Tag: صحافیوں پر تشدد

  • صحافیوں پر تشدد کرنیوالے اہلکاروں کیخلاف سخت ایکشن ہوگا، وزیر داخلہ سندھ

    صحافیوں پر تشدد کرنیوالے اہلکاروں کیخلاف سخت ایکشن ہوگا، وزیر داخلہ سندھ

    کراچی: وزیرداخلہ سندھ ضیا لنجار نے واضح طور پر کہا ہے کہ جن اہلکاروں نے صحافیوں پر تشدد کیا ہے ان کے خلاف سخت ایکشن ہوگا۔

    سندھ کے وزیرداخلہ نے پریس کلب، تین تلوار اور میٹرو پول پر مظاہروں سے متعلق اپنے بیان میں کہا کہ ان مظاہروں کے دوران صحافیوں، دیگر کے ساتھ پولیس کے ناروا سلوک پر تحقیقات کا حکم دیدیا ہے، جنھوں نے صحافیوں پر تششد کیا ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔

    ضیا لنجار نے کہا کہ کمشنرکراچی کی جانب سے دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا تھا، سول سوسائٹی اور مذہبی جماعت نے ایک ہی دن مظاہرے کی کال دی۔

    انھوں نے مزید کہا کہ ایک ہی دن مظاہروں کی کال کی وجہ سے تصادم کا خدشہ تھا، مظاہرین نے قانون کی خلاف ورزی کی۔

    وزیرداخلہ سندھ کا کہنا تھا کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر پولیس نے کچھ افراد کو حراست میں لیا، قانون ہاتھ میں لینے والوں کیخلاف سخت کارروائی ہوگی۔

  • صحافیوں پر تشدد: 12 دن گزرنے کے باوجود اسلام آباد پولیس مقدمہ درج نہ کر سکی

    صحافیوں پر تشدد: 12 دن گزرنے کے باوجود اسلام آباد پولیس مقدمہ درج نہ کر سکی

    اسلام آباد: ہائیکورٹ کے احاطے میں صحافیوں پر تشدد کے معاملے میں 12 دن گزرنے کے باوجود اسلام آباد پولیس مقدمہ درج نہیں کر سکی۔

    تفصیلات کے مطابق آج ہفتے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے صحافیوں پر تشدد کے مقدمے کے اندراج کی درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد پولیس نے عدالتی حکم پر واقعے سے متعلق حتمی رپورٹ جمع کرا دی، پولیس نے گزشتہ سماعت پر عبوری رپورٹ بغیر دستخط کے جمع کرائی تھی۔

    عدالت نے اسٹنٹ کمشنر اور ملوث اہل کاروں کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، اسلام آباد سیشن کورٹ میں جسٹس آف پیس نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں پولیس کی جانب سے صحافیوں پر تشدد کے واقعے کا مقدمہ تاحال درج نہیں کیا گیا ہے، جب کہ اس واقعے کو اب بارہ دن گزر چکے ہیں۔

    تشدد کے شکار صحافیوں کے وکیل زاہد آصف نے پولیس کی انکوائری رپورٹ پر عدالت میں شعر پڑھ دیا، انھوں نے کہا ’’وہی مدعی وہی منصف، ہمیں یقین تھا ہمارا ہی قصور نکلے گا۔‘‘ وکیل نے صحافیوں پر تشدد کی ویڈیو بھی عدالت میں پیش کر دی۔

    زاہد آصف نے عدالت کو بتایا کہ 28 فروری کو اسسٹنٹ کمشنر اور ملوث اہل کاروں کے خلاف مقدمہ اندراج کی درخواست دی گئی تھی، لیکن پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا، اس لیے عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ مقدمے کے اندراج کا حکم دیا جائے۔

    وکیل نے کہا کہ غیر قانونی طور پر صحافیوں کو صحافتی ذمہ داری ادا کرنے سے روکا گیا، انھوں نے کہا کہ ایف آئی آر کے بغیر انکوائری غیر قانونی ہے، انکوائری رپورٹ تو عدالت میں جمع کروا دی گئی ہے، لیکن جو رپورٹ جمع کروانی تھیں وہ کروائی ہی نہیں گئی، کیا کوئی شواہد پیش کیے گئے کہ ہائیکورٹ میں صحافیوں کے داخلے پر پابندی تھی؟ کیا اس کیس میں ان کیمرہ کارروائی کا کوئی حکم تھا؟

    وکیل نے بحث کرتے ہوئے کہا یہ کیسے ممکن ہے وہاں ڈیوٹی کرنے والے پولیس اہل کاروں کو ان صحافیوں کا علم نہیں تھا، یہ کہتے ہیں کہ صحافیوں کو مارا پیٹا نہیں گیا، ہم مار پیٹ کی آپ کو فوٹیج دکھا دیتے ہیں، اس ویڈیو میں دیکھ لیں کیا یہ زبردستی داخل ہوئے ہیں؟

    وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف ہائیکورٹ داخل ہونے پر مقدمہ درج کیا، جوڈیشل کمپلیکس کی دو ایف آئی آر درج ہوئی ہیں، لیکن صحافیوں کا کسی جماعت سے تعلق نہیں ہوتا، کسی سیاسی کارکن نے عدالت کے باہر کچھ کیا ہے تو ہمارا اس سے کیا تعلق ہے۔

    زاہد آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک طرف کہا گیا کہ اے سی عبداللہ کا اس کیس سے تعلق نہیں، جب کہ اے سی عبداللہ بیان دے رہا ہے کہ میری ڈیوٹی سیکیورٹی کو سپر وائز کرنے کے لیے تھی، اے سی عبداللہ اور پولیس کے بیانات میں تضاد ہے۔

    وکیل نے بحث کی کہ ایف آئی آر درج کیے بغیر کیسے تفتیش کی جا سکتی ہے، ایف آئی آر درج کرنے کے بعد تفتیش کا مرحلہ آتا ہے، ایف آئی آر درج کئے بغیر پولیس کو انکوائری کا اختیار ہی نہیں، اس لیے پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے۔

    سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اندراج مقدمہ میں نہ آتے تو ہم انکوائری نہ کرتے، گیٹ ون سے لوگ عمران خان کے ساتھ داخل ہوئے، ہائیکورٹ کا حکم تھا کہ گیٹ نمبر ون کوئی دوسرا استعمال نہیں کرے گا، ہم پہلے سے درج ایف آئی آر میں ان کا مؤقف لے لیتے ہیں، ایک وقوعے کی دوسری ایف آئی آر نہیں ہو سکتی، صغریٰ بی بی کیس بھی موجود ہے۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ غیر قانونی طور پر اندر داخل ہوئے تو پھر تو آپ صحافیوں کو بھی ملزم بنا لیتے؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ دیکھا جائے گا کہ ان کا جرم کیا بنتا ہے، عدالت نے کہا کہ بارہ دن ہو گئے ہیں یہ بات آپ نے اب تک طے کیوں نہیں کی؟

    وکیل زاہد آصف نے کہا کہ ایک جتھے کا ایک جگہ سے دوسری جگہ داخل ہونا تو مقدمہ ایک ہی بنتا ہے، صحافی اس جتھے کا حصہ ہی نہیں، پولیس نے ہائی کورٹ کے باہر واقعے کا مقدمہ درج کیا ہے، صحافی تو احاطہ عدالت کے اندر موجود تھے۔

    صحافی ثاقب بشیر نے عدالت میں بیان میں کہا کہ ہم نے قانونی رستہ اختیار کیا ہے ہمیں انصاف دیا جائے، اگر قانون ہمیں انصاف نہیں دیتا تو سمجھا جائے گا کہ آئندہ خود ہی اپنا بدلا لے لیں۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

    واضح رہے کہ عدالت نے ایس پی کمپلینٹ سیل اور ایس ایچ او تھانہ رمنا کو نوٹس جاری کر رکھا ہے، ہائیکورٹ کے احاطے میں صحافی ثاقب بشیر، ذیشان سید، ادریس عباسی اور شاہ خالد پر تشدد کیا گیا تھا ، اندراج مقدمہ کی درخواست صحافیوں کی کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صحافیوں پر تشدد کی مذمت

    اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صحافیوں پر تشدد کی مذمت

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پولیس اہل کاروں کی جانب سے صحافیوں پر تشدد کی مذمت کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں پر تشدد پر ہائی کورٹ بار نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ’’عمران خان کی پیشی کے موقع پر پولیس کی جانب سے صحافیوں اور وکلا کو روکنے اور تشدد کرنے پر شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔‘‘

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ بار حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی اور محکمانہ کارروائی کی جائے، اور آئندہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی پیشی کے دوران پولیس اہل کاروں نے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، پولیس نے اے آر وائی نیوز کے سینئر رپورٹر شاہ خالد خان سمیت کئی صحافیوں پر تشدد کیا۔

    اس سلسلے میں چیف جسٹس عامر فاروق نے آج آئی جی اسلام آباد، کمشنر اور ڈی سی اسلام آباد کو طلب کر لیا ہے۔

    پولیس نے جن صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ان میں اے آر وائی نیوز کے رپورٹر شاہ خالد خان، ایکسپریس نیوز کے رپورٹر ثاقب بشیر، اور نیو نیوز کے ذیشان سید شامل ہیں۔

  • وزیراعلیٰ پنجاب کا صحافیوں پر تشدد کا نوٹس : ملوث ایس ایچ او اور اہکار معطل

    وزیراعلیٰ پنجاب کا صحافیوں پر تشدد کا نوٹس : ملوث ایس ایچ او اور اہکار معطل

    لاہور : وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کی ہدایت پر صحافیوں پر تشدد میں ملوث ایس ایچ او اور اہکاروں کو معطل کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی نے کامونکی میں لانگ مارچ کی کوریچ کرنے والے اے آر وائی نیوز اور دیگرمیڈیا نمائندوں پر تشدد کے واقعہ ‏کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کرلی۔

    پرویز الہٰی نے ذمہ دارپولیس افسران کیخلاف کارروائی کا بھی حکم دیتے ہوئے کہا صحافیوں پر تشدد قابل قبول نہیں۔

    وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے نوٹس پر ایس ایچ او ‏تھانہ کامونکی سٹی منظر سعید اور تشدد میں ملوث اہلکاروں کو کو معطل کر دیا گیا۔

    وزیر اعلی پنجاب کا کہنا ہے کہ معطل ‏ایس ایچ او کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی جائے اور واقعہ کی تحقیقات ‏کرکے 48 گھنٹے میں رپورٹ پیش کی جائے۔

    دوسری جانب ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ نے صحافیوں پر تشدد جیسے واقعات کی پر زور مذمت کرتے ہوئے پولیس افسران کوہدایات دی ہیں آئندہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں۔

  • اسپیکر قومی اسمبلی نے ذاتی گارڈز پارلیمنٹ احاطے میں لانے پر پابندی لگا دی

    اسپیکر قومی اسمبلی نے ذاتی گارڈز پارلیمنٹ احاطے میں لانے پر پابندی لگا دی

    اسلام آباد: پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر کیمرا مین پر میاں نواز شریف کے گارڈز کے تشدد پر اسپیکر قومی اسمبلی نے فوری ایکشن لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے کوریج کے دوران کیمرا مین پر نواز شریف کے گارڈز کے تشدد کا فوری نوٹس لے لیا ہے۔

    [bs-quote quote=”سیکورٹی گارڈز کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کا حکم” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اسد قیصر نے تشدد میں ملوث نواز شریف کے سیکورٹی گارڈز کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

    اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آئندہ کوئی شخصیت اپنے ساتھ گارڈز پارلیمنٹ کے احاطے میں نہیں لاسکے گی، کوئی کتنا بھی بڑا لیڈر ہو سیکورٹی پارلیمنٹ سے باہر چھوڑ کر آئے۔

    اسپیکر قومی اسمبلی نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ ارکان کی حفاظت پارلیمنٹ کی سیکورٹی کرے گی۔


    یہ بھی پڑھیں:  نواز شریف کے گارڈ کے تشدد سے کیمرا مین بے ہوش: حکومت کی مذمت


    واضح رہے کہ آج پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر نواز شریف کے اسکواڈ نے 2 کیمرا مینوں پر بہیمانہ تشدد کیا، جس سے سما ٹی وی کا کیمرا مین بے ہوش ہو گیا۔ دوسرے کیمرہ مین کو بھی شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔

    بے ہوش کیمرا مین کا اسپتال میں معائنہ جاری ہے، معائنے کے بعد میڈیکل رپورٹ جاری کی جائے گی۔ دوسری طرف صحافیوں نے نواز شریف کے ایک گارڈ کو پکڑ لیا، جب کہ ایک گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو گیا۔

  • نواز شریف کے گارڈز کا کیمرا مین پر تشدد، ایک گارڈ گرفتار، دوسرا فرار

    نواز شریف کے گارڈز کا کیمرا مین پر تشدد، ایک گارڈ گرفتار، دوسرا فرار

    اسلام آباد: پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر نواز شریف کے اسکواڈ نے 2 کیمرا مینوں پر تشدد کیا، جس سے سما ٹی وی کا کیمرا مین بے ہوش ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی اجلاس کے بعد کوریج کرنے والے صحافیوں کو نواز شریف کے اسکواڈ نے دھکے دیے اور دو کیمرا مینوں پر تشدد کیا۔

    [bs-quote quote=”کیمرا مین کو زخمی کرنے والے نواز شریف کے گارڈ کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    فوٹیج بنانے پر نواز شریف کے گارڈز کے تشدد سے ہم نیوز اور سما نیوز کے کیمرا مین شدید زخمی ہو گئے، جنھیں اسپتال منتقل کر دیا گیا، جب کہ سما نیوز کا کیمرا مین بے ہوش ہو گیا، جسے اسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔

    بے ہوش ہونے والے کیمرا مین کا اسپتال میں معائنہ جاری ہے، معائنے کے بعد میڈیکل رپورٹ جاری کی جائے گی۔ دوسری طرف صحافیوں نے نواز شریف کے ایک گارڈ کو پکڑ لیا، جب کہ ایک گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو گیا۔

    کیمرا مین کو زخمی کرنے والے نواز شریف کے گارڈ کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے، تشدد کرنے والا گارڈ پارلیمنٹ کی سیکورٹی کی حراست میں تھا۔

    دریں اثنا کیمرا مینوں پر تشدد کے خلاف صحافیوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کیا، پارلیمنٹ کے گیٹ نمبر وَن پر صحافیوں نے دھرنا دیا، صحافیوں نے مطالبہ کیا کہ گارڈ کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

    ادھر قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران میڈیا نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا، اسپیکر قومی اسمبلی نے صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دیا۔

    کیمرا مینوں پر نواز شریف کے گارڈز کے تشدد کے واقعے پر حکومتی وزرا کی جانب سے مذمتی بیانات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت، سپریم کورٹ کی مہلت کا آخری روز


    وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ختم ہو گئی مگر مغلیہ سوچ ختم نہ ہوئی، میاں صاحب غریبوں کی اور بد دعائیں نہ لیں، کیمرا مین کے زخمی ہونے پر بھی میاں صاحب نے رکنے کی زحمت نہ کی، حکومت آزادیٔ اظہارِ رائے پر کامل یقین رکھتی ہے، میڈیا ورکرز کے ساتھ ہیں۔

    [bs-quote quote=”سیکورٹی گارڈ کے خلاف پرچے کے اندراج میں مدعی کون بنے گا؟” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″ author_name=”فواد چوہدری کا صحافیوں سے سوال” author_job=”ہم سب مدعی ہیں: صحافیوں کا جواب”][/bs-quote]

    فواد چوہدری نے صحافیوں سے سوال کیا کہ نواز شریف کے سیکورٹی گارڈ کے خلاف پرچے کے اندراج میں مدعی کون بنے گا، جس پر صحافیوں نے جواب دیا کہ ہم سب مدعی ہیں۔ فواد چوہدری نے صحافیوں سے کہا کہ آپ کے مطالبات جائز ہیں۔

    وزیرِ ریلوے شیخ رشید نے کہا ’نواز شریف کے گارڈز کے صحافیوں پر تشدد کی مذمت کرتا ہوں۔‘

    تحریکِ انصاف کے رہنما نعیم الحق نے کہا کہ نواز شریف کے گارڈز کے تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، میڈیا پر تشدد میں ملوث گارڈز کے خلاف سخت کارروائی ہو۔

    صحافی جو کہیں گے قبول ہوگا: مریم اورنگ زیب

    دوسری طرف مریم اورنگ زیب نے پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرنے والے صحافیوں سے ملاقات میں نواز شریف کے چیف سیکورٹی افسر کے خلاف مقدمے کے اندراج پر آمادگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ کیمرا مین کو تشدد کا نشانہ بنایا جانا انتہائی قابلِ مذمت ہے۔

    رہنما ن لیگ مریم اورنگ زیب نے کہا کہ صحافی جو کہیں گے ہمیں قبول ہوگا، مسلم لیگ (ن) صحافی برادری کے ساتھ ہے، میڈیا کے جو بھی مطالبات ہیں پورے کیے جائیں گے، آلات کیمرے وغیرہ کا نقصان ہوا ہو تو اسے پورا کیا جائے گا۔

    مریم اورنگ زیب نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر بھی درج کی جائے گی۔ دریں اثنا صحافیوں نے ن لیگ اور نواز شریف کے خلاف نعرے بازی کی۔

  • صحافیوں پر تشدد، پیپلزپارٹی کی پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش

    صحافیوں پر تشدد، پیپلزپارٹی کی پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش

    اسلام آباد:  دھرنے کی کوریج دینے والے صحافیوں پر تشدد کے خلاف پیپلز پارٹی نے پنجاب اسمبلی میں قرار داد جمع کرادی ۔

    اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے، سچائی پر مبنی دھرنوں کی صورت حال عوام تک پہنچانے کا صحافیوں کو بھی سزا ملی، صحافیوں کے حق میں پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے آواز بلند کی، پیپلز پارٹی نے صحافیوں پر تشدد کے خلاف اسمبلی میں قرارداد جمع کرادی ۔ ق

    رار داد کے متن میں پنجاب پولیس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پنجاب پولیس نے صحافیوں پر تشدد کیا ہے، صحافیوں پر تشدد کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

    قرار داد میں صحافیوں پر تشدد کے واقعہ کی تحقیقات کرنے اورذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرکے انہیں بے نقاب کرنےکا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر احمد سعید قاضی نے جمع کرائی، دھرنوں کی لائیو کوریج کی پاداش میں اے آروائی نیوز ، دنیا ٹی وی اور سماء نیوز چینل کے صحافیوں پر پولیس نے تشدد کیا۔