Tag: شیر

  • امبل میرو کا پُراسرار بھوت

    امبل میرو کا پُراسرار بھوت

    یہ واقعہ میری طویل شکاری زندگی کے اُن عجیب اور لرزہ خیز واقعات میں سے ہے جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس واقعے کی صحیح پوزیشن سمجھنے کے لیے آپ کو آندھرا پردیش کے جنگلوں میں جانا پڑے گا۔

    ضلع چتّوڑ میں بھاکر پت، چمالا اور مامندر کے تینوں جنگل قریب قریب واقع ہیں۔ ان کے کناروں پر بہت سے گاؤں اور بستیاں آباد ہیں۔ یہ جنگل اپنے قدرتی مناظر کے اعتبار سے جتنے حسین ہیں، اس سے کہیں زیادہ خطرناک بھی ہیں۔ درندوں کے علاوہ یہاں ریچھ بھی پائے جاتے ہیں۔

    ایک روز ہمارے چیتے کا پالتو بچّہ اچانک مَر گیا۔ میری بیوی نے اُسے بڑے شوق سے پالا تھا۔ بچّے کی موت سے میری بیوی کو سخت صدمہ پہنچا، لیکن میں نے کہا، فکر نہ کرو۔ ایک دو روز تک جنگل سے دوسرا بچّہ پکڑ لاؤں گا۔ چنانچہ آندھرا پردیش کے گنجان اور سیکڑوں میل میں پھیلے ہوئے جنگلوں میں میرے آنے کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس موسم میں مادہ اکثر بچّے دیتی ہے، اس لیے میرا خیال تھا کہ معمولی سی تلاش کے بعد کوئی بچّہ پکڑنے میں کام یاب ہو جاؤں گا اور بندوق چلائے بغیر یہاں سے چل دوں گا، لیکن کئی دن گزر گئے، بیس بیس میل جنگل میں پھرنے کے باوجود گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔

    ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ رنگام پت کا ایک شخص تھانڈا جو گزشتہ دو ہفتوں سے غائب تھا، اس کی ہڈیاں مِل گئی ہیں۔ یہ شخص اردگرد کے دیہات میں جنگلی بوٹیاں بیچتا اور جادو ٹونا بھی کرتا تھا۔ اس کے غائب ہونے سے بھوت پریت کے قائل دیہاتیوں نے قیاس کیا کہ تھانڈا کو کسی بھوت نے مار ڈالا ہے۔ تھانڈا کا تھیلا اور سامان فارسٹ گارڈوں نے ایک پہاڑی چشمے کے عقب میں پڑا پایا تھا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اس کی ہڈّیاں اور گلا سڑا گوشت بھی مَل گیا۔ پولیس کی رسمی تفتیش کے بعد یہ معاملہ ختم ہو گیا۔

    میں اسی وقت سمجھ گیا کہ ان آبادیوں پر بَلا نازل ہوا ہی چاہتی ہے، کوئی آدم خور درندہ اِدھر آ نکلا ہے۔ اگلے ہی روز سہ پہر کے وقت پولی بونو کے مقام پر ایک عجیب حادثہ پیش آیا۔ پولی بونو گاؤں، رنگام پت سے کوئی سات میل دُور تھا۔ جنگل میں سات بیل گاڑیاں گزر رہی تھیں، جب وہ نرشیا کے قریب پہنچیں، جہاں سڑک سے کوئی دو فرلانگ ہٹ کر ایک قدرتی تالاب تھا، تو گاڑی بانوں نے تالاب میں نہانے کا پروگرام بنایا۔ تھوڑی دیر بعد نہانے کے بعد وہ تالاب سے باہر نکلے، لیکن جب وہ گاڑیوں پر بیٹھے، تو دفعتاً انہیں احساس ہوا کہ ان کا ایک ساتھی غائب اور تعداد میں سات کے بجائے وہ چھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے سوچا شاید پُتّو رفع حاجت کے لیے کہیں رُک گیا ہے، وہ دیر تک انتظار کرتے رہے۔ لیکن وہ نہ پلٹا، تو انہیں سخت تشویش ہوئی۔ وہ دوبارہ گاڑیوں سے اُترے اور اِدھر اُدھر پھیل کر اپنے ساتھی کو آوازیں دینے لگے۔ کوئی جواب نہ ملا۔ تالاب پر دوبارہ جانے کی ہمّت کسی میں نہ تھی۔

    وہ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ پُتّو کو کسی بَدروح نے پکڑ لیا ہوگا، ناگ دیوتا نے ڈس لیا ہے اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ اسے کسی شیر یا چیتے یا ریچھ ہی نے مار ڈالا ہو۔ مایوس ہو کر انہوں نے پُتّو کی بیل گاڑی وہیں چھوڑی اور اپنی اپنی گاڑیاں تیز دوڑاتے ہوئے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔

    پُتّو کے بیل اپنے مالک کی راہ تکتے رہے۔ آدھی رات کو جب اوس پڑنے لگی، تو بیل سردی سے کانپنے لگے اور اپنے مالک کا خیال چھوڑ کر وہ بھی گاؤں کی طرف چل پڑے۔ اور صبح چار بجے وہ پُتّو کے گھر تک پہنچ گئے۔

    اس روز گاؤں والے دن بھر جنگل میں پھر کر پُتّو کی تلاش کرتے رہے۔ مگر بے سود۔ پُتّو کی پراسرار گم شدگی پر قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ دو دن بعد پھر ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔ اس مرتبہ گاؤں کا ایک بنیا غائب ہوا، وہ رنگام پت سے تیرہ میل دُور ایک دوسرے گاؤں میں اناج اور ضرورت کا دوسرا سامان لے کر جا رہا تھا۔ اس نے سامان گدھوں لاد رکھا تھا۔ پولی بونو کے مقام پر اس نے کھانا کھایا اور آگے چل پڑا۔ ساتویں میل پر جنگل میں بانس کاٹنے والے ایک لکڑہارے نے اسے کنوئیں میں سے پانی نکال کر پلایا، اس کے بعد بنیے کو دوبارہ کسی نے نہ دیکھا۔ اس کے گدھے جنگل میں بھٹکتے ہوئے پائے گئے۔ سامان بدستور ان کی پشت پر لدا ہوا تھا۔

    چوتھے روز پولی بونو کا وہ لکڑ ہارا بھی غائب ہو گیا جس نے بنیے کو پانی پلایا تھا۔ تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ البتّہ ایک درخت کے قریب اس کی کلہاڑی اور سفید پگڑی پڑی مل گئی۔

    اس قسم کے پُراسرار واقعات پے درپے رونما ہوئے۔ تو بھاکر پت،چمالا اور مامندر کی آبادیوں میں سنسنی پھیل گئی اور لوگ اعلانیہ کہنے لگے کہ یہ کسی درندے کا کام نہیں، بلکہ کوئی بھوت ہے جو انسانوں کی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ درندہ اگر ایسی حرکت کرتا، تو اس کے پنجوں کے نشان، خون کے دھبّے یا کھائی ہوئی لاش کے کچھ حصّے تو ملتے۔ مگر ان میں سے کوئی نشان نہ پایا گیا۔ لوگوں نے گاؤں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اکیلا دُکیلا آدمی تو جنگل کا رُخ کرنے کی جرأت ہی نہ کرتا تھا۔

    یہ صورتِ حال محکمۂ جنگلات کے لیے بڑی نازک تھی۔ افسروں نے پولیس کو خبردار کیا، پولیس کے کچھ آدمی آئے، انہوں نے بھی جنگل کا کونا کونا چھان مارا، مگر معمولی سا سراغ بھی نہ مِل سکا۔ بستیوں کے وہ لوگ جن کا گزارہ ہی جادو ٹونے پر تھا، بے چارے دیہاتیوں کو مسلسل ڈرا رہے تھے کہ اگر اتنا روپیہ دان نہ کیا گیا، اتنی بکریوں کا بلیدان نہ کیا گیا، اتنی شراب نہ پیش کی گئی، تو یہ نادیدہ بلا ایک ایک کر کے سب کو ہڑپ کر جائے گی۔ ایک جادُوگر نے تو یہاں تک کہا کہ گاؤں والے کسی بچّے کی قربانی دے دیں تو یہ بلا ٹل جائے گی۔ میں نے پولیس کے دفعدار سے کہا کہ اس منحوس جادوگر کو حوالات میں بند کیا جائے اور اگر گاؤں کا کوئی بچّہ گم ہو، تو کرشناپا (جادوگر) کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے، لیکن پولیس نے میرے مشورے پر عمل نہ کیا۔ آخر جس بات کا مجھے کھٹکا تھا، وہ ہو کر رہی، چند روز بعد چندرا گری کے مقام پر نو سال کا ایک اچھوت لڑکا گُم ہو گیا۔

    بچّے کی گمشدگی پر ماں دیوانی ہو گئی اور اسے کئی روز تک تلاش کرتی پھری۔ آخر یہ معاملہ پولیس کے علم میں لایا گیا۔ سب انسپکٹر نے سب سے پہلے کرشناپا جادوگر کے مکان کی تلاشی لی، لیکن پوری چھان بین کرنے کے باوجود لڑکے کا کوئی پتا نشان نہ ملا۔ پولیس انسپکٹر کو کرشناپا پر بہرحال شک تھا، اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ واردات میں اس بدمعاش کا ضرور ہاتھ ہے۔ چنانچہ وہ اسے ہتھکڑی لگا کر چوکی پر لے گیا، مگر جادوگر نے کچھ نہ اگلا۔ مایوس ہو کر کرشناپا کو چھوڑ دیا، لیکن اس تاکید کے ساتھ کہ وہ پولیس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہیں جائے گا۔ کرشناپا جادوگر نے چوکی سے نکلتے ہوئے پولیس انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:

    ‘لومڑی خواہ کتنی چالاک ہو، مگر گیدڑ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔’ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور انسپکٹر کئی دن تک سوچتا رہا کہ ان الفاظ کا آخر مطلب کیا ہے۔

    اگلے روز رنگام پت اور پولی بونو کے درمیانی علاقے کی رہنے والی ایک عورت غائب ہو گئی۔ اس کا خاوند صبح سویرے مویشیوں کو چرانے جنگل میں گیا۔ دوپہر کو اس عورت نے خاوند کے لیے روٹی تیار کی اور ایک برساتی نالے کے کنارے کنارے چلتی ہوئی پیپل کے ایک درخت تک جا پہنچی۔ پیپل کے بڑے درخت سے آدھ میل دُور مٹّی کے برتن ٹوٹے پائے گئے جن میں وہ روٹی لے کر گئی تھی، لیکن خود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔

    میں ان دنوں اپنے ایک ہندو دوست ویوا کے ساتھ ناگا پٹلا کے فارسٹ بنگلے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ان تمام واقعات کی اطلاع مجھے بنگلے کے چوکیدار سے ملتی رہتی تھی۔ ایک رات چوکیدار ہمارے پاس بیٹھا حسبِ معمول گاؤں والوں کے قصّے بیان کرتا رہا تھا کہ دریا کی طرف سے چیتے کے گرجنے کی آواز سنائی دی۔

    ‘صاحب، یہ چیتا بول رہا ہے۔’ چوکیدار نے سہم کر کہا۔ ‘ہاں ہمیں معلوم ہے۔ خاموش رہو۔’ ریوا نے اسے ڈانٹ دیا: ‘جاؤ، اپنی کوٹھڑی میں…’

    چوکیدار کے جانے کے بعد میں نے دیوا سے کہا: ‘چیتے کی آواز سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت سخت بھوکا ہے اور کسی شکار کی تلاش میں گھوم رہا ہے۔’ دیوا کے چہرے پر دہشت کی علامات نمودار ہوئیں۔ اس نے بنگلے کی چار دیواری کا جائزہ لیا اور بولا: چیتا ان دیواروں کو آسانی سے پھلانگ کر اندر آ سکتا ہے، ہمیں آج اندر کمرے میں سونا چاہیے۔’

    ہمارے بستر اندرونی کمرے میں بچھا دیے گئے۔ چیتا معمولی معمولی وقفوں کے بعد آدھی رات تک بولتا رہا۔ کمرے کے اندر حبس بہت تھا اور چوہے مسلسل پریشان کر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک موٹا سا چوہا چند لمحے تک چُوں چُوں کرنے کے بعد یکایک خاموش ہو گیا۔ چوہے کی آواز میں ایسا کرب تھا کہ دیوا کہنے لگا:

    ‘یہ چوہا اس طرح کیوں چیخ رہا تھا؟’

    شاید کسی سانپ نے اُسے منہ میں دبوچ لیا ہے۔’ میں نے جواب میں کہا۔ دیوا سانپ سے بے حد ڈرتا تھا، وہ فوراً بستر سے اُٹھا: میں تو برآمدے میں جاتا ہوں۔ اَب مجھ سے یہاں سویا نہیں جائے گا۔’

    پَو پھٹنے سے کچھ دیر پہلے دفعتاً میری آنکھ کھلی۔ میری چھٹی حِس کسی انجانے خطرے کا اعلان کر رہی تھی۔ میں نے جلدی سے سرہانے رکھی ہوئی ٹارچ روشن کی اور رائفل اٹھا لی۔ دیوا بے خبر سو رہا تھا۔ معاً ایسی آواز آئی جیسے کوئی شخص دیوار کھرچ رہا ہے۔ میں نے روشنی اِدھر اُدھر پھینکی تو آواز یک لخت بند ہو گئی۔ میں دبے پاؤں اٹھا اور رائفل سنبھال کر برآمدے سے باہر آیا۔ ٹارچ بجھا دی اور ایک ستون کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا۔

    چند منٹ بعد پھر دیوار کھرچنے کی آواز کان میں آئی۔ یہ اتنی واضح اور صاف تھی کہ کوئی شبہ نہ رہا۔ کوئی جانور اپنے پنجے دیوار پر تیز کر رہا تھا۔ میں پنجوں کے بَل چلتا ہوا آواز کی بڑھا۔ ابھی چند قدم ہی چلا ہوں گا کہ پیچھے سے دیوا کے کھانسنے کی آواز آئی اور پھر فوراً ہی چیتے کی غرّاہٹ فضا میں بلند ہوئی اور وہ دوڑتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔

    صبح ہم نے اس کے پنجوں کے گہرے نشان دیوار کے آس پاس دیکھے۔ ناشتے کے بعد میں نے دیوا کو ساتھ لیا اور جنگل میں ٹہلنے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم پیپل کے اس درخت کے نیچے کھڑے تھے جہاں چند روز پہلے وہ عورت غائب ہوئی تھی جو اپنے شوہر کو روٹی دینے جا رہی تھی۔ چیتے کے پنجوں کے نشان دریائے کلیانی کے بائیں کنارے پر دور تک پھیلے ہوئے تھے۔

    ان نشانوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ چیتا غیر معمولی طور پر قوی ہیکل اور بڑی جسامت کا ہے، لیکن مجھے جن نشانوں کی تلاش تھی، وہ کہیں نہ تھے۔ میں شیر کی تلاش میں تھا اور یہ کتنی حیرت کی بات تھی کہ جنگل کے تمام جانور پانی پینے دریا پر آتے تھے، مگر شیر اِدھر کا رخ نہ کرتا تھا۔

    بھوت پریت کے وجود کو عقل تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی اور آدم خور اگر ایسی حرکتیں کرتا، تو اپنا نشان ضرور چھوڑ جاتا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ ہے کیا بَلا؟ تمام واقعات کا اچّھی طرح جائزہ لینے کے بعد جو حقائق میرے سامنے آئے وہ یہ تھے:

    1۔ پانچوں افراد پُراسرار طور پر موت کا شکار ہوئے۔
    2۔ ہر شخص دوپہر یا سہ پہر کے وقت غائب ہُوا۔
    3۔ ان حادثوں کو کسی نے بچشمِ خود نہ دیکھا۔
    4۔ غائب ہونے والا ہر فرد تنِ تنہا تھا۔
    5۔ البتہ بنیے کے ساتھ اس کے گدھے بھی تھے جو بول نہیں سکتے، لیکن انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا، وہ اطمینان سے جنگل میں گھاس چرتے رہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ خوف زدہ نہ تھے، ورنہ ضرور اِدھر اُدھر منتشر ہو جاتے۔

    اس مسئلے پر دیوا کے ساتھ میں دیر تک بحث کرتا رہا، لیکن کسی رُخ سے بھی اس معاملے کی تہ تک پہنچنا مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا تھا، تاہم مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہو، میں یہ راز بے نقاب کر کے رہوں گا۔

    (چند روز جنگل میں‌ گھومنے اور بالخصوص ان جگہوں‌ پر جانے کے بعد جہاں سے اب تک ہلاک ہونے والے غائب ہوتے رہے تھے، ایک دن دیوا اور مصنّف سو کر اٹھے تو….) ایک شخص بنگلے پر آیا اور کہنے لگا کہ وہ پولی بونو سے آیا ہے۔ وہاں امبل میرو کے ایک پہاڑی ٹیلے پر بہت بڑا شیر دیکھا گیا ہے۔ جنگل میں کام کرنے والے مزدوروں نے ٹھیکیدار سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اس وقت تک کام پر نہ جائیں گے جب تک شیر کا قصّہ پاک نہیں ہو جاتا۔ ٹھیکیدار نے پیغام بھیجا تھا۔ ہم جلدی جلدی تیار ہو کر اس شخص کے ساتھ پولی بونو روانہ ہو گئے۔ ٹھیکیدار سے ملاقات ہوئی۔ کام رُک جانے سے اس کا ہزاروں روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ میں نے ٹھیکیدار کو دلاسا دیا، مزدوروں سے بات کی اور ان سے وعدہ کیا کہ شیر کو مارنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ سمجھانے بجھانے سے مزدور راضی ہوئے اور انہوں نے کام شروع کر دیا۔

    اگلے روز دوپہر کے وقت مزدوروں کے انچارج نے سیٹی بجا کر روٹی کھانے کے وقفے کا اعلان کیا۔ وہ مزدور، جس نے ایک روز پہلے شیر کو دیکھا تھا، نہایت خوف زدہ اور بدحواس تھا، وہ بار بار اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر درخت پر کلہاڑی سے اُلٹے سیدھے ہاتھ مارنے لگتا۔ اس سے صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر کچّے بانسوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا۔ دفعتاً اس جھنڈ میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ مزدور نے فوراً اُدھر دیکھا اور پھر کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چُھوٹ گئی۔ کچّے بانسوں کے اس جھنڈ میں وہی شیر اپنی زرد زرد چمکدار بُھوکی آنکھوں سے مزدور کو گھور رہا تھا۔ اس نے وہیں سے جست کی اور عین مزدور کے اوپر جا پڑا، لیکن اس شخص کی زندگی کے کچھ دن ابھی باقی تھے۔ اس کے حلق سے ایک لرزہ خیز چیخ نکلی، فوراً ہی دوسرے مزدور چیختے چلّاتے اُدھر لپکے اور شیر گرجتا غرّاتا چشم زدن میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    بہرحال یہ راز اب کھل چکا تھا کہ امبل میرو کا بھوت کون ہے؟ اور کس نے پانچ افراد کو ہلاک کر کے غائب کیا ہے۔ اَب سوال یہ تھا کہ ہم کیا کریں؟

    جب میں نے دیوا اور ساتھ آنے والے مزدوروں سے کہا کہ میں رات کو یہیں چُھپ کر آدم خور کا انتظار کروں گا، تو خوف سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔

    وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔ میں نے گھڑی پر نگاہ کی، رات کے پورے بارہ بجے تھے۔ اَب میری آنکھیں تالاب اور جنگل کا منظر کچھ فاصلے تک بخوبی دیکھ سکتی تھیں۔ یکایک چرخ پھر نمودار ہوا۔ اس مرتبہ وہ چیخے چلّائے بغیر نہایت مضطرب ہو کر چکّر کاٹ رہا تھا۔ جب چوتھی مرتبہ چرخ تالاب کے نزدیک گیا تو دوسرے کنارے سے اچانک شیر غرایا۔ شیر دوبارہ ہلکی آواز میں غُرّایا اور پھر اس کی آواز سنائی نہ دی۔

    معاً میری چھٹی حِس بیدار ہوئی اور اس نے خطرے کا اعلان کیا۔ میں نے بھری ہوئی رائفل کے ٹریگر پر انگلی رکھ دی اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اپنے دائیں جانب گھنی جھاڑیوں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ کی آواز سن لی تھی اور اب میں بے حس و حرکت اپنی جگہ بیٹھا آنکھیں گھما کر اُدھر ہی دیکھ رہا تھا۔ میں نے نگاہوں ہی نگاہوں میں جھاڑیوں کا فاصلہ ماپ لیا تھا۔ وہ مجھ سے تیس گز دور تھیں اور ان میں چھپا ہوا آدم خور نہایت مکّاری سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ اپنی فطرت کے مطابق مجھے بیخبری میں دبوچ لینا چاہتا تھا۔

    اب وہ مجھ سے بیس گز دور تھا۔۔۔ پندرہ گز۔۔۔ بارہ گز۔۔۔ دس گز۔۔۔ یکایک اس نے اپنا سَر اٹھایا اور میں نے دیکھا کہ وہ شیرنی ہے۔ پھر جبڑا کھول کر وہ آہستہ سے غرّائی، میں نے اس کے چمکتے ہوئے لمبے دانت دیکھے اور اس سے پیشتر کہ وہ مجھ پر چھلانگ لگائے، میری گولی اس کا جبڑا توڑتی ہوئی گردن میں سے نکل گئی، لیکن کس بلا کی قوّت اس کے اندر کام کر رہی تھی۔ وہ زخمی ہونے کے باوجود اندھا دُھند میری طرف جھپٹی، لیکن مجھ سے صرف دو گز کے فاصلے پر آن کر گری اور پھر دہاڑتی گرجتی الٹے قدموں بھاگی۔ میں نے یکے بعد دیگرے تین فائر کیے۔ اس کی گردن سے ابلتا ہوا خون صاف غمازی کر رہا تھا کہ وہ کدھر گئی۔

    مجھے اتنا یاد ہے میرے نشانے خالی نہیں گئے اور شیرنی آگے جا کر یقیناً گر گئی ہوگی۔ میں گرتا پڑتا اور جھاڑیوں میں سے لہولہان ہو کر اس درخت تک پہنچ گیا جہاں میرے ساتھی موجود تھے۔ چند لمحے آرام کرنے کے بعد ہم سب پھر قلعے کی طرف چلے اس مرتبہ میکٹوش آگے آگے تھا اور پیچھے گاؤں والے لالٹینیں لیے چل رہے تھے۔ ایک جگہ وہ اچانک رُکا اور پھر پیچھے ہٹ کر چند پتّھر اٹھائے اور جھاڑی کے اندر پھینکنے لگا۔ غالباً آدم خور شیرنی اس کے اندر چُھپی ہوئی تھی۔ پھر وہ رائفل تان کر آگے بڑھا اور میں نے ٹارچ روشن کی۔ اسی لمحے زخمی شیرنی نے کروٹ لی اور میکٹوش کے اوپر چھلانگ لگائی، لیکن چند فٹ کے فاصلے پر ہی آ کر گر پڑی اور جبڑا کھول کر غرّانے لگی۔ ہمارے ساتھی لالٹینیں پھینک کر بھاگ نکلے، لیکن اب ہمیں اس زخمی اور معذور شیرنی سے کوئی خطرہ نہ تھا، کیوں کہ وہ مرنے ہی والی تھی، مجھے حیرت تھی کہ تین گولیاں کھانے کے باوجود وہ اتنی دیر تک زندہ کیسے رہی۔ میکٹوش نے چند لمحے تک شیرنی کو غور سے دیکھا اور پھر اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔

    اور اس طرح چیتل درُوگ، ہوس دُرگا اور ہوللکر میں تباہی مچانے والی آدم خور شیرنی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

    (مصنّف اور مہم جُو کینتھ اینڈرسن کی اس روداد کے مترجم مقبول جہانگیر ہیں)

  • فلوریڈا: چڑیا گھر کے ملازم کے ساتھ دل دہلا دینے والا حادثہ

    فلوریڈا: چڑیا گھر کے ملازم کے ساتھ دل دہلا دینے والا حادثہ

    امریکی ریاست فلوریڈا کے چڑیا گھر میں ایک ملازم پر شیر کے ہولناک حملے کے بعد شیر کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا، ملازم شدید زخمی حالت میں اسپتال میں زیر علاج ہے۔

    فلوریڈا کے شہر نیپلز کے چڑیا گھر میں یہ خوفناک واقعہ چند روز قبل پیش آیا تھا جس کے بعد چڑیا گھر کو عارضی طور پر بند کردیا گیا۔

    مقامی میڈیا کے مطابق رات کے وقت ریسٹ رومز کی صفائی کرنے والا ایک ملازم ممنوعہ حصے میں جا پہنچا جہاں شیر کا انکلوژر موجود تھا۔

    ملازم نے کچھ کھلانے یا پیار کرنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جو جنگلے میں پھنس گیا اور اسی وقت شیر نے حملہ کر کے اس کا بازو دبوچ لیا۔

    پولیس کی جانب سے جاری کردہ دل دہلا دینے والی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے ملازم خون میں لت پت ہے اور مدد کے لیے چلا اور کراہ رہا ہے۔

    انتظامیہ کی جانب سے فوری طور پر پولیس کو اطلاع کیے جانے کے بعد پولیس موقع پر پہنچی تو اس نے شیر کو وہاں سے بھگانے کی کوشش کی، جب وہ پیچھے نہیں ہٹا تو مجبوراً پولیس نے شیر کو گولی مار کر ملازم کی جان بچائی۔

    ملازم کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق 26 سالہ شخص کو مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں خاصا وقت لگے گا۔

    واقعے کے بعد چڑیا گھر کو عارضی طور پر بند کردیا گیا اور اسے گزشتہ روز دوبارہ کھولا گیا۔

    مذکورہ شیر نایاب نسل کا ملائین ٹائیگر تھا جو دنیا بھر میں معدومی کے خطرے سے دو چار ہے، شیر کو مارنے پر چڑیا گھر انتظامیہ اور پولیس کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

  • بہادر ماہی گیر جان بچانے کے لیے شیر سے لڑتا رہا

    بہادر ماہی گیر جان بچانے کے لیے شیر سے لڑتا رہا

    بھارت میں گھنے جنگلات میں شیر نے ایک ماہی گیر پر حملہ کردیا، ماہی گیر 20 منٹ تک شیر سے لڑتا رہا اور اپنی جان بچانے میں کامیاب رہا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ سندر بن کے جنگلات میں کپورا نامی علاقے کے قریب پیش آیا۔ 4 لائسنس یافتہ کسان شکار کے لیے ندی پر پہنچے تھے جن میں سے ایک کشتی کو کنارے لگا کر اسی پر موجود تھا۔

    اسی وقت گھنے جنگلات سے اچانک ایک شیر نے کشتی پر چھلانگ لگائی اور کشتی پر موجود ماہی گیر پر حملہ کردیا، ماہی گیر اکیلا 20 منٹ تک شیر سے لڑتا رہا اور اپنی جان بچانے کی کوششیں کرتا رہا۔

    اس دوران دوسرے ماہی گیر بھی واپس لوٹ آئے جنہوں نے ماہی گیر کی مدد کی اور اسے شیر کے جبڑوں سے بچایا۔

    زخمی ماہی گیر کو فوراً قریبی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جارہی ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ ماہی گیر شکار کے لیے گہرے پانی میں گئے تھے، یہ مقام جنگلی جانوروں کی موجودگی کی وجہ سے ممنوعہ قرار دیا گیا تھا۔ زخمی ماہی گیر کے علاج کا خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔

  • خونخوار شیر کا بچے پر حملہ، ماں نے مکے اور لاتیں مار کر شیر کو مار بھگایا

    خونخوار شیر کا بچے پر حملہ، ماں نے مکے اور لاتیں مار کر شیر کو مار بھگایا

    امریکا میں ایک ماں اپنے بچے کو بچانے کے لیے شیر سے لڑ گئی اور بغیر کسی ہتھیار کے مکوں اور لاتوں کی مدد سے خونخوار شیر کو مار بھگایا۔

    امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق مذکورہ واقعہ ریاست کیلی فورنیا میں پیش آیا جہاں ایک پہاڑی شیر رہائشی علاقے میں نکل آیا اور ایک گھر کے اندر لان میں کھیلتے 5 سالہ بچے پر حملہ کردیا۔

    بچے کی چیخ و پکار پر ماں گھر سے باہر نکلی، تب تک شیر بچے کو گھسیٹتا ہوا لان سے باہر لے جاچکا تھا، ماں نے بغیر کچھ سوچے سمجھے شیر پر حملہ کردیا اور بچے کو اس سے بچانے کی کوشش شروع کردی۔

    بہادر ماں بغیر کسی ہتھیار کے شیر سے لڑتی رہی، اس دوران نہ صرف وہ اپنے بچے کو اس سے دور کرنے میں کامیاب رہی بلکہ مکے اور لاتیں برسا کر شیر کو بھی وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔

    بعد ازاں خاتون اور ان کے شوہر بچے کو فوری قریبی اسپتال لے کر گئے، بچے کے سر اور سینے پر زخم آئے تھے جن کی ٹریٹمنٹ شروع کردی گئی، میڈیا رپورٹ کے مطابق بچے کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

    مذکورہ واقعہ امریکی محکمہ برائے جنگلی حیات کو رپورٹ کیا گیا جنہوں نے میڈیا کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ پہاڑی شیر کم از کم 30 کلو گرام وزنی تھا لیکن بہادر خاتون، جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی، اس سے اپنے بیٹے کو بچانے میں کامیاب رہی۔

    یاد رہے کہ پہاڑی شیر کو شیر کی تمام اقسام میں سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے جو ہر وقت اپنے شکار کی تلاش میں رہتا ہے اور نہایت چالاکی اور پھرتی سے دبے قدموں پیچھے سے شکار پر حملہ کرتا ہے۔

  • ویڈیو: صبح صبح اسکول جانے والے بچوں کو شیر نے سرپرائز دے دیا

    ویڈیو: صبح صبح اسکول جانے والے بچوں کو شیر نے سرپرائز دے دیا

    افریقی ملک کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے نواحی علاقے میں صبح صبح ایک شیر نے پہنچ کر علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔

    مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق شیر کا تعلق شہر کے جنوب میں واقع نیشنل پارک سے ہے جو اچانک رہائشی علاقے میں نکل آیا۔ خوفزدہ افراد نے فوری طور پر پولیس اور کینین وائلڈ لائف سروس کو مطلع کیا۔

    شہریوں کی حفاظت کے لیے انتظامی حکام نے فوری طور پر رینجرز کی تعیناتی بھی کر دی جبکہ شیر کے زخمی ہونے کی صورت میں خصوصی ویٹرنری ڈاکٹر کو بھی موقع پر روانہ کر دیا گیا۔

    بعد ازاں وائلڈ سروس کے اہلکاروں نے شیر کو دور سے انجیکشن ڈارٹ کے ذریعے بے ہوش کر کے اپنی تحویل میں لے لیا۔ شیر کو نیشنل پارک منتقل کردیا گیا اور نیشنل پارک کے حکام کے مطابق ہوش اآنے پر شیر کو واپس جنگلاتی علاقے میں چھوڑ دیا جائے گا۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ صبح کے وقت بچے اسکولوں کی طرف جبکہ دیگر افراد اپنے روزگار و دفاتر کی جانب روانہ ہورہے تھے۔

    نیشنل پارک سے صرف 7 کلو میٹر دوری پر واقع اس علاقے کے شہریوں کا کہنا ہے کہ نیشنل پارک کی سیکیورٹی کو مزید بہتر بنایا جائے تاکہ کسی خوفناک اور ناخوشگوار حادثے سے بچا جاسکے۔

    مقامی میڈیا کے مطابق دسمبر سنہ 2019 میں بھی ایک شیر نے نیشنل پارک سے باہر نکل کر ایک شخص پر حملہ کر کے اسے ہلاک کر دیا تھا۔ مارچ سنہ 2016 میں نیشنل پارک سے نکلنے والے شیر کو اس وقت گولی مار دی گئی جب اس نے ایک شہری کو حملہ کر کے زخمی کر دیا تھا۔

  • گلوکارہ شیر تک ہاتھی کاون کی آواز کیسے پہنچی؟

    گلوکارہ شیر تک ہاتھی کاون کی آواز کیسے پہنچی؟

    کیا آپ کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر کا ہاتھی کاون یاد ہے جو اپنی حالت زار کی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا اور پھر اسے کمبوڈیا منتقل کیا گیا تھا؟ کاون کے لیے آواز اٹھانے والوں میں ایک اہم نام امریکی گلوکارہ و اداکارہ شیر کا بھی تھا جو اس کے لیے پاکستان آئی تھیں۔

    امریکی گلوکارہ و اداکارہ شیر نے حال ہی میں شوبز ویب سائٹ ورائٹی کے پوڈ کاسٹ میں بتایا کہ انہیں کیسے کاون کی مشکل زندگی کا علم ہوا تھا۔

    گلوکارہ نے بتایا کہ انہیں کچھ عرصہ قبل ٹویٹر کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ پاکستان میں کاون نامی ہاتھی بدترین حالات میں ہے اور لوگوں نے ان سے مذکورہ ہاتھی کی مدد کی درخواست کی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ ٹویٹر پر زیادہ درخواستوں یا اپیلوں پر توجہ نہیں دیتی مگر چونکہ بچپن سے انہیں جانوروں سے پیار تھا، اس لیے انہوں نے کاون کی مدد کی اپیلوں پر توجہ دی اور اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    شیر کا کہنا تھا کہ بعد ازاں انہوں نے مذکورہ معاملے کو حل کرنے کے لیے جانوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں کی مدد لی اور پھر ٹویٹر پر براہ راست پاکستانی اداروں، عوام اور عہدیداروں سے کاون کو اسلام آباد چڑیا گھر سے نکالنے کا مطالبہ کرنے لگیں۔

    انہوں نے اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہ انہیں کاون کی زندگی پر بنائی گئی دستاویزی فلم شیر اور دنیا کا تنہا ترین ہاتھی میں کام کرنے کا موقع ملا۔

    خیال رہے کہ کاون کو نومبر 2020 میں پاکستان سے کمبوڈیا منتقل کیا گیا تھا، کاون کی بیرون ملک منتقلی کے احکامات سپریم کورٹ نے دیے تھے، مذکورہ ہاتھی اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں انتہائی تنگ جگہ اور بدترین حالات میں موجود تھا۔

    کاون کو سری لنکا نے سنہ 1985 میں تحفے کے طور پر پاکستان کو دیا تھا اور اس وقت اس کی عمر محض ایک سال تھی۔

  • بٹگرام: شیر نے چرواہے کو کھا لیا

    بٹگرام: شیر نے چرواہے کو کھا لیا

    بٹگرام: خیبر پختون خوا کے علاقے بٹگرام کے ایک چرواہے کو شیر نے حملہ کر کے جان سے مار دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کے پی کے شہر بٹگرام کے بالائی علاقہ ڈونگا میں جنگل کے شیر نے چرواہے پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں چرواہا جاں بحق ہو گیا۔

    مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 40 سالہ طالع زر ولد محمد شاہ مال مویشی چرانے کے لیے ڈونگا کے جنگل گیا تھا، جہاں شیر نے اس پر حملہ کر کے بری طرح زخمی کر دیا۔

    علاقے کے لوگوں کو اطلاع ملی تو وہ زخمی شخص کو طبی امداد کے لیے بٹگرام کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال لے گئے، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

    ایبٹ آباد، حملے کے بعد مقامی افراد نے جنگلی چیتے کو زیر کر لیا (ویڈیو)

    مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بٹگرام کے بالائی علاقوں میں اس قسم کے واقعات میں تیزی آ رہی ہے، جس سے عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

    محکمہ وائلڈ لائف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ جنگلی درندوں کو آبادی کی طرف آنے سے روکا جائے، تاکہ انسانی جانوں سمیت جنگلی حیات کی زندگیاں بھی محفوظ رہیں۔

    پہاڑی سے گرنے والے برفانی چیتے کو بچایا نہ جا سکا

    یاد رہے کہ چند دن قبل ایوبیہ، ایبٹ آباد کے ایک گاؤں ملکوٹ میں مقامی افراد نے آبادی پر حملہ کرنے والے ایک چیتے کو زیر کر لیا تھا، چیتے کے حملے میں ایک شخص بری طرح زخمی ہوا تھا۔

  • دعوت میں غیر متوقع طور پر شیر کی آمد

    دعوت میں غیر متوقع طور پر شیر کی آمد

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ میں ایک سفاری پارک میں پارٹی کرنے والوں کی اس وقت سانسیں تھم گئیں جب انہوں نے ایک ببر شیر کو اپنے کھانے کی میزوں کے گرد چکر لگاتے دیکھا۔

    جنوبی افریقہ کے جنگلات میں اس نجی گیم ریزرو کا عملہ پارٹی کی تیاری میں مصروف تھا جب انہوں نے ایک شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا۔

    کھانے کی میز پر بھنا ہوا گوشت اور مختلف اقسام کے کھانے رکھے جارہے تھے اور یقیناً اسی کی خوشبو اس شیر کو کھینچ لائی تھی۔

    قریب آ کر اس شیر نے میز کے گرد چکر لگانے شروع کردیے، اس اثنا میں میزبان اور مہمان بھی کھانے کے لیے آ پہنچے جو ایک غیر متوقع مہمان کو دیکھ کر دور رک گئے۔

    شیر نے اطمینان سے میزوں کے گرد چکر لگایا اس کے بعد کسی بھی چیز کو چکھے بغیر وہاں سے واپس روانہ ہوگیا۔

    دعوت کے میزبان کا کہنا تھا کہ ان کے گھر برطانیہ سے کچھ دوست آئے تھے جو ان کے گھر پر قیام پذیر تھے، یہ دعوت انہی کے لیے کی گئی تھی۔

    میزبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اکثر اوقات یہاں شیروں سمیت کئی جانوروں کو دیکھا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ شیر اتنا قریب آگیا تھا۔

    ان کے مطابق ان کے مہمان بھی اس نایاب نظارے سے بے حد حیران اور لطف اندوز ہوئے، یہ ان سب کی زندگی کا ایک یادگار لمحہ تھا۔

  • خون کے پیاسے شیر نے ریاست میں خوف کی لہر دوڑا دی

    خون کے پیاسے شیر نے ریاست میں خوف کی لہر دوڑا دی

    تلنگانہ: ایک آدم خور شیر نے بھارتی ریاست تلنگانہ میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے، مقامی حکام نے پکڑنے میں ناکامی کے بعد اسے مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست تلنگانہ کے ضلع آصف آباد میں ایک شیر کو انسانی خون کا ذائقہ لگ گیا ہے، جس کے بعد اس نے نومبر میں 2 انسانوں کی جانیں لے لی ہیں۔

    شیر اتنا چالاک ہے کہ تلنگانہ حکومت کے اسے پکڑنے کے سارے اقدامات ناکام رہے ہیں، محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے شیر کو پکڑنے کے لیے جنگل میں پنجرے لگائے جا چکے ہیں لیکن وہ پکڑ میں نہیں آ سکا ہے۔

    بتایا جاتا ہے کہ یہ شیر ریاست مہاراشٹر سے آصف آباد میں داخل ہوا ہے، اور ٹائیگر کاریڈور ایریا کو اپنا مسکن بنا کر دہشت کی علامت بن گیا ہے۔

    یہ خوں خوار شیر پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مقامی آبادی کے مویشیوں کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے، نومبر میں دو بد قسمت انسان بھی اس کی بھینٹ چڑھ گئے تھے، شیر نے ان پر حملہ کر کے چیر پھاڑ دیا تھا۔

    خونخوار شیرنی کسان پر جھپٹ پڑی، لرزہ خیز واقعہ

    کاغذ نگر کے فاریسٹ ڈویژنل آفیسر وجے کمار کا کہنا تھا کہ مویشیوں کی ہلاکت کے واقعات ہر ہفتے رو نما ہو رہے ہیں، ٹائیگر کاریڈور ایریا میں کئی شیر ہیں تاہم فی الوقت ہم اس شیر کو پکڑنے پر توجہ دے رہے ہیں جو مہاراشٹر سے آصف آباد میں داخل ہوا ہے۔

    شیر کو پکڑنے میں ناکامی کے بعد حکومت تلنگانہ نے پڑوسی ریاست مہاراشٹر سے مدد طلب کر لی ہے، اس سلسلے میں چیف وائلڈ لائف وارڈن آر شوبھا نے مہاراشٹر کے محکمہ جنگلات کو ایک مکتوب تحریر کیا۔

    خط میں مہاراشٹر سے ایسی ریپڈ رسپانس ٹیموں کی مدد طلب کی گئی ہے جو شیر کو تلاش کرنے اور پکڑنے کے لیے مقامی ٹیموں کی مدد کریں گی۔

    محکمہ جنگلی حیات کے ایک افسر نے ماہرین کے حوالے سے بتایا کہ پنجروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، مہاراشٹر میں بھی یہ تجربہ ناکام رہا، اس لیے ہم نے اس شیر کو مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

  • لاہور میں شیر سستا، بھینس مہنگی، کیا اب شیر خریدنا آسان ہوگیا؟ جانیے

    لاہور میں شیر سستا، بھینس مہنگی، کیا اب شیر خریدنا آسان ہوگیا؟ جانیے

    لاہور: زندہ دلان لاہور میں شیر کی قیمت بھینس سے بھی نیچے گر گئی ہے، اور شیر بھینس سے کہیں سستے فروخت ہونے لگے ہیں۔

    آپ یہ مشہور محاورہ وقتاً فوقتاً سنتے اور پڑھتے ہوں گے ’بھینس کے آگے بین بجانا‘، یعنی کسی بے وقوف یا نا اہل آدمی کے سامنے دانش مندی کی بات کرنا، بہ ظاہر اس محاورے سے بھینس کی وقعت میں کمی ہو رہی ہے لیکن یہاں جو خبر دی جا رہی ہے اس میں شیر کی قیمت بھینس سے بھی کہیں کم نکلی ہے۔

    لاہور کے محکمہ جنگلی حیات نے حال ہی میں 14 عدد شیر فروخت کیے ہیں جن میں سے ہر شیر محض ڈیڑھ لاکھ روپے میں بیچا گیا، واضح رہے کہ پالتو بلیاں اور کتے بھی ڈیڑھ دو لاکھ کے فروخت ہو جاتے ہیں۔

    جو چودہ شیر فروخت کیے گئے ان میں چار شیر لاہور چڑیا گھر کی ملکیت تھے، ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ان کے پاس 4 شیر اضافی تھے اس لیے فروخت کیے گئے، ایک شیر کو دن میں 7 سے 10 کلو گوشت کھلانا پڑتا ہے، اس لیے انھیں پالنا مہنگا پڑ رہا تھا، انھوں نے کہا کہ شیر کی قیمت کا تعین محکمانہ پالیسی کے تحت کیا جاتا ہے، تاہم دوسری طرف اوپن مارکیٹ کے مطابق شیر کی قیمتِ فروخت 45 لاکھ روپے تک ہے۔

    وائلڈ لائف ایکسپرٹ ڈاکٹر عظمیٰ نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں بتایا کہ پاکستان میں اگر آپ بھی شیر رکھنا چاہتے ہیں تو رکھ سکتے ہیں، اس حوالے سے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا کیوں کہ شیر مقامی جانور نہیں ہے بلکہ باہر سے آتا ہے، اس لیے لوگوں نے گھروں میں پال رکھے ہیں۔

    ڈاکٹر عظمیٰ کا کہنا تھا کہ اگر ادارے خود شیر فروخت کریں گے تو انٹرنیشنل کمیونٹی کو اس سے ایک غلط پیغام جاتا ہے، غیر ممالک میں زو کسی ایسوسی ایشن کے ممبر ہوتے ہیں، اگر وہاں کوئی جانور اضافی ہو جاتا ہے اسے انجمن کے تحت ایکسچینج یا عطیہ کیا جاتا ہے، لہٰذا اگر زو جس کا مقصد پبلک ایجوکیشن اور جانوروں کا تحفظ ہوتا ہے، جانور بیچیں گے تو ایک غلط میسج جاتا ہے۔

    انھوں نے کہا دنیا بھر میں چڑیا گھروں کے اندر جگہ کے حساب سے جانوروں کی افزائش کی جاتی ہے، اس لیے مانع حمل طریقے بھی استعمال کیے جاتے ہیں، اگر زو کہتے ہیں کہ ان کے پاس وسائل نہیں ہیں تو پچھلے سال متحدہ عرب امارات سے 18 شیروں کا عطیہ قبول کیا گیا تھا، اگر ذرایع نہیں ہیں ہمارے پاس تو پھر یہ شیر کیوں قبول کیے گئے۔

    ڈاکٹر عظمیٰ نے نجی بریڈنگ فارمز کے حوالے سے بتایا کہ انھیں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے، کہ وہ کمرشل مقاصد کے لیے جانوروں کی افزائش کر کے انھیں فروخت کر سکتے ہیں، ان فارمز کے لیے جو صوبائی سطح پر قوانین موجود ہیں ان میں بہتری کی بہت ضرورت ہے۔