Tag: شیخ سعدی کی حکایت

  • آدمی کا مرتبہ

    آدمی کا مرتبہ

    ایک بادشاہ کے کئی بیٹے تھے۔ اُن میں ایک کوتاہ قد اور معمولی شکل و صورت کا تھا اور اس وجہ سے اسے اپنے باپ کی ویسی توجہ اور شفقت حاصل نہ تھی جیسی اس کے دوسرے بھائیوں کو حاصل تھی۔

    ایک دن بادشاہ نے اس پر نظرِ حقارت ڈالی تو شہزادے کا دل بے قرار ہو گیا۔ اس نے اپنے باپ سے کہا۔ بے شک انسان کی شکل صورت بھی لائقِ توجہ ہوتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ انسانیت کا اصلی جوہر انسان کی ذاتی خوبیاں اور حسنِ سیرت ہے۔

    آدمیت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
    پست ہمّت یہ نہ ہو گو پست قامت ہو تو ہو

    اے والد محترم، حقیر جان کر مجھے نظر انداز نہ فرمائیے بلکہ میری ان خوبیوں پر نظر ڈالیے جو اللہ پاک نے مجھے بخشی ہیں۔ اپنے بھائیوں کے مقابلے میں بیشک میں کم رو اور پست قامت ہوں، لیکن خدا نے اپنے خاص فضل سے مجھے شجاعت کا جوہر بخشا ہے۔ دشمن مقابلے پر آئے تو اس پر شیر کی طرح جھپٹتا ہوں اور اس وقت تک میدانِ جنگ سے باہر قدم نہیں نکالتا جب تک دشمن کو بالکل تباہ نہ کر دوں۔

    بادشاہ نے اپنے بیٹے کی ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ وہ یوں مسکرایا جیسے کسی نادان کی بات سن کر مسکراتے ہیں۔ اس کے بھائیوں نے کھلم کھلا اس کا مذاق اڑایا۔

    خیر بات آئی گئی۔ یہ شہزادہ پہلے کی طرح زندگی گزارتا رہا۔ لیکن پھر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ طاقت ور پڑوسی بادشاہ نے اس کے ملک پر حملہ کر دیا۔ عیش و عشرت میں زندگی گزارنے والے شہزادے تو اس فکر میں پڑ گئے کہ اب ان کی جانیں کس طرح بچیں گی۔ لیکن چھوٹے قد والا شہزادہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر دشمن کے لشکر میں جا گھسا اور اپنی تیز تلوار سے کتنے ہی سپاہیوں کو قتل کر دیا۔ بادشاہ کو اس کی شجاعت کا حال معلوم ہوا تو اس کا بھی حوصلہ بڑھا اور وہ مقابلے کے لیے نکلا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حملہ کرنے والے بادشاہ کے سپاہیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ گھمسان کی لڑائی شروع ہونے کے بعد دشمن کا دباؤ بڑھنے لگا اور بادشاہ کی فوج کے سپاہی اپنی صفیں توڑ کر بھاگنے لگے شہزادے نے یہ حالت دیکھی تو وہ گھوڑا بڑھا کر آگے آیا اور بھاگنے والوں کو غیرت دلائی بہادرو! ہمت سے کام لو دشمن کا خاتمہ کر دو۔ یاد رکھو! میدان جنگ سے بھاگنے والے مرد کہلانے کے حق دار نہیں۔ انھیں عورتوں کا لباس پہن کر گھروں میں بیٹھ جانا چاہیے۔”

    شہزادے کی تقریر سن کر بھاگتے ہوئے سپاہی پلٹ آئے اور غصے میں بھر کر انھوں نے ایسا زور دار حملہ کیا کہ دشمن فوج میدان جنگ سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئی۔ بادشاہ اپنے بیٹے کی بہادری دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اس کی خوب تعریف کی اور اعلان کر دیا کہ ہمارے بعد ہمارا یہی بیٹا تاج اور تخت کا ملک ہو گا۔ شہزادے کے دلی عہد بن جانے کی سب کو خوشی ہوئی لیکن اس کے بھائی حسدکی آگ میں جلنے لگے۔ اور انھوں نے اس کی زندگی کا خاتمہ کر دینے کا فیصلہ کر لیا۔

    یہ فیصلہ کرنے کے بعد انھوں نے بہادر شہزادے کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا۔ اتفاق سے یہ بات شہزادی کو معلوم ہو گئی۔ جب شہزادہ کھانا کھانے لگا تو شہزادی نے زور سے کھڑکی بند کر کے یہ اشارہ دیا کہ یہ کھانا ہرگز نہ کھائے۔ شہزادہ اس کا اشارہ سمجھ گیا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور اپنے حاسد بھائیوں سے کہا، مجھے یہ عزت میری خوبیوں کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ اگر میں مر بھی جاؤں تو تم میری جگہ نہ لے سکو گے کیونکہ تمھارے اندر کوئی بھلائی نہیں۔ اگر ہما دنیا سے نابود بھی ہو جائے پھر بھی کوئی الّو کے سائے کو پسند نہ کرے گا۔

    بادشاہ کو اس بات پتا چلا تو اس نے حاسد شہزادوں کو بہت ڈانٹا اور پھر اس فساد کو ختم کرنے کے لیے، جو سلطنت کی وجہ سے ان بھائیوں کے درمیان پیدا ہو گیا تھا، یہ تدبیر کی کہ ریاست کو ان کی تعداد کے مطابق تقسیم کرکے شہزادوں کو ایک ایک ریاست کا مالک بنا دیا۔ بہادر شہزادے نے اس فیصلے کو دل سے قبول کر لیا۔

    (از قدیم حکایات، مترجم نامعلوم)

  • فقیہ کی دستار اور چور

    فقیہ کی دستار اور چور

    ایک دفعہ کسی فقیہ نے کپڑے کی بہت سے چندیاں دھوئیں اور پاک صاف کرکے انہیں اپنے سَر پر عمامے کے نیچے اس طرح‌ باندھ لیا کہ اس کا عمامہ بلند اور وزنی دکھائی دے اور لوگ سمجھیں کہ بڑا عالم فاضل ہے جس کے سَر پر ایسی بھاری دستار سجی ہوئی ہے۔

    بلاشبہ ان حقیر اور بے قیمت دھجیوں سے دستار کا وزن دگنا تگنا ضرور ہوگیا، لیکن قلبِ منافق کی طرح وہ اندر سے پست، کم حیثیت اور بے قیمت ہی تھی۔ دراصل فقیروں کی گدڑیوں کے ٹکڑے، بوسیدہ اور سڑی ہوئی روئی اور پوستین کی دھجیاں اس عمامے کی بنیاد تھیں۔

    وہ فقیہ یہ وزنی عمامہ سَر پر باندھ کر اگلے روز صبح سویرے ایک مدرسے کی طرف چلا۔ وہ خیال کررہا تھا کہ وہاں اس کی یہ اونچی اور سجیلی دستار اس کی عزت و عظمت کا ایک سبب بنے گی۔ وہ سمجھ رہا تھاکہ عزّت اور تکریم ہی نہیں کچھ ہدیہ بھی اپنی جانب متوجہ ہونے والوں سے حاصل کر سکے گا۔

    راستے میں‌ ایک چور نے تاڑ لیا کہ ایک قیمتی دستار والا چلا آرہا ہے۔ جوں ہی وہ فقیہ نزدیک آیا چور نے دستار جھپٹ لی اور بھاگا تاکہ اسے بازار میں بیچ کر ٹکے کھرے کرے۔

    فقیہ نے اُسے آواز دی کہ ارے بھائی! یہ دستار کدھر لیے جاتا ہے اور کس دھوکے میں ہے؟ ذرا اسے کھول کر بھی دیکھ لے اس کے بعد جی چاہے تو بڑے شوق سے لے جا۔ میں نے تجھے عطا کی۔

    فقیہ کی یہ آواز سن کر اُچکے نے دوڑتے دوڑتے اس وزنی دستار کو کھولا اور ایک جگہ سے اس کی سلائی ادھیڑ دی۔ اس میں سے رنگ برنگی کپڑوں کی دھجیاں نکل نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ یہاں تک کہ اس کے ہاتھ میں بوسیدہ کپڑا رہ گیا جسے جھّلا کر زمین پر پھینکا اور رک کر کہنے لگا۔

    اے غریب اور فریبی انسان! تُو نے اس دغا بازی سے خواہ مخواہ میری محنت برباد کی۔ یہ کیسا فریب دیا تُو نے کہ ظاہر میں ایسی عمدہ دستار بنائی جس نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں‌ تیرے سر سے کھینچ لوں اور بازار میں بیچ کر مال بناؤں؟ تجھے ذرا حیا نہ آئی ایسا مکر کرتے ہوئے۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ بیٹھے بٹھائے ایک گناہ کیا اور وہ بھی بے لذّت۔

    فقیہ نے اس کی بات سن لی تھی۔ اس نے چور کو جواب دیا، تُو سچ کہتا ہے کہ بے شک یہ دھوکا تھا، لیکن یہ سوچ کہ بطور نصیحت تجھے آگاہ بھی کردیا کہ لے جانے سے پہلے اسے کھول کر دیکھ لے۔ اب مجھے لعنت ملامت کرنے سے فائدہ؟ کچھ میرا قصور ہو تو بتا۔ اس لٹیرے نے فقیہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    سبق: اے عزیز! فقیہ کی اس وزنی اور بظاہر قیمتی دستار کی طرح یہ دنیا بھی بڑی بھاری اور بیش قیمت نظر آتی ہے مگر اس کے اندر جو عیب پوشیدہ ہے اس کا بھی اس نے سب پر اظہار کر دیا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔