Tag: شیخ سعدی کی حکایات

  • فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    کہتے ہیں، ایک بادشاہ کسی باغ کی سیر کو گیا۔ وہاں اپنے مصاحبوں کے درمیان وہ خوش و خرم بیٹھا جو اشعار پڑھ رہا تھا ان کا مفہوم کچھ اس طرح تھا کہ دنیا میں مجھ جیسا خوش بخت کوئی نہیں، کیونکہ مجھے کسی طرف سے کوئی فکر نہیں ہے۔

    اتفاق سے ایک ننگ دھڑنگ فقیر اس طرف سے گزرا۔ وہ بادشاہ کی آواز سن کر رک گیا اور اونچی آواز میں ایسا شعر پڑھا جس کا مفہوم کچھ یوں‌ تھا کہ اے بادشاہ اگر خدا نے تجھے ہر طرح کی نعمتیں بخشی ہیں اور کسی قسم کا غم تجھے نہیں ستاتا تو کیا تجھے میرا غم بھی نہیں ہے کہ تیرے ملک میں رہتا ہوں اور ایسی خراب حالت میں زندگی گزار رہا ہوں؟

    یہ آواز بادشاہ کے کانوں میں پڑی تو اس فقیر کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ دامن پھیلائیے۔ ہم آپ کو کچھ اشرفیاں دینا چاہتے ہیں۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر فقیر نے کہا کہ بابا، میں تو دامن بھی نہیں رکھتا۔ واقعی فقیر کا کرتہ نہایت خستہ تھا اور اس کا دامن تار تار تھا۔ اس کی یہ بات سن کر بادشاہ ایک لمحے کو جیسے لرز کر رہ گیا۔ بادشاہ کو اس پر اور رحم آیا اور اس نے اسے اشرفیوں کے ساتھ بہت عمدہ لباس بھی بخش دیا۔ فقیر یہ چیزیں لے کر چلا گیا اور چونکہ یہ مال اسے بالکل آسانی سے مل گیا تھا اس لیے ساری اشرفیاں چند ہی دن میں خرچ کر ڈالیں اور پھر بادشاہ کے محل کے سامنے جا کر اپنا دکھڑا پھر رونے لگا۔

    کسی نے بادشاہ کو اطلاع کی کہ وہی فقیر اب محل کے اطراف گھومتا رہتا ہے اور آپ کو اپنی حالت پر متوجہ کرتا ہے۔ اس مرتبہ بادشاہ کو فقیر پر غصہ آیا۔ حکم دیا کہ اسے بھگا دیا جائے۔ یہ شخص بہت فضول خرچ ہے۔ اس نے اتنی بڑی رقم اتنی جلدی ختم کر دی۔ اس کی مثال تو چھلنی کی سی ہے جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا۔ جو شخص فضول کاموں میں روپیہ خرچ کرتا ہے وہ سچی راحت نہیں پاسکتا۔

    جو شخص دن میں جلاتا ہے شمعِ کا فوری
    نہ ہو گا اس کے چراغوں میں تیل رات کے وقت

    بادشاہ کا ایک وزیر بہت دانا اور غریبوں کا ہم درد تھا۔ اس نے بادشاہ کی یہ بات سنی تو ادب سے کہا کہ حضورِ والا نے بالکل بجا فرمایا ہے۔ اس نادان نے فضول خرچی کی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو بس ان کی ضرورت کے مطابق امداد دینی چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی مروّت اور عالی ظرفی کے خلاف ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے۔ حضور، اس کی بے تدبیری کو نظر انداز فرما کر کچھ نہ کچھ امداد ضرور کریں۔ وزیر نے بادشاہ کے سامنے یہ خوب صورت اشعار پڑھے اور فقیر پر رحم کرنے کی درخواست کی۔

    دیکھا نہیں کسی نے پیاسے حجاز کے
    ہوں جمع آبِ تلخ پہ زمزم کو چھوڑ کر
    آتے ہیں سب ہی چشمۂ شیریں ہو جس جگہ
    پیا سے کبھی نہ جائیں گے دریائے شور پر

    سبق: شیخ سعدی سے منسوب اس حکایت میں دو امر غور طلب ہیں۔ ایک طرف تو فضول خرچی اور روپے پیسے کے سوچے سمجھے بغیر استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اسے غلط بتایا ہے جب کہ مال و دولت رکھنے والوں کو کہا گیا ہے کہ جذبات میں آکر نادان اور کم عقل لوگوں پر مال نہ لٹائیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کر ضرورت کے مطابق ہی غریبوں کی امداد کریں، لیکن انھیں دھتکارنا درست نہیں ہے کہ وہ مال داروں کی طرف نہ دیکھیں‌ تو کہاں‌ جائیں گے؟ یہ حکایت بتاتی ہے کہ جو لوگ کسی کی بخشش اور خیرات کو بلا ضرورت اور ناجائز صرف کرتے ہیں، ایسی ہی تکلیف ان کا مقدر بنتی ہے۔

  • خوشامد

    خوشامد

    کسی جنگل میں ایک پیڑ کے نیچے لومڑی آرام کررہی تھی کہ کہیں‌ سے ایک کوّا اڑتا ہوا آیا اور درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ گیا۔ لومڑی نے دیکھا کہ کوّے کی چونچ میں ایک بڑا سا گوشت کا ٹکڑا دبا ہوا ہے۔ اس کا جی بہت للچایا اور وہ ترکیب سوچنے لگی کہ اسے کیسے ہڑپ کرسکے۔

    ادھر کوّا اس بات سے بے خبر اپنا سانس بحال کررہا تھا کہ اس کے لائے ہوئے گوشت کے ٹکڑے پر لومڑی کی نیّت خراب ہوچکی ہے۔

    کوّا اس وقت چونکا جب لومڑی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک واہ وا شروع کردی۔ وہ ایک سانس میں‌ بولے جارہی تھی کہ سبحان اللہ جیسی تیری صورت ہے، ویسی ہی سیرت بھی تُو نے پائی ہے۔ تیرے پر کیا خوش رنگ ہیں اور اس کی سیاہی کیسی چمک دار ہے۔ تیرے گلے پر کیسا اجلا نشان ہے اور تیری چونچ کتنی مضبوط اور حسین ہے۔

    کوّا اپنی تعریف سن کر خوشی سے پھول گیا۔ پہلے کبھی کسی نے اس کی ایسی تعریف نہیں‌ کی تھی۔ ادھر لومڑی بولے ہی جارہی تھی۔‌ اے پرند تُو اپنی سیرت میں بھی یکتا ہے اور میں‌ نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ تُو بڑا دور اندیش بھی ہے، مگر قدرت نے ایک صفت سے تجھے محروم رکھا ہے تاکہ تُو اپنی اوقات میں رہے اور کسی میں کوئی کمی دیکھے تو اسے حقیر جان کر طعنہ نہ دے سکے۔ کوّا جس نے اب تک اپنے لیے صرف تعریفی کلمات سنے تھے، اچانک ایسی بات سن کر تڑپ اٹھا اور یہ جاننے کے لیے فوراً اپنا منہ کھول دیا کہ وہ کس صفت سے محروم ہے؟

    کوّے نے جیسے ہی منہ کھولا، اس کی چونچ سے گوشت کا ٹکڑا نکلا اور لومڑی کے سامنے آ گرا جس نے اسے ہڑپ کرنے میں‌ بس اتنی ہی دیر لگائی جتنی دیر میں‌ کوئی پلک جھپکتا ہے۔ کوّا سمجھ گیا تھا کہ لومڑی نے اسے بے وقوف بنایا ہے۔

    لومڑی نے کوّے سے کہا، اے کم عقل، تُو کس صفت سے محروم ہے، سچ پوچھ تو مجھے بھی اس کا کچھ علم نہیں‌، لیکن میں‌ یہ ضرور جانتی ہوں کہ خوشامد سے سو کام نکل سکتے ہیں۔

    (ماخوذ از حکایت)