Tag: شیر بانو معیز

  • کرونا: جینے کا انداز اور سماجی اطوار "تبدیلی” چاہتے ہیں!

    کرونا: جینے کا انداز اور سماجی اطوار "تبدیلی” چاہتے ہیں!

    تحریر: شیر بانو معیز

    دنیا بھر میں حکومتیں لاک ڈاؤن کی مدت میں اضافہ کرنے پر مجبور ہیں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے اس حوالے سے بہت احتیاط کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔

    کرونا کی وبا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں ٹیلیتھون کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس دوران وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے جن نکات کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ بہت اہم اور قابلِ غور ہیں۔
    ٕ
    وزیرِاعظم نے کرونا سے متعلق اور موجودہ صورتِ حال میں جو باتیں کی ہیں ان کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ لاک ڈاؤن ہو یا نہ ہو کرونا کے ساتھ جینے کی عادت ڈال لینی چاہیے۔ یہ بات صرف وزیراعظم عمران خان نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ دنیا کے بڑے بڑے اداروں کے سائنس داں اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کرونا کے بعد بھی حالات کچھ اسی قسم کے رہیں گے۔ کورنٹائن میں زندگی گزارنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس سے اگلے دو سال بعد بھی جان نہیں چھوٹے گی۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق دنیا کرونا کی ایک اور لہر کا سامنا کرسکتی ہے، لہذا سماجی دوری کو اگلے دو سال تک برقرار رکھنا ہو گا۔ عالمی ادارہ صحت بھی لاک ڈاؤن کو باقاعدہ حکمتِ عملی کے تحت ہی اٹھانے پر زور دے رہا ہے تاکہ شعبہ صحت پر بوجھ نہ پڑے اور زندگی بتدریج معمول پر آسکے۔ لیکن پاکستان کی بات کریں تو اس وقت لوگ ایک نئی کشمکش کا شکار ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ ڈاکٹر کی سنیں، حکومت کی یا علما کی۔ ڈاکٹروں اور علما کا مؤقف تو پھر بھی کچھ حد تک واضح ہے، لیکن وفاق اور صوبائی حکومتوں کے مابین اتفاق کا فقدان ہے۔

    ماہِ رمضان میں حکومتی ہدایات اور بیس نکاتی ایس او پیز کے تحت مساجد کھولی گئیں ہیں، لیکن معلوم نہیں کہ ان ایس او پیز پر عمل کون اور کیسے کرائے گا۔ یہی سوال جب وزیراعظم سے کیا گیا تو کچھ کہے بغیر سب کچھ کہہ گئے۔ ان کا کہنا تھاکہ خواہش تو یہی ہے کہ لوگ گھروں میں نماز پڑھیں، لیکن یہ قوم ماننے والی نہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق اب تک پچاس ہزار لوگوں کو تو کرونا ہو ہی جانا چاہیے تھا، لیکن لاک ڈاؤن کے باعث بچت ہوگئی۔ لہذا اٹلی جیسی صورتِ حال پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ڈاکٹروں نے گویا حکومتِ سندھ کی پالیسی کی تائید کی، لیکن باقی صوبوں کا کیا، الغرض کس کی نہ سنیں، کس کی نہیں۔

    یہ جان لیں کہ اس وبا سے بچنے کا واحد راستہ ہے احتیاط۔ صرف حکومت، ڈاکٹر اور علما اس سے اُس وقت تک نہیں بچا سکتے جب تک انفرادی سطح پر احتیاط لازم نہ کر لی جائے۔ گھر سے زیادہ کوئی مقام محفوظ نہیں جہاں سماجی دوری ممکن ہو، چاہے وہ عبادت گاہ ہو یا اسپتال۔ بلا ضرورت کہیں بھی جانے سے گریز کریں۔ نزلہ زکام جسے پہلے ہم نظر انداز کر دیتے تھے، اب نہیں کرسکتے۔ نزلہ زکام اور سانس سے متعلق طبی مسئلے کی علامات ظاہر ہوں تو ڈاکٹر سے آن لائن ڈاکٹر رجوع کریں اور دوا لیں۔ اس حوالے سے مختلف ذرایع سے معلومات اور آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن صرف اس سے بات نہیں بنے گی بلکہ احتیاط اور ہدایات پر عمل کر کے ہی محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

  • ٹریکٹر پالیسی زیادہ خطرناک ہے یا کورونا؟

    ٹریکٹر پالیسی زیادہ خطرناک ہے یا کورونا؟

    تحریر: شیر بانو معیز

    اٹلی میں چوبیس گھنٹے میں ڈیڑھ سو سے زائد ہلاکتیں، امریکا میں کورونا کے کیسز چین سے زیادہ، ایران میں لوگ سڑکوں پر جان دے رہے ہیں اور دنیا دو مراحل میں اس وائرس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

    پہلی سماجی دوری اور سیلف آئسولیشن اور دوسری لاک ڈاؤن۔

    اس وائرس سے شدید متاثر یورپ میں ایک ملک نے منفرد حکمتِ عملی اپنائی ہے، لیکن افراتفری کے اس عالم میں اس کا ذکر نہیں ہورہا۔ بات ہو رہی ہے بیلاروس کی جس کے صدر نے اس وبا سے لڑنے کے لیے ٹریکٹر تھراپی کا نعرہ لگایا، جسے بالکل اسی طرح تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے جس طرح وزیرِاعظم پاکستان عمران خان کے الفاظ "گھبرانا نہیں” کا لوگوں پر تاثر ہے۔

    بیلا روس یورپ کا وہ واحد ملک ہے جہاں کورونا کا کوئی خوف نہیں، زندگی رواں دواں ہے، تعلیمی ادارے کھلے ہیں، فٹبال میچ ہورہے ہیں اور دوسری تمام سرگرمیاں جاری ہیں۔

    بیلاروس کے صدر الیگزینڈر نے اعلان کیا تھاکہ جب تک کھیتوں میں ٹریکٹر چلتے رہیں گے، کورونا کا مقابلہ کیا جاسکے گا، لہذا وائرس سے متعلق کم سنیں اور کھیتوں میں بیج بونے پر دھیان دیں۔

    صدر کا اصرار ہے کہ افواہیں، خوف اور دہشت وائرس سے زیادہ خطرناک ہے۔ اسی لیے انہوں نے ملک کی خفیہ ایجنسی کو ہدایت کر رکھی ہے کہ کورونا سے متعلق افواہیں پھیلانے والوں کی کڑی نگرانی کی جائے۔

    بیلاروس کا شمار دنیا کی 72 ویں بہترین معیشت میں ہوتا ہے۔ صدر الیگزینڈر کے مطابق واقعات ہوتے رہتے ہیں، خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔

    انتہا تو یہ ہے کہ نہ صرف اپوزیشن نے صدر کے فیصلے پر اتفاق کیا بلکہ ایک کارکن نے تو یہ بھی کہا کہ پاگل پن کی صورت حال میں خاموش نہیں رہ سکتے۔ کارکن کے نزدیک دنیا بھر میں اس حوالے سے اقدامات مثلآ کرفیو اور لاک ڈاؤن پاگل پن ہیں۔

    بیلاروس میں لاک ڈاؤن تو دور کی بات سفری پابندی بھی نہیں لگائی گئی۔ اب اسے خود کشی کہا جائے یا بہادری یہ تو وقت بتائے گا۔ اس وقت وہاں سو کے قریب کورونا کے مریض ہیں، دو کی جان جا چکی ہے، لیکن زندگی معمول پر ہے اور ہر قسم کی اشیا سے بازار بھرے ہوئے ہیں۔ اگر بات کی جائے ماسک اور سینیٹائرز کی تو وہاں اس کی بھی قلت نہیں ہے اور کسی نے کچھ بھی ذخیر نہیں کیا ہے۔

    وبا کے عالم میں بیلاروس کا یہ بے خوف انداز اور رویہ اس خوف کو مات دینے کی کوشش کررہا ہے جو وبا سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک ہے۔

    بیلاروس کے صدر کی ٹریکٹر پالیسی کا دوسرا نام ہے، "گھبرانا نہیں۔۔۔”