Tag: شہابیہ

  • کسی دوسری کہکشاں سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے والا پراسرار شہابیہ

    کسی دوسری کہکشاں سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے والا پراسرار شہابیہ

    حال ہی میں ہمارے نظام شمسی میں بین النجوم خلا (Interstellar Space) سے ایک فلکیاتی آبجیکٹ داخل ہوا ہے، جسے 3I/ATLAS (C/2025 N1) کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے قبل خلا کے اس مسافر کو عارضی طور پر A11pl3Z کا نام دیا گیا تھا۔

    اس کو پہلی بار یکم جولائی 2025 کو چلی میں اٹلس سروے ٹیلی اسکوپ کے ذریعے دریافت کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے ہی دن، 2 جولائی 2025 کو، انٹرنیشنل آسٹرونومیکل یونین کے مائنر پلینٹ سینٹر نے باضابطہ طور پر اس کی بین النجوم شے کے طور پر تصدیق کر دی۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی عام دم دار ستارہ (شہابیہ) نہیں، بلکہ ایک ایسی خلائی چیز ہے جو کسی دوسرے ستارے کے نظام سے نکلی ہے اور لاکھوں سالوں سے خلا میں سفر کر رہی ہے۔ اس کی حیران کن رفتار اور خصوصیات نے دنیا بھر کے ماہرین فلکیات کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔

    فلکیات دانوں کا اندازہ ہے کہ یہ کسی ستارے کا چھوٹا سیارہ، کسی سیارے کا چاند، یا کسی ستارے کے گرد چکر لگانے والا ایک شہابیہ ہو سکتا ہے۔ اس کی چوڑائی تقریباً 12 سے 25 میل (تقریباً 20 کلو میٹر) ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، البتہ اگر اس کا زیادہ تر حصہ برف پر مشتمل ہوا تو اس کا سائز کم بھی ہو سکتا ہے۔

    دنیا کا سب سے بڑا مریخ سیارے کا پتھر 4.3 ملین ڈالرز میں نیلام

    ناسا کے مطابق، 3I/ATLAS کی سب سے حیران کن خصوصیت اس کی رفتار ہے۔ یہ تقریباً 150,000 میل فی گھنٹہ (240,000 کلو میٹر فی گھنٹہ) سے زیادہ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔ یہ رفتار ناسا کے وائجر 1 خلائی جہاز سے چار گنا زیادہ تیز ہے، جو اسے ہمارے نظام شمسی میں اب تک دیکھی جانے والی تیز ترین اشیا میں سے ایک بناتی ہے۔

    ناسا کے سائنس دانوں نے تصدیق کی ہے کہ یہ واقعی کسی دوسرے ستارے کے نظام سے نکلا ہوا شہابیہ ہے جو لاکھوں سالوں سے خلا میں بھٹک رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی دوسری کہکشاں سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے والا کوئی شہابیہ سورج کے اتنے قریب آ رہا ہے۔

    سائنس دانوں کہ مطابق اکتوبر 2025 میں یہ مریخ کے قریب سے گزرے گا اور 30 اکتوبر کو سورج کے سب سے قریب 1.4 فلکیاتی اکائی (AU) کے فاصلے سے گزرے گا۔ اس دوران زمین سے اس کا فاصلہ تقریباً 150 ملین میل ہوگا، اور زمین کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگر یہ شہابیہ سورج کے قریب آ کر کافی روشن ہو جاتا ہے تو 2025 کے آخر یا 2026 کے شروع میں اسے امیچر ٹیلی اسکوپس (عام دوربینوں) کے ذریعے بھی دیکھا جا سکے گا۔ یہ فلکیات کے شوقین افراد کے لیے ایک نادر موقع ہوگا کہ وہ اس بین النجومی شہابیے کا مشاہدہ کر سکیں۔

     

  • ویڈیو: امریکی شہر میں‌ شہاب ثاقب گرنے سے زبردست روشنی اور دھماکا

    ویڈیو: امریکی شہر میں‌ شہاب ثاقب گرنے سے زبردست روشنی اور دھماکا

    امریکی ریاست منیسوٹا کے ایک علاقے میں‌ رات کے وقت زبردست روشنی اور دھماکا سنا گیا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شہاب ثاقب گرنے کا نتیجہ تھا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کے روز بیلٹرامی کاؤنٹی میں روشنی کا ایک زبردست جھماکا دیکھا اور ایک زوردار دھماکا سنا گیا، جس نے علاقے کے گھروں کی کھڑکیوں اور دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

    حکام کا کہنا تھا کہ ایک تیز روشنی کے بعد دھماکے کی آواز سنی گئی، اور ممکنہ طور پر یہ کسی شہابیہ کے گرنے کا نتیجہ تھا، کاؤنٹی کی ایمرجنسی منیجمنٹ نے کہا کہ روشنی اور دھماکے سے متعلق علاقے سے متعدد اطلاعات موصول ہوئیں۔

    اطلاعات ملنے کے بعد کاؤنٹی شیرف کے دفتر نے مقامی پاور اسٹیشنز اور ٹرانسفارمرز کو چیک کیا، تاکہ کسی دھماکے کا پتا چلایا جا سکے لیکن وہاں سب کچھ معمول کے مطابق کام کر رہا تھا اور کسی دھماکے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

    اس سلسلے میں ایک رہائشی نے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی فراہم کی، جس میں دیکھا گیا کہ آسمان سے ایک شہابیہ کی طرح شے گر رہی ہے، زمین پر گرتے ہی تیز روشنی اور پھر دھماکے کی آواز آئی۔

    کاؤنٹی کے ترجمان کرسٹوفر مولر نے مقامی ٹی وی کو بتایا کہ یہ تو واضح ہے کہ یہ بیلٹرامی کاؤنٹی کے آسمانوں پر سے گزرنے والی کوئی چیز تھی، لیکن ہم صرف قیاس ہی کر سکتے ہیں کہ یہ کوئی شہابیہ تھا۔

  • سورج کے گرد خطرناک اور بے قاعدہ رفتار سے چکر لگانے والا شہابیہ دریافت

    سورج کے گرد خطرناک اور بے قاعدہ رفتار سے چکر لگانے والا شہابیہ دریافت

    واشنگٹن: ماہرینِ فلکیات نے نظامِ شمسی کا سب سے تیز رفتار شہابیہ دریافت کیا ہے، تاہم یہ شہابیہ (asteroid) نہایت بے قاعدگی سے سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے اور اس دوران خطرناک حد تک سورج کے قریب چلا جاتا ہے۔

    شہابیہ دریافت کرنے والے کارنیگی انسٹیٹیوشن آف سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف 113 دن میں سورج کے گرد ایک چکر مکمل کر لیتا ہے، اگرچہ سیارہ عطارد (مرکری) صرف 88 دن میں سورج کے گرد اپنا چکر پورا کرتا ہے، تاہم عطارد ایک سیارہ ہے اور اس کا مدار بھی مستحکم ہے۔

    شہابیے کا مدار

    فلکیاتی ماہرین نے بتایا ہے کہ نو دریافت فلکیاتی جسم ایک شہابیہ ہے، جس کا مدار خاصا بے قاعدہ اور بیضوی شکل کا ہے، جب یہ اپنے مدار میں گردش کر رہا ہوتا ہے تو اس دوران یہ سورج سے صرف 2 کروڑ کلومیٹر کی نزدیکی پر آ جاتا ہے، یہ فاصلہ عطارد کے سورج سے اوسط فاصلے (4 کروڑ 70 لاکھ کلومیٹر) سے بھی کم ہے۔

    اس شہابیے کی جسامت تقریباً ایک کلومیٹر ہے، اسے اسکاٹ شیپرڈ اور ان کے ساتھیوں نے دریافت کیا ہے، اور اسے 2021 PH27 کا نام دیا گیا ہے، جب یہ شہابیہ سورج سے انتہائی دوری پر ہوتا ہے تو اس وقت اس کا فاصلہ 11 کروڑ کلو میٹر ہوتا ہے، یعنی سیارہ زہرہ (وینس) کے مدار سے بھی زیادہ، لیکن اپنے بے قاعدہ مدار کی وجہ سے یہ محض 2 کروڑ کی دوری پر بھی آ جاتا ہے۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق سورج کے زیادہ قریب آ جانے پر اس شہابیے کی رفتار اور زیادہ ہو جاتی ہے، اور سطح بھی شدید گرم ہو کر درجہ حرارت 500 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ پہنچ جاتا ہے۔

    ’2021 پی ایچ 27‘ کی دریافت کی تصدیق کئی طاقت ور دوربینوں کی مدد سے کی جا چکی ہے۔

    شہابیہ کہاں سے آیا؟

    اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کا تعلق کروڑوں سال قدیم شہابیوں کی پٹی سے ہے، ماہرین فلکیات نے اس کا عجیب و غریب مدار دیکھا تو یہ خیال ظاہر کیا کہ شاید یہ آج سے کروڑوں سال پہلے ’شہابیوں کی پٹی‘ (ایسٹرائیڈ بیلٹ) میں ہوا کرتا تھا۔

    ایک آرٹ ورک کے ذریعے نو دریافت شہابیے کو سورج کے گرد چکر کے دوران سیارہ مرکری کے قریب سے گزرتے دکھایا گیا ہے

    واضح رہے کہ اَن گِنت چھوٹے بڑے شہابیوں والی یہ پٹی مریخ اور مشتری کے درمیان واقع ہے، ماہرین کے مطابق شاید کسی وجہ سے اس شہابیے کا مدار متاثر ہوا اور اس نے اپنا راستہ بدل لیا۔

    اس شہابیے کا مستقبل کیا ہے؟

    ماہرین فلکیات کے مطابق اس کا موجودہ مدار بھی غیر مستحکم ہے، لہٰذا بہت امکان ہے کہ آئندہ چند لاکھ سال میں یہ زہرہ، عطارد یا سورج سے جا ٹکرائے اور اپنا وجود ہمیشہ کے لیے ختم کر لے، یا پھر اپنے موجودہ مدار کے مقابلے میں بالکل مختلف مدار میں چلا جائے۔

    اسکاٹ شیپرڈ کا کہنا ہے کہ ایسے عجیب و غریب فلکی اجسام کی دریافت سے ہمیں شہابیوں اور دُمدار ستاروں کی ابتدا و ارتقا سے متعلق جاننے میں خاصی مدد ملے گی، اور ہم خود اپنے نظامِ شمسی کے بارے میں بھی بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو سکیں گے۔