Tag: شیخ ایاز

  • نیم حکیم ‘محمد چھتلذ چھتل’ اور نامعلوم شاعر ‘کانو’

    نیم حکیم ‘محمد چھتلذ چھتل’ اور نامعلوم شاعر ‘کانو’

    اُردو زبان میں‌ مشاہیر کی ذاتی زندگی اور حالات و واقعات پر مبنی آپ بیتیاں نہ صرف ہر خاص و عام کی دل چسپی کا باعث بنتی ہیں بلکہ مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ شخصیات کی انفرادی زندگی کے ساتھ ان کے دور کے تاریخی اور کئی اہم واقعات کا مستند حوالہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔

    یہاں ہم سندھی زبان کے مشہور شاعر اور ادیب شیخ ایاز کی خودنوشت سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جن میں انھوں نے اپنے دور کے دو ایسے کرداروں کا تذکرہ کیا ہے جو غالباً اُن کے لیے بھی عجیب و غریب اور پُراسرار رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    محمد چھتلذ چھتل ایک نیم حکیم تھا اور جمیعت الشعراء کا ممبر تھا۔ میں جب چھوٹا سا تھا تو وہ شکار پور کے شہر لکھی در میں اپنا سامان زمین پر سجا کر بیٹھا کرتا تھا۔ اس سامان میں قسم قسم کی شیشیاں اور بڑے بڑے مٹی کے تھال ہوتے تھے۔ کچھ تھالوں میں تیل میں شرابور مرے ہوئے سانڈے اور کیکڑوں جیسے بڑے بچھو ہوتے تھے۔ چند تھالوں میں مختلف رنگ کے دوائیوں کے سفوف اور گولیاں ہوتیں۔ اس حکیم کے ساتھ عام طور پر ایک نوعمر لڑکا بھی ہوتا تھا جس کے ساتھ وہ مل کر "میں عامل تو معمول” والا ڈرامہ رچایا کرتا تھا۔

    اور جب مجمع میں لوگ جمع ہونے لگتے تو وہ اردو کا درج ذیل شعر اپنی کراری زبان میں پڑھنے لگتا،

    سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
    کہ خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

    اور پھر یہ دیکھ کر مجمع خوب جم گیا ہے اور تیل کی شیشیوں، کاغذ کی پڑیوں میں لپیٹے ہوئے سفوف اور شیشیوں میں بند گولیوں کے فائدے بتا کر انھیں ہجوم میں بڑی ہوشیاری سے فروخت کرتا اور خوب کمائی کرتا۔

    ان دنوں جمیعت الشعراء کا ایک رسالہ "ادیب سندھ” لاڑکانہ سے نکلا کرتا تھا جس میں جمیعت کے طرحی مشاعروں میں پڑھی گئی غزلوں کا انتخاب شایع ہوتا تھا اور آئندہ کے مشاعروں کے لیے طرح مصرع اور اس کا قافیہ ردیف بھی دیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر ایک طرح مصرع کی ردیف خالص تھی۔ اور قافیہ گلاب، خضاب اور جلاب وغیرہ۔ ان کا وزن چار بار مفاعلاتن دیا گیا تھا۔ اور مزید وضاحت کے لیے گلاب خالص، شراب خالص، خضاب خالص اور جلاب خالص وغیر قافیے اور ردیف اکٹھے کر دیے گئے تھے۔

    انہی دنوں ایک نامعلوم شاعر کے اشعار جس کا تخلص تھا "کانو” ، ‘ادیب سندھ’ کے انتخاب میں بڑے طمطراق سے چھپا کرتے تھے اور اس کی شاعری نے جمیعت الشعراء کے حلقوں میں کافی تھرتھری پیدا کر رکھی تھی۔ کوئی کہتا تھا کہ کانو دراصل نظامی ہے اور کسی کا خیال تھا کہ یہ کراچی کا کوئی اور شاعر ہے۔ اور جب بھی جمیعت الشعراء کے ارکان ایک دوسرے سے ملتے تو یہ سوال ضرور پوچھتے تھے کچھ پتا چلا یہ کانو کون ہے؟

  • نام ور ادیب، شاعر اور دانش ور شیخ ایاز کا یومِ وفات

    نام ور ادیب، شاعر اور دانش ور شیخ ایاز کا یومِ وفات

    اردو اور سندھی کے نام ور شاعر، ادیب اور دانش وَر شیخ ایاز 28 دسمبر 1997ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ ماہرِ قانون اور ماہرِ تعلیم بھی تھے جنھوں نے سماج، سیاست اور ادب میں‌ اپنے فکر و فلسفے سے ایک نسل کو متاثر کیا اور دوسروں کے لیے مثال بنے۔

    شیخ ایاز کا اصل نام شیخ مبارک علی تھا جو 1923ء کو شکار پور کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ شیخ ایاز کو تعلیمی اداروں میں بائیں بازو کے نظریات کے حامی ادیبوں اور سیاست دانوں سوبھو گیان چندانی، گوبند مالھی، ابراہیم جویو اور دیگر کی صحبت نصیب ہوئی جس نے انھیں عملی میدان میں‌ مختلف نظریات اور جدوجہد پر آمادہ کیا۔ وہ ترقی پسند ادب اور مختلف سیاسی اور حقوق سے متعلق تحریکوں کا زمانہ تھا اور شیخ ایاز ان سے وابستہ رہے اور نہایت فعال اور سرگرم کردار ادا کیا۔

    انھوں نے سندھی اور اردو زبانوں میں ادب تخلیق کیا اور 1946ء میں ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’سفید وحشی‘‘ کے نام سے آیا اور یہ سلسلہ کئی مجموعہ ہائے کتب تک دراز ہوگیا۔ وہ نثر ہی نہیں نظم کے میدان میں بھی نام ور ہوئے۔ ان کی انقلابی شاعری تقسیم سے پہلے ہی مشہور ہوچکی تھی۔

    ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’بھور بھرے آکاس‘‘ 1962ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام شایع ہوا۔ یہ مجموعہ حکومت کی پابندی کی زد میں آیا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’کلھے پاتم کینرو‘‘ 1963ء میں آیا اور اس پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ اردو شاعری کے مجموعے بوئے گل نالۂ دل، کف گل فروش اور نیل کنٹھ اور نیم کے پتے کے نام سے شایع ہوئے۔

    شیخ ایاز کا ایک بڑا کارنامہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مجموعہ کلام ’’شاہ جو رسالو‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جس سے شاہ لطیف کا پیغام اردو بولنے والوں تک پہنچا اور مقبول ہوا۔ شیخ ایاز کی تقاریر کے مجموعے بھی شایع ہوئے ہیں‌ جب کہ ان کے مضامین اور یادداشتوں کے علاوہ دوسری کتب قابلِ ذکر ہیں۔

    انھیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • جدید سندھی ادب کے بانی،شیخ ایاز کی آج 16ویں برسی منائی جا رہی ہے

    جدید سندھی ادب کے بانی،شیخ ایاز کی آج 16ویں برسی منائی جا رہی ہے

    جدید سندھی ادب کے بانی اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے سندھی ادیب، شاعر،ڈرامہ نگار و دانشور شیخ ایاز کی آج سولہویں برسی منائی جا رہی ہے۔

    بھٹائی کی صوفیانہ شاعری کا تسلسل, انسان دوستی ، وطنیت، پیار، تذکرہ حسن، صوفی ازم، قربانی اور سچ یکجا ہوں تو شیخ ایاز بنتا ہے، شیخ ایاز کو لطیف بھٹائی کے بعد سندھ کا عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔

    آپ جدید سندھی ادب کے بانیوں میں شامل ہیں، درجنوں کتابوں اور ڈراموں کے مصنف شیخ ایاز سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے، آپ نے لطیف بھٹائی کے شاھ جو رسالو کا منظوم اردو ترجمہ کیا۔

    ایاز نے شاعری کے ذریعے نئی فکر کے ساتھ سندھ کے سماجی، اخلاقی و ثقافتی سوچ و فکر پر گہرے اثرات مرتب کئے، جہاں کہیں بھی انقلاب، تبدیلی، دھرتی سے پیار اور نئی فکر جہت کی بات ہوگی اسے شیخ ایاز کے ذکر کے بغیر ادھورا و نامکمل تصور کیا جائے گا۔

    ابھی تبدیلی کے متوالے، ادب کے شیدائی پوری طرح استفادہ بھی نہ کر سکے تھے کہ اٹھائیس دسمبر انیس سو ستانوے کو یہ عظیم شخصیت دار فانی سے کوچ کر گئی۔