Tag: شہاب نامہ

  • احسانِ عظیم!

    احسانِ عظیم!

    سنگلاخ پہاڑیوں اور خار دار جنگل میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھر آباد تھے۔

    ان کی معاشرت، ہندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ رمیش علی، صفدر پانڈے، محمود مہنتی، کلثوم دیوی اور بھادئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا۔ گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی جس کے دروازے پر اکثر تالا پڑا رہتا تھا۔ جمعرات کی شام کو دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلایا جاتا تھا۔ کچھ لوگ نہا دھو کر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو عقیدت سے چوم کر ہفتہ بھر کیلئے اپنے دینی فرائض سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔

    ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لئے مسجد کو آباد کر جاتے تھے۔ اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پا گیا ہوتا، تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھتے تھے۔ نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دیتے تھے۔ کوئی شادی طے ہوگئی ہوتی تو نکاح پڑھوا دیتے تھے۔ بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ جاتے تھے۔ اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسلام کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بڑے مضبوط دھاگے کے ساتھ بندھا رہتا تھا۔

    برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے ملّا کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا۔ ایک زمانے میں ملّا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔

    برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔ یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیرکے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔

    (شہاب نامہ سے اقتباس)

  • بڑھیا کے آنسو اور سولہ آنے

    بڑھیا کے آنسو اور سولہ آنے

    میں نے دفتر کے باہر بورڈ آویزاں کر رکھا تھا جس پر تحریر تھا "ملاقاتی ہر سوموار اور جمعرات کو صبح 9 بجے سے 12 تک بلا روک ٹوک تشریف لا سکتے ہیں۔”

    ایک روز ایک مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھے زمین ہے جسے پٹواری کو اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لیے بغیر کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں، تین چار برسوں سے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہوں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔

    اس کی درد ناک بپتا سن کر میں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے 60۔70 میل دور اس گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔

    ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی، یہ بڑھیا بڑی شر انگیز ہے اور جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی تصدیق کے لیے پٹواری اندر سے جز دان اٹھا لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا۔

    "حضور اس مقدس کتاب کی قسم کھاتا ہوں۔”

    گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں۔” ہم نے بستہ کھولا تو اس میں پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر اٹھا لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی اراضی کا انتقال کر دیا۔

    میں نے بڑھیا سے کہا۔ "لو بی بی تمہارا کام ہو گیا، اب خوش رہو۔” بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا اور پاس کھڑے نمبردار سے کہا۔ "سچ مچ میرا کام ہوگیا ہے؟”

    نمبر دار نے تصدیق کی تو بڑھیا کے آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے، اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لیے اور اپنی دانست میں نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیے۔

    اس ادائے معصومانہ اور محجوبانہ پر مجھے بے اختیار رونا آ گیا۔ کئی دوسرے لوگ بھی آب دیدہ ہو گئے۔ یہ سولہ آنے واحد "رشوت” ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا پہاڑ بھی مل جاتا تو میری نظروں میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔

    میں نے ان آنوں کو آج تک خرچ نہیں کیا کیوں کہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لیے مالا مال کر دیا۔

    (قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ سے انتخاب)

  • ہندو لڑکی چندراوتی کے عاشق کی مشہور آپ بیتی

    ہندو لڑکی چندراوتی کے عاشق کی مشہور آپ بیتی

    ’’شہاب نامہ‘‘ ایک اہم اور دل چسپ آپ بیتی ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس میں بیسویں صدی کے تمام اہم سیاسی و تاریخی انقلابات کو قید کیا گیا ہے اور نسلِ انسانی پر ان انقلابات کے کیا اثرات مرتب ہوئے اس کی بھی مکمل تصویر کشی کی گئی ہے۔

    یہ مصنف کی زندگی کے شب و روز کے حالات و واقعات کی ایک دل چسپ کہانی بھی ہے اور ان کے عہد کی ایک تلخ داستان بھی۔ اس کے اوراق معلومات افزا بھی ہیں اور درد انگیز بھی۔ اس کے صفحات تقسیم ہند کے دوران کے اُن وحشت ناک اور خوں ریز فسادات کی تصویر کشی سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے روئے زمین پر انسانیت کو ہمیشہ کے لیے شرمسار کر کے چھوڑا۔

    اس کے مطالعہ سے 1947ء سے قبل کے ہندوستان کی سیاسی و سماجی صورتِ حال کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اس میں ایک طرف حصول پاکستان کے سلسلے میں کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین سیاسی رسہ کشی کا عالمانہ تجزیہ کیا گیا ہے وہیں دوسری طرف قیام پاکستان کے بعد اس کی ابتدائی مشکلات اور وہاں کے سیاست دانوں کے بارے میں دل چسپ معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر اور اس کی تاریخ پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ غرض اس کتاب میں مختلف موضوعات کو احاطۂ تحریر میں لیا گیا ہے لیکن قدرت اللہ شہاب نے ان تمام موضوعات کو آپ بیتی کی ہئیت میں اپنی ذات کے وسیلے سے بیان کیا ہے اور یہی اس خود نوشت سوانح عمری کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

    قدرت اللہ شہاب پاکستان کے نام ور سول سرونٹ اور ادیب تھے جو 1917ء کو گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ انڈین سول سروس میں شامل رہے اور قیام پاکستان کے بعد متعدد اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ یحییٰ خان کے دور حکومت میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شر انگیزیوں اور زیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل تھا۔ وہ 1986ء میں وفات پاگئے تھے۔

    شہاب نامہ کا آغاز ’’اقبالِ جرم‘‘ سے ہوتا ہے۔ یہ کتاب کا ابتدائیہ ہے جس میں قدرت اللہ شہاب نے اپنی آپ بیتی کے حوالے سے چند اہم معلومات بہم پہنچائی ہیں اور اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ’’شہاب نامہ‘‘ کا بنیادی مقصد بت شکنی یا بت تراشی کے بجائے ان واقعات، مشاہدات اور تجربات کی روداد کو بے کم و کاست بیان کرنا ہے جنہوں نے انھیں متاثر کیا۔ قدرت اللہ شہاب اپنے اس دعویٰ پر پورا اترتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پوری خود نوشت میں کہیں بھی اس بات کا شائبہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی بت شکنی یا بت تراشی کررہے ہیں۔

    قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری کا باقاعدہ آغاز اپنے بچپن کی حسین یادوں سے کیا ہے۔ اس میں ایسے نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں جو ان کی آنے والی زندگی کا پتہ دیتے ہیں۔ اس میں سطحیت اور قناعت پسندی کے بجائے ارتقا کے عناصر نمایاں ہیں اور ایک اونچی پرواز بھرنے کا جذبہ بھی موجزن ہے۔ یہ بچپن شرارتوں، شوخیوں، بے باکیوں، نادانیوں اور رومان بھرے جذبات سے بھی عبارت ہے۔

    قدرت اللہ شہاب کا بچپن جموں شہر کے اسکولوں اور وہاں کے گلی کوچوں میں اپنے ہم نواؤں کے ساتھ عیش وعشرت میں گزرا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جموں و کشمیر ڈوگرا حکمرانوں کے زیرِ نگیں تھا اور ریاست کے مسلمانوں کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے جموں شہر کے گلی کوچوں، وہاں کے بازاروں نیز ان اسکولوں اور کالجوں جہاں انھوں نے تعلیم حاصل کی تھی، کا ذکر جس دل چسپ انداز میں کیا ہے وہ جموں سے ان کی گہری عقیدت اور محبت کا مظہر ہے۔

    ’’شہاب نامہ ‘‘ کے ابتدائی ابواب میں دو کہانیاں ایک ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔ ایک کا تعلق مصنف کی نجی زندگی سے ہے اور دوسری اس وقت کے جموں و کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں کہانیاں دل چسپ بھی ہیں اور معلومات افزا بھی۔ پہلی کہانی میں مصنّف نے اپنے بچپن کے احوال و کوائف اور تعلیمی زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانی پس منظر کو بھی دل چسپ پیرائے میں بیان کیا ہے، نیز بچپن کی ایک ناکام محبت کی روداد کو بھی اپنی تمام تر کیفیات کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اتارا ہے۔ اس کہانی میں مصنف نے اپنے والد محمد عبداللہ کا بھی ایک خوب صورت اور جاذب نظر خاکہ کھینچا ہے۔

    جموں و کشمیر کا سیاسی و سماجی منظر نامہ پیش کرنے کے بعد قدرت اللہ شہاب نے’’چندراوتی‘‘ کے عنوان کے تحت گورنمنٹ ڈگری کالج لاہور کا ذکر کیا ہے جہاں سے انھوں نے ایم۔ اے کیا تھا۔

    اس باب کا مرکزی موضوع قدرت اللہ شہاب اور چندراوتی کی عشقیہ داستان ہے۔چندراوتی ایک ہندو لڑکی تھی جس کے عشق میں قدرت اللہ شہاب مبتلا ہو گئے تھے۔ وہ لیڈی میکلیکن کالج میں پڑھتی تھی۔ دونوں کی پہلی ملاقات پنجاب پبلک لائبریری، لاہور میں ایک ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو دھیرے دھیرے عشق کے گہرے رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ لیکن یہ عشق ابھی پروان ہی چڑھ رہا تھا کہ اس پر اداسی کے سائے لہرانے لگے۔ چندراوتی اچانک ٹی۔ بی جیسی بیماری کا شکار ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں قدرت اللہ شہاب کو غمِ ہجر کے دائمی درد سے ہمکنار کر کے دنیائے فانی سے کوچ کر گئی۔

    قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں خارجی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی داخلی دنیا کی بھی تصویر کشی کی ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے ان واقعات کو بھی سچائی اور دیانت داری کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اتارا ہے جن کو عام طور پر خود نوشت سوانح نگار مصلحتاً صیغۂ راز میں رکھتے ہیں یا اپنے گرد و پیش کی سماجی اور تہذیبی قدروں کو مدِنظر رکھ کر رمز و کنایہ کا سہارا لے کر بیان کرتے ہیں لیکن قدرت اللہ شہاب نے اپنی زندگی کے ایسے نازک معاملات اور سر بستہ اسرار و رموز کو بے کم و کاست بیان کیا ہے۔ انھوں نے نہ رمز و کنایہ کا سہارا لیا ہے، نہ تشبیہات و استعارات کا اور نہ اپنے معیار و مرتبے کی پروا کی ہے جو عام طور پر ایسے واقعات کو بیان کرنے میں رکاوٹ حائل کرتا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے گورنمنٹ ڈگری کالج، لاہور سے ایم۔اے کر نے کے بعد 1940 میں آئی۔ سی۔ ایس کا امتحان پاس کر کے جموں و کشمیر کا پہلا مسلم آئی۔ سی۔ ایس افسر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ انھوں نے اس کام یابی کا ذکر اپنی آپ بیتی کے ایک مخصوص باب میں ’’آئی۔ سی۔ ایس میں داخلہ‘‘ کے عنوان کے تحت بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ اس باب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں انھوں نے سر گورڈن ایرے، سرعبدالرحمٰن اور ڈاکٹر سر رادھا کرشنن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو آئی۔ سی۔ ایس انٹرویو بورڈ کے ممبر تھے۔

    قدرت اللہ شہاب نے اپنی ملازمت کا باقاعدہ آغاز بھاگلپور، بہار کے اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے کیا۔ انھوں نے بھاگلپور میں اپنے قیام کے دوران کی روداد کو ’’بھاگلپور اور ہندو مسلم فسادات ‘‘ کے عنوان کے تحت بڑے دل چسپ انداز میں تحریر کیا ہے۔ یہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے اور ان کی خود نوشت سوانح عمری میں بھی ایک نیا موڑ آتا ہے۔ یہی وہ مقام بھی ہے جہاں سے ’’شہاب نامہ‘‘ کی فضاؤں پر سیاسی اور تاریخی عنصر کا گہرا رنگ بھی نمایاں ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے تقسیم ہند کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے حالات و واقعات کا بڑے عالمانہ اور دانش ورانہ انداز میں تجزیہ بھی کیا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ہر انسان کی طرح ان کا بھی اپنا ایک نقطۂ نظر ہے اور جس کا انھیں حق بھی حاصل ہے۔

    دیکھا جائے تو ’’شہاب نامہ‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جو قاری کو پاکستان کے ایوانِ اعلیٰ کے اندر کے ماحول سے متعارف کراتی ہے اور اس کے سامنے ایسے راز کھول کر رکھ دیتی ہے جن تک اس کی رسائی ممکن نہ تھی۔ یہ پاکستانی سیاست کے در پردہ رازوں کی سچی عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ اس عہد میں پاکستان کے ایوانِ حکومت میں ہونے والی ان خفیہ سیاسی ریشہ دوانیوں کی بھی چشم دید داستان ہے جنہوں نے سیاسی، سماجی، معا شی اور دفاعی معاملات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے جغرافیہ پر بھی اپنے منفی اثرات مرتب کیے۔

    انھوں نے حکمرانوں کے دل چسپ خاکے بھی کھینچے ہیں اور ان کے مزاج، کردار، عادات و اطوار، مذہبی عقائد اور گھریلو ماحول کے ساتھ ساتھ ان کی عملی زندگی کے خوب صورت نقش بھی ابھارے ہیں۔ نیز صحافت، سیاست، تعلیم، ادب، بیورو کریسی، معاشیات،خارجہ پالیسی اور عوام سے متعلق ان کے نظریات کو بھی مثالوں اور حوالوں کے ساتھ احاطۂ تحریر میں لیا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں تقسیم ہند، کشمیر اور پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز کے حوالے سے جو حالات و واقعات تحریر کیے ہیں وہ اخباری رپورٹوں، سنی سنائی باتوں یا محض کسی جذباتی و انسانی وابستگی کے بجائے آنکھوں دیکھے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ براہ راست مشاہدات پر مبنی ہیں۔

    شہاب نامہ کی دنیا میں اگرچہ بہت وسعت، گہرائی، گیرائی ہے، موضوعات کا تنوع ہے، ضخامت ہے لیکن زبان ایسی دل کش ہے کہ پڑھنے والا اس کے سحر میں اس قدر ڈوب جاتا ہے کہ اسے کتاب کے اختتام تک اس وسعت، گہرائی، گیرائی، موضوعات کے تنوع اور ضخامت کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی الفاظ، تشبیہات، استعارات اور محاورات کے مناسب استعمال سے پیدا ہونے والی سحر خیزی اس کا احساس ہونے دیتی ہے۔

    ’’شہاب نامہ‘‘ میں ایسی تحریریں بھی شامل کی ہیں جن کو آپ بیتی میں شامل کرنے کا نہ تو کوئی جواز بنتا تھا اور نہ ہی اس کے امکانات موجود تھے۔ یہ وہ تحریریں ہیں جو ان کی مشہور تخلیقات پر اردو کے نامور ادیبوں اور ناقدین نے لکھی ہیں۔

    ہر چند کہ اس کتاب کے مواد اور قدرت اللہ شہاب کے نظریات کی مخالفت میں بہت کچھ لکھا بھی گیا لیکن اس کے باوجود اس کی مقبولیت میں کبھی کمی نہ آئی۔ اردو خود نوشت سوانح نگاری کی تاریخ میں موضوعات کے تنوع کے لحاظ سے اس نوع کی خود نوشتیں اگرچہ نایاب تو نہیں لیکن کم یاب ضرور ہیں۔

  • علّامہ اقبال کے خاص ملازم علی بخش کی ایک مربع زمین

    علّامہ اقبال کے خاص ملازم علی بخش کی ایک مربع زمین

    ایک روز میں کسی کام سے لاہور گیا ہوا تھا۔ وہاں پر ایک جگہ خواجہ عبدالرّحیم صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ علّامہ اقبال کے دیرینہ اور وفادار ملازم علی بخش کو حکومت نے اس کی خدمات کے سلسلے میں لائل پور میں ایک مربع زمین عطا کی ہے۔

    وہ بچارا کئی چکر لگا چکا ہے، لیکن اسے قبضہ نہیں ملتا، کیوں کہ کچھ شریر لوگ اس پر ناجائز طور پر قابض ہیں۔ خواجہ صاحب نے فرمایا۔” جھنگ لائل پور کے بالکل قریب ہے۔ کیا تم علی بخش کی کچھ مدد نہیں کرسکتے؟”

    میں نے فوراََ جواب دیا، "میں آج ہی اسے اپنی موٹر کار میں جھنگ لے جاؤں گا اور کسی نہ کسی طرح اس کو زمین کا قبضہ دلوا کے چھوڑوں گا۔”

    خواجہ صاحب مجھے "جاوید منزل” لے گئے اور علی بخش سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ "یہ جھنگ کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔ تم فوراََ تیار ہو کر ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ یہ بہت جلد تمہاری زمین کا قبضہ دلوا دیں گے۔”

    علی بخش کسی قدر ہچکچایا، اور بولا، ” سوچیے تو سہی میں زمین کا قبضہ لینے کے لیے کب تک مارا مارا پھروں گا؟ قبضہ نہیں متا تو کھائے کڑھی۔ لاہور سے جاتا ہوں تو جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔ جاوید بھی کیا کہے گا کہ بابا کن جھگڑوں میں پڑ گیا”؟

    لیکن خواجہ صاحب کے اصرار پر وہ میرے ساتھ ایک آدھ روز کے لیے جھنگ چلنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جب وہ میرے ساتھ کار میں بیٹھ جاتا ہے تو غالباََ اس کے دل میں سب سے بڑا وہم یہ ہے کہ شاید اب میں بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح علّامہ اقبال کی باتیں پوچھ پوچھ کر اس کا سر کھاؤں گا۔ لیکن میں نے بھی عزم کر رکھا ہے کہ میں خود علی بخش سے حضرت علّامہ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اگر واقعی وہ علی بخش کی زندگی کا ایک جزو ہیں، تو یہ جوہر خودبخود عشق اور مشک کی طرح ظاہر ہو کے رہے گا۔

    میری توقع پوری ہوتی ہے اور تھوڑی سی پریشانی کُن خاموشی کے بعد علی بخش مجھے یوں گھورنے لگتا ہے کہ یہ عجیب شخص ہے جو ڈاکٹر صاحب کی کوئی بات نہیں کرتا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور ایک سنیما کے سامنے بھیڑ بھاڑ دیکھ کر وہ بڑبڑانے لگا۔ "مسجدوں کے سامنے تو کبھی ایسا رش نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب بھی یہی کہا کرتے تھے۔”

    ایک جگہ میں پان خریدنے کے لیے رکتا ہوں، تو علی بخش بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے، ڈاکٹر صاحب کو پان پسند نہیں تھے۔”

    پھر شاید میری دلجوئی کے لیے وہ مسکرا کر کہتا ہے۔” ہاں حقّہ خوب پیتے تھے۔ اپنا اپنا شوق ہے پان کا ہو یا حقّہ کا۔”

    شیخو پورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے ہیں۔ یہاں پر ایک مسلمان تحصیل دار تھے جو ڈاکٹر صاحب کے پکّے مرید تھے۔ انہوں نے دعوت دی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو پلاؤ اور سیخ کباب بہت پسند تھے۔ آموں کا بھی بڑا شوق تھا۔ وفات سے کوئی چھے برس پہلے جب ان کا گلا پہلی بار بیٹھا تو کھانا پینا بہت کم ہو گیا۔”

    اب علی بخش کا ذہن بڑی تیزی سے اپنے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ اور وہ بڑی سادگی سے ڈاکٹر صاحب کی باتیں سناتا آتا ہے۔ ان باتوں میں قصوں اور کہانیوں کا رنگ نہیں بلکہ ایک نشے کی سی کیفیت ہے۔ جب تک علی بخش کا یہ نشہ پورا نہیں ہوتا، غالباََ اسے ذہنی اور روحانی تسکین نہیں ملتی۔

    "صاحب، جب ڈاکٹر صاحب نے دَم دیا ہے، میں ان کے بالکل قریب تھا، صبح سویرے میں نے انہیں فروٹ سالٹ پلایا اور کہا کہ اب آپ کی طبیعت بحال ہوجائے گی، لیکن عین پانچ بج کر دس منٹ پر ان کی آنکھوں میں ایک تیز تیز نیلی نیلی سی چمک آئی، اور زبان سے اللہ ہی اللہ نکلا۔ میں نے جلدی سے ان کا سَر اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ لیا اور انہیں جھنجھوڑنے لگا، لیکن وہ رخصت ہوگئے تھے۔”

    کچھ عرصہ خاموشی طاری رہتی ہے۔ پھر علی بخش کا موڈ بدلنے کے لیے میں بھی اس سے ایک سوال کر ہی بیٹھتا ہوں۔

    "حاجی صاحب کیا آپ کو ڈاکٹر صاحب کے کچھ شعر یاد ہیں”؟

    علی بخش ہنس کر ٹالتا ہے۔ "میں تو ان پڑھ جاہل ہوں۔ مجھے ان باتوں کی بھلا کیا عقل۔”

    "میں نہیں مانتا۔ ” میں نے اصرار کیا، "آپ کو ضرور کچھ یاد ہوگا۔”

    ” کبھی اے حکیکتِ منتجر والا کچھ کچھ یاد ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کو خود بھی بہت گنگنایا کرتے تھے۔”

    ” ڈاکٹر صاحب عام طور پر مجھے اپنے کمرے کے بالکل نزدیک سُلایا کرتے تھے۔ رات کو دو ڈھائی بجے دبے پاؤں اٹھتے تھے اور وضو کر کے جائے نماز پر جا بیٹھتے تھے۔ نماز پڑھ کر وہ دیر تک سجدے میں پڑے رہتے تھے۔ فارغ ہو کر بستر پر آ لیٹتے تھے۔ میں حقّہ تازہ کر کے لا رکھتا تھا۔ کبھی ایک کبھی دو کش لگاتے تھے۔ کبھی آنکھ لگ جاتی تھی۔ بس صبح تک اسی طرح کروٹیں بدلتے رہتے تھے۔”

    میرا ڈرائیور احتراماََ علی بخش کو سگریٹ پیش کرتا ہے۔ لیکن وہ غالباََ حجاب میں آکر اسے قبول نہیں کرتا۔

    "ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب بات تھی۔ کبھی کبھی رات کو سوتے سوتے انہیں ایک جھٹکا سا لگتا تھا اور وہ مجھے آواز دیتے تھے۔ انہوں نے مجھے ہدایت کر رکھی تھی کہ ایسے موقع پر میں فوراََ ان کی گردن کی پچھلی رگوں اور پٹھوں کو زور زور سے دبایا کروں۔ تھوڑی دیر بعد وہ کہتے تھے بس۔ اور میں دبانا چھوڑ دیتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ مجھے اپنے نزدیک سلایا کرتے تھے۔”

    ہر چند میرا دل چاہتا ہے کہ میں علی بخش سے اس واردات کے متعلق کچھ مزید استفسار کروں لیکن میں اس کے ذہنی ربط کو توڑنے سے ڈرتا ہوں۔

    "ڈاکٹر صاحب بڑے دریش آدمی تھے۔ گھر کے خرچ کا حساب کتاب میرے پاس رہتا تھا۔ میں بھی بڑی کفایت سے کام لیتا تھا۔ ان کا پیسہ ضائع کرنے سے مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب ناراض ہوجاتے تھے۔ کہا کرتے تھے، علی بخش انسان کو ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق چلنا چاہیے۔ خواہ مخواہ ایسے ہی بھوکے نہ رہا کرو۔ اب اسی مربع کے ٹنٹنے کو دیکھ لیجیے، لائل پور کے ڈپٹی کمشنر صاحب، مال افسر صاحب اور سارا عملہ میری بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں۔ بڑے اخلاق سے مجھے اپنے برابر کرسی پر بٹھاتے ہیں۔

    ایک روز بازار میں ایک پولیس انسپکٹر نے مجھے پہچان لیا اور مجھے گلے لگا کر دیر تک روتا رہا۔ یہ ساری عزّت ڈاکٹر صاحب کی برکت سے ہے۔ مربع کی بھاگ دوڑ میں میرے پر کچھ قرضہ بھی چڑھ گیا ہے۔ لیکن میں اس کام کے لیے بار بار لاہور کیسے چھوڑوں۔ جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔”

    "سنا ہے اپریل میں جاوید چند مہینوں کے لیے ولایت سے لاہور آئے گا۔ جب وہ چھوٹا سا تھا، ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ اللہ کے کرم سے اب بڑا ہوشیار ہو گیا ہے۔ جب اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ اور منیرہ بی بی بہت کم عمر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے نرس کے لیے اشتہار دیا۔ بے شمار جواب آئے۔ ایک بی بی نے تو یہ لکھ دیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شادی کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کسی قدر پرشان ہوئے اور کہنے لگے علی بخش دیکھو تو سہی اس خاتوں نے کیا لکھا ہے۔ میں بڈھا آدمی ہوں۔ اب شادی کیا کروں گا۔ لیکن پھر علی گڑھ سے ایک جرمن لیڈی آگئی۔”

    علی بخش کا تخیّل بڑی تیز رفتاری سے ماضی کے دھندلکوں میں پرواز کر رہا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر اسے اپنے ڈاکٹر صاحب یا جاوید یا منیرہ بی بی کی کوئی نہ کوئی خوش گوار یاد آتی رہتی ہے۔ جھنگ پہنچ کر میں اسے ایک رات اپنے ہاں رکھتا ہوں۔ دوسری صبح اپنے ایک نہات قابل اور فرض شناس مجسٹریٹ کپتان مہابت خان کے سپرد کرتا ہوں۔

    کپتان مہابت خان، علی بخش کو ایک نہایت مقدس تابوت کی طرح عقیدت سے چھو کر اپنے سینے سے لگا لیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ وہ علی بخش کو آج ہی اپنے ساتھ لائل پور لے جائے گا اور اس کی زمین کا قبضہ دلا کر ہی واپس لوٹے گا۔” حد ہوگئی۔ اگر ہم یہ معمولی سا کام بھی نہیں کرسکتے تو ہم پر لعنت ہے۔”

    (قدرت اللہ شہاب کی مشہور تصنیف شہاب نامہ سے ایک پارہ)

  • جمّوں میں پلیگ

    جمّوں میں پلیگ

    گرمیوں کا موسم تھا اور جموں شہر میں طاعون کی وبا بڑی شدت سے پھوٹی ہوئی تھی۔

    اکبر اسلامیہ ہائی اسکول میں چوتھی جماعت کے کلاس روم کی صفائی کا کام میرے ذمہ تھا۔ ایک روز چُھٹی کے وقت جب میں اکیلا کمرے کی صفائی کر رہا تھا، تو ایک ڈیسک کے نیچے ایک مرا ہوا چُوہا پڑا ملا۔ میں نے اُسے دُم سے پکڑ کر اُٹھایا، باہر لا کر اُسے زور سے ہوا میں گُھمایا اور سڑک کے کنارے جھاڑیوں میں پھینک دیا۔

    یہ دیکھ کر لال دین زور سے پُھنکارا، اور اپنی لنگڑی ٹانگ گھسیٹتا ہوا دُور کھڑا ہو کر زور زور سے چلّانے لگا۔ لال دین ہمارے اسکول کا واحد چپڑاسی تھا۔ وہ گھنٹہ بھی بجاتا تھا، لڑکوں کو پانی بھی پلاتا تھا اور چھابڑی لگا کر بسکٹ اور باسی پکوڑیاں بھی بیچا کرتا تھا۔

    ارے بد بخت! لال دین چلا رہا تھا، “ یہ تو پلیگ کا چوہا تھا۔ اِسے کیوں ہاتھ لگایا؟ اب خود بھی مرو گے ، ہمیں بھی مارو گے۔“

    اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہی کھڑے لال دین نے پلیگ کے مرض پر ایک مفصل تقریر کر ڈالی۔ پہلے تیز بخار چڑھے گا۔ پھر طاعون کی گلٹی نمودار ہوگی، رفتہ رفتہ وہ مکئی کے بھٹے جتنی بڑی ہو جائے گی ۔ جسم سوج کر کُپّا ہو جائے گا۔ ناک ، کان اور منہ سے خون ٹپکے گا ۔ گلٹی سے پیپ بہے گی اور چار پانچ دن مین اللہ اللہ خیر صلا ہو جائے گی۔

    چند روز بعد میں ریذیڈنسی روڈ پر گھوم رہا تھا کہ اچانک ایک چُوہا تیز تیز بھاگتا ہوا سڑک پر آیا۔ کچھ دیر رُک کر وہ شرابیوں کی طرح لڑکھڑایا۔ دو چار بار زمین پر لوٹ لگائی اور پھر دھپ سے اوندھے منہ لیٹ گیا۔ میں نے پاس جا کر اُسے پاؤں سے ہلایا تو وہ مر چُکا تھا۔ بے خیالی میں مَیں نے اُسے دُم سے پکڑا اور اُٹھا کر سڑک کے کنارے ڈال دیا۔ چند راہ گیر جو دور کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے، پکار پکار کر کہنے لگے، “پلیگ کا چوہا ، پلیگ کا چوہا۔ گھر جا کر جلدی نہاؤ، ورنہ گلٹی نکل آئے گی۔“

    ان لوگوں نے بھی پلیگ کی جملہ علامات پر حسبِ توفیق روشنی ڈالی اور میرے عِلم میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔

    ان دِنوں جموں شہر میں ہر روز دس دس پندرہ پندرہ لوگ طاعون سے مرتے تھے ۔ گلی کوچوں میں چاروں طرف خوف ہی خوف چھایا ہوا نظر آتا تھا۔ گاہک دکانوں کا کن انکھیوں سے جائزہ لیتے تھے کہ کہیں بوریوں اور ڈبوں اور کنستروں کے آس پاس چوہے تو نہیں گھوم رہے۔ دکان دار گاہکوں کو شک و شبہ سے گھورتے تھے کہ ان کے ہاں پلیگ کا کیس تو نہیں ہوا۔ لوگوں نے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا اور ملنا جلنا ترک کر دیا تھا۔ سڑک پر راہگیر ایک دوسرے سے دامن بچا بچا کر چلتے تھے۔ شہر کا ہر مکان دوسروں سے کٹ کٹا کر الگ تھلگ ایک قلعہ سا بنا ہوا تھا، جس میں پھٹی پھٹی سہمی آنکھوں والے محصور لوگ چپ چاپ اپنی اپنی گِلٹی کا انتظار کر رہے تھے۔

    میونسپل کمیٹی والے در و دیوار سونگھ سونگھ کر پلیگ کے مریضوں کا سراغ لگاتے تھے۔ جہاں اُن کا چھاپہ کام یاب رہتا تھا، وہاں وہ علی بابا چالیس چور کی مرجینا کی طرح دروازے پر سفید چونے کا نشان بنا دیتے تھے۔ تھوڑی بہت رشوت دے کر یہ نشان اپنے مکان سے مٹوایا اور اغیار کے دروازوں پر بھی لگوایا جا سکتا تھا۔ پلیگ کے عذاب میں مبتلا ہو کر مریض تو اکثر موت کی سزا پاتا تھا۔ باقی گھر والے مفرور مجرموں کی طرح منہ چُھپائے پھرتے تھے۔ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کا رواج بھی بہت کم ہو گیا تھا۔ لوگ دور ہی دور سے سلام دعا کر کے رسمِ مروت پوری کر لیتے تھے۔

    یکے بعد دیگرے دو طاعون زدہ چوہوں کو ہاتھ لگانے کے باوجود جب میرے تن بدن میں کوئی گلٹی نمودار نہ ہوئی تو میرا دل شیر ہوگیا۔ اپنے اِردگرد سہمے ہوئے ہراساں چہرے دیکھ کر ہنسی آنے لگی۔

    (شہاب نامہ سے اقتباس)

  • "میل خوردہ قالین خرید لیا گیا…”

    "میل خوردہ قالین خرید لیا گیا…”

    ایک روز شہاب صاحب کی اپنی بیگم سے قالین خریدنے کے معاملے پر تکرار ہوگئی۔ شہاب صاحب سفید قالین خریدنا چاہتے تھے جب کہ بیگم کو اعتراض تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

    "عفّت اٹھ کر بیٹھ گئی اور استانی کی طرح سمجھانے لگی۔ ہمارے ہاں ابنِ انشا آتا ہے، پھسکڑا مار کرفرش پر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک طرف مالٹے دوسری طرف گنڈیریوں کا ڈھیر۔ جمیل الدین عالی آتا ہے، فرش پر لیٹ جاتا ہے سگرٹ پر سگرٹ پی کر ان کی راکھ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیر دیتا ہے۔ ایش ٹرے میں نہیں ڈالتا۔ ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کھلے پان دوسرے میں زردے کی پڑیا لیے آتا ہے۔ اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔

    ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا، ڈھاکہ سے جسیم الدین کیلے اور رس گُلے کی ٹپکتی ہوئی پیٹی لے کر آئے گا۔ وہ یہ سب تحفے بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں۔ سال میں کئی بار سید ممتاز حسین بی۔ اے ساٹھ سال کی عمر میں ایم۔ اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور قالین پر فاؤنٹن پین چھڑک چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے۔

    صرف ایک راجہ شفیع ہے جب کبھی مکئی کی روٹی اور ساگ مکھن گاؤں سے لاتا ہے تو آتے ہی قالین پر نہیں انڈیلتا بلکہ قرینے سے باورچی خانے میں رکھ دیتا ہے۔ کیوں کہ وہ نہ شاعر ہے، نہ ادیب بلکہ ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔

    عفّت کی بات بالکل سچ تھی، لہٰذا ہم نے صلح کر لی اور ایک میل خوردہ رنگ کا قالین خرید لیا گیا۔

    (قدرت اللہ شہاب کی کتاب سے اقتباس)

  • نام ور ادیب قدرت اللہ شہاب کی برسی

    نام ور ادیب قدرت اللہ شہاب کی برسی

    آج اردو کے نام ور ادیب قدرت اللہ شہاب کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 24 جولائی 1986 کو ہوا تھا۔

    قدرت اللہ شہاب ایک مشہور سول سرونٹ تھے جن کا تعلق گلگت سے تھا جہاں وہ 1917 میں پیدا ہوئے۔ 1941 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا اور انڈین سول سروس میں شامل ہوگئے۔ اس سروس کے دوران انھیں بہار، اڑیسہ اور بنگال میں خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد قدرت اللہ شہاب نے متعدد اہم انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیں سیکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارتِ اطلاعات، ڈپٹی کمشنر، ڈائریکٹر اور منتخب سیاست دانوں اور وفاقی عہدے داروں کے پرائیویٹ سیکریٹری رہے۔ بعد میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے اور فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کیا۔

    اردو زبان اور ادب کے لیے جہاں انھوں‌ نے اپنے قلم کا سہارا لیا اور تخلیقی کام کیا، وہیں قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل تھا۔

    ان کی مشہور تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور سرخ فیتہ کے علاوہ ان کی خودنوشت سوانح عمری شہاب نامہ شامل ہے۔ شہاب نامہ کو جہاں‌ قارئین نے بہت پسند کیا، وہیں‌ اس میں‌ شامل متعدد ابواب پر اعتراضات اور تنقید بھی کی گئی۔

    شہاب نامہ ایک خود نوشت سوانح حیات ہے جس میں مسلمانانِ برصغیر اور تحریکِ آزادی سے لے کر قیامِ پاکستان اور دیگر تاریخی واقعات کو نہایت دل چسپ انداز میں لکھا گیا ہے۔ روحانی شخصیات کا ذکر اور پراسرار واقعات کا بیان قاری کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے آج بھی نہایت شوق اور دل چسپی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب اسلام آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شہاب نامہ کے خالق کی 102 ویں سالگرہ

    شہاب نامہ کے خالق کی 102 ویں سالگرہ

    پاکستان کے نامور بیورو کریٹ اور ادیب قدرت اللہ شہاب کی آج 102 ویں سالگرہ ہے۔ آپ 26 فروری1917 کو متحدہ ہندوستان کے علاقے گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔

    قدرت اللہ شہاب نے ابتدائی تعلیم انہوں نے ریاست جموں و کشمیر اور موضع چمکور صاحب ضلع انبالہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیا اور 1941 میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔ابتدا میں قدرت اللہ شہاب نے بہار اور اڑیسہ میں خدمات سر انجام دیں۔ سنہ 1943 میں بنگال میں متعین ہوگئے۔

    قیام پاکستان کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ بعد ازاں پہلے گورنر جنرل پاکستان غلام محمد، پھراسکندر مرزا اور بعد ازاں صدر ایوب خان کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔

    پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے سول سروس سے استعفیٰ دے دیا اور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔

    اس سے قبل پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل قدرت اللہ شہاب کی کاوشوں سے ہی عمل میں آئی۔ صدر یحییٰ خان کے دور میں وہ ابتلا کا شکار بھی ہوئے اور یہ عرصہ انہوں نے انگلستان کے نواحی علاقوں میں گزارا۔

    شہاب نامہ

    شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ شہاب نامہ مسلمانان برصغیر کی تحریک آزادی کے پس منظر، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔

    اسے حقیقی طور پر پاکستان کے ابتدائی دنوں کی ایک تاریخ کہا جاسکتا ہے، تاہم اس کتاب کے آخری 2 ابواب نے قدرت اللہ کی شخصیت پر بے شمار سوالات کھڑے کردیے۔

    مذکورہ ابواب میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ انہیں زندگی کے کئی برس تک ایک خفیہ شخصیت کی جانب سے ہدایات موصول ہوتی رہیں۔ اس شخصیت کو انہوں نے ’نائنٹی‘ کے نام سے پکارا ہے۔

    ان کے مطابق ایوان صدر میں اہم فرائض کی انجام دہی کے دوران کوئی خفیہ روحانی قوت تھی جو ان سے ملک کے مفاد میں بہتر کام کرواتی، جبکہ ایسا کام جس سے ملک کے مفاد کو خطرہ ہوتا اور مستقبل میں اس کے بدترین اثرات رونما ہوسکتے تھے، وہ رکوانے کی ہدایت دیتی۔

    اس باب میں انہوں نے مختلف روحانی شخصیات سے اپنے خصوصی تعلق اور رابطوں کو بھی بیان کیا ہے۔

    بقول ممتاز مفتی، ’ساری کتاب ایک ذہین، عقل مند، متوازن شخص کی روئیداد تھی، جس نے آخری باب میں ایک دم درویش بن کر، مصلہ بچھا کر تسبیح ہاتھ میں پکڑ کر اللہ اللہ کرنا شروع کردیا اور خلق خدا کو اللہ اللہ کرنے کی تلقین شروع کردی‘۔

    اس وقت مذکورہ ابواب کے بارے میں یہ بھی مشہور ہوگیا کہ یہ باب قدرت اللہ شہاب نے نہیں لکھا بلکہ ان کے حواریوں نے لکھ کر اس کتاب میں شامل کردیا ہے۔

    بہرحال اس کے بعد ممتاز مفتی میدان میں آئے اور انہوں نے قدرت اللہ کی شخصیت کے اس پہلو کی وضاحت کرنے کے لیے الکھ نگری لکھ ڈالی۔ الکھ نگری ان کی خود نوشت سوانح حیات ’علی پور کا ایلی‘ کا دوسرا حصہ ہے تاہم یہ صرف قدرت اللہ شہاب کی شخصیت کے گرد گھومتا ہے۔

    بقول خود ممتاز مفتی کے، اگر قدرت اللہ اپنی کتاب شہاب نامہ میں ’نائنٹی‘ کا باب شامل نہ کرتے تو وہ کبھی یہ کتاب نہ لکھتے۔

    ممتاز مفتی کا کہنا ہے کہ شہاب نے اس کتاب میں اپنی شخصیت کا راز کھول دیا اور اس کے لیے بھی اسے یقیناً حکم دیا گیا ہوگا۔ اپنی کتاب الکھ نگری میں وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ قدرت اللہ سے ملے بھی نہیں تھے اس وقت سے وہ ان کی زندگی پر اثر انداز ہورہے تھے۔

    اس کے بعد وہ قدرت اللہ کی شخصیت کے پراسرار اور روحانی پہلوؤں کو بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    بہرحال، شہاب نامہ ایک تاریخی دستاویز ہونے کے ساتھ اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ کسی بھی پاکستانی بیورو کریٹ کی یاداشتوں پر مبنی یہ مشہورترین تصنیف ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے 24 جولائی 1986 کو اسلام آباد میں وفات پائی اوراسلام آباد کے سیکٹر ایچ 8 کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔