Tag: شیخ سعدی

  • احسان کی رسّی (شیخ سعدی کی حکایت)

    احسان کی رسّی (شیخ سعدی کی حکایت)

    یہ رمز و نکتہ آفریں حکایت شیخ سعدی سے منسوب ہے اور اسے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ سعدی کہیں جارہے تھے اور انہوں نے راستے میں ایک جوان کو دیکھا، جس کی ایک بکری اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی آ رہی تھی۔

    شیخ سعدی اسے دیکھنے لگے۔ وہ جوان جس سمت منہ کرتا اور آگے بڑھتا بکری بھی اسی جانب چل پڑتی۔ حضرت سعدی نے اس سے سوال کیا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے اس کی وجہ کیا یہ رسّی ہے جس سے یہ بندھی ہوئی ہے؟

    شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ میری بات کا جواب دیے بغیر اس جوان نے اپنی بکری کے پٹے کو کھول دیا۔ اب دیکھتا ہوں کہ بکری ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی ہے۔ وہ جوان آگے بڑھ رہا ہے اور پٹے سے آزاد ہونے کے بعد بھی بکری اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے چلتی رہی، کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ بکری نے اس جوان کے ہاتھ سے چارہ کھایا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد وہ جوان سیر کرکے واپس ہوا اور مجھے وہیں راستے میں پایا تو بولا، اے صاحب، اس بکری کو یہ رسّی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔

    جوان مزید بولا، حضرت! ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہٰذا ہمیں برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کرنا چاہیے، کیونکہ جو تیری روٹی کھائے گا وہ کہیں تجھ سے وفا ضرور کرے گا۔

  • آرام کی قدر مصیبت کے بعد ہوتی ہے (حکایتِ سعدی)

    آرام کی قدر مصیبت کے بعد ہوتی ہے (حکایتِ سعدی)

    ایک بادشاہ دریا کی سیر کو نکلا تو اس غلام کو بھی ساتھ لے لیا جو چند دن پہلے ہی اس کے پاس آیا تھا۔ اس غلام نے کبھی دریا نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کو کشتی پر سوار ہونے کا تجربہ تھا۔ کشتی دریا میں آگے بڑھی تو اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور خوف سے اس کا بدن کانپنے لگا۔

    بادشاہ کا ایک وزیر اور دوسرے نوکر جو اس کے ساتھ تھے، وہ اسے نرمی کے ساتھ سمجھانے لگے اور ہر طرح اطمینان دلایا کہ کچھ نہیں‌ ہوتا اور وہ نہیں ڈوبا۔ لیکن وہ خاموش نہیں ہوا۔ اس کے رونے کی وجہ سے بادشاہ کی طبیعت خراب ہوگئی اور سیر و تفریح کا لطف ختم ہو گیا۔ کسی کے سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کس طرح خاموش کرائیں۔ اس کشتی میں ایک دانا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے بادشاہ سے کہا۔ اگر آپ حکم دیں تو میں ایک ترکیب سے اسے چپ کرا دوں۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔

    اس عقلمند آدمی نے دوسرے ملازموں کو حکم دیا کہ غلام کو دریا میں ڈال دو۔ انھو‌‌‌‌ں نے ایسا ہی کیا۔ اس نے جیسے ہی پانی میں چند غوطے کھائے، اس دانا کے اشارے پر اس کے بال پکڑ کر کشتی میں کھینچ لیا گیا۔ پھر اس کے دونوں ہاتھ رسی سے جکڑ کر کشتی کے پتوار سے باندھ دیا۔ کچھ وقت گزر گیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ بادشاہ کو تعجب ہوا۔ عقلمند آدمی سے پوچھا، بھلا اس میں کیا حکمت تھی کہ غوطہ کھانے اور تکلیف اُٹھانے کے بعد وہ خاموش ہو گیا۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت اب سے پہلے اس نے کبھی ڈوبنے کا مزہ نہیں چکھا تھا اور نہ اس کو کشتی میں آرام اور اطمینان سے بیٹھنے کی قدر معلوم تھی۔ جان کی حفاظت اور اطمینان کی قدر وہی جانتا ہے جو کبھی کسی مصیبت میں پھنس چکا ہو۔ جس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے اس کو جو کی روٹی اچھی نہیں معلوم دیتی۔ جو چیز ایک شخص کو بری نظر آتی ہے وہی، دوسرے کو بھلی لگتی ہے۔

  • دنیا دار کا پیٹ (حکایتِ‌ سعدی)

    دنیا دار کا پیٹ (حکایتِ‌ سعدی)

    جزیرۂ کیش میں مجھے ایک تاجر سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے چالیس کارندے تھے اور ڈیڑھ سو اونٹوں پر مالِ تجارت لدا ہوا تھا۔ وہ ایک رات مجھے اپنے گھر لے گیا مگر خیالی پلاؤ پکانے میں نہ تو رات بھر مجھے سونے دیا اور نہ خود سویا۔

    وہ تاجر اُس رات اتنا بولا کہ ہانپ ہی گیا اور ایسا لگتا تھا کہ اب مزید بولنے کی اس میں سکت باقی نہیں‌ رہی۔ کبھی کہتا کہ میرا فلاں مال ترکستان میں پڑا ہے اور فلاں شے ہندوستان میں رکھی ہے۔ کبھی کہتا کہ اسکندریہ چلیں، وہاں کی آب و ہوا بڑی خوش گوار ہے، پھر خود ہی کہہ دیتا جائیں کیسے؟ راستے میں دریائے مغرب بڑا خطرناک ہے۔ کبھی یوں کہتا کہ جس سفر کا میں نے ارادہ کر رکھا ہے اگر وہ پورا ہو جائے تو پھر عمر بھر ایک جگہ گوشۂ قناعت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کروں گا۔

    میں نے دریافت کیا، بتائیے تو وہ کون سا سفر ہے؟ کہنے لگا، فارس سے چین میں گندھک لے جاؤں گا، سنا ہے وہاں اس کی بڑی قدر و قیمت ہے اور چین سے پیالیاں خرید کر روم بھیجوں گا اور وہاں سے ان کے عوض رومی کپڑا ہندوستان لے جاؤں گا۔ پھر ہندوستان سے ہندوستانی فولاد لے کر حلب میں پہنچاؤں گا اور اس کے بدلے میں آئینے خرید کریمن میں لے جاؤں گا اور پھر یمنی چادریں اپنے وطن فارس میں لا کر مزے سے ایک دکان کھول کر بیٹھ جاؤں گا اور سفر کو خیر باد کہہ دوں گا۔

    ذرا اس جنون کو تو ملاحظہ فرمائیے! بس اسی طرح بکتے بکتے اس نے رات گزار دی۔ اس نے اتنی بکواس کی کہ پھر گویا بات کرنے کو اس کے پاس کچھ رہا نہیں۔ آخر اس نے میری طرف توجہ کی اور کہا:

    شیخ صاحب! آپ نے بھی دنیا دیکھی ہے، اپنے دیکھے سُنے سے ہمیں بھی تو کچھ بتلائیے۔

    اس کے جواب میں ایک شعر میں نے اسے سنایا:

    گفت چشم تنگِ دنیا دار را
    یا قناعت پرو کند یا خاکِ گور

    اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ دنیا دار کا پیٹ کبھی بھرتا نہیں، اسے یا تو صبر ہی بھرے یا پھر خاکِ گور۔

    (حضرت شیخ سعدی شیرازی سے منسوب ایک حکایت)

  • بزدل غلام

    بزدل غلام

    ایک بادشاہ اپنے چند درباریوں کے ساتھ دریا کنارے سیر کو گیا۔ دریا کے دونوں کناروں پر دور تک درخت اور سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ سب اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کررہے ہیں۔ فضا میں پرندوں کی پرواز اور ان کی چہکار سے بادشاہ کا دل شاد ہو گیا۔

    کچھ دیر وہاں چہل قدمی کرنے کے بعد بادشاہ نے کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کی خواہش ظاہر کی تو فوراً ایک بڑی کشتی حاضر کردی گئی۔ بادشاہ اور درباریوں کے ساتھ چند غلام بھی کشتی میں‌ سوار ہوگئے۔ ان میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا۔ دریا کی روانی اور بہتے پانی کے شور میں‌ لہروں پر کشتی کے ڈولنے سے وہ خوف زدہ ہوگیا۔ اسے ڈر ہوا کہ کشتی ڈوب جائے گی اور وہ تیرنا بھی نہیں‌ جانتا، تب کیا ہو گا۔ جیسے ہی سفر شروع ہوا خوف کے مارے وہ غلام رونے لگا۔ بادشاہ کو اس کا اس طرح رونا اور خوف زدہ ہونا بہت ناگوار گزرا۔ پہلے تو سب نے اسے سمجھایا، لیکن اس کا رونا دھونا بند نہ ہوا تب ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا۔ اس پر بھی غلام چپ ہو کر نہ دیا۔

    کشتی میں ایک جہاں دیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے اجازت دی تو اس دانا شخص نے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ جب وہ غلام تین چار غوطے کھا چکا تو اسی دانا شخص نے دوسرے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکال لو۔ چنانچہ دو غلام جو اچھے تیراک بھی تھے، فوراً دریا میں کودے اور سَر کے بال پکڑ کر خوف زدہ غلام کو کشتی تک لے آئے اور اس میں‌ گھسیٹ لیا۔ سب نے دیکھا کہ وہ غلام جو ذرا دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بری طرح رو رہا تھا، اب بالکل خاموش اور پُر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا ہے۔

    بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھنکوا دیا تھا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اب خاموش بھی ہو گیا ہے؟

    دانا شخص نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب ان دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہو گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ خاموش ہو گیا ہے۔

    جس نے دیکھی نہ ہو کوئی تکلیف، قدر آرام کی وہ کیا جانے
    نعمتوں سے بھرا ہو جس کا پیٹ، جَو کی روٹی کو کب غذا مانے

    سبق: یہ حکایت حضرت شیخ سعدیؒ سے منسوب ہے، جس میں انھوں نے انسان کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے کبھی تکلیف دیکھی ہی نہ ہو وہ اس راحت اور آرام کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں‌ لگا سکتا جو اسے حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایسا شخص جسارت اور قوّتِ برداشت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ آسودہ، پُرمسرت اور کام یاب زندگی وہی شخص گزار سکتا ہے جس نے کسی بھی قسم کا رنج اور مشکل دیکھی ہو اور کسی بھی طرح کا راحت بھرا وقت گزارا ہو۔

  • مرا ہوا کبوتر اور ایک درہم

    مرا ہوا کبوتر اور ایک درہم

    ایک متقی و صالح شخص کسبِ معاش کے بعد اپنے مال کا ایک تہائی راہِ خدا میں خرچ کردیتے اور ایک تہائی اپنی ضروریات پر۔ اس کے علاوہ وہ اسی مال کا ایک تہائی اپنے ذریعۂ معاش پر لگا دیتے تھے۔ یہ برسوں سے ان کا معمول تھا۔

    ایک دن ان کے پاس ایک دنیا دار شخص آیا اور کہنے لگا کہ شیخ! میں چاہتا ہوں کہ کچھ مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں، لہٰذا آپ مجھے کسی مستحق کا پتہ دیجیے۔ انہوں نے اس سے کہا پہلے تو حلال کمانے کی جستجو کرو اور اسے یقینی بناؤ اور پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو، حلال کمائی کو خود مستحق مل جائے گا۔ دنیا دار شخص نے اس بات کو بزرگ کی مبالغہ آرائی پر محمول کیا تو شیخ نے کہا، اچھا تم جاؤ تمہیں جو شخص بھی ایسا ملے جس کے لیے تمہارے دل میں جذبۂ ترحم پیدا ہو اسے صدقہ کا مال دے دینا۔

    چنانچہ وہ شخص جب شیخ کے پاس سے اٹھ کر آیا تو اس نے ایک بوڑھے اندھے کو دیکھا جس کے لیے اس کے دل میں وہ جذبہ پیدا ہوا اور اس نے محسوس کیا کہ یہی وہ مستحق ہے جسے صدقہ خیرات دینا چاہیے۔ اس نے اپنے کمائے ہوئے مال میں سے اسے کچھ حصہ خیرات کر دیا۔ دوسرے دن وہ اسی ضعیف اور نابینا شخص کے پاس سے گزر رہا تھا۔ اس وقت وہ بوڑھا اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ایک آدمی سے بات کررہا تھا اور اسے بتا رہا تھا کہ کل ایک مال دار شخص نے ترس کھا کر مجھے کچھ مال دیا تھا، جسے میں نے فلاں فلاں بدکار شخص کے ساتھ عیاشی اور شراب نوشی میں اڑا دیا۔

    وہ دنیا دار یہ سنتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور سیدھا شیخ کے پاس پہنچا۔ اس نے یہ ماجرا ان کے حضور بیان کیا۔ شیخ نے یہ واقعہ سن کر اپنی کمائی میں سے ایک درہم اسے دیا اور کہا کہ اسے رکھو، اور یہاں سے نکلتے ہی سب سے پہلے تمہاری نظر جس آدمی پر پڑے یہ درہم اسے بطور خیرات دے دینا۔ اس نے یہی کیا اور شیخ کا درہم لے کر گھر سے باہر نکلا اور سب سے پہلے اس کی نظر جس شخص پر پڑی وہ اسے بظاہر پیٹ بھرا اور معقول معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے پہلے تو یہ درہم اُس شخص کو دینے میں‌ ہچکچاہٹ محسوس کی، مگر شیخ کا حکم تھا، اس لیے ہمّت باندھی اور درہم اس آدمی کی طرف بڑھا دیا۔ ادھر اُس نے بھی درہم لیا اور آگے چل پڑا۔ تب وہ دنیا دار جس نے شیخ کے حکم پر یہ عمل کیا تھا، تجسس کے مارے اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ بظاہر خوش حال نظر آنے والا یہ آدمی اس درہم کو کہاں‌ خرچ کرتا ہے۔

    دنیا دار سے خیرات میں‌ درہم حاصل کرنے والا آگے بڑھتا رہا اور ایک کھنڈر کے قریب پہنچ کر اس میں داخل ہوا ور پھر وہاں سے دوسری طرف نکل کر شہر کی راہ پکڑی۔ جب یہ مال دار آدمی اس کے پیچھے کھنڈر میں داخل ہوا تو وہاں اسے کوئی چیز نظر نہ آئی، البتہ ایک مرا ہوا کبوتر اس نے ضرور دیکھا۔

    مال دار آدمی نے کھنڈر سے باہر نکلنے کے بعد کچھ آگے جاکر خیرات لینے والے کو روک لیا اور قسم دے کر پوچھا کہ بتاؤ تم کون ہو؟ اور کس حال میں رہتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں ایک غریب انسان ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں، وہ بہت بھوکے تھے، جب مجھ سے ان کی بھوک کی شدت نہ دیکھی گئی تو انتہائی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ میں ابھی پریشانی کے عالم میں‌ پِھر رہا تھا کہ مجھے کھنڈر میں یہ مرا ہوا کبوتر نظر آیا، مرتا کیا نہ کرتا؟ میں نے یہ کبوتر اٹھا لیا اور اسے لے کر اپنے گھر کی طرف چلا تاکہ اس کے گوشت سے بچّوں کی کچھ بھوک مٹا سکوں، مگر پھر ایک جگہ اللہ نے تمہارے ذریعے یہ درہم مجھے عنایت کیا تو وہ کبوتر جہاں سے اٹھایا تھا، وہیں پھینک دیا اور اب کھانے پینے کی چیز لے کر اپنے گھر جاؤں‌ گا۔

    اب اس مال دار پر یہ بھید کُھلا کہ شیخ کا وہ قول محض جذباتی بات اور مبالغہ آرائی نہیں تھا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ حلال مال اللہ کی مرضی سے ضرور حقیقی ضرورت مند اور مستحق تک پہنچتا ہے جب کہ حرام اور ناجائز طریقے سے ہاتھ آیا مال بُری جگہ خرچ ہوتا ہے۔

    (باب صدقہ کی فضیلت، روایت از شیخ علی متقی عارف باللہ)

  • مشاہیر کی نظر سے دنیا کو دیکھیے، زندگی کو سمجھیے!

    مشاہیر کی نظر سے دنیا کو دیکھیے، زندگی کو سمجھیے!

    دنیا کی عظیم اور کام یاب ترین شخصیات کا کائنات میں غور و تدبّر، زندگی کے مشاہدات اور تجربات اور نہایت قابلِ توجہ تعلیمات کو ہم اکثر اقوالِ زرّیں کے عنوان کے تحت پڑھتے رہتے ہیں۔

    یہ اقوال یا دانائی و حکمت کی باتیں ہماری حالت کو سدھارنے مددگار اور سیرت و کردار کی تعمیر کے حوالے سے راہ نمائی کرتی ہیں۔ اقوال کی صورت میں صدیوں کے تجربات اور تعلیمات ہمارے قلب و نظر کو متاثر کرتے ہیں اور انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ یہاں ہم چند مشاہیر کے اقوال آپ کے مطالعے کے لیے پیش کررہے ہیں۔

    ٭ ضبطِ نفس افراد میں ہو تو خاندانوں کی تعمیر ہوتی ہے اور اگر اقوام میں ہو تو سلطتنتیں قائم ہوتی ہیں۔(علّامہ اقبال)

    ٭ جتنی جلدی کرو گے، اتنی ہی دیر ہو گی، یعنی صبر سے کام لیا کرو۔ (چرچل)

    ٭ حقیقی بڑا تو وہ ہے جو اپنے ہر چھوٹے کو پہچانتا ہو اور اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہو۔(شیخ سعدیؒ)

    ٭ داناؤں کی زبان میں خدا کی طاقت ہوتی ہے۔ (حکیم لقمان)

    ٭تم اپنا مستقبل تو نہیں بدل سکتے لیکن تم اپنی عادات بدل سکتے ہو اور تمہاری عادات ہی تمہارا مستقبل بدلیں گی۔ (عبداُلکلام)

    ٭ اصل ذہانت اس بات کو سمجھنا ہے کہ ہم زندگی، دنیا اور اپنے آپ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ (سقراط)

    ٭ وہ شخص تعریف کا مستحق ہے جو علم کی طاقت کے ساتھ شدتِ غضب کو زائل کرسکے۔ (جالینوس)

  • ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    شیراز کو دیکھنے کا ارمان تھا۔ ایک عمر کے بعد خدا نے پورا کیا۔

    اللہ اللہ! خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کا پیارا وطن جس پر وہ لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں۔ اس کو دیکھنے کا ارمان کیوں نہ ہو، میں نے دیکھا اور تعجب کے ساتھ دیکھا، کیوں کہ جس شیراز پر نورانی بزرگوں نے نور برسائے تھے، اُس کی رونق و آبادی ان کے ساتھ ہی رحلت کر گئی۔

    اب بڑی بڑی وسیع اور بلند پرانی مسجدیں اور کہنہ مدرسے گرے پڑے کھڑے ہیں اور بنانے والوں کی ہمّتوں پر دلائل پیش کر رہے ہیں۔

    یہ اہلِ ایران میں عام دستور ہے کہ اشرافِ سفید پوش کے مکان کے ساتھ ایک مردانہ مکان ہوتا ہے۔ وہ حرم سرائے سے زیادہ آراستہ ہوتا ہے اور ضروریات کے سامان موجود ہوتے ہیں۔

    اکثر ہوتا ہے کہ موافق طبع دوست صبح ملاقات کو آیا۔ ظہر کی نماز پڑھ کر رخصت ہوا۔ یا رات کو رہا، صبح ناشتا کر کے رخصت ہوا۔

    شیراز کے لوگ اب تک لباس و اوضاع میں اپنے بزرگوں کی تصویر ہیں۔ علما اور ثقہ لوگ عمامہ باندھتے ہیں۔ عبا پہنتے ہیں۔ خاندانی تُرک کلاہ پوست برہ کی پہنتے ہیں۔ طہران کے اوضاعِ جدید ابھی تک وہاں لذیذ نہیں ہوئے۔

    شیراز میں چھوٹی چھوٹی ٹکیاں بکتی دیکھیں کہ ان سے لوگ سَر اور داڑھیاں دھوتے تھے۔ وہ ایک قسم کی مٹّی ہے جس کی کان شہر کے پاس ہے۔ اس میں خوش بُو کے اٹھانے کی قدرتی تاثیر ہے۔ اُسے پھولوں میں بسا کر صاف کرتے ہیں اور ٹکیاں بنا کر بیچتے ہیں۔ شہروں میں تحفہ لے جاتے ہیں۔ گِلِ گُل اس کا نام ہے۔ مجھے گلستان کا سبق یاد آیا۔

    گلِ خوشبوئے در حمام روزے

    جن دنوں ہم نے پڑھا تھا تو خدا جانے کیا سمجھے تھے۔ پھر ایک خیالِ شاعرانہ سمجھتے رہے۔ اب معلوم ہوا کہ شیراز کا اصلی تحفہ ہے۔

    جاڑے کا موسمِ کوہ برف لیے سَر پر چلا آتا تھا۔ بڑھاپے نے خوف کے لحاف میں دبک کر کہا کہ شیراز تو دیکھ لیا۔ اب اصفہان کو دیکھو اور آگے بڑھو کہ تلاش کی منزل ابھی دور ہے۔

    شیراز کے دوست بہت روکتے اور رستہ کے جاڑے سے ڈراتے رہے، مگر جب کارواں چلا، مجھے اشتیاق نے اٹھا کر کجاوہ میں بٹھا دیا۔ چار چار، پانچ پانچ کوس پر شاہ عباسی سرائیں آباد، موجود تھیں جن کی پختگی اور وسعت قلعوں کو ٹکّر مارتی تھی۔ ان سراؤں میں مسافر اگر روپیہ رکھتا ہو تو خاطر خواہ سامان آسائش کا ملتا ہے، چار پانچ آنہ کو مرغ اور پیسے کے دو دو انڈے، ہر قسم کے تر و خشک میوے نہایت اعلیٰ اور نہایت ارزاں ملتے ہیں۔

    رستہ آبِ رواں سے سبزہ وار آبادیوں سے معمور تھا۔ جہاں منزل کرتا، گاؤں میں جا کر پوچھتا اور جو اہلِ علم ہوتا اُس سے ملاقات کرتا۔ چھوٹی سے چھوٹی آبادی میں بھی ایک دو عالم اور بعضے صاحبِ اجتہاد ہوتے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر تعجّب آتا تھا۔ مثلاً کھیت سے گائے کے لیے گھاس کندھے پر لیے آتے ہیں۔ یا نہر پر کپڑے دھو رہے ہیں۔ لڑکا گھر کی دیوار چُن رہا ہے۔ جب فارغ ہوئے تو اسے شرع لمعہ یا قوانین الاصول کا سبق پڑھانے لگے۔

    جب اُن سے پوچھتا کہ کسی شہر میں جا کر ترویج علم کیوں نہیں کرتے؟ کہ رواجِ کار بھی ہو تو کہتے کہ وہاں خلوت کا لطف نہیں رہتا، حضورِ قلب میں خلل آتا ہے، دنیا چند روز ہے۔ گزار دیں گے اور گزر جائیں گے۔ یہ علمی روشنی کل مملکتِ ایران میں عام ہے کہ شاہان سلف کی پھیلائی ہوئی ہے۔

    میں اُن سے کہتا تھا کہ ہماری تمہاری تو جس طرح گزری گزر گئی۔ لڑکوں کو طہران بھیجو اور دار الفنون پڑھواؤ کہ زمانہ کی ہوا پھر گئی ہے۔ اکثر ہنس دیتے اور میرے ساتھ ہم داستان ہو کر کہتے، انہی کو کہو کہ ان کا معاملہ ہے۔ بعضے بحثنے لگتے اور آخر اتفاق رائے کرتے۔

    میرے پاس کھانے پکانے کا سامان نہ تھا۔ وہیں بیٹھ کر کسی گھر سے روٹی مول لیتا۔ کہیں سے انڈے کہیں سے گھی۔ اشکنہ یعنی انڈوں کا قلیہ پکاتا۔ اس میں روٹی ڈبوتا، کھاتا اور شکرِ الٰہی بجا لاتا۔ اس میں بہت باتوں اور تحقیقات کے موقع ملتے تھے اور وہ لوگ ان کاموں میں میری مدد کرنی مہمان نوازی کا جزو سمجھتے تھے جو کہ حقیقت میں فرضِ مذہبی ہے۔

    (اردو زبان کے نام ور ادیب اور شاعر محمد حسین آزاد 1886ء میں سیرِ ایران کے بعد اپنے وطن (ہندوستان) لوٹے تو اس سفر کی روداد لکھی، یہ مختصر پارہ اسی تحریر سے نقل کیا گیا ہے)

  • بادشاہ کی وصیت

    بادشاہ کی وصیت

    ایک بادشاہ لا ولد تھا۔ جب اس کی موت کا وقت نزدیک آیا تو اس نے وصیت کی کہ میری موت کے دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو، میری جگہ اسے بادشاہ بنا دیا جائے۔

    خدا کی قدرت کا تماشا دیکھیے کہ دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا وہ ایک فقیر تھا۔ اس کی ساری زندگی در در بھیک مانگتے اور اپنی گدڑی میں پیوند پر پیوند لگانے میں گزری تھی اور اچانک ہی اسے ایک بڑی سلطنت اور محل نصیب ہو گیا۔

    امیروں، وزیروں نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق اسے بادشاہ بنا دیا اور وہ تاج و تخت اور خزانوں کا مالک بن کر بہت شان سے زندگی گزارنے لگا۔ قاعدہ ہے کہ حاسد اور کم ظرف لوگ کسی کو آرام میں دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگتے ہیں۔ اس فقیر کے ساتھ بھی یہی ہوا جو اب بادشاہ بن گیا تھا۔ اس کے دربار کے کچھ امرا نے آس پاس کے حکم رانوں سے ساز باز کر کے ملک پر حملہ کروا دیا اور بہت سا علاقہ حملہ آوروں نے فتح کر لیا۔

    فقیر بادشاہ بہت افسردہ رہنے لگا۔ انھی دنوں اس کا ایک ساتھی فقیر ادھر آ نکلا اور اپنے یار کو ایسی حالت میں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اسے مبارک باد دی کہ خدا نے تیرا مقدر سنوارا اور فرشِ خاک سے اٹھا کر تختِ افلاک پر بٹھا دیا۔

    فقیر کی یہ بات بالکل درست تھی۔ کہاں در در کی بھیک مانگنا اور کہاں تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہونا، لیکن اس شخص کو تو اب بادشاہ بن جانے کی خوشی سے زیادہ ملک کا کچھ حصہ چھن جانے کا غم تھا۔ غم ناک آواز میں بولا، ہاں دوست تیری یہ بات تو غلط نہیں لیکن تجھے کیا معلوم کہ میں کیسی فکروں میں گھرا ہوا ہوں۔ تجھے تو صرف اپنی دو روٹیوں کی فکر ہو گی، لیکن مجھے ساری رعایا کی فکر ہے۔

    شیخ سعدیؒ کی اس حکایت میں یہ سچائی اور سبق پوشیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا اعزاز پا کر بھی انسان کو سچا اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ طاقت و منصب، جاہ و جلاس اس کی خواہشات بڑھا دیتے ہیں اور اگر ان میں‌ سے کوئی پوری نہ ہو تو وہ اداس اور افسردہ ہو جاتا ہے۔ اگر اس سے مال و دولت چھن جائے یا اس میں‌ کمی آجائے تو اسے روگ لگ جاتا ہے۔

  • نادان منشی

    نادان منشی

    ایک منشی خاصے عرصے سے بیروزگار تھا اور بہت پریشان تھا۔ ایک دن وہ شیخ سعدی کے پاس گیا اور اپنا حال بیان کرنے کے بعد کہا کہ آپ کی بادشاہ کے دربار تک رسائی ہے، کسی سے کہہ سُن کر کوئی کام دلوا دیں۔ اس کی بات سن کر شیخ صاحب نے کہا، بھائی، بادشاہوں کی ملازمت خطرے سے خالی نہیں ہوتی۔ نان ہاتھ آنے کی امید کے ساتھ جان جانے کا امکان بھی ہوتا ہے۔

    انھوں نے یہ نصیحت اس کی بھلائی کے خیال سے کی تھی، لیکن وہ سمجھا کہ بزرگ اسے ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیخ‌ سعدی کو کہنے لگا، یہ بات ٹھیک ہے، لیکن جو لوگ ایمان داری اور محنت سے اپنا کام کریں، انھیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ میلے کپڑے ہی کو دھوبی پٹرے پر مارتا ہے۔

    شیخ صاحب نے اسے پھر سمجھایا کہ تُو ٹھیک کہتا ہے۔ سانچ کو آنچ نہیں، بہت مشہور بات ہے، لیکن بادشاہوں اور حاکموں کے بارے میں لومڑی کی سی احتیاط برتنی چاہیے جو گرتی پڑتی بھاگتی چلی جاتی تھی۔ کسی نے پوچھا کہ خالہ لومڑی کیا مصیبت پڑی ہے جو یوں بھاگی چلی جا رہی ہو؟ لومڑی بولی، میں نے سنا ہے بادشاہ کے سپاہی اونٹ بیگار میں پکڑ رہے ہیں۔ اس نے ہنس کر کہا، عجب بے وقوف ہے، اگر اونٹ پکڑے جا رہے ہیں تو تجھے کیا ڈر؟ تُو لومڑی ہے۔ لومڑی نے جواب دیا، تیری بات ٹھیک ہے، لیکن اگر کسی دشمن نے کہہ دیا کہ یہ اونٹ کا بچّہ ہے، اسے بھی پکڑ لو تو میں کیا کروں گی؟ جب تک یہ تحقیق ہو گی کہ میں لومڑی ہوں یا اونٹ کا بچّہ، میرا کام تمام ہو چکا ہو گا۔ مثل مشہور ہے کہ جب تک عراق سے تریاق آئے گا، وہ بیمار چل بسا ہو گا جس کے لیے تریاق منگوایا گیا ہو گا۔

    یہ سُن کر بھی منشی نے اپنی فریاد جاری رکھی۔ شیخ نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے اسے بادشاہ کے دربار میں ملازمت دلوا دی، شروع شروع تو اسے ایک معمولی کام ملا لیکن وہ آدمی قابل تھا، اس لیے بہت ترقّی کر گیا اور عزّت و آرام کے ساتھ زندگی گزارنے لگا۔

    شیخ صاحب انہی دنوں حج پر چلے گئے اور جب لوٹے تو دیکھا کہ وہ منشی بھی ان کے استقبال کو آیا ہوا ہے، لیکن اس کی حالت سے پریشانی ظاہر ہوتی تھی۔ حالات پوچھے تو اس نے کہا دربار میں بھیجنے سے پہلے آپ نے جو بات کہی تھی، وہ بالکل ٹھیک تھی۔ میں نے اپنی قابلیت اور محنت سے ترقّی کی تو حاسد بھی پیدا ہوگئے اور انھوں نے الزام لگا کر مجھے قید کروا دیا۔ اب حاجیوں کے قافلے لوٹنے کی خوشی میں شاہی حکم پر قیدیوں کو آزاد کیا گیا ہے، تو اسی میں مجھے بھی رہائی نصیب ہوئی ہے۔ ورنہ بادشاہ نے تو یہ جاننے کی کوشش بھی نہ کی کہ میں بے گناہ ہوں اور الزام کی تحقیق تک نہ کروائی۔ شیخ سعدی نے افسوس کا اظہار کیا اور منشی اپنی راہ ہولیا۔

    حضرت شیخ سعدیؒ سے منسوب مختلف کتب میں منقول اس حکایت میں بادشاہوں اور حاکم و امرا کا قرب حاصل کرنے کے بجائے قناعت اور صبر کا راستہ اپنانے کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ اس وقت کے مطلق العنان بادشاہوں کی ہر الٹی سیدھی بات قانون کی حیثیت رکھتی تھی اور دربار سازشی عناصر سے بھرے رہتے تھے اور اکثر ان کی وجہ سے منشی جیسے قابل اور سیدھے سادے لوگ مشکل میں گرفتار ہو جاتے تھے۔ آج کے صاحبِ اختیار لوگوں کا بھی یہی معاملہ ہے، طاقت ور اور بااختیار اگر عدل و انصاف کرنے اور اپنی عقل سے کام لینے سے قاصر ہو تو اس کا قرب خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔

  • وہ جھوٹ جس نے زندگی بچالی

    وہ جھوٹ جس نے زندگی بچالی

    کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے سامنے کسی ملزم کو پیش کیا گیا اور کوتوال نے بادشاہ سے اجازت طلب کی کہ دربار میں اس کا مقدمہ سنایا جائے۔

    بادشاہ نے مقدمہ سنا اور ملزم کو موت کی سزا سنا دی۔ بادشاہ کا فیصلہ جان کر سپاہیوں نے ملزم کو پکڑا اور دربار سے باہر کی طرف لے کر چلے۔

    ملزم نے باہر جاتے ہوئے بادشاہ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ سچ ہے کہ جان کا خوف بڑا ہوتا ہے۔ کسی شخص کے لیے اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ اسے قتل کرنے کا حکم دیا جا چکا ہو اور وہ سپاہیوں کے نرغے میں مقتل کی طرف جا رہا ہو۔

    ملزم کو سزا سنائی جاچکی تھی اور اس کے دل سے کم از کم یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ اس کی بکواس بادشاہ سن لے یا کوئی دوسرا سن کر بادشاہ کو بتا دے تو وہ طیش میں‌ آکر اس کا سَر قلم کروا دے۔ یہ تو اب یوں‌ بھی ہونے ہی والا تھا۔

    بادشاہ نے قیدی کو کچھ کہتے دیکھا تو اس نے ایک وزیر، جو قیدی کے نہایت قریب تھا، سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا تھا؟ بادشاہ کا یہ وزیر بہت نیک دل تھا۔ اس نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصّے میں‌ آجائے گا اور ممکن ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو جسمانی تکلیف اور آزار دے۔

    اس رحم دل وزیر نے جواب دیا۔ جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ وزیر کی بات سن کر بادشاہ مسکرایا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔

    بادشاہ کا ایک اور وزیر بھی دربار میں‌ موجود تھا جو اس رحم دل وزیر کا بڑا مخالف اور ایک تنگ دل انسان تھا۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا۔

    یہ بات ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پر لائیں۔ اب اس نے بادشاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ سچ یہ ہے کہ وہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ اس نے غصہ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہیں کی۔

    وزیر کی یہ بات سن کر بادشاہ نے کہا۔ اے وزیر! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔

    یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہو۔ وہ سچ جو فساد کا سبب ہو، اس سے بہتر نہیں‌ کہ وہ جھوٹ زباں پر آئے جو فساد اور اس کی تباہ کاریوں کا راستہ روک لے۔ حاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔

    بادشاہ نے قیدی کو آزاد کرنے کا حکم بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ شاہانِ وقت ہمیشہ اپنے وزیروں اور مشیروں کی بات کو اہمیت دیتے ہیں اور اگر وہ اسے اچھا مشورہ اور بھلی بات کہیں‌ تو یہ سب کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

    یہ حکایت حضرت شیخ‌ سعدیؒ سے منسوب ہے۔ تاہم اس حکایت کے بیان کا مدعا اور مقصود یہ ہے کہ مصلحتا اور نیک نیتی کے ساتھ کسی برائی اور بڑے فساد کو روکنے کے لیے جھوٹ بولا جاسکتا ہے، لیکن پیشِ نظر کوئی اعلیٰ و ارفع مقصد ہو تو اسے معاملہ فہمی اور تدبیر کہا جاسکتا ہے، ورنہ جھوٹ اور دروغ گوئی بدترین فعل ہی ہے۔