Tag: صحافت

  • مودی سرکار بھارت میں تسلط قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، سی این این

    مودی سرکار بھارت میں تسلط قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، سی این این

    بھارت میں صحافتی آزادی سنگین صورت حال کا شکار ہے، بھارتی غیر جانب دار صحافت اور آزاد میڈیا مودی سرکار کی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

    مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا کا کہنا ہے کہ مودی سرکار بھارت میں اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ سی این این کے مطابق مودی کے زیر اقتدار بھارت میں آزادی صحافت میں ایک واضح کمی آئی ہے۔

    بھارت 2023 میں رپورٹرز ودآوٴٹ بارڈرز (RSF) کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 161 ویں نمبر پر ہے، 2014 کے بعد مودی کے دور اقتدار میں بھارت 21 درجے تنزلی کا شکار ہو چکا ہے، سی این این کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2020 میں بھارتی صحافی صدیق کپن کو شفاف صحافت کے جرم میں گرفتار کیا گیا، صحافی صدیق کپن کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک دلت لڑکی کی مبینہ اجتماعی عصمت دری اور قتل کی تحقیقات کر رہا تھا۔

    بھارتی صحافی کی تحقیقات منظرعام پر آنے سے قبل ہی انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے قوانین کے تحت فرد جرم عائد کر دی گئی، بھارتی صحافی کو دو سال سے زائد عرصے کے لیے جیل میں رکھا گیا، بھارتی صحافی کپن کی گرفتاری کے بعد دیگر صحافیوں میں بھی خوف و ہراس پایا جانے لگا ہے، کمیٹی برائے تحفظ صحافت (CPJ) کے مطابق 2014 سے 2023 کے دوران 21 صحافیوں کو بے بنیاد گرفتار کیا گیا۔

    سی این این کے مطابق بھارتی صحافی رویش کمار کو بھی متعدد بار غیر جانب دار صحافت پر مودی اور بی جے پی کی جانب سے موت کی دھمکیاں دی گئیں، بھارتی میڈیا چینلز بھی مودی کے خوف و جبر کے زیر اثر ہیں، بھارتی میڈیا کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا کو بھی مودی کے زیر اقتدار شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے، 2023 میں مودی کے خلاف ڈاکومنٹری نشر کرنے پر بی بی سی انڈیا کی دفاتر پر بھی چھاپے مارے گئے۔

    الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹس کے مطابق 2022 میں آخری آزاد بچ جانے والے میڈیا چینل NDTV کو بھی مودی نے گوتم اڈانی کے ذریعے خرید لیا، مودی مخالف مواد نشر کرنے پر میڈیا اور صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، بھارت کے زیادہ تر چینلز مودی سرکار کے شدید دباوٴ کے باعث حکومت کا راگ الاپ رہی ہے۔

    واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز میں شائع کی گئی ہیومن رائٹس واچ رپورٹ کے مطابق اپریل 2024 میں بھارتی حکام نے آسٹریلوی صحافی آوانی ڈیاس کو بھی حالیہ انتخابات کی کوریج کرنے پر بھارت سے نکال دیا گیا، 2024 میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک نے بھی سخت پابندیوں کے باعث بھارت چھوڑ دیا، 30 ستمبر 2020 کو بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومتی جابرانہ ہتھکنڈوں سے تنگ آ کر بھارت میں اپنا دفتر بند کر دیا، آزاد صحافت پر قدغن لگا کر مودی سرکار بھارت کا اصل چہرہ دنیا سے چھپانا چاہتی ہے۔

  • آزادی صحافت کا عالمی دن: پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش

    آزادی صحافت کا عالمی دن: پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، سنہ 1992 سے 2020 تک دنیا بھر میں 13 سو 69 صحافی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔

    ورلڈ پریس فریڈم ڈے کا آغاز سنہ 1993 میں ہوا تھا جب اس دن کی باقاعدہ منظوری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دی تھی۔

    یہ دن منانے کا مقصد پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کے دوران صحافیوں اور صحافتی اداروں کو درپیش مشکلات، مسائل، دھمکی آمیز رویوں اور زندگیوں کو درپیش خطرات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔

    اس دن کے انعقاد کی ایک وجہ معاشرے کو یہ یاد دلانا بھی ہے کہ عوام کو حقائق پر مبنی خبریں فراہم کرنے کے لیے کتنے ہی صحافی اس دنیا سے چلے گئے اور کئی پس دیوار زنداں ہیں۔

    کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق سنہ 1992 سے 2020 تک 13 سو 69 صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سنہ 1994 سے اب تک دنیا بھر میں تقریباً 64 صحافی لاپتہ ہوچکے ہیں۔

    اپنے فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں زنداں میں قید کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد بھی کم نہیں، گزشتہ برس مختلف ممالک میں 250 صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔

    کمیٹی کے مطابق اس پیشے میں متاثر ہونے والے صحافیوں کی 75 فیصد تعداد وہ ہے جو جنگوں کے دوران اور جنگ زدہ علاقوں میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ صحافیوں کی 38 فیصد تعداد سیاسی مسائل کی کھوج (رپورٹنگ) کے دوران مختلف مسائل بشمول دھمکیوں، ہراسمنٹ اور حملوں کا سامنا کرتی ہے۔

    پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے اس کے باوجود ماضی میں اہل صحافت نے پابندیوں کے کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے ہیں۔ صحافت کی موجودہ آزادی کسی کی دی ہوئی نہیں بلکہ یہ صحافیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے عقوبت خانوں میں تشدد سہا، کوڑے کھائے اور پابند سلاسل رہے۔

    کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق صحافت پر سب سے زیادہ قدغن عائد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شمالی افریقی ملک اریٹیریا سرفہرست ہے، دیگر ممالک میں شمالی کوریا، ترکمانستان، ویت نام، ایران، بیلا روس اور کیوبا شامل ہیں۔

  • جامعہ کراچی کا شعبہ ابلاغِ عامہ اور پروفیسر شریفُ المجاہد

    جامعہ کراچی کا شعبہ ابلاغِ عامہ اور پروفیسر شریفُ المجاہد

    پروفیسر شریفُ المجاہد نے جامعہ کراچی میں صحافت کے شعبے کو منظم کیا اور اس میدان میں قدم رکھنے والوں کی راہ نمائی کی۔

    نام وَر ماہرِ تعلیم، مؤرخ اور صحافت کے استاد مدرس شریفُ المجاہد کا انتقال 27 جنوری کو ہوا۔ انھیں‌ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کا بانی کہا جاتا ہے۔

    انھوں نے تین نسلوں کی فکری تربیت کے ساتھ علم و آگاہی اور بالخصوص متعلقہ شعبے میں ان کی راہ نمائی کی۔ پاکستان میں شعبہ تعلیم کے لیے پروفیسر شریف المجاہد کی خدمات ایک روشن باب ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

    ایک نہایت قابل استاد، بہترین منتظم اور نسلِ نو کے لیے راہ نما کی حیثیت سے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پروفیسر شریف المجاہد ہندوستان اور پاکستان کے مختلف روزناموں اور جرائد کے شعبہ ادارت سے وابستہ رہے اور متعدد غیر ملکی اخبار اور جرائد کے لیے بطور نمائندہ خدمات انجام دیں۔

    وہ 1955 میں بحیثیت لیکچرار جامعہ کراچی سے وابستہ ہوئے تھے۔ امریکا سے جرنلزم کی ڈگری حاصل کرنے والے شریف المجاہد نے جامعہ کراچی میں شعبہ صحافت کو منظم کیا اور اسے ترقی دی۔

    متحدہ ہندوستان کی تاریخ، آزادی کی تحریک، قیامِ پاکستان کے لیے مسلمان اکابرین اور راہ نماؤں کی کوششیں اور قربانیاں ان کا خاص موضوع رہے۔

    انھوں نے 1945 میں مسلمانوں میں سیاسی بیداری کے لیے مضامین لکھنا شروع کیے اور اپنی فکر سے مسلمانوں کو بیدار کیا۔ 1976 میں قائدِ اعظم اکیڈمی کے بانی ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور ان کی متعدد تصانیف سامنے آئیں۔

    پروفیسر شریف المجاہد کی کتابوں اور مقالات کا عربی، فرانسسیی، پرتگیزی اور ہسپانوی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

  • صحافت کو طاقتور ادارہ بنانے کے لیے پالیسی لا رہے ہیں، فردوس عاشق اعوان

    صحافت کو طاقتور ادارہ بنانے کے لیے پالیسی لا رہے ہیں، فردوس عاشق اعوان

    اسلام آباد: معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ صحافت کو طاقتور ادارہ بنانے کے لیے میڈیا پالیسی لا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ صحافت ادارے کا روپ دھار چکی ہے جس نے تمام اداروں کو تقویت دینی ہے، صحافت کو طاقتور ادارہ بنانے کے لیے میڈیا پالیسی لا رہے ہیں۔

    معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ نیشنل میڈیا پالیسی صرف اشتہارات تک محدود نہیں ہوگی، صحافیوں، میڈیا ورکرز کے حقوق کو نیشنل میڈیا پالیسی میں تحفظ دیا جائے گا، ریاست،صحافت کو طاقت دینے کے لیے وزارت اطلاعات کردار ادا کرے گی۔

    ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ قوموں کی زندگی میں چیلنجز آتے ہیں، ملک میں اب بہتری کا سفر شروع ہوا ہے۔

    صحافیوں سے متعلق فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ ایسا روڈ میپ بنا رہے ہیں جس میں صحافیوں کے حقوق، فرائض میں توازن ہو، صحافیوں کے حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے، صحافی اپنے قلم سے معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں۔

  • کراچی پریس کلب انتخابات میں دی ڈیموکریٹس نے پھر میدان مار لیا

    کراچی پریس کلب انتخابات میں دی ڈیموکریٹس نے پھر میدان مار لیا

    کراچی: کراچی پریس کلب انتخابات میں دی ڈیموکریٹس نے ایک بار پھر میدان مار لیا، اے آر وائی نیوز کے ارمان صابر سیکریٹری کے پی سی منتخب ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی پریس کلب انتخابات میں دی ڈیموکریٹس نے ایک بار پھر میدان مار لیا، تاہم انتخابات میں صدر کی نشست پر مقابلہ برابر رہا، نتیجہ منجمد کر دیا گیا، کے پی سی الیکشن کمیٹی نے 6 جنوری تک حل نکالنے کا موقع دے دیا۔

    سعید سربازی نائب صدر، راجہ کامران خزانچی، اے آر وائی نیوز کے ارمان صابر سیکریٹری، ثاقب صغیر جوائنٹ سیکریٹری، عبد الجبار ناصر، عبد الوحید راجپر، زین علی، عتیق الرحمان، بینا قیوم، سعید لاشاری اور لیاقت مغل رکن گورننگ باڈی کی نشست پر منتخب ہو گئے ہیں۔

    کے پی سی الیکشن میں 1476 ممبران میں سے 1182 نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

    دی ڈیموکریٹس کے تمام نشستوں پر کھڑے امیدوار کام یاب ہوئے، دی یونائیٹڈ گروپ کا کوئی بھی امیدوار کام یاب نہ ہو سکا، جب کہ صدر کی نشست پر دی ڈیموکریٹس کے امیدوار امتیاز خان فاران اور دی یونائیٹڈ پینل کے احمد خان ملک کے درمیان کانٹے کا مقابلہ رہا، دونوں امیدواروں نے 579 ووٹ لیے اور مقابلہ ٹائی ہو گیا۔

    الیکشن کمیٹی کے مطابق دونوں گروپ کو ایک ہفتے میں کوئی نتیجہ نکالنے کی ہدایت کی گئی ہے اگر دونوں گروپ کسی فیصلے پر راضی نہیں ہوتے تو کراچی پریس کلب کے صدر کی نشست پر دوبارہ پولنگ کرائی جا سکتی ہے۔

  • بی بی سی کی گم راہ کن خبر پر پاکستان کا ردِ عمل، احتجاجی مراسلہ، خبر بے بنیاد قرار

    بی بی سی کی گم راہ کن خبر پر پاکستان کا ردِ عمل، احتجاجی مراسلہ، خبر بے بنیاد قرار

    اسلام آباد: بی بی سی کی گم راہ کن خبر پر پاکستان نے اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے برطانوی میڈیا ریگولیٹر آفس آف کمیونی کیشن میں احتجاجی مراسلہ جمع کرا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی براڈ کاسٹ ادارے کی گمراہ کن خبر پر پاکستان نے کہا ہے بی بی سی نے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بے بنیاد خبر دی ہے، برطانوی ادارہ خبر میں کیے دعوؤں پر کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا ہے۔

    پاکستان کی جانب سے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ خبر کے سلسلے میں تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی مؤقف کو نظر انداز کیا گیا، آئی ایس پی آر کے مؤقف دینے کی پیش کش کو بھی نظر انداز کیا گیا، بی بی سی کوتاہی تسلیم کر کے خبر ہٹائے، ورنہ قانونی کارروائی کا حق رکھتے ہیں۔

    دریں اثنا، وزارتِ اطلاعات نے 2 جون کی بی بی سی کی خبر پر انیس صفحات پر مشتمل ڈوزیئر بی بی سی کے حوالے کر دیا، ڈوزیئرمیں کہا گیا کہ دو جون کوشایع خبر صحافتی اقدار کے خلاف اور من گھڑت تھی، فریقین کا مؤقف نہیں لیا گیا جو ادارتی پالیسی کے خلاف ہے، بغیر ثبوت خبر شایع کر کے پاکستان کے خلاف سنگین الزام تراشی کی گئی، جانب داری کا مظاہرہ کیا گیا اور حقایق توڑ مروڑ کر پیش کیے گئے۔

    ڈوزیئر میں کہا گیا کہ ریاستی اداروں کے آپریشن کو دہشت گردی کے مساوی قرار دینا گم راہ کن ہے، برطانیہ میں پریس اتاشی یہ معاملہ آفس آف کمیونیکیشن اور بی بی سی سے اٹھائیں گے۔

    ڈوزئیر میں مزید کہا گیا کہ پاک فوج نے کبھی بھی عدنان رشید کے قتل کو تسلیم نہیں کیا، صحافی کی جانب داری اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے واضح ہے، صحافی نے پاکستان کے فضائی حملوں کا ذکر کیا، ڈرون حملوں کا نہیں، ٹونی بلیئر ماضی میں غلط خفیہ معلومات پر معافی مانگ چکے ہیں۔

    ڈوزئیر میں یہ بھی کہا گیا کہ بی بی سی کی جانب سے وزیرستان کے دورے کی خواہش تک نہیں کی گئی، بی بی سی نے ایسی ہی خبر یوکرائنی صدر کے خلاف بھی شایع کی تھی اور کرپشن کے سنگین الزام لگائے تھے جس پر اس کو معافی مانگنا اور ہر جانہ ادا کرنا پڑا تھا۔

  • آزادی صحافت کا عالمی دن: 27 سال میں 13 سو سے زائد صحافی جاں بحق

    آزادی صحافت کا عالمی دن: 27 سال میں 13 سو سے زائد صحافی جاں بحق

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1992 سے 2019 تک دنیا بھر میں 13 سو 40 صحافی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔

    ورلڈ پریس فریڈم ڈے کا آغاز سنہ 1993 میں ہوا تھا جب اس دن کی باقاعدہ منظوری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دی تھی۔

    یہ دن منانے کا مقصد پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کے دوران صحافیوں اور صحافتی اداروں کو درپیش مشکلات، مسائل، دھمکی آمیز رویوں اور زندگیوں کو درپیش خطرات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کرونا ہے۔

    اس دن کے انعقاد کی ایک وجہ معاشرے کو یہ یاد دلانا بھی ہے کہ عوام کو حقائق پر مبنی خبریں فراہم کرنے کے لیے کتنے ہی صحافی اس دنیا سے چلے گئے اور کئی پس دیوار زنداں ہیں۔

    کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق گزشتہ برس 2018 میں 59 صحافی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رواں برس کے صرف 5 ماہ کے دوران بھی 5 صحافی اپنی جانوں سے گئے۔

    کمیٹی کے مطابق سنہ 1992 سے 2019 تک 13 سو 40 صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سنہ 1994 سے اب تک دنیا بھر میں تقریباً 60 صحافی لاپتہ ہوچکے ہیں۔

    اپنے فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں زنداں میں قید کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد بھی کم نہیں، گزشتہ برس مختلف ممالک میں 251 صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔

    کمیٹی کے مطابق اس پیشے میں متاثر ہونے والے صحافیوں کی 75 فیصد تعداد وہ ہے جو جنگوں کے دوران اور جنگ زدہ علاقوں میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ صحافیوں کی 38 فیصد تعداد سیاسی مسائل کی کھوج (رپورٹنگ) کے دوران مختلف مسائل بشمول دھمکیوں، ہراسمنٹ اور حملوں کا سامنا کرتی ہے۔

    پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے اس کے باوجود ماضی میں اہل صحافت نے پابندیوں کے کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے ہیں۔ صحافت کی موجودہ آزادی کسی کی دی ہوئی نہیں بلکہ یہ صحافیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے عقوبت خانوں میں تشدد سہا، کوڑے کھائے اور پابند سلاسل رہے۔

    کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق صحافت پر سب سے زیادہ قدغن عائد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شمالی افریقی ملک اریٹیریا سرفہرست ہے، دیگر ممالک میں شمالی کوریا، ایتھوپیا، آذر بائیجان اور ایران شامل ہیں۔

  • مودی حکومت کا مقبوضہ کشمیر کے اخبارات کے خلاف کریک ڈاؤن

    مودی حکومت کا مقبوضہ کشمیر کے اخبارات کے خلاف کریک ڈاؤن

    سری نگر: نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کے بعد اب مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر سے چھپنے والے اخبارات کے خلاف بھی کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مودی سرکار کی پالیسیوں کے مطابق چلنے سے انکار کرنے والے کشمیری اخبارات کے اشہتارات بند کر دیے گئے ہیں، تاہم اخبارات نے مودی سرکار کے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا ہے۔

    دوسری طرف مقبوضہ کشمیر سے شایع ہونے والے اخبارات نے بھارتی جارحیت کے خلاف انوکھا احتجاج کرتے ہوئے صفحہ اوّل خالی چھوڑ دیا۔ متعدد مرکزی اخبارات کی جانب سے اس احتجاج نے عالمی میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔

    اخبارات کی جانب سے صفحہ اول خالی شایع کیے جانے سے مودی سرکار کا انتہا پسند چہرہ عالمی سطح پر ایک بار پھر بے نقاب ہو گیا ہے، جس سے مودی سرکار ایک بار پھر تنقید کی زد میں آ گئی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق 14 فروری کو پلوامہ حملے کے دو دن بعد ہی مودی سرکار نے آپے سے باہر ہو کر اخبارات کے خلاف ایکشن لینا شروع کر دیا تھا۔

    مودی سرکار کی جارحیت کے خلاف احتجاج کرنے والے اخبارات میں مقبوضہ کشمیر کی ترجمانی کرنے والے معروف اخبارات گریٹر کشمیر، کشمیر ریڈرز، کشمیر آبزرور اور کشمیر مانیٹر شامل ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  مقبوضہ کشمیر:‌ بھارتی ایجنسی نے میر واعظ عمر فاروق کو تفتیش کے لیے نئی دہلی طلب کرلیا

    مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ کی جانب سے مودی حکومت کی ایما پر اخبارات کے اشتہارات بند کیے جانے سے یہ اخبارات شدید مالی بحران کا شکار ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے انھیں اپنے صفحات بھی کم کرنے پڑے۔

    کٹھ پتلی انتظامیہ چاہتی ہے کہ اخبارات بھارتی فوج کے مظالم کا پردہ فاش نہ کریں، رپورٹرز کی ایک بین الاقوامی تنظیم کا کہنا تھا کہ حکام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کشمیری اخبارات پر اپنی رائے مسلط کرنے کے لیے انھیں ہراساں کریں۔

  • نواز شریف کے گارڈز کا کیمرا مین پر تشدد، ایک گارڈ گرفتار، دوسرا فرار

    نواز شریف کے گارڈز کا کیمرا مین پر تشدد، ایک گارڈ گرفتار، دوسرا فرار

    اسلام آباد: پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر نواز شریف کے اسکواڈ نے 2 کیمرا مینوں پر تشدد کیا، جس سے سما ٹی وی کا کیمرا مین بے ہوش ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی اجلاس کے بعد کوریج کرنے والے صحافیوں کو نواز شریف کے اسکواڈ نے دھکے دیے اور دو کیمرا مینوں پر تشدد کیا۔

    [bs-quote quote=”کیمرا مین کو زخمی کرنے والے نواز شریف کے گارڈ کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    فوٹیج بنانے پر نواز شریف کے گارڈز کے تشدد سے ہم نیوز اور سما نیوز کے کیمرا مین شدید زخمی ہو گئے، جنھیں اسپتال منتقل کر دیا گیا، جب کہ سما نیوز کا کیمرا مین بے ہوش ہو گیا، جسے اسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔

    بے ہوش ہونے والے کیمرا مین کا اسپتال میں معائنہ جاری ہے، معائنے کے بعد میڈیکل رپورٹ جاری کی جائے گی۔ دوسری طرف صحافیوں نے نواز شریف کے ایک گارڈ کو پکڑ لیا، جب کہ ایک گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو گیا۔

    کیمرا مین کو زخمی کرنے والے نواز شریف کے گارڈ کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے، تشدد کرنے والا گارڈ پارلیمنٹ کی سیکورٹی کی حراست میں تھا۔

    دریں اثنا کیمرا مینوں پر تشدد کے خلاف صحافیوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کیا، پارلیمنٹ کے گیٹ نمبر وَن پر صحافیوں نے دھرنا دیا، صحافیوں نے مطالبہ کیا کہ گارڈ کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

    ادھر قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران میڈیا نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا، اسپیکر قومی اسمبلی نے صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دیا۔

    کیمرا مینوں پر نواز شریف کے گارڈز کے تشدد کے واقعے پر حکومتی وزرا کی جانب سے مذمتی بیانات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت، سپریم کورٹ کی مہلت کا آخری روز


    وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ختم ہو گئی مگر مغلیہ سوچ ختم نہ ہوئی، میاں صاحب غریبوں کی اور بد دعائیں نہ لیں، کیمرا مین کے زخمی ہونے پر بھی میاں صاحب نے رکنے کی زحمت نہ کی، حکومت آزادیٔ اظہارِ رائے پر کامل یقین رکھتی ہے، میڈیا ورکرز کے ساتھ ہیں۔

    [bs-quote quote=”سیکورٹی گارڈ کے خلاف پرچے کے اندراج میں مدعی کون بنے گا؟” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″ author_name=”فواد چوہدری کا صحافیوں سے سوال” author_job=”ہم سب مدعی ہیں: صحافیوں کا جواب”][/bs-quote]

    فواد چوہدری نے صحافیوں سے سوال کیا کہ نواز شریف کے سیکورٹی گارڈ کے خلاف پرچے کے اندراج میں مدعی کون بنے گا، جس پر صحافیوں نے جواب دیا کہ ہم سب مدعی ہیں۔ فواد چوہدری نے صحافیوں سے کہا کہ آپ کے مطالبات جائز ہیں۔

    وزیرِ ریلوے شیخ رشید نے کہا ’نواز شریف کے گارڈز کے صحافیوں پر تشدد کی مذمت کرتا ہوں۔‘

    تحریکِ انصاف کے رہنما نعیم الحق نے کہا کہ نواز شریف کے گارڈز کے تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، میڈیا پر تشدد میں ملوث گارڈز کے خلاف سخت کارروائی ہو۔

    صحافی جو کہیں گے قبول ہوگا: مریم اورنگ زیب

    دوسری طرف مریم اورنگ زیب نے پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرنے والے صحافیوں سے ملاقات میں نواز شریف کے چیف سیکورٹی افسر کے خلاف مقدمے کے اندراج پر آمادگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ کیمرا مین کو تشدد کا نشانہ بنایا جانا انتہائی قابلِ مذمت ہے۔

    رہنما ن لیگ مریم اورنگ زیب نے کہا کہ صحافی جو کہیں گے ہمیں قبول ہوگا، مسلم لیگ (ن) صحافی برادری کے ساتھ ہے، میڈیا کے جو بھی مطالبات ہیں پورے کیے جائیں گے، آلات کیمرے وغیرہ کا نقصان ہوا ہو تو اسے پورا کیا جائے گا۔

    مریم اورنگ زیب نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر بھی درج کی جائے گی۔ دریں اثنا صحافیوں نے ن لیگ اور نواز شریف کے خلاف نعرے بازی کی۔

  • تین مئی ’ورلڈ پریس فریڈم ڈے ‘ آزادی صحافت کا عالمی دن

    تین مئی ’ورلڈ پریس فریڈم ڈے ‘ آزادی صحافت کا عالمی دن

    دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج تین مئی آزادی صحافت کے عالمی دن’ورلڈ پریس فریڈم ڈے ‘کے طور پر منایا جارہا ہے۔

    اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صحافتی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز،ریلیوں اور مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جاتاہے۔

    آزادی صحافت کا عالمی دن منانے کا مقصد پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کیلئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو درپیش مشکلات،مسائل،دھمکی آمیز رویہ،اور صحافیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔

    پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہےاس باوجود اہل صحافت نے پابندیوں کے کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے ہیں، پاکستان میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعایات وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا ہے۔

    اس دن کے منانے کا مقصد پریس فریڈم کے بنیادی اصولوں پر اعتماد کا اظہار اور تشہیر دنیا میں پریس فریڈم کی موجودہ صورتحال، آزادی صحافت پر حملوں سے بچائو اور صحافتی فرائض کے دوران قتل، زخمی یا متاثر ہونے والے صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے ۔

    دنیا بھر میں 3 مئی کو صحافتی آزادی کے حوالے سے منسوب کیا جاتا ہے، 1992 سے ابتک 84 صحافی اپنی پیشہ وارانہ زمہ داری انجام دیتے ہوئے جانوں کا نزرانہ پیش کر چکے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز بھی اس سفر کا حصہ ہے جس نے صحافتی آزادی کی خاطر اپنے چار ہونہار صحافیوں کو کھویا، اس سفر میں چینل بند بھی کیا گیا، قدغن بھی لگائی گئی مگراے آروائی نے سچ کا دامن نہیں چھوڑا اور ناظرین تک ہمیشہ سچ بلا سنسنی کے پہنچا یا۔

    واضح رہے کہ انیس سو ترانوے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے بعد دنیا بھر میں ہر سال تین مئی کو پریس فریڈم ڈے منایایا جاتا ہے ۔