Tag: شکیل بدایونی

  • شکیل بدایونی کا تذکرہ جن کے نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں!

    شکیل بدایونی کا تذکرہ جن کے نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں!

    شکیل بدایونی کا انتقال 20 اپریل سنہ 1970 کو ہوا تھا۔ وہ ممبئی میں باندرہ قبرستان میں پیوندِ‌‌ خاک ہوئے، مگر اب ان کی قبر کا کوئی نشان نہیں ملتا۔

    شکیل بدایونی کے فلمی نغمات اور ان کی غزلیں‌ بھارت اور پاکستان ہی نہیں‌ جہاں‌ بھی اردو زبان و شاعری سے شغف رکھنے والے رہتے ہیں، آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنی جاتی ہیں۔ شکیل بدایونی نے فلم’ ‘درد‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ اس سے قبل وہ مشاعروں‌ میں‌ شرکت کرکے شہرت پاچکے تھے۔

    شکیل بدایونی 3 اگست سنہ 1916 کو اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ والد ممبئی کی مسجد میں خطیب اور پیش امام تھے۔ شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی اور خاص ماحول میں پروان چڑھے۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد بدایوں کے ایک ہائی اسکول سے تعلیم مکمل کر کے سنہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں سے بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر سنہ 1942 میں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے۔

    شکیل بدایونی نے علی گڑھ کے زمانے میں‌ شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ جگر مراد آبادی نے ان کی سرپرستی کی اور اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے اور پھر ممبئی جو اس وقت فلمی دنیا کا مرکز تھا، وہاں شکیل کو فلموں میں گیت لکھنے کا موقع 1946 میں اس وقت ملا جب ان کے ایک دوست نے ان کی ملاقات مشہور فلم پروڈیوسر اے آر کاردار سے کروائی۔ شکیل کو کام مل گیا اور پھر انھوں نے ایک سو بھی زائد فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ آج بھی شکیل بدایونی کے یہ گیت سن کر لوگ جھومنے لگتے ہیں۔ فلم مغل اعظم کا گانا ‘پیار کیا تو ڈرنا کیا، ہمیں کاش تم سے محبت نہ ہوتی اپنے زمانے کے مقبول ترین گیت تھے۔

    فلمی دنیا میں‌ شکیل بدایونی امنگوں اور پیار بھرے جذبات سے بھرپور شاعری کی وجہ سے بے حد مصروف رہے لیکن انھوں نے غزل گوئی ترک نہ کی۔ ان کا غزلیہ کلام بھی بہت خوب صورت ہے اور ان کے شعری مجموعے نغمۂ فردوس، صنم و حرم، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں کے عنوان سے شائع ہوئے۔ ان کے کئی اشعار زبان زد عام ہوئے اور بہت سے فلمی گیت اپنے دور میں‌ ہر نوجوان کے لبوں‌ پر گویا مچلتے رہے ہیں۔ ایک شعر دیکھیے:

    میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی
    ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

    شکیل بدایونی کی یہ غزل بہت مقبول ہوئی۔ اسے کئی بڑے گلوکاروں‌ نے گایا ہے۔

    اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
    جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
    یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی تھی
    آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
    جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیل
    مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا

    شکیل بدایونی نے اپنے وقت کے ممتاز موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ نوشاد اور شکیل بدایونی کے اشتراک سے متعدد سپر ہٹ گیت سامنے آئے جن میں فلم ‘’میلہ‘ کا ’یہ زندگی کے میلے‘، ’سہانی رات ڈھل چکی نجانے تم کب آؤ گے‘ ، ’میرے محبوب تجھے میری محبت کی قسم‘، اڑن کھٹولہ شامل ہیں۔ نوشاد کے بعد شکیل نے موسیقار روی کے لیے گیت لکھے جو بے حد مقبول ہوئے،
    فلم چودھویں کا چاند کے ٹائٹل گیت’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘ پر 1961 میں شکیل بدایونی کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔

    شکیل بدایونی کی آپ بیتی ’میری زندگی‘ کے عنوان سے شایع ہوئی تھی جس میں‌ وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں: برخوردار، آج کے مشاعرے میں کون سی غزل پڑھو گے؟ میں(شکیل بدایونی) نے عرض کیا، ایک تازہ غزل لکھی ہے۔ انھوں نے کہا، ’سناؤ تو ذرا۔‘ میں نے غزل کا مطلع پڑھا:

    اندازِ مداوائے جنوں کام نہ آیا
    کوشش تو بہت کی مگر آرام نہ آیا

    حفیظ صاحب نے فرمایا کہ ’عزیزِ من، اگر یہ غزل کسی استاد کو سنا دی جاتی تو کہیں سے کہیں پہنچ جاتی۔‘ میں نے کہا ’حفیظ صاحب، اگر میں اسی غزل پر مشاعرہ نہ الٹ دوں تو نام نہیں۔ چنانچہ شب کو گورنر ہیملٹ کی صدارت میں مشاعرہ ہوا اور میں نے وہی غزل پڑھ کر بے پناہ داد حاصل کی۔‘

    بھارتی فلم انڈسٹری کے اس مقبول نغمہ نگار کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شاعری کے علاوہ بیڈمنٹن کھیلنا پسند کرتے تھے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اکثر پتنگ بازی بھی کرتے تھے۔

  • ہم بھی اگر بچے ہوتے، پل میں ہنستے پل میں روتے!

    ہم بھی اگر بچے ہوتے، پل میں ہنستے پل میں روتے!

    1964 میں ہندی فلم "دُور کی آواز” ریلیز ہوئی جس کا ایک نغمہ بہت مشہور ہوا۔ اس کے خالق شکیل بدایونی تھے۔ یہ اس مشہور شاعر اور گیت نگار کے تخلیق کردہ اُن فلمی گیتوں‌ میں سے ایک ہے جنھیں‌ آج بھی گنگنایا اور پسند کیا جاتا ہے۔

    اس کا عنوان تھا "ہم بھی اگر بچے ہوتے” جو آشا بھونسلے، مناڈے اور محمد رفیع کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوا اور اس کے موسیقار روی تھے۔

    آپ نے بھی یہ نغمہ سنا ہو گا۔ آج اپنی یادوں کی چلمن اٹھا کر جھانکیے اور مان لیجیے کہ اس گیت کے بولوں میں ایک ایسی حقیقت اور سچّائی پوشیدہ ہے جس سے کوئی انکار نہیں‌ کرسکتا۔

    ہم بھی اگر بچے ہوتے
    نام ہمارا ہوتا گبلو ببلو
    کھانے کو ملتے لڈو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    کوئی لاتا گڑیا، موٹر، ریل
    تو کوئی لاتا پھرکی، لٹو
    کوئی چابی کا ٹٹو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    کتنی پیاری ہوتی ہے یہ بھولی سی عمر
    نہ نوکری کی چنتا، نہ روٹی کی فکر
    ننھے منے ہوتے ہم تو دیتے سو حکم
    پیچھے پیچھے پاپا ممی بن کے نوکر
    چاکلیٹ، بسکٹ، ٹافی کھاتے، پیتے دُدّو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو

    کیسے کیسے نخرے کرتے گھر والوں سے ہم
    پل میں ہنستے پل میں روتے کرتے ناک میں دم
    اکڑ بکڑ لکا چھپی، کبھی چھُوا چھو
    کرتے دن بھر ہلہ گلہ دنگا اور ادھم
    اور کبھی ضد پر اڑ جاتے جیسے اڑیل ٹٹو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    اب تو یہ ہے حال کہ جب سے بیتا بچپن
    ماں سے جھگڑا باپ سے ٹکر بیوی سے اَن بَن
    کولہو کے ہم بیل بنے ہیں، دھوبی کے گدھے
    دنیا بھر کے ڈنڈے سَر پہ کھائیں دنادن
    بچپن اپنا ہوتا تو نہ کرتے ڈھینچو ڈھینچو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو

  • "صدر” کا حکم

    "صدر” کا حکم

    مشہور شاعر اور فلم کے لیے لازوال گیت تخلیق کرنے والے شکیل بدایونی جگر مراد آبادی کے شاگرد تھے۔

    ایک مرتبہ راندیر (سورت، انڈیا) میں شکیل بدایونی کی صدارت میں مشاعرہ منعقد ہوا جس میں جگر مراد آبادی بھی تشریف لائے۔ مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے شکیل بدایونی نے مائک پر کہا:

    ’’چونکہ جگر صاحب میرے بزرگ ہیں اس لیے میں اس مشاعرے کی صدارت کرنے کی گستاخی نہیں کر سکتا۔‘‘

    جگر صاحب نے مائک ہاتھ میں لیا اور کہا:

    ’’اگر شکیل مجھے اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں تو بحیثیت بزرگ میں انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ مشاعرے کی صدارت کریں۔‘‘

    وہ دور بڑی محبت، رواداری، بزرگوں کی عزت اور تکریم کرنے والا دور تھا۔ جگر صاحب کی بات سن کر شکیل بدایونی کچھ نہ کہہ سکے اور ان کی صدارت میں مشاعرہ شروع ہوا۔

    تمام شاعر کلام پڑھ چکے اور صرف دو یعنی جگر صاحب اور شکیل بدایونی کلام سنانے سے رہ گئے تو شکیل بدایونی مائک پر اپنا کلام سنانے آ گئے تاکہ جگر صاحب سب سے آخر میں کلام سنائیں۔

    یہ مشاعروں کی روایت رہی ہے کہ صدرِ محفل سب سے آخر میں‌ کلام سناتے ہیں۔

    لیکن شکیل بدایوںی کے ساتھ ہی جگر صاحب بھی اٹھ کر آگے آ گئے اور کہنے لگے:

    ’’آپ صدر ہیں آپ سب سے آخر میں اپنا کلام سنائیے گا۔‘‘

    اس پر شکیل برجستہ بولے: ’’جگر صاحب اگر آپ مجھے صدر مانتے ہیں تو میں بحیثیت صدر میرا حکم ہے کہ آپ سب سے آخر میں کلام سنائیں گے۔‘‘

    محفل میں قہقہے بلند ہوئے اور جگر صاحب کو شکیل بدایونی کی بات ماننی پڑی۔