Tag: شہاب دہلوی کی برسی

  • شہاب حسن دہلوی: بہاولپور کا ایک دہلوی مؤرخ

    شہاب حسن دہلوی: بہاولپور کا ایک دہلوی مؤرخ

    اردو ادب میں شہاب دہلوی کو ایک شاعر، مؤرخ، محقق اور متعدد کتابوں کے مصنّف کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو مشہور جریدے الزبیر کے مدیر تھے۔ شہاب دہلوی تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے مشہور شہر بہاولپور آبسے تھے اور اس شہر سے ان کی محبّت تادمِ آخر قائم رہی۔ اسی محبت نے شہاب دہلوی کو بہاولپور کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر تحقیقی کام پر مجبور کیا اور انھوں نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں۔

    شہاب دہلوی 29 اگست 1990 کو انتقال کرگئے تھے او آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام سید مسعود حسن رضوی تھا۔ ان کے خاندان کے بزرگ قیامِ پاکستان سے عشروں پہلے دہلی سے بہاولپور آئے تھے اور یہاں ریاستی عہدوں پر فائز رہے تھے۔ شہاب دہلوی 20 اکتوبر 1922 کو پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش دہلی کی تھی۔ ان کے والد اور تایا بھی نہ صرف شاعر اور ادیب تھے بلکہ علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ دہلی شہر میں اشاعتی ادارہ بنام مطبع رضوی قائم کر رکھا تھا۔ شہاب دہلوی نے آنکھ کھولی تو گھر میں کتابیں دیکھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو سنتے رہے۔ یوں ان میں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور مطالعہ نے ان کے ذہن کو سیراب کیا۔ بڑے ہوئے تو عملی زندگی کا آغاز دہلی کے ایک ماہنامہ الہام کے اجرا سے کیا۔ بہاولپور آنے کے بعد شہاب دہلوی نے نہ صرف الہام کا دوبارہ اجرا کیا بلکہ یہاں کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ یہ وہ شہر تھا جہاں ان کے بزرگوں کے نقشِ قدم موجود تھے۔ لوگ اس خاندان سے واقف تھے اور یوں شہاب دہلوی کو بہاولپور سے اپنی محبّت کا جواز مل گیا۔ انھوں نے شعر و ادب کے ساتھ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ شہاب دہلوی نے تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے بہاول پور اور اس خطّے پر نظر ڈالتے ہوئے یہاں کی دینی اور روحانی شخصیات کا خاص طور پر تذکرہ کیا ہے اور روحانی فضا کو اپنی کتابوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کتابوں میں مشاہیر بہاولپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری اور وادیٔ جمنا سے وادیٔ ہاکڑہ تک شامل ہیں۔ بطور محقّق شہاب دہلوی کا گراں قدر کام ان کو بہاولپور کی تاریخ و ثقافت کا مستند مؤرخ ثابت کرتا ہے۔

    شہاب حسن دہلوی کا کلام نقوش شہاب، گل و سنگ، اور موجِ نور کے نام سے شائع ہوا۔

  • یومِ وفات: بہاولپور کی علمی، ادبی اور سیاسی تاریخ مرتّب کرنا شہاب دہلوی کا بڑا کارنامہ ہے

    یومِ وفات: بہاولپور کی علمی، ادبی اور سیاسی تاریخ مرتّب کرنا شہاب دہلوی کا بڑا کارنامہ ہے

    پاکستان میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ارتقا کے لیے اپنی کوششوں کے ساتھ ساتھ شہاب دہلوی کو ایک بلند پایہ محقّق، مؤرخ اور باکمال ادیب کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    ان کا اصل نام سیّد مسعود حسن رضوی تھا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد دہلی سے ہجرت کر کے بہاولپور چلے آئے اور یہیں 29 اگست 1990ء کو زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ بہاولپور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    انھوں نے 20 اکتوبر 1922ء کو دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد اور تایا شاعر و ادیب تھے اور ایک اخبار جاری کرنے کے ساتھ اشاعتی ادارہ بھی قائم کر رکھا تھا۔ شہاب دہلوی نے اسی ماحول کی بدولت اپنی عملی زندگی کا آغاز دہلی سے ماہنامہ الہام کے اجرا سے کیا۔

    بہاولپور آنے کے بعد شہاب دہلوی نے نہ صرف الہام کا دوبارہ اجرا کیا بلکہ شعر و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے تحقیقی کام میں جت گئے۔ اس حوالے سے ان کی کتب بہت مشہور ہیں۔ شہاب دہلوی نے دینی اور روحانی تشخص کو اُجاگر کرتے ہوئے علاقائی ادب کی تاریخ مرتّب کی۔ انھوں نے مشاہیرِ بہاولپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری، اوچ شریف اور وادی جمنا سے وادی ہاکڑہ تک، بہاولپور میں اردو جیسی کتابیں تصنیف کیں۔

    شہاب دہلوی شاعر بھی تھے اور ان کے شعری مجموعے نقوشِ شہاب، گل و سنگ، اور موجِ نور کے نام سے شائع ہوئے۔

    بطور محقّق شہاب دہلوی کی اہم کتب اور گراں قدر علمی و ادبی سرمائے کا مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بہاولپور کی تاریخ کے ایک مستند مؤرخ تھے۔ اردو اکیڈمی اور الزبیر نامی مشہور جریدہ ان کی یادگار ہیں۔