Tag: شہاب الدین غوری

  • فاتح اور کام یاب حکم راں شہاب الدین غوری کا تذکرہ

    فاتح اور کام یاب حکم راں شہاب الدین غوری کا تذکرہ

    شہاب الدین غوری موجودہ وسطی افغانستان سے تعلق رکھنے والے وہ حکم ران تھے جنھوں نے 1173ء سے 1206ء تک حکومت کی۔ شہاب الدین غوری نے غوری سلطنت کو مشرق کی طرف بڑھایا اور برصغیر پاک و ہند میں اسلامی حکم رانی کی بنیاد رکھی۔

    شہاب الدین غوری 15 مارچ 1206 کو وفات کر گئے تھے۔ ان کی جنگی مہمات سے متعلق یہ تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ ایک مہم میں ان کا لشکر تھر کے لق و دق صحرا کو عبور کر کے گجرات پہنچ گیا۔ گجرات اس زمانے میں ہندوستان کی ایک خوشحال ریاست تھی۔ کبھی غزنی کے محمود غزنوی نے تسخیر کیا تھا اور اب شہاب الدین غوری اپنے خواب کی تعبیر کے لیے یہاں پہنچا تھا۔ ان دنوں گجرات کا حکمران ایک کم سن ہندو راجہ مُل راج دوم تھا لیکن ریاست پر اصل حکمرانی اس کی ماں نیکی دیوی کی تھی۔ شہاب الدین غوری اور نیکی دیوی کی فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا جس کے نتیجے میں شہاب الدین کی فوج کو پسپا ہونا پڑا۔ یہ اس کے لیے ایک غیر متوقع شکست تھی‘ لیکن شہاب الدین غوری نے ہار ماننا نہیں سیکھا تھا۔ تھک کر بیٹھ جانے کے بجائے اس نے اپنا رخ پنجاب کے اہم شہر لاہور کی طرف کر دیا۔ ان دنوں لاہور پر غزنوی کے گورنر خسرو ملک کی حکومت تھی۔ یہ 1187 کا سال تھا جب شہاب الدین غوری نے پنجاب کے اہم ترین شہر لاہور پر قبضہ کر لیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی لیکن شہاب الدین غوری کے ایک خواب کی سرحد جہاں ختم ہوتی تھی وہیں سے ایک نئے خواب کی منزل شروع ہو جاتی تھی۔ لاہور کی فتح کے بعد خسرو ملک کو دوبارہ وہاں گورنر بنا کر شہاب الدین غوری نے سندھ کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا اور دیبل کے شہر کو فتح کر لیا ۔ یوں ایک مختصر عرصے میں لاہور ‘ پشاور اور سیالکوٹ کے علاقے شہاب الدین غوری کے زیر نگیں آچکے تھے۔ 1190 تک شہاب الدین غوری کی سلطنت کی سرحدیں دور دور تک پھیل چکی تھیں لیکن اس کے خوابوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔

    اس کی اگلی منزل بٹھنڈہ کا قلعہ تھا جس پر اس نے آسانی سے قبضہ کر لیا۔ ان دنوں دہلی پر پرتھوی چوہان خاندان کی حکومت تھی۔ بٹھنڈہ پر شہاب الدین کا قبضہ ان کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ پرتھوی راج نے شہاب الدین غوری کے لشکر کو روکنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ 1191 کا سال تھا جب دونوں فوجیں ترائن کے مقام پر ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہوئیں۔ شہاب الدین غوری ہمیشہ کی طرح گھوڑے پر بیٹھا اپنی فوج کی قیادت کر رہا تھا اور اپنی تلوار زنی کے جوہر دکھا رہا تھا۔ اچانک ایک تلوار کا کاری وار اس پر پڑا اور وہ شدید زخمی حالت میں گھوڑے کی پیٹھ سے گِر گیا۔ تب اچانک کسی کی نظر زخمی شہاب الدین پر پڑی اور پھر وہ لوگ اسے اُٹھا کر اپنے کیمپ میں لے آئے۔ یہاں سے اس کے وفادار بحفاظت اسے واپس غزنی لے آئے۔ شہاب الدین کو صحت مند ہونے میں کچھ دن لگے لیکن ترائن کی یہ شکست اس کے لیے ایک بڑا دھچکا تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس نے ہار ماننے سے انکار کر دیا ۔اس نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ جب تک اس شکست کا بدلہ نہیں لے گا‘ چین سے بستر پر نہیں سوئے گا۔ اس نے جنگ کی بھر پور تیاری شروع کر دی جس میں سپاہیوں کی تربیت‘ اسلحہ و وسائل کی فراہمی اور جنگ کی منصوبہ سازی شامل تھی۔ ایک بات طے تھی کہ وہ عددی اعتبار سے پرتھوی کے لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ کامیابی کی واحد صورت بہتر حکمتِ عملی اور بھرپور حملہ تھا۔ یہ 1192ء کا سال تھا جب شہاب الدین غوری اپنی ایک لاکھ فوج کے ہمراہ ترائن کے میدان میں پہنچا۔ ترائن کے مقام پر دونوں لشکر صف آراء ہوئے۔ پرتھوی کے لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پرتھوی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اب شہاب الدین غوری کا ہندوستان بھر پر قبضہ ہو گیا تھا۔ غور سے اُٹھنے والی لہر نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

    شاید شہاب الدین غوری کی پارہ صفت شخصیت کی قسمت میں آرام نہیں تھا۔ 1204ء میں شہاب الدین غوری کو محمد خوارزم کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر یہ 1206ء کا سال تھا جب شہاب الدین غوری کو اطلاع ملی کہ پنجاب میں کھوکھروں نے علمِ بغاوت بلند کر دیا ہے۔ اس نے ان کی کمر توڑ دی لیکن بعد میں کھوکھر قبیلے کے افراد نے شہاب الدین غوری سے اپنے قبیلے کی شکست کا انتقام لیا۔ انھیں کوٹ دھمیک میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • قطب الدّین ایبک: کھیل کے میدان میں جان دینے والا ایک دلیر اور سخی حکم راں

    قطب الدّین ایبک: کھیل کے میدان میں جان دینے والا ایک دلیر اور سخی حکم راں

    قطب الدّین ایبک وہ مسلم حکم راں ہے جس نے ہندوستان میں ایک مسلم سلطنت کی بنیاد ڈالی اور مسلمانوں‌ کی حکومت انگریزوں کے خلاف 1857ء میں ناکام بغاوت تک جاری رہا۔ ایبک کا نام اپنے زمانے میں فیّاضی اور سخاوت کے لیے بھی مشہور ہے۔

    مؤرخین کے مطابق قطب الدّین ایبک کا تعلق ترک قبیلے ایبک سے تھا۔ اسے بچپن میں غلام بنا کر فروخت کردیا گیا تھا۔ اس غرض سے ایبک کو نیشا پور لایا گیا جہاں اسے اپنے زمانے کے ایک تعلیم یافتہ شخص قاضی فخر الدّین عبد العزیز کوفی نے خریدا۔ تاریخ‌ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ وہ ایک بااثر اور قابل شخص تھے جنھوں نے اس غلام سے اچھا سلوک کیا اور اس لڑکے کی تعلیم و تربیت کی۔ قطب الدّین کے والد اور اس کے خاندان کے بارے میں‌ تاریخ کے صفحات خالی ہیں۔

    قطب الدّین ایبک نے قاضی صاحب کے ساتھ رہتے ہوئے قرآن کی تعلیم بھی پائی اور اس زمانے کے دستور کے مطابق سواری و تیر اندازی بھی سیکھی۔ ایبک کی استعداد اور قابلیت سے قاضی صاحب بھی خوش رہے۔ وہ اچھے اوصاف کا حامل اور مطیع و فرماں بردار تھا۔ لیکن قاضی صاحب کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے اس غلام لڑکے کو ایک تاجر کے ہاتھ فروخت کر دیا جس نے ایبک کو غزنہ کے بازار میں لاکر سلطان غازی معزالدّین سام المعروف سلطان محمد غوری سے اس کے دام لے لیے اور یوں اس غلام کی زندگی بدل گئی۔

    تاریخ کی کتابوں میں قطب الدّین ایبک کا سنِ پیدائش 1150 درج ہے تاہم مؤرخین کو اس میں‌ اختلاف ہے۔ ادھر سلطان کے ساتھ زندگی کا سفر شروع ہوا تو اس نے پایا کہ وہ اپنے ترکی غلاموں کو بہت اہمیت دیتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے ایبک کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا اور اسے بہادر اور خوش خصلت و صاحبِ کمال پایا تو اسے منصب پر فائز کیا۔ مؤرخین کے مطابق جب سلطان محمد غوری 1206ء میں جہلم کے قریب ایک مہم میں جان سے گیا تو یہ قابل غلام اپنی سیاسی فہم و فراست کے سبب اس کا جانشین بن گیا۔

    قطب الدین نے رفتہ رفتہ اپنی صلاحیتوں سے ہر شعبے میں اپنی گرفت مضبوط کی اور اس کا ستارہ اوج پر پہنچا۔ اس کی فوجیں گجرات، راجپوتانہ، گنگا جمنا کے دوآبہ، بہار اور بنگال میں فاتح بنیں۔ ایبک نے 1206ء میں لاہور میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کیا تھا اور بعد میں اس کا زیادہ تر وقت لاہور ہی میں گزرا۔ اس کی تاج پوشی لاہور کے قلعے میں ہوئی تھی، لیکن ایبک نے کبھی سلطان کا خطاب نہیں اپنایا اور نہ ہی اپنے نام سے کوئی سکہ جاری کیا۔

    قطب الدّین کی زندگی کا سفر 1210ء تک جاری رہا۔ تاہم اس حکم راں‌ کی تاریخِ وفات میں‌ اختلاف ہے۔ اکثر مؤرخین نے 4 نومبر اور بعضوں‌ نے وفات کی مختلف تاریخ‌ یا مہینہ بھی دسمبر لکھا ہے۔ اس حکم راں کی موت حادثاتی تھی۔ اس زمانے میں امراء میں چوگان کا کھیل بڑا مقبول تھا۔ قطب الدّین کو بھی چوگان کا بڑا شوق تھا۔ ایک دن وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اپنے گھوڑے سے گرا اور اس کے نیچے دب گیا اور کہتے ہیں کہ گھوڑے کی زین کا پیش کوہہ اس کے سینے میں پیوست ہونے سے موت واقع ہوئی۔

    قطب الدّین ایبک کو لاہور میں دفن کیا گیا جہاں آج بھی اس کا مزار موجود ہے۔ اس کے جانشین سلطان شمس الدّین التمش نے اس کے مدفن پر عالی شان مقبرہ تعمیر کرایا تھا۔

    قطب الدّین ایبک کی سخاوت اور دریا دلی بھی مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے اس حکم راں کی فیّاضی اور سخاوت نہ سمیٹی ہو۔