Tag: صادق ہدایت

  • صادق ہدایت:‌ عوامی زبان کو اعتبار بخشنے والا ادیب

    صادق ہدایت:‌ عوامی زبان کو اعتبار بخشنے والا ادیب

    فارسی ادب میں صادق ہدایت کا نام ایک مصنّف اور دانش ور کے طور پر بھی لیا جاتا ہے جن کا عہد جدید افسانے کا دوسرا اور اصل دور کہلاتا ہے۔ صداق ہدایت نے اسی زمانے میں افسانے کو جدید‌ خطوط پر استوار کیا اور فارسی ادب میں ممتاز ہوئے۔

    قدیم ایران کی تہذیب و ثقافت کے علاوہ اس ملک میں بادشاہت اور بعد میں انقلاب کا بھی مقامی ادب پر گہرا اثر ہوا، اور بہت سے اہل قلم نے نام و مقام پیدا کیا۔ مگر اس خطّے میں ادب اور صحافت کے ساتھ ہر اہلِ‌ قلم نے جرأتِ اظہار اور اپنی تصانیف کی وجہ سے طرح طرح کی مشکلات اور صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ ان ادوار میں‌ ادیب و شعرا کا آزادی سے کسی معاملے میں رائے دینا اور اظہار خیال کرنا مشکل تھا۔

    صادق ہدایت کو ایرانی ادب میں بیسویں صدی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ مقام و مرتبہ انھیں افسانوں کے مجموعے ’زندہ بگور‘ (1930)، اُس کے بعد ’سہ قطرۂ خوں‘ (1932) سایۂ روشن (1933)، وغ وغ ساباب، طویل کہانی علویہ خانم (1933) اور ناول بوفِ کور (1937) کی بدولت ملا۔

    جدید ایرانی ادب میں صادق ہدایت کا امتیازی وصف یہ رہا کہ انھوں‌ نے زبان بظاہر مزید سادہ اور صاف برتی لیکن وہ کہانی میں حقیقت پسندی اور تصوّرات کو اس طرح بہم کر دیتے ہیں کہ کہانی کی شکل ہی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ ذاتی زندگی کی بات کی جائے تو صادق کی شخصیت میں‌ یاسیت پسندی اور پژمردگی وقت کے ساتھ بڑھ گئی تھی اور اس کی جھلک ان کی تخلیقات میں بھی نظر آتی ہے۔ ان حالات کا شکار ہونے کے بعد صادق ہدایت نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ 4 اپریل 1951ء کو فرانس میں مقیم اس ادیب نے خود کشی کر لی تھی۔

    صادق ہدایت کو فارسی ادب میں پہلا باقاعدہ قنوطی تخلیق کار سمجھا جاتا ہے جو مایوسی اور ناامیدی پر مبنی افسانے لکھنے کے باوجود ایران میں بے حد مقبول تھے۔ انھیں فارسی ادب میں قنوطیت (Nihilism) کا بانی کہا جاتا ہے۔ صادق ہدایت کی کہانیاں انسانی زندگی کی بدنما حالت اور نفسیاتی کرب کا مجموعہ ہیں جن میں فلسفیانہ قسم کا اضطراب، ناامیدی، یاسیت اور حد درجہ مایوسی نظر آتی ہے۔ صادق ہدایت کے کم و بیش تمام ہی افسانوں کے مرکزی کرداروں کا انجام یا تو کسی نہ کسی حال میں موت پر ہوا یا وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو گئے۔

    بیسویں صدی کا پہلا نصف حصّہ عالمی سطح پر تمدّن کی شکست و ریخت کا زمانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں دو عالمی جنگوں نے انسانی آبادی اور اس سے وابستہ شعبوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ انسانی تہذیب اور ثقافت کو شدید نقصان ہوا اور دنیا بھر ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوگئے جس کی جھلکیاں اس زمانے کے ادب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ صادق ہدایت بھی اس سے متاثر ہوئے اور جدید فارسی ادب میں داستانوی حقیقت پسندی کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنے ناولوں اور افسانوں کا موضوع عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کو بنایا۔ انھوں نے زندگی کے تلخ حقائق کو الفاظ کا جامہ پہنایا۔

    وہ 1903ء میں تہران کے ایک متموّل گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے دارالفنون نامی ادارے سے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد فرانسیسی زبان سیکھی۔ 20 سال کی عمر میں اعلیٰ‌ تعلیم کے حصول کی غرض سے وہ فرانس چلے گئے جہاں پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھا اور اس کا گہرا اثر لیا۔ بعد میں وہ ایران لوٹے، مگر یہاں کے حالات دیکھ کر ہندوستان منتقل ہوگئے۔ وہ اپنا تخلیقی سفر شروع کرچکے تھے اور بمبئی میں قیام کے دوران صادق ہدایت نے اپنا ناول بوف کور (The Blind Owl) تحریر کیا۔ ان کی یہ کہانیاں ہندوستان، ایران ہی نہیں دنیا بھر میں‌ مشہور ہوئیں۔ صادق ہدایت نے ڈرامہ اور سفرنامے بھی لکھے۔

    صادق ہدایت نے اپنے دور کے عوام کے جذبات اور خیالات کی بھرپور ترجمانی کی اور اپنے عہد کے دوسرے ادیبوں سے اس لیے ممتاز ہوئے کہ انھوں نے عوامی زبان کو فارسی ادب کا حصّہ بنایا اور اسے اعتبار بخشا۔ صادق ہدایت کی تصانیف کی تعداد 30 سے زائد ہے اور یہ جدید ایرانی ادب کا حصّہ ہیں۔

  • روئے مردہ کی نقاشی

    روئے مردہ کی نقاشی

    "بوف کور” فارسی زبان میں لکھا گیا ناول ہے جس کے مصنف صادق ہدایت دنیائے فکشن کا ایک اہم نام ہیں۔ فارسی ادب میں صادق ہدایت کے زمانے کو جدید افسانے کا دوسرا اور اصل دور کہا جاتا ہے جو ایک مصنّف ہی نہیں دانش وَر کے طور پر بھی دنیا بھر میں پہچانے گئے۔

    صادق ہدایت کی کہانیاں انسانی زندگی کی بدنما حالت اور نفسیاتی کرب کا مجموعہ ہیں جن میں فلسفیانہ قسم کا اضطراب، ناامیدی، یاسیت اور حد درجہ مایوسی نظر آتی ہے۔ صادق ہدایت کے کم و بیش تمام ہی افسانوں کے مرکزی کرداروں کا انجام یا تو کسی نہ کسی حالت میں موت پر ہوا یا وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 1951ء میں صادق ہدایت نے بھی خود کشی کرلی تھی۔

    صادق ہدایت نے قیام یورپ کے دوران کئی افسانے لکھے۔ بعد میں وہ بمبئی منتقل ہوئے اور وہاں "بوف کور” جیسا مشہور ناول ان کے قلم سے نکلا۔ یہ ناول تہران کے اخبار روزنامہ ایران میں قسط وار اور بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ ناقدین کے مطابق یہ ناول اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک زندہ دستاویز اور فنی معیار کے لحاظ سے ایک مکمل شاہ کار ہے۔ اس کا شمار جدید فارسی کے ادبِ عالیہ میں ہوتا ہے۔ ان کے اس ناول کا اجمل کمال نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ یہاں ہم ناول "بوف کور” سے ایک سحر انگیز اقتباس پیش کررہے ہیں:

    ایسے موقعوں پر ہر کوئی اپنی زندگی کی کسی پختہ عادت میں یا اپنے کسی وہم میں پناہ لیتا ہے۔ شرابی شراب میں مست ہو جاتا ہے، لکھنے والا لکھنے میں، سنگ تراش، سنگ تراشی میں۔ اور ہر ایک اس بے چینی اور الجھن کو اپنے اپنے محرک کے وسیلے سے زندگی سے خارج کرتا ہے؛ ‘اور یہی موقعے ہوتے ہیں جب ایک سچا فن کار اپنے شاہکار کو وجود میں لا سکتا ہے۔’

    لیکن میں، بے ذوق اور بے بس، محض قلم دان کے ڈھکنوں کا نقاش۔ میں بھلا کیا کرسکتا تھا؟ ان معمولی، بھڑک دار اور بے روح تصویروں میں سے، جو سب ایک ہی شکل کی تھیں، میں کون سی تصویر بناتا کہ شاہ کار ہوتی؟

    پھر بھی مجھے اپنے تمام وجود میں ایک سرشاری اور حرارت محسوس ہو رہی تھی، ایک خاص طرح کا جوش اور ہلچل۔ میں چاہتا تھا کہ ان آنکھوں کو جو اب ہمیشہ کے واسطے بند ہوگئی تھیں، کاغذ پر اُتار کر اپنے پاس رکھ لوں۔۔۔ اس احساس نے مجھے اپنے خیال کو عمل کی صورت دینے پر اُکسایا۔ مجھ میں ایک عجیب طرح کی زندگی پیدا ہو گئی۔ اس وقت جب میں ایک لاش کے ساتھ محبوس تھا، اس خیال نے مجھ میں عجب نشاط پیدا کیا۔

    آخر میں نے دھواں دیتے چراغ کو گُل کیا اور دو شمع دان لا کر اس کے سرھانے روشن کر دیے۔ شمع کی لرزتی ہوئی روشنی میں اُس کا چہرہ اور پرسکون ہو گیا تھا اور کمرے کی دُھندلی روشنی میں وہ ایک پُر اسرار اور آسمانی کیفیت میں لگ رہی تھی۔ میں کاغذ اور نقاشی کا سامان لے کر اُس کے پلنگ کے پاس آیا۔۔۔ ہاں، یہ پلنگ اب اُس کا تھا۔ یہ صورت جسے آہستہ آہستہ گل کر نابود ہو جانا تھا، اور جو اس وقت بے حرکتی اور ٹھہراؤ کی کیفیت میں تھی، میں اس کے خطوط کو بہت آرام سے کاغذ پر اتار لینا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اُس کی صورت کے وہ خطوط چنوں جنھوں نے مجھے متاثر کیا تھا۔ میری نقاشی چاہے سادہ اور مختصر ہو لیکن مؤثر ہو اور روح رکھتی ہو۔

    میں اب تک قلمدانوں پر محض عادت کی بنا پر ایک سی تصویریں بنایا کرتا تھا۔ اب اپنی فکر کو کام میں لا کر مجھے اپنے خیال کو یعنی اس واہمے کو مجسم کرنا تھا، جس نے اُس کی صورت سے اٹھ کر مجھ پر اثر کیا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک نگاہ ڈال کر مجھے آنکھیں بند کر لینی تھیں اور اس کے منتخب نقوش کو کاغذ پر لانا تھا کہ اپنے ذہن کے وسیلے سے اپنی جکڑی ہوئی روح کے لیے تریاق پیدا کر سکوں۔

    آخر کار میں نے بے حرکت خطوط و اشکال کی دنیا میں پناہ لی۔

    روئے مردہ کی نقاشی۔۔۔ یہ موضوع میری مردہ نقاشی سے خاص مناسبت رکھتا تھا۔ اصل میں میں لاشوں ہی کا نقاش تھا۔ لیکن کیا اس کی آنکھوں کو، بند آنکھوں کو دوبارہ دیکھنا ضروری تھا ؟ کیا وہ ابھی تک میرے ذہن اور فکر میں کافی مجسم نہیں ہوئی تھیں؟ میں نہیں جانتا صبح تک کتنی بار میں نے اس کی تصویر بنائی لیکن کوئی بھی میرے جی کو نہ لگی۔ جو بھی تصویر بنائی، پھاڑ ڈالی۔ اس کام میں مجھے تھکن کا احساس ہوا اور نہ وقت کے گزرنے کا۔
    اندھیرا چھٹ رہا تھا۔ ایک گدلی سی روشنی کھڑکی کے شیشے میں سے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ میں جو تصویر بنانے میں منہمک تھا وہ مجھے پچھلی تمام تصویروں سے بہتر لگ رہی تھی۔ لیکن آنکھیں؟ وہ کسی نا قابل معافی گناہ پر سرزنش کرتی ہوئی آنکھیں میں کاغذ پر نہ اتار سکا۔۔۔ میرے ذہن سے ان آنکھوں کا وجود اور ان کی یاد بالکل مٹ چکی تھی۔ میری کوشش بیکار تھی۔ کتنا ہی اس کے چہرے پر نگاہ جماتا، ان آنکھوں کی کیفیت ذہن میں نہ آتی تھی۔

    اچانک اسی وقت میں نے دیکھا کہ اس کے رخساروں پر ہلکی سی سرخی آئی اور ہوتے ہوتے ان کا رنگ قصاب کی دکان پر لٹکے ہوئے گوشت کا سا ہو گیا۔ اس میں پھر سے جان پڑ رہی تھی۔۔ اس کی بے اندازہ گہری اور حیران آنکھیں جن میں زندگی کا تمام تر فروغ جمع ہو گیا تھا اور جو بیماری کی دھیمی روشنی سے چمک رہی تھیں، وہ سرزنش کرتی ہوئی آنکھیں بہت آہستہ آہستہ کھلیں اور میرے چہرے کی طرف اُٹھیں۔۔۔ پہلی بار اُس نے میری طرف توجہ کی، مجھ پر نگاہ ڈالی اور پھر اس کی آنکھیں مند گئیں۔ اس بات میں شاید ایک لمحے سے زیادہ نہیں لگا ہوگا، لیکن یہ عرصہ میرے لیے اُس کی آنکھوں کی کیفیت پانے کو کافی تھا تا کہ میں اُس کیفیت کو کاغذ پر اتار سکوں۔ میں نے مو قلم سے اُس کیفیت کو کاغذ پر نقش کیا اور اب کے میں نے تصویر کو نہیں پھاڑا۔۔!

  • صادق ہدایت: جدید فارسی ادب کا معتبر اور مقبول نام

    صادق ہدایت: جدید فارسی ادب کا معتبر اور مقبول نام

    ایران کی تہذیب و ثقافت کے علاوہ اس ملک کے شاہی ادوار اور یہاں انقلاب و سیاست نے بھی ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے، مگر خطّے میں ادب اور صحافت کوئی بھی میدان ہو اہلِ‌ قلم کو جرأتِ اظہار پر طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور وہ آزادی سے کسی معاملے میں رائے نہیں دے سکے۔ فارسی ادب میں صادق ہدایت کے زمانے کو جدید افسانے کا دوسرا اور اصل دور کہا جاتا ہے جو ایک مصنّف ہی نہیں دانش وَر کے طور پر بھی دنیا بھر میں پہچانے گئے۔

    صادق ہدایت ایرانی ادب کا وہ نام ہے جس نے افسانہ کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ صادق ہدایت کو بیسویں صدی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ مقام و مرتبہ انھیں افسانوں کے مجموعے ’زندہ بگور‘ (1930)، اُس کے بعد ’سہ قطرۂ خوں‘ (1932) سایۂ روشن (1933)، وغ وغ ساباب، طویل کہانی علویہ خانم (1933) اور ناول بوفِ کور (1937) کی بدولت ملا۔

    جدید ایرانی ادب میں صادق ہدایت کا امتیازی وصف یہ رہا کہ انھوں‌ نے زبان بظاہر مزید سادہ اور صاف برتی لیکن وہ کہانی میں حقیقت پسندی اور تصوّرات کو اس طرح بہم کردیتے ہیں کہ کہانی کی شکل ہی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ تاہم ان کی شخصیت اور قلم پر یاسیت پسندی اور پژمردگی حاوی رہی جس نے خود صادق ہدایت کو اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور کردیا۔ صادق ہدایت کی کہانیاں انسانی زندگی کی بدنما حالت اور نفسیاتی کرب کا مجموعہ ہیں جن میں فلسفیانہ قسم کا اضطراب، ناامیدی، یاسیت اور حد درجہ مایوسی نظر آتی ہے۔ صادق ہدایت کے کم و بیش تمام ہی افسانوں کے مرکزی کرداروں کا انجام یا تو کسی نہ کسی حال میں موت پر ہوا یا وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    1951ء میں آج ہی کے دن صادق ہدایت نے جو فرانس میں مقیم تھے، خود کشی کرلی تھی۔ صادق ہدایت کو فارسی ادب میں پہلا باقاعدہ قنوطی تخلیق کار سمجھا جاتا ہے جو مایوسی اور ناامیدی پر مبنی افسانے لکھنے کے باوجود ایران میں بے حد مقبول تھے۔ انھیں فارسی ادب میں قنوطیت (Nihilism) کا بانی کہا جاتا ہے۔

    بیسویں صدی کا پہلا نصف حصّہ عالمی سطح پر تمدّن کی شکست و ریخت کا زمانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں دو عالمی جنگوں نے انسانی آبادی اور اس سے وابستہ شعبوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ انسانی تہذیب اور ثقافت کو شدید نقصان ہوا اور دنیا بھر ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوگئے جس کی جھلکیاں اس زمانے کے ادب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ صادق ہدایت بھی اس سے متاثر ہوئے اور جدید فارسی ادب میں داستانوی حقیقت پسندی کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنے ناولوں اور افسانوں کا موضوع عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کو بنایا۔ انھوں نے زندگی کے تلخ حقائق کو الفاظ کا جامہ پہنایا۔

    صادق ہدایت 1903ء کو تہران کے ایک متموّل گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے دارالفنون نامی ادارے سے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد فرانسیسی زبان سیکھی۔ 20 سال کی عمر میں اعلیٰ‌ تعلیم کے حصول کی غرض سے وہ فرانس چلے گئے جہاں پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھا اور اس کا گہرا اثر لیا۔ بعد میں وہ ایران لوٹے، مگر یہاں کے حالات دیکھ کر ہندوستان منتقل ہوگئے۔ وہ اپنا تخلیقی سفر شروع کرچکے تھے اور بمبئی میں قیام کے دوران صادق ہدایت نے اپنا ناول بوف کور (The Blind Owl) تحریر کیا۔ ان کی یہ کہانیاں ہندوستان، ایران ہی نہیں دنیا بھر میں‌ مشہور ہوئیں۔ صادق ہدایت نے ڈرامہ اور سفرنامے بھی لکھے۔

    صادق ہدایت کی تصانیف کی تعداد 30 سے زائد ہے اور یہ جدید ایرانی ادب کا حصّہ ہیں۔ فارسی زبان میں افسانے کو ایک نیا آہنگ اور بلندی عطا کرنے صادق ہدایت نے اپنے دور کے عوام کی بھرپور ترجمانی کی لیکن وہ دوسرے ادیبوں سے اس لیے ممتاز اور نہایت مقبول ہیں کہ انھوں نے عوامی زبان کو فارسی ادب کا حصّہ بنا کر اعتبار بخشا اور ایران کے عام کرداروں کو پیش کر کے انھیں وقار اور اہمیت کا احساس دلایا۔

  • صادق ہدایت: ممتاز ایرانی ادیب کا تذکرہ جس نے خود کشی کرلی تھی

    صادق ہدایت: ممتاز ایرانی ادیب کا تذکرہ جس نے خود کشی کرلی تھی

    ایران میں سیاسی تبدیلیوں کے اثرات ادب پر بھی پڑے اور بادشاہت کا زمانہ رہا ہو یا اس کے بعد کی حکومت اور پھر انقلاب کا دور ہو، آزادیِ اظہار کے لیے ماحول سازگار نہیں رہا۔ فارسی ادب اور افسانہ بھی ان ادوار میں متاثر ہوتا رہا، لیکن صادق ہدایت کے زمانے کو جدید افسانے کا دوسرا اور اصل دور کہا جاسکتا ہے۔

    وہ مصنّف و مترجم ہی نہیں‌ ایک ایسے دانش وَر کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے جس نے ایرانی ادب میں جدید تکنیک متعارف کرائی۔ صادق ہدایت کو بیسویں صدی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ عظمت و مرتبہ اس کے افسانوں کے مجموعے ’زندہ بگور‘ (1930)، اُس کے بعد ’سہ قطرۂ خوں‘ (1932) سایۂ روشن (1933)، وغ وغ ساباب، طویل کہانی علویہ خانم (1933) اور ناول بوفِ کور (1937) کی بدولت ہے۔

    صادق ہدایت کی زبان بظاہر مزید سادہ اور واضح تھی لیکن وہ کہانی میں حقیقت پسندی اور تصوّرات کو اس طرح بہم کردیتا کہ کہانی کی شکل ہی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ اس کی کہانیاں انسانی زندگی کی بدنما حالت اور نفسیاتی کرب کا مجموعہ ہیں جن میں فلسفیانہ قسم کا اضطراب، ناامیدی، یاسیت اور حد درجہ مایوسی نظر آتی ہے۔ صادق ہدایت کے کم و بیش تمام ہی افسانوں کے مرکزی کرداروں کا انجام یا تو کسی نہ کسی حال میں موت پر ہوا یا وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    4 اپریل 1951ء کو ایران کے معروف تخلیق کار نے فرانس میں قیام کے دوران خود بھی اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ صادق ہدایت کو فارسی ادب میں پہلا باقاعدہ قنوطی تخلیق کار سمجھا جاتا ہے جو مایوسی اور ناامیدی پر مبنی افسانے لکھنے کے باوجود ایران میں بے حد مقبول ہوا۔ اسے فارسی ادب میں قنوطیت (Nihilism) کا بانی کہا جاتا ہے۔

    بیسویں صدی کا پہلا نصف حصّہ عالمی سطح پر تمدّن کی شکست و ریخت کا زمانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں دو عالمی جنگوں نے انسانی آبادی اور اس سے وابستہ شعبوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ انسانی تہذیب اور ثقافت کو شدید نقصان ہوا اور دنیا بھر ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوگئے جس کی جھلکیاں اس زمانے کے ادب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صادق ہدایت بھی اس سے متاثر ہوا اور جدید فارسی ادب میں داستانوی حقیقت پسندی کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنے ناولوں اور افسانوں کا موضوع عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کو بنایا۔ اس نے تلخ حقائق کو الفاظ کا جامہ پہنایا۔

    صادق ہدایت 1903ء کو تہران کے ایک متموّل گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس نے دارالفنون نامی ادارے سے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد فرانسیسی زبان سیکھی۔ 20 سال کی عمر میں اعلیٰ‌ تعلیم کے لیے فرانس چلا گیا جہاں پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے کا اسے موقع ملا۔ بعد میں ایران لوٹ آیا، مگر یہاں کے حالات نے مجبور کردیا کہ وہ ہندوستان منتقل ہوجائے۔ اس زمانے میں وہ اپنا تخلیقی سفر شروع کرچکا تھا اور بمبئی میں رہتے ہوئے صادق نے اپنا ناول بوف کور (The Blind Owl) تحریر کیا۔ اس کی کہانیوں کو دنیا بھر میں‌ شہرت ملی اور بعد میں صادق ہدایت نے ڈرامہ نویسی اور سفرنامے بھی رقم کیے۔

    ہدایت کی تصانیف کی تعداد 30 سے زائد ہے جو جدید ایرانی ادب میں منفرد اور ممتاز تخلیقات ہیں۔ ہدایت نے فارسی افسانے کو ایک نیا شعور اور مزاج دیتے ہوئے عوام کی ترجمانی کی اور ان کے لیے انہی کی زبان کو اپنایا۔