Tag: صابن

  • صابن اور سینی ٹائزر سے خشک ہوجانے والے ہاتھوں کا کیسے خیال رکھا جائے؟

    صابن اور سینی ٹائزر سے خشک ہوجانے والے ہاتھوں کا کیسے خیال رکھا جائے؟

    کرونا وائرس سے بچنے کے لیے بار بار ہاتھوں کو دھونا اور سینی ٹائزر کے ذریعے انہیں جراثیم سے پاک رکھنا ضروری ہے، تاہم یہ عادت ایک اور مسئلے کو جنم دے رہی ہے۔

    بار بار ہاتھوں کو دھونے کی وجہ سے اکثر افراد ہاتھوں کی جلد خشک ہونے سے نہایت پریشان ہیں اور اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ کسی بڑی تکلیف کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صابن اور سینی ٹائزر کا اس قدر استعمال ہماری جلد کی قدرتی چکناہٹ کو ختم کر سکتا ہے لہٰذا ہمیں اپنے ہاتھوں کو موئسچرائز کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

    ضروری نہیں کہ ہر بار صابن یا سینی ٹائزر کے استعمال کے بعد موئسچرائزر استعمال کیا جائے تاہم دن میں کئی بار ہاتھوں کو موئسچرائز کیا جانا ضروری ہے۔

    ایسے افراد جن کی جلد نارمل ہے انہیں عام ہینڈ کریم یا لوشن استعمال کرلینا چاہیئے تاہم اگر کسی کی جلد قدرتی طور پر خشک یا حساس ہے تو حساس جلد کی پیشگی دیکھ بھال کے تحت ویزلین استعمال کریں۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں صابن اور سینی ٹائزر کی خصوصیات کو بھی مدنظر رکھیں۔ دو طرح کے صابن کو استعمال میں لائیں۔

    ایک کم کیمیائی اجزا والا جو جلد کو کم خشک کرتا ہے، ہر تھوڑی دیر بعد ہاتھ دھوتے ہوئے اسے استعمال کریں۔

    دوسرا زیادہ کیمیائی اجزا والا، یہ جلد سے قدرتی چکناہٹ کو ختم کر کے اسے خشک کردیتا ہے لہٰذا اس صابن کا استعمال کم سے کم کریں۔ یہ صابن اس وقت استعمال کریں جب باہر سے آئیں یا کسی آلودہ شے کو چھوئیں۔ علاوہ ازیں اسے دن میں 2 سے 3 بار سے زیادہ استعمال نہ کریں۔

    اسی طرح سینی ٹائزر بھی یہی خصوصیات رکھتے ہیں، الکوحل والا سینی ٹائزر جلد کو خشک کردیتا ہے اور بعض اوقات الرجی کا سبب بھی بن سکتا ہے لہٰذا اس کا استعمال کم کریں، بغیر الکوحل والا سینی ٹائزر جلد کو نسبتاً کم خشک کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھوں کے خشک ہونے کی وجہ سے صابن یا سینی ٹائزر کا استعمال ترک نہیں کیا جاسکتا لہٰذا انہیں باقاعدگی سے استعمال کریں، اس کے ساتھ ساتھ جلد کو نم رکھنے والی پروڈکٹس جیسے کریمز اور دیگر موئسچرائرز کا استعمال بھی بڑھا دیں۔

    علاوہ ازیں جلد نکھارنے والے گھریلو ٹوٹکے اپناتے ہوئے ہاتھوں کو نظر انداز نہ کریں اور چہرے کی طرح ہی ان کا خیال رکھیں۔

  • شام میں صابن بنانے کا روایتی اور دلچسپ طریقہ

    شام میں صابن بنانے کا روایتی اور دلچسپ طریقہ

    دنیا بھر میں روزمرہ کے عام استعمال کی اشیا کو تیار کرنے کے لیے نئی نئی مشینیں وجود میں آگئی ہیں تاہم شام میں صابن بنانے کے لیے ابھی بھی روایتی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے جو نہایت دلچسپ ہے۔

    شام کی سب سے بڑی صابن بنانے والی کمپنی سنہ 1945 سے صابن بنا رہی ہے۔ یہ صابن بنانے کے لیے صدیوں پرانا طریقہ استعمال کرتی ہے اور تاحال اسی طریقے پر قائم ہے۔

    سب سے پہلے صابن بنانے کے لیے زیتون کا تیل نکالا جاتا ہے۔ اس کے بعد تیل کو پانی اور تیز پات کے پتوں کے ساتھ ابالا جاتا ہے۔ ابالنے کا یہ عمل 3 دن تک جاری رہتا ہے۔

    اس کے بعد اس گرم آمیزے کو ایک کھلے کمرے میں مومی کاغذ پر پھیلا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے ٹھنڈا ہونے کے لیے ایک دن کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    اس کے بعد اسے کس طرح ٹکڑوں میں کاٹا جاتا ہے وہ آپ نیچے ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔

    بعد ازاں ایک ایک صابن پر کمپنی کا لوگو ہاتھ سے چھاپا جاتا ہے۔

    یہ شامی کمپنی جدید دور میں بھی اپنی روایات برقرار رکھے ہوئے اور یہی اس کی انفرادیت ہے۔

  • صابن کے استعمال شدہ ٹکڑے زندگیاں بچانے میں مددگار

    صابن کے استعمال شدہ ٹکڑے زندگیاں بچانے میں مددگار

    ہم اپنے گھروں میں استعمال شدہ صابن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو پھینک دینے کے عادی ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ بظاہر ناقابل استعمال صابن کے ٹکڑے لاکھوں زندگیاں بچا سکتے ہیں؟

    دنیا بھر میں اس وقت سالانہ 22 لاکھ اموات ایسی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن سے صرف درست طریقے سے ہاتھ دھونے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ان بیماریوں میں نزلہ، زکام، نمونیا، ہیپاٹائٹس، اور سانس کی بیماریاں شامل ہیں۔

    یہ 22 لاکھ اموات زیادہ تر ان پسماندہ ممالک میں ہوتی ہیں جہاں صحت و صفائی کی سہولیات کا فقدان اور بے انتہا غربت ہے۔ اس قدر غربت کہ یہ لوگ ایک صابن خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔

    مزید پڑھیں: مختلف اشیا کو پھینکنے کے بجائے مرمت کروانے پر فائدہ

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے چند امریکی نوجوانوں نے اس سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور ان مستحق افراد کو کم از کم صابن کی بنیادی سہولت فراہم کرنے کا سوچا۔

    اس کے لیے انہوں نے استعمال شدہ صابنوں کو کام میں لانے کا سوچا۔

    گھروں کے علاوہ دنیا بھر میں مختلف ہوٹل روزانہ 50 لاکھ کے قریب صابن کے استعمال شدہ ٹکڑے پھنیک دیتے ہیں۔ یہ گروپ انہی ٹکڑوں کو جمع کرتا ہے۔

    اس کے بعد ان ٹکڑوں کو پیسا جاتا ہے، انہیں سینیٹائزنگ یعنی صاف ستھرا کرنے کے عمل سے گزارا جاتا ہے، اور اس کے بعد انہیں نئے صابنوں کی شکل میں ڈھالا جاتا ہے۔

    استعمال شدہ صابنوں سے بنائی گئی ان نئی صابنوں کو مختلف پسماندہ علاقوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔

    اب تک جنوبی امریکی ملک ہونڈرس، گوئٹے مالا اور ہیٹی وغیرہ میں ہزاروں افراد کو یہ صابن فراہم کیا جاچکا ہے۔

    دنیا بھر میں 4000 ہوٹل اس کار خیر میں ان نوجوانوں کے ساتھ ہیں اور انہیں بچے ہوئے صابن کے ٹکڑے فراہم کر رہے ہیں۔

    اب جب بھی آپ اپنے گھر میں بچے ہوئے صابن کے ٹکڑوں کو پھینکنے لگیں، تو یاد رکھیں کہ صابن کا یہ بچا ہوا ٹکڑا لاکھوں لوگوں کی جان بچا سکتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • امریکا میں اینٹی بیکٹریل صابن پر پابندی

    امریکا میں اینٹی بیکٹریل صابن پر پابندی

    واشنگٹن : امریکا میں جراثیم کش یا اینٹی بیکٹریل صابنوں پر پابندی لگا دی گئی ہے، امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نامی سرکاری ادارے کی جانب سے جراثیم کش صابنوں میں انیس کیمیکلز کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنیاں یہ ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں کہ یہ کیمیکلز محفوظ اور جراثیم کو مارتے ہیں۔

    ایف ڈی اے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارے پاس ایسے سائنسی شواہد موجود نہیں کہ اینٹی بیکٹریل مصنوعات عام صابن اور پانی سے کسی بھی طرح بہتر ہیں، یہ کیمیکلز کافی عرصے سے اسکروٹنی کی زد میں تھے۔

    امریکا کی کلیننگ انڈسٹری کے ترجمان کے مطابق بیشتر کمپنیاں ممنوع قرار دیئے گئے 19 کیمیکلز کو اپنے صابنوں اور ہینڈ واشز سے نکال چکے ہیں۔

    ایف ڈی اے کا کہنا ہے کہ وہ کمپنیوں کو آج کل کے صابنوں میں استعمال ہونے والے تین دیگر کیمیکلز کے حوالے سے ڈیٹا فراہم کرنے کے لیے وقت فراہم کرے گا۔

    تاہم ادارے کے مطابق صارفین کا خیال ہے کہ جراثیم کش صابن جراثیموں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے زیادہ موثر ہیں، درحقیقت ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ طویل المعیاد نقصان پر یہ جراثیم کش اجزاء فائدے کی بجائے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ پاکستان میں بھی بیشتر کمپنیاں اس طرح کے جراثیم کش صابن تیار کرتی ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ جراثیموں کا مکمل خاتمے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ انکی قیمت بھی عام صابنوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہوتی ہے۔