Tag: شیشہ

  • باتھ روم کے شیشے کے پیچھے کیا تھا؟

    باتھ روم کے شیشے کے پیچھے کیا تھا؟

    امریکا میں ایک خاتون اپنے باتھ روم کا شیشہ ہٹانے پر اس کے پیچھے پورا اپارٹمنٹ دریافت ہونے پر حیران رہ گئیں۔

    امریکی شہر نیویارک کی رہائشی خاتون سمانتھا ہرٹز نے اپنی اس دریافت کی سلسلہ وار ویڈیوز ٹک ٹاک پر پوسٹ کیں جنہیں اب تک لاکھوں افراد دیکھ اور لائیک کر چکے ہیں۔

    سمانتھا کا کہنا تھا کہ ان کے باتھ روم میں کوئی کھڑکی نہیں تھی لیکن وہاں بہت تیز ہوا آرہی تھی، غور کرنے پر علم ہوا کہ یہ ہوا سنک کے اوپر لگے آئینے کے پیچھے سے آرہی تھی۔

    انہوں نے شیشہ ہٹایا تو اس کے پیچھے ایک بڑا سا سوراخ تھا جس کے دوسری طرف ایک تاریک کمرہ تھا۔

    بعد ازاں سمانتھا فیس ماسک اور گلوز پہن کر، ہاتھ میں ہتھوڑی لے کر دوسری طرف اتریں تو انہیں علم ہوا کہ وہ صرف ایک کمرہ نہیں بلکہ پورا کا پورا اپارٹمنٹ ہے۔

    پورا اپارٹمنٹ کچرے سے اٹا ہوا تھا جبکہ وہاں پانی کی خالی بوتلیں بھی موجود تھیں، سمانتھا کا خیال تھا کہ وہاں پر کوئی موجود ہوگا لیکن اپارٹمنٹ خالی تھا۔

    سوشل میڈیا پر ان کی پوسٹ کی گئی ویڈیوز پر صارفین مختلف تبصرے کر رہے ہیں۔

  • دبئی میں سیاحوں کے لیے ایک اور تفریحی سہولت بحال

    دبئی میں سیاحوں کے لیے ایک اور تفریحی سہولت بحال

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات کے شہروں میں کرونا وائرس کا لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد تفریحی سرگرمیاں بحال کی جارہی ہیں، ابو ظہبی میں سوئمنگ پولز اور دبئی میں شیشہ کیفیز کھول دیے گئے۔

    اماراتی میڈیا کے مطابق ابو ظہبی کے محکمہ ثقافت و سیاحت نے ہوٹلوں کو 18 شرائط کے ساتھ سوئمنگ پول عام افراد کے لیے کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔

    محکمہ ثقافت و سیاحت نے جو شرائط مقرر کی ہیں ان کا تعلق احتیاطی تدابیر سے ہے جن کے مطابق تمام ملازمین اور سوئمنگ گائیڈز کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ کرنا ہوگا، اور ہر 15 دن میں کرونا وائرس ٹیسٹ ضروری ہوگا۔

    شرائط کے مطابق سوئمنگ پول گنجائش سے 50 فیصد تک ہی استعمال کیا جا سکے گا، اس حوالے سے تفصیلات بورڈ پر تحریر کرنا ہوں گی۔

    سوئمنگ پول کے استعمال سے قبل سیاحوں، عملے اور ٹھیکیداروں کا بھی درجہ حرارت چیک کیا جائے گا۔ ایسے کسی بھی شخص کو جس میں انفلوائنزا کی علامتیں نظر آرہی ہوں، سوئمنگ پول استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

    آفتابی بستروں کے درمیان 2 میٹر کا فاصلہ ضروری ہوگا، فرش پر سماجی فاصلے کی علامتیں لگانا ہوں گی، سیاحوں کو 2 میٹر سے کم کے فاصلے پر ملنے جلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

    دوسری جانب دبئی میں بھی بلدیہ نے شیشے اور تمباکو کے لیے مخصوص مقامات کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے, بلدیہ نے شیشہ اور تمباکو کی بحالی کے لیے حفاظتی تدابیر کی پابندی کو لازمی کیا ہے۔

    دبئی بلدیہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی گاہک کو شیشہ پیش کرنے سے قبل صفائی اور سینی ٹائزنگ ضروری ہوگی، شیشے کے پائپ ایسے ہوں جو ایک ہی بار استعمال ہوتے ہوں۔

    حکام کے مطابق ہر گاہک کے بعد شیشے کا پانی بدلنا ہوگا، شیشہ پیش کرنے سے قبل ملازم کو اجازت نہیں ہوگی کہ وہ شیشہ چیک کرے۔

  • کرونا وائرس: عمان حکومت نے بڑی پابندی عائد کردی

    کرونا وائرس: عمان حکومت نے بڑی پابندی عائد کردی

    مسقط: عمان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر شیشہ پینے پر پابندی عائد کردی گئی، خلاف ورزی کرنے والے ریستورانوں اور قہوہ خانوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق عمان کی وزارت ریجنل میونسپلٹیز اور واٹر ریسورس نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیشہ فراہم کرنے والے لائسنس یافتہ تمام مقامات فی الحال اپنے گاہکوں کو شیشے کی فراہمی روک دیں۔

    اس پابندی کا اطلاق 15 مارچ سے ہوگا، حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والے شیشہ مراکز، قہوہ خانے اور ریستورانوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

    خیال رہے کہ عمان میں اب تک کرونا وائرس کے 20 کیسز سامنے آچکے ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ شیشہ متعدی بیماریوں کی منتقلی کا آسان اور عام ذریعہ ہوسکتا ہے۔

    اس ہدایت کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب اور دبئی میں بھی شیشہ پینے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

  • اربوں پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں نہیں، تو پھر کون ہے؟

    اربوں پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں نہیں، تو پھر کون ہے؟

    دنیا بھر میں پرندوں کی ہلاکت میں تشویش ناک اضافہ ہوگیا ہے، ایک تحقیق کے مطابق صرف امریکا اور کینیڈا میں گزشتہ 50 برس میں لگ بھگ 3 ارب کے قریب پرندے ہلاک ہوچکے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں یا دیگر جانور نہیں، بلکہ انسانوں کی بنائی ہوئی شیشے کی کھڑکیاں ہیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں بلند و بالا شیشے کی عمارات شاید کسی شہر کی ترقی اور جدت کا ثبوت تو ہوسکتی ہیں، تاہم یہ عمارات معصوم پرندوں کے لیے کسی مقتل سے کم نہیں ہوتیں۔

    پرندے کبھی ان شیشوں کے پار دیکھ کر اسے کھلا ہوا سمجھ کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کبھی وہ اپنا ہی عکس دیکھ کر تذبذب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، نتیجتاً وہ پوری رفتار کے ساتھ آ کر ان شیشوں سے ٹکراتے ہیں اور ہلاک و زخمی ہوجاتے ہیں۔

    ان شیشوں سے ٹکرا کر ہلاک ہونے والے پرندوں کی تعداد سالانہ لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے۔ یہ ہلاکتیں زیادہ تر مہاجر پرندوں کی ہوتی ہے جو اچانک ایک نئے ماحول میں آکر ویسے ہی اجنبیت کا شکار ہوتے ہیں۔

    وہ سستانے کے لیے کسی درخت کو دیکھ کر اس کی جانب لپکتے ہیں لیکن دراصل وہ شیشے پر درخت کا عکس ہوتا ہے اور وہ اس شیشے سے دھڑام سے ٹکرا جاتے ہیں۔

    کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ طریقے اپنائے جارہے ہیں۔

    سب سے پہلا کام وہاں یہ کیا گیا کہ عمارتوں کی تعمیر میں شیشے کا استعمال کم سے کم کردیا گیا ہے۔ روشنی کے گزر کے لیے عمارتوں کو شیشے سے سجانے کے بجائے کھلا رکھا جارہا ہے۔

    وہاں پر شیشوں پر نشانات بنائے جارہے ہیں جس سے پرندوں کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے سامنے کھلی جگہ نہیں بلکہ ایک دیوار ہے۔

    شیشے کی کھڑکیوں کو ڈھانپنے کے لیے شٹرز اور شیڈز کا استعمال فروغ دیا جارہا ہے تاکہ شیشوں کا عکس پرندوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔

    شیشے کے سامنے اندھیرا کردینا بھی معاون ثابت ہوسکتا ہے تاکہ پرندے روشنی کی جانب نہ لپکیں۔

    ماہرین کے مطابق ان طریقوں کو اپنا کر ایک عمارت جو سالانہ 100 پرندوں کی ہلاکت کا سبب بنتی تھی، اب یہ شرح بے حد کم ہو کر سالانہ ایک یا دو پرندوں کی ہلاکت تک محدود ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: شیشے کی کھڑکیوں سے پرندوں کو کیسے بچایا گیا؟

  • شیشے کی کھڑکیاں پرندوں کی قاتل بن گئیں، پرندوں کو کیسے بچایا گیا؟

    شیشے کی کھڑکیاں پرندوں کی قاتل بن گئیں، پرندوں کو کیسے بچایا گیا؟

    دنیا بھر میں بلند و بالا عمارات پر لگی شیشے کی کھڑکیاں ہر سال لاکھوں پرندوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہیں جو ان کھڑکیوں سے ٹکرا کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    پرندے کبھی ان شیشوں کے پار دیکھ کر اسے کھلا ہوا سمجھ کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کبھی وہ اپنا ہی عکس دیکھ کر تذبذب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، نتیجتاً وہ پوری رفتار کے ساتھ آ کر ان شیشوں سے ٹکراتے ہیں اور ہلاک و زخمی ہوجاتے ہیں۔

    کئی سال قبل فطرت سے محبت کرنے والے ایک شخص نے ان پرندوں کے بارے میں سوچا کہ انہیں اس جان لیوا ٹکراؤ سے کس طرح بچایا جائے۔

    اس نے کہیں پڑھا تھا کہ مکڑی کی ایک قسم اورب ویور مکڑی اپنے جالوں کو ایسے دھاگے سے سجاتی ہے جو الٹرا وائلٹ روشنی کی شعاعوں کو منعکس کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہم نہیں دیکھ سکتے تاہم پرندے اسے دیکھ سکتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پرندے دور سے ہی مکڑی کے جالوں کو دیکھ لیتے ہیں اور ان سے ٹکرائے بغیر گزر جاتے ہیں۔

    اس تکنیک کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس شخص نے کچھ گلاس مینو فیکچررز کے ساتھ مل کر کام کیا، اور ایسے شیشے بنائے جنہیں الٹرا وائلٹ (یو وی) شعاعوں کو منعکس کرنے والے نشانات سے کوٹ کردیا گیا۔

    یہ نشانات ہمیں نہیں دکھائی دیتے تاہم پرندے ان نشانات کو باآسانی دیکھ لیتے ہیں اور اپنی پرواز کا رخ تبدیل کرلیتے ہیں۔

    شیشہ بننے کے بعد اس کے پروٹو ٹائپ کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لیے ایک سرنگ تشکیل دی گئی اور سرنگ کے آخری حصے پر یہ شیشے لگائے گئے۔ ایک طرف یو وی گلاس لگایا گیا جبکہ دوسری طرف عام شیشہ لگایا گیا۔

    تجربے کے لیے سرنگ میں پرندوں کو چھوڑ دیا گیا، پرندوں کے شیشے سے متوقع ٹکراؤ سے بچنے کے لیے شیشوں اور پرندوں کے درمیان ایک جالی بھی لگا دی گئی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ پرندوں نے عام شیشے کو کھلا ہوا راستہ سمجھ کر باہر نکلنے کے لیے اسی شیشے کی طرف پرواز کی اور یو وی گلاس کی طرف جانے سے گریز کیا۔ تجربے کے دوران تقریباً 1 ہزار پرندوں نے اسی راستے کا رخ کیا۔

    اس کامیاب تجربے کے بعد مکڑی کے جالوں جیسے ان شیشوں کی تجارتی بنیادوں پر تیاری شروع کردی گئی اور یہ شیشے امریکا اور یورپ کی متعدد عمارات میں نصب کیے جانے لگے۔

  • شیشے کی بوتلیں ساحلوں کو بچانے میں معاون

    شیشے کی بوتلیں ساحلوں کو بچانے میں معاون

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا بھر کی ساحلی زمین سمندر برد ہورہی ہے جس کی وجہ سے سمندر کا پانی رہائشی آبادیوں کے قریب آرہا ہے اور یوں ساحل پر آباد شہروں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

    ساحلی زمین کے غائب ہونے کی وجہ گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت ہے جس سے برفانی پہاڑ یا گلیشیئرز پگھل کر سمندروں میں شامل ہورہے ہیں یوں سمندر کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    تاہم ہماری روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی شیشے کی بوتلیں ان ساحلوں کو بچا سکتی ہیں۔

    نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی اس سلسلے میں کام کر رہی ہے اور اسے حیرت انگیز نتائج موصول ہورہے ہیں۔

    یہ کمپنی ایک تیز مشین کے ذریعے شیشے کی بوتلوں کو توڑ کر نہایت باریک ذرات میں تبدیل کردیتی ہے۔

    اس کے بعد اس میں شیشہ کے ذرات اور سیلیکا ڈسٹ الگ کرلی جاتی ہے ساتھ ہی بوتلوں پر لگے پلاسٹک اور کاغذ کے لیبلوں کو بھی الگ کرلیا جاتا ہے۔

    الگ ہوجانے کے بعد اس سے نکلنے والی مٹی بالکل ساحلی ریت جیسی ہوتی ہے۔

    ساحل کیوں سمندر برد ہورہے ہیں؟

    اس وقت دنیا بھر کے ساحلوں کا 25 فیصد حصہ سمندر برد ہورہا ہے۔

    اس کی 2 وجوہات ہیں، ایک زمینی کٹاؤ اور دوسرا قدرتی آفات۔ اس کے ساتھ ساتھ ساحلی ریت کو کئی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جن میں تعمیرات سرفہرست ہیں۔

    ساحلی ریت کو سڑکیں بنانے، کان کنی کرنے، اور سیمنٹ کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے مختلف ساحلوں سے ٹنوں ریت اکٹھی کی جاتی ہے۔

    بعض اوقات ایک ساحل کی ریت اٹھا کر دوسرے ساحل پر بھی ڈالی جاتی ہے تاکہ اس ساحل پر کم ہوجانے والی مٹی کا توازن برابر کیا جاسکے۔

    اس طریقے سے نیوزی لینڈ کے کئی ساحلوں کو دوبارہ سے بحال کیا گیا جو سمندر برد ہونے کے قریب تھے۔

    دوسری جانب سنہ 2017 میں ارما طوفان کے وقت امریکی ریاست فلوریڈا میں 12 ہزار ٹرکوں کے برابر ساحلی ریت نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور ہوا میں اڑگئی۔

    اسی طرح کیلیفورنیا کی 67 فیصد ساحلی زمین سنہ 2100 تک سمندر برد ہوجانے کا خدشہ ہے۔

    اس صورت میں دوسرے ساحلوں سے ریت لا کر خطرے کا شکار ساحل پر ڈالی جاتی ہے تاکہ شہری آبادی کو نقصان سے بچایا جاسکے۔

    نیوزی لینڈ کی ساحلی زمین بھی سخت خطرے میں ہے اور یہ پہلی کمپنی ہے جو ایک قابل قبول حل کے ساتھ سامنے آئی ہے۔

    یہ کمپنی اب تک 5 لاکھ بوتلوں سے 147 ٹن ریت حاصل کرچکی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ 330 ملی لیٹر کی ایک عام بوتل سے 200 گرام ریت حاصل ہوتی ہے۔

    کمپنی کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے پہلے وہ نیوزی لینڈ کے ساحلوں کے بچائیں گے اس کے بعد اسے پوری دنیا میں پھیلائیں گے۔

    یہ طریقہ کار نہ صرف ساحلوں کو بچا رہا ہے بلکہ شیشے کی بوتلوں کو کچرے میں پھینکنے کے رجحان کی بھی حوصلہ شکنی کر رہا ہے جس سے شہروں کے کچرے میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

  • شیشہ کی طرح شفاف کیک کھانا چاہیں گے؟

    شیشہ کی طرح شفاف کیک کھانا چاہیں گے؟

    آپ نے لذیذ کیک تو بے شمار دیکھے ہوں گے جنہیں دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے ایسے کیک دیکھے ہیں جنہیں کھانے کے بجائے سجاوٹ کے لیے رکھنے کا دل چاہے؟

    روس کی رہائشی مٹھائیاں تیار کرنے والی حلوائی اولگا ایسے کیک تیار کرتی ہیں جو سنگ مرمر کی طرح شفاف ہیں۔

    10

    9

    13

    8

    وہ کہتی ہیں انہیں میکرونز (میٹھے بسکٹ) بہت پسند ہیں اور انہی کو ملا کر یہ منفرد کیک تیار کیے گئے ہیں۔

    7

    4

    6

    5

    3

    شیشے کی طرح چمکتے ان کیکس میں کیا خاص اجزا ملائے جاتے ہیں؟ اولگا ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس سوال کا جواب دینے سے گریز کرتی ہیں۔

    2

    1

    11

    12

    عام مٹھائیاں بنانے کے بعد اب یہ کیک اولگا کی شہرت اور دولت کا سبب بن چکے ہیں اور لوگ دور دور سے ان کے کیک خریدنے آتے ہیں۔