Tag: شہباز حکومت

  • شہباز حکومت کا  بجٹ میں آئی ایم ایف کے کہنے پر تبدیلیوں  کا اعتراف

    شہباز حکومت کا بجٹ میں آئی ایم ایف کے کہنے پر تبدیلیوں کا اعتراف

    اسلام آباد شہباز حکومت نے بجٹ میں آئی ایم ایف کے کہنے پر تبدیلیوں کا اعتراف کرلیا اور کہا آئی ایم ایف معاہدے پر ہی عمل کیا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرمملکت خزانہ عائشہ غوث نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم تسلیم کررہے ہیں آئی ایم ایف کی وجہ سے بجٹ میں تبدیلیاں لائی گئیں ہیں۔

    عائشہ غوث کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے گزشتہ حکومت کے معاہدے پر ہی عمل کیا جا رہا ہے ، گزشتہ حکومت نےمعاہدوں پر عمل نہیں کیا۔

    وزیرمملکت خزانہ نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہمیں معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا ہوگا، ہم آئی ایف کے پریشر میں بھی نہیں، اسی فیصد ترامیم براہ راست ٹیکسوں سے متعلق کی گئیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا مقصد امیر پر ٹیکس لگانا اور غریب کو ریلیف دینا ہے۔

    خیال رہے حکومت نے پٹرول مزید مہنگا کرنے کی تیاری کرلی ، پٹرولیم مصنوعات پر پچاس روپے فی لیٹر لیوی عائد کرنے کی ترمیم منظور کی گئی۔

    وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات پر اس وقت لیوی صفر ہے تاہم پچاس روپے فی لیٹر یکمشت عائد نہیں کریں گے۔

  • شہباز دور میں کرپشن کا خدشہ :  آئی ایم ایف  نے قرض سے پہلے نیا مطالبہ کردیا

    شہباز دور میں کرپشن کا خدشہ : آئی ایم ایف نے قرض سے پہلے نیا مطالبہ کردیا

    اسلام آباد : عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) نے قرض سے پہلے شہباز حکومت سے احتساب کے قانون پر نظر ثانی کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق نواز دور حکومت میں منی لانڈرنگ کے معاملے اور شہباز دور میں کرپشن کے خدشے پر آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کے بعد اینٹی کرپشن قوانین میں نظرثانی کا مطالبہ کردیا۔

    سابق معاون خصوصی مصدق عباسی نے کہا کہ نیب کے اختیارات کو کم کردیا گیا ہے اسی لیے آئی ایم ایف نے قوانین پر نظرثانی کا کہا۔

    اس حوالے سے تحریک انصاف کے فرخ حبیب نے ٹوئٹ میں لکھا کہ آئی ایم ایف نے قرض دینے سے پہلے احتساب کے قانون پر نظرثانی کی شرط لگادی، چوروں کی حکومت نے نیب ترامیم سے کرپشن مقدمات ختم کرنے کے لیے این آر او ٹو لیا، آئی ایم ایف کو اپنے قرضے چوری ہونے کا خدشہ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ این آراو ٹو آئی ایم ایف کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔

    سابق وزیر اسدعمر نے بھی اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ آئی ایم ایف کوبھی شک ہےکہ وہ جوقرض دیں گےوہ چورحکمرانوں کےاثاثوں میں اضافہ کریں گے ، اس لئے نیب قانون میں تبدیلی کے بعد انہوں نے مطالبہ کردیا کہ کرپشن کو پکڑنے کے نظام کو طاقتورکیاجائے۔

    پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے دور حکومت میں ایف اے ٹی ایف نے منی لانڈنگ کے باعث پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا اب شہباز شریف کے دور میں آئی ایم اہف نے مطالبہ کر دیا کہ امپورٹڈ حکومت ڈالرز لینے سے پہلے اینٹی کرپشن قوانین پر نظر ثانی کرے، نیب قوانین میں ترمیم سے خود کو 1100 ارب کا این آر او آئی ایم ایف کی نظروں میں بھی آ گیا۔

  • شہباز حکومت نے جو کیا،  اس کا خمیازہ پاکستان کو اگلے 20سال تک بھگتنا ہو گا، شبر زیدی

    شہباز حکومت نے جو کیا، اس کا خمیازہ پاکستان کو اگلے 20سال تک بھگتنا ہو گا، شبر زیدی

    اسلام آباد : سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا ہے کہ جو شہباز حکومت نے کیا، اس کا خمیازہ پاکستان کو اگلے بیس سال تک بھگتنا ہو گا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے وزیراعظم کی جانب سے سپر ٹیکس لگانے کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سپر ٹیکس کا اعلان ،سمجھ نہیں آرہا حکومت کیا کررہی ہے، انھوں نے یہ اعلان کرکے مارکیٹ کو کریش کرادیا۔

    سابق چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ جو ٹیکس نہیں دیتے انھیں دائرہ کار میں لانا چاہیے تھا، جو ٹیکس دیتےہیں حکومت نے ان پر ڈبل ٹیکس لگادیا ہے۔

    شبرزیدی نے کہا کہ اس حکومت نے 2سے3ماہ میں جوکیا اس کا خمیازہ ملک کو20سال بھگتنا پڑے گا،جن کمپنیوں پر سپر ٹیکس لگایا وہ صرف300 ہیں سمجھ سے باہر کہ ان 300 کمپنیوں کے ملازمین پر کیا اثر پڑے گا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے یقین ہی نہیں آرہا کہ انھوں نے سپر ٹیکس لگایا ہے اور سمجھ نہیں آرہا کہ سپر ٹیکس لگانے کااعلان وزیراعظم نے کیسے کردیا، تاجر برادری ویسے ہی ڈالر کی وجہ سے مشکل سے کمپنیاں چلارہےہیں، ہم نے جتنی محنت کی انھوں نے سب پر پانی پھیردیا۔

  • مزدور کی 25 ہزار روپے ماہانہ اجرت، شہباز حکومت کا بڑا یوٹرن

    مزدور کی 25 ہزار روپے ماہانہ اجرت، شہباز حکومت کا بڑا یوٹرن

    اسلام آباد : شہباز حکومت مزدور کی 25 ہزار روپے ماہانہ اجرت کے اپنے ہی نوٹیفکیشن سے فرار ہوگئی، جس پر مزدور اورمحنت کش طبقے نے بھرپور احتجاج کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ملکی تاریخ میں30 فیصد بدترین مہنگائی میں حکومت نے غریب مزدوروں سے سنگین مذاق کیا اور مزدور کی25 ہزار روپے ماہانہ اجرت کے اپنے ہی نوٹیفکیشن سے فرار ہوگئی۔

    وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریر میں کئے گئے اعلان سے بھی بڑا یوٹرن لے لیا ، شہباز شریف نے بطور قائد ایوان مزدور کی اجرات 25ہزارماہانہ کرنےکااعلان کیا تھا۔

    جس کے بعد وفاقی حکومت نے17جون کوباضابطہ نوٹیفکیشن جاری کیا اوریکم اپریل سےنفاذکااعلان کیا ، 20 جون کو وفاقی حکومت مزدوروں سے کئے گئے وزیراعظم کے وعدے سے مکر گئی۔

    20 جون کے نوٹیفکیشن میں یوٹرن لیکر وفاق نےیکم جولائی سے اجرت کا لالی پاپ دے دیا، جس پر مزدور اورمحنت کش طبقے نے حکومت کی جانب سے وعدہ خلافی پر بھرپور احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔

    مزدور یونینز ،محنت کش تنظیموں میں وفاقی حکومت کیخلاف احتجاج پر مشاورت جاری ہے ، مزدور،محنت کش تنظیموں کےقائدین آج سہ پہرلاہور میں لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

    صدر انصاف لیبر ونگ رانا عبدالسمیع نے کہا کہ پی ڈی ایم نے 2ماہ میں معیشت کو برباد کردیا ،ملک میں جاری معاشی بدحالی کا ایندھن محنت کشوں کو بنایا جارہا ہے۔

    مزدور رہنما کا کہنا تھا کہ 30فیصدمہنگائی نےبجلی،تیل،گیس،اشیائےخورونوش کودسترس سے نکال دیا، حکومت نہایت بھونڈے انداز میں مزدوروں کامذاق بنارہی ہے۔

    مزدور رہنما نے وزیراعظم کےاعلان کے بعد نوٹیفکیشنزمیں تبدیلیاں قابل مذمت ہیں،غریب،محنت کشوں کے استحصال پر سیاست چمکانے کی کوشش افسوسناک ہے، کھوکھلے اعلانات کے ذریعے سیاسی تحسین سمیٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

    ، مزدور رہنما نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت 20 جون کا نوٹیفکیشن فوری واپس لے اور یکم اپریل سے تنخواہ میں اضافےکا وعدہ پورا کرے۔

  • آئی ایم ایف نے مطالبات کی فہرست شہباز حکومت کو دے دی

    آئی ایم ایف نے مطالبات کی فہرست شہباز حکومت کو دے دی

    اسلام آباد: آئی ایم ایف نے مطالبات کی فہرست شہباز حکومت کو دے دی ، آئی ایم ایف نے تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرح کم کرنے پر اعتراض اٹھایا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی ادارے( آئی ایم ایف) نے انکم ٹیکس بڑھانے سمیت کئی مطالبات کی فہرست شہباز حکومت کو دے دی۔

    اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین عاصم احمدنے سینٹ کمیٹی میٹنگ کے بعد ایک غیر رسمی بات چیت کے دوران پاکستان کے دو لاکھ سے زاید تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس کی شرح میں اضافے کا اشارہ دیا۔

    عاصم احمد نے کہا کہ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرح کم کرنے پر اعتراض اٹھایا تھا لیکن ایف بی آر لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

    یاد رہے آئی ایم ایف نے شہباز حکومت کی جانب سے اقدامات ناکافی قرار دیتے ہوئے مزید اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔

    آئی ایم ایف نمائندے نے کہا تھا کہ وجودہ بجٹ سے قرض پروگرام بحال نہیں ہوسکتا، شہباز حکومت کے بجٹ پرتحفظات ہیں، آئی ایم ایف مزید براہ راست ٹیکسوں کا نفاذ چاہتا ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ اہم مقاصد کیلئے پاکستان کو بجٹ میں اضافی اقدامات کرنےہوں گے،اس سلسلے میں حکومت سے مذاکرات جاری ہیں تاہم مطلوبہ نتائج کیلئے بجٹ میں ردوبدل کیا جاسکتا ہے۔

  • آئی ایم  ایف کا شہباز حکومت کو قرض دینے سے انکار ، ایک اور بڑا مطالبہ کردیا

    آئی ایم ایف کا شہباز حکومت کو قرض دینے سے انکار ، ایک اور بڑا مطالبہ کردیا

    اسلام آباد : آئی ایم ایف نے شہباز حکومت سے مزید اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا موجودہ بجٹ سے قرض پروگرام بحال نہیں ہوسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف نے شہباز حکومت کی جانب سے اقدامات ناکافی قرار دیتے ہوئے مزید اقدامات کامطالبہ کردیا۔

    آئی ایم ایف نمائندے نے کہا کہ وجودہ بجٹ سے قرض پروگرام بحال نہیں ہوسکتا، شہباز حکومت کے بجٹ پرتحفظات ہیں، آئی ایم ایف مزید براہ راست ٹیکسوں کا نفاذ چاہتا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اہم مقاصد کیلئے پاکستان کو بجٹ میں اضافی اقدامات کرنےہوں گے،اس سلسلے میں حکومت سے مذاکرات جاری ہیں تاہم مطلوبہ نتائج کیلئے بجٹ میں ردوبدل کیا جاسکتا ہے۔

    غیرملکی میڈیا رائٹرز نے کہا ہے کہ پاکستان کے نئے بجٹ کو آئی ایم ایف پروگرام سے ہم آہنگ کرنے کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت ہو گی۔

    وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے رائٹرزکو بتایا کہ حکام کے ساتھ کچھ محصولات اور اخراجات پر مزید وضاحت کے لیے بات چیت جاری ہے، پاکستان میں اقتصادی استحکام لانے کیلئے آئی ایم ایف حکام کو پالیسیوں کے نفاذ میں مدد دینے کے لیے تیارہیں۔

    وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے پروگرام میں موجود ہے مگرآئی ایم ایف کو لاحق تحفظات کی وجہ سے نوے کروڑ ڈالر کی اگلی قسط جاری نہیں کی گئی ہے۔

    دوسری جانب ۔ بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ پاکستان کا بجٹ آئی ایم ایف سے قرض لینے کیلئے کافی نہیں ہے، پاکستان اور آئی ایم ایف کی میٹنگ اسی مہینے میں ہے۔

    پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر سے کم ہوگئے جبکہ ملک کو اگلے بارہ ماہ میں اکتالیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

    سٹی گروپ کے ماہر معاشیات نے بلومبرگ کو بتایا کہ اخراجات میں کمی کرکے اپنے خسارے کو کم کرنے کا پاکستان کا منصوبہ آئی ایم ایف کو اپنا قرض پروگرام دوبارہ شروع کرنے پر راضی کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

    ماہر معاشیات کا کہنا تھا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب یکم جولائی سے آٹھ اعشاریہ چھ فیصد سے بڑھ کر نو اعشاریہ دو فیصد ہوجائے گا جو پاکستان کی ابھرتی مارکیٹ کے مقابلے میں کم معلوم ہوتا ہے جبکہ پاکستان کی سود کی ادائیگیوں کا تخمینہ آمدنی کے تقربیا چوالیس فیصد تک پہنچ چکا ہے۔

  • شہباز  حکومت اپنا پہلا بجٹ آج پیش کرے گی

    شہباز حکومت اپنا پہلا بجٹ آج پیش کرے گی

    اسلام آباد: نئے مالی سال 2022-23 کا بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جس میں دفاع کے لیے 1535 ارب روپے مختص کئے جانے کا امکان ہے۔

    وفاقی حکومت کی جانب سے نئے مالی سال 23-2022- کا بجٹ آج پیش کیا جائے گا، نئے بجٹ کا کل حجم 9500ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے بجٹ میں وفاق کے اخراجات کا تخمینہ 8900ارب تک ہوگا جبکہ ایف بی آر کو 7255ارب کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف دیے جانے کا امکان ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ نان ٹیکس وصولیوں کی مدمیں 1626ارب روپے کا تخمینہ ہوگا اور این ایف سی کےتحت وفاق سےصوبوں کو4215ارب روپے منتقل ہوں گے۔

    ذرائع کے مطابق دفاعی بجٹ کے لیے 1535 ارب روپے ، قرض اورسودکی ادائیگیوں کیلئے 3523ارب روپے ، پنشن کی مدمیں 530ارب روپے اور سبسڈیزکی مدمیں 578ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    آئندہ مالی سال 1232ارب روپےکی گرانٹس دی جائیں گے اور حکومتی امورچلانےکیلئے550ارب روپےدرکارہوں گے۔

    بجٹ خسارہ 4282ارب روپے تک محدود رکھنے اور بجٹ خسارہ معیشت کا5.5فیصدتک محدودرکھنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ آئندہ مالی سال معیشت کاحجم 78197ارب روپے ہوگا۔

    اگلے مالی سال کے لئے شرح نمو کا ہدف 5 فیصد مقرر کیا گیا ہے جبکہ زراعت میں شرح نمو 3.9 ، صنعت میں 5.9 فیصد ، خدمات کے شعبے میں شرح نمو 5.1 فیصد کا ہدف رکھا ہے۔

    مالیات اور انشورنس کے شعبے میں معاشی ترقی کا ہدف 5.1 فیصد اور رئیل اسٹیٹ میں ترقی کا ہدف 3.8 اور تعلیم کےشعبےمیں 4.9 فیصد رکھا گیا ہے۔

    نئے مالی سال کیلئےترقیاتی بجٹ 2184ارب روپےرکھنےکی تجویز دی گئی ہے، وفاق کا ترقیاتی بجٹ 800ارب روپےہوگا جبکہ صوبوں کیلئے1384ارب کےترقیاتی بجٹ کی تجویز دی ہے، چاروں صوبےبھی 276ارب روپے بیرونی امداد سے حاصل کریں گے۔

    اراکین قومی اسمبلی کی پبلک اسکیم کےلیے91ارب روپے تجویز سامنے آئی ہے جبکہ انفراسٹرکچر کی تعمیر پر 433ارب روپے خرچ کرنے کا پلان ہے۔

    سماجی منصوبوں پر 144ارب خرچ کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ، انرجی کیلئے 84 ارب اورٹرانسپورٹ مواصلات کیلئے 227ارب روپے شامل ہیں۔

    پانی کے منصوبوں کیلئے 83ارب، پلاننگ، ہاؤسنگ کیلئے 39ارب مختص کئے گئے جبکہ زراعت کی ترقی کیلئے 13 ارب اور انڈسٹریز کیلئے صرف 5 ارب کی تجویز دی ہے۔

    نئے بجٹ میں ایرا کیلئے کوئی فنڈز نہیں رکھے جارہے ، موجودہ مالی سال ترقیاتی منصوبوں کا نظرثانی شدہ بجٹ 550ارب ہے ، اس سال وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلئے 900ارب رکھے گئے تھے۔

  • شہباز حکومت کا یوٹرن ، ہفتے کی چھٹی  بحال، جمعہ کے روز ‘ورک فرام ہوم’ کی تجویز

    شہباز حکومت کا یوٹرن ، ہفتے کی چھٹی بحال، جمعہ کے روز ‘ورک فرام ہوم’ کی تجویز

    اسلام آباد : وفاقی کابینہ نے ہفتے کی چھٹی کو بحال کردیا ،مریم اورنگزیب نے بتایا کہ جمعہ کے روز ورک فرام ہوم کی تجویز سامنے آئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ عوام مشکل صورتحال میں ہے تو ہم نے بھی اقدامات کاآغاز کردیا، ہفتے کی چھٹی کو پہلے ختم کیا گیا تھا مگر کابینہ نے ہفتے کی چھٹی کو بحال کردیا ہے۔

    وزیر اطلاعات نے بتایا کہ جمعہ کے روز ورک فرام ہوم کی تجویز سامنے آئی ہے، تجویز پر غور کیا جائے گا پھر کابینہ اعلان کرے گی۔

    مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ کابینہ میں مارکیٹوں کو جلدبند کرنے کے حوالے سے بھی تجاویز آئی تاہم مارکیٹوں پر فیصلہ صوبوں ،تاجروں سےمشاورت کے بعد کیا جائے گا۔

    انھوں نے بتایا کہ موجودہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات جاری ہے، آنےوالے سال میں دیگر ذرائع سے بھی بجلی پیدا کریں گے ، سولراور ونڈ سے بھی آنے والے سالوں میں بجلی پیداہوگی۔

    مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ کے تھری منصوبےاور دیگر سے2ہزار871میگاواٹ سسٹم میں شامل کیاگیا ، گزشتہ حکومت نے بجلی کے منصوبوں پر کوئی توجہ نہیں دی، پورٹ قاسم سے600میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی جائے گی، مختلف پراجیکٹس پر بھی ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کردیا گیا۔

  • پرانا پاکستان اور مہنگائی کا چڑھتا چاند

    پرانا پاکستان اور مہنگائی کا چڑھتا چاند

    گزشتہ رات تقریباً ساڑھے نو بجے کا وقت تھا عوام شام ہی کو بجلی کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا خبر پاچکے تھے اور ابھی خود کو سنبھال ہی رہے تھے کہ اچانک ٹی وی اسکرین پر ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا چہرہ دکھائی دیا جنہوں نے ایک ہفتے کے دوران پٹرول کی قیمتوں میں دوسری بار 30 روپے فی لیٹر اضافے کا مژدہ سنا دیا اور یہ خبر ایسی تھی کہ ہر طرف ہلچل مچ گئی۔

    جس طرح 29 روزے مکمل ہونے کے بعد عشاء کی نماز تک عید کے چاند کا اعلان نہ ہونے پر لوگ قدرے پُرسکون ہونے لگتے ہیں کہ اچانک کہیں سے شہادتیں ملنے پر اگلے دن عید کی نوید سنائی جاتی ہے اور لوگ پھر اپنے سارے کام اور آرام چھوڑ کر نکل پڑتے ہیں تو ایسا ہی کچھ گزشتہ شب ہوا۔ جیسے ہی پٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان ہوا تو عوام سمجھے کہ مہنگائی کی چاند رات ہوگئی ہے، اس لیے جو کھانا کھا رہا تھا وہ کھانا چھوڑ کر جو آرام کر رہا تھا وہ بستر سے اٹھ کر اور جو بیوی بچوں کے ساتھ خوش گپیاں کر رہا تھا وہ انہیں حیران و پریشان چھوڑ کر اپنی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں لے کر پٹرول پمپس کی طرف نکل گیا۔ لیکن باہر نکلتے ہی شہر بھر کے اکثر پٹرول پمپ ایسے بند ملے کہ جیسے یہاں سے کورونا وائرس ہوکر گزرا ہو، شہر کے چند ایک پٹرول پمپس کھلے بھی ملے تو وہاں عید کی چاند رات پر مارکیٹوں میں پڑنے والا رش جیسا ہجوم نظر آیا۔ گاڑیوں کی طویل قطاریں ایسی تھیں کہ لگتا تھا کہ پٹرول میں 30 روپے لیٹر اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ مفت بٹ رہا ہے، یا سیل لگی ہوئی ہے۔

    ابھی یہ مناظر نگاہوں کے سامنے تھے کہ ساتھ ہی ماضی قریب کی یادوں کے کچھ دریچے بھی وا ہونے لگے۔ شاعر اختر انصاری نے کیا خوب کہا ہے:

    یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
    چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
    یاد کے تند و تیز جھونکے سے
    آج ہر داغ جل اٹھا میرا

    تو ماضی قریب کی یاد کا ایسا تند و تیز جھونکا آیا جس سے ہمارا ہر داغ جل ہی اٹھا کہ زیادہ پرانی نہیں، آج سے تین چار ماہ قبل ہی کی تو بات ہے۔ پاکستان کے عوام کے حافظے میں ضرور یہ سب تازہ ہوگا جب اس وقت کے "نئے پاکستان” میں "پرانے پاکستان” کے داعی پیٹوں میں کس طرح عوام کی حالت زار دیکھ دیکھ کر مروڑ اٹھتا تھا اور اس وقت وہ لوگ یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ "عمران حکومت نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ "، "یہ عوام دشمن حکومت ہے۔”، اور یہ بھی کہا جاتا تھاکہ "عمران خان کو عوام کا کوئی خیال نہیں۔”، "یہ سلیکٹڈ ہیں۔” اور اپوزیشن عوام کو یہ بھی بتاتی تھی کہ "مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔”، ” عوام کو سستا مکان اور بیروزگاروں کو کروڑوں نوکریاں‌ دینے کی بات کرنے والے نے غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے۔”‌ اور سب سے بڑھ کر اسی پٹرول کی قیمت میں اضافے پر کہا جاتا تھا کہ”پٹرول کی قیمت میں 5 روپے فی لیٹر اضافہ عوام پر ظلم ہے۔”، "ہم نے ہمیشہ عوام کو ریلیف دیا اور موقع ملا تو دوبارہ ریلیف دیں گے۔”

    یہ تھے وہ خوش کن نعرے جو پرانے پاکستان کے موجودہ حکمران اور ان کے حلیف عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن بن کر لگاتے تھے۔ یہ نعرے اس وقت لگتے تھے جب ملک میں پٹرول 150 روپے لیٹر تھا، سی این جی 230 روپے کلو میں دستیاب تھی، ڈالر 175 سے 180 کے درمیان تھا، کوکنگ آئل اور گھی 350 روپے کلو میں عوام کو دستیاب تھے، عوام آٹا 70 سے 80 روپے کلو خرید کر پیٹ کی آگ بجھا رہے تھے، بیرون شہر اور اندرون شہر ٹرانسپورٹ کے کرائے کم تھے، بجلی کے نرخ بھی آج سے کم تھے اور بجلی مکمل نہیں مگر پھر بھی دستیاب تو تھی۔ لیکن آج یہی خوش نما نعرے لگانے والے "پرانا پاکستان” کے داعی عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے والوں کی حکومت ہے اور لگ بھگ دو ماہ ہوچکے ہیں لیکن ان دو ماہ میں پٹرول 150 سے 210 روپے، ڈالر 175 سے 200 روپے کے لگ بھگ پہنچ چکا ہے، بجلی کی قیمت میں عمران دور حکومت کی نسبت فی یونٹ 47 فیصد تک اضافے کا اعلان کیا جاچکا ہے اور اس پر بھی بجلی دستیاب نہیں ہے، مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10 سے 12 گھنٹے اور دیہات میں 18 گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔ سی این جی نے یک دم 70 روپے چھلانگ مار کر ٹرپل سنچری کرلی، کوکنگ آئل اور گھی، مرغی اور گائے کا گوشت سب 500 روپے کلو سے تجاوز کرگئے ہیں۔ آٹا بھی سنچری عبور کرنے کے قریب ہے بلکہ بہت سے علاقوں میں تو یہ 100 کی حد بھی عبور کرچکا ہے۔

    پٹرول کی قیمتوں سے براہ راست ٹرانسپورٹ کرائے تو بڑھے ہی ہیں اسی تناسب سے کھانے پینے کی اشیا، پھل، سبزیوں، دودھ، دہی، انڈوں، گوشت غرض کون سی ایسی چیز ہے جس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا ہے اور اب تو وزیراعظم کے ماتحت وفاقی ادارہ شماریات نے بھی تصدیق کی مہر ثبت کردی ہے اور حالیہ جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں ہفتے مہنگائی ریکارڈ شرح پر پہنچ گئی ہے اور 20 فیصد سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔

    وزیراعظم شہباز شریف جو ملک کے بدترین معاشی حالات میں دو ماہ میں اب تک 6 غیر ملکی دورے کرچکے ہیں نے گزشتہ ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافے پر انتہائی "دکھی” انداز میں کہا تھا کہ انہیں پتہ ہے کہ عوام کے پاس کھانے اور دوا تک کے پیسے نہیں ہیں اور پٹرول قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ "دل پر پتھر” رکھ کر کیا تو اب جناب نیا اضافہ ہوچکا ہے، اب دیکھتے ہیں وزیراعظم عوام کا درد کتنا دل میں سمو کر اور کتنا چہرے پر ظاہر کرکے قوم کو بتاتے ہیں کہ یہ فیصلہ انہوں نے اب ” کتنی بڑی چٹان” دل پر رکھ کر کیا ہے۔

    اس ملک کی اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور غریب عوام یوں تو عمران خان کے دور حکومت میں بھی دودھ اور شہد کی نہروں سے مستفید نہیں ہورہی تھی لیکن آج سے قدرے بہتر اور سکون کی حالت میں تھی، پرانا پاکستان کے نام پر جو جال پھینک کر سیاست کے کھلاڑیوں نے قوم کا حال کردیا ہے شاید اس کی توقع اس قوم کو نہیں تھی۔

    پوری قوم شہباز حکومت کے فیصلوں پر انگشت بدنداں ہے کہ بقول حکمران ہمارے پاس زہر خریدنے کے پیسے نہیں ہیں لیکن شاہانہ غیر ملکی دورے جاری ہیں، وزیراعظم اور ان کے کسی وزیر مشیر نے عوام کے دکھوں پر سوائے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے علاوہ ان کے دکھوں کے مداوے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا ہے حسب روایت مہنگائی کے اس طوفان کا ملبہ بھی سابق حکومت پر ڈال دیا گیا ہے لیکن عوام سب دیکھ رہے ہیں، عمران خان کے دور حکومت میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مارچ کی قیادت کرنے والے بلاول بھٹو اور مہنگائی کا رونا رونے والی پی ڈی ایم آج اسی حکومت کے دست راست بنے ہوئے ہیں جنہوں نے صرف دو ماہ میں عوام کو مہنگائی کے سیلاب میں غرق کردیا ہے، حیرت اس بات پر ہے کہ سابق دور میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مکاؤ مارچ کے نام پر تماشا لگانے والی پی پی پی اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اب خاموش تماشائی بنے ہیں شاید انہیں ملک کے خارجہ معاملات دیکھنے سے فرصت نہیں یا پھر وہ اپنی سابقہ حریف مسلم لیگ ن کی بے بسی کا تماشا انجوائے کررہے ہیں، اس کے ساتھ ہی سابقہ حکومت 5 یا 10 روپے پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہونے پر شور مچانے والی ایم کیو ایم بھی اس 60 روپے کے ریکارڈ اضافے پر لب سیے ہوئے ہے۔

    مہنگائی مکاؤ کے فریبی نعرے سے وجود میں آنے والی حکومت کے لگ بھگ دو ماہ میں عوامی سہولت کے لیے اٹھایا گیا کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آتا کہ جس پر اسے سراہا جا سکے، حتیٰ کہ حج پالیسی میں بھی حد سے زیادہ تاخیر کا شکار کرکے عازمین حج کو اذیت میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت اور ان کے حلیفوں نے کچھ بھلائی کے کام کیے بھی ہیں تو لگتا ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد میں ہی کیے ہیں، مثلاً نیب ترامیم، انتخابی اصلاحات، ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے "سب کے سب” نیب اور ایف آئی اے کے مجرموں یا ملزموں کے ناموں کا بیک جنبش قلم نکال دینا، تفتیشی اداروں کے سربراہوں کے تبادلے وہ تو خیر ہو کہ عدالت نے اس کا نوٹس لیا اور یہ سلسلہ کچھ تھما تھا۔

    ملک و قوم کا نعرہ لگانے سے نہ تھکنے اور ہر وقت جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدانوں کی آمرانہ طرز حکومت کے پروردہ لوگوں نے شاید اپنے گھروں کو ملک اور اپنے بچوں کو قوم سمجھ رکھا ہے اسی لیے شہباز حکومت میں ایسے اقدام کثرت سے نظر آتے ہیں کہ جس میں بقول ان کے "ملک و قوم کی بھلائی” مضمر ہے۔ اب تو شاید پوری قوم کو ہی سمجھ میں آگیا ہے کہ حکمرانوں کی نظر میں ملک و قوم کی بھلائی اصل میں کس کی بھلائی ہے۔

    عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب نے یہ شعر شاید آج کے پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے کہا تھا۔

    قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
    موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

    قتیل شفائی مرحوم کو بھی شاید آنے والے وقت کا ادراک ہوگیا تھا جب ہی وہ بھی کہہ گئے کہ

    حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
    اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

    اسی لیے شاید عوام کی قوت برداشت کے حوصلے بھی پست سے پست ہوتے ہوتے اب ختم ہوچلے ہیں کہ اب انہوں نے حکومتوں سے حقیقی معنوں میں عوام کیلیے کسی اچھی خبر کی امید رکھنا ہی چھوڑ دی ہے۔ کسی شاعر نے یہ بھی تو کہا تھا کہ

    اتنی مہنگی پڑی ہیں تعبیریں
    خواب آنکھوں میں اب نہیں آتے

    یہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں اب سب کچھ بلا خوف وخطر کہنے کی اجازت ہے تو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی لوگوں کا ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے جس میں بلاتفریق اکثریت یہ کہہ رہی ہے کہ ملک مشکل حالات میں ہے تو ہمیشہ قربانیاں عوام سے ہی کیوں مانگی جاتی ہیں حکومت کرنے والے برسراقتدار بھی قربانیاں دینے کا حوصلہ پیدا کریں اور اسی تناظر میں بڑی شدومد کے ساتھ یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ حکمران، وزرا کی فوج ظفر موج، اراکین پارلیمنٹ، بلاتفریق تمام سرکاری اداروں کے افسران کی شاہانہ مراعات ختم کرکے ان سے بھی قربانی میں حصہ ڈلوایا جائے، شاید عوام کا یہ ردعمل ہی ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ ایسے اقدامات کے اعلانات سامنے آئے ہیں لیکن پٹرول الاؤنس میں 40 فیصد کمی اس کا مکمل علاج تو نہیں۔

    انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

    ویسے بھی پوری قوم جانتی ہے کہ عوام کا درد لیے اسمبلیوں میں آنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے مالی طور پر اتنا نوازا ہوا ہے کہ انہیں تو مراعات تو دور تنخواہ کی بھی ضرورت نہیں لیکن اگر وہ عوام کا درد محسوس کرنے کا اپنا "محنتانہ” وصول کرنا چاہتے ہیں تو ان کا حق ہے لیکن صرف محنتانہ ہی وصول کریں ساتھ میں شاہانہ مراعات تو نہ لیں اور اگر حکومت عوامی دباؤ میں کچھ ایسا فیصلہ بھی کرے تو صرف اعلان تک محدود نہ رکھے بلکہ جس طرح کے عوام کیلیے فوری فیصلے ہورہے ہیں اسی طرح ان کی شاہانہ مراعات ختم کرنے کے فوری ایگزیکٹو آرڈر جاری کیے جائیں یعنی فوری عملدرآمد شروع کردیا جائے۔

  • شہباز حکومت کا ایک اور  یوٹرن

    شہباز حکومت کا ایک اور یوٹرن

    اسلام آباد : حکومت نے صنعتی شعبے کے لیے خام مال، انٹرمیڈیٹ گڈز اور دیگر اشیاء کی درآمد پر پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق شہباز حکومت نے لگژری مصنوعات پر پابندی پر یوٹرن لیتے ہوئے صنعتی شعبے کے لیے خام مال، انٹرمیڈیٹ گڈز اور دیگر اشیاء کی تیاری میں استعمال ہونے والی تیار مصنوعات اور مشینری کی درآمد پر پابندی ختم  کردی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت تجارت جلد ہی ان اشیا کی فہرست پر کام کرے گی، جو 19 مئی کو جاری کردہ ایس آر او 598 کے تحت پابندی والے کسٹم کوڈ میں نادانستہ طور پر شامل ہوگئی ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ ہمیں صنعتوں سے کئی شکایات موصول ہوئی ہیں، اس سے قبل 25 مئی کو پہلی وضاحت جاری کی گئی تھی، جس میں حکومت نے جانوروں کی خوراک اور انرجی سیورز پر عائد پابندی ہٹا دی تھی۔

    اس حوالے سے وزارت تجارت نے وضاحتی نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ 19 مئی کو لگژری اور غیر ضروری اشیا کی درآمد پر پابندی لگائی گئی تھی تاہم شکایات پر نوٹیفکیشن میں خامیاں دور کر رہے ہیں۔

    ذرائع وزارت تجارت کے مطابق انڈسٹری نے مختلف خام مال درآمد پر پابندی ختم کرنے کی تجاویز دی ہیں ، تجاویز پر ایف بی آر کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں، مختلف خام مال کی درآمد پر بھی پابندی سے استثنیٰ دینے کی تجویز ہے۔