Tag: شہنشائےغزل

  • شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی 92 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی 92 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن مرحوم کی 92ویں سالگرہ آج 18جولائی کو منائی جا رہی ہے، دنیائے غزل کے شہنشاہ مہدی حسن اٹھارہ جولائی سن انیس سو ستائیس میں پیدا ہوئے، انہوں نے نے انتھک محنت اور لگن سے فن غزل میں دنیا بھر میں اعلیٰٰ مقام بنایا۔

    مہدی حسن بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لونا میں پیدا ہوئے تھے ۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔ 1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

    سال انیس سو پچاس کی دہائی اُن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اُن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔ اس وقت سے لے کراپنی وفات تک انہوں نے پچیس ہزار سے زیادہ فلمی ،غیر فلمی گیت اور غزلیں پاکستان میں فنِ گائیکی کی نذر کی ہیں۔60 اور70کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن چکے تھے۔
    اس کے علاوہ کئی ملی نغمے بھی گائے جو لوگوں مداحوں میں بے حد مقبول ہوئے، سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    سنجیدہ حلقوں میں اُن کی حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

    بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ استاد مہدی حسن تیرہ جون سال 2012کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے ۔

  • آج شہنشائےغزل مہدی حسن خان کی سالگرہ ہے

    آج شہنشائےغزل مہدی حسن خان کی سالگرہ ہے

    سنگیت کی دنیا میں کئی دہائیوں تک راج کرنے والے مہدی حسن 18جولائی 1927ء کو راجستھان کے علاقے لُونا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق موسیقی کے کلاونت گھرانے کی سولہویں نسل سے تھا۔آپ کے والد استاد عظیم خان اور چچا استاد اسماعیل خان معروف دُھرپد گائک تھے۔

    مہدی حسن نے سُر اور تال کے ابتدائی رموز اپنے والد اور چچا ہی سے سیکھے مہدی حسن بیس برس کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ ہجرت کے بعد شدید مالی مشکلات کی وجہ سے کلاسیکی موسیقی کےاس ممتاز گھرانے کے چشم و چراغ کو سائیکل مرمت کرنے کی ایک دکان میں مزدوری کرنا پری ۔بعد میں کام سیکھتے سیکھتے مہدی حسن کار مکینک اور ٹریکٹر مکینک بن گئے۔ اسکے باوجود مہدی حسن خا ن نے پہلوانی کا شوق اور سنگیت کی خاندانی روایت کو نہ چھوڑا اور روزانہ ریاض کرتے رہے۔

    خان صاحب نے پاکستان میں گلوکاری کا باقاعدہ آغاز انیس سو باؤن میں ریڈیو پاکستان کے کراچی اسٹوڈیو سےکیا اور انیس سو ستاؤن میں ریڈیو پاکستان ہی سے گائی ایک ٹھمری نشر ہونے کے بعد موسیقار حلقوں کی توجہ حاصل کی۔ اس دور میں مہدی حسن کلاسیکی موسیقی ہی سےکل وقتی طور پر وابستہ تھےالبتہ فارغ اوقات میں غزل گائیکی کا شوق بھی پورا کرلیا کرتےلیکن جلد ہی ان کی آواز فلمی حلقوں میں کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جانے لگی۔

    مہدی حسن نے مجموعی طور پر 477 فلموں کے لیے گانے گائے ان کے گائے ہوئے گیتوں کی کل تعداد 667 ہے۔ انہوں نے اردو فلموں میں 574 ، پنجابی فلموں میں 91 اور سندھی فلموں میں 2 گیت گائے ۔ فلمی گیتوں میں ان کے سو سے زیادہ گانے اداکار محمد علی پر فلمائے گئے۔ اس کے علاوہ مہدی حسن خان صاحب ایک فلم شریک حیات 1968 میں پردہ سیمیں پر بھی نظر آئے۔ کئی دہائی پر محیط اس سفر میں انہوں نے مجموعی طور پر پچیس ہزار سے زائد فلمی وغیرفلمی گیت، نغمے اور غزلوں میں آواز کا جادو جگا کر انہیں امر کردیا اور دنیا بھر میں بے مثال شہرت اور عزت پائی۔

    مہدی حسن کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی، تمغہ امتیازاور ہلال امتیازسے نوازا گیا۔ بھارت میں انہیں سہگل ایوارڈ جبکہ حکومت نیپال نے مہدی حسن کو گورکھا دکشنا بہو کا اعزاز عطا کیا، ان کی آواز کے بارے میں برصغیر کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر سے بہتر شاید ہی کسی نے کچھ کہا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔

    مہدی حسن کا انتقال 13 جون 2012ء کو کراچی میں ہوا، وہ کراچی ہی میں آسودہ خاک ہیں ۔