Tag: شہاب ثاقب

  • سعودی عرب: ستاروں کی بارش کا نظارہ

    سعودی عرب: ستاروں کی بارش کا نظارہ

    ریاض: سعودی عرب میں ٹوٹتے ستاروں کی بارش ہوگی، اس شان دار نظارے کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں شہریوں نے صحرا کا رخ کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں شہری ستارے ٹوٹنے اور شہاب ثاقب کے مناظر دیکھنے کے لیے صحرا میں نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

    جیمینیڈ میٹیئر شاور (Geminids Meteor shower) کی بارش 13 اور 14 دسمبر کو اپنی انتہا پر ہوگی اور ایک گھنٹے میں 120 ٹوٹتے ہوئے تارے دیکھے جا سکیں گے۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق تارے دیکھنے والوں کے لیے اس بار منفرد بات یہ ہے کہ رواں سال جیمینیڈ شہابیے نئے چاند کے ساتھ دیکھے جا سکیں گے، نیا چاند عام طور پر نہیں دیکھا جا سکتا جس کی وجہ سے ان شہابیوں کے اندھیری رات میں روشن لکیر چھوڑنے کے منظر کو دیکھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    خیال رہے کہ شہابیے ان علاقوں میں زیادہ واضح طور پر نظر آتے ہیں جو شہر کی روشنیوں سے دور ہوں اسی لیے سعودی عرب کے صحرا شہابیوں کی بارش کا نظارہ کرنے کے لیے سب سے موزوں مقام سمجھے جاتے ہیں۔

    اس شان دار نظارے کو اپنے کیمرے میں قید کرنے کے لیے شدت سے منتظر ایک سعودی فوٹوگرافر نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ جتنا ممکن ہو سکے شہر سے دور نکل جائیں، تاکہ زیادہ واضح طور پر اسے دیکھ سکیں۔

    امریکی میٹیئر سوسائٹی کا کہنا ہے رواں برس ٹوٹے تاروں کی بارش دسمبر 13 اور 14 کی شام کو عروج پر ہوگی، اگر آسمان صاف ہوگا تو خوب صورت سبز آتشیں نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔

    یہ خوب صورت منظر پہلی بار 1862 میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جس کے بعد ہر دسمبر میں اسے شوق سے دیکھنے کا انتظام کیا جانے لگا۔

  • امریکا میں شہاب ثاقب گرنے سے زور دار دھماکا

    امریکا میں شہاب ثاقب گرنے سے زور دار دھماکا

    امریکا اور کینیڈا میں شہاب ثاقب گرنے سے ہونے والے زور دار دھماکے اور روشنی کے جھماکوں نے شہریوں کو خوفزدہ کردیا، مقامی افراد کا کہنا تھا کہ زور دار آواز کے باعث ان کے گھر ہل گئے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا کے شمال مشرقی حصوں اور کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے جنوبی حصے میں شہاب ثاقب گرے جن سے نہایت زور دار آواز پیدا ہوئی۔

    یہ شہاب ثاقب امریکی شہروں میری لینڈ، واشنگٹن ڈی سی، ورجینیا، پنسلوینیا اور نیویارک میں گرے۔

    مقامی افراد کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روشنی کے چمکتے ہوئے گولے تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے گرنے سے زوردار آواز اور روشنی کا جھماکا ہوا۔

    بعد ازاں امریکی خلائی ادارے ناسا نے ان شہاب ثاقب کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر جاری کیں جس میں انہیں زمین کی حدود میں داخل ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ناسا کے مطابق یہ سیارچوں کے ٹکڑے ہوسکتے ہیں۔

    وسطی و مغربی نیویارک کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ انہیں ایک زور دار آواز سنائی دی جس سے انہیں اپنے گھر ہلتے محسوس ہوئے۔

    خیال رہے کہ شہاب ثاقب کے زمین کی حدود میں داخل ہونے کا رواں ہفتے یہ دوسرا واقعہ ہے، اس سے چند روز قبل جاپان میں بھی ایسے ہی روشن ٹکڑے زمین پر گرتے دکھائی دیے تھے جس نے مقامی لوگوں کو خوفزدہ کردیا تھا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ خلا سے گرنے والے ان ٹکڑوں میں سے صرف 5 فیصد ہی زمین کی سطح تک پہنچ پاتے ہیں، ان میں موجود گیسوں کی وجہ سے زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی یہ آگ پکڑ لیتے ہیں۔

    زمین کا 70 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے زیادہ تر یہ ٹکڑے سمندروں یا دریاؤں میں جا گرتے ہیں۔

  • شہاب ثاقب کا ٹکڑا چھپر پھاڑ کر گرا اور غریب شخص کو مالا مال کر گیا

    شہاب ثاقب کا ٹکڑا چھپر پھاڑ کر گرا اور غریب شخص کو مالا مال کر گیا

    کہتے ہیں کہ خدا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے، انڈونیشیا میں ایک شخص کے لیے یہ محاورہ حقیقت بن گیا، تابوت بنانے والے غریب مزدور پر آسمان سے دولت برسی اور وہ بیٹھے بٹھائے ارب پتی بن گیا۔

    انڈونیشیا میں رہنے والے 33 سال کے جوشوا نامی شخص پر قسمت اس وقت مہربان ہوگئی جب آسمان سے شہاب ثاقب کا ایک ٹکڑا ٹوٹا اور سیدھا جوشوا کے گھر آ گرا۔

    جوشوا اس روز اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر تابوت بنانے کا کام کر رہا تھا جب ایک زور دار دھماکہ ہوا، جب جوشوا نے جا کر دیکھا تو اسے وہاں پتھر کا ایک ٹکڑا دکھائی دیا۔

    یہ دراصل شہاب ثاقب کا ایک ٹکڑا تھا جو جوشوا کے گھر کی ٹین کی چھت میں سوراخ کر کے کچی زمین دھنس گیا تھا۔ جوشوا کا کہنا ہے کہ جب اس نے اسے اٹھایا تو وہ گرم تھا اور اٹھانے کے دوران اس کا کچھ حصہ ٹوٹ بھی گیا۔

    ماہرین کے مطابق اس طرح گرنے والے شہاب ثاقب کے ٹکڑوں کی فی گرام کے حساب سے قیمت لگائی جاتی ہے اور سائنسدان اس کی قیمت اعشاریہ 50 سے 5 ڈالر فی گرام تک لگاتے ہیں۔

    تاہم جوشوا کے گھر میں گرنے والا ٹکڑا ساڑھے 4 ارب سال پرانا اور نہایت نایاب تھا جس کی وجہ سے اس کی قیمت 857 ڈالر فی گرام تھی، 2.1 کلو گرام وزنی یہ پتھر 24 لاکھ 80 ہزار ڈالر میں خریدا گیا جس نے غریب جوشوا کو مالا مال کردیا۔

    یاد رہے کہ انڈونیشیا میں 1 ڈالر کی قیمت 14 ہزار انڈونیشی روپیہ سے زائد ہے لہٰذا جوشوا کو ملنے والی رقم مقامی کرنسی میں اربوں روپے بنتی ہے۔

    جوشوا کے مطابق جب ٹکڑا اس کے گھر میں گرا تو زور دار آواز سے نہ صرف گھر کے در و دیوار ہل گئے بلکہ پڑوسی بھی گھبرا کر باہر نکل آئے۔ حقیقت معلوم ہونے پر لوگ جوق در جوق یہ ٹکڑا دیکھنے کے لیے آنے لگے۔

    اس کا کہنا ہے کہ اس پتھر کو دیکھتے ہی اسے یقین ہوگیا تھا کہ یہ کوئی خلائی شے ہے کیونکہ کسی بھی شخص کا اوپر سے اتنی قوت سے اسے پھینکنا ناممکن ہے۔

    جوشوا کا کہنا ہے کہ وہ اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے علاقے میں ایک چرچ بنوائے گا۔

    دوسری جانب ٹکڑا خریدنے والے شہاب ثاقب کے مطالعے کے ماہر جیرڈ کولنز نے کہا کہ انہیں ایک روز اچانک بے شمار پیغامات موصول ہوئے جس میں انہیں اس ٹکڑے کے بارے میں بتایا گیا۔

    ان کے مطابق جب وہ جوشوا سے ملے تو اس نے نہایت ہوشیاری سے بھاؤ تاؤ کیا۔ وہ اس ٹکڑے کو امریکا لے آئے ہیں جہاں اسے ٹیکسس کے لونر اینڈ پلینٹری انسٹی ٹیوٹ میں رکھ دیا گیا ہے۔

  • لندن آئی سے بڑا پتھر زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے کا انکشاف

    لندن آئی سے بڑا پتھر زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے کا انکشاف

    واشنگٹن: ناسا نے خبردار کیا ہے کہ لندن آئی سے بڑا ایک پتھر خلا سے برق رفتاری کے ساتھ زمین کی جانب بڑھ رہا ہے، اور یہ ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ناسا نے کہا ہے کہ ایک بہت بڑا ایسٹرائیڈ زمین کی جانب بڑھتا آ رہا ہے، ناسا نے اس پتھر کو Asteroid 2020ND کا نام دیا ہے، ایسٹرائیڈ وہ عظیم الجثہ پتھر ہیں جو خلا میں سورج کے گرد گھومتے ہیں۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ یہ پتھر لندن آئی سے ڈیڑھ گنا بڑا ہے، اور امکانی طور پر یہ زمین کے لیے پُر خطر خلائی پتھروں میں سے ہے، خیال رہے کہ لندن آئی یا ملینیم پہیا لندن میں دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر نصب دنیا کا وہ سب سے بڑا پہیا ہے جس کی ساخت 135 میٹر (443 فٹ) ہے اور اس کا قطر 120 میٹر ہے۔

    ناسا نے اس پتھر کے بارے میں کہا ہے کہ یہ اگلے ہفتے ہمارے سیارے کے بہت قریب سے گزرے گا، اور یہ ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، سائنس دانوں خبردار کیا کہ یہ سماوی پتھر زمین کے مدار کی جانب ہی بڑھ رہا ہے اور صرف 0.034 فلکیاتی یونٹس کے اندر ہمارے سیارے کے پاس سے گزرے گا۔ فلکیاتی (astronomical) یونٹ طوالت کا یونٹ ہے جو زمین سے لے کر سورج تک اندازے پر مبنی فاصلہ ہے اور یہ تقریباً 150 ملین کلو میٹرز کے مساوی ہے۔

    سائنس دانوں نے اس خلائی پتھر کی پیمائش کے بارے میں بتایا کہ اس کی لمبائی 170 میٹر ہے، اور یہ اگلے جمعے، 24 جولائی کو زمین کے بالکل قریب آ جائے گا، اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ جن خلائی پتھروں کو نقصان دہ کہا جاتا ہے انھیں دراصل زمین کے زیادہ سے زیادہ قریب آنے کے امکان کے پیش نظر خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔

    ناسا کے مطابق وہ تمام ایسٹرائیڈز جو زمین کے مدار میں کم سے کم 0.05 اتصالی فاصلہ (MOID) رکھتے ہوں انھیں PHA (پوٹنشلی ہزرڈس ایسٹرائیڈ یعنی ممکنہ طور پر خطرناک) قرار دیا جاتا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس پتھر کو ایک مدار میں کھسکایا جا سکتا ہے، جس سے دیگر سیاروں کی کشش ثقل کی وجہ سے یہ زمین کے علاقے کی خلا میں پہنچ جائے گا۔

  • شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    خلا میں ایک چھوٹا سا شہاب ثاقب زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور سائنسدانوں کے مطابق وہ یا تو زمین کے قریب سے گزر جائے گا، یا اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا زمین کے قریب سے گزرنے والے اجسام کا مشاہدہ کرنے والا ادارہ (سی ای این او ایس) ایک شہاب ثاقب کو ٹریک کر رہا ہے جسے  2020 ای ایف کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب ممکنہ طور پر زمین کے قریب سے گزر جائے گا اور اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو وہ فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    یہ شہابیہ 10 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کا قطر 98 ڈایا میٹر ہے۔

    مزید پڑھیں: اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ شہابیہ زمین کے قریب سے گزر جائے گا، اور اگر زمین کے قریب آیا تب بھی اس کی جسامت اتنی چھوٹی ہے کہ یہ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

    تاہم زمین پر گرنے سے قبل یہ زمین کی فضا میں پھٹ سکتا ہے اور اس سے روشنی کا اخراج ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کی فضا میں شہاب ثاقب پھٹنے کا واقعہ اس سے قبل سنہ 2013 میں روس میں پیش آیا تھا جس سے روشنی کا ایک زوردار جھماکہ پیدا ہوا تھا اور یہ سورج کی روشنی سے 30 گنا زیادہ تھا۔

    اس واقعے میں 180 افراد آنکھوں کی تکلیف اور 70 عارضی نابینا پن کا شکار ہوگئے تھے، جبکہ کھڑکیاں ٹوٹنے اور ایک فیکٹری کی چھت گر جانے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔

  • شہاب ثاقب گرنے کا منظر کیمرے کی آنکھ میں قید

    شہاب ثاقب گرنے کا منظر کیمرے کی آنکھ میں قید

    شہاب ثاقب کا گرنا بعض اوقات خوبصورت منظر بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ حجم میں بڑا ہو تو زمین کے لیے خوفناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکا میں ایسے ہی شہاب ثاقب کے گرنے کے منظر کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرلیا گیا۔

    فلوریڈا کے شہر گنیز ویل میں رات 3 بجے دوران سفر ایک شہری کو روشنی کا گولہ گرتے ہوئے نظر آیا جسے اس نے اپنے کیمرے میں قید کرلیا۔

    بعد ازاں امریکی محکمہ موسمیات نے بھی شہاب ثاقب گرنے کی تصدیق کردی۔

    خیال رہے کہ خلا سے مختلف سیارچوں کا زمین کی طرف آنا معمول کی بات ہے۔ ہر روز خلا سے تقریباً 100 ٹن ریت اور مٹی زمین سے ٹکراتی ہے۔

    سال میں صرف ایک بار کسی کار کے جتنی جسامت رکھنے والا سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے لیکن یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی بھی زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتا۔

    مزید پڑھیں: اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین سے اوپر اس کی فضا ایسی ہے جو سیارچوں کو زمین کی طرف آنے سے روک دیتی ہے اور فضا میں موجود گیسیں سیارچوں اور خلا سے آنے والے پتھروں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

  • امریکا : دیکھیے وہ حیرت انگیز گڑھا جہاں لاکھوں سال قبل ’’شہاب ثاقب‘‘ گرا

    امریکا : دیکھیے وہ حیرت انگیز گڑھا جہاں لاکھوں سال قبل ’’شہاب ثاقب‘‘ گرا

    ایریزونا : امریکا کی ریاست ایریزونا میں آج سے لاکھوں سال قبل ایک بہت بڑا شہاب ثاقب زمین  سے ٹکرایا تھا اس مقام پر وہ گڑھا آج بھی موجود ہے۔

    مقامی حکومت نے اس صحرائی علاقے میں گڑھے کے ساتھ سیاحوں کی دلچسپی کیلئے ایک عجائب گھر بھی تعمیر کیا ہے، جس میں ایک دکان بھی موجود ہے جہاں سے سیاح مختلف تحائف اور شہاب ثاقب کے ٹکڑے خرید سکتے ہیں۔

    اس کے علاوہ میوزیم میں شہاب ثاقب کے گرنے سے متعلق ڈاکیومینٹری فلم بھی دکھائی جاتی ہے، فلم میں دکھایا گیا ہے کہ وہ شہابیہ زمین سے کیسے ٹکرایا اور اس کے بعد یہاں کتنی تباہی ہوئی۔ اس شہاب ثاقب کے بہت سے ٹکڑے آج بھی عجائب گھر میں موجود ہیں۔

    اس شہاب ثاقب کا بچا ہوا سب سے بڑا ٹکڑا

    یا شہاب ثاقب کسے کہتے ہیں؟ (meteor) 

    شہاب ثاقب در اصل عربی زبان کا لفظ ہے، شہاب کا معنیٰ ہے دہکتا ہوا شعلہ اور ثاقب کا معنیٰ سوراخ کرنے والا ہے، دہکتا ہوا انگارہ شہاب ثاقب جب زمین کی فضا سے ٹکراتا ہے تو انگارہ بن کر روشن ہوتا ہے اور جل کر راکھ ہوجاتا ہے، شہاب ثاقب زمین سے زور ٹکرا کر روشن ہوتے ہیں گویا تاریکی میں سوراخ کردیا گیا ہو۔

    اس شہاب ثاقب کا بچا ہوا ایک اور ٹکڑا

    ایک رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک شہاب ثاقب زمین کے قریب سے گزرنے کی تیاری کر رہا ہے جس کی وجہ سے سیارہ زمین پر بڑے پیمانے پر تباہی ہو گی اور زندگی کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔

    گڑھے کے پاس قائم کیا جانے والا عجائب گھر 

    سائنسدانوں کا مزید کہنا ہے کہ ہمارے سیارے کے قریب سے گزرتے ہوئے اگر اس نے اپنا مدار تبدیل کر لیا تو کئی صدیوں بعد سیارہ زمین ایک بار پھر عظیم تباہی کا سامنا کرے گا۔

    خلا میں تیرتا شہاب ثاقب (ایک بڑی خلائی چٹان) جسے بینو کا نام دیا گیا ہے زمین کے مدار کے قریب سے ہر چھ سال بعد گزرتا ہے۔ سائنسدانوں ک ادعویٰ ہے کہ یہ خلائی چٹان اب2135ءمیں زمین اور چاند کے درمیان سے گزرے گی۔

    مزید پڑھیں : اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    1908ء میں سائبیریا میں شہاب ثاقب کے گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس سے تقریباً دوہزار مربعہ کلومیٹر کا علاقہ تباہ ہو گیا تھا۔ بیسیویں صدی کے دوران زمین پر دو بڑے شہاب گرے تھے۔

    ان میں سے ایک کا وزن 60 ٹن تھا۔ 27 ستمبر 1969 ء کو مرچی سن، آسٹریلیا میں ایک شہاب گرا تھا۔ اس کے وزن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھوٹے سیارچوں کی پٹی سے وجود میں آیا تھا۔

  • اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    یہ 16 اپریل 2018 کا دن تھا۔ خلا سے جی ای 3 نامی ایک سیارچہ تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا اور سائنس دان اس راستے کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا تھے جہاں سے اس سیارچے کا زمین سے تصادم یقینی تھا۔

    تھوڑی دیر بعد سیارچہ زمین سے صرف 1 لاکھ 90 ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر رہ گیا۔ یہ اس فاصلے سے بھی نصف تھا جو چاند سے زمین کا ہے یعنی 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلو میٹر۔

    یکایک اس سیارچے نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور سورج کی طرف جانے لگا جس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے خلائی مراکز میں اسکرینز پر نظریں جمائے بیٹھے سائنسدان خوشی سے اچھل پڑے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ زمین سے اس سیارچے کے تصادم کا خطرہ ٹل چکا تھا۔

    خطرہ تو ٹل چکا تھا تاہم یہ واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ ایک فٹبال کے میدان جتنا یہ سیارچہ اگر اپنا راستہ تبدیل نہ کرتا اور اسی طرح بڑھتا رہتا تو زمین کے باسیوں کا مقدر کیا تھا؟

    کیا اس سے پہلے آنے والے سیارچوں کی طرح یہ سیارچہ بھی زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا؟ اور اگر اپنے بڑے حجم کی وجہ سے یہ تیزی سے زمین کی طرف پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتا تو اس کے بعد کیا ہونا تھا؟

    خلا سے مختلف سیارچوں کا زمین کی طرف آنا معمول کی بات ہے۔ ہر روز خلا سے تقریباً 100 ٹن ریت اور مٹی زمین سے ٹکراتی ہے۔

    سال میں صرف ایک بار کسی کار کے جتنی جسامت رکھنے والا سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے لیکن یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی بھی زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتا۔

    وہ سیارچہ جو 10 کلومیٹر چوڑا تھا اور جس نے ڈائنو سار کی نسل کا خاتمہ کردیا، کئی لاکھ سال میں شاذ و نادر زمین کی طرف اپنا رخ کرتا ہے۔

    ہماری اصل پریشانی کا سبب وہ پتھر ہیں جو جسامت میں سیارچے سے چھوٹے ہوتے ہیں اور انہیں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے۔ یہ شہاب ثاقب بھی 2 ہزار سال میں ایک بار زمین کی طرف آتے ہیں۔

    تصور کریں ایک 100 میٹر طویل پتھر 19 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آپ کی جانب آرہا ہو تو یہ نظارہ کس قدر خوفناک ہوگا۔

    اگر یہ شہاب ثاقب زمین کی فضا سے صحیح سلامت گزر گیا تو اسے زمین کی سطح سے ٹکرانے میں صرف 3 سیکنڈ لگیں گے۔

    چونکہ زمین کے صرف 3 فیصد حصے پر آبادی موجود ہے لہٰذا قوی امکان ہے کہ شہاب ثاقب سمندر میں جا گرے۔ تاہم ان میں سے کوئی آدھ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو کسی پرہجوم شہر سے جا ٹکرائے۔

    اس کے بعد کیا ہوگا؟

    اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے، کوئی شہاب ثاقب زمین کی سطح سے آ ٹکراتا ہے تو نیویارک جیسے پرہجوم شہر میں یہ واقعہ 25 لاکھ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب جس مقام پر گرے گا اس مقام کے 2 میل کے دائرے میں ہر چیز تباہ ہوسکتی ہے جبکہ 7 میل کے دائرے تک میں موجود عمارتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ایک امکان یہ بھی ہے کہ خلا میں بھیجے جانے والے انسانی مشنز کی بدولت یہ پتھر تابکاری سے آلودہ ہوں۔ ایسی صورت میں یہ تابکار پتھر زمین پر گرتے ہی آدھی سے زیادہ آبادی کو چند لمحوں میں فنا کرسکتے ہیں۔

    ایسے ممکنہ تصادم کی صورت میں تابکار پتھر کا ملبہ زمین کے گرد ویسے ہی حلقوں کی صورت گھومنے لگے گا جیسے سیارہ زحل کے گرد حلقے موجود ہیں۔

    اس میں سے زیادہ تر ملبہ بھی واپس زمین پر آ گرے گا جس سے شہروں اور جنگلات میں آگ لگ جائے گی۔

    زمین کی سطح پر بے تحاشہ دھول اور دھواں پھیل جائے گا جس سے بچنے کے لیے زندہ رہ جانے والے انسانوں کو زیر زمین بنکرز میں جانا ہوگا۔

    یہ دھواں اور گرد و غبار سورج کی روشنی کو زمین پر پہنچنے سے روک دے گا۔ سورج کے بغیر زیادہ تر پودے اور جانور مر جائیں گے۔

    تقریباً ایک سال بعد زمین کی فضا گرد و غبار سے کچھ صاف ہوگی تاہم اس وقت تک انسانوں کے کھانے کے لیے نہایت قلیل مقدار میں اشیا موجود ہوں گی۔

    ماہرین کے مطابق اس ممکنہ تصادم، اس کی تباہی اور بعد ازاں خوراک کی ناپیدگی انسانوں کی نسل کو ایسے ہی معدوم کردے گی جیسے آج سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سارز کی نسل معدوم ہوگئی۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین سے اوپر اس کی فضا ایسی ہے جو سیارچوں کو زمین کی طرف آنے سے روک دیتی ہے اور فضا میں موجود گیسیں سیارچوں اور خلا سے آنے والے پتھروں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

    دوسری جانب دنیا کا سب سے بڑا خلائی مرکز ناسا بھی ہر وقت زمین کے ارد گرد خلا میں نظر رکھے ہوئے ہے۔

    تاہم بری خبر یہ ہے کہ سیارچے کے زمین سے تصادم کا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک وہ زمین سے بہت قریب نہ آجائے، اور ایسی صورت میں ہمارے پاس بچنے کے لیے بہت کم وقت ہوگا۔

  • آج رات آسمان سے شہاب ثاقب کی برسات ہوگی

    آج رات آسمان سے شہاب ثاقب کی برسات ہوگی

    اس ہفتے آپ ممکنہ طور پر نہایت ہی خوبصورت فلکیاتی مظہر دیکھ سکیں گے۔

    دراصل آج رات آسمان پر شہاب ثاقب کی روشنیوں کی بھرمار ہوگی جن میں سے کچھ شہاب ثاقب زمین پر بھی آ گریں گے، لیکن ڈرنے کی بات نہیں، یہ زمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے بلکہ یہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور دلفریب نظارہ ہوگا۔

    یہ فلکیاتی مظہر دراصل ہیلے نامی دمدار ستارے کے ملبے کا زمین کی حدود میں داخل ہونے کے بعد رونما ہوگا، تاہم یہ زمین کے باسیوں کے لیے 74 سے 79 برس بعد قابل مشاہدہ ہوتا ہے، اور آج کی رات وہی رات ہے جب زمین والے اس نظارے کو دیکھ سکیں گے۔

    دمدار ستارے ہیلے کے ٹوٹے ہوئے ذرات جب زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہیں تو یہ جل اٹھتے ہیں اور آسمان پر روشنی کا نہایت دلفریب نظارہ تخلیق کریتے ہیں۔

    یہ عمل ہر سال پیش آتا ہے جس کے باعث آسمان کم از کم 30 کے قریب شہاب ثاقبین کی روشنیوں سے جگمگا اٹھتا ہے۔

    سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں ہر جگہ دکھائی دے گا، بس آپ کے مطلوبہ مقام کی فضا آلودگی اور مصنوعی روشنی سے پاک ہو اور آسمان دھندلا نہ دکھائی دیتا ہو۔

    شہروں کی بڑی بڑی عمارتوں کی جگمگاتی روشنیوں میں تو یہ ہرگز نظر نہیں آئیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ یہ نظارہ دیکھنے کے لیے آپ شہر سے دور کسی ویران جگہ کا رخ کریں جہاں مصنوعی روشنیاں آنکھوں کو چندھیاتی نہ ہوں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سعودی عرب کے آسمان پر نظر آنے والا آگ کا پراسرار گولا

    سعودی عرب کے آسمان پر نظر آنے والا آگ کا پراسرار گولا

    ریاض: سعودی عرب کے آسمان پر 12 اگست کی رات آگ کا بڑا شعلہ دکھائی دیا جو ہر سال اسی تاریخ کو دکھائی دیتا ہے۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی عرب میں ہر سال 12 اگست کی رات آسمان پر ایک عجیب وغریب شہابیہ رونما ہوتا ہے اور تیزی کے ساتھ آگ کے شعلے کی شکل میں تبدیل ہوتا ہے، واضح نظر آنے اس گولے کو بغیر کسی ٹیلی اسکوپ کے انسانی آنکھ سے بآسانی دیکھا جاتا ہے۔

    جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب سعودی عرب کے آسمان پر دیکھی جانے والی روشنی کے بارے میں ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ پہلی بار اس شہابِ ثاقب کو سال 1862 میں دیکھا گیا اور یہ آگ کے شعلے کی طرح نمودار ہوا۔

    ماہرین فلکیات نے سعودی عرب میں ہر سال 12 اگست کو آسمان پر نظر آنے والی روشنی کو مختلف نام دیے ہیں، بعض نے اسے ’البرسوشات‘ اور کچھ نے اسے ’دم دار ستارہ (سویفٹ ٹٹ)‘‘ کا نام بھی دیا ہے۔

    سعودی ماہر فلکیات خالد الزعاق نے العربیہ کو بتایا کہ ’’ہماری زمین سورج کے گرد تیرتی ہے اور بعض اوقات یہ بہت قریب بھی ہوجاتی ہے جس کے باعث سیارے اور ستاروں میں تصادم ہوتا ہے اور اس آسمان پر اس طرح کی روشنی نمودار ہوتی ہے جسے عام طور پر شہابِ ثاقب کہا جاتا ہے‘‘۔

    انہوں نے کہا کہ ’’کائنات میں اس طرح کے چھوٹے چھوٹے شہابِ ثاقب موجود ہے جو سسٹم میں بننے والے گیسی غبار اور کشش ثقل کی تیزرفتاری یا آکسیجن کی وجہ سے خود بہ خود جل اٹھتے ہیں اور پھر آسمان پر نظر آتے ہیں‘‘۔

    الزعاق نے مزید بتایا کہ مجموعی طور پر 150 مختلف النوع شہابیہ ہیں، ان میں سے ایک شہاب ثاقب سعودی عرب کے آسمان پر 20 ذی القعدہ کو چمکے گا تاہم مطلع ابرآلود ہونے کی وجہ سے شاید وہ عام انسانی آنکھ کو نہ دکھ سکے جبکہ پچھلے کچھ برس میں  یہ واضح طور پر دیکھا گیا ہے۔