Tag: صادقین

  • صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    شہرہ آفاق مصور اور خطاط صادقین کی یہ رباعی پڑھیے۔

    ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف
    ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
    بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
    ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف

    صادقین شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن۔ آج اس عجوبہ روزگار کی برسی ہے۔ صادقین نے 10 فروری 1987 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔

    صادقین کی وجہِ شہرت اسلامی خطاطی ہے جسے انھوں‌ نے نئی جہات سے روشناس کیا۔

    انھوں‌ نے قرآنی آیات اور اشعار کو انفرادیت اور نزاکتوں سے کینوس پر اتارا ہے۔

     

    سید صادقین احمد نقوی ان کا پورا نام تھا۔ 1930 میں امروہہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا خطاط تھے اور یہ خاندان اس فن کے لیے مشہور تھا۔

     

    ابتدائی تعلیم امروہہ میں‌ حاصل کی اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان آئے اور یہ خاندان کراچی میں‌ بس گیا۔

    کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    صادقین کے فن کو سراہنے اور آرٹ کے شعبے کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں‌ جہاں‌ انھیں‌ قومی اعزازات دیے گئے، وہیں‌ دنیا بھر میں‌ ان کے فن پاروں‌ کی نمائش کے ساتھ امریکا، یورپ سمیت کئی ملکوں‌ نے اپنے اعزازات ان کے نام کیے۔

    صادقین، سخی حسن قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • پہلی چورنگی پر لے چلو!

    پہلی چورنگی پر لے چلو!

    صادقین کی رہائش ناظم آباد کی پہلی چورنگی کے پاس اس جگہ تھی جہاں سے لالو کھیت کو سڑک جاتی ہے۔ چوراہے سے چند قدم کے فاصلے پر سبطین منزل واقع تھی جو صادقین کے والد محترم کے نام پر تھی۔

    ان دنوں میں ناظم آباد نمبر ایک میں رہتا تھا اور میرا گھر وہاں سے تھوڑا آگے تھا۔ ہم دونوں اکثر رات کو ایک ساتھ رکشے میں گھر جاتے۔ ہوتا یہ تھا کہ میں صادقین کو سبطین منزل کے پاس اتار کے خود آگے چلا جاتا۔ دو چار بار ایسا بھی ہوا کہ استاد (صادقین) مجھے اپنے گھر کے پاس ہی روک لیتا تھا کہ کچھ دیر باتیں کریں گے۔ ایسے میں، میں رکشے کو چھوڑ دیتا۔ سبطین منزل غالباً تین منزلہ عمارت تھی اور میں صادقین کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ کے دوسری منزل جایا کرتا تھا۔

    صادقین سے میری ملاقات کبھی کبھی ہوتی تھی۔ خاصا وقفہ بھی درمیان میں آجاتا تھا۔ خاص طور پر ایسے مواقع کم کم ملتے تھے جب ہم دونوں رات کو ایک ساتھ ناظم آباد جاتے۔ جب میں انھیں سبطین منزل چھوڑتا تو کئی بار مجھے بھی روک کر بیٹھنے کو کہا جاتا۔ اور پھر بس باتیں ہوتی تھیں، اِدھر کی، اُدھر کی۔ جوں ہی درمیان میں کہیں ذرا سا توقف ہوتا تو میں غنیمت جان کر جلدی سے کہتا۔
    ”استاد اب مجھے چلنا چاہیے۔“
    مگر جواب ملتا کہ ”اجی کیا جلدی ہے، لیجیے آپ کو ایک چیز دکھاتا ہوں۔“

    اس کے بعد کبھی کوئی مخطوطہ، کبھی کوئی خطاطی کا نمونہ، کبھی کوئی اسکیچ، کبھی کوئی خاکہ نکال کے اس تخت پر پھیلا دیا جاتا جس پر ہم بیٹھے ہوتے تھے۔

    رات کافی ہونے کی وجہ سے مجھے اٹھنے کی جلدی ہوتی تھی اور صادقین کا کہنا یہ ہوتا تھا:
    ”ساری قوم سورہی ہے، کم از کم ہم تو جاگتے رہیں۔“

    ایک رات تو بڑی دل چسپ بات ہوئی۔ ہفتوں کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ ادھر کچھ عرصے سے اس کا سینٹرل ہوٹل کی طرف آنا ہی نہیں ہوا تھا۔ ایک تو طبیعت سیلانی قسم کی تھی، کچھ موڈ بھی پل میں کچھ اور پل میں کچھ ہوتا تھا اور پھر جب کام کرنے کا جنون سوار ہوتا تو کہیں آنا جانا تو دور کی بات، کھانے پینے کا ہوش نہ رہتا تھا۔

    بہر صورت اس رات استاد کہیں سے گھومتا گھامتا آگیا اور آتے ہی بیٹھنے کی بجائے پوچھا:
    ”کیا ارادے ہیں؟چلنا ہے یا ابھی آوارہ گردی کرنی ہے؟“
    اتفاق سے میں اس وقت گھر کے لیے چلنے ہی والا تھا۔ اس لیے فوراً کہا:
    ”چلیے استاد چلتے ہیں۔“
    ہوٹل سے باہر نکل کے رکشا لیا اور چل دیے۔ جب رکشا ناظم آباد پہلی چورنگی کے پاس پہنچا تو میں نے ڈرائیور سے کہا:
    ”دائیں ہاتھ لے لو۔“

    میں نے اتنا کہا ہی تھا کہ صادقین نے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
    ”نہیں، سیدھا چلیے!“
    مجھے تعجب ہوا کہ آج یہ اپنے گھر کے بجائے کہاں جانے کا قصد ہے؟ وہ بھی اتنی رات گئے؟ میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو مسکراتے ہوئے میرے کندھے تھپکتے ہوئے کہا۔

    ”آج ہم پہلے آپ کو گھر چھوڑ کے آئیں گے۔“
    میرے لیے یہ نئی بات تو تھی مگر سوچا، استاد موڈ میں ہے، چلو یوں ہی سہی۔ وہاں سے ہمارے گھر تک پہنچنے کے لیے سڑکوں اور گلیوں میں تین چار بار دائیں بائیں مڑنا پڑتا تھا اور پھر ہمارا گھر آتا تھا، اس لیے میں رکشے والے کو راستہ بتاتا رہا۔ جب میرا گھر آگیا اور میں رکشے سے اترنے لگا تو استاد نے مجھے بازو سے پکڑ کر پوچھا۔
    ”آپ کہاں جارہے ہیں؟“
    میں نے جواب دیا۔
    ”میرا گھر آگیا ہے!“
    یہ سن کر انگلی سے عینک درست کرتے ہوئے بولا:
    ”مگر ہم گھر کیسے پہنچیں‌ گے؟ اس گلیارے کی بھول بھلیوں میں تو ہم بھٹک جائیں گے۔“

    اب کیا ہوسکتا تھا؟ میں دوبارہ رکشے پر سوار ہوگیا اور رکشے والے سے کہا۔
    ”پہلی چورنگی پر لے چلو۔“
    (ممتاز مصور اور خطاط صادقین سے متعلق معروف صحافی اور ادیب شفیع عقیل کی یادیں)

  • آرٹس کونسل کراچی میں بچوں کا شاندار لٹریچر فیسٹیول

    آرٹس کونسل کراچی میں بچوں کا شاندار لٹریچر فیسٹیول

    کراچی:  ساٹھویں چلڈرن لٹریچر فیسٹول کے دو روزہ پروگرام میں سے پہلے دن کا انعقاد نہایت کامیابی کے ساتھ عمل میں آیا جس میں بچوں اور بڑوں نے نہایت جوش و خروش سے حصّہ لیا۔

    فیسٹول کے لئے سجائے گئے تمام پنڈالوں کے نام مشہور ہیروز یا شخصیات کے نام پر رکھے گئے ہیں مثال کے طور پر بھٹ شاہ آڈیٹوریم‘ فہمیدہ ریاض کی بیٹھک‘حمیدہ کھوڑو کی بیٹھک‘باب ہنگول‘جمشید نصیروانجی میٹھا کورٹ یارڈ‘صادقین کی گلی‘سہیل رعنا آڈیٹوریم‘ انیتا غلام علی آڈیٹوریم‘حکیم سعید کا گہوارہ‘ پروفیسر عبدالسلام لیب اور برنس روڈ کا ڈھابا۔

    بیک وقت کئی سیشنوں سے فیسٹول کاآغاز ہوا جس کی وجہ سے شرکاء کے لئے اس بات کا تعین کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ وہ کس سیشن میں شریک ہوں اور کس سیشن کو چھوڑیں اسی وجہ سے بہت سے لوگ سیشن کے دوران ایک سیشن سے دوسرے سیشن کی طرف جاتے ہوئے نظر آئے تاکہ زیادہ سے زیادہ سیشنوں میں حصّہ لے سکیں۔

    فیسٹول کے پہلے دن بھٹائی آڈیٹوریم میں ایسے بچوں کی بھیڑ نظر آئے جو تھیٹر میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہاں ورکشاپ کا اہتمام دی اسپینسرز تھیڑ کے عاطف بدر کی جانب سے کیا گیا تھا۔تحریک نسواں نے کٹھ پتلی کا تماشہ پیش کرکے خوب داد وصول کی‘یہاں موسیقی‘ شاعری اور ڈرامے کے سیشن بھی منعقد ہوئے۔

    سہیل رانا آڈیٹوریم میں اوپن مائیک سیشن کے تحت ماہرین‘طلباء کے سوالوں کے جوابات دے رہے تھے۔اس کے بعد خالد انعم کی ہمراہی میں گانے بھی گائے گئے‘بعد ازاں نوجوان قوالوں نے قوالی پیش کرکے حاضرین سے خوب داد پائی۔

    جو بھی افتتاحی پروگرام اس آڈیٹوریم میں منعقد ہورہے تھے اس میں وزیر تعلیم و خواندگی تعلیم‘ ثقافت‘ سیاحت اور نوادرات سید سردار علی شاہ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔تلاوت کی پرفارمنس کے مظاہر ے کے دوران ہی 2011ء سے اب تک فیسٹول کے لئے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو اسپیشل سی ایل ایف آؤٹ اسٹینڈنگ سروس ایوارڈز پیش کئے گئے۔اسی آڈیٹوریم میں فلم اسکریننگ بھی کی گئی جس پر شرمین عبید چنائے اور شہر بانو سید نے اظہار خیال کیا۔

    حکیم سعید کے کمرے میں سارا دن جو سیشن ہوئے اس میں رومانہ حسین کی ٹام مور کے ساتھ ”سندھ کے بچوں کی تاریخ“کے حوالے سے اسٹوری ٹیلنگ‘ تھیڑ‘ ورکشاپس اور مباحثوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں کتاب اور سیکھنے کے جدید طریقوں پر بھی بات کی گئی۔

    انیتا غلام علی آڈیٹوریم میں کتابوں کی اجرائی تقریبات‘ ایک ڈرامے اور آرکیٹیکٹ مختار حسین کی سربراہی میں کراچی کی تاریخی عمارتوں پر مباحثوں کا سلسلہ جاری تھا۔

    فہمیدہ ریاض کی بیٹھک میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے فہمیدہ ریاض کے فن کے حوالے سے بات چیت کی گئی جنہوں نے بچوں کے ادب کے حوالے سے بہت زیادہ کام کیا ہے‘ علاوہ ازیں یہاں بک میکنگ کے حوالے سے پورے دن کی ورکشاپ بھی منعقد ہوئی۔

    ڈاکٹر حمیدہ کھوڑوکی بیٹھک میں ارسلان لاڑک کی جانب سے ایموشنل اور مینٹل ہیلتھ پر سیشن کا سلسلہ جاری تھا۔اسٹوری ٹیلنگ‘بچو ں کے لئے انٹریکٹو تفریحی کھیل‘ نوجوان مصنفوں کا فورم‘ریڈنگ امپرومنٹ پروگرام کا سیشن اور گدھوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں شعور اُجاگر کرنے سے متعلق پروگرام بھی دیکھنے میں آئے۔

    صادقین کی گلی میں آرٹ اینڈ کرافٹ کی ورکشاپ‘تھیم گیمز‘فوٹو بوتھ اور بچوں کی بک الیسٹریشن کی کی ایگزبیشن کی گئی۔

    باب ہنگول میں دن بھر ایک تھری ڈی آرٹ پرفارمیٹو انٹریکٹو ڈسپلے کیا جاتا رہا جبکہ عبدالسلام لیب میں ڈیجیٹل سرگرمیاں جاری تھیں۔نوجوان نسل کی تخلیقی سرگرمیوں کو اُجاگر کرنے کے لئے جمشیدنصیراونجی مہتہ کورٹ یادڑ میں کلے ماڈلنگ‘ ڈیجیٹل تھری ڈی سرگرمیاں‘پاپ اپ لرننگ‘مکلی پر ڈاکومنٹری اور ہونے والی دیگر سرگرمیاں‘ مینٹل ہیلتھ کیمپ‘ لرننگ اینڈ ریڈنگ کارنر ہوتے نظر آئے۔

    یاد رہے کہ سی ایل ایف یا چلڈرن لٹریچر فیسٹول ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو نہ صرف پاکستانی بچوں بلکہ اساتذہ کو بھی اپنی ذہانت بروئے کار لانے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔سی ایل ایف کا انتظام ادارہ تعلیم و آگاہی)آئی ٹی اے(کی جانب سے کیا گیا ہے۔یہ ملک بھر میں منعقد ہونے و الا ایک انتہائی بااثر فیسٹول ہے جس کی 2011ء میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک چاروں صوبوں کے دارلخلافہ اسلام آباد اور 25سے زائد اضلاع میں 59تقریبات منعقد ہوچکی ہیں جس سے تقریباً14لاکھ سے زائد بچے اور اساتذہ مستفید ہوچکے ہیں۔

  • ثقافت کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے: وزیرِ مملکت زرتاج گل

    ثقافت کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے: وزیرِ مملکت زرتاج گل

    لاہور: وزیرِ مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل وزیر نے کہا ہے کہ ثقافت کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کی خاتون رہنما اور وزیر زرتاج گل نے لاہور میوزیم میں پاکستان کے عظیم مصور صادقین کی 32 ویں برسی کے موقع پر ان کے فن پاروں کی نمائش کا افتتاح کیا۔

    [bs-quote quote=”صادقین کی خدمات کو تا دیر یاد رکھا جائے گا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”زرتاج گل”][/bs-quote]

    مشہور مصور، خطاط، نقاش اور شاعر صادقین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لاہور میوزیم میں محکمہ فن و ثقافت کے تحت ایک فنکشن کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں زرتاج گل نے بہ طورِ مہمان خصوصی شرکت کی۔

    صادقین کے فن پاروں کی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے وزیرِ مملکت زرتاج گل نے عجائب گھر کا بھی دورہ کیا اور نمائش میں رکھے گئے فن پارے دیکھے۔

    اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ مملکت نے کہا کہ ثقافت کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، ہم پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لیے سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں۔

    زرتاج گل وزیر نے کہا کہ ثقافت کے فروغ کے لیے صادقین کی خدمات کو تا دیر یاد رکھا جائے گا۔

    مزید پڑھیں:  پاکستان کےعظیم مصوراورخطاط صادقین کی 32 ویں برسی

    یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان کے مشہور پینٹر، خطاط، نقاش اور شاعر صادقین کی 32 ویں برسی منائی گئی، 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جب کہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوش خط تھے۔

  • صادقین: لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    صادقین: لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    آج پاکستان کے معروف خطاط، مصور اور شاعر صادقین کی سالگرہ ہے۔ فرانس کے آرٹ سرکلز میں پاکستانی پکاسو کے نام سے یاد کیے جانے والے صادقین نے پاکستان میں فن خطاطی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فن مصوری ادھورا ہے۔

    سنہ 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جبکہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوشخط تھے۔

    امروہہ میں ابتدائی تعلیم اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو صادقین اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آبسے۔

    صادقین بچپن ہی سے گھر کی دیواروں پر مختلف اقسام کی خطاطی و تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ ان کی تصاویر کی پہلی نمائش جس وقت منعقد ہوئی اس وقت ان کی عمر 24 برس تھی۔

    پاکستان کی فن مصوری اور خصوصاً فن خطاطی کو بام عروج پر پہنچانے والے مصور صادقین کا ذکر کرتے ہم شاعر صادقین کو بھول جاتے ہیں۔ وہ شاعر بھی اتنے ہی عظیم تھے جتنے مصور یا خطاط۔

    صادقین کے بھتیجے سلطان احمد نقوی جو کراچی میں مقیم ہیں، اور صادقین اکیڈمی کے امور کے نگران ہیں، بتاتے ہیں کہ صادقین کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    سلطان احمد کے مطابق صادقین 16 سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں صادقین کی اوائل نوجوانی کے ایام کی شاعری موجود ہے۔

    اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں

    اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

    اجسام میں اختلاف، میرے تیرے

    ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

    صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔ ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

    ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے، جبکہ ان کے پوتے سبطین نقوی نے بھی ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔


    صادقین کی خطاطی ۔ ضیا الحق کے دور کا جبر؟

    بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ صادقین کی خطاطی دراصل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کے دور کی ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اس دور میں صادقین کے اندر کا فنکار اسلامی خطاطی کے لبادے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔

    لیکن سلطان احمد اس خیال کو لوگوں کی لاعلمی قرار دیتے ہیں۔ ’صادقین پشت در پشت خطاط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو ان کے خون میں شامل تھی۔ انہوں نے اس فن میں نئی جہتوں کو روشناس کروایا۔ یہ کام جبر یا بے دلی سے نہیں ہوسکتا‘۔

    قرطاس پہ ہاں جلوے دکھاتا ہے یہ کون؟

    پردے میں مرے نقش بناتا ہے کون؟

    یہ سچ ہے کہ مو قلم گھماتا ہوں میں

    لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    سلطان احمد کا کہنا ہے کہ وہ خطاطی کا آغاز اور اس میں اپنا ارتقا بہت پہلے سے کر چکے تھے، ’اس وقت تو ضیا الحق کی حکومت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا‘۔

    فن مصوری و خطاطی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ خطاطی کا ارتقا 3 مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا مرحلہ صرف حروف یا سطور کو قلم بند کرنے کا تھا۔ اس کے بعد اسے سیاہ روشنائی سے مزین کیا گیا۔ تیسرا مرحلہ اس میں رنگوں کی آمیزش کا تھا اور اس کا سہرا بلاشبہ صادقین کے سر ہے۔

    19

    17

    16

    صادقین کی خطاطی کی ایک ندرت یہ بھی ہے کہ انہوں نے آیات کے ساتھ اس کی تصویری تشریح (السٹریشن) بھی پیش کی۔ یہ روایت صادقین نے شروع کی تھی اور اس سے فن خطاطی میں نئی جدت پیدا ہوئی۔ انہوں نے یہ کام اس لیے بھی کیا تاکہ قرآنی آیات کو سمجھنے میں آسانی ہو اور ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔

    ان کی خطاطی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے رسم الخط کو ملحوظ خاطر رکھتے خطاطی میں جدت پیش کی۔ نئے آنے والے خطاطوں نے جدت وانفرادیت کو پیش کرنے کے لیے حروف و الفاظ کی بنیادی شکل تبدیل کردی جس سے خطاطی کے روایتی اصول برقرار نہ رہ سکے۔ صادقین نے جدت کے ساتھ حروف اور الفاظ، اور خطاطی دونوں کے تقدس کو برقرار رکھا۔

    اگر یہ کہا جائے کہ خطاطی کو باقاعدہ فن کے طور پر متعارف کروانے، اور اسے آرٹ کے نصاب میں بطور مضمون شامل کروانے کا سہرا صادقین کے سر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔


    صادقین کی مصوری میں نمایاں حاشیے

    معروف فنکار انور مقصود کہتے ہیں کہ صادقین کی مصوری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہر فن پارے میں ’لکیر‘ نمایاں ہے۔ ’ایک مصور کی پینٹنگ میں پینٹ یا رنگوں کو نمایاں ہونا چاہیئے، لیکن صادقین کی لکیر ان کی پہچان ہے‘۔

    post1

    post2

    14

    صادقین وہ خوش نصیب مصور تھے جن کی مصوری ایک خاص طبقے سے نکل کر عام افراد تک پہنچی اور عوام نے بھی اس ہیرے کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا۔

    سنہ 1960 میں 30 برس کی عمر میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی برس انہیں فرانس کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ سنہ 1962 میں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس)، سنہ 1985 میں ستارہ امتیاز جبکہ آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ثقافتی ایوارڈ کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔

    صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔ ان کے فن کی نمائش کا سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

    انور مقصود کہتے ہیں، ’عجیب بات ہے کہ صادقین کا کام ان کی زندگی میں اتنا نہیں ہوا جتنا ان کی موت کے بعد ہوا۔ بے شمار لوگوں نے ان کے فن پاروں کی نقل بنا کر، یا پینٹنگز کو صادقین کے نام سے منسوب کر کے بیچا‘۔


    صادقین جس طرح کے منفرد فنکار تھے، اپنے فن کے بارے میں بھی وہ ایسے ہی منفرد خیالات رکھتے تھے۔

    ان کے بھتیجے سلطان احمد سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے یاد گزشتہ میں جھانکتے ہوئے بتایا، ’صادقین کہتے تھے، خدا کا شکر ادا کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور ہر شخص اس کے لیے اپنا طریقہ اپناتا ہے۔ میرا فن خدا کا اظہار تشکر کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘۔

    وہ مانتے تھے کہ ہر انسان میں موجود صلاحیت دراصل خدا کی نعمت ہے، اور اس نعمت کا اظہار کرنا اور اس کو بروئے کار لانا، اس صلاحیت کا احسان ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی صلاحیت کا استعمال نہیں کرتا، تو دراصل وہ کفران نعمت کرتا ہے۔

    گویا صادقین کے لیے ان کا فن ایک مقدس عمل، طریقہ عبادت اور شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔

    یہی وہ خیال تھا جس کی وجہ سے صادقین نے کبھی اپنا کام فروخت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بے شمار فن پارے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو تحفتاً دے دیے، مگر کبھی ان کی قیمت وصول نہیں کی۔ بقول خود ان کے، ان کا فن شکرانہ خدا ہے، برائے فروخت نہیں۔ کوئی اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتا۔

    اسی وجہ سے سنہ 1974 میں جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد، اور بعد ازاں ملکہ ایران فرح دیبا نے ان سے ذاتی حوالے سے کام کے لیے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔

    یہ خام نگاہی کا اڑاتی ہے مذاق

    ہاں ظل الہٰی کا اڑاتی ہے مذاق

    یہ میری برہنگی بھی جانے کیا ہے

    جو خلعت شاہی کا اڑاتی ہے مذاق


    صادقین کے فن پارے

    دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے معروف صادقین نے بے انتہا کام کیا اور لاتعداد فن پارے تخلیق کیے۔ انہوں نے اپنا پہلا میورل (قد آدم تصویر) کراچی ایئر پورٹ پر بنایا۔

    اس کے علاوہ جناح اسپتال کراچی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، فریئر ہال کراچی، پنجاب یونیورسٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دیواروں پر ان کے شاہکار میورل کنندہ ہیں۔

    10

    11

    پاکستان سے باہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ان کا ایک عظیم فن پارہ ’وقت کا خزانہ ۔ ٹریژر آف ٹائم‘ کے نام سے میورل کی شکل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں ثبت ہے جس میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین، اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقا کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

    1

    2

    یہ میورل سنہ 1961 میں تخلیق کیا گیا۔

    انہوں نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔

    18

    8

    صادقین نے فرانسیس مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دا آؤٹ سائیڈر‘ کی السٹریشن بھی پیش کی۔

    اپنے انتقال سے قبل صادقین کراچی کے فریئر ہال میں ایک میورل پر کام کر رہے تھے۔ وہاں موجود ارض و سماوات یعنی زمین و آسمان ان کا آخری منصوبہ تھا جو ادھورا رہ گیا۔

    3

    5

    6

    4

    7

    سنہ 1987 میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

    صادقین 10 فروری 1987 کو انتقال کر گئے۔ ان کی آخری آرام گاہ سخی حسن قبرستان میں واقع ہے۔

    آخر میں ان کی کچھ رباعیات جو ان کے متنوع خیالات اور انداز فکر کی عکاس ہیں۔ صادقین نے عشق مجازی، حسن و محبت، جلاد، مقتل، مذہب سب ہی کچھ اپنی رباعیات میں شامل کیا۔

    ہم اپنے ہی دل کا خون بہانے والے
    اک نقش محبت ہیں بنانے والے
    عشرت گہ زردار میں کھینچیں تصویر؟
    ہم کوچہ جاناں کے سجانے والے

    کب مسلک کفر میں ہے کچا کافر
    دیتا نہیں ایمان کا غچا کافر
    میری تو نظر میں ہے بہت ہی بہتر
    اک جھوٹے مسلمان سے سچا کافر

    یہ سایا ڈراؤنا ابھرتا کیوں ہے؟
    خونخوار ہے رہ رہ کر بپھرتا کیوں ہے؟
    تو کون ہے؟ پوچھا تو یہ آئی آواز:
    مجھ سے، میں تری روح ہوں ڈرتا کیوں ہے؟

    جاناں کے قدم چوم کے آ پہنچے ہیں
    ہم چاروں طرف گھوم کے آ پہنچے ہیں
    غائب ہے کدھر؟ ہم سر مقتل جلاد
    لہراتے ہوئے جھوم کے آ پہنچے ہیں

    ہم جنس سے اس حد کی رقابت کیوں تھی؟
    اور جنس مخالف پہ طبیعت کیوں تھی؟
    قابیل نے ہابیل کو مارا کیوں تھا؟
    اور آدم و حوا میں محبت کیوں تھی؟

    ہو ہی ابھی مقتل میں کہا تھا یارو!
    اک وار میں پھر خون بہا تھا یارو!
    سر میرا کٹ پڑا تھا، لیکن پھر بھی
    حق حق لب سے نکل رہا تھا یارو!

    میں کھینچ کے شہکار ہوں ننگا یارو
    لکھ کر خط گلزار ہوں ننگا یارو
    تم کونوں بچالوں ہی میں ہوتے ہو فقط
    اور میں سر بازار ہوں ننگا یارو


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • صادقین ۔ رباعی کا شاعر، خطاطی کا امام

    صادقین ۔ رباعی کا شاعر، خطاطی کا امام

    پاکستان کے معروف خطاط، مصور اور شاعر صادقین کو آج ہم سے بچھڑے 30 برس گزر گئے۔ فرانس کے آرٹ سرکلز میں پاکستانی پکاسو کے نام سے یاد کیے جانے والے صادقین نے پاکستان میں فن خطاطی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فن مصوری ادھورا ہے۔

    سنہ 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جبکہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوشخط تھے۔

    امروہہ میں ابتدائی تعلیم اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو صادقین اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آبسے۔

    صادقین بچپن ہی سے گھر کی دیواروں پر مختلف اقسام کی خطاطی و تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ ان کی تصاویر کی پہلی نمائش جس وقت منعقد ہوئی اس وقت ان کی عمر 24 برس تھی۔

    پاکستان کی فن مصوری اور خصوصاً فن خطاطی کو بام عروج پر پہنچانے والے مصور صادقین کا ذکر کرتے ہم شاعر صادقین کو بھول جاتے ہیں۔ وہ شاعر بھی اتنے ہی عظیم تھے جتنے مصور یا خطاط۔

    صادقین کے بھتیجے سلطان احمد نقوی جو کراچی میں مقیم ہیں، اور صادقین اکیڈمی کے امور کے نگران ہیں، بتاتے ہیں کہ صادقین کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    سلطان احمد کے مطابق صادقین 16 سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں صادقین کی اوائل نوجوانی کے ایام کی شاعری موجود ہے۔

    اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں

    اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

    اجسام میں اختلاف، میرے تیرے

    ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

    صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔ ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

    ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے، جبکہ ان کے پوتے سبطین نقوی نے بھی ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔


    صادقین کی خطاطی ۔ ضیا الحق کے دور کا جبر؟

    بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ صادقین کی خطاطی دراصل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کے دور کا ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اس دور میں صادقین کے اندر کا فنکار اسلامی خطاطی کے لبادے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔

    لیکن سلطان احمد اس خیال کو لوگوں کی لاعلمی قرار دیتے ہیں۔ ’صادقین پشت در پشت خطاط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو ان کے خون میں شامل تھی۔ انہوں نے اس فن میں نئی جہتوں کو روشناس کروایا۔ یہ کام جبر یا بے دلی سے نہیں ہوسکتا‘۔

    قرطاس پہ ہاں جلوے دکھاتا ہے یہ کون؟

    پردے میں مرے نقش بناتا ہے کون؟

    یہ سچ ہے کہ مو قلم گھماتا ہوں میں

    لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    سلطان احمد کا کہنا ہے کہ وہ خطاطی کا آغاز اور اس میں اپنا ارتقا بہت پہلے سے کر چکے تھے، ’اس وقت تو ضیا الحق کی حکومت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا‘۔

    فن مصوری و خطاطی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ خطاطی کا ارتقا 3 مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا مرحلہ صرف حروف یا سطور کو قلم بند کرنے کا تھا۔ اس کے بعد اسے سیاہ روشنائی سے مزین کیا گیا۔ تیسرا مرحلہ اس میں رنگوں کی آمیزش کا تھا اور اس کا سہرا بلاشبہ صادقین کے سر ہے۔

    صادقین کی خطاطی کی ایک ندرت یہ بھی ہے کہ انہوں نے آیات کے ساتھ اس کی تصویری تشریح (السٹریشن) بھی پیش کی۔ یہ روایت صادقین نے شروع کی تھی اور اس سے فن خطاطی میں نئی جدت پیدا ہوئی۔ انہوں نے یہ کام اس لیے بھی کیا تاکہ قرآنی آیات کو سمجھنے میں آسانی ہو اور ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔

    ان کی خطاطی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے رسم الخط کو ملحوظ خاطر رکھتے خطاطی میں جدت پیش کی۔ نئے آنے والے خطاطوں نے جدت وانفرادیت کو پیش کرنے کے لیے حروف و الفاظ کی بنیادی شکل تبدیل کردی جس سے خطاطی کے روایتی اصول برقرار نہ رہ سکے۔ صادقین نے جدت کے ساتھ حروف اور الفاظ، اور خطاطی دونوں کے تقدس کو برقرار رکھا۔

    اگر یہ کہا جائے کہ خطاطی کو باقاعدہ فن کے طور پر متعارف کروانے، اور اسے آرٹ کے نصاب میں بطور مضمون شامل کروانے کا سہرا صادقین کے سر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔


    صادقین کی مصوری میں نمایاں حاشیے

    معروف فنکار انور مقصود کہتے ہیں کہ صادقین کی مصوری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہر فن پارے میں ’لکیر‘ نمایاں ہے۔ ’ایک مصور کی پینٹنگ میں پینٹ یا رنگوں کو نمایاں ہونا چاہیئے، لیکن صادقین کی لکیر ان کی پہچان ہے۔

    صادقین وہ خوش نصیب مصور تھے جن کی مصوری ایک خاص طبقے سے نکل کر عام افراد تک پہنچی اور عوام نے بھی اس ہیرے کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا۔

    سنہ 1960 میں 30 برس کی عمر میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی برس انہیں فرانس کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ سنہ 1962 میں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس)، سنہ 1985 میں ستارہ امتیاز جبکہ آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ثقافتی ایوارڈ کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔

    صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔ ان کے فن کی نمائش کا سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

    انور مقصود کہتے ہیں، ’عجیب بات ہے کہ صادقین کا کام ان کی زندگی میں اتنا نہیں ہوا جتنا ان کی موت کے بعد ہوا۔ بے شمار لوگوں نے ان کے فن پاروں کی نقل بنا کر، یا پینٹنگز کو صادقین کے نام سے منسوب کر کے بیچا‘۔


    صادقین جس طرح کے منفرد فنکار تھے، اپنے فن کے بارے میں بھی وہ ایسے ہی منفرد خیالات رکھتے تھے۔

    ان کے بھتیجے سلطان احمد سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے یاد گزشتہ میں جھانکتے ہوئے بتایا، ’صادقین کہتے تھے، خدا کا شکر ادا کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور ہر شخص اس کے لیے اپنا طریقہ اپناتا ہے۔ میرا فن خدا کا اظہار تشکر کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘۔

    وہ مانتے تھے کہ ہر انسان میں موجود صلاحیت دراصل خدا کی نعمت ہے، اور اس نعمت کا اظہار کرنا اور اس کو بروئے کار لانا، اس صلاحیت کا احسان ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی صلاحیت کا استعمال نہیں کرتا، تو دراصل وہ کفران نعمت کرتا ہے۔

    گویا صادقین کے لیے ان کا فن ایک مقدس عمل، طریقہ عبادت اور شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔

    یہی وہ خیال تھا جس کی وجہ سے صادقین نے کبھی اپنا کام فروخت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بے شمار فن پارے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو تحفتاً دے دیے، مگر کبھی ان کی قیمت وصول نہیں کی۔ بقول خود ان کے، ان کا فن شکرانہ خدا ہے، برائے فروخت نہیں۔ کوئی اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتا۔

    اسی وجہ سے سنہ 1974 میں جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد، اور بعد ازاں ملکہ ایران فرح دیبا نے ان سے ذاتی حوالے سے کام کے لیے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔

    یہ خام نگاہی کا اڑاتی ہے مذاق

    ہاں ظل الہٰی کا اڑاتی ہے مذاق

    یہ میری برہنگی بھی جانے کیا ہے

    جو خلعت شاہی کا اڑاتی ہے مذاق


    صادقین کے فن پارے

    دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے معروف صادقین نے بے انتہا کام کیا اور لاتعداد فن پارے تخلیق کیے۔ انہوں نے اپنا پہلا میورل (قد آدم تصویر) کراچی ایئر پورٹ پر بنایا۔

    اس کے علاوہ جناح اسپتال کراچی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، فریئر ہال کراچی، پنجاب یونیورسٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دیواروں پر ان کے شاہکار میورل کنندہ ہیں۔

    پاکستان سے باہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ان کا ایک عظیم فن پارہ ’وقت کا خزانہ ۔ ٹریژر آف ٹائم‘ کے نام سے میورل کی شکل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں ثبت ہے جس میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین، اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقا کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

    یہ میورل سنہ 1961 میں تخلیق کیا گیا۔

    انہوں نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔

    صادقین نے فرانسیس مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دا آؤٹ سائیڈر‘ کی السٹریشن بھی پیش کی۔

    اپنے انتقال سے قبل صادقین کراچی کے فریئر ہال میں ایک میورل پر کام کر رہے تھے۔ وہاں موجود ارض و سماوات یعنی زمین و آسمان ان کا آخری منصوبہ تھا جو ادھورا رہ گیا۔

    سنہ 1987 میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

    صادقین 10 فروری 1987 کو انتقال کر گئے۔ ان کی آخری آرام گاہ سخی حسن قبرستان میں واقع ہے۔

    آخر میں ان کی کچھ رباعیات جو ان کے متنوع خیالات اور انداز فکر کی عکاس ہیں۔ صادقین نے عشق مجازی، حسن و محبت، جلاد، مقتل، مذہب سب ہی کچھ اپنی رباعیات میں شامل کیا۔

    ہم اپنے ہی دل کا خون بہانے والے
    اک نقش محبت ہیں بنانے والے
    عشرت گہ زردار میں کھینچیں تصویر؟
    ہم کوچہ جاناں کے سجانے والے

    کب مسلک کفر میں ہے کچا کافر
    دیتا نہیں ایمان کا غچا کافر
    میری تو نظر میں ہے بہت ہی بہتر
    اک جھوٹے مسلمان سے سچا کافر

    یہ سایا ڈراؤنا ابھرتا کیوں ہے؟
    خونخوار ہے رہ رہ کر بپھرتا کیوں ہے؟
    تو کون ہے؟ پوچھا تو یہ آئی آواز:
    مجھ سے، میں تری روح ہوں ڈرتا کیوں ہے؟

    جاناں کے قدم چوم کے آ پہنچے ہیں
    ہم چاروں طرف گھوم کے آ پہنچے ہیں
    غائب ہے کدھر؟ ہم سر مقتل جلاد
    لہراتے ہوئے جھوم کے آ پہنچے ہیں

    ہم جنس سے اس حد کی رقابت کیوں تھی؟
    اور جنس مخالف پہ طبیعت کیوں تھی؟
    قابیل نے ہابیل کو مارا کیوں تھا؟
    اور آدم و حوا میں محبت کیوں تھی؟

    ہو ہی ابھی مقتل میں کہا تھا یارو!
    اک وار میں پھر خون بہا تھا یارو!
    سر میرا کٹ پڑا تھا، لیکن پھر بھی
    حق حق لب سے نکل رہا تھا یارو!

    میں کھینچ کے شہکار ہوں ننگا یارو
    لکھ کر خط گلزار ہوں ننگا یارو
    تم کونوں بچالوں ہی میں ہوتے ہو فقط
    اور میں سر بازار ہوں ننگا یارو