Tag: شیریں جناح

  • شیریں جناح آئل ٹرمینل کے متاثرہ دکانداروں کا احتجاجی مظاہرہ

    شیریں جناح آئل ٹرمینل کے متاثرہ دکانداروں کا احتجاجی مظاہرہ

    کراچی : شیریں جناح آئل ٹرمینل پر پولیس کے ناروا سلوک کے خلاف دکاندار سڑک پر نکل آئے اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی، مظاہرین نے ہاتھوں میں احتجاجی بینر اٹھا رکھے تھے جن پر مطالبات درج تھے۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیریں جناح شاپ کیپر ویلفیئر سوسائٹی کے صدر منور حسین کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی جانب سے ٹرمینل منتقلی کا حکم نامہ آنے کے بعد سے پولیس نے ٹرمینل کے ساتھ واقع دکانداروں کو بھی پریشان کرنا شروع کردیا ہے۔

    کبھی سامان اٹھا کر لے جاتے ہیں کبھی دکان کھولنے ہی نہیں دیتے۔ آئل ٹرمینل منتقلی پر تحفظات کے حوالے سے کمشنر کراچی نے دو روز قبل اجلاس بلایا اس میں بھی دکانداروں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہمارے ساتھ یہ غیروں والا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟

    ان کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس، وزیرِ بلدیات اور کمشنر کراچی آئل ٹرمینل منتقلی کے معاملات کو شفاف بنانے پر توجہ دیں اور پولیس اہلکاروں کی زیادتیوں کا نوٹس لیں۔

    اس موقع پر آل پاکستان آئل ٹینکرز اونرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری اطلاعات عبداللہ ہمدرد کا کہنا تھا کہ آئل ٹرمینل منتقلی کے معاملات کو شفاف بنایا جائے اور پولیس دکانداروں کو شفافیت کے ساتھ زمینیں الاٹ ہونے تک پریشان نہ کرے۔

  • وزیر مینشن: میں گاہِ گمشدہ ہوں مجھے یاد کیجئے

    آج ملک بھرمیں بانی ِ پاکستان محمد علی جناح کا 137 واں یوم ولادت منایاجارہا ہے، قائد اعظم 25 دسمبر 1876 کو اپنے گھر میں پیدا ہوئے، جسکا نام وزیر مینشن ہے اور وہ کراچی کے علاقے کھارادر میں واقعہ ہے۔

    قائد اعظم کے والد جناح پونجا آپکی ولادت سے تقریباً ایک سال قبل گجرات سےکراچی آکرآباد ہوئے ، وزیرمینشن کی پہلی منزل انہوں نے کرائے پر لی تھی انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال یہاں گزارے، قائد اعظم کے تمام بہن بھائیوں کی ولادت بھی اسی عمارت میں ہوئی۔

    سن 1953 میں حکومت پاکستان نے عمارت کو اسکے مالک سے خرید کر باقاعدہ قومی ورثے کا درجہ دیا گیا، اسکی  زیریں منزل کو ریڈنگ ہال میں اور پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا اور اسکے بعد اسے 14 اگست 1953 کو عوام کے لئے کھول دیا گیا۔

    ایک گیلری کا اضافہ اس وقت کیا گیا جب 1982 میں قائد اعظم کی ایک اور بہن شیریں جناح نے مزید کچھ نوادرات قائد اعظم ریلکس کمیشن کے حوالے کیں۔
     
    دو منزلوں پر مشتمل گیلریوں میں قائداعظم کا فرنیچر ، انکے کپڑے ، انکی اسٹیشنری ، انکی ذاتی ڈائری اور انکی دوسری بیوی رتی بائی کے استعمال کی اشیا کی نمائش کی گئی ہے۔ سب سے اہم اثاثہ جو  وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں وہ قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جنکی مدد سے وہ اپنے مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔  

    یہ عمارت 2003 سے 2010 تک تزئین و آرائش کے لئے بند رہی۔

    میوزم کے عملے میں سے ایک شخص نے بتایا کہ 1992میں جب نیلسن منڈیلا پاکستان تشریف لائے تو وہ یہاں بھی آئے تھے لیکن بدقسمتی سے مہمانوں کی کتاب جس میں انکے دستخط تھے وہ گم ہوچکی ہے۔

    قائد اعظم کے یوم ِ پیدائش پر انکی جائے ولادت پر آنے والوں کی نا ہونے کے برابر تعداد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں قائد اعظم اوران سے منسلک تمام چیزوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ قصہ ِ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔