Tag: شیکسپیئر

  • شیکسپیئر: حیات اور ادبی کارنامے

    شیکسپیئر: حیات اور ادبی کارنامے

    برطانوی ادیب اور شاعر ولیم شیکسپیئر کے بغیر انگریزی ادب کی تاریخ ادھوری ہے۔ اس زمانے میں‌ جب تھیٹر ہی تفریح کا اکلوتا اور مقبول ترین ذریعہ تھا، شیکسپیئر نے اپنے ڈراموں کی بدولت لازوال شہرت پائی۔ شیکسپیئر 23 اپریل 1616ء کو چل بسا تھا۔

    ڈرامہ نویس اور شاعر شیکسپیئر کو عالمی شہرت نصیب ہوئی۔ وہ 1564ء میں برطانیہ میں پیدا ہوا۔ شیکسپیئر معمولی تعلیم حاصل کرسکا۔ اسے نوجوانی میں معاش کی غرض سے لندن جانا پڑا جہاں‌ ایک تھیٹر میں اسے معمولی کام مل گیا۔ اسی عرصہ میں شیکسپیئر کو لکھنے لکھانے کا شوق ہوا اور اس نے اداکاری بھی کی۔

    وہ پہلے چھوٹے موٹے کردار نبھاتا رہا اور پھر تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھنے لگا۔ اس کے قلم کے زور اور تخیل کی پرواز نے اسے 1594ء تک زبردست شہرت اور مقبولیت سے ہم کنار کردیا اور وہ لندن کے مشہور تھیٹر کا حصّہ بنا۔ اسی عرصے میں اس نے شاعری بھی شروع کردی اور آج اس کی تخلیقات انگریزی ادبِ عالیہ میں شمار کی جاتی ہیں۔

    انگلستان کے شعرا میں جو شہرت اور مقام و مرتبہ شیکسپیئر کو حاصل ہوا وہ بہت کم ادیبوں اور شاعروں‌ کو نصیب ہوتا ہے۔ اس برطانوی شاعر اور ڈراما نگار کی ادبی تخلیقات کا دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ ہملٹ اور میکبتھ جیسے ڈراموں کے اردو تراجم بہت مقبول ہوئے، اس کے علاوہ شیکسپیئر کی شاعری کا بھی اردو ترجمہ ہوا۔ اس نے طربیہ، المیہ، تاریخی اور رومانوی ہر قسم کے ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر پر بہت پذیرائی ملی۔ ان کے ڈراموں میں نظمیں بھی شامل ہوتی تھیں اور یہ اس مصنف اور شاعر کے طرزِ تحریر میں جدتِ اور انفرادیت کی ایک مثال ہے جس نے اس وقت پڑھنے اور ڈراما دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

    نقد و نظر کے ساتھ شیکسپیئر کے بارے میں بعض دل چسپ باتیں بھی سامنے آتی ہیں۔ مثلاً یہ امر تعجب خیز بھی ہے اور دل چسپ بھی کہ ولیم شیکسپیئر کی زندگی میں ان کے ڈراموں میں عورت کا کردار بھی مرد اداکار ہی نبھاتے رہے۔ اس کی وجہ جانتے ہیں۔

    اوتھیلو شیکسپیئر کا وہ مشہور کھیل ہے جس میں‌ ایک با وفا اور نہایت محبّت کرنے والی بیوی کا کردار بھی دکھایا گیا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس ڈرامے کو ضبطِ تحریر میں‌ آئے 60 سال بیت چکے تھے، جب پہلی مرتبہ اس ڈرامے میں بیوی کا کردار ایک خاتون نے نبھایا۔

    شیکسپیئر کی تخلیقات 1592 سے 1613 کے درمیانی عرصے کی ہیں جسے برطانیہ میں‌ جدید اسٹیج ڈراموں کا ابتدائی دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس وقت مرد فن کار ہی عورتوں کے روپ میں ان کے کردار نبھاتے نظر آتے تھے۔

    1660 میں شیکسپیئر کے ڈراموں کے شائقین نے پہلی مرتبہ کسی عورت کو اسٹیج پر اداکاری کرتے ہوئے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ اس زمانے میں غالباً برطانیہ میں فن کار اور عوام بھی اداکاری بالخصوص اسٹیج پرفارمنس کے لیے خواتین کو موزوں خیال نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا طبقہ ایسا تھا جن کے نزدیک سماج میں‌ عورتوں کا اسٹیج پر اداکاری کرنا معیوب تھا۔ ایسا نہیں‌ تھا کہ برطانیہ میں‌ خواتین کو اس فن سے وابستہ ہونے کی اجازت نہ تھی بلکہ دیگر ممالک میں‌ عورتیں‌ اداکاری اور رقص و موسیقی سے وابستہ تھیں اور شہرت رکھتی تھیں، لیکن وہاں بہتر سمجھا جاتا تھا کہ مرد ہی ہر ڈرامے میں عورت کا کردار نبھائیں۔ تاہم اس وقت برطانوی خواتین فن کاروں کے ملبوسات کی تیّاری، ان کے لیے بہروپ سازی کا سامان، ٹکٹ اور کھانے پینے کی اشیا بیچنے کا کام کرتی تھیں۔

    1899ء میں سارہ برن ہارٹ وہ اداکارہ تھیں جنہوں نے ہیملٹ کا مرکزی کردار نبھایا اور بعد کے برسوں میں‌ کئی برطانوی اداکاراؤں نے شیکسپیئر کے ڈراموں میں‌ کام کرکے نام کمایا۔

  • ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    آغا حشر کاشمیری ہندوستان کے نام وَر ڈراما نویس اور مترجم تھے جنھوں نے تھیٹر کے لیے طبع زاد کھیل اور عمدہ تراجم پیش کرکے ہندوستان بھر میں اس میڈیم کی مقبولیت میں‌ اضافہ کیا۔ ان کی کہانیاں شان دار اور مکالمے اتنے جان دار ہوتے تھے کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ وہ 28 اپریل 1935ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو ایک سے زائد مرتبہ پردے پر دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں شائقین تھیٹر کا رخ کرتے۔ اس زمانے میں تھیٹر اور اسٹیج ہر خاص و عام کی تفریح کا ذریعہ تھا اور اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر کے شائقین نے بے حد سراہا۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔ 1910 میں انھوں نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    آغا حشر کاشمیری اردو ڈرامے کی تاریخ میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان میں‌ اردو ڈراما نویسی، تراجم اور تھیٹر کی تاریخ پر بات کی جائے گی تو آغا حشر کاشمیری کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آغا حشر لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • عظیم ڈراما نویس اور شاعر شیکسپیئر کا تذکرہ

    عظیم ڈراما نویس اور شاعر شیکسپیئر کا تذکرہ

    23 اپریل 1616ء کو نام وَر شاعر اور ڈراما نگار ولیم شیکسپیئر نے اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا تھا۔ شیکسپیئر کو برطانیہ کا عظیم تخلیق کار مانا جاتا ہے جس نے عالمی سطح پذیرائی اور مقبولیت حاصل کی۔

    1564ء میں برطانیہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والا ولیم شیکسپیئر معمولی تعلیم یافتہ تھا۔ نوجوانی میں روزی کمانے کے لیے لندن چلا گیا اور وہاں ایک تھیٹر میں اسے معمولی کام مل گیا اور یہیں اس کے اندر لکھنے لکھانے کا شوق پیدا ہوا۔

    وہ پہلے چھوٹے موٹے کردار نبھاتا رہا اور پھر تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھنے لگا۔ اس کے قلم کے زور اور تخیل کی پرواز نے اسے 1594ء تک زبردست شہرت اور مقبولیت سے ہم کنار کردیا اور وہ لندن کے مشہور تھیٹر کا حصّہ بنا۔ اسی عرصے میں اس نے شاعری بھی شروع کردی اور آج اس کی تخلیقات انگریزی ادبِ عالیہ میں شمار کی جاتی ہیں۔

    انگلستان کے شعرا میں جو شہرت اور مقام و مرتبہ شیکسپیئر کو حاصل ہوا وہ بہت کم ادیبوں اور شاعروں‌ کو نصیب ہوتا ہے۔ اس برطانوی شاعر اور ڈراما نگار کی ادبی تخلیقات کا دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ ہملٹ اور میکبتھ جیسے ڈراموں کے اردو تراجم بہت مقبول ہوئے، اس کے علاوہ شیکسپیئر کی شاعری کا بھی اردو ترجمہ ہوا۔

    اس مصنّف نے طربیہ، المیہ، تاریخی اور رومانوی ہر قسم کے ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر پر بہت پذیرائی ملی۔ ان کے ڈراموں میں نظمیں بھی شامل ہوتی تھیں اور یہ اس مصنف اور شاعر کے طرزِ تحریر میں جدتِ اور انفرادیت کی ایک مثال ہے جس نے اس وقت پڑھنے اور ڈراما دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

  • برطانیہ: فلم "شیکسپیئر ان لوو”اسٹیج ڈرامے کی صورت میں مقبول

    برطانیہ: فلم "شیکسپیئر ان لوو”اسٹیج ڈرامے کی صورت میں مقبول

    شیکسپیئر پر بنی ہوئی فلم شیکسپیئر ان لوو اب اسٹیج ڈرامے کی صورت میں برطانیہ میں مقبول ہے۔

    یہ کہانی بہت پرانی ہے، رومیو اور جولیٹ پر داستان لکھتے لکھتے خود لکھاری کو محبت  ہوگئی تھی، ڈرامہ بناتے بناتے خود بھی وہ ایک کردار بن گیا، ایک ایسا کردار جس میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور جذبات کو لفظوں میں ڈھالنے کا ہنر بھی خوب آتا تھا۔

    یہ داستان ولیم شیکسپیئر کی ہے، دوسروں کی محبت کی کہانیاں لکھنے والے شیکسپیئر پر فلم شیکسپیئر ان لوو بن گئی، انیس سو اٹھانوے کی اس فلم کو اب برطانیہ میں اسٹیج ڈرامے کی صورت میں پیش کیا گیا تو مقبول عام ہوگیا۔

    فلم میں شیکسپیئر کا کردار اداکار جوزف  نے اور وائلا کا کردار گینیتھ پیلٹرو نے ادا کیا ہے، کامیڈی اور رومینس سے بھرپور اسٹیج ڈرامہ اب ہر خاص و عام کو محظوظ کررہاہے۔