Tag: شیفتہ

  • شیفتہ:‌ قادرالکلام شاعر جن کے متعدد اشعار زباں زدِ عام ہوئے

    شیفتہ:‌ قادرالکلام شاعر جن کے متعدد اشعار زباں زدِ عام ہوئے

    محمد مصطفیٰ خاں شیفتہؔ کی شعر گوئی ہی نہیں ان کی سخن فہمی بھی مشہور ہے۔ وہ شعر و سخن کا ایسا اعلٰی مذاق رکھتے تھے کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب بھی ان سے پسندیدگی کی سند لے کر اپنے دیوان میں کوئی شعر شامل کرتے تھے۔ آج اردو کے معروف شاعر اور غالب کے اس محسن کی برسی ہے۔

    نواب مصطفیٰ خان متخلص بہ شیفتہؔ کے بارے میں‌ مرزا غالب جیسے عظیم شاعر کا یہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ شیفتہؔ سخن فہم ہی نہیں زبان و بیان پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ شیفتہ قادرُالکلام شاعر تھے۔ ان کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے۔ انھوں نے شاعری کے ساتھ نثر بھی خوب لکھی ہے۔ شیفتہ کو اردو اور فارسی زبان میں کامل دستگاہ تھی۔ مولانا حالیؔ نے بھی شیفتہ کی صحبت سے فیض اٹھایا تھا جو اپنے علمی و تحقیقی کاموں اور ادبی تخلیقات کے سبب ہندوستان میں مشہور ہیں۔

    غالب کی وفات کے چند ماہ بعد 1869ء میں نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ بھی آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اور متأخرین شعرا میں شیفتہ اُن اصحاب میں سے ایک ہیں‌ جن کی رائے اہلِ قلم کے نزدیک سند کا درجہ رکھتی ہے۔ مرزا غالب کے علاوہ بھی معاصر شخصیات شیفتہ کے مذاقِ سخن اور نکتہ رسی کی معترف رہی ہیں۔

    شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی اپنا حصّہ ڈالا۔ ان کا سنہ پیدائش 1809ء بتایا جاتا ہے۔ شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور الطاف حسین حالی کو غالب سے انھوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے دواوین کے علاوہ ان کا سفرنامۂ حجاز بھی مشہور ہے جب کہ گلشنِ بے خار وہ کتاب ہے جو کلاسیکی ادب میں اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ایک مبسوط اور مشہور تصنیف ہے جس میں‌ شعرا کے تذکرے کے ساتھ شاعری پر تنقیدی رائے شامل ہے۔ فارسی زبان میں شیفتہ کی یہ تنقید دقّتِ نظر کی حامل ہے۔

    ان کا سفرنامۂ حجاز ایک مقبول کتاب رہی ہے اور خاص طور پر وہ واقعات جو اُس افتاد اور مسافروں کے عالمِ بیچارگی سے جڑے ہیں کہ جب ان کا بحری جہاز تباہ ہو گیا لیکن حادثہ میں تمام مسافر زندہ بچ گئے۔ شیفتہ 1839ء میں اس بحری جہاز پر سوار ہوئے تھے۔ بعد میں انھوں نے اس سفر پر فارسی زبان میں ’ترغیب المسالک الی احسن المسالک‘ نامی کتابچہ لکھا جس کا ایک اور نام ’رہَ آورد‘ بھی ہے۔ اسے ہندوستان کے اوّلین سفر ناموں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ شیفتہ کی اس کتاب کو پڑھ کر ایک طرف تو اس دور کے حجاز کے مقامات مقدسہ اور یمن کے حالات، معاشرت اور ثقافت سے آگاہی ہوتی ہے، اور دوسری طرف بحری جہاز کی تباہی کے بعد مسافروں‌ کے ایک بے آب و گیاہ اور گمنام جزیرے پر پناہ کے دوران پیش آنے والے واقعات بھی سبق آموز ہیں۔ شیفتہ نے لکھا ہے کہ اس جزیرے پر بھوک پیاس مٹانے کو کچھ نہ تھا اور طوفانی ہواؤں کے ساتھ انھیں اور دیگر مسافروں کو موت کے منہ میں چلے جانے کا خوف بھی تھا۔ لیکن پھر ہمّت کر کے مسافروں میں سے چند ایک چھوٹی کشتی پر ساحل کی تلاش میں نکلے اور کئی روز بعد امداد پہنچی اور سب کو بخیریت جزیرے سے نکال لیا گیا۔

    نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

  • یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    اردو زبان کے نام وَر شاعر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے 1869ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اس کے بعد آنے والے شعرا میں شیفتہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

    نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی حصّہ ڈالا۔

    1809ء میں پیدا ہونے والے شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور انھوں نے ہی الطاف حسین حالی کو غالب سے متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے شعری مجموعوں‌ کے علاوہ ان کی کتاب گلشنِ بے خار کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے جو دراصل کلاسیکی ادب کے کئی نام وروں کا تذکرہ اور کلام پر فارسی میں تنقید ہے۔

    1839ء میں شیفتہ نے حج کے لیے بحری جہاز کا سفر کیا تھا اور اس دوران جو واقعات پیش آئے، اور حج و زیارت کے موقع پر انھیں جو کچھ دیکھنے کا موقع ملا، اسے اپنے سفرنامے میں‌ محفوظ کیا ہے۔

    شیفتہ کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
    اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے