"اِک چپ، سو دکھ” کے افسانوں کو پڑھ کر پہلی خوشی تو یہ ہوئی کہ افسانے سردرد کا باعث نہیں بنے، اردو کے کچھ جدید افسانہ نگاروں کا یہ چلن عام ہے کہ وہ حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ قاری کو افسانہ سمجھ نہ آئے، دماغ کا دہی بن جائے، قاری سر پر ڈوپٹہ باندھ، صبح شام سر درد کی گولیاں نگلتا رہے، لیکن "عظیم ترین علامتی افسانے” کی کہانی پن (اگر موجود ہو) تک اُس کی رسائی نہ ہونے پائے اور بالآخر تھک ہار، وہ افسانے کے خالق کو کافکا اور بورخیس کا استاد ماننے پر مجبور ہوجائے۔
صاحب کتاب آدم شیر
اردو علامتی کہانیوں کے بادشاہ نیر مسعود نے کہا تھا: "علامت افسانے میں اتنی ہی قوت پیدا کرسکتی ہے، جتنی شاعری میں، بہ شرطے کہ علامتی مفہوم سے قطع نظر کرکے بھی افسانہ اپنی جگہ قائم رہے۔ ہیمنگوے کے طویل افسانے "بوڑھا اور سمندر ” میں اگر سمندر سے محض سمندر، مچھلیوں سے محض مچھلیاں اور ماہی گیر سے محض ماہی گیر مراد لیا جائے، تو بھی یہ ایک مضبوط اور قائم بالذات افسانہ ہوگا۔”
آگے وہ لکھتے ہیں: "لیکن اگر علامتیں اسی طرح برتی جانے لگیں کہ انہیں سمجھے اور علامت مانے بغیر افسانہ نہ بن سکے، تو علامتی افسانہ کسی ناکام تجریدی افسانے کی طرح اذیت دے گا۔”
نیر مسعود کا خدشہ ایک بھیانک خواب بن کر اردو قارئین کے سر پر نازل ہوا اور اردو قاری کو ایسے ایسے "علامتی افسانوں” سے جھوجھنا پڑا، جس میں سے اگر علامت کو نکالا جائے، تو افسانے میں صرف رموز واوقاف کے نشانات اور افسانہ نگار کی کمپوزنگ غلطیاں ہی رہ جاتی ہیں۔
آدم شیر میں اگرچہ علامتی افسانوں کی ہڑک نہیں، لیکن "کھلے پنجرے کا قیدی” ایک معیاری علامتی افسانہ شمار کیا جاسکتا ہے۔ محدب عدسہ لے کر علامت تلاش نہ کرنے کے باوجود بھی افسانہ پڑھنے والے کو مایوسی کی کھائی میں نہیں دھکیلتا۔
آدم شیر اپنے افسانوں میں کائنات کے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کا داعی نہیں ہے، اُسے اپنے پاؤں زمین پر ٹکائے رکھنا پسند ہے
آدم شیر اپنے افسانوں میں کائنات کے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کا داعی نہیں ہے، اُسے اپنے پاؤں زمین پر ٹکائے رکھنا پسند ہے، بلکہ وہ اپنے ہم عمروں کے رنگین مسائل سے زیادہ ان نوخیز کلیوں کے لئے زیادہ مضطرب ہے، جو معاشرے کی سفاکی کا اپنے ناتواں وجود کے ساتھ بے جگری سے مقابلہ کرتے ہیں۔ منٹو کی طرح اُس کے کردار بھی جیتے جاگتے اور چلتے پھرتے معاشرے سے برآمد ہوتے ہیں اور اسے ان کی تلاش میں ٹمبکٹو اور موغادیشو کی آب وہوا بیان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
"دبدھا”، "ایک چپ سو دکھ” اور”دس ضرب برابر دو صفر” میں بچوں کے لئے درمندی اور ہمدردی کا احساس ہمیں عروج پر نظر آتا ہے، آدم شیر کا رویہ بچوں کے بابت بلاامتیاز احساس ذمے داری کا نظر آتا ہے۔ بچے گھر کے ہوں یا سڑک پر، نرم بستر پر ہوں یا کچرے کے ڈھیر میں، مصنف کا انسانی ہمدری پر مبنی رویہ ہرجگہ نظر آتا ہے۔ ہمدردی اور درد مندی کی ایک لہر اپنی پوری قوت کے ساتھ کہانی کے بین السطور چلتی رہتی ہے۔ معذور بچوں کی بے کسی اور تیسری جنس کی معاشی بدحالی بھی مصنف کی دردمندی کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی اور”غیر دلچسپ کہانی”اور "انسان نما” میں جابجا بکھری نظر آتی ہے۔
تبصرہ نگار: شیخ نوید
افسانوی مجموعے میں جس افسانے نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ "ہیولا” ہے، اگرچہ موضوع نیا نہیں، والدین کے سامنے بچے کی موت پر کئی ادیبوں نے خامہ فرسائی کی ہے، منٹو کا لکھا افسانہ آج بھی دوبارہ پڑھنے کی ہمت نہیں جُٹا پاتا جبکہ امریکی ادیب ریمنڈ کاروَر نے "زندگی” کے نام سے اِس موضوع کو ایک نئی جہت عطا کی تھی۔
منٹو کا افسانہ پڑھنے کے بعد قاری ایک بند گلی میں داخل ہوجاتا ہے، موت اپنی پوری سفاکی اور دہشت کے ساتھ اُس کے وجود کو ہلا کررکھ دیتی ہے۔ ریمنڈ کاروَر کی کہانی موت کی شکست کا اعلان کرتی ہے اور ہمارے سامنے یہ وجودی سچائی منکشف کرتی ہے کی زندگی کا پہیہ موت کے کاروبار کے باوجود پوری آب وتاب سے چلتا رہتا ہے۔
آدم شیر اِس موضوع میں نئی بات نکالنے میں کامیاب رہا، ماں باپ مرتے بچے کے لئے موت کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں، وہ اپنی دانست میں موت کو شکست بھی دے دیتے ہیں، لیکن وینٹی لیٹر کے ہاتھوں ہار جاتے ہیں اور اُسی کو اپنے جگر کے ٹکڑے کی موت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ افسانے کی حیران کن اور فرحت انگیز شے اُس کی نثر ہے، رواں دواں اور سلاست سے بھرپری نثر ابتداء سے ہی قاری کو اپنی گرفت میں جکڑ کر آخر تک لے جاتی ہے۔
مجھے امید ہے آدم شیر مزید شان دار اور یادگار افسانے لکھے گا، لیکن میری نظر میں یہ افسانہ آدم شیر کے تعارف کا ذریعہ رہے گا اور میں اُسے "ہیولا کا افسانہ نگار” ہی یاد رکھوں گا۔
میرے پسندیدہ ادیب گیبریئل گارسیا مارکیز نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نوبیل انعام کے حصول کے بعد جب ان کی شہرت کو پر لگ گئے تو ان کے لیے نئے دوستوں کی تعداد گننا نا ممکن ہو گیا، مارکیز کے مطابق جہاں کچھ افراد منافقانہ خوشامد کے ساتھ ان کی شہرت سے اپنا حصہ لینے کے خواہش مند تھے وہیں کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو اتنے ہی مخلص تھے جتنا غربت اور مشکلات کے دور میں ساتھ دینے والا کوئی خلوص کا مارا ہم درد ساتھی ہوسکتا ہے، شہرت نے انھیں میرا اتا پتا بتایا اور وہ مجھ سے آ ملے، شہرت سے مخلص دوستوں کے ملنے کا یہ پہلو تعجب خیز اور دل فریب بھی ہے۔
حفیظ تبسم سے رابطے کا معاملہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہے لیکن یہاں ملاپ کا ذریعہ میری یا حفیظ کی شہرت نہیں بلکہ فیس بک کی ویب سائٹ تھی۔ صحیح طرح سے یاد نہیں، حفیظ نے شاید اپنے پسندیدہ ناولوں کی فہرست لگائی تھی اور دوستوں کو دعوت دی کہ وہ بھی اپنے ناولوں کی لسٹ بنائیں، حفیظ نے شاید میرے کسی دوست کو ٹیگ کیا ہوا تھا اس لیے اُس پوسٹ تک میں بھی پہنچ گیا، اس وقت دوچار تنقیدی کتابیں کچی پکی پڑھ کر میں ’’کلاسیکی تنقیدیت‘‘ کو اپنے جیب میں ڈالے گھوما کرتا تھا۔ جھٹ سے اپنی فہرست اس تیقن کے ساتھ لگائی کہ اس سے بہتر کوئی لسٹ روزِ قیامت تک وجود میں نہیں آ سکتی۔ حفیظ نے اعتراض کیا، میں نے جواب دیا، کچھ ایچ پیچ بھی ہوئی، میں نے حفیظ کی پروفائل پر جا کر سرسری جائزہ لیا تو ان کو صاحبِ کتاب پا کر مرعوب ہوگیا، وہ بھی تین کتابیں، میں نے پسپائی میں ہی عافیت سمجھی، دوسری مرتبہ کسی پوسٹ میں برادرم سید کاشف رضا کا کمنٹ پڑھا جس میں انھوں نے حفیظ تبسم کی شاعری سے نہایت مثبت توقعات کا اظہار کیا تھا۔ میں نے اسی روز انہیں فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی اور یوں ہماری دوستی کی بنیاد پڑی۔
حفیظ تبسم
حفیظ سے پہلی ملاقات آرٹس کونسل کراچی میں عالمی ادبی کانفرنس کے موقع پر ہوئی جب وہ عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام کے گھیرے میں آڈیٹوریم کے مرکزی دروازے کی سیڑھیوں پر ٹہلتے نظر آئے، عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام سے حلقہ ارباب ذوق کراچی کے اجلاسوں میں شناسائی ہوچکی تھی، حیرت کی بات یہ تھی کہ حفیظ تبسم کو پہچاننے میں بھی مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی، شاید اس کی وجہ ان کا اور میرے جثے کا متضاد ہونا تھا، مجھے اگر تین برابر حصوں میں کاٹا جائے تو ایک حصے کا وزن حفیظ تبسم سے تھوڑا زائد ہی نکل آئے گا، ایک بھاری جسم والا انسان سنگل پسلی کو ہمیشہ رشک کی نظروں سے دیکھتا ہے اور زیادہ نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ پھر اسے بھوک لگ جاتی ہے۔ رشک کے اسی جذبے نے اس کے منحنی سے وجود کو میرے دماغ میں نقش کردیا تھا۔
حفیظ تبسم نے جب اپنی کتاب ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ میرے حوالے کی تو انوکھے عنوان نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا، دشمنوں کی فہرست کا جائزہ لیا تو سرفہرست میرے جگری دوست رفاقت حیات، سید کاشف رضا، عاطف علیم، عطاء الرحمٰن خاکی اور پسندیدہ شخصیات میں افضال احمد سید، پابلو نیرودا، رسول حمزہ توف، نصیر احمد ناصر، ملالہ یوسف زئی، سید سبط حسن، سورین کرکیکارڈ، عذرا عباس اور انور سن رائے کی نام جگمگاتے نظر آئے، حفیظ نے منٹو کو بھی نہیں بخشا، فیشن کے مطابق تو منٹو کو گالی دینا مشرقی روایات کے عین مطابق ہے لیکن حفیظ نے دشمنی کے لیے منٹو کو کیوں چنا یہ فی الوقت واضح نہیں تھا۔
سب سے پہلے لفظ دشمن پر غور کیا، امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کا فقرہ یاد آیا کہ میری قدر و قیمت کا اندازہ میرے دشمنوں سے لگایا جائے، مطلب یہ کہ دشمن آپ کی طاقت یا کم زوی کا پیمانہ ہوتے ہیں، اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو حفیظ تبسم نے ایسے دشمن چنے ہیں جن کی تخلیقات لاکھوں افراد کی دھڑکنیں تیز کردیتے ہیں اور کروڑوں دلوں پر راج کرتے ہیں اور حتمی طور پر حفیظ تبسم کے فکری نشوونما اور شاعری کی رخ کو بھی متعین کرتے ہیں۔
دشمنوں کو ایک اور پہلو سے ممتاز بھارتی ادیب ارون دھتی رائے نے دیکھا ہے، ان کے بقول دشمن تمہارے حوصلے کبھی توڑ نہیں سکتے یہ کام صرف دوست سر انجام دیتے ہیں۔ اگر اس پہلو سے حفیظ تبسم کے دشمنوں کی لسٹ پر نظر دوڑائی جائے تو حفیظ کے حوصلوں کی بلندی قابل داد نظر آتی ہے۔ کس ماں نے ایسا بچہ کب جنا ہے جو منٹو کے حوصلوں کا مقابلہ کرے۔
میں نے لفظ دشمن کو کسی اور نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ عام فہم معنی میں میٹھی سی زندگی کے اندر کڑواہٹ گھولنے والوں کو دشمن کہا جاتا ہے، جسم کی طرح دماغ بھی آرام کا متلاشی رہتا ہے، دماغ کے لیے سوچنا ایک قسم کی مشقت ہے اور پسینہ بہانا (لغوی معنوں میں) کسے پسند ہے۔ دنیوی راحتوں اور رنگینیوں میں مست فرد کے دماغ کو سوچنے کی دعوت دینا سخت اذیت سے دوچار کرنا ہی کہلائے گا، بغیر کسی حتمی جواب کے سوالات اٹھانا کسی بھی پرسکون دماغ میں اتھل پتھل لانے کے لیے کافی ہے، حفیظ نے جو دشمنوں کی فہرست بنائی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو سوالات اٹھانے کا خطرناک فن جانتے ہیں۔
سنجیدہ ادب کے مقابلے میں پاپولر ادب کو اسی لیے عام قارئین پسند کرتے ہیں کہ اس میں اول تو کسی قسم کے سوالات اٹھائے ہی نہیں جاتے اور اگر غلطی سے ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ہلکے پھلکے سوالات خود بہ خود کھڑے بھی ہو جائیں تو مصنف کی جیب میں موجود آفاقی سچائیوں سے جوابات ڈھونڈ کر قاری کو مطمین کر دیا جاتا ہے اور سوالات ہمیشہ کے لیے لٹا دیے جاتے ہیں، ایک بے راہ رو ہمیشہ آسمانی عذاب کا شکار ہوتا ہے، گنہگار اپنے بد ترین انجام کو پہنچتا ہے، عظیم سپاہی ہمیشہ اپنے مشن میں کام یاب ہوتے ہیں اور آخر میں ہیرو ہیروئن عبادت میں مصروف ہوجاتے ہیں (نسیم حجازی کے ناولوں میں وہ گھوڑوں پر سوار ہوکر اپنے مزاج کے مطابق بحرِ ظلمات کے روٹ پر بھی نکل جاتے ہیں)۔
دماغ اسی وقت پریشان ہوتا ہے جب منٹو ایمان والوں کو ’’کھول دو‘‘ کی ننگی حقیقت سے دوچار کرتا ہے۔ جب وہ کوٹھے کے جہنم میں بھی جنتی وجود تلاش کرلیتا ہے اور چمڑی بیچنے والے سوداگروں میں انسانی جذبات کو باہر کھینچ نکال لاتا ہے۔
حفیظ تبسم کی نظموں کی سب سے بڑی خوبی جس نے مجھے از حد متاثر کیا وہ سریئلزم اور تجریدی تمثالوں کی فراوانی ہے، آپ ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ کا کوئی صفحہ بھی بلا ارادہ کھول لیں، سریئلزم کی جان دار تمثیلوں اور تشبیہوں سے دماغ کو عجیب سی فرحت کا احساس ملتا ہے، افضال احمد سید، احمد جاوید، احمد فواد اور سعید الدین سمیت ہمارے متعدد شعرا نے نثری نظموں میں جس کے قسم کے جدید سریئلزم تجربات کیے، حفیظ اسی راستے کو کام یابی کے ساتھ اپنے خوب صورت اور بے لگام تخیل سے مزید کشادہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
دوسری خوبی جو اس مجموعے کو منفرد بناتی ہے اور وہ منظومہ افراد کی تخلیقات کے عنوانات سے ان افراد کے کردار کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنے سارے تخلیقی حوالوں کے بعد ان کی نظم کی تفہیم مشکل ہوجاتی اور جب تک دشمنانِ منظومہ کی تمام تخلیقات کا مطالعہ نہ کرلیا جائے اسے سمجھنا مشکل ہوتا لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ حفیظ تبسم نے ان تخلیقات کے موضوعات اور عنوانات کو نظم کی کرافٹ میں اتنی سلیقہ مندی سے کھپایا ہے کہ وہ منظومہ فرد کی شخصیت کا حصہ معلوم ہوتے ہیں اور یہ ایک کارنامہ ہی ہے کہ حفیظ نے اپنے تخیل سے فن پارے کو اس کے فن کار کی ذات میں تحلیل کرکے اسے ایک نئی معنویت تک پہنچا دیا ہے۔
دوسرے پہلو سے جن افراد نے دشمنانِ منظومہ کی تخلیقات کا فرسٹ ہینڈ مطالعہ کر رکھا ہے ان کے لیے نظم کی قرأت منفرد سطح کا لطف پیدا کرتی ہے، ویسے بھی نظموں میں اس طرح کے اشارے رکھنے کی ایک مکمل تاریخ ہے، ٹی ایس ایلیٹ نے جب اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ شائع کی تو اسے بھی مشورہ دیا گیا کہ اس کے ساتھ اشارات اور علامات کی ایک شرح بھی شائع کی جائے۔ میرا خیال ہے حفیظ کو مجموعے کے آخر میں ایک اشاریہ مرتب کرنا چاہیے تاکہ ہم جیسے سہل طبیعت کے قاری بھی دشمنانِ منظومہ کی تخلیقی کارناموں سے واقف ہوسکیں اور ممکن ہے کہ جوش میں آکر کوئی قاری ان کی تخلیقات پڑھنے کا کارنامہ بھی سرانجام دے دے، معجزے کی توقع کسی بھی شخص سے رکھی جاسکتی ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو اردو ادب کا قاری کہتا ہو۔
حفیظ اپنے ’دشمنوں‘ کے صرف کردار کا جائزہ لینے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے لاشعوری احساس سے اپنے عصر کے منظر نامے کو بھی پینٹ کرتا ہے اور اُس میں ہر اس انوکھے رنگ کو ڈال دیتا ہے جس کی ضرورت اس کا عصری مسائل سے لاشعوری طور پر مزین تخیل اجازت دیتا ہے۔ سیاسی سفاکیت اور بے حسی، فکری انہدام کی گہری گھاٹیاں، علم دشمنی کی خیرہ کن چمک دمک، نفسیاتی بھول بھلیوں اور سماجی ناانصافی کے غیر عقلی رویوں کا بیان بھی ان کی نظموں میں زیریں سطح پر بہتا ہوا نظر آتا ہے اور کسی موقع پر سرئیلزم کے زبان میں نہایت کاٹ دار لہجہ اختیار کرلیتا ہے۔
اچھے اور معیاری ادب کی یہ خوبی مسلم ہے کہ وہ مانوس کو نامانوس بنا کرپیش کرتا ہے۔ دشمنانِ حفیظ بھی جانے پہچانے اور بہ ظاہر مانوس نظر آتے ہیں۔ منٹو کا نام سن کر ہر گنہگار کانوں کو ہاتھ لگانا فرض سمجھتا ہے، نیرودا کو بھی اسی قسم کے جنسی جذبات سے عاری قدسی صفات افراد کی مخالفت کا سامنا رہا، سبط حسن کی کتابیں آج بھی کئی افراد کی جبیبوں پر شکنیں ڈال دیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ملالہ یوسفزئی کو گالی دینا تو کچھ افراد کے نزدیک مذہبی رسومات میں داخل ہوچکا ہے اور ہر گالی کے ساتھ ان کے ایمانی درجے میں بڑھوتری ہوجاتی ہے۔
حفیظ کی نظموں میں یہ شخصیات ماوارئی کردار میں ڈھل جاتی ہیں۔ اور کردار حقیقی وجود رکھتے ہوئے بھی اتنے غیر حقیقی بن جاتے ہیں کہ چند لمحوں کے لیے فینٹیسی کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ حفیظ ان کے ادبی یا سماجی کارناموں کی علامات کو تجریدیت اور سرئیلزم کی سرحد کے پار ڈال کر انہیں ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے جہاں مکمل نامانوسیت کی فضا طاری رہتی اور قاری بھی اسی انوکھی اور ان دیکھی فضا میں خود کو تحلیل ہوتے پاتا ہے۔
کہیں پڑھا تھا کہ اگر امر ہونا چاہتے ہو تو کسی ادیب سے دوستی کرلو، حفیظ تبسم نے اپنے مجموعے ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ سے بھی اسی قسم کی کاوش کی، اُس نے اپنے’ دشمنوں‘ کو آب حیات کے رنگ سے تراشنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظمیہ خاکے ہمارے ادبی سفر کا ایک وقیع تجربہ ہیں جس کی معنویت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ خاکے ہماری زبان کے ادبی سفر کے روشن پڑاؤ ہیں جس کی روشنی راہ ادب کو مزید منور کرے گی۔
خوشی کی بات ہے کہ شاعری کے ساتھ حفیظ تبسم نے ایک ناول بھی لکھا ہے جو اشاعت سے قبل کے نظرثانی کے آخری مراحل پر ہے، مجھے امید ہے کہ اپنی شعری تخلیقات کی طرح وہ اپنے فکشن سے بھی اپنے استاد ساحر شفیق کی طرح افسانوی ادب میں نئی راہ نکالنے میں کام یاب رہیں گے۔ مجموعہ پڑھنے سے پہلے میں حفیظ کو اپنا دوست سمجھتا تھا لیکن اب، مجموعہ پڑھنے کے بعد، اُس کا نام میں نے اپنے دشمنوں کی سنہری فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ روک سکو تو روک لو۔