ایک بار اسے دیکھا بھی ہے۔

    مارچ کا مہینہ تھا۔ سرسوں کی بہترین فصل کٹ چکی تھی اور ہمارے کاٹیج کے آس پاس پورا گاؤں خوش تھا۔ سارے مرد، عورتیں اور بچے گا بجا رہے تھے۔ چاند کی گیارہویں یا بارہویں تاریخ تھی اور رات کو بھی دن جیسا سماں تھا۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے اور میگی اور میں رات کا کھانا کھانے ہی لگے تھے پر سکون رات میں اچانک چڑیل کی آواز آئی اور اسے سنتے ہی دیگر تمام آوازیں تھم گئیں۔ صحن کے دائیں کونے پر اور ہمارے کاٹیج سے پچاس گز دور ہلدو کا درخت ہے۔ نسل در نسل گدھوں، عقابوں، بازوں، چیلوں، کوؤں اور دیگر پرندوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اوپری شاخوں کی کھال اتر گئی ہے اور اوپری شاخیں مر چکی ہیں۔ ہمارا بیرونی دروازہ شمالی سرد ہوا سے بچاؤ کی خاطر بند تھا، کو کھول کر میں اور میگی برآمدے میں نکلے اور عین اسی وقت چڑیل پھر بولی۔ یہ آواز ہلدو کے درخت سے آئی تھی اور اس کی سب سے بلند شاخ پر چڑیل بیٹھی تھی۔

    مختلف آوازوں کو آپ لکھ کر ظاہر کر سکتے ہیں جیسے کوئی، ٹیپ ٹیپ کی آواز جو ہُدہُد پیدا کرتا ہے، لیکن چڑیل کی آواز کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس کوئی الفاظ نہیں۔ اگر میں ایسا کہوں کہ انتہائی اذیت کا شکار انسان چیخ رہا ہو یا کوئی روح انتہائی تکلیف میں ہو تو اس سے بات واضح نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم نے یہ آوازیں کبھی سنی ہی نہیں۔ نہ ہی یہ آواز جنگل کی کسی آواز سے ملتی جلتی تھی کیونکہ یہ آواز ہماری دنیا کی لگتی ہی نہیں تھی اور اسے سنتے ہی رگوں میں خون جمنے اور دل کی دھڑکن رکنے لگ جاتی تھی۔ یہ آواز میں نے پہلے بھی کئی بار سنی تھی اور میرا اندازا تھا کہ یہ کوئی مہاجر الّو ہے کیونکہ ہمارے مقامی الّوؤں کی آوازیں میرے لیے اجنبی نہیں تھیں اور میں انہیں بخوبی پہچانتا ہوں۔ کمرے میں گھس کر میں نے وہ دوربین اٹھائی جو پہلی جنگ عظیم میں میں دشمن کے توپ خانے کو تلاش کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا تھا اور بہترین قسم کی دوربین تھی۔ اس دوربین کی مدد سے میں نے اس پرندے کا بغور جائزہ لیا۔ آپ کو اس نیت سے بتا رہا ہوں کہ شاید آپ اس پرندے کو مجھ سے بہتر جانتے ہوں:

    اس پرندے کی جسامت سنہرے عقاب سے تھوڑی سی چھوٹی تھی۔ نسبتاً لمبی ٹانگوں پر سیدھا کھڑا تھا۔ دُم نسبتاً چھوٹی لیکن الّو سے بڑی تھی۔ الّو جیسا گول سر نہیں تھا اور نہ ہی الو جیسی چھوٹی گردن۔ سَر پر کوئی تاج یا سینگ نہیں تھے۔ جب یہ بولا، جیسا کہ ہر نصف منٹ بعد بولتا تھا، سر کو آسمان کی جانب بلند کر کے اور پوری چونچ کھول کر بولتا تھا۔ پورا جسم کالے رنگ کا تھا لیکن عین ممکن ہے کہ گہرا بھورا ہو جو چاندنی میں مجھے سیاہ دکھائی دیا۔

    میرے پاس 28 بور کی شاٹ گن رکھی تھی لیکن یہ پرندہ اس کی مار سے دور بیٹھا تھا اور رائفل استعمال کرنے سے مجھے جھجھک ہو رہی تھی کہ چاندنی رات میں رائفل کا نشانہ اس طرح کے پرندے پر لینا بہت مشکل ہوتا ہے اور اگر نشانہ خطا جاتا تو جہاں تک رائفل کی آواز جاتی، لوگوں کو یقین ہو جاتا کہ چڑیل پر رائفل کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔ بیس بار بولنے کے بعد اس پرندے نے پر کھولے اور اڑ کر اندھیرے میں نظروں سے غائب ہو گیا۔

    ساری رات گاؤں پر خاموشی رہی اور اگلے دن کسی نے بھی چڑیل کا ذکر نہیں کیا۔ جیسا کہ مجھے بچپن میں کنور سنگھ نے سمجھایا تھا کہ جنگل میں شیر کا نام کبھی مت لینا، ورنہ شیر سے لازمی ٹاکرا ہو گا۔ اسی وجہ سے پہاڑی علاقے کے لوگ چڑیل کا ذکر نہیں کرتے۔

    کالا ڈھنگی میں سردیاں بسر کرنے والے دونوں خاندانوں کے بچوں کی کل تعداد 14 تھی۔ میرا چھوٹا بھائی اتنا چھوٹا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ گھر سے باہر رات کو بون فائر یا تالاب میں نہانے کے لیے نہیں آ سکتا تھا، اس لیے اسے شمار کرنا فضول ہے۔ میں ان 14 بچوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ سب سے چھوٹا لڑکا ہونے کی وجہ سے مجھے ہر وہ کام کرنا پڑتا تھا جو مجھے سخت ناپسند تھے۔ مثلاً ہمارے بچپن میں لڑکیاں جب ہماری جاگیر کے کنارے والی نہر پر نہانے جاتیں تو کسی لڑکے کو ساتھ لازمی جانا پڑتا تھا۔ لڑکیاں اتوار چھوڑ ہر روز نہانے جاتی تھیں۔ اس بات کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اتوار کو کیوں نہ نہایا جائے۔ لڑکیوں کے شب خوابی کے لباس اور تولیے اٹھانا بھی میری ذمہ داری ہوتی تھی کیونکہ اُن دنوں تیراکی کے لباس نہیں ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ جب لڑکیاں نہا رہی ہوں تو نزدیکی پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے مردوں سے انہیں خبردار کرنا بھی میری ذمہ داری ہوتی تھی۔ نہر پختہ تھی اور دس فٹ چوڑی اور تین فٹ گہری تھی۔ جہاں اس نہر سے ہماری جاگیر کو آبپاشی کا پانی جاتا، اس جگہ سر ہنری ریمزے کے حکم پر نہر کو کھود کر چند گز کے لیے چھ فٹ گہرا کر دیا گیا تھا۔ ہر روز جب لڑکیاں نہانے کو جاتیں تو مجھے حکم ملتا کہ کسی لڑکی اس گہری جگہ ڈوبنے نہ دوں۔ کاٹن کے پتلے شب خوابی کے لباس پہن کر جب تین فٹ گہرے پانی میں پیر پھسلے یا اچانک بیٹھنا ہو تو سارا لباس ہوا بھرنے کے بعد سطح پر تیرنے لگ جاتا تھا اور ہر لڑکی پانی میں پہنچتے ہی یہی کچھ کرتی تھی۔ جب بھی ایسا ہوتا، اور یہ بار بار ہوتا تھا، مجھے سخت حکم تھا کہ دوسری جانب دیکھنے لگ جاؤں۔

    جب میں لڑکیوں کی نگرانی کر رہا ہوتا اور بوقتِ ضرورت دوسری جانب دیکھتا تو اس وقت دوسرے لڑکے نہر کے ایک سرے پر موجود گہرے تالاب میں نہا رہے ہوتے اور غلیل سے درختوں سے پھول گراتے یا پرندوں کا شکار کرنے کی کوشش کرتے۔ سیمل کے درختوں پر پرندے اور گلہریاں کھانے سے زیادہ پھول نیچے گراتے جو بعد میں جنگلی سور اور ہرن کھاتے۔ پیپل کے درخت پر بیٹھا الّو ہمیشہ اتنا محتاط رہتا کہ کبھی بھی اس پر غلیل سے حملہ نہیں کیا جا سکتا تھا پھر بھی لڑکے اس پر غلہ چلا دیتے۔ بڑے تالاب پر پہنچتے ہی مقابلہ شروع ہو جاتا کہ کون سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑتا ہے۔ اس مقصد کے لیے گھر میں بنی دستی بنسیاں اور دھاگوں کی ریلیں استعمال ہوتی تھیں۔ جب مچھلی پکڑنے والی پیسٹ ساری ختم ہو جاتی یا پانی میں گر جاتی اور چند ہی مچھلیاں پکڑی گئی ہوتیں تو پھر کپڑے اتار کر سارے ہی تالاب میں نہانے کے لیے چھلانگیں مارتے اور مقابلہ ہوتا کہ دوسرے کنارے کو پہلے کون پہنچے گا۔ جب سارے لڑکے ان دلچسپ مشغلوں میں مصروف ہوتے، میں ان سے ایک میل دور بیٹھا لڑکیوں کی جھڑکیان سن رہا ہوتا کہ اپنے خیالات میں مگن ہونے کی وجہ سے میں لڑکیوں کو پاس سے گزرتے ہوئے کسی دیہاتی کا بتانا بھول جاتا تھا۔ تاہم اس بیگار کا ایک مثبت پہلو یہ بھی تھا کہ مجھے لڑکیوں کے سارے خفیہ منصوبے پہلے سے پتہ چل جاتے جو وہ لڑکوں کے خلاف بالعموم اور ڈینسی اور نیل فلیمنگ کے خلاف بالخصوص بناتیں۔

    ڈینسی اور نیل دونوں ہی آئرش النسل تھے اور یہی ان کی واحد مشترکہ خاصیت تھی۔ ڈینسی پستہ قد، بالوں سے بھرا اور کسی ریچھ کی مانند طاقتور تھا تو نیل بیدِ مجنون کی مانند نازک اور پھول کی مانند کمزور تھا۔ ڈینسی رائفل ہاتھ میں لیے جنگل میں پیدل شیروں کا تعاقب کر کے شکار کرتا تھا تو نیل کو جنگل کے نام سے ہی بخار چڑھ جاتا تھا اور اس نے کبھی بندوق بھی نہیں چلائی تھی۔ ان میں ایک اور مشترکہ بات بھی تھی کہ دونوں ہی ایک دوسرے سے پوری طرح نفرت کرتے تھے کہ دونوں ہی بیک وقت ساری لڑکیوں پر عاشق تھے۔ ڈینسی کا باپ ایک جنرل تھا جس کی خواہش تھی کہ ڈینسی فوج میں جائے اور ڈینسی کے انکار پر اسے عاق کر دیا تھا۔ ڈینسی میرے بڑے بھائیوں کے ساتھ سرکاری اسکول میں پڑھتا تھا اور ابھی اس کی محکمہ جنگلات کی ملازمت کی چھٹیاں چل رہی تھیں اور اسے توقع تھی کہ جلد ہی پولیٹکل سروس میں اسے جگہ مل جائے گی۔ نیل میرے بڑے بھائی ٹام کے ماتحت ڈاکخانے میں کام کرتا تھا۔ اگرچہ دونوں ہی کسی لڑکی سے شادی کے قابل نہیں تھے لیکن پھر بھی ان کی باہمی نفرت اور لڑکیوں سے محبت عروج پر تھیں۔

    نہر کنارے بیٹھ کر لڑکیوں کی باتوں سے پتہ چلا کہ نیل پچھلی بار جب کالاڈھنگی آیا تو بہت مغرور ہو گیا تھا اور اس نے خوامخواہ فرض کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ ڈینسی بہت شرمیلا اور جھجھک رہا تھا۔ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے نیل کو بے عزت کرنا اور ڈینسی کو آگے لانا ضروری تھا لیکن تھوڑا سا۔ اگر زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی تو ڈینسی بھی فرض کرنے لگ جائے گا۔ اب فرض کرنے سے کیا مراد تھی، مجھے نہ تو پتہ تھا اور نہ ہی مجھے اچھا لگا کہ پوچھتا۔ ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کی نیت سے انہوں نے سوچا کہ دونوں کے ساتھ کوئی حرکت کی جائے۔ کئی منصوبے بنے لیکن آخر جس منصوبے پر اتفاق ہوا، اس میں میرے بڑے بھائی ٹام کی مدد درکار تھی۔ سردیوں میں نینی تال کے ڈاک خانے میں کام بہت ہلکا ہوتا تھا اور ٹام کی عادت تھی کہ وہ نیل کو ہر دوسرے ہفتے ہفتے کی شام سے پیر کی صبح تک کی چھٹی دے دیا کرتا تھا۔ یہ چھٹی وہ کالا ڈھنگی میں موجود دونوں میں سے کسی ایک خاندان کے ساتھ گزارتا تھا اور اپنی طبعیت اور اچھی آواز کی وجہ سے ہمیشہ اسے خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے ٹام کو بذریعہ خط یہ کہا گیا کہ نیل کو ہفتے کی شام کو کسی نہ کسی بہانے سے دیر تک روک کر بھیجا جائے تاکہ پندرہ میل کا سفر طے کر کے جب وہ کالاڈھنگی پہنچے تو رات ہو رہی ہو۔ مزید ٹام نیل کو یہ بھی بتائے کہ اس کی آمد میں تاخیر کی وجہ سے وہ اسے بتا دے کہ عین ممکن ہے کہ لڑکیاں اس کی تاخیر سے پریشان ہو کر شاید اس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوں۔ مزید یہ بھی طے کیا گیا کہ ڈینسی اپنے شکار کردہ ریچھوں میں سے ایک کی کھال پہن کر لڑکیوں کے ساتھ نینی تال کی طرف دو میل جا کر سڑک کے ایک تنگ موڑ کے پیچھے جا کر چھپ جائے۔ جب نیل پہنچے تو ڈینسی اس پر کسی ریچھ کی طرح حملہ کرے گا اور ریچھ کو دیکھتے ہی نیل بھاگ کر سیدھا لڑکیوں کی بانہوں میں جا سمائے گا جو اس کی کہانی سن کر اس کی بزدلی پر ہنسیں گی اور جب ڈینسی بھی اپنی کھال اتار کر آن پہنچے گا تو خوب لطف رہے گا۔ ڈینسی نے اس منصوبے پر اعتراض کیا تو اسے بتایا گیا کہ اس کے سینڈوچ میں دو ہفتے قبل جو لال رنگ کی دھجی نکلی تھی اور جس کی وجہ سے اسے پکنک پر سخت شرمندگی ہوئی تھی، وہ نیل نے تجویز کی تھی۔

    کالا ڈھنگی سے نینی تال کی سڑک پر آمد و رفت سورج غروب ہوتے ہی رک جاتی تھی اور مطلوبہ دن ڈینسی ایک ریچھ کی کھال پہن کر لڑکیوں کے ساتھ مطلوبہ مقام کو چل دیا۔ راستے میں کبھی وہ دو پیروں تو کبھی چاروں پر چلتا۔ چونکہ شام کافی گرم تھی اور ڈینسی نے اپنے کپڑوں کے اوپر کھال پہنی تھی اس لیے بے چارہ پسینے میں شرابور تھا۔ دوسری طرف نینی تال میں نیل کو ایک کے بعد دوسرا کام دیا جا رہا تھا حتیٰ کہ اس کے عام طور پر روانگی کا وقت بھی گزر گیا۔ کافی دیر بعد جب ٹام نے اسے اجازت دی تو جانے سے قبل ٹام نے اس کے ہاتھ میں ایک دو نالی بندوق اور دو کارتوس بھی پکڑا دیے اور بتایا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کام آئیں گے۔ نینی تال سے کالاڈھنگی کا راستہ سارا بالعموم اترائی ہے اور ابتدائی آٹھ میل مزروعہ زمینوں سے ہو کر گزرتے ہیں اور پھر اس سے آگے عین کالاڈھنگی تک سارا راستہ گھنے جنگل سے گزرتا ہے۔ ڈینسی اور لڑکیاں اپنی اپنی جگہوں پر پہنچ گئیں اور جب روشنی کم ہونے لگی تھی کہ سڑک سے نیل کے گانے کی آواز آئی۔ شاید اپنا حوصلہ بڑھانے کے لیے وہ گا رہا تھا۔ آواز قریب سے قریب ہوتی چلی آئی اور لڑکیوں نے بعد میں بتایا کہ انہوں نے نیل کو کبھی اتنا اچھا گاتے نہیں سنا تھا۔ جب نیل اس موڑ پر پہنچا جس کے پیچھے ڈینسی اس کا منتظر تھا، ڈینسی نے پیروں پر کھڑا ہو کر ریچھ کی طرح آواز نکالی۔ عین اسی وقت نیل نے بندوق چھتیائی اور سیدھا ڈینسی پر دو فائر کر دیے۔ دھوئیں کے بادل نے نیل کے سامنے پردہ سا تان دیا اور جب وہ بھاگا تو اسے "ریچھ” کے نیچے کھائی میں لڑھکنے کی آواز آنے لگی تھی۔ عین اسی وقت لڑکیاں بھاگ پر اس جگہ پہنچیں۔ لڑکیوں کو دیکھتے ہی نیل نے اپنی بندوق لہرائی اور بتایا کہ ابھی ابھی اس نے ایک بہت بڑے ریچھ کو مار ڈالا ہے جس نے اس پر حملہ کیا تھا۔ جب لڑکیوں نے پوچھا کہ ریچھ کہاں گیا تو نیل نے بے پروائی سے نیچے کھائی کی طرف بندوق سے اشارہ کیا کہ ادھر ہے۔ پھر اپنے شکار کو دیکھنے کے لیے نیل نے نیچے اترنے کا سوچا اور لڑکیوں سے بھی کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلیں کہ ریچھ تو کب کا مر چکا ہے۔ تاہم لڑکیوں نے سختی سے انکار کیا اور کہا کہ اسے اکیلے ہی جانا ہو گا۔ لڑکیوں کے بہتے آنسوؤں سے نیل کو بہت خوشی ہوئی کہ لڑکیاں اس کے بچ نکلنے پر کتنی خوش ہو رہی ہیں۔ خیر وہ نیچے اترا۔ ڈینسی نے نیل سے اور نیل نے ڈینسی سے کیا کہا اور کیا نہیں، اس بارے کوئی معلومات نہیں لیکن جب کافی دیر بعد دونوں اوپر پہنچے تو ڈینسی نے بندوق جبکہ نیل نے ریچھ کی کھال اٹھائی ہوئی تھی۔ ڈینسی بے چارہ سینے پر دو گولیاں کھا کر سیدھا نیچے گرا لیکن ریچھ کی کھال نے اسے چوٹوں سے بچا لیا۔ جب نیل سے پوچھا گیا کہ بھئی تمہارے پاس بندوق کیسے آئی کہ جس سے ایک مہلک حادثہ ہوتے ہوتے بچا۔ اس نے بتایا کہ یہ بندوق اور کارتوس اسے ٹام نے دیے تھے۔ ساری ذمہ داری ٹام کی غائب دماغی پر ڈال دی گئی۔

    چونکہ سوموار کو سرکاری تعطیل تھی اس لیے ٹام اتوار کی رات کو آن پہنچا تاکہ چھٹی گھر پر گزار سکے۔ فوراً ہی اسے ناراض لڑکیوں نے گھیر لیا کہ اس نے نیل کو بندوق اور کارتوس کیوں دیے تھے جس سے ڈینسی کی زندگی خطرے میں پڑی۔ ٹام نے آرام سے ساری باتیں سنیں۔ جب لڑکیاں اس جگہ پہنچیں جب نیل کے فائر سے ڈینسی کھائی میں جا گرا تو لڑکیاں اس کی بے وقت موت پر رونے لگیں تھیں کہ ٹام قہقہے لگانے لگا اور پھر اس نے بتایا کہ جب اسے خط ملا تو اسے احساس ہوا کہ شرارت ہونے لگی ہے۔ اس لیے اس نے کارتوسوں سے گولیاں نکال کر آٹا بھر دیا تھا۔ اس سارے مذاق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈینسی مزید شرمیلا ہو گیا جبکہ نیل کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔

  • بنیے کا ادھار

    بنیے کا ادھار

    ‘میرا ہندوستان‘ جم کاربٹ کی تصنیف ہے جو ایک شکاری تھے اور برطانوی راج میں‌ متعدد آدم خور شیروں اور تیندوؤں کو ہلاک کرکے شہرت پائی۔ جم کوربٹ نے اس زمانے کے حالات و واقعات اور اپنی مہمّات پر کتب بھی یادگار چھوڑی ہیں۔

    یہاں‌ ہم جم کاربٹ کی مذکورہ کتاب کا انتساب نقل کرتے ہوئے، اس کے ساتھ بدھو کے عنوان سے وہ قصّہ بھی نقل کررہے ہیں‌ جس سے اس دور میں ساہو کاروں کی سفاکی اور غریب و مجبور انسانوں کی درد ناک زندگی ہمارے سامنے آتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘میرا ہندوستان‘ میں، مَیں نے اس ہندوستان کے بارے بات کی ہے جو میں جانتا ہوں اور جس میں چالیس کروڑ انسان آباد ہیں اور ان میں نوّے فیصد انتہائی سادہ، ایمان دار، بہادر، وفادار اور جفاکش ہیں اور روزانہ عبادت کرتے ہیں اور انہیں اور ان کی ملکیت کا تحفظ حکومتِ وقت کا کام ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی محنت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہ لوگ بلاشبہ غریب ہیں اور انہیں ‘ہندوستان کے بھوکے عوام‘ کہا جاتا ہے اور ان کے درمیان میں نے زندگی گزاری ہے اور مجھے ان سے محبت ہے اور یہ کتاب میں ان لوگوں سے منسوب کرتا ہوں جو ہندوستان کے غریب ہیں۔

    ………..
    بدھو ذات کا اچھوت تھا اور جتنے سال وہ میرے پاس کام کرتا رہا، ایک بار بھی نہیں مسکرایا کہ اس کی زندگی اتنی مشکل تھی۔ اس کی عمر پینتیس برس تھی اور لمبا اور دبلا تھا۔ اس کی بیوی اور دو بچّے بھی اس کے ساتھ تھے جب وہ میرے پاس ملازمت کے لیے آیا۔

    چوں کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ کام کرے، سو میں نے اسے واحد ممکن کام پر لگا دیا جو براڈ گیج سے میٹر گیج والی بوگیوں میں کوئلے کی منتقلی تھا۔ دونوں بوگیوں میں چار فٹ کی ڈھلوان ہوتی تھی اور کوئلہ کچھ تو پھینک کر اور کچھ ٹوکریوں میں اٹھا کر منتقل کیا جاتا تھا۔ یہ کام انتہائی دشوار تھا کہ پلیٹ فارم پر چھت نہیں تھی۔ سردیوں میں یہ لوگ شدید سردی میں کام کرتے اور اکثر کئی کئی روز مسلسل بارش میں بھیگتے رہتے اور گرمیوں میں اینٹوں کے پلیٹ فارم اور دھاتی بوگیوں سے نکلنے والی شدید گرمی ان کے ننگے پیروں پر چھالے ڈال دیتی۔ اپنے بچّوں کے لیے روٹی کے حصول کی خاطر نوارد کے ہاتھوں میں بیلچہ انتہائی ظالم اوزار ہے۔ پہلے روز کے کام کے بعد کمر درد سے ٹوٹ رہی ہوتی ہے اور ہتھلیاں سرخ ہو چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے روز ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں اور کمر کا درد اور بھی شدید تر ہو جاتا ہے۔ تیسرے روز چھالے پھٹ جاتے ہیں اور ان میں پیپ پڑ جاتی ہے اور کمر سیدھی کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہفتے یا دس دن انسان محض ہمّت کے بل بوتے پر کام جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے سے بتا رہا ہوں۔

    بدھو اور اس کی بیوی انہی مراحل سے گزرے اور اکثر انہیں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور بمشکل خود کو گھسیٹ کر وہ اس کوارٹر تک جاتے جو میں نے انہیں رہائش کے لیے دیا تھا۔ میں نے انہیں کئی بار بتایا کہ یہ کام ان کے بس سے باہر ہے اور وہ کوئی دوسرا اور نسبتاً آسان کام دیکھیں، مگر بقول بدھو، اس نے آج تک اتنے پیسے نہیں کمائے تھے، سو میں نے انہیں کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ مگر ایک دن آ گیا کہ ان کی کمر کا درد ختم ہو گیا اور وہ کام سے جاتے ہوئے اتنے خوش ہوتے جتنا کام پر آتے ہوئے ہوتے تھے۔اُس وقت میرے پاس دو سو افراد کوئلے کی منتقلی کے لیے کام کر رہے تھے کہ کوئلے کی مقدار بہت زیادہ تھی اور کوئلہ ہمیشہ گرمیوں میں زیادہ بھیجا جاتا ہے۔

    ہندوستان اُس دور میں سامانِ تجارت برآمد کر رہا تھا سو غلّے، افیون، نیل، کھالوں اور ہڈیوں سے بھری ویگنیں کلکتہ جاتیں اور واپسی پر ان میں کوئلہ لدا ہوتا اور کانوں سے کوئلہ آتا۔ اس میں سے پانچ لاکھ ٹن موکمہ گھاٹ سے گزرتا۔

    ایک روز بدھو اور اس کی بیوی کام پر نہ آئے۔ کوئلے والے مزدوروں کے نگران چماری نے بتایا کہ انہیں پوسٹ کارڈ ملا اور وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ جتنی جلدی ممکن ہوا، لوٹ آئیں گے۔ دو ماہ بعد دونوں لوٹے اور اپنے کوارٹر میں رہنے اور کام کرنے لگے۔ اگلے سال تقریباً اسی وقت یہ لوگ پھر غائب ہو گئے۔ تاہم اب ان کی صحت بہتر ہو گئی تھی۔ اس بار وہ لوگ تین ماہ غائب رہے اور واپسی پر تھکے ماندہ اور پریشان حال آئے۔ میری عادت ہے کہ جب تک مشورہ نہ لیا جائے یا کوئی اپنے حالات خود نہ بتائے، میں اپنے عملے کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہندوستانیوں کے لیے یہ دکھتی رگ ہوتی ہے۔ اس لیے مجھ علم نہ ہو سکا کہ ہر سال پوسٹ کارڈ ملنے پر بدھو کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ میرے ملازمین کی ڈاک ان کے نگرانوں کو دے دی جاتی تھی جو متعلقہ بندے کو پہنچاتے تھے۔ اس لیے میں نے چماری کو ہدایت کی کہ جب بھی بدھو کو اگلا پوسٹ کارڈ ملے، وہ بدھو کو میرے پاس بھیج دے۔ نو ماہ بعد جب کوئلے کی آمد و رفت معمول سے زیادہ تھی اور ہر آدمی اپنی بساط سے بڑھ کر کام کر رہا تھا، بدھو پوسٹ کارڈ لیے میرے کمرے میں داخل ہوا۔ پوسٹ کارڈ کی زبان مجھے نہیں آتی تھی سو میں نے بدھو سے کہا کہ وہ پڑھ کر سنائے۔ تاہم وہ خواندہ نہیں تھا اس لیے اس نے بتایا کہ چماری نے پڑھ کر اسے سنایا تھا کہ اس کے مالک کی فصل تیار تھی اور وہ فوراً اسے بلا رہا تھا۔ پھر بدھو نے اس روز مجھے اپنی کہانی سنائی جو ہندوستان کے لاکھوں غریبوں کی کہانی ہے۔

    ‘میرا دادا کھیت مزدور تھا اور اس نے گاؤں کے بنیے سے دو روپے ادھار لیے تھے۔ بنیا نے ایک روپیہ ایک سال کے سود کے طور پر پیشگی رکھوا لیا اور میرے دادا سے بہی کھاتے پر انگوٹھا لگوا لیا (حساب کتاب کا کھاتہ)۔ جب بھی ممکن ہوا، میرا دادا چند آنے سود کے نام پر ادا کرتا رہا۔ دادا کی وفات پر یہ ادھار میرے باپ کو منتقل ہوا اور اُس وقت تک یہ ادھار پچاس روپے بن چکا تھا۔ اس دوران بوڑھا بنیا بھی مر گیا اور اس کے بیٹے نے اس کی جگہ سنبھالی اور کہا کہ چونکہ ادھار بہت بڑھ گیا ہے، سو نئے سرے سے معاہدہ کرنا ہوگا۔ میں نے یہ معاہدہ کیا اور چونکہ میرے پاس اسٹامپ پیپر کے لیے پیسے نہیں تھے، سو بنیے کے بیٹے نے وہ بھی سود اور اصل رقم کے ساتھ لکھ لیے جو اب ایک سو تیس روپے سے زیادہ تھا۔ بنیے کے بیٹے نے ایک شرط پر سود کی شرح پچیس فیصد کرنے کی پیشکش کی کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہر سال اس کی فصلیں کاٹنے کے لیے آیا کروں۔ جب تک سارا ادھار اتر نہ جائے، ہمیں یہ کام کرتے رہنا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق مجھے اور میری بیوی کو بنیے کی فصلیں مفت میں کاٹنی ہوتی ہیں جو الگ کاغذ پر لکھا گیا تھا اور اس پر میرا انگوٹھا لگایا گیا۔ ہر سال کام کے بعد بنیے کا بیٹا کاغذ کی پشت پر حساب کتاب کر کے میرے انگوٹھے لگواتا ہے۔ علم نہیں کہ ادھار اب کتنا بڑھ چکا ہوگا کیونکہ میں نے ابھی تک کوئی پیسہ واپس نہیں کیا۔ اب چونکہ میں آپ کے پاس کام کر رہا ہوں، سو میں نے پانچ، سات اور تیرہ، کل مل ملا کر پچیس روپے ادا کیے ہیں۔‘

    بدھو نے کبھی اس ادھار کی ادائیگی سے انکار کا سوچا بھی نہیں۔ ایسی سوچ ممکن بھی نہیں تھی کہ اس طرح نہ صرف اس کا منہ کالا ہوتا بلکہ اس کے آبا و اجداد کے نام پر بھی دھبہ لگ جاتا۔ اس طرح وہ نقد اور محنت، ہر ممکن طور پر ادھار کی ادائیگی کرتا رہا اور اسے علم تھا کہ کبھی اس ادھار کو ادا نہیں کر پائے گا اور یہ اس کے بیٹے کو منتقل ہو جائے گا۔

    بدھو سے پتہ چلا کہ بنیے کے دیہات میں ایک وکیل بھی رہتا ہے، میں نے اس کا نام اور پتہ لیا اور بدھو کو کام پر لوٹ جانے کا کہا اور اسے یقین دلایا کہ میں بنیے کا معاملہ سنبھالتا ہوں۔ اس کے بعد وکیل سے طویل خط کتابت شروع ہو گئی۔ وکیل مضبوط اعصاب کا برہمن تھا جسے بنیے سے نفرت تھی کہ بنیے نے اسے گھر سے باہر بلا کر اس کی بے عزتی کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے۔ وکیل نے بتایا کہ بہی کھاتا جو وراثت میں ملا تھا، وہ عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا کہ اس پر لگے انگوٹھوں والے افراد مر چکے ہیں۔ بنیا نے بدھو کو دھوکہ دے کر اس سے نئے کاغذ پر دستخط کرائے جس کے مطابق بدھو نے بنیا سے پچیس فیصد شرح سود پر ڈیڑھ سو روپے ادھار لیے تھے۔ وکیل نے بتایا کہ اس کاغذ کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے کہ بدھو اس کی تین قسطیں ادا کر چکا تھا اور ان قسطوں کے ثبوت کے طور پر اس کے انگوٹھے بھی لگے تھے۔ جب میں نے وکیل کو پورے ادھار کی رقم اور پچیس فیصد سود کی رقم بھی بھیجی تو بنیا نے سرکاری کاغذ تو دے دیا مگر وہ ذاتی معاہدہ دینے سے انکار کر دیا جس کے مطابق بدھو اور کی بیوی اس کی فصلیں مفت کاٹتے۔

    جب وکیل کے مشورے پر میں نے بنیے کو بیگار کے مقدمے کی دھمکی دی تو پھر جا کر اس نے معاہدہ ہمارے حوالے کیا۔

    جتنی دیر ہماری خط کتابت ہوتی رہی، بدھو بہت پریشان رہا۔ اس نے مجھ سے اس بارے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر جس طور وہ مجھے دیکھتا تھا، واضح کرتا تھا کہ اس نے طاقتور بنیے کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے مجھ پر شاید بھروسہ غلط کیا ہے۔ اسے یہ بھی فکر ہوگی کہ اگر کسی وقت بنیا آ کر اس سے پوچھے کہ یہ سب کیا ہے تو وہ کیا جواب دے گا۔ ایک روز مجھے مہر لگا ایک موٹا لفافہ ملا جس میں انگوٹھوں کے نشانات سے بھرے کاغذات تھے اور وکیل کی فیس کی ایک رسید بھی شامل تھی اور بدھو کے لیے ایک خط بھی، کہ وہ اب آزاد ہو چکا ہے۔ اس سارے معاملے پر مجھے سوا دو سو روپے ادا کرنے پڑے۔

    اس روز شام کو بدھو کام سے گھر جا رہا تھا کہ میں اسے ملا اور لفافے سے کاغذات نکال کر اسے دیے اور ایک ماچس بھی دی کہ اسے جلا دے۔ اس نے کہا: ‘نہیں صاحب۔ آپ ان کاغذات کو نہ جلائیں۔ آج سے میں آپ کا غلام ہوں اور خدا جانتا ہے کہ ایک روز میں آپ کا ادھار واپس کر دوں گا۔‘ بدھو نہ صرف کم گو تھا بلکہ کبھی مسکرایا بھی نہیں تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ وہ انہیں جلانا نہیں چاہتا تو اپنے پاس رکھ لے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوئے اور جب سیدھا ہو کر گھر جانے کو مڑا تو اس کے کوئلے سے بھرے چہرے سے آنسوؤں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔

    تین نسلوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑا ایک انسان آزاد ہوا مگر لاکھوں ابھی تک قید تھے۔ مگر مجھے اس سے زیادہ کبھی خوشی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی الفاظ بدھو کے خاموش جذبات سے ہوئی تھی جب وہ آنسو بھری آنکھوں سے ٹھوکریں کھاتا اپنی بیوی کو یہ بتانے گیا کہ بنیے کا ادھار اتر چکا ہے اور وہ اب آزاد ہیں۔

  • عالم بخش اور کالا ریچھ (شکاریات)

    عالم بخش اور کالا ریچھ (شکاریات)

    یہ کہانی کالے ریچھ سے متعلق ہے، جو بہت بڑا اور بہت بُرا تھا۔

    میں کئی دوسری کہانیوں میں بتا چکا ہوں کہ تمام ریچھ بدمزاج، ناقابلِ اعتبار اور غصیلے ہوتے ہیں۔ عموماً یہ انسانوں پر بغیر کسی وجہ کے محض اس لیے حملہ کر دیتے ہیں کہ ان کے سوتے ہوئے یا پیٹ بھرتے ہوئے یا ویسے ہی کوئی انسان کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اس لیے مقامی قبائل ریچھوں سے کافی دور رہنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ہاتھیوں سے بھی مقامی لوگ فاصلہ رکھنا بہتر سمجھتے ہیں۔

    یہ ریچھ دیگر کی نسبت انتہائی بدمزاج اور زیادہ کمینہ تھا۔ بہت دور سے بھی انسان کو دیکھ کر وہ ہر ممکن کوشش کر کے انسانوں پر حملہ کرتا۔ اس عجیب رویے کی توجیہ مشکل ہے۔ اس بارے میں کئی کہانیاں مشہور تھیں۔ ایک کے مطابق تو یہ ریچھ پاگل ہو چکا تھا۔ دوسری کہانی کے مطابق یہ ریچھ نہیں بلکہ ریچھنی تھی جس کے بچوں کو کسی انسان نے چرا لیا تو یہ پاگل ہو گئی۔ میرا خیال ہے کہ اس ریچھ کو کسی انسان نے ماضی میں زخمی کیا ہو گا۔ ایک کہانی تو یہ بھی مشہور تھی کہ ایک سال قبل ایک نوجوان لڑکی کو ریچھ نے اغوا کر کے اپنی بیوی بنا لیا تھا۔ یہ لڑکی اس وقت پہاڑی پر بکریاں چرا رہی تھی جہاں ریچھ بھی ایک غار میں رہتا تھا۔ ریچھ اسے اپنی غار میں لے گیا۔ کہانی کے مطابق پھر دیہاتی اس لڑکی کو چھڑانے گئے اور ریچھ کے غصے کے باوجود اسے چھڑا کر لے آئے۔ اسی وجہ سے ریچھ نے انسانوں سے انتقام لینا شروع کر دیا۔ وجہ چاہے جو بھی رہی ہو، ریچھ کے متاثرین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ اس ریچھ کے ہاتھوں کم از کم بارہ افراد ہلاک اور پچیس سے زیادہ مجروح ہوئے تھے۔

    ہر ریچھ کی مانند اس کا پہلا وار ہمیشہ اپنے شکار کے چہرے پر ہوتا تھا جسے وہ اپنے بہت لمبے اور طاقتور ناخنوں سے چیرنا شروع کر دیتا تھا اور ساتھ ساتھ چہرے کو چبانا بھی شروع کر دیتا۔ اس کے زخمی کردہ نصف افراد کی ایک یا دونوں آنکھیں ضائع ہو چکی تھیں۔ بعض کے ناک غائب تھے تو بعض کی رخساروں کی ہڈیاں نکل آئی تھیں۔ جو افراد جاں بحق ہوئے، ان میں تقریباً سبھی کا چہرہ ان کے سَر سے الگ ہو چکا ہوتا تھا۔ مقامی لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ ریچھ آدم خور ہو چکا ہے کیونکہ اس کے شکار کردہ کم از کم تین انسانوں کی لاشیں جزوی کھائی جا چکی تھیں۔
    چونکہ ان افواہوں کی تصدیق کرنے کا موقع مجھے نہیں ملا مگر شاید ان میں کچھ صداقت ہو سکتی ہے کہ ہندوستانی کالا ریچھ مردار بھی کھا لیتا ہے، تاہم عام حالات میں یہ ریچھ سبزی خور ہوتا ہے اور جڑوں، پھل، شہد، دیمک اور اسی طرز کی دیگر چیزیں کھاتا ہے۔ مگر تازہ گوشت چاہے وہ حیوانی ہو یا انسانی، اس سے منہ نہیں موڑتا۔

    یہ ریچھ پہلے ناگوارہ کی پہاڑیوں میں رہتا تھا جو آرسی کیری کے بڑے قصبے کے مشرق میں ہے۔ یہ علاقہ ریاست میسور میں اور بنگلور سے 105 میل اور شمال مغرب میں واقع ہے۔

    انہی پہاڑیوں میں اس نے وارداتیں شروع کی تھیں۔ پھر جوں جوں انسان کا خوف اس کے دل سے نکلتا گیا، اس نے نیچے میدانی علاقوں تک اپنی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھا دیا اور کھیتوں میں لوگوں کو طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت ڈرانے پہنچ جاتا۔ وہ یہاں پائی جانے والی بے شمار چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں سے نکل کر پیٹ بھرنے کہیں بھی پہنچ جاتا۔ سال بھر سے میں اس ریچھ کے بارے اڑتی اڑتی خبریں سن رہا تھا مگر زیادہ توجہ اس لیے نہیں دی کہ ہندوستان میں جنگلی درندوں کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بارے باتیں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں۔ مزید یہ بھی کہ مجھے ریچھوں سے کافی دل چسپی ہے اور شاید اسی وجہ نظرانداز کر گیا۔ میں اس ریچھ کا پیچھا کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ مگر ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ مجھے مجبور ہونا پڑا۔

    میرا ایک مسلمان دوست تھا جس کا نام عالم بخش تھا۔ عالم بخش آرسی کیری اور شموگا کے درمیان واقع ایک مسلمان پیر کے مزار کا متولی تھا۔

    پہلی بار عالم بخش سے میری ملاقات بنگلور سے شموگا جاتے ہوئے ایک تاریک رات ہوئی تھی۔ میں شیر کے شکار پر جا رہا تھا۔ اچانک گاڑی کا پچھلا پہیہ نکل گیا اور گاڑی زور سے سڑک سے ٹکرائی۔ اس وقت میں اکیلا سفر کر رہا تھا اور نیچے اتر کر میں نے مایوسی اور غصے سے گاڑی کا جائزہ لیا۔ خوش قسمتی سے یہ حادثہ اس مزار کے عین سامنے ہوا تھا اور شور سن کر عالم بخش اپنی جھگی سے باہر نکلا۔ میرا مسئلہ دیکھ کر اس نے مدد کرنے کے لیے لالٹین جلایا اور پھر گاڑی کے سامنے پتھر وغیرہ رکھ دیے تاکہ میں گاڑی کو اٹھا سکوں۔ پھر اس نے مجھے گرم چائے کا پیالہ بھی لا کر دیا۔ میں نے پہیہ بدلا اور پھر اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر وعدہ کیا کہ جب بھی یہاں سے گزرا، اس سے لازماً ملاقات کروں گا۔ میں نے اس وعدے کو ہمیشہ نبھایا اور ہر بار اس کے لیے کوئی تحفے تحائف اور دیگر سامان لاتا رہا۔

    مزار سے چار سو گز پیچھے چھوٹی سی پہاڑی ہے جس میں بڑے بڑے پتھر موجود ہیں اور یہاں خار دار جھاڑیاں اگی ہیں۔ اس مقام سے لے کر مزار تک، مون سون کے موسم میں دیہاتی مونگ پھلی بُو دیتے ہیں۔ ہر ریچھ مونگ پھلیوں کا شیدائی ہوتا ہے اور یہ ریچھ بھی تھا۔ یہ پہاڑی ریچھ کی رہائش کے لیے بہترین مقام ہے اور ساتھ ہی مونگ پھلیاں بھی موجود ہیں۔ سو ریچھ نے یہاں رہنا شروع کر دیا۔

    ریچھ کی رہائش ایک بڑے پتھر کے نیچے موجود غار تھی۔ سورج غروب ہوتے ہی وہ بھوک سے بے تاب ہو کر اس غار سے نکل آتا اور جوں جوں تاریکی گہری ہوتی، وہ مونگ پھلی کے کھیتوں کی جانب اترتا دکھائی دیتا۔ یہاں وہ ساری رات پیٹ بھرتا۔ علی الصبح وہ بھرے پیٹ کے ساتھ لوٹ جاتا۔ سکون سے سارا دن سو کر گزارتا۔ میں یہ کہنا بھول گیا تھا کہ پہاڑی کی دوسری جانب ایک قدرتی تالاب تھا۔ سو ریچھ کی تمام تر ضروریات آسانی سے پوری ہو رہی تھیں۔

    اسی دوران مزار کے ساتھ سڑک پر موجود انجیر کے درختوں پر پھل پک گیا اور شاخیں پکے ہوئے انجیروں سے جھک گئیں۔ بہت سارے انجیر نیچے گر جاتے۔ سیکڑوں کی تعداد میں مختلف اقسام کے پرندے دن کے وقت اپنا پیٹ بھرنے آتے۔ رات کو ہندوستانی پھل والی چمگادڑیں پہنچ جاتیں اور شور مچاتے ہوئے اپنا پیٹ بھرتیں۔

    یہ بے شمار پرندے اور جانور دن رات اپنا پیٹ بھرنے کے دوران بہت سارے انجیر گرا بھی دیتے اور کچھ انجیر پک کر خود ہی گر جاتے تو کچھ ہوا سے گرتے۔ ریچھ کو انجیر بھی بہت پسند ہوتے ہیں۔

    اب کھیتوں سے نکل کر وہ انجیر کے درختوں تک آنا شروع ہو گیا جو مزار کے گرد و نواح میں تھے۔ یہاں سے مسئلہ شروع ہوا۔

    عالم بخش کا بائیس سال کا ایک بیٹا تھا جو اس کی بیوی اور بہن کے ساتھ وہیں رہتا تھا۔ ایک رات کھانا کھانے کے بعد جب سب سونے لگے تو لڑکے کو کسی وجہ سے باہر جانا پڑا۔ رات تاریک تھی اور ریچھ پاس ہی انجیر کے درختوں کے نیچے پیٹ بھر رہا تھا۔ اچانک انسان کے ظہور سے ریچھ کو خطرہ محسوس ہوا ہو گا اور اس نے فوراً حملہ کر دیا۔ یہ حملہ حادثاتی تھا اور ریچھ نے چہرے کی بجائے گلے پر حملہ کیا۔ لڑکے نے چیخنے کی کوشش کی اور ریچھ کو لاتیں اور گھونسے مارے۔ ریچھ نے پھر حملہ کیا اور ایک آنکھ اور ناک نکال لے گیا اور اس کے سینے، کندھوں اور کمر پر پنجوں سے گہری خراشیں ڈالیں اور پھر اسے چھوڑ کر اندھیرے میں گم ہو گیا۔

    خون میں لت پت لڑکا گھر واپس پہنچا۔ اس کی شہہ رگ کٹ گئی تھی اور اگرچہ ان لوگوں نے پرانے کپڑوں سے خون روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ صبحِ کاذب کے وقت لڑکے کی روح نکل گئی۔ انجیروں اور مونگ پھلیوں سے پیٹ بھر کر ریچھ واپس اپنی غار میں چلا گیا۔

    عالم بخش بہت غریب تھا اور تار بھیجنے کے قابل نہ تھا اور نہ ہی اتنے پیسے تھے کہ بنگلور تک کا کرایہ بھرتا۔ تاہم اس نے پوسٹ کارڈ پر اپنی داستانِ غم پنسل سے اردو زبان میں لکھ کر بھیجی۔ خط پر اس کے خشک آنسو موجود تھے۔ دو روز بعد مجھے یہ پوسٹ کارڈ ملا اور تین گھنٹے بعد میں آرسی کیری روانہ ہو گیا۔

    میرا خیال تھا کہ ریچھ کا شکار آسان کام ہو گا اور ایک یا دو گھنٹے بعد فارغ ہو جاؤں گا۔ اسی وجہ سے میں نے زیادہ تیاری نہیں کی تھی۔ میرے پاس ٹارچ، اعشاریہ 405 بور کی ونچسٹر رائفل اور ایک جوڑا کپڑے تھے۔ شام پانچ بجے کے بعد میں عالم بخش کو ملا اور کہانی سننے پر زیادہ وقت نہیں لگا۔

    راتیں تاریک تھیں۔ مگر میرا منصوبہ سادہ سا تھا کہ میں اندھیرا چھانے کے بعد باہر نکلتا اور ٹارچ کی روشنی میں ریچھ کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا۔

    یہ سن کر عالم بخش مجھے اپنی جھگی کے اندر لے گیا اور دروازہ بند کر دیا۔ اس چھوٹے سے کمرے میں دیے کی روشنی میں اس نے مجھے کئی مرتبہ اپنے بیٹے کی موت کے واقعات سنائے۔ ہر چند منٹ بعد پورا خاندان رونے لگ جاتا۔ مجبوری کی حالت میں مجھے آٹھ بجے تک یہ سب برداشت کرنا پڑا۔ آٹھ بجے جب یہ برداشت سے باہر ہو گیا تو میں نے ریچھ کی تلاش میں باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔

    اپنی رائفل بھر کر میں نے ٹارچ کا معائنہ کیا اور پھر باہر قدم رکھا۔ عالم بخش نے میرے پیچھے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔ تاریکی بہت گہری تھی اور جونہی میں نے رائفل پر موجود ٹارچ کو جلایا تو اس کی طاقتور روشنی نے بائیں جانب مجھے مونگ پھلی کے کھیت دکھائے اور دائیں جانب سڑک کے کنارے انجیر کے درخت کھڑے تھے۔

    چونکہ ریچھ کہیں دکھائی نہیں دیا، میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسے تلاش کرتا ہوں اور یہ کام انجیر کے درختوں سے شروع کیا۔ درخت سڑک کے دونوں جانب تھے، سو میں نے سڑک پر چلنے کا فیصلہ کیا اور ٹارچ دونوں جانب گھماتا جاتا۔ اس طرح میں ڈیڑھ میل ایک سمت میں چلا مگر ریچھ نہ دکھائی دیا۔ پھر میں مزار کی طرف لوٹا اور پھر دوسری جانب ڈیڑھ میل چلا۔ مگر ریچھ ندارد۔ پھر میں مزار کو لوٹا اور مونگ پھلی کے کھیتوں میں ریچھ کو تلاش کرنے لگا۔

    ٹارچ کی روشنی منعکس کرتے ہوئے بہت ساری چمک دار آنکھیں مجھے دیکھنے لگیں۔ تاہم یہ سب خرگوش اور تین چار گیدڑ تھے۔ میں نے پہاڑی کے گرد چکر کاٹا اور راستے میں کیچڑ میں لوٹتے ہوئے کچھ سور ڈر کر بھاگ اٹھے۔ تاہم ریچھ کا کوئی نشان نہ ملا۔ پھر میں پہاڑی کے قریب پہنچ کر اس کے گرد دو یا تین چکر لگائے اور ٹارچ کی روشنی اوپر اور اطراف میں پھینکتا رہا۔ میں کافی تھک گیا تھا مگر ریچھ کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔

    اس وقت تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ یا تو ریچھ شام ہوتے ہی اترا اور اب بہت دور پہنچ چکا ہو گا یا پھر ابھی تک اس کا پیٹ بھرا ہو گا اور غار میں سو رہا ہو گا۔ میں نے سوچا کہ عالم بخش کی جھگی کو جا کر دو گھنٹے بعد پھر چکر لگاؤں گا۔

    میں نے ایسا ہی کیا اور ایسے دو مزید چکروں کے بعد بھی ریچھ کا کوئی نشان نہ ملا۔ صبحِ کاذب ہو گئی مگر ریچھ نہ دکھائی دیا۔

    جب دن نکل آیا تو میں نے عالم بخش سے کہا کہ میں بنگلور جانا رہا ہوں مگر اس نے درخواست کی کہ آج کا دن رک کر پہاڑی پر غاروں میں ریچھ کو تلاش کروں۔ اس دوران اس کی بیوی میرے لیے گرما گرم روٹیاں اور چائے بنا چکی ہے۔ دونوں سے میں نے خوب انصاف کیا۔ پھر میں سو گیا۔ دوپہر کے وقت عالم بخش نے مجھے بیدار کر کے بتایا کہ اس کی بیوی نے میرے لیے خصوصی طور پر پلاؤ تیار کیا ہے۔ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں خوب پیٹ بھر کر پلاؤ کھایا۔ عالم بخش کی بیوی یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ مجھے اس کا بنایا ہوا پلاؤ بہت پسند آیا تھا۔ سورج اب نصف النّہار پر تھا اور خوب گرمی ہو گئی تھی۔ ریچھ کی تلاش کا یہ بہت موزوں وقت تھا کہ اس وقت ریچھ خوب گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں۔

    عالم بخش میرے ساتھ پہاڑی پر آیا اور پچاس گز کے فاصلے سے اس نے وہ غار دکھائی جہاں ریچھ رہتا تھا۔ میں نے ربر سول جوتے پہنے تھے سو انتہائی خاموشی سے غار کے قریب پہنچا۔ تاہم اس کا نقصان یہ تھا کہ گرم پتھر اب میرے تلوے جلا رہے تھے۔ غار کے منہ پر پہنچ کر میں اکڑوں بیٹھ کر پوری توجہ سے آوازیں سننے لگا۔

    سوتا ہوا ریچھ زور زور سے خراٹے لیتا ہے جو انسان جتنے ہی بلند ہوتے ہیں۔ اگر ریچھ سو رہا ہوتا تو مجھے اس کے خراٹوں کی آواز آنی چاہیے تھی۔ دس منٹ میں سورج میری پشت جلانے لگا اور میں نے چند پتھر اٹھا کر غار کے اندر پھینکے۔

    یہ بات عام فہم ہے کہ اس طرح کی مداخلت سے سویا ہوا ریچھ بہت غصے میں آ جاتا ہے۔ مگر غار میں خاموشی ہی رہی۔ میں نے پھر چند پتھر پھینکے مگر کچھ نہ ہوا۔ ریچھ اندر نہیں تھا۔

    پہاڑی سے اتر کر میں نے عالم بخش کو بتایا کہ ریچھ موجود نہیں۔ پھر بتایا کہ میں بنگلور واپس جا رہا ہوں اور ریچھ کی اطلاع ملتے ہی مجھے تار بھیج دے۔ میں نے اسے کچھ پیسے دیے تاکہ فوری ضروریات پوری کر سکے اور تار بھی بھیج سکے۔ پھر میں بنگلور لوٹ آیا۔ ایک مہینہ گزر گیا مگر کوئی اطلاع نہ ملی۔

    مزار کے دوسری جانب شمال مغرب میں بیس میل دور چک مگلور کا جنگل شروع ہوتا ہے جو میسور کے ضلع کدور میں واقع ہے۔ چک مگلور اور کدور کے وسط میں سیکری پنٹہ کا چھوٹا سا قصبہ ہے اور اس کے چاروں طرف جنگل ہے۔

    ریچھ کی اگلی خبر مجھے سیکری پنٹہ کے نزدیک سے ملی جہاں ریچھ نے دو لکڑہاروں کو زخمی کیا تھا اور ان میں سے ایک جاں بحق ہو گیا۔ چک مگلور نے فارسٹ آفیسر نے مجھے خط لکھ کر اس ریچھ سے دو دو ہاتھ کرنے کی درخواست کی۔

    میں نے سوچا کہ یہ وہی ریچھ ہو گا جس نے عالم بخش کے بیٹے کو ہلاک کیا تھا۔ تاہم اتنے بڑے جنگل میں ایک ریچھ کو تلاش کرنا بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنا کارِ دارد تھا۔ سو میں نے ڈی ایف او کو خط لکھا کہ وہ مجھے اس ریچھ کے بارے مزید معلومات بھیجے۔

    دس روز بعد مجھے اس کا جواب ملا کہ اس ریچھ کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ قصبے سے تین میل دور ایک پہاڑی غار میں رہتا ہے۔ یہاں قریب سے ہی ایک راستہ گزرتا ہے جہاں گشت کرتے ہوئے فارسٹ گارڈ کو ریچھ نے زخمی کیا تھا۔

    سو میں چک مگلور روانہ ہوا اور وہاں ڈی ایف او کو اٹھایا اور سیکری پنٹہ کا رخ کیا جہاں میسور کے محکمہ جنگلات کا چھوٹا ریسٹ ہاؤس ہے۔ یہاں اگلے چند روز میرا قیام ہونا تھا۔

    قسمت سے اگلے روز دوپہر کو ایک بندہ دوڑتا ہوا آیا اور ہمیں بتایا کہ اس کا بھائی جو گڈریا ہے، ریچھ کی قیام گاہ والی پہاڑی کے پاس مویشی چرا رہا تھا کہ ریچھ نے اس پر حملہ کیا۔ اس نے مدد کے لیے شور مچایا تو ریچھ نے بھی غرّانا شروع کر دیا۔ اس کا بھائی جو پہاڑی کے نیچے تھا، نے آوازیں سنتے ہی دوڑ لگائی اور ہمارے پاس آن کر دم لیا۔

    ریچھ ہمیشہ شبینہ جانور ہوتے ہیں اور کبھی بھی دن کے وقت حرکت کرتے نہیں دکھائی دیتے۔ زیادہ سے زیادہ وہ صبح یا شام کے دھندلکے میں دکھائی دے سکتا ہے۔ مگر دوپہر کے وقت تو ناممکن ہے۔ شاید گڈریا ریچھ کے غار کے بہت قریب پہنچ گیا ہو گا جس سے ریچھ نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کی یہی واحد توجیہہ تھی۔

    ہمیں یہ خبر ساڑھے چار بجے کے قریب ملی، سو میں نے رائفل اور ٹارچ اٹھائی اور تین چار مددگاروں کو ساتھ لے کر روانہ ہوا تاکہ گڈریے کی مدد کروں۔ جلد ہی ہمیں احساس ہو گیا کہ فاصلہ گڈریے کے بھائی کی اطلاع سے کہیں زیادہ تھا۔ کم از کم چھ میل کا سفر طے کرنے کے بعد ہم اس پہاڑی کے قریب پہنچے جس پر گھنا جھاڑ جھنکار اور بانس کا جنگل بھی اگا ہوا تھا۔ چھ بج رہے تھے اور سردیوں کا موسم تھا اور اندھیرا چھا رہا تھا۔ میرے ساتھ آئے آدمیوں نے آگے بڑھنے سے یکسر انکار کر دیا اور کہا کہ وہ سیکری پنٹہ جا رہے ہیں اور مجھے بھی یہی کہا کہ ابھی واپس چلوں اور اگلی صبح تلاش کا کام کریں گے۔ تاہم گڈریے کے بھائی نے کہا کہ وہ اسی جگہ رک کر میرا انتظار کرے گا مگر اسے جنگل میں جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ اپنے بھائی کے محلِ وقوع کے بارے اس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ اس جگہ کہیں ہو گا۔

    میں نے اس جگہ کا رخ کیا اور اس بندے کا نام باآوازِ بلند لیتا گیا۔ مجھے کوئی جواب نہ ملا سو میں نے مزید آگے گھنے جنگل کا رخ کیا۔ اس وقت تک تاریکی گہری ہو چکی تھی مگر مجھے مسئلہ نہیں ہوا کہ میرے پاس ٹارچ تھی۔ اس کی روشنی میں نے اِدھر اُدھر پھینکنا شروع کر دی۔ جلد ہی جنگل اتنا گھنا ہو گیا کہ مجھے رکنا پڑا۔ میں مڑنے ہی والا تھا کہ مجھے شبہ ہوا کہ ہلکی سی کراہ دور سے سنائی دی ہے۔ اس جگہ زمین پہاڑی کے دو چوٹیوں کے درمیان نیم وادی کی شکل میں نیچے اتر رہی تھی اور یہ کراہ وہیں کسی نشیب سے آئی تھی۔

    گڈریے کا نام تِھما تھا اور دونوں ہاتھوں سے منہ پر پیالہ سا بنا کر میں نے اس کا نام زور سے پکارا اور پھر جواب سننے کی کوشش کی۔ ہاں، اب کے صاف کراہ سنائی دی جو مدھم تو تھی مگر واضح بھی تھی۔ یہ آواز سامنے سے ہی آئی تھی۔

    جھاڑیوں سے زور آزمائی کر کے میں نیچے اترا اور جگہ جگہ پتھروں پھر پھسلتے ہوئے اور کانٹوں میں الجھتے ہوئے راستہ طے کیا۔ دو سو گز بعد میں نے پھر آواز دی۔ کچھ دیر بعد دائیں جانب سے آواز آئی۔ اسی طرح میں آگے بڑھتا رہا اور آخرکار تھِما کو تلاش کر لیا جو ایک درخت کے نیچے اور اپنے خون کے تالاب میں پڑا تھا۔ اس کا چہرہ تار تار اور ہڈیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کی زندگی کا واحد ثبوت اس کے منہ پر خون سے اٹھنے والے بلبلے تھے۔ مزید یہ بھی کہ ریچھ نے اس کے پیٹ پر پنجے مارے تھے جس کے سوراخ سے اس کی آنتیں نکلی ہوئی تھیں۔ جب میں نے اسے تلاش کیا تو وہ بمشکل ہوش میں تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس نے میرے پکارنے پر کوئی جواب نہیں دیا تھا بلکہ وہ وقفے وقفے سے نیم بے ہوشی میں کراہ رہا تھا۔

    صورتِ حال بہت نازک تھی۔ اگر یہ بندہ ساری رات یہیں پڑا رہتا تو صبح تک اس کا دم نکل جاتا۔ اس بندے کو اٹھا کر اس کے بھائی تک لے جانا ہی واحد حل تھا۔ مگر اسے کندھے پر ڈالنا بہت مشکل کام تھا کیونکہ اس کی حالت نازک تھی۔ مزید یہ کہ اس بندے کی جسامت بھاری تھی جو میرے برابر تھی۔ مگر اسے اٹھا کر میں نے رائفل کے کندے کا سہارا لے کر واپسی کا رخ کیا۔

    اس خوفناک سفر کو میں دوبارہ کبھی نہیں کرنا چاہوں گا۔ میں چوٹی کے قریب پہنچا ہی تھا کہ حادثہ رونما ہوا۔ میرا بایاں پیر پھسلا اور دو بڑے پتھروں کے درمیان آیا۔ میرے ٹخنے میں درد کی لہر اٹھی اور میں نیچے گرا اور تِھما میرے اوپر۔

    میرے ٹخنے میں موچ آ گئی تھی اور چلنا ممکن نہ رہا۔ اس جگہ لیٹے ہوئے میں نے تِھما کے بھائی کو آوازیں دیں مگر ایک گھنٹہ گزر گیا مجھے کوئی جواب نہ ملا۔ مجبوری میں اس دم توڑتے انسان کے ساتھ رات گزارنی تھی۔
    ٹارچ کے سیل بچانے کی نیّت سے میں اسے کم استعمال کر رہا تھا۔ صبح کے قریب بہت سردی ہو گئی اور تھما کی کراہیں مدھم ہوتی گئیں۔ پانچ بجے صبح اس کی جان نکل گئی اور میں اس کے ساتھ چھ بجے تک بیٹھا رہا۔
    پھر میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر پیر زمین پر رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ رینگنے کی کوشش کی تو خار دار جھاڑیاں رکاوٹ بن گئیں۔ میرے ہاتھ اور میرا چہرہ زخمی ہو گئے اور کپڑے پھٹ گئے۔ جلد ہی میں نے اس حقیقت کو قبول کر لیا کہ مجھے یہیں رک کر امداد کا انتظار کرنا ہو گا۔

    دوپہر کے بعد محکمہ جنگلات کے لوگ تھِما کے بھائی اور دس بارہ دیہاتیوں کے ہمراہ آن پہنچے۔ آخرکار میری آوازوں کی مدد سے وہ لوگ یہاں تک پہنچ گئے۔ شام کو ہم سیکری پنٹہ پہنچے جہاں میں بستر پر لیٹا تو میرا پیر بہت سوج چکا تھا۔ ڈی ایف او نو بجے آیا اور میری کار چلا کر مجھے چک مگلور لے گیا جہاں ہسپتال سے طبی امداد لی۔ ایک ہفتے بعد جا کر میں زمین پر پیر رکھنے کے قابل ہوا۔

    آپ کو اندازہ ہو چکا ہو گا کہ مجھے اس ریچھ کے خلاف کتنا غصہ جمع ہو گیا ہو گا۔ سو میں نے خود سے وعدہ کیا کہ جونہی چلنے کے قابل ہوا تو اس ریچھ کو فنا کر دوں گا۔ اس دوران ریچھ نچلا نہیں بیٹھا اور اس نے دو مزید لوگوں کو اُسی راستے پر زخمی کیا۔

    جب میں بمشکل چلنے کے قابل ہوا تو چار روز بعد میں سیکری پنٹہ پہنچ گیا۔ یہاں مجھے بتایا گیا کہ ریچھ اب گاؤں سے ایک میل دور کھیتوں میں مٹر گشت کا عادی ہو چکا ہے جہاں کئی درختوں کا پھل پکنے والا ہے۔ پانچ بجے میں ان درختوں کو پہنچ گیا اور سب سے بڑے درخت کو منتخب کیا جس پر سب سے زیادہ پھل لگے تھے اور اس کے نیچے رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے درخت سے ٹیک لگا کر رائفل کو اپنے گھٹنوں پر رکھ لیا۔
    گیارہ بجے کے بعد مجھے ریچھ کا شور سنائی دیا جو بڑبڑاتا اور غراتا آ رہا تھا۔ جگہ جگہ رک کر وہ پھل کھاتا رہا اور میرے قریب آتا گیا۔ راستے میں کئی جگہ اس نے مختلف جڑیں بھی کھود کر نکالی تھیں۔ اسے اس درخت تک آتے ہوئے ایک گھنٹہ لگ گیا۔ آخرکار وہ سامنے آیا جو ستاروں کی روشنی میں کالا دھبہ دکھائی دے رہا تھا۔

    میں نے ٹارچ کا بٹن دبایا اور روشنی کا دائرہ سیدھا ریچھ پر پڑا۔ ریچھ فوراً حیرت سے اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا اور میں نے اس کے سینے پر بنے V کے نشان کے عین وسط میں گولی پیوست کر دی۔ اس طرح یہ برا ریچھ اپنے انجام کو پہنچا۔

    ریچھ کو جلدی غصہ آ جاتا ہے مگر عام طور پر بے ضرر ہوتے ہیں۔ یہ ریچھ اپنی نسل سے مختلف تھا اور بغیر کسی وجہ کے انتہائی بے دردی سے لوگوں کو ہلاک کرتا رہا۔

    (کینیتھ اینڈرسن کی روداد جو ایک مشہور اسکاٹش شکاری تھے جنھوں نے ہندوستان میں‌ کئی آدم خور درندوں کو ہلاک کیا، اس روداد کے مترجم منصور قیصرانی ہیں)

  • جم کاربٹ کا تذکرہ جنھیں‌ لوگ سادھو کہتے تھے!

    جم کاربٹ کا تذکرہ جنھیں‌ لوگ سادھو کہتے تھے!

    برطانوی دور کے ہندوستان میں گاؤں دیہات کے لوگ جم کاربٹ کو اپنا مسیحا سمجھتے تھے اور اس کی پوجا کرتے تھے۔ اس کی وجہ انسانوں پر حملہ کرنے والے جنگلی درندوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ انھوں نے کئی آدم خور شیروں اور تیندوؤں کو ہلاک کیا جن کی وجہ سے لوگ خوف زدہ رہتے تھے۔

    جم کاربٹ کا وطن ہندوستان تھا جہاں وہ برطانوی راج میں بسنے والے والدین کے گھر 25 جولائی 1875 کو پیدا ہوئے۔ یہ خاندان نینی تال میں سکونت پذیر تھا۔ جم کوربیٹ نے ہمالیہ پہاڑ کی ترائی میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے ”کالا ڈھنگی“ میں اپنا بچپن گزارا۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ جنگلات میں فوٹو گرافی اور شکار کرتے ہوئے گزرا۔ وہ 79 برس کے تھے جب دل کا دور پڑنے سے وفات پائی۔ جم کاربٹ تقسیم ہند کے بعد کینیا چلے گئے تھے جہاں‌ 19 اپریل 1955 کو انتقال کیا۔ انتقال سے قبل وہ اپنی چھٹی کتاب تحریر کرچکے تھے۔ وہ ایک مہم جو، شکاری، فوٹوگرافر اور مصنّف کے طور پر مشہور ہوئے۔

    جم کاربٹ نے بہت سارے ایسے آدم خور ہلاک کیے جنھیں دوسرے شکاری نہیں‌ مار سکے تھے اور ان کی وجہ سے جنگلات کے قریبی دیہات اور آبادیوں میں لوگ خوف زدہ رہتے تھے۔ 1907 سے 1938 کے دوران جم کوربیٹ نے چمپاوت کی آدم خور شیرنی، ردر پریاگ کا آدم خور تیندوا، چوگڑھ کی آدم خور شیرنیاں اور پانار کا آدم خور تیندوا ہلاک کیا۔ ان درندوں نے مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ انسان ہلاک کیے تھے۔ اس شکاری کو کماؤں کے علاقے میں بے پناہ شہرت اور عزّت ملی۔ لوگ انہیں سادھو مانتے تھے۔

    جم کاربٹ نے دو دہائی تک ریلوے کے محکمے میں ملازمت کی۔ وہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران فرانس میں فوجی عہدے دار کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ جم کوربیٹ ایک سخت کوش انسان تھے۔ ”روپریاگ “ کے آدم خور کو ہلاک کرنے کے دنوں میں ان کی عمر 51 برس تھی جب کہ ”ٹھاک کے آدم خور“ کے شکار کے وقت وہ 63 برس کے ہوچکے تھے۔ ان دونوں آدم خور درندوں کے شکار کی داستانیں اور جم کوربیٹ کی تحریریں اردو اور دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے نیئیری، کینیا میں ایک بہت بڑے اور بلند بالا درخت پر ایک نہایت خوبصورت، محفوظ اور آرام دہ کاٹیج تعمیر کروایا تھا جہاں ان کی جانب سے ملکہ الزبتھ اور پرنس فلپس کو ایک رات بسر کرنے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔

    جم جن کا پورا نام ایڈورڈ جیمز کاربٹ تھا، نے شادی نہیں‌ کی تھی۔ ان کی اکثر تحریروں میں ”میگی“ نام کی خاتون کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ ان کی ازحد مخلص اور جاں نثار بہن تھیں۔ میگی بھی اپنے بھائی کے ساتھ ہی ہندوستان چھوڑ کر کینیا چلی گئی تھیں۔ جم کاربٹ کی سوانح عمری ہندوستان میں‌ اردو زبان میں بھی بہت شوق سے پڑھی گئی جب کہ مغرب میں‌ بھی اس شکاری پر بہت کچھ لکھا گیا، جم کاربٹ کی ایک داستانِ حیات مارٹن بوتھ نے لکھی تھی جس میں وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں، جم ایک ماہر شکاری ہی نہیں، بہترین فوٹوگرافر بھی تھا۔ وہ جس قدر اپنی بندوق پر فخرکرتا تھا اسی قدر اپنے کیمروں پر بھی فخر کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ کیمرہ رکھتا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ وہ کیمرے کے بغیر گھر سے نکلا ہو۔ اس نے نہ صرف جنگلی حیات کی تصویر کشی کی بلکہ دریاؤں، دیہات، قدرتی خوبصورت مناظر، آسیب زدہ گھاٹیوں اور جنگل میں لگی آگ کی بھی تصویر کشی کی۔ اس نے شیروں کی جو تصویریں لیں ان کا شمار بہترین تصویروں میں ہوتا ہے۔ آرام کی غرض سے لیٹے شیر، وحشت ناک غراتے شیر، اپنے شکار کو گرفت میں لیے شیر۔ ایسی تصویریں پہلے کبھی نہیں لی گئی تھیں۔ مارٹن کہتے ہیں ’’جم کو جنگلات سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ فوٹو گرافی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو جنگل کی افادیت اور اس کے حسن سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘

  • امبل میرو کا پُراسرار بھوت

    امبل میرو کا پُراسرار بھوت

    یہ واقعہ میری طویل شکاری زندگی کے اُن عجیب اور لرزہ خیز واقعات میں سے ہے جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس واقعے کی صحیح پوزیشن سمجھنے کے لیے آپ کو آندھرا پردیش کے جنگلوں میں جانا پڑے گا۔

    ضلع چتّوڑ میں بھاکر پت، چمالا اور مامندر کے تینوں جنگل قریب قریب واقع ہیں۔ ان کے کناروں پر بہت سے گاؤں اور بستیاں آباد ہیں۔ یہ جنگل اپنے قدرتی مناظر کے اعتبار سے جتنے حسین ہیں، اس سے کہیں زیادہ خطرناک بھی ہیں۔ درندوں کے علاوہ یہاں ریچھ بھی پائے جاتے ہیں۔

    ایک روز ہمارے چیتے کا پالتو بچّہ اچانک مَر گیا۔ میری بیوی نے اُسے بڑے شوق سے پالا تھا۔ بچّے کی موت سے میری بیوی کو سخت صدمہ پہنچا، لیکن میں نے کہا، فکر نہ کرو۔ ایک دو روز تک جنگل سے دوسرا بچّہ پکڑ لاؤں گا۔ چنانچہ آندھرا پردیش کے گنجان اور سیکڑوں میل میں پھیلے ہوئے جنگلوں میں میرے آنے کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس موسم میں مادہ اکثر بچّے دیتی ہے، اس لیے میرا خیال تھا کہ معمولی سی تلاش کے بعد کوئی بچّہ پکڑنے میں کام یاب ہو جاؤں گا اور بندوق چلائے بغیر یہاں سے چل دوں گا، لیکن کئی دن گزر گئے، بیس بیس میل جنگل میں پھرنے کے باوجود گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔

    ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ رنگام پت کا ایک شخص تھانڈا جو گزشتہ دو ہفتوں سے غائب تھا، اس کی ہڈیاں مِل گئی ہیں۔ یہ شخص اردگرد کے دیہات میں جنگلی بوٹیاں بیچتا اور جادو ٹونا بھی کرتا تھا۔ اس کے غائب ہونے سے بھوت پریت کے قائل دیہاتیوں نے قیاس کیا کہ تھانڈا کو کسی بھوت نے مار ڈالا ہے۔ تھانڈا کا تھیلا اور سامان فارسٹ گارڈوں نے ایک پہاڑی چشمے کے عقب میں پڑا پایا تھا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اس کی ہڈّیاں اور گلا سڑا گوشت بھی مَل گیا۔ پولیس کی رسمی تفتیش کے بعد یہ معاملہ ختم ہو گیا۔

    میں اسی وقت سمجھ گیا کہ ان آبادیوں پر بَلا نازل ہوا ہی چاہتی ہے، کوئی آدم خور درندہ اِدھر آ نکلا ہے۔ اگلے ہی روز سہ پہر کے وقت پولی بونو کے مقام پر ایک عجیب حادثہ پیش آیا۔ پولی بونو گاؤں، رنگام پت سے کوئی سات میل دُور تھا۔ جنگل میں سات بیل گاڑیاں گزر رہی تھیں، جب وہ نرشیا کے قریب پہنچیں، جہاں سڑک سے کوئی دو فرلانگ ہٹ کر ایک قدرتی تالاب تھا، تو گاڑی بانوں نے تالاب میں نہانے کا پروگرام بنایا۔ تھوڑی دیر بعد نہانے کے بعد وہ تالاب سے باہر نکلے، لیکن جب وہ گاڑیوں پر بیٹھے، تو دفعتاً انہیں احساس ہوا کہ ان کا ایک ساتھی غائب اور تعداد میں سات کے بجائے وہ چھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے سوچا شاید پُتّو رفع حاجت کے لیے کہیں رُک گیا ہے، وہ دیر تک انتظار کرتے رہے۔ لیکن وہ نہ پلٹا، تو انہیں سخت تشویش ہوئی۔ وہ دوبارہ گاڑیوں سے اُترے اور اِدھر اُدھر پھیل کر اپنے ساتھی کو آوازیں دینے لگے۔ کوئی جواب نہ ملا۔ تالاب پر دوبارہ جانے کی ہمّت کسی میں نہ تھی۔

    وہ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ پُتّو کو کسی بَدروح نے پکڑ لیا ہوگا، ناگ دیوتا نے ڈس لیا ہے اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ اسے کسی شیر یا چیتے یا ریچھ ہی نے مار ڈالا ہو۔ مایوس ہو کر انہوں نے پُتّو کی بیل گاڑی وہیں چھوڑی اور اپنی اپنی گاڑیاں تیز دوڑاتے ہوئے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔

    پُتّو کے بیل اپنے مالک کی راہ تکتے رہے۔ آدھی رات کو جب اوس پڑنے لگی، تو بیل سردی سے کانپنے لگے اور اپنے مالک کا خیال چھوڑ کر وہ بھی گاؤں کی طرف چل پڑے۔ اور صبح چار بجے وہ پُتّو کے گھر تک پہنچ گئے۔

    اس روز گاؤں والے دن بھر جنگل میں پھر کر پُتّو کی تلاش کرتے رہے۔ مگر بے سود۔ پُتّو کی پراسرار گم شدگی پر قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ دو دن بعد پھر ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔ اس مرتبہ گاؤں کا ایک بنیا غائب ہوا، وہ رنگام پت سے تیرہ میل دُور ایک دوسرے گاؤں میں اناج اور ضرورت کا دوسرا سامان لے کر جا رہا تھا۔ اس نے سامان گدھوں لاد رکھا تھا۔ پولی بونو کے مقام پر اس نے کھانا کھایا اور آگے چل پڑا۔ ساتویں میل پر جنگل میں بانس کاٹنے والے ایک لکڑہارے نے اسے کنوئیں میں سے پانی نکال کر پلایا، اس کے بعد بنیے کو دوبارہ کسی نے نہ دیکھا۔ اس کے گدھے جنگل میں بھٹکتے ہوئے پائے گئے۔ سامان بدستور ان کی پشت پر لدا ہوا تھا۔

    چوتھے روز پولی بونو کا وہ لکڑ ہارا بھی غائب ہو گیا جس نے بنیے کو پانی پلایا تھا۔ تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ البتّہ ایک درخت کے قریب اس کی کلہاڑی اور سفید پگڑی پڑی مل گئی۔

    اس قسم کے پُراسرار واقعات پے درپے رونما ہوئے۔ تو بھاکر پت،چمالا اور مامندر کی آبادیوں میں سنسنی پھیل گئی اور لوگ اعلانیہ کہنے لگے کہ یہ کسی درندے کا کام نہیں، بلکہ کوئی بھوت ہے جو انسانوں کی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ درندہ اگر ایسی حرکت کرتا، تو اس کے پنجوں کے نشان، خون کے دھبّے یا کھائی ہوئی لاش کے کچھ حصّے تو ملتے۔ مگر ان میں سے کوئی نشان نہ پایا گیا۔ لوگوں نے گاؤں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اکیلا دُکیلا آدمی تو جنگل کا رُخ کرنے کی جرأت ہی نہ کرتا تھا۔

    یہ صورتِ حال محکمۂ جنگلات کے لیے بڑی نازک تھی۔ افسروں نے پولیس کو خبردار کیا، پولیس کے کچھ آدمی آئے، انہوں نے بھی جنگل کا کونا کونا چھان مارا، مگر معمولی سا سراغ بھی نہ مِل سکا۔ بستیوں کے وہ لوگ جن کا گزارہ ہی جادو ٹونے پر تھا، بے چارے دیہاتیوں کو مسلسل ڈرا رہے تھے کہ اگر اتنا روپیہ دان نہ کیا گیا، اتنی بکریوں کا بلیدان نہ کیا گیا، اتنی شراب نہ پیش کی گئی، تو یہ نادیدہ بلا ایک ایک کر کے سب کو ہڑپ کر جائے گی۔ ایک جادُوگر نے تو یہاں تک کہا کہ گاؤں والے کسی بچّے کی قربانی دے دیں تو یہ بلا ٹل جائے گی۔ میں نے پولیس کے دفعدار سے کہا کہ اس منحوس جادوگر کو حوالات میں بند کیا جائے اور اگر گاؤں کا کوئی بچّہ گم ہو، تو کرشناپا (جادوگر) کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے، لیکن پولیس نے میرے مشورے پر عمل نہ کیا۔ آخر جس بات کا مجھے کھٹکا تھا، وہ ہو کر رہی، چند روز بعد چندرا گری کے مقام پر نو سال کا ایک اچھوت لڑکا گُم ہو گیا۔

    بچّے کی گمشدگی پر ماں دیوانی ہو گئی اور اسے کئی روز تک تلاش کرتی پھری۔ آخر یہ معاملہ پولیس کے علم میں لایا گیا۔ سب انسپکٹر نے سب سے پہلے کرشناپا جادوگر کے مکان کی تلاشی لی، لیکن پوری چھان بین کرنے کے باوجود لڑکے کا کوئی پتا نشان نہ ملا۔ پولیس انسپکٹر کو کرشناپا پر بہرحال شک تھا، اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ واردات میں اس بدمعاش کا ضرور ہاتھ ہے۔ چنانچہ وہ اسے ہتھکڑی لگا کر چوکی پر لے گیا، مگر جادوگر نے کچھ نہ اگلا۔ مایوس ہو کر کرشناپا کو چھوڑ دیا، لیکن اس تاکید کے ساتھ کہ وہ پولیس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہیں جائے گا۔ کرشناپا جادوگر نے چوکی سے نکلتے ہوئے پولیس انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:

    ‘لومڑی خواہ کتنی چالاک ہو، مگر گیدڑ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔’ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور انسپکٹر کئی دن تک سوچتا رہا کہ ان الفاظ کا آخر مطلب کیا ہے۔

    اگلے روز رنگام پت اور پولی بونو کے درمیانی علاقے کی رہنے والی ایک عورت غائب ہو گئی۔ اس کا خاوند صبح سویرے مویشیوں کو چرانے جنگل میں گیا۔ دوپہر کو اس عورت نے خاوند کے لیے روٹی تیار کی اور ایک برساتی نالے کے کنارے کنارے چلتی ہوئی پیپل کے ایک درخت تک جا پہنچی۔ پیپل کے بڑے درخت سے آدھ میل دُور مٹّی کے برتن ٹوٹے پائے گئے جن میں وہ روٹی لے کر گئی تھی، لیکن خود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔

    میں ان دنوں اپنے ایک ہندو دوست ویوا کے ساتھ ناگا پٹلا کے فارسٹ بنگلے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ان تمام واقعات کی اطلاع مجھے بنگلے کے چوکیدار سے ملتی رہتی تھی۔ ایک رات چوکیدار ہمارے پاس بیٹھا حسبِ معمول گاؤں والوں کے قصّے بیان کرتا رہا تھا کہ دریا کی طرف سے چیتے کے گرجنے کی آواز سنائی دی۔

    ‘صاحب، یہ چیتا بول رہا ہے۔’ چوکیدار نے سہم کر کہا۔ ‘ہاں ہمیں معلوم ہے۔ خاموش رہو۔’ ریوا نے اسے ڈانٹ دیا: ‘جاؤ، اپنی کوٹھڑی میں…’

    چوکیدار کے جانے کے بعد میں نے دیوا سے کہا: ‘چیتے کی آواز سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت سخت بھوکا ہے اور کسی شکار کی تلاش میں گھوم رہا ہے۔’ دیوا کے چہرے پر دہشت کی علامات نمودار ہوئیں۔ اس نے بنگلے کی چار دیواری کا جائزہ لیا اور بولا: چیتا ان دیواروں کو آسانی سے پھلانگ کر اندر آ سکتا ہے، ہمیں آج اندر کمرے میں سونا چاہیے۔’

    ہمارے بستر اندرونی کمرے میں بچھا دیے گئے۔ چیتا معمولی معمولی وقفوں کے بعد آدھی رات تک بولتا رہا۔ کمرے کے اندر حبس بہت تھا اور چوہے مسلسل پریشان کر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک موٹا سا چوہا چند لمحے تک چُوں چُوں کرنے کے بعد یکایک خاموش ہو گیا۔ چوہے کی آواز میں ایسا کرب تھا کہ دیوا کہنے لگا:

    ‘یہ چوہا اس طرح کیوں چیخ رہا تھا؟’

    شاید کسی سانپ نے اُسے منہ میں دبوچ لیا ہے۔’ میں نے جواب میں کہا۔ دیوا سانپ سے بے حد ڈرتا تھا، وہ فوراً بستر سے اُٹھا: میں تو برآمدے میں جاتا ہوں۔ اَب مجھ سے یہاں سویا نہیں جائے گا۔’

    پَو پھٹنے سے کچھ دیر پہلے دفعتاً میری آنکھ کھلی۔ میری چھٹی حِس کسی انجانے خطرے کا اعلان کر رہی تھی۔ میں نے جلدی سے سرہانے رکھی ہوئی ٹارچ روشن کی اور رائفل اٹھا لی۔ دیوا بے خبر سو رہا تھا۔ معاً ایسی آواز آئی جیسے کوئی شخص دیوار کھرچ رہا ہے۔ میں نے روشنی اِدھر اُدھر پھینکی تو آواز یک لخت بند ہو گئی۔ میں دبے پاؤں اٹھا اور رائفل سنبھال کر برآمدے سے باہر آیا۔ ٹارچ بجھا دی اور ایک ستون کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا۔

    چند منٹ بعد پھر دیوار کھرچنے کی آواز کان میں آئی۔ یہ اتنی واضح اور صاف تھی کہ کوئی شبہ نہ رہا۔ کوئی جانور اپنے پنجے دیوار پر تیز کر رہا تھا۔ میں پنجوں کے بَل چلتا ہوا آواز کی بڑھا۔ ابھی چند قدم ہی چلا ہوں گا کہ پیچھے سے دیوا کے کھانسنے کی آواز آئی اور پھر فوراً ہی چیتے کی غرّاہٹ فضا میں بلند ہوئی اور وہ دوڑتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔

    صبح ہم نے اس کے پنجوں کے گہرے نشان دیوار کے آس پاس دیکھے۔ ناشتے کے بعد میں نے دیوا کو ساتھ لیا اور جنگل میں ٹہلنے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم پیپل کے اس درخت کے نیچے کھڑے تھے جہاں چند روز پہلے وہ عورت غائب ہوئی تھی جو اپنے شوہر کو روٹی دینے جا رہی تھی۔ چیتے کے پنجوں کے نشان دریائے کلیانی کے بائیں کنارے پر دور تک پھیلے ہوئے تھے۔

    ان نشانوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ چیتا غیر معمولی طور پر قوی ہیکل اور بڑی جسامت کا ہے، لیکن مجھے جن نشانوں کی تلاش تھی، وہ کہیں نہ تھے۔ میں شیر کی تلاش میں تھا اور یہ کتنی حیرت کی بات تھی کہ جنگل کے تمام جانور پانی پینے دریا پر آتے تھے، مگر شیر اِدھر کا رخ نہ کرتا تھا۔

    بھوت پریت کے وجود کو عقل تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی اور آدم خور اگر ایسی حرکتیں کرتا، تو اپنا نشان ضرور چھوڑ جاتا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ ہے کیا بَلا؟ تمام واقعات کا اچّھی طرح جائزہ لینے کے بعد جو حقائق میرے سامنے آئے وہ یہ تھے:

    1۔ پانچوں افراد پُراسرار طور پر موت کا شکار ہوئے۔
    2۔ ہر شخص دوپہر یا سہ پہر کے وقت غائب ہُوا۔
    3۔ ان حادثوں کو کسی نے بچشمِ خود نہ دیکھا۔
    4۔ غائب ہونے والا ہر فرد تنِ تنہا تھا۔
    5۔ البتہ بنیے کے ساتھ اس کے گدھے بھی تھے جو بول نہیں سکتے، لیکن انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا، وہ اطمینان سے جنگل میں گھاس چرتے رہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ خوف زدہ نہ تھے، ورنہ ضرور اِدھر اُدھر منتشر ہو جاتے۔

    اس مسئلے پر دیوا کے ساتھ میں دیر تک بحث کرتا رہا، لیکن کسی رُخ سے بھی اس معاملے کی تہ تک پہنچنا مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا تھا، تاہم مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہو، میں یہ راز بے نقاب کر کے رہوں گا۔

    (چند روز جنگل میں‌ گھومنے اور بالخصوص ان جگہوں‌ پر جانے کے بعد جہاں سے اب تک ہلاک ہونے والے غائب ہوتے رہے تھے، ایک دن دیوا اور مصنّف سو کر اٹھے تو….) ایک شخص بنگلے پر آیا اور کہنے لگا کہ وہ پولی بونو سے آیا ہے۔ وہاں امبل میرو کے ایک پہاڑی ٹیلے پر بہت بڑا شیر دیکھا گیا ہے۔ جنگل میں کام کرنے والے مزدوروں نے ٹھیکیدار سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اس وقت تک کام پر نہ جائیں گے جب تک شیر کا قصّہ پاک نہیں ہو جاتا۔ ٹھیکیدار نے پیغام بھیجا تھا۔ ہم جلدی جلدی تیار ہو کر اس شخص کے ساتھ پولی بونو روانہ ہو گئے۔ ٹھیکیدار سے ملاقات ہوئی۔ کام رُک جانے سے اس کا ہزاروں روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ میں نے ٹھیکیدار کو دلاسا دیا، مزدوروں سے بات کی اور ان سے وعدہ کیا کہ شیر کو مارنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ سمجھانے بجھانے سے مزدور راضی ہوئے اور انہوں نے کام شروع کر دیا۔

    اگلے روز دوپہر کے وقت مزدوروں کے انچارج نے سیٹی بجا کر روٹی کھانے کے وقفے کا اعلان کیا۔ وہ مزدور، جس نے ایک روز پہلے شیر کو دیکھا تھا، نہایت خوف زدہ اور بدحواس تھا، وہ بار بار اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر درخت پر کلہاڑی سے اُلٹے سیدھے ہاتھ مارنے لگتا۔ اس سے صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر کچّے بانسوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا۔ دفعتاً اس جھنڈ میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ مزدور نے فوراً اُدھر دیکھا اور پھر کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چُھوٹ گئی۔ کچّے بانسوں کے اس جھنڈ میں وہی شیر اپنی زرد زرد چمکدار بُھوکی آنکھوں سے مزدور کو گھور رہا تھا۔ اس نے وہیں سے جست کی اور عین مزدور کے اوپر جا پڑا، لیکن اس شخص کی زندگی کے کچھ دن ابھی باقی تھے۔ اس کے حلق سے ایک لرزہ خیز چیخ نکلی، فوراً ہی دوسرے مزدور چیختے چلّاتے اُدھر لپکے اور شیر گرجتا غرّاتا چشم زدن میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    بہرحال یہ راز اب کھل چکا تھا کہ امبل میرو کا بھوت کون ہے؟ اور کس نے پانچ افراد کو ہلاک کر کے غائب کیا ہے۔ اَب سوال یہ تھا کہ ہم کیا کریں؟

    جب میں نے دیوا اور ساتھ آنے والے مزدوروں سے کہا کہ میں رات کو یہیں چُھپ کر آدم خور کا انتظار کروں گا، تو خوف سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔

    وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔ میں نے گھڑی پر نگاہ کی، رات کے پورے بارہ بجے تھے۔ اَب میری آنکھیں تالاب اور جنگل کا منظر کچھ فاصلے تک بخوبی دیکھ سکتی تھیں۔ یکایک چرخ پھر نمودار ہوا۔ اس مرتبہ وہ چیخے چلّائے بغیر نہایت مضطرب ہو کر چکّر کاٹ رہا تھا۔ جب چوتھی مرتبہ چرخ تالاب کے نزدیک گیا تو دوسرے کنارے سے اچانک شیر غرایا۔ شیر دوبارہ ہلکی آواز میں غُرّایا اور پھر اس کی آواز سنائی نہ دی۔

    معاً میری چھٹی حِس بیدار ہوئی اور اس نے خطرے کا اعلان کیا۔ میں نے بھری ہوئی رائفل کے ٹریگر پر انگلی رکھ دی اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اپنے دائیں جانب گھنی جھاڑیوں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ کی آواز سن لی تھی اور اب میں بے حس و حرکت اپنی جگہ بیٹھا آنکھیں گھما کر اُدھر ہی دیکھ رہا تھا۔ میں نے نگاہوں ہی نگاہوں میں جھاڑیوں کا فاصلہ ماپ لیا تھا۔ وہ مجھ سے تیس گز دور تھیں اور ان میں چھپا ہوا آدم خور نہایت مکّاری سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ اپنی فطرت کے مطابق مجھے بیخبری میں دبوچ لینا چاہتا تھا۔

    اب وہ مجھ سے بیس گز دور تھا۔۔۔ پندرہ گز۔۔۔ بارہ گز۔۔۔ دس گز۔۔۔ یکایک اس نے اپنا سَر اٹھایا اور میں نے دیکھا کہ وہ شیرنی ہے۔ پھر جبڑا کھول کر وہ آہستہ سے غرّائی، میں نے اس کے چمکتے ہوئے لمبے دانت دیکھے اور اس سے پیشتر کہ وہ مجھ پر چھلانگ لگائے، میری گولی اس کا جبڑا توڑتی ہوئی گردن میں سے نکل گئی، لیکن کس بلا کی قوّت اس کے اندر کام کر رہی تھی۔ وہ زخمی ہونے کے باوجود اندھا دُھند میری طرف جھپٹی، لیکن مجھ سے صرف دو گز کے فاصلے پر آن کر گری اور پھر دہاڑتی گرجتی الٹے قدموں بھاگی۔ میں نے یکے بعد دیگرے تین فائر کیے۔ اس کی گردن سے ابلتا ہوا خون صاف غمازی کر رہا تھا کہ وہ کدھر گئی۔

    مجھے اتنا یاد ہے میرے نشانے خالی نہیں گئے اور شیرنی آگے جا کر یقیناً گر گئی ہوگی۔ میں گرتا پڑتا اور جھاڑیوں میں سے لہولہان ہو کر اس درخت تک پہنچ گیا جہاں میرے ساتھی موجود تھے۔ چند لمحے آرام کرنے کے بعد ہم سب پھر قلعے کی طرف چلے اس مرتبہ میکٹوش آگے آگے تھا اور پیچھے گاؤں والے لالٹینیں لیے چل رہے تھے۔ ایک جگہ وہ اچانک رُکا اور پھر پیچھے ہٹ کر چند پتّھر اٹھائے اور جھاڑی کے اندر پھینکنے لگا۔ غالباً آدم خور شیرنی اس کے اندر چُھپی ہوئی تھی۔ پھر وہ رائفل تان کر آگے بڑھا اور میں نے ٹارچ روشن کی۔ اسی لمحے زخمی شیرنی نے کروٹ لی اور میکٹوش کے اوپر چھلانگ لگائی، لیکن چند فٹ کے فاصلے پر ہی آ کر گر پڑی اور جبڑا کھول کر غرّانے لگی۔ ہمارے ساتھی لالٹینیں پھینک کر بھاگ نکلے، لیکن اب ہمیں اس زخمی اور معذور شیرنی سے کوئی خطرہ نہ تھا، کیوں کہ وہ مرنے ہی والی تھی، مجھے حیرت تھی کہ تین گولیاں کھانے کے باوجود وہ اتنی دیر تک زندہ کیسے رہی۔ میکٹوش نے چند لمحے تک شیرنی کو غور سے دیکھا اور پھر اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔

    اور اس طرح چیتل درُوگ، ہوس دُرگا اور ہوللکر میں تباہی مچانے والی آدم خور شیرنی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

    (مصنّف اور مہم جُو کینتھ اینڈرسن کی اس روداد کے مترجم مقبول جہانگیر ہیں)

  • شکار کے لیے چیتے سدھانے کو کس مغل بادشاہ نے رواج دیا؟

    شکار کے لیے چیتے سدھانے کو کس مغل بادشاہ نے رواج دیا؟

    میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ ہندوستان میں چیتے سدھانے کا رواج مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے ڈالا تھا۔ اس کے بعد آنے والے بادشاہوں اور والیانِ ریاست نے بھی اپنے اپنے دور میں چیتے پالے۔ انگریز دورِ حکومت میں بھی ہندوستان کی بعض ریاستوں میں شکاری چیتے خاص طور سے پالے جاتے تھے۔ ان کی نگہداشت و پرورش کے لیے باقاعدہ تنخواہ دار ملازم مقرر ہوتے۔

    شکاری چیتے کی تربیت انہی خطوط پر ہوتی جن پر دوسرے شکاری جانوروں مثلاً کتوں یا باز وغیرہ کی تربیت کی جاتی ہے، مگر یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ چیتا ایک بار سدھا لیا جائے تو وہ انسان سے بہت مانوس ہو جاتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اس سے بہترین اور تیز رفتار شکاری جانور شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔

    راجے مہاراجوں کے ہاں پالے جانے والے شکاری چیتوں کا مقصد بھی خالصتاً شکار کھیلنا ہی ہوتا تھا۔ جب کبھی والیِ ریاست یا کوئی اہم سرکاری ملازم اس مخصوص شکاری مہم کا لطف اٹھانا چاہتا تو شکاری چیتوں کو مع ان کے رکھوالوں کے طلب کر لیا جاتا۔ ان چیتوں سے عام طور پر ہرن اور تیز رفتار چیتل کے علاوہ کبھی کبھی خرگوش کا شکار بھی کھیلا جاتا۔

    محافظ، چیتوں کو ان کے مخصوص لکڑی کے پنجروں سمیت بیل گاڑیوں پر لاد کر میدان میں لے آتے۔ شکار نظر آتا تو چیتے کی آنکھوں سے پٹی کھول کر اسے دکھایا جاتا۔ چیتا چپکے سے گاڑی سے اترتا اور جھاڑیوں میں چھپتا چھپاتا اپنے شکار کے سر پر پہنچ جاتا۔

    یہ طریقہ عام طور پر ہرنوں اور بارہ سنگھوں کے شکار کے لیے مخصوص تھا۔ شکار زیر ہونے کے کچھ دیر بعد تیز رفتار گھوڑوں پر سوار نگران بھی وہاں پہنچ جاتے اور چیتے کو بہلا کر ہرن اس سے لے لیتے۔ ہرن کو ذبح کر کے اس کی ایک ران چیتے کو بطور انعام پیش کی جاتی۔

    برصغیر میں چیتے پالنے اور ان کے ذریعے شکار کرنے کا رواج تو خیر عام تھا، بعد میں وہ انگلستان بھی پہنچ گیا۔

    سرنگا پٹم کی فتح کے بعد مارکوئلس ویلزلی نے ٹیپو سلطان شہید کے تین شکاری چیتے شاہ جارج سوم کی خدمت میں روانہ کیے تھے۔ ان چیتوں کے ساتھ ان کے خدمت گار اور بیل گاڑیوں کے علاوہ تربیت یافتہ بیل اور عربی النسل گھوڑے بھی تھے، مگر شاہ جارج سوم نے اِن چیتوں کا فن دیکھنے کی کبھی کوشش نہ کی اور انھیں اپنی باقی زندگی شاہی چڑیا گھر میں گزارنی پڑی۔

    (مشہور انگریز شکاری اور سیّاح کینتھ اینڈرسن کی ہندوستان کے جنگلات میں درندوں کے شکار کے واقعات پر مبنی کتاب سے ایک ورق جس کے مترجم محمد اقبال قریشی ہیں)

  • دریائے میلانگ جہاں روزانہ دو یا تین لوگ زندگی ہار رہے تھے!

    دریائے میلانگ جہاں روزانہ دو یا تین لوگ زندگی ہار رہے تھے!

    کئی سال تک جاوا کے جنگلوں میں گھومنے کے بعد جب میں اپنے وفادار ملازم ہاشم کی معیت میں سماٹرا کی طرف روانہ ہوا، نہ جانے کیوں مجھے اپنے دل میں ایک عجیب اضطراب محسوس ہونے لگا۔

    سماٹرا پہنچ کر مجھے پیلمبنگ کے ضلع میں تعینات کیا گیا۔ یہ علاقہ دلدلی میدانوں اور گھنے جنگلوں سے پٹا پڑا تھا اور فضا میں ہر وقت ایک بو دار رطوبت سی چھائی رہتی تھی۔

    میری عمل داری میں جو علاقہ آیا وہ دریائے میلانگ کے کنارے واقع تھا اور بیس مربع میل میں پھیلا ہوا تھا۔ میں جس روز یہاں پہنچا ، مزدوروں کی ٹولیاں مجھے دیکھنے کے لیے آئیں اور میں نے بڑے تعجب سے دیکھا کہ ان سب کے چہرے سوجے ہوئے اور سیاہ تھے اور چال ڈھال سے بھی وہ مضمحل نظر آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اس علاقے میں کالا بخار اور ملیریا کثرت سے پھیلا ہوا ہے اور یہاں ان مزدوروں کا علاج کرنے والا بھی کوئی بھی ڈاکٹر نہیں ہے۔

    مصیبت یہ تھی کہ یہ لوگ اس قدر جاہل اور وحشی تھے کہ بیماریوں سے محفوظ رہنے کے جو قواعد انہیں بتائے جاتے ، ان پر بالکل عمل نہ کرتے تھے۔ حالاں کہ وہ دیکھتے تھے کہ وبائی امراض کی بدولت روزانہ تین چار آدمی موت کا شکار ہو رہے ہیں۔

    سورج غروب ہوتے ہی دریا کی جانب سے ایک سیاہ بادل کی شکل میں بڑے بڑے مچھروں کی فوج اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتی اور بدنصیب مزدوروں پر ٹوٹ پڑتی۔ ان کے پاس مچھروں کو بھگانے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ آگ کے الاؤ جلا دیے جاتے تاکہ مچھر نزدیک نہ آئیں۔ مگر جونہی ان بے چاروں پر نیند کا غلبہ ہوتا اور آگ مدھم پڑ جاتی، وہ ہزاروں کی تعداد میں ایک آدمی سے چمٹ جاتے اور جب صبح ان کی آنکھ کھلتی تو ان کے چہرے اور جسم سوجے ہوئے نظر آتے۔

    اگرچہ میں نے حکم دے رکھا تھا کہ پانی ابال کر پیا جائے لیکن مزدوروں کو اس کی پروا نہ تھی۔ وہ دریا اور گڑھوں میں سے پانی نکال کر بے تکلفی سے پی لیتے تھے حالاں کہ اس پانی کی سطح پر مچھروں کے انڈے تیر رہے ہوتے تھے۔

    قصّہ مختصر میری جان توڑ کوششوں کے باوجود ملیریا کا مرض مزدوروں میں پھیلتا چلا گیا۔ میں بھلا کیا کرتا؟

    (انتخاب:‌ آنائی کے آدم خور وحشی​، مقبول جہانگیر)​

  • پاکستان کا نایاب قومی جانور مارخور شکاریوں کے نرغے میں

    پاکستان کا نایاب قومی جانور مارخور شکاریوں کے نرغے میں

     ملکی و غیر ملکی شکاریوں نے پاکستان کے قومی جانور مارخور کے شکار کے لیے گلگت بلتستان اور کشمیر کا رخ کر لیا، شکاریوں کے نرغے میں مارخور معدومی کے خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔

    پاکستان میں پہاڑی بکری کی نہایت قیمتی نسل مارخور کو قانونی طور پر بھی شکار کیا جاتا ہے، جس کے لیے نومبر سے لے کر اپریل کے مہینے تک قانونی شکار کا موسم چلتا ہے، تاہم اس دوران غیر قانونی شکار بھی جاری رہتا ہے۔

    [bs-quote quote=”شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پاکستان میں دیگر نایاب اور قیمتی پرندوں کا بھی باقاعدہ شکار کیا جاتا ہے، اور اس کے لیے فیسیں مقرر ہیں تاہم مارخور اس حوالے سے سرِ فہرست ہے کہ اس کے شکار کی فیس ایک لاکھ ڈالر ہے، جس کے لائسنس کے لیے مقامی اور غیر ملکی شکاری بولی دیتے ہیں۔

    مارخور کے شکار کے لیے بولی گلگت بلتستان کے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے دفتر میں منعقد کی جاتی ہے، جہاں جنگلی حیات اور ماحولیات کے شعبے کے وزرا اور حکام بھی موجود ہوتے ہیں، ہر سال ایک سروے کے بعد ٹرافی شکار کے لیے کوٹا بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ مارخور کے شکار کے لیے ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا۔

    شکاریوں کے نزدیک اچھا وقت دسمبر کے مہینے کا ہوتا ہے، کیوں کہ جنوری، فروری اور مارچ میں موسم کے تغیر کے باعث شکار میں ناکامی ہوسکتی ہے، تاہم اپریل میں برف پگھلنے کے بعد سبز گھاس اگتی ہے تو مارخور پہاڑوں سے خوراک کی تلاش میں نیچے اترتے ہیں اس لیے یہ مہینا بھی شکار کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔

    گلگت بلتستان میں مارخور 2 ہزار سے 3 ہزار میٹر کی بلندی پر پلتے ہیں، تاہم کشمیر کے مارخور کا تعاقب دیگر پہاڑی شکاروں کی مانند بے پناہ جسمانی مشقت کا حامل ہوتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  گلگت: امریکی شکاری کا ایک لاکھ ڈالر کے عوض مارخور کا شکار

    یہ پہاڑی بکرے خوب صورت جنگلی حیات میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں بالخصوص نر ماخور جس کے سینگ لمبے اور چکردار ہوتے ہیں، برفانی لیپرڈ اور بھیڑیوں سے بچنے کے لیے یہ خطرناک کھڑی چٹانوں میں اپنا مسکن بناتے ہیں، یہ کھڑی چٹانیں انھیں شکاریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں، سرکاری سطح پر بھی اس شکار کو ہنٹنگ ٹرافی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔

    مارخور چوں کہ نایاب جانور ہے اور صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے، اس لیے قانونی اور غیر قانونی شکار، محکمہ جنگلی حیات کی غفلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کی معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان میں پرندوں کا شکار، امریکی ڈالرز میں فیس مقرر

    یہ مغربی کوہِ ہماليہ ميں اپنا ٹھکانا رکھتا ہے، مارخور کا کندھے تک کا قد 115-65 سينٹی ميٹر تک اور اس کے بل کھاتے سينگوں کی لمبائی نر مارخور 160 سينٹی ميٹر اور مادہ 25 سينٹی ميٹر تک ہوتی ہے۔

    يہی سينگ شکاريوں کو ان خوب صورت جانوروں کی طرف راغب کرتے ہيں جو کہ شکاری بہ طور ٹرافی رکھتے اور بيچتے ہيں، سينگ کے علاوہ گوشت حاصل کرنے اور بيچنے کی لالچ بھی اس کے غير قانونی شکار پر مائل کرتی ہے۔

    پاکستان کے اس خوبصورت قومی جانور کی نایاب نسل کو معدومی سے بچانے کے لیے حکومتِ پاکستان کو اس کے ہر قسم کے شکار پر پابندی عائد کرنی ہوگی۔