Tag: شگفتہ تحریریں

  • جب روفی ‘شیطان’ مشہور ہوئے!

    جب روفی ‘شیطان’ مشہور ہوئے!

    اس رات اتفاق سے میں نے شیطان کو خواب میں دیکھ لیا۔ خواہ مخواہ خواب نظر آگیا۔ رات کو اچھا بھلا سویا تھا، نہ شیطان کے متعلق کچھ سوچا نہ کوئی ذکر ہوا۔ نجانے کیوں ساری رات شیطان سے باتیں ہوتی رہیں اور شیطان نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا کہ خاکسار کو شیطان کہتے ہیں۔

    یہ فقط ذہنی تصویر تھی جس سے شبہ ہوا کہ یہ شیطان ہے۔ چھوٹے چھوٹے نوک دار کان، ذرا ذرا سے سینگ، دبلا پتلا بانس جیسا لمبا قد۔ ایک لمبی دم جس کی نوک تیر کی طرح تیز تھی۔ دُم کا سرا شیطان کے ہاتھ میں تھا۔ میں ڈرتا ہی رہا کہ کہیں یہ چبھو نہ دے۔ نرالی بات یہ تھی کہ شیطان نے عینک لگا رکھی تھی۔ رات بھر ہم دونوں نہ جانے کس کس موضوع پر بحث کرتے رہے۔

    اس صبح چائے کی میز پر بیٹھتے ہیں تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ روفی کی شکل بالکل شیطان سے ملتی تھی۔ شکل کیا حرکتیں بھی وہیں تھیں۔ ویسا ہی قد، وہی چھوٹا سا چہرہ، لمبی گردن، ویسی ہی عینک، وہی مکار سی مسکراہٹ۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ چپکے سے رضیہ کے کان میں کہہ دیا کہ روفی شیطان سے ملتے ہیں۔ وہ بولی۔ آپ کو کیا پتہ؟ کہا کہ ابھی ابھی تو میں نے اصلی شیطان کو خواب میں دیکھا ہے۔ حکومت آپا رضیہ کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے جو ہمیں سرگوشی کرتے دیکھا تو بس بے قابو ہوگئیں۔ فوراً پوچھا۔۔۔ کیا ہے۔۔۔؟ رضیہ نے بتا دیا۔

    حکومت آپا کو تو ایسا موقع خدا دے۔ بس میز کے گرد جو بیٹھا تھا اسے معلوم ہوگیا کہ روفی کا نیا نام رکھا جا رہا ہے۔ لیکن محض خواب دیکھنے پر تو نام نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ ویسے روفی نے ہمیں تنگ بہت کر رکھا تھا۔ بچوں تک کی خواہش تھی کہ ان کا نام رکھا جائے۔

    ہم چائے ختم کرنے والے تھے۔ مجھے دوسرے آملیٹ کا انتظار تھا اور رضیہ کو پتہ نہیں کس چیز کا۔۔۔ کالج میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا، اس لیے مزے مزے سے ناشتہ کر رہے تھے۔ اتنے میں ننھا حامد بھاگا بھاگا آیا۔ اس کے اسکول کا وقت ہوگیا تھا اس لیے جلدی میں تھا۔ وہ روفی کے برابر بیٹھ گیا۔ حامد کو بخار ہو گیا تھا۔ تبھی اس کی حجامت ذرا باریک کروائی گئی تھی۔ روفی نے بڑی للچائی ہوئی نگاہوں سے حامد کے سر کو دیکھا۔ جونہی حامد نے ٹوسٹ کھانا شروع کیا روفی نے ایک ہلکا سا تھپڑ حامد کے سر پر جما دیا، اور میں نے فوراً رضیہ سے کہہ دیا کہ سچ مچ روفی شیطان ہی ہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی ننگے سر کھائے تو شیطان دھول مارتا ہے۔ حکومت آپا چونک کر ہماری جانب متوجہ ہوئیں۔ ان کو پتہ چلنا تھا کہ سارے کنبے کو معلوم ہوگیا کہ آج سے روفی شیطان کہلائے جائیں گے۔

    یہ تھا وہ واقعہ جس کے بعد روفی شیطان مشہور ہوگئے۔ چند ہی دنوں میں ہر ایک کی زبان پر یہ نام چڑھ گیا۔ یہاں تک کہ خود روفی نے اس نام کو بہت پسند کیا۔ روفی اور میں بچپن کے دوست تھے اور مجھے ان کی سب کہانیاں یاد تھیں۔ جب ہم بالکل چھوٹے چھوٹے تھے تو ایک دن روفی کو ان کی نانی جان تاریخ پڑھا رہی تھیں۔ جب پتھر اور دھات کے زمانے کا ذکر آیا تو روفی پوچھنے لگے، ’’نانی جان آپ پتھر کے زمانے میں کتنی بڑی تھیں؟‘‘ پھر کہیں سقراط اور بقراط کا ذکر ہوا۔ یہ بولے، ’’نانی جان سقراط اور بقراط کیسے تھے؟‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’آپ نے تو دیکھے ہوں گے۔‘‘ جواب ملا۔ ہر وقت روفی کو کچھ نہ کچھ سوجھتی رہتی تھی۔

    لیکن جب ہماری جماعت میں انسپکٹر صاحب معائنہ کرنے آئے تو وہ روفی سے بہت خوش ہوئے اور انعام دے کر گئے۔ انہوں نے پوچھا، ’’اگر پانی کو ٹھنڈا کیا جائے تو کیا بن جائے گا؟‘‘ ہم نے سوچا کہ روفی کہہ دیں گے کہ برف بن جائے گا۔

    روفی نے پوچھا، ’’کتنا ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    وہ بولے، ’’بہت ٹھنڈا کیا جائے۔‘‘

    روفی سوچ کر بولے، ’’تو وہ بہت ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ (بہت پر زور دے کر)

    ’’اگر اور بھی ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    ’’تو پھر وہ اور بھی ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ روفی بولے۔

    ’’اور اگر اسے بے حد ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    ’’تو وہ بے حد ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ انسپکٹر صاحب مسکرانے لگے اور پوچھا، ’’اچھا اگر پانی کو گرم کیا جائے تب؟‘‘

    ’’تب وہ گرم ہو جائے گا۔‘‘

    ’’نہیں، اگر ہم اسے بہت گرم کریں اور دیر تک گرم کرتے رہیں پھر؟‘‘

    روفی کچھ دیر سوچتے رہے، یکایک اچھل کر بولے، ’’پھر۔۔۔ چائے بن جائے گی۔‘‘ اور انسپکٹر صاحب نے ایک عظیم الشان قہقہہ لگایا۔ ماسٹر صاحبان نے کوشش کی کہ انہیں کہیں ادھر ادھر لے جائیں، لیکن وہ وہیں کھڑے رہے اور روفی سے بولے، ’’بلّی کی کتنی ٹانگیں ہوتیں ہیں؟‘‘

    ’’تقریباً چار!‘‘

    ’’اور آنکھیں؟‘‘

    ’’کم از کم دو۔۔۔!‘‘

    ’’اور دُمیں؟‘‘

    ’’زیادہ سے زیادہ ایک!‘‘

    ’’اور کان؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’تو کیا سچ مچ آپ نے اب تک بلّی نہیں دیکھی؟‘‘ روفی منہ بنا کر بولے اور انسپکٹر صاحب ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے۔ ان دنوں سے میں اور روفی دوست تھے۔

    (پاکستان کے معروف طنز و مزاح نگار اور افسانہ نویس شفیق الرحمان کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    پوچھا کسی نے، ”بھئی! یہ مغلِ اعظم جیسی عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہوگئی؟“

    ہمارا جواب تھا، ”بادشاہوں کی فلموں سے انھیں دل چسپی ہوگی جن کے لیے بادشاہت تاریخ کا حصہ ہوگئی ہے، ہم پاکستانیوں کو ”اکبرِاعظم اور نورتن“ کے نظارے کے لیے سنیما جانے کی کیا ضرورت؟“

    بہرحال ”مغلِ اعظم“ کی ناکامی سے قطع نظر اس فلم کی پاکستان میں نمائش سے پاک بھارت ”فلمی تعلقات“ کا ایک نیا دور شروع ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ یہاں فلمی تعلقات کی اصطلاح ہم نے بہت ہی محدود معنوں میں استعمال کی ہے ورنہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے فلمی انداز ہی کے رہے ہیں اور وہ بھی ایکشن فلموں والے۔ کبھی کبھی ان تعلقات میں رومانوی فلموں کا رنگ آجاتا ہے اور کبھی تو لگتا ہے جیسے سفارتی اسکرین پر روایتی پنجابی فلم کا گانا چل رہا ہو جس میں ناچتی، اچھلتی کودتی اور چھلانگیں لگاتی ہیروئن ”کُل وقتی ناراض“ اور مغل بچوں کی طرح محبوب کو مار رکھنے کی خُو بُو والے ”جٹ“ ہیرو کو دراصل اتنی سی بات باور کروا رہی ہوتی ہے کہ اسے ”بڑے زور کی محبت لگی ہے“، ادھر ہیرو ”اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی“ کی تصویر بنا اکڑا کھڑا ہوتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو ”دل میرا اٹوٹ انگ ہے، یہ تو میں کسی حال میں نہیں دوں گا۔“

    بعض حضرات کا خیال ہے کہ ہیرو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اچھل کود کے نتیجے میں بھاری بھرکم ہیروئن کا وزن ذرا کم ہو تو محبت کا آغاز کیا جائے۔

    جن دنوں ہمارا ملک ”مسلم سوشل فلم“ بنا ہوا تھا، اس زمانے میں بھی یہاں بھارتی فلمیں دیکھنے کی مکمل آزادی تھی اور اب تو وطن عزیز کا منظر نامہ خاصا رنگین، بلکہ ”گلیمرائز“ ہوچکا ہے، لہٰذا قوی امید ہے کہ ہم پاکستانی بہت جلد بڑی اسکرین پر ”چھوٹے کپڑے“ دیکھ کر کمپیوٹر اور ٹی وی کی اسکرین سے زیادہ محظوظ ہوں گے۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے امکان کے ساتھ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے اداکار اور اداکارائیں ایک دوسرے کے ملک میں آ…جا اور باہم گھل مِل رہے ہیں۔ دوستی بڑھانے کا یہ بہت اچھا موقع ہے، بشرطے کہ اداکار موقع سے فائدہ اٹھانا جانتے ہوں۔

    بہت سے حضرات کو پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر سخت اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلموں کی نمائش دوطرفہ بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ہم نہ صرف اس مطالبے کی پرزور تائید کرتے ہیں، بلکہ ہمارا تو کہنا ہے کہ حکومت پاکستان، بھارت سرکار سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے ملک میں ”فلم بینی بالجبر“ کا قانون منظور کرواکے ہر بھارتی کو پاکستانی فلمیں دیکھنے کا پابند بنا دے۔

    ویسے ہمیں ذاتی طور پر بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے زیادہ پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمایش سے دل چسپی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر ہماری پنجابی فلمیں دہلی، ممبئی اور کولکتہ وغیرہ کے سنیما گھروں میں چلنے لگیں تو بھارتیوں کے دل میں ”گنڈاسے“ کی ایسی دہشت بیٹھے گی کہ وہ کہہ اٹھیں گے ”بھگوان کے لیے کشمیر لے لو، مگر ہمیں اپنی فلمیں نہ دکھاؤ۔“

    ہم اس رائے کے تہِ دل سے حامی ہیں کہ دونوں ملک مشترکہ فلم سازی کریں، مگر ہمارا کہنا ہے کہ یہ مشترکہ فلمیں یک طرفہ کے بہ جائے ”مشترکہ ”ہی نظر آنی چاہییں۔ یعنی ان فلموں میں نہ صرف دونوں ملکوں کے اداکار ایک ساتھ کام کریں، بلکہ فلموں کے نام، کہانیاں اور مناظر بھی مشترکہ نوعیت کے ہوں، چوں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، اس لیے ہم یہاں ایک مشترکہ فلم کا خاکہ تجویز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس مجوزہ خاکے پر اور اس فارمولے کے تحت بننے والی فلم ہی مشترکہ کہلانے کی مستحق ہوگی۔

    ہماری تجویز کردہ فلم کا نام ہے ”جٹ تے مغل اعظم“ ہم یقینِ کامل کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس نام سے ”مغل اعظم“ کا ری میک بنایا جائے تو نہ صرف یہ فلم کام یاب ہوگی، بلکہ کئی ”کھڑکی توڑ ہفتے“ بھی مکمل کرے گی۔ اب جہاں تک کہانی کا تعلق ہے تو ہماری رائے میں کہانی کا آغاز لکھ کر اختتام کرداروں پر چھوڑ دیا جائے، ”جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔“ رہے مکالمے، تو اصل مغل اعظم کے ہر مکالمے کے شروع اور آخر میں ”اوئے“ لگا کر انھیں مشترکہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات ہم بہ صد اصرار کہیں گے کہ برصغیر میں نہ سہی، فلم میں مرکزی کردار پاکستان ہی کو ملنا چاہیے۔ اگر سلطان راہی حیات ہوتے تو ہم ”شہزادہ سلیم“ کے کردار کے لیے انھی کا نام تجویز کرتے۔ ایسی صورت میں فلم کا اختتام یقینا کسی ایسے منظر پر ہوتا کہ ”اکبر اعظم“ دیوار میں ”چُنے“ ہوئے ”شیخو شیخو“ پکار رہے ہیں اور ”شیخو“ انارکلی کو گھوڑی پر بٹھائے گنڈاسا لہراتا ”ٹپاٹپ ٹپا ٹپ“ دوڑا چلا جارہا ہے۔

    ”شیخو“ کے کردار کے لیے ہمارے ذہن میں دوسرا نام محمد علی کا تھا۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں تاریخی فلمیں بناتے وقت صرف فلم ریلیز کرنے کی تاریخ کے بارے میں سوچ بچار کی جاتی تھی، باقی سارے امور طے شدہ ہوتے تھے۔ مثلاً یہی کہ مرکزی کردار محمد علی کو ادا کرنا ہے۔ وہ تو خیریت گزری کہ قائد اعظم پر فلم لولی وڈ کے کسی فلم ساز اور ہدایت کار نے نہیں بنائی، ورنہ یہ کردار بھی محمد علی کو ملتا اور ان کے جذباتی طرز بیان سے متاثر ہوکر ”انگریز“ دو تین مناظر کے بعد ہی پاکستان بنانے پر مجبور ہوجاتے اور پوری فلم صرف دس پندرہ منٹ میں نمٹ جاتی۔ اسی طرح ”جٹ تے مغل اعظم“ کی کہانی میں انارکلی کا انجام اس بات پر منحصر ہوتا کہ محمد علی اکبر بادشاہ کا کردار کرتے ہیں یا شہزادہ سلیم کا۔ خیر، نہ سلطان راہی رہے نہ محمد علی، لہٰذا اب تو جو ہیں انھی سے کام چلانا پڑے گا۔ ایسے میں بہتر ہوگا کہ انارکلی کا کردار صائمہ کو دے دیا جائے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری یہ اداکارہ تمام بھارتی اداکاراؤں پر بھاری ہے، تاہم، ہمارے دعوے کی صداقت معلوم کرنے کے لیے آپ کو سنیما اسکرین کے بجائے ویٹ مشین سے رجوع کرنا ہوگا۔ اگر صائمہ نے انار کلی کا روپ دھارا تو اکبر اعظم کی کیا مجال کہ انارکلی کو دیوار میں چنوا سکیں۔ اوّل تو بادشاہ سلامت کی ہمت ہی نہیں ہوگی کہ مغلیہ سلطنت کی طرح ”وسیع و عریض“ اس انارکلی پر ”لشکر کشی“ کرسکیں۔ دوسرے ”ٹھیکے دار“ کا بھی یہی مشورہ ہوگا ”مہا بلی! دیوار اتنا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔“ یوں فلم کا اختتام غم ناک ہونے کے بہ جائے خوش گوار ہوگا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، وہ متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں اور بطور طنز و مزاح نگار ادبی حلقوں میں‌ شہرت رکھتے ہیں)

  • "ناغے کے مزے لوٹے ہر دور میں ناغہ خوروں نے!”

    "ناغے کے مزے لوٹے ہر دور میں ناغہ خوروں نے!”

    مصنّف: شائستہ زرّیں

    بچپن کی یادوں نے جب بھی ہمیں ستایا تو جہاں بچپن کے سنگی ساتھی یاد آئے وہاں اسکول کا زمانہ بھی بہت یاد آیا۔

    اسکول کا ذکر آئے اور ناغے کی بات نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں اور ہمارا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ دورِ ضعیفی میں بھی جب ماضی اپنی گرفت میں لیتا ہے تو بچپن کی یادوں اور باتوں میں ناغے کے دن بہت ستاتے ہیں۔ ممکن ہے اوروں کامشاہدہ اور تجربہ ہمارے مشاہدے کے برعکس ہو۔ بات ہو رہی تھی ناغے کی۔ زمانۂ طالبعلمی میں نیا کیلینڈر اسی لیے تو اچھا لگتا تھاکہ اس میں سال بھر کی تعطیلات کی فہرست بھی ہوتی تھی اور اگر کوئی چھٹّی اتوار کو پڑ جاتی تو ناغہ کا سارامزہ کرکرا ہو جاتا۔ یہ چھٹیاں بہت پُرلطف ہوتیں۔ پھر یوں ہوا کہ اسکول کا زمانہ بھی رخصت ہوا۔ اسکول کو خیرباد کہہ کر ہم نے کالج کی راہ پکڑی تو آئے دن کے ”ہڑتالی ناغوں“ نے ناغے کی ساری خوشی خاک میں ملا دی اور ناغہ ہماری آنکھوں میں خار بن کر کھٹکنے لگا۔ ہر بات کی آخر ایک حد اور خصوصی ناغوں کی لذت ہی الگ ہوتی ہے۔

    آج یادوں نے ذہن پر دستک دی تو جہاں زمانۂ طالبعلمی کے ناغوں نے اپنے حصار میں لیا وہاں انواع و اقسام کے ناغہ خوروں کا خیال بھی ہمیں ستانے لگا۔ ان میں سے بعض تفریحاً، چند مجبوراً، اکثر عادتاً اور کچھ تقلیداً ناغہ کرتے ہیں۔ آخری قسم کے ناغہ خور وہ ہیں جو اچھے بھلے جی رہے ہوتے ہیں، عادی ناغہ خوروں کو دیکھ کر اُنھیں بھی ناغہ کی ہڑک اُٹھتی ہے اور وہ ناغہ کا ذائقہ چکھنے کو بے چین ہوجاتے ہیں، لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں اوراپنے تو اپنے غیر بھی اُن کے ہنر کی داد دیتے نظر آتے ہیں۔ ان روایتی و مثالی ناغہ خوروں کے درمیان کئی ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جو ناغہ کے تصور ہی سے خائف ہو جاتے ہیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے ناغہ جن کے لیے پیغامِ حیات لاتا ہے۔ ناغہ خوروں کی وجہ سے اُن کی چاندی جو ہو جاتی ہے۔ ظہیر کو جمعہ کو بخار چڑھا، ہفتہ ناغہ ہوا، اتوار کو دوبارہ اُسے بخار نے آ لیا، پیر کو ایک مرتبہ پھر ناغہ۔ ظہیر تو بوکھلا گیا۔ ڈاکٹر کے پاس گیا اور اُنھیں اپنا فسانۂ درد سنا کر پوچھا ؎ اے مسیحا یہ ماجرا کیا ہے؟

    ڈاکٹر نے حسبِ پیشہ دو بول تسلی کے دیے، دو سو فیس کے لِیے اور دو ہزار کے ٹیسٹ ظہیر کی نذر کیے تو وہ تلملا گیا۔ اوائلِ بچپن ہی سے اُسے ٹیسٹ سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ اِدھر ڈاکٹر نے اُس کے ہاتھ میں ٹیسٹ کا پرچہ تھمایا، اُدھر یک بیک وہ اپنے بچپن میں پہنچ گیا جب عین ٹیسٹ والے روز بالکل اچانک اُس کے کسی بھی حصہ جسم میں درد کا ایسا شدید حملہ ہوتا کہ وہ بے حال ہو جاتا۔ درد چونکہ نظر بھی نہیں آتا، اسے وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس میں مبتلا ہو۔ سو، ظہیر مزے سے ناغہ کر لیتا اور ایسا ہر اُس دن ہوتا جب ماہانہ ٹیسٹ ہوتا۔ باقی دن وہ چین کی بانسری بجاتا اور ماہانہ ٹیسٹ ختم ہوتے ہی پہلے کی طرح ہشاش بشاش ہو جاتا۔ گھر والے اِس صورت حال سے حیران و پریشان تھے، لیکن اللہ جانے ظہیر نے ڈاکٹر سے کیا ساز باز کر رکھی تھی کہ وہ بھی ظہیر کے ساتھ شریک ہوجاتے اور اب جو برسوں بعد ظہیرکو درحقیقت ناغہ کا بخارچڑھا تو وہ خود ڈاکٹر کی سازش کا شکار ہو گیا کہ ٹیسٹ کی نوعیت بے شک بدل گئی تھی لیکن اس کی یہ ہیَت خاصی ہیبت ناک تھی۔ یکایک ظہیر کو احساس ہوا کہ اسکول کے ٹیسٹ تو بہت بے ضرر اور تعلیمی سفر کا زادِ راہ ہوا کرتے تھے اور یہ ٹیسٹ جیب کٹنے کی علامت ہیں۔ اُس کی مہینہ بھر کی خون پسینے کی کمائی کا بڑا حصہ ناغہ کی اذیت کی نذرہو گیا تو زندگی میں پہلی بار ناغہ سخت برا لگا اور اُسے اپنا مصلحتاً کیا جانے والا ناغہ بلکہ بے دریغ ناغے یاد آگئے۔

    شوکت کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں تفریحاً ناغہ کی بہت سوجھتی ہے۔ مثلاً اگر کل میں دفتر سے ناغہ کر لوں تو مزہ ہی آجائے، کئی روز ہوئے گرلز کالج کا چکر نہیں لگایا، ایک دن کے ناغہ کے عوض دل لگی میں کیا برائی ہے؟ بہت ممکن ہے، ایک دن کی دل لگی شوکت کی شان و شوکت میں اضافے کا سبب بن کر دائمی خوشیوں کی نوید دے دے۔ شوکت نے اپنا سراپا آئینے میں دیکھ کرسوچا اور دفترسے ناغہ کر کے گرلز کالج کی راہ پکڑی۔ اب یہ شوکت کے نصیب کہ اُن کی شان تو کیا بڑھتی ہاں رہی سہی شوکت بھی خاک میں مل گئی۔اُس روز ناغہ کے طفیل شوکت کی وہ بھد اڑی کہ دفترسے مستقل ناغہ کی نوبت آگئی کہ جس لڑکی کو وہ شیشے میں اُتارنے کی ناکام کوشش کررہے تھے وہ کوئی اور نہیں اُن کے باس کی بیٹی تھی۔

    ناغہ ہر ایک کو راس نہیں آتا۔ ہفتہ وار سرکاری تعطیل کے علاوہ بھی ہفتہ وار ناغہ کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی ہمیں وہ ناغہ یاد آگیا جس کی اطلاع نے ایک پل میں ہمیں کئی کیفیتوں سے گزار دیا تھا۔ آج آپ بھی اس ناغہ کی روداد سے لطف اندوز ہوں۔

    استاد کی زبان سے ادا ہونے والا ایک تاکیدی جملہ بھی شاگردوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے، سو پروفیسر صاحب کا ہدایت نامہ ہم نے بھی بصد عجز و نیاز سُنا کہ ”منگل کے علاوہ کسی روز بھی آجانا کہ منگل کو میرا اور گوشت کا ناغہ ہوتا ہے۔“ منگل کے گوشت کا ناغہ تو بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں لیکن پروفیسر صاحب کے منگل کے ناغہ کا ذکر سُن کر ہم چونکے بغیر نہ رہ سکے۔ ہمیں زمانۂ طالبعلمی یاد آگیا جب بغیر اطلاع ناغہ کرنے پر طالبعلموں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاتی تھی اور اطلاعی ناغہ کرنے والوں سے بھی باز پُرس ضرور کی جاتی تھی۔ دستاویزی ثبوت کافی نہ سمجھا جاتا تھا۔ اب جو پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تو خیال آیا کہ پروفیسر صاحب بلاجواز اتنے دھڑلّے سے ہفتہ وار ناغہ کی تہمت نہیں اٹھا سکتے۔ یقیناً منگل کو تنقید، تحقیق و تخلیق کے نت نئے در وا ہوتے ہوں گے کہ تینوں امور پروفیسر صاحب کی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ منگل شادمانی کو کہتے ہیں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ منگل کو ناغہ کر کے پروفیسر صاحب فال نکالتے ہوں کہ امتحان کے لیے کون سی شبھ گھڑی ہو گی جب طالبعلم خلافِ توقع پرچہ دیکھ کر بھی اپنی تمام تر توجہ پرچے پر ہی مرکوز رکھیں گے اور کسی بھی اشتعال یا انتقام کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوں گے۔

    پروفیسر صاحب کے ناغہ کی گتھی تھی کہ سلجھ کر ہی نہیں دے رہی تھی، یکایک ہمیں اُن ناغہ خوروں کا خیال آگیا جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک دانا کا تجربہ بھی یاد آگیا کہ ”قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا“ تب ہمیں ایک اور پروفیسر صاحب یاد آگئے جو پڑھاتے بیشک بہت اچھا تھے لیکن قدر کھو دینے کے خدشے کے تحت تین دن ہونے والی کلاس میں سے بھی ایک دن ناغہ ضرورکرتے اور شاگرد ایسے ناخلف اور ناقدرے کہ اُستاد کی دانائی کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اُن سے ایسے بدظن ہوئے کہ اُن کی قدر و منزلت تک دل سے نکال بیٹھے، لیکن جن پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تھا وہ تو تدریسی ذمہ داریاں نباہنے میں بے مثال ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کے ساتھ گوشت کے ناغہ کا ذکر کیوں کیا؟ ہماری سُوئی تو یہیں آکر اٹک گئی تھی۔ ”بذلہ سنج ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں“ ہمارے دماغ نے ہمیں راہ دکھائی۔

    پروفیسر صاحب کی حکمت کا راز جانتے جانتے ہم نے خود حکمت کے موتی چننے شروع کردیے مگر عقدہ تھا کہ حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا کہ آخر منگل کو ہی ناغہ کیوں؟ جب کچھ لوگ اگر گوشت کے ناغہ کا غم منا رہے ہوتے ہیں تو بعض لوگ ناغہ کی مدت جلد ختم ہونے کی مسرت سے دوچار ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا ناغہ گورکھ دھندا بن گیا، ایسا پیچیدہ معاملہ جس میں الجھ کر خیال کے نت نئے پھول تو کھل گئے مگر ناغہ کا سراغ پھر بھی نہ مل سکا۔ اگر آپ میں ہمت ہے تو سراغ لگا لیجیے! شاید یہ کام یابی آپ کے حصے میں آجائے اور ہم پر بھی پروفیسر صاحب کا منگل کا ناغہ اور وہ بھی گوشت کے ناغہ کے ساتھ مذکور ناغہ کا راز منکشف ہوجائے۔

    ہاں ایک عہدے دارایسا بھی ہے جس کے ذمے ناغہ کرنے اور نہ کرنے والوں کی فہرست درج کرنا لکھا ہوتا ہے جسے اپنے ناغے سے زیادہ اوروں کے ناغے کا خیال ہی نہیں رہتا بلکہ وہ اُن کے ناغوں کا حساب اور ریکارڈ تک اپنے پاس رکھتا ہے۔ تمام ناغہ خوروں کے مزاج اور مسائل بھی سمجھتا ہے تو کیوں نہ ناغہ نویس سے ملا جائے جو عمرکے ہر حصے میں ناغہ کے مزے لوٹنے والوں کے تمام حربوں، حیلوں اور جواز سے واقف ہوگا۔ شاید ناغہ نویس کے توسط سے ہم مزید ناغہ خوروں سے ملاقات کر لیں۔ اُن ناغہ خوروں سے جو سرِدست ہماری دسترس سے دُور ہیں اور شاید اس طرح ہمارے علمِ ناغہ خوری میں قابلِ قدر اضافہ ہو جائے۔ لیکن یہ اضافہ طالبعلم بھی تو کر سکتے ہیں کہ ناغہ کی اصل عادت تو اسکول کے زمانے ہی سے پڑتی ہے نا؟ کیا خیال ہے؟