Tag: شہناز احد

  • خواب دیکھنا چھوڑ دیں!

    خواب دیکھنا چھوڑ دیں!

    تحریر: شہناز احد

    محترم مراد علی شاہ صاحب! خوش قسمتی یا بدقسمتی سے آپ ایک ایسے صوبے کے چیف منسٹر ہیں جس کے اسکول ٹیچرز کو انگریزی میں دنوں کے نام لکھنا نہیں آتے، جہاں سائنس کے استاد کو پانی کا فارمولا معلوم نہیں۔

    ایک ایسا صوبہ جس میں سکھر میونسپل کار پوریشن کی تقریب میں آنے والے کلمے نہیں آتے، نمازوں کی رکعتوں کا علم نہیں۔ جس صوبے کے ممبرانِ اسمبلی کو 23 مارچ کی چھٹی کا مقصد اور پاکستان کب بنا اور اسی قسم کے سوالات کے جوابات نہ آتے ہوں۔

    چیف منسٹر صاحب یہ میں نہیں کہہ رہی، یہ مختلف چینلوں کی نشریات کے ویڈیو کلپس ہیں جو سوشل میڈیا پر آج بھی گردش میں ہیں۔

    آج آپ اور آپ کے نام زد کردہ مشیر، وزیر یومیہ بنیاد پر لوگوں سے ایس او پی کی پابندی کرنے کی استدعا کر رہے ہیں۔ کبھی آپ ہاتھ جوڑتے ہیں، کبھی وہ گڑگڑاتے ہیں، آپ یا آپ کے کسی وزیر مشیر نے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایس او پی کا مطلب کیا ہے؟ شاہ صاحب شاید ارکانِ اسمبلی بھی اس کی وضاحت نہ دے سکیں۔

    آپ توقع کر رہے ہیں کہ صدر بوہری بازار، لی مارکیٹ، جونا مارکیٹ، زینب مارکیٹ، لیاقت مارکیٹ، حیدری، لالو کھیت، طارق روڈ، بہادر آباد، نیو کراچی، نارتھ کراچی اور شہر کے مختلف علاقوں کے دکان دار اور پتھارے دار ان ایس او پیز کو فالو کریں جن کو بنیاد بنا کر آپ نے چھوٹے کاروباریوں کے کشکولوں میں رحم کی بھیک ڈالی ہے۔ بصورتِ دیگر آپ ان کی دکانیں اور مارکیٹ سیل کر دیں گے۔

    شاہ صاحب! کیا آپ کو مذکورہ تمام مارکیٹوں اور بازاروں میں موجود دکانوں کا رقبہ معلوم ہے؟ کیا آپ کے علم میں ہے کہ ان بازاروں کی گلیاں کتنی چوڑی ہیں اور پارکنگ کے انتظامات کیسے ہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ان بازاروں اور مارکیٹوں میں کتنے بیت الخلا ہیں؟

    کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان بازاروں اور مارکیٹوں میں کارپوریشن کا عملہ کب کب صفائی ستھرائی کا کام کرتا ہے اور وہاں جراثیم کش اسپرے کیا جاتا ہے یا نہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں ان بازاروں اور مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی اشیا کی قیمتیں کیا ہیں اور انھیں شہر کا کون سا طبقہ کس طرح خرید پاتا ہے؟

    اپنے صوبے سے متعلق اور بہت سے زمینی حقائق کی طرح آپ یقینا یہ سب بھی نہیں جانتے اور شاید جاننا بھی نہیں چاہیے کیوں کہ آپ ان مسائل کی اصل وجہ اور ان کی حقیقت جاننے کے لیے چیف منسٹر نہیں بنے ہیں۔

    آپ سے ایک اور مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر یہ باتیں آپ کے دل کو چُھو جائیں تو براہِ کرم کسی سرکاری افسر کو اس کی تحقیق کرنے اور تفصیلات جاننے پر مامور نہ کیجیے گا کہ جہاں رشوت خوری کا ایک اور در کھلے گا، وہیں آپ کی میز پر سب اچھا ہے کی ایک اور فائل کا اضافہ ہو جائے گا۔

    چیف منسٹر صاحب!
    شاید آپ نہیں‌ جانتے کہ حکومت کے مختلف محکمہ جات رمضان سے قبل ہی ان بازاروں اور مارکیٹوں کو بجلی، پانی کے خود ساختہ گرداب میں پھنسا دیتے ہیں تاکہ اپنی جیبیں بھاری کرسکیں۔

    آپ ایک مختصر رقبے کی اور تنگ سی دکانوں کے مالکان سے توقع کر رہے ہیں کہ وہ نہ صرف سو روپے کا ماسک خود لگائے بلکہ یومیہ سو روپے کمانے والا ملازم بھی یہ ماسک خریدے اور دکان میں داخل ہونے والے گاہکوں کے ہاتھ سیناٹیزر سے صاف کروائے، اس کے ساتھ اپنی نہایت تنگ دکان میں داخل ہونے والے گاہکوں کے درمیان سماجی فاصلے کا خیال بھی رکھے؟

    جناب خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ زمینی حقائق کو قبول کرلیں۔

    آج بھی اس ملک اور صوبے میں گھروں سے باہر پھرنے والوں کو عوامی بیتُ الخلا کی سہولت میسر نہیں ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سڑکیں، گلیاں، راہداریاں ان کے تھوکنے، پان اور گٹکے کی پچکاریاں مارنے اور ہر قسم کی غلاظت پھینکنے کے لیے بنی ہیں اور گویا یہ ان کا پیدائشی حق ہے۔

    چیف منسٹر صاحب!
    آپ کے اعداد و شمار کے مطابق "کرونا” سے متاثرہ افراد کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے اور بڑھے گی۔ دنیا بھر میں کرونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اموات بھی واقع ہورہی ہیں۔ ادھر چند روز پہلے تک ہم سب آنے والے وقت سے بے خبر اس عید کے لیے بے قرار تھے جس کے لفظی معنی "خوشی” کے ہیں۔ وہ خوشی جو دل سے گزرتی ہوئی روح تک اتر جائے۔

    عید صرف نئے کپڑوں، جوتوں اور بغل گیر ہونے کا نام تو نہیں۔

    شا صاحب! آپ کو واقعی لاک ڈاؤن میں نرمی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ انسان ایک وقت کھا کر زندہ رہ سکتا ہے، لیکن اگر کھانا لانے والا نہ رہے تو کرونا سے زندگی بھر لڑائی جاری رہ سکتی ہے۔

     


    (بلاگر صحافتی، سماجی تنظیموں کی رکن، کڈنی فاؤنڈیشن آف پاکستان کی عہدے دار ہیں۔ مختلف معاشرتی مسائل اور صحتِ عامہ سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں)

  • کیا یہ آکاس بیل ہے؟

    کیا یہ آکاس بیل ہے؟

    تحریر: شہناز احد

    یہ کون ہے جو بحر سے برِّاعظم اور برِّاعظم سے بحر، شمال سے جنوب، جنوب سے شمال، مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق، اوپر سے نیچے، نیچے سے اوپر کسی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ویزے کے بغیر دندناتا ہوا پھر رہا ہے؟

    ساری سرحدیں اور بندشیں پھلانگتا ہوا، ابھی اِدھر، کبھی اُدھر۔ نہ ہاتھ آئے، نہ دکھائی دے۔

    اسے ہوائی جہاز، ریل گاڑی، بحری جہاز، موٹر کار، سائیکل، موٹر سائیکل کسی ذریعہ سفر کی حاجت نہیں۔ پورا گلوبل ولیج لرزہ بر اندام ہے۔ ہمارا وہ گاؤں جس پر ہمیں بڑا ناز تھا۔ جس میں رہنے اور جینے کے ہم نے نت نئے ڈھنگ، نرالے ڈھب نکالے اور ناز و انداز اپنائے۔

    چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہم انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے جانور سے بدتر سلوک کرتے تھے۔ اس نے تمام اقوامِ عالم سے وہی سلوک کیا۔

    انسانی ہاتھوں، چہروں پر سوار، اپنی نمو کے لیے انسانوں کا خون پیتا، ان کی سانسوں سے الجھتا یہ کون ہے؟

    یہ گورے، کالے پیلے، سانولے، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بدھسٹ، فاشسٹ، سوشلسٹ، کمیونسٹ کسی شناخت، کسی علامت میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا۔

    اسے تو جیسے اپنی بقا، اپنی نشوونما، اپنے پھلنے پھولنے کی فکر ہے۔ اسے تو ہمارا وجود جکڑ کر، ہمارا اندر تہس نہس کر کے، ہمیں موت کے منہ میں دھکیل کر بس اپنے جینے کا سامان کرنا ہے۔

    کیا یہ کوئی آکاس بیل ہے؟

     


    (بلاگر صحافتی، سماجی تنظیموں کی رکن، کڈنی فاؤنڈیشن آف پاکستان کی عہدے دار ہیں۔ مختلف معاشرتی مسائل اور صحتِ عامہ سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں)

  • گھنٹی نہیں بجتی، کنڈی نہیں کھلتی، کوئی مانوس آواز سنائی نہیں دیتی….

    گھنٹی نہیں بجتی، کنڈی نہیں کھلتی، کوئی مانوس آواز سنائی نہیں دیتی….

    شہناز احد

    میں آخری بار کئی دن پہلے گھر سے باہر گئی تھی۔ میں سوچ رہی ہوں، کیا باہر سب کچھ ویسا ہی ہے؟

    روز سویرے سورج بھی نکلا ہوتا ہے، ہوا اور درخت بھی ہوا کے سنگ جھوم رہے ہوتے ہیں۔ چڑیاں بھی چہچہا رہی ہوتی ہیں۔ رزق کی تلاش میں کائیں کائیں کرتے کرتے کوے، دور آسمان پر دائروں کی شکل میں چیلیں بھی گھوم رہی ہوتی ہیں۔ کوئی جھونکا بہار کے تازہ کھلے پھولوں کی باس سے بھرا بھی ہوتا ہے۔

    ہر سال کی طرح بیا اور بلبل کا جوڑا گیلری میں رکھے گملوں اور بیلوں میں اپنے آشیانے کا پلاٹ بھی تلاش کررہا ہوتا ہے۔ پارکنگ لاٹ میں کھڑی گاڑیوں کے نیچے بلیاں اور ان کے بچے بھی آنکھ مچولی کھیل رہے ہوتے ہیں۔

    وقفے وقفے سے ادھیڑ عمر، عمر رسیدہ افراد اب گروپوں سے الگ تنہا واک کررہے ہوتے ہیں۔ غلطی سے کسی سے آنکھ چار ہو جائے تو وہ آداب کا پتھر مارتا ہوا آگے کو لپک جاتا ہے۔ جیسے اسے کسی بات کا خوف ہو۔

    ایسا ہی ایک بے نام سا خوف میرے اندر بھی ہے کہ….. دن بیت جاتا ہے، سورج ڈھل کر ایک جانب سے دوسری جانب چلا جاتا ہے، دروازے کی کنڈی نہیں کھلتی، بیل نہیں بجتی، کوئی مانوس انسانی آواز نہیں آتی۔

    آواز کی خواہش میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹی وی کھولتی ہوں اور گھبرا کر بند کر دیتی ہوں۔ میرے کان ترس گئے ہیں۔

    کسی خوش بُو لہجے، رس گھولتی آواز، امید دلاتی بات کے لیے۔ آج مہینے سے اوپر ہو چلا ہے کہ ساری گاڑیاں جیسے پتھر کی ہوگئی ہیں۔ کسی گاڑی کا ہارن نہیں بج رہا۔ کوئی ڈرائیور زور زور سے بولتے ہوئے گاڑی صاف نہیں کرتا۔ کوئی بچوں کے بیگ تھامے بھاگتا نظر نہیں آتا۔ کسی مچھلی اور سبزی والے کی آواز نہیں آتی۔ بلند آواز میں بولتی جوتیاں گھس گھس کر چلتی ماسیاں نظر نہیں آتیں۔ گاڑیوں کی جانب لپکتے، ٹائیوں کی گرہ درست کرتے انسان نظر نہیں آتے۔ سڑک پر کھیلنے والے تمام بچے جانے کن کمروں میں بند ہیں۔

    میں گھبرا کر سوچتی ہوں، یہ سب کچھ کب پہلے جیسا ہوگا۔ میرے اندر کچھ ٹوٹتا ہے، کوئی جواب نہیں‌ آتا، ایسا لگتا ہے میں چلتے ہوئے مُردوں کے قبرستان میں کھڑی ہوں۔ مجھے رات میں نیند نہیں آتی۔ میرے کان شور مچاتے، ان سائرنوں کی آواز کو ترس گئے ہیں جو زندگی کو اپنی گود میں سمیٹے ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہوتے تھے۔

    نجانے وہ پٹاخے، دھماکے کہاں سو گئے جو رات کے کسی بھی پہر مسرت کا اظہار کرنے لگتے تھے۔ رات کو جب کسی کی بارات آتی تھی اس وقت۔

    رات کے سناٹے میں کراچی کی شاہراہِ فیصل پر رواں دواں ٹریفک کی ساں ساں کرتی آواز بھی جانے کہاں گم ہوگئی ہے۔ رات گئے مختلف گھروں سے باتوں، قہقہوں اور ٹی وی پروگراموں کی آوازیں بھی خاموش ہیں۔

    یہ آوازیں اب کب سنائی دیں گی؟ میں سوچتی ہوں۔ مگر مجھے جواب نہیں ملتا۔

    میں نے کئی دنوں سے سڑک کی شکل نہیں دیکھی، تصور کی آنکھ کھول کر بار بار آنکھوں کو پٹپٹاتی ہوں اور ان مناظر کو زندہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں جنھیں دیکھ دیکھ کر میری جاگتی آنکھیں تھک چکی تھیں۔

    وہ امراضِ قلب کے اسپتال سے نکلتی ایمبولینس، ان میں آنسو پونچھتے مرد و زن، اسی دروازے سے سائرن بجاتی داخل ہونے والی دوسری ایمبولینس، اور اس میں سوار فق چہرے، دروازے سے اندر، باہر آتا جاتا لوگوں کا ہجوم۔
    کیا وہاں آج بھی یہ منظر ہے، اگر نہیں تو وہ سارے لوگ کہاں گئے، ان کے دلوں نے دھڑکنا بند کردیا کیا؟

    اس کے سامنے وہ بچوں کا اسپتال۔ اس کے آگے عورتوں کا جمِ غفیر، جس کے گیٹ پر ہر لمحے میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔ اسی میلے میں اکثر و بیش تر کوئی باپ اپنے نومولود کی لاش ہاتوں پر لیے بھی کھڑا ہوتا ہے۔ کیا وہاں آج بھی یہ منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر نہیں تو وہ سب کہاں گئے؟

    لوگوں کے اسی ہجوم میں سستے میک اپ سے لیپا پوتی کیے چہروں اور جھلمل کرتے لباسوں میں ملبوس نوعمر لڑکیوں کے گروہ۔ وہ سفید کوٹ والے مستقبل کے مسیحا۔ میں خود سے پوچھتی ہوں، کیا باہر آج بھی یہ منظر ہوگا؟

    اوہ… میں تو بھول ہی گئی تھی، قانون کے ان رکھوالوں کو جو ہر شام سڑک کے کونے پر ناکہ لگا کر کھڑے ہوتے ہیں۔

    یہی سب سوچتے سوچتے میں اپنے کمرے میں آ گئی ہوں۔ دیوار کے ساتھ لگی کتابوں سے بھری الماری مجھے مسکراتی لگی جیسے پوچھ رہی ہو یہ کتب جو تم نے فرصت کے دنوں کے لیے جمع کی ہیں، لگتا ہے اب کبھی نہ پڑھ پاؤ گی۔ اسی کے نچلے حصے میں میری ذاتی اور کچھ دفتری فائلیں منہ کھولے مجھے تک رہی ہیں، ڈریسنگ پر میرے پسندیدہ پرفیوم پوچھ رہے ہیں، کیا تم ہمیں استعمال کرو گی؟……کب؟

    میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ کرسی کھینچتے ہوئے بیٹھتی ہوں اور خود سے سوال کرتی ہوں…. کیا اب کبھی ایسا نہ ہوگا کہ میں آرٹس کونسل جاکر ایک اچھا تھیٹر دیکھو سکوں، وہ شہر کے مختلف مقامات پر سجنے والے اردو زبان اور کتابوں کے میلے، کیا میں اب کبھی ان سے محظوظ نہ ہو سکوں گی؟

    سوچوں کی گلیوں میں چلتے چلتے میں بہت آگے نکل گئی تو لگا نمکو کارنر کے سموسے مجھے تَک رہے ہیں، لیکن میں ان تک نہیں پہنچ پارہی، چٹخارے ہاؤس کی چاٹ مجھے پکار رہی ہے۔ مگر کیسے جاؤں، کیا کروں؟

    کرنا تو بہت کچھ ہے، بہت سے کام ہیں جو ادھورے پڑے ہیں…اور وہ سب کے سب ضروری کام ہیں۔

    اوہ خدایا یہ سوچیں…. ماں کی قبر کے اطراف کو پکا کروانا ہے۔ میں سوچتی ہوں اور سوچے جارہی ہوں۔ میرے اندر کچھ ٹوٹ رہا ہے، مگر کوئی جواب نہیں مل رہا۔

    مجھے لگتا ہے میں ایک گنبد میں بند ہوں، ایسا گنبد جس کی نہ کوئی راہ داری ہے، نہ کھڑکی، نہ روشن دان۔
    اور ایک میں ہی نہیں ساری دنیا گنبد میں بند ہے۔ جس میں ہماری آوازیں گونج رہی ہیں اور ہماری ہی طرف واپس آرہی ہیں۔

    دروازے کی بیل مجھے زندہ ہونے کی نوید دیتی ہے….. شاید زندگی ہے۔ دروازہ کھولتی ہوں….. کوڑے والا ہے!
    دروازے سے لے کر بالٹی تک سب پر جراثیم کُش اسپرے کرتی ہوں۔

    واپس کمرے میں آتی ہوں، بیس سکینڈ تک ہاتھ دھونے کے بعد پھر سوچتی ہوں کہ میں اتنا کیوں سوچ رہی ہوں؟
    پھر کوئی جواب نہیں آتا۔

    کوئی ہے جو بتائے زندگی دوبارہ کب جیے گی؟ اس سکرات کا دورانیہ کتنا ہے؟

    کیا کوئی وینٹ ہے جو سانسوں اور سوچوں کی آمدو رفت کو آسان بنا دے۔ میرے اندر پھر کچھ ٹوٹ رہا ہے، کچھ لرزاں ہے، جواب نہیں آتا۔

    (شہناز احد صحافتی و سماجی تنظیموں سے وابستہ اور کڈنی فاؤنڈیشن آف پاکستان کی عہدے دار ہیں، آپ سماجی مسائل اور خاص طور پر صحتِ عامہ سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں)