Tag: صادقین کی برسی

  • مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری میں مہارتِ تامّہ اور اسلامی خطّاطی میں مجتہدانہ اسلوب کے ساتھ صادقین شہرۂ آفاق فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ ایسے فن کار تھے جن کی تخلیقات اور فن پاروں کو پرت در پرت سمجھنے کی کوشش میں معنی و مفاہیم کی ایک نئی دنیا دریافت ہوتی ہے۔

    آج اس عالمی شہرت یافتہ مصوّر، خطّاط اور نقّاش کا یومِ وفات ہے۔ 10 فروری 1987ء کو صادقین نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا تھا۔ امروہہ سے تعلق رکھنے والے اس باکمال مصوّر کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا۔ وہ 20 جون 1930ء کو پیدا ہوئے۔ 1943ء میں میٹرک اور بعد میں‌ انٹر کا امتحان بھی امروہہ سے پاس کیا۔ 1948ء میں‌ آگرہ یونی ورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔ اور اس کے ساتھ ہی ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔

    انھوں نے 1944 سے 46ء تک آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں امام المدارس انٹر کالج میں آرٹ ٹیچر کے طور پر تدریس کا فریضہ بھی انجام دینے لگے۔ اس وقت تک صادقین اپنے اساتذہ اور طالبِ علم ساتھیوں میں ایک مصوّر اور شاعر کے طور پر متعارف ہوچکے تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں‌ قیام کے بعد انھیں‌ نئے سرے سے زندگی کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ یہاں بھی جلد ہی وہ اپنی مصوّری اور خطّاطی کے حوالے سے پہچان بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں پر نقش و نگار بناتے اور اس پر ڈانٹ اور مار بھی کھائی، لیکن اپنے شوق کی دیواروں پر مشق کا یہ سلسلہ رائیگاں نہ گیا اور بعد کے برسوں میں‌ یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    پاکستان آنے کے بعد ان کی اصل شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انھوں نے کراچی ایئر پورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔ لاہور کے عجائب گھر کی چھت بھی صادقین کی لازوال مصوّری کا نمونہ ہے۔

    صادقین نے مصوّری اور خطاّطی دونوں‌ اصناف میں اپنے فن و کمال کے اظہار کی بالکل نئی راہ نکالی کی۔ رفتہ رفتہ لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہوتے چلے گئے۔ 1950ء کی دہائی کے وسط سے انفرادی نمائشوں کا سلسلہ شروع کیا اور ساٹھ کے عشرے میں صادقین کی شہرت مغرب تک پہنچ گئی۔ ان کا کام دنیا بھر میں فائن آرٹس کے ناقدین کی نظر میں‌ آیا اور انھیں خوب سراہا گیا۔ وہ پیرس بھی گئے جہاں اپنے فن پارے نمائش کے لیے پیش کیے اور ناقدین و شائقین سے داد وصول کی۔

    1969ء میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر صادقین نے کلامِ غالب کو مصورانہ کمال کے ساتھ نہایت خوب صورتی سے پیش کیا۔ یہ کسی مصّور کی پہلی اور نہایت خوب صورت کاوش تھی جس نے سبھی کی توجہ حاصل کی۔ 1970ء میں صادقین نے سورۂ رحمٰن کی آیات کو مصوّرانہ خطّاطی میں یوں نمایاں‌ کیا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    صادقین کے فن پاروں کی دنیا بھر میں‌ نمائش ہوئی۔ ان کی مصوّری اور خطّاطی کے نمونے آج بھی بڑی گیلریوں کا حصّہ ہیں۔ 1986ء میں انھوں نے کراچی کے جناح ہال کو اپنی مصوری سے آراستہ کرنے کا آغاز کیا تھا، لیکن اجل نے اسے پایۂ تکمیل کو پہنچانے کی مہلت نہ دی۔

    وہ ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن تھی۔ ان کی کئی رباعیاں مشہور ہوئیں اور صادقین نے اپنا کلام بھی مصوّرانہ انداز میں‌ کینوس پر اتارا۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے صادقین کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ یہ نابغۂ روزگار مصوّر کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔

  • نام وَر مصوّر اور عظیم خطّاط صادقین کا یومِ پیدائش

    نام وَر مصوّر اور عظیم خطّاط صادقین کا یومِ پیدائش

    شہرۂ آفاق مصوّر اور خطّاط صادقین شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن۔

    ہیں قاف سے خطّاطی میں پیدا اوصاف
    ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
    بن مقلّہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
    ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف

    صادقین کی یہ رباعی ان کے تخلیقی وفور اور ان کی فکرِ رسا کا خوب صورت اظہار ہے۔

    آج اس نادرِ روزگار شخصیت کا یومِ پیدائش ہے۔ سیّد صادقین احمد نقوی ان کا پورا نام تھا۔ وہ 30 جون 1930ء کو امروہہ کے علم پرور اور فنون میں‌ ممتاز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا خوش نویس اور ماہر خطّاط تھے۔

    صادقین نے بھی علم و فنون کا راستہ اپنایا جن کی وجہِ شہرت اسلامی خطّاطی ہے۔ انھوں نے اس فن کو نئی جہات سے روشناس کیا اور نام وَر ہوئے۔ صادقین نے قرآنی آیات کے علاوہ مشہور اشعار کو بھی اپنے منفرد انداز اور فنی نزاکتوں کے ساتھ کینوس پر اتارا۔

    صادقین نے ابتدائی تعلیم امروہہ سے حاصل کرنے کے بعد آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان آگیا اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔

    کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    اس فن کی دنیا میں صادقین کی خدمات کے اعتراف میں‌ جہاں‌ انھیں‌ قومی سطح پر اعزازات سے نوازا گیا، وہیں‌ دنیا بھر میں ان کے فن پاروں‌ کی نمائش بجائے خود ان کا ایک اعزاز اور پذیرائی تھی۔

  • شہرہ آفاق مصوّر اور خطاط صادقین کی برسی

    شہرہ آفاق مصوّر اور خطاط صادقین کی برسی

    آج شہرہ آفاق مصوّر، خطاط اور نقّاش صادقین کا یومِ وفات ہے، وہ 10 فروری 1987ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ امروہہ سے تعلق رکھنے والے اس باکمال مصوّر کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا جنھیں فن کی دنیا میں‌ صادقین کے نام سے دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔

    20 جون 1930ء کو پیدا ہونے والے صادقین 1948ء میں آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔ یہاں وہ اپنی مصوّری اور خطّاطی کے لیے پہچان بنانے لگے۔ ان کی اصل شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انھوں نے کراچی ایرپورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔

    کچھ عرصے کے بعد وہ پیرس چلے گئے جہاں اپنے فن کے نمونے پیش کیے اور ناقدین و شائقین سے داد وصول کی۔ انھوں نے اپنے فن پاروں پر کئی بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے۔

    1969ء میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر صادقین نے کلامِ غالب کو مصورانہ کمال کے ساتھ نہایت خوب صورتی سے پیش کیا۔ 1970ء میں صادقین نے سورۂ رحمٰن کی آیات کو مصورانہ خطاطی میں یوں نمایاں‌ کیا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ یوں انھوں نے اسلامی خطاطی میں ایک نئے طرز کی بنیاد ڈالی۔ لاہور کے عجائب گھر کی چھت بھی صادقین کی لازوال مصوّری کا نمونہ ہے۔

    کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    صادقین کے فن پاروں کی دنیا بھر میں‌ نمائش ہوئی اور ان کی مصوری اور خطاطی کے نمونے گیلریز کا حصّہ بنے۔ 1986ء میں کراچی کے جناح ہال کو اپنی مصوری سے آراستہ کرنے کا آغاز کیا تھا، لیکن ان کی اچانک موت کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔

    صادقین ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنف تھی۔ صادقین نے اپنی شاعری کو بھی مصورانہ انداز میں‌ پیش کیا ہے۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    شہرہ آفاق مصور اور خطاط صادقین کی یہ رباعی پڑھیے۔

    ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف
    ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
    بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
    ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف

    صادقین شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن۔ آج اس عجوبہ روزگار کی برسی ہے۔ صادقین نے 10 فروری 1987 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔

    صادقین کی وجہِ شہرت اسلامی خطاطی ہے جسے انھوں‌ نے نئی جہات سے روشناس کیا۔

    انھوں‌ نے قرآنی آیات اور اشعار کو انفرادیت اور نزاکتوں سے کینوس پر اتارا ہے۔

     

    سید صادقین احمد نقوی ان کا پورا نام تھا۔ 1930 میں امروہہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا خطاط تھے اور یہ خاندان اس فن کے لیے مشہور تھا۔

     

    ابتدائی تعلیم امروہہ میں‌ حاصل کی اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان آئے اور یہ خاندان کراچی میں‌ بس گیا۔

    کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    صادقین کے فن کو سراہنے اور آرٹ کے شعبے کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں‌ جہاں‌ انھیں‌ قومی اعزازات دیے گئے، وہیں‌ دنیا بھر میں‌ ان کے فن پاروں‌ کی نمائش کے ساتھ امریکا، یورپ سمیت کئی ملکوں‌ نے اپنے اعزازات ان کے نام کیے۔

    صادقین، سخی حسن قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • ثقافت کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے: وزیرِ مملکت زرتاج گل

    ثقافت کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے: وزیرِ مملکت زرتاج گل

    لاہور: وزیرِ مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل وزیر نے کہا ہے کہ ثقافت کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کی خاتون رہنما اور وزیر زرتاج گل نے لاہور میوزیم میں پاکستان کے عظیم مصور صادقین کی 32 ویں برسی کے موقع پر ان کے فن پاروں کی نمائش کا افتتاح کیا۔

    [bs-quote quote=”صادقین کی خدمات کو تا دیر یاد رکھا جائے گا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”زرتاج گل”][/bs-quote]

    مشہور مصور، خطاط، نقاش اور شاعر صادقین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لاہور میوزیم میں محکمہ فن و ثقافت کے تحت ایک فنکشن کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں زرتاج گل نے بہ طورِ مہمان خصوصی شرکت کی۔

    صادقین کے فن پاروں کی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے وزیرِ مملکت زرتاج گل نے عجائب گھر کا بھی دورہ کیا اور نمائش میں رکھے گئے فن پارے دیکھے۔

    اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ مملکت نے کہا کہ ثقافت کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، ہم پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لیے سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں۔

    زرتاج گل وزیر نے کہا کہ ثقافت کے فروغ کے لیے صادقین کی خدمات کو تا دیر یاد رکھا جائے گا۔

    مزید پڑھیں:  پاکستان کےعظیم مصوراورخطاط صادقین کی 32 ویں برسی

    یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان کے مشہور پینٹر، خطاط، نقاش اور شاعر صادقین کی 32 ویں برسی منائی گئی، 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جب کہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوش خط تھے۔